Raful Yadain ke Baray mein Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat

رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات

Sharing is Caring

رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات

رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ ہدیٰ کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئی ہیں لہذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتہاد کو باطل وغلط نہیں کہا۔
اور یہی حال ان مجتہدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتہادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتہاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں۔
رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات
1=احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
قوله إلا في سبع أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخرد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها
2 = مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ،
مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ،
 ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) المدونة الكبرى للإمام مالك ج 1ص 107 – دار الفكر بيروت 
امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں .
امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخیاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہےعلامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتہدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں۔
وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك ” الی ان قال ” والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخبداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی 

علامہ عبد الرحمن الجزيري نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے

 
المالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ‘ لعبد الرحمن الجزيري ‘ الجزء الاولكتاب الصلاة باب رفع اليدين
3 = شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے۔
 
قال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله ” سمع الله لمن حمده ” حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخكتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاةقال الشافعي ) وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو مأموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه .كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة
4 = حنابلہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے۔
مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه .كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاة۔
رفع یدین کے بارے میں اہلحدیث علماء کے آپس میں اختلافات

مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441 میں فرماتے ہیں کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلائل دونوں طرف ہیں۔اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونو مروی ہے. ( فتاوی نذیریہ جلد 1 صفحہ 444)

Ahle Hadees Ulama ke Apass mein iktilifat Fatawa Nazeer

مولانا ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)

اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)

Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Fatawa Sanaya 2

Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Fatawa Sanaya 1

نواب صدیق حسن خاں شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔۔”رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(روضہ الندیہ, صفحہ 148)

Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Alroza tun nadiya
اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
علامہ ابن تیمیہ فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پرلکھتے ہیں
 سوائ رفع او لم یرفع یدیہ لا یقدح ذلک فی صلاتہم ولا یبطلہا ، لا عند ابی حنیفۃ ولا الشافئی ، ولا مالک ولا احمد ، ولو رفع الامام دون الماموم او الماموم دون الامام لم یقدح ذلک فی صلاۃ واحد منہما ۔

یعنی اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا تب بھی کوئی نقص نہیں۔

Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Ibn e Timiyah
الشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم سعودی عرب فرماتے ہیں:
السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته اه
“تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئیے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔(مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)
Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Ibn e Baaz
نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة
“رفع الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے”(مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص 169) 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سجدوں کا رفع یدین 

سجدوں میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: 
غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع، سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول یہی ہے۔” ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131)
Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Albani
جب سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟ 
یہ وہی عبداللہ ابن عمر رضی اللہ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ 
سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا: علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں۔ ّ”امام احمد اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں، 
چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابن الاثیر امام احمد سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرم بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ یہ رفع یدین انس، ابن عمر، نافع، طاؤس، حسن بصری، ابن سیرین اور ایوب سختیانی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے”۔ ( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)
Ahle Hadees Ulama ke Apass mein Iktilifat Albani 2یہاں علامہ البانی رح نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔ غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور ست اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات