خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اوراصلاح
کے واسطے مراقبہ موت کا نسخہ استعمال کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
جب یہ مراقبہ صحیح ہو جائے گا تو غلطی سے بھی گناہ نہ ہوگا۔
(یعنی اللہ تعالی اس شخص کو جبکہ اس کی عمر کی میعاد ختم ہونے پر آ جاتی ہے ہرگز مہلت نہیں دیتے اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب کاموں کی پوری خبر ہے
کل کے وعظ میں جو آیت کریمہ تلاوت کی گئی تھیں یہ آیت اس کا تتمہ ہے۔ کل اس کا بیان بسطتاً ہوا تھا اس لئے آج اس کو پورا کیا جاتا ہے۔
اس آیت شریف میں ہمارے امراض کے علاج کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے، کل وعظ میں امراض کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ حاصل ان امراض کا یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اندر نافرمانی غالب ہے اور اس کی وجہ غفلت ہے اور ظاہر ہے کہ علاج بالضد(۱) ہوا کرتا ہے۔ اگر مرض سردی کی وجہ سے ہوتا ہے تو معالجہ گرمی سے کرتے ہیں اور اگر گرمی سے مرض ہو تو اس کا علاج سردی سے کیا جاتا ہے۔ غرض سبب کو زائل(۲) کیا جاتا ہے،
پس معالجہ کا حاصل ازالہ سبب ہوا (۳)۔
پس چونکہ ہمارے تمام امراض کی وجہ غفلت ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا علاج ذکر و فکر(۴) ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے اس جزو آیت میں موت اور بعد الموت(۵) کو یاد دلایا ہے جو ذکر و فکر کا ایک اہم و نفع بخش فرد(۶) ہے۔ سبحان اللہ کیا مختصر اور سہل تدبیر ہے کہ اس میں کچھ مجاہدہ و مشقت نہیں،کچھ خرچ نہیں۔ دنیا میں چھوٹے چھوٹے امراض کے لئے سینکڑوں روپے صرف ہو جاتے ہیں، اس میں کوئی مالی مشقت نہیں۔ کوئی بدنی تعب(۷) نہیں۔اس لئے کہ حاصل اس علاج کا موت اور ما بعد الموت کا یاد دلانا ہے کہ آدمی تھوڑی دیر بیٹھ کر سوچ لیا کرئے کہ مجھے مرنا ہے اور مر کر قبر میں
جانا ہے اور وہاں سانپ بچھو ہیں یا جنت کے باغ ہیں۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو قبر باغ ہے اور اگر برے ہیں تو سانپ بچھو ہیں اور پھر قبر سے اٹھنا ہے اور حساب کتاب کے لئے پیش ہونا ہے اور پل صراط پر چلنا ہے۔ اسی طرح تمام واقعاتِ قیامت کو تفصیلاً یاد کرلیا کرئے۔ فرمائیے اس میں کیا دشواری(۸) ہے کسی آمدنی میں خلل نہیں پڑتا۔ بڑا عذر یہ لوگ یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ ہم دنیا دار آدمی ہیں، ہم سے کیا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہن میں جما لیا ہے کہ دین بڑی مشکل شئے ہے اور اس میں بڑی مشقت ہے۔ یہی علاج جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے۔
(۱) اس کی ضد سے (۲) دور (۳) علاج کا حاصل سبب کو دور کرنا ہے (۴) یاد دہانی اور سوچ بچار (۵) موت اور اس کے بعد ہونے والے واقعات (۶) زیادہ فائدہ مند (۷) تھکاوٹ (۸) مشکل
بتلائیے اس میں کیا مشقت ہے کون سے کام میں حرج ہوتا ہے۔ بہت سی نفلیں نہیں پڑھوائی جاتیں، بہت سے وظیفے نہیں بتائے گئے اور منشاء دین(۱) کو بھاری اور مشقت کی چیز سمجھنے کا یہ ہوا کہ لوگوں نے دیکھا کہ ایک جماعت ایسی ہے کہ تسبیح ان کے ہاتھ میں ہے اور رات دن سوائے درود و دعا، ذکر و فکر، تلاوتِ قرآن شریف اور ذکر کی ضربوں کے ان کا کوئی کام نہیں۔ نہ وہ تجارت کرتے ہیں نہ وہ زراعت کے کام کے ہیں نہ وہ نوکری کر سکتے ہیں۔ سوائے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ان کو دنیا کا کوئی کام نہیں۔ اس سے وہ یہ سمجھے کہ دیندار ایسے ہی ہوتے ہیں اور جو ایسا نہ ہو وہ دیندار نہیں، لہٰذا ہم کیسے دیندار ہو سکتے ہیں، ہم تو تجارت، نوکری، زراعت وغیرہ میں مبتلا ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں دھندے(۲) ہم کو لگے ہوئے ہیں۔ ہم کس طرح خالی ہو کر ان کی طرح بیٹھ جائیں اور اس سے یہ نتیجہ ذہن میں جم گیا کہ دین بڑی مشکل شئے(۳) ہے اور ہم سے ہرگز اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔
مضاربت یہ ہے کہ مال ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی اور نفع میں دونوں شریک، لیکن اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نفع معین نہ کرئے، جیسے آج کل معین کر لیتے ہیں کہ دس روپے ماہوار لیا کریں گے، یہ جائز نہیں۔ بلکہ حصہ معین کرئے کہ مثلاً تین چوتھائی تیرا اور باقی ہمارا یا نصف نصف مثلاً اگر شارع(۹) چاہتے تو اس عقد کو حرام کر دیتے اور اس کے نفع کو سود میں داخل کر دیا جاتا لیکن بندوں کی ضرورت پر نظر کرکے اس کی اجازت دے دی۔ غرض کہ تجارت کرنے کی اجازت اور تجارت کرانے کی اجازت، اس سے زیادہ اور کیا سہولت ہو سکتی ہے۔
پس اگر کسی کے پاس سو روپے ہوں اور سال میں دس روپے نفع ہو تو کچھ بعید نہیں، تو اس میں سے اڑھائی روپیہ دے دینا کیا مشکل ہے، یہی سمجھ لیا جائے کہ ساڑھے سات روپیہ ہی نفع ہوا ہے۔ پھر مزید برآں و عدہ ہے، اولئک ھم المضعفون یعنی زکوٰۃ دینے والے اپنے مال کو دوگنا چوگنا کرنے والے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ دینے سے یہ مت سمجھو کہ مال کم ہوتا ہے بلکہ بڑھتا ہے اور یہ بڑھنا آخرت میں تو ہو گا ہی دنیا میں بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم جب سے عشر دینے لگے ہیں اس وقت سے ہمارے یہاں پیداوار زیادہ ہونے لگی ہے۔ اور دیکھئے ایک سرکاری قانون کی قدر اس لئے کرتے ہیں کہ تنخواہ میں سے کاٹ کر اور اس کا سود لگا کر بڑھا کر اس ملازم کو دیتی ہے، افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ باوجود اس کے کہ دوگنا چوگنا دے، اس کی قدر نہیں اور پھر بڑھنا دوگنے تک ہی نہیں بلکہ سات سو تک اور اس سے زیادہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔ چناچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی چھوہارہ صدقہ دیتا ہے تو حق تعالیٰ اس کو بڑھاتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ اُحد کے پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ دیکھئے اگر اُحد کے پہاڑ کے ٹکڑے ایک چھوہارے کے برابر کریں تو کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ اب بتلائیے کہ زکوٰۃ دینے سے کیا خسارہ ہوا۔ بعض لوگ کہیں گے کہ ہم تو گن کر روپے رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دینے کے بعد پھر گنتے ہیں تو کم ہو جاتا ہے، بڑھنا تو درکنار برابر بھی نہیں رہتا۔ بات یہ ہے کہ بڑھنے کی حقیقت اور غرض پر اگر نظر ہوتی تو یہ شبہہ ہی نہ ہوتا۔
(۱) دین کو بھاری اور مشقت کی چیز سمجھنے کی وجہ یہ ہے (۲) دنیا کے بہت سے کام ہم سے وابستہ ہیں (۳) چیز (۴) پسندیدہ اور مستحب ہیں (۵) جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کی بجا آوری کا نام دین ہے (۶) اور ضروری احکام جتنے ہیں وہ بہت آسان ہیں (۷) بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (۸) ایک طریقہ تجارت ہے کہ ایک شخص کا پیسہ ہو دوسرے کا کام (۹) اللہ تعالیٰ
حاصل یہ ہے کہ زکوٰۃ میں کچھ مشقت نہیں بلکہ ہر طرح سے سہولت اور نفع ہی ہے، دنیوی بھی اور اخروی بھی۔
علی ہذا حج میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ جس کے پاس اپنی حاجت اصلیہ سے زائد اس قدر خرچ ہو کہ مکہ معظمہ تک سواری میں چلا جائے اور چلا آئے اور سفر میں رہنے تک اہل و عیال کو خرچ دے جائے اس کے ذمے حج واجب ہے، مدینہ طیبہ اگر ہمت اور خرچ ہو تو جانا سنت ہے۔ آج کل لوگ اس غلطی میں ہیں کہ حج کے لئے مدینہ منورہ کا خرچ بھی لگاتے ہیں اور اگر مدینہ طیبہ کا خرچ نہ ہو تو حج کو فرض نہیں سمجھتے۔ یاد رکھو!
جس کے پاس مکہ معظمہ تک آنے جانے کا خرچ ہو اس کے ذمے حج واجب ہو جاتا ہے، مدینہ طیبہ جانا فرض نہیں۔ بتلائیے اس میں کیا خسارہ
(۱) ہے بلکہ بعض لوگوں کو اور نفع ہوجاتا ہے کہ تجارتی مال لے جاتے ہیں اگرچہ بلا ضرورت اولیت
(۲) کے خلاف ہے اور ایک نفع یہ ہے کہ تجربہ بڑھتا ہے۔ خصوصاً ترقی یافتہ حضرات تو اتنا بڑا نفع سمجھتے ہیں کہ اس کے واسطے ہزارہا روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ غرض سمجھ میں نہیں آتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی بھی حکم ایسا ہو جس میں مال اور جان کا ضرر
(۱) ہو۔ مال کا ضرر نہ ہونا تو میں ثابت ہی کر چکا ہوں اور جان کے متعلق ارشاد ہے
لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا یعنی اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زائد تکلیف نہیں دیتے ہیں۔ دیکھئے اگر نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر وضو نہ کرسکو پانی نقصان کرتا ہو تو تیمم سے پڑھ لو اور اگر پانی نقصان نہیں کرتا لیکن بیماری سے حرکت
نشست و برخاست
(۲) میں تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے سے التجا کرنا ضروری نہیں ہے۔ شریعت اس کو بھی معذور قرار دیتی ہے ہاں اپنا خادم اور
محکوم ہو تو اس سے وضو میں استعانت
(۳) ضروری ہے۔ اگر راستے میں ڈول رسی نہ ہو اور دوسرے سے مانگنے سے جی رکتا ہو تو امام ابوحنیفہؒ کے
نزدیک مانگنا واجب نہیں۔ وغیر ذالک من التسھیلات (اور اس کے علاوہ بہت سی سہولتیں ہیں)
(۱) نقصان (۲) خلاف اولیٰ ہے یعنی اچھا نہیں
(۴) سمجھتے ہیں، اصل یہ ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ شتر بے مہار کی طرح پھریں۔ ایسے مطلق العنان
(۵) لوگ دنیا میں بھی خوار اور ذلیل ہیں اور جو ظاہری عزت ان کو حاصل ہے اور لوگ ان سے ڈرتے ہیں، یہ ایسی ہے جیسے بھیڑیے اور شیر سے ڈرتے ہیں۔ اگر ابھی شیر یا بھیڑیا آجائے، سب اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ چناچہ پیٹھ پیچھے ان ہی لوگوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں، بخلاف ان لوگوں کے جو خداوند تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں کہ ان کی عزت سچی عزت ہے۔ ان کی تعظیم و تکریم لوگ دل سے کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے مدح و ثنا کرتے ہیں۔ یہ تو ان آزاد لوگوں کے لئے دنیا میں ہے اب آخرت کی نسبت سنئے، فرماتے ہیں۔ ذق انک انت العزیز الکریم۔ یعنی چکھ مزہ عذاب کا بے شک تو بڑا عزیز و مکرم ہے۔ یہ ابوجہل کو خطاب ہے، یہ وہاں عزت ہوگی۔ عزیز کریم بطور طعن و تہکم (استہزاء) کے فرمایا۔ سو لوگ ایسی مطلق العنانی کو جس میں دنیا اور دین دونوں میں رسوائی ہو پسند کرتے ہیں۔
(۱) نقصان (۲) اٹھنے بیٹھنے میں (۳) وضو کے لئے مدد لینا (۴) پھاڑ کھانے والی (۵) بالکل آزاد پھریں (۶) فائدہ (۷) یہ اس وقت کا ذکر ہے جب روپیہ چاندی کا ہوتا تھا اب نہیں ہے، بلکہ حنفیہ کے نزدیک مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے جس کا وزن ۲ تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے۔ اتنی چاندی کی قیمت کے برابر کم از کم مہر ہونا لازمی ہے
ایک شادی کے طریقے کو دیکھئے کہ شریعت نے اس میں اس قدر آسانی فرمائی ہے کہ کوئی قید نہیں لگائی۔ اس کا پابند نہیں فرمایا کہ مہر ہزار ہی روپے کا ہو، کم از کم مقدار پونے تین روپے مقرر فرما دی(۷) جس کو ادنیٰ استطاعت والا بھی ادا کرسکتا ہے روپیہ کی کچھ مقدار نہیں اور وہ بھی نکاح کے وقت دینا ضروری نہیں۔ جب ہو سکیں دیدو اور اگر عورت معاف کردے تو معاف بھی ہو جاتا ہے۔ نقد ایک پیسے کا بھی خرچ نہیں۔ چھوہارے اگر ہوں تو مستحب ہے، واجب فرض نہیں۔ بلکہ نکاح میں یہ برکت رکھی ہے کہ اس سے غنا حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کو سن کر یہ تعجب ہوگا کہ نکاح سے غنا کیسے حاصل ہوتا ہے، ہم تو اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ خرچ بڑھنے سے اور مصیبت ہو جاتی ہے۔
آج کل عورتیں حقیقت میں گھر کو کھوتی ہیں۔ بعض تو اپنے ماں باپ بھائیوں کو دیتی ہیں، بعض کپڑوں اور زیور میں روپیہ برباد کرتی ہیں اور جس قدر ان کو دیا جائے ان کی نظر میں کچھ اس کی قدر نہیں۔ کفرانِ عشیر(۳) گویا ان کا جزو ذات(۴) ہے۔ بقول مولوی عبد الرب صاحب مرحوم کہ عورتوں سے جب کبھی پوچھا جاتا ہے کہ تم کو کچھ کپڑوں کی ضرورت ہے یا کافی مقدار میں موجود ہیں تو یہی کہیں گی کہ میرے پاس کیا ہے دو چیتھڑے(۵) اور جب برتنوں کا ذکر آتا ہے تو کہتی ہیں کہ کیا ہیں دو ٹھیکرے(۶)، جوتے کی نسبت پوچھو تو کہتی ہیں کیا ہے دو لیترے(۷)۔ یہ نری قافیہ بندی نہیں حقیقت یہی ہے کہ اس فرقے کے اندر شکر گزاری مطلق نہیں، الا ماشاء اللہ اور شب و روز فضولیات میں لگی رہتی ہیں۔ اگر کوئی شے سامنے آ جاتی ہے اور پسند آ جائے تو اگرچہ ضرورت نہ بھی ہو مگر پھر بھی لے لیتی ہیں اور پوچھنے پر یہ جواب دیتی ہیں کہ گھر میں ہوئی چیز کبھی نہ کبھی کام آ جاتی ہے اور شادی بیاہ میں تو ایسا بے تکا روپیہ اڑاتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر پاس نہ ہو تو قرض لیتی ہیں خواہ سود ہی ملے اور مشہور یہ کر رکھا ہے کہ شادی اور تعمیر کا قرضہ ضرور ادا ہو جاتا ہے تو ایسی عورتوں کا تو ذکر نہیں۔ باقی اگر فضولیات سے باز آ جائیں اور انتظام سے چلیں تو وہ رونق ہو جاتی ہے کہ مرد دس روپے میں نہیں کرسکتا۔ تو دیکھئے شادی کرنے سے افلاس اسی طرح دور ہو جاتا ہے۔ بہرحال شادی میں تھوڑا سا خرچ ہوا اور اس کے بدلے گھر میں رونق ہو گئی لیکن شرط یہی ہے کہ سلیقے سے کام لیا جائے۔
شریعت کی سہولت تو آپ نے شادی کے بارے میں ملاحظہ فرمالی اب دیکھئے کہ بجائے شریعت کے جو قوائد آپ نے شادی کے اندر مقرر کئے ہیں ان سے کس قدر کلّف(۸) واقع ہوئی کہ شادی جس کو شریعت نے بہت ارزاں کیا تھا، آپ نے اس کو کس قدر گراں کردیا ہے کہ منگنی سے لے کر فراغت تک اس قدر بکھیڑے اور خرچ اس میں بڑھا دئے ہیں کہ جان کا شریعت میں کہیں پتہ نہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لڑکے لڑکیاں بڑی عمر تک کنوارے رہتے ہیں اور سنت نکاح سے محروم رہتے ہیں اور بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جنہوں نے قرض دام(۹) کرکے شادی کی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج گھر نیلام ہو رہا ہے، کل جائیداد بک رہی ہے۔ یہ سب نتائج شریعت کو چھوڑنے کے ہیں۔
یہ اثر کس چیز کا تھا صرف موت کے یاد رکھنے کا اور اس حیثیت سے طاعون کا ایک رحمت ہونا ثابت ہوتا ہے مگر بعض لوگ جہل سے طاعون کو ملعون اور بعض غایت جہل شئے ملاعون بالالف کہتے ہیں لیکن اوپر کی تقریر سے معلوم ہوگیا کہ طاعون خدا کی رحمت ہے۔ دعا تو یہی کرو کہ طاعون نہ ہو کیونکہ مصیبت ہے لیکن اگر ہو جائے تو اس کو برا بھی نہ کہو کہ ایک رحمت ہے اور اس میں کچھ منافات نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر شئے کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت۔ ظاہر صورت تو طاعون کی مصیبت ہے اس اعتبار سے تو دعا کا حکم ہے اور حقیقت اس کی رحمت ہے۔ اس کے اعتبار سے اس سے نہ بھاگنے کا حکم ہے۔ اب لوگ اس سے بھاگتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں اور برا کہتے ہیں۔ پریشانی کی کیا بات ہے مقدر میں جو کچھ ہوگا واقع ہو گا۔ ہم لوگوں کا تقدیر پر پورا اطمینان نہیں ہے ورنہ پریشانی بالکل نہ رہے۔ حضرت علیؓ جنگ صفین میں گھوڑے پر سوار تھے اور اسی حالت میں آپؓ سو رہے تھے، کسی نے کہا کہ ایسی حالت میں آپؓ اطمینان سے سو رہے ہیں۔ فرمایا کہ دو قسم کے دن ہیں ایک وہ جن میں موت لکھی ہوئی ہے ان میں ٹل نہیں سکتی پھر پریشانی کی کیا بات ہے۔ اللہ اکبر، کس قدر توکل ہے۔ دوسرا قصہ ان کے محقق ہونے کا بھی بیان کر دوں تاکہ کسی کو اس مسئلہ میں لغو اور غلط فہمی نہ ہو جائے۔
وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپؓ تقدیر پر ایمان لاتے ہیں۔ فرمایا کہ ہاں، اس نے کہا کہ تقدیر پر ایمان ہے تو اس دیوار سے کود پڑو اگر مقدر ہوگا تو زندہ رہو گے ورنہ نہیں فرمایا کہ مجھ کو اپنے مولا کے امتحان لینے کا کب حق حاصل ہے جو کچھ مقدر میں ہے ہوگا تو وہی لیکن حق تعالیٰ سے عافیت طلب کرنا چاہئے اور احتیاط رکھنا چاہئے۔ چنانچہ حدیث میں ہے۔ سلو اللّٰہ العافیتہ (اللہ تعالیٰ سے
عافیت کی درخواست کرو) پس نہ طاعون سے اس قدر گھبرانا چاہئے جیسے لوگ بھاگتے پھرتے ہیں کہ ایمان بالقدر(۱) کے منافی ہے اور نہ مقام طاعون میں بے ضرورت گھسنا چاہئے بلکہ مشروع احتیاط(۲) و دعائے عافیت کرنا چاہئے۔ الحاصل جس طرح طاعون کے زمانے میں تمام لذات سے دل برداشت ہو جاتا ہے اسی طرح ہر زمانے میں موت کے ذکر سے تمام لذات سے دل سرد ہو جائے گا اور گناہ چھوٹ جائیں گے اور شہادت کا مرتبہ ملے گا وہ مزید براں۔ اور راز، شہادت کے ملنے میں یہ ہے کہ شہید پر تو ایک ہی مرتبہ تلوار چلی ہے اور اس ذاکر موت کو چونکہ ہر وقت نفس سے مقابلہ رہتا ہے اس لئے اس پر ہر دم تلواریں چلتی ہیں، ایک جزو تو علاج کا یہ ہوا۔
دوسرا جزو یہ ہے کہ ما بعد الموت یعنی جزا و سزا کو یاد کرنا جس کا اصل مقام احرار آخرت ہے اور اصل مقام اس لئے کہا کہ دنیا میں بھی کسی قدر جزاء و سزا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ رسالہ جزء الاعمال میں اس کو عقلاً و نقلاً ثابت کردیا ہے۔ ان العبرۃ لیحرم الرزق بخطیئتہ یعملھا یعنی بے شک بندہ رزق سے محروم ہو جاتا ہے بہ سبب گناہ کے، جس کو وہ کرتا ہے
چنانچہ اس فقیر نے بھی اس بادشاہ سے زبان سے تو کچھ نہیں کہا ایک لطیف تدبیر سے اس کا علاج کیا۔ وہ یہ کہ اس فقیر نے یہ بات کہی کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تمہاری موت قریب ہے۔ چالیس دن کے اندر تم مر جاؤ گے۔ یہ بات سن کر بادشاہ کا رنگ فق ہوگیا اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور جھرنا شروع ہو گیا۔ فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، مرنا تو ایک دن ہے ہی اب تم کو چاہئے کہ اپنا انتظام کر لو۔ اہل حقوق کے حقوق ادا کردو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کرو اور یہ گولیاں کھالیا کرو، ان سے عبادت کی طاقت رہے گی۔ بادشاہ وہاں سے اٹھ کر قلعہ میں آئے وزراء امراء کو بلا کر جملہ امور سلطنت کا انتظام کیا۔ ولی عہد کو سلطنت سپرد کرکے خود ایک حجرے میں بیٹھ گئے۔ جب چالیس روز گزر گئے اور مرے نہیں تو خوش ہوئے لیکن حیرت اور تعجب ہوا کہ شاہ صاحب نے تو پیشین گوئی کی تھی یہ بات کیا ہے؟ خوش خوش شاہ صاحب کے پاس گئے اور عرض کیا کہ حضرت موت تو نہیں آئی۔ فرمایا کہ گولیاں کھائیں تھیں، کہا کہ کھائیں تھیں۔ پوچھا کچھ اثر؟ انہوں نے کہا اثر کیا کرتیں موت تو سامنے کھڑی رہتی تھی۔ فرمایا کہ تم کو تو موت میں چالیس روز کی مہلت بھی تھی باوجود اس مہلت کے تم پر کوئی اثر نہیں کیا اور فقیر کو تو ایک گھڑی کی بھی توقع نہیں پھر مجھ پر ان کا کیا اثر ہوتا۔ تو تمہارا وہ گمان کیسے ہو سکتا ہے۔ بادشاہ اپنے وسوسے پر شرمندہ اور نادم ہوا اور معذرت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم استنجے کے بعد تیمم فرما لیتے تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی تو موجود ہے۔ فرمایا کہ کیا معلوم کہ پانی آنے تک زندہ بھی رہوں۔
صاحبو! موت کو پیش نظر رکھنے کے یہ آثار ہیں۔ اب کبھی کوئی اگر اسے معالجے میں اختیار کرئے گا تو اب بھی وہی نفع ہوگا۔ یہ حاصل ہے اس آیت کا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اوراصلاح کے واسطے مراقبہ موت کا نسخہ استعمال کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ مراقبہ صحیح ہو جائے گا تو غلطی سے بھی گناہ نہ ہوگا۔۔ اس وقت مجھ کو جو بیان کرنا تھا بیان ہو چکا۔ امید ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
(برحمتک یا ارحم الراحمین)