کتاب کا نام: ذکر الموت

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

ذکر الموت

خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اوراصلاح
کے واسطے مراقبہ موت کا نسخہ استعمال کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
جب یہ مراقبہ صحیح ہو جائے گا تو غلطی سے بھی گناہ نہ ہوگا۔

(یعنی اللہ تعالی اس شخص کو جبکہ اس کی عمر کی میعاد ختم ہونے پر آ جاتی ہے ہرگز مہلت نہیں دیتے اور اللہ تعالیٰ کو   تمہارے سب کاموں کی پوری خبر ہے

نافرمانی کا اصل سبب غفلت ہے

کل کے وعظ میں جو آیت کریمہ تلاوت کی گئی تھیں یہ آیت اس کا تتمہ ہے۔ کل اس کا بیان بسطتاً ہوا تھا اس لئے آج اس کو پورا کیا جاتا ہے۔

اس آیت شریف میں ہمارے امراض کے علاج کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے، کل وعظ میں امراض کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ حاصل ان امراض کا یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اندر نافرمانی غالب ہے اور اس کی وجہ غفلت ہے اور ظاہر ہے کہ علاج بالضد(۱) ہوا کرتا ہے۔ اگر مرض سردی کی وجہ سے ہوتا ہے تو معالجہ گرمی سے کرتے ہیں اور اگر گرمی سے مرض ہو تو اس کا علاج سردی سے کیا جاتا ہے۔ غرض سبب کو زائل(۲) کیا جاتا ہے،
پس معالجہ کا حاصل ازالہ سبب ہوا (۳)۔

غفلت کا علاج

پس چونکہ ہمارے تمام امراض کی وجہ غفلت ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا علاج ذکر و فکر(۴) ہے۔ حق تعالیٰ شانہ نے اس جزو آیت میں موت اور بعد الموت(۵) کو یاد دلایا ہے جو ذکر و فکر کا ایک اہم و نفع بخش فرد(۶) ہے۔ سبحان اللہ کیا مختصر اور سہل تدبیر ہے کہ اس میں کچھ مجاہدہ و مشقت نہیں،کچھ خرچ نہیں۔ دنیا میں چھوٹے چھوٹے امراض کے لئے سینکڑوں روپے صرف ہو جاتے ہیں، اس میں کوئی مالی مشقت نہیں۔ کوئی بدنی تعب(۷) نہیں۔اس لئے کہ حاصل اس علاج کا موت اور ما بعد الموت کا یاد دلانا ہے کہ آدمی تھوڑی دیر بیٹھ کر سوچ لیا کرئے کہ مجھے مرنا ہے اور مر کر قبر میں
جانا ہے اور وہاں سانپ بچھو ہیں یا جنت کے باغ ہیں۔ اگر اچھے اعمال ہیں تو قبر باغ ہے اور اگر برے ہیں تو سانپ بچھو ہیں اور پھر قبر سے اٹھنا ہے اور حساب کتاب کے لئے پیش ہونا ہے اور پل صراط پر چلنا ہے۔ اسی طرح تمام واقعاتِ قیامت کو تفصیلاً یاد کرلیا کرئے۔ فرمائیے اس میں کیا دشواری(۸) ہے کسی آمدنی میں خلل نہیں پڑتا۔ بڑا عذر یہ لوگ یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ ہم دنیا دار آدمی ہیں، ہم سے کیا ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ذہن میں جما لیا ہے کہ دین بڑی مشکل شئے ہے اور اس میں بڑی مشقت ہے۔ یہی علاج جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے۔


(۱) اس کی ضد سے (۲) دور (۳) علاج کا حاصل سبب کو دور کرنا ہے (۴) یاد دہانی اور سوچ بچار (۵) موت اور اس کے بعد ہونے والے واقعات (۶) زیادہ فائدہ مند (۷) تھکاوٹ (۸) مشکل
دین پر عمل کرنا مشکل نہیں

بتلائیے اس میں کیا مشقت ہے کون سے کام میں حرج ہوتا ہے۔ بہت سی نفلیں نہیں پڑھوائی جاتیں، بہت سے وظیفے نہیں بتائے گئے اور منشاء دین(۱) کو بھاری اور مشقت کی چیز سمجھنے کا یہ ہوا کہ لوگوں نے دیکھا کہ ایک جماعت ایسی ہے کہ تسبیح ان کے ہاتھ میں ہے اور رات دن سوائے درود و دعا، ذکر و فکر، تلاوتِ قرآن شریف اور ذکر کی ضربوں کے ان کا کوئی کام نہیں۔ نہ وہ تجارت کرتے ہیں نہ وہ زراعت کے کام کے ہیں نہ وہ نوکری کر سکتے ہیں۔ سوائے اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ان کو دنیا کا کوئی کام نہیں۔ اس سے وہ یہ سمجھے کہ دیندار ایسے ہی ہوتے ہیں اور جو ایسا نہ ہو وہ دیندار نہیں، لہٰذا ہم کیسے دیندار ہو سکتے ہیں، ہم تو تجارت، نوکری، زراعت وغیرہ میں مبتلا ہیں۔ دنیا کے سینکڑوں دھندے(۲) ہم کو لگے ہوئے ہیں۔ ہم کس طرح خالی ہو کر ان کی طرح بیٹھ جائیں اور اس سے یہ نتیجہ ذہن میں جم گیا کہ دین بڑی مشکل شئے(۳) ہے اور ہم سے ہرگز اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔

حقیقت دین
صاحبو! خوب سمجھ لو کہ یہ چیزیں بھی اپنے درجے میں مرغوب و مندوب(۴) ہیں جبکہ آدمی بالکل فارغ ہو کر دین کی حقیقت میں داخل نہیں کہ اگر یہ اشیاء ہوں تو دین ہو اور اگر نہ ہوں تو دین کا وجود نہ ہو۔ دین نام ہے امتثال مامور بہ(۵) کا اور ضروری مامور بہ جس قدر ہے وہ بہت سہل(۶) ہے اس میں کوئی بکھیڑا نہیں۔ شریعت نے یہ حکم نہیں دیا کہ نہ اچھا کھاؤ نہ اچھا پیو اور نہ زراعت کرو نہ تجارت نہ نوکری، نہ حرفت، ہاتھ پاؤں توڑ کر مسجد میں بیٹھے رہو، بلکہ سب کچھ کرو مگر حدود سے باہر نہ نکلو۔ دین کے بڑے بڑے ارکان یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ، سب میں غور کیجئے کہ ان کے کرنے میں کیا مشقت ہے۔ دنیا کا کون سا کام بند ہوتا ہے۔ زکوٰۃ میں شاید کوئی کہے کہ اس میں مال کا خرچ ہے تو سمجھ لیجئے کہ امم سابقہ پر زکوٰۃ چوتھائی مال تھا۔ اس امت پر یہ رحمت ہے کہ صرف چالیسواں حصہ ہی فرض ہے۔ اور پھر اس میں بھی شرط یہ ہے کہ سال بھر اس مال پر گزر جائے، پھر اس مال کا قابل نمو(۷) ہونا بھی شرط ہے۔ سو اگر آدمی کو سلیقہ ہو تو بذریعہ تجارت سال بھر میں اس کو بڑھا سکتا ہے اور اگر خود سلیقہ نہ ہو تو سبحان اللہ کیا رحمت اور انعام ہے کہ اس کا طریقہ بھی بتلا دیا ہے کہ مضاربت(۸) پر کسی کو مال دے دو۔
مضاربت

مضاربت یہ ہے کہ مال ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی اور نفع میں دونوں شریک، لیکن اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے  کہ نفع معین نہ کرئے، جیسے آج کل معین کر لیتے ہیں کہ دس روپے ماہوار لیا کریں گے، یہ جائز نہیں۔ بلکہ حصہ معین کرئے کہ مثلاً تین چوتھائی تیرا اور باقی ہمارا یا نصف نصف مثلاً اگر شارع(۹) چاہتے تو اس عقد کو حرام کر دیتے اور اس کے نفع کو سود میں داخل کر دیا جاتا لیکن بندوں کی ضرورت پر نظر کرکے اس کی اجازت دے دی۔ غرض کہ تجارت کرنے کی اجازت اور تجارت کرانے کی اجازت، اس سے زیادہ اور کیا سہولت ہو سکتی ہے۔

پس اگر کسی کے پاس سو روپے ہوں اور سال میں دس روپے نفع ہو تو کچھ بعید نہیں، تو اس میں سے اڑھائی روپیہ دے دینا کیا مشکل ہے، یہی سمجھ  لیا  جائے  کہ  ساڑھے  سات  روپیہ  ہی  نفع  ہوا  ہے۔  پھر  مزید  برآں  و عدہ  ہے،  اولئک ھم المضعفون  یعنی  زکوٰۃ   دینے والے  اپنے  مال  کو  دوگنا چوگنا کرنے والے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ دینے سے یہ مت سمجھو کہ مال کم ہوتا ہے بلکہ بڑھتا ہے اور یہ بڑھنا آخرت میں تو ہو گا ہی دنیا میں  بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم جب سے عشر دینے لگے ہیں اس وقت سے ہمارے یہاں پیداوار زیادہ ہونے لگی ہے۔ اور دیکھئے ایک سرکاری قانون کی قدر اس لئے کرتے ہیں کہ تنخواہ میں سے کاٹ کر اور اس کا سود لگا کر بڑھا کر اس ملازم کو دیتی ہے، افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ باوجود اس کے کہ دوگنا چوگنا دے، اس کی قدر نہیں اور پھر بڑھنا دوگنے تک ہی نہیں بلکہ سات سو تک اور اس سے زیادہ بھی بڑھا  دیتے ہیں۔ چناچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی چھوہارہ صدقہ دیتا ہے تو حق تعالیٰ اس کو بڑھاتے رہتے ہیں حتیٰ کہ وہ اُحد کے پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ دیکھئے اگر اُحد کے پہاڑ کے ٹکڑے ایک چھوہارے کے برابر کریں تو کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ اب بتلائیے کہ زکوٰۃ دینے سے کیا خسارہ ہوا۔ بعض لوگ کہیں گے کہ ہم تو گن کر روپے رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دینے کے بعد پھر گنتے ہیں تو کم ہو جاتا ہے، بڑھنا تو درکنار برابر بھی نہیں رہتا۔ بات یہ ہے کہ بڑھنے کی حقیقت اور غرض پر اگر نظر ہوتی تو یہ شبہہ ہی نہ ہوتا۔


(۱) دین کو بھاری اور مشقت کی چیز سمجھنے کی وجہ یہ ہے (۲) دنیا کے بہت سے کام ہم سے وابستہ ہیں (۳) چیز (۴)  پسندیدہ اور مستحب ہیں (۵) جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کی بجا آوری کا نام دین ہے (۶) اور ضروری احکام جتنے ہیں وہ بہت آسان ہیں (۷) بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو (۸) ایک طریقہ تجارت ہے کہ ایک شخص کا پیسہ ہو دوسرے کا کام (۹) اللہ تعالیٰ

مال بڑھنے کی غرض
مال کے بڑھنے کی غرض یہ ہے کہ وہ بڑھا ہوا مال اپنے کام آئے چناچہ اگر کسی کے پاس کروڑوں روپیہ ہو اور وہ اس کے کام نہ آئے بلکہ فضولیات میں ضائع ہو جائے اور ایک شخص کے پاس دس روپے ہیں لیکن دس کے دس کام میں آئے، یہ شخص اس سے بدرجہا بڑھ کر ہے۔ سو ہم کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں کہ دو شخص ہیں اور ان کی برابر آمدنی ہے مگر فرق اتنا ہے کہ ایک زکوٰۃ دیتا ہے اور تمام حقوق واجبہ ادا کردیتا ہے سو اس کی چین اور آرام سے زندگی گزرتی ہے اور دوسرا شخص جو حقوق ادا نہیں کرتا ہمیشہ پریشانی میں رہتا ہے۔ آج چوری ہو گئی، کل کوئی مقدمہ قائم ہو گیا، خود بیمار ہو گیا، بچے بیمار ہو گئے، عطار کے ہاں روپیہ جا رہا ہے، طبیب کی فیس میں خرچ ہو رہا ہے۔ بخلاف پہلے شخص کے کہ جس قدر آمدنی ہے اس کے کام آ رہی ہے جو مال بڑھنے سے غرض ہے وہ اس کو حاصل ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ جس قدر لیتے ہیں اس سے زیادہ دے دیتے ہیں اور پھر جو لیتے ہیں وہ بھی اپنے لئے نہیں وہ بھی تمہارے لئے ہی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ زکوٰۃ میں کچھ مشقت نہیں بلکہ ہر طرح سے سہولت اور نفع ہی ہے، دنیوی بھی اور اخروی بھی۔

احکام شرعیہ میں سہولتیں

علی ہذا حج میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ جس کے پاس اپنی حاجت اصلیہ سے زائد اس قدر خرچ ہو کہ مکہ معظمہ تک سواری میں چلا جائے اور چلا آئے اور سفر میں رہنے تک اہل و عیال کو خرچ دے جائے اس کے ذمے حج واجب ہے، مدینہ طیبہ اگر ہمت اور خرچ ہو تو جانا سنت ہے۔ آج کل لوگ اس غلطی میں ہیں کہ حج کے لئے مدینہ منورہ کا خرچ بھی لگاتے ہیں اور اگر مدینہ طیبہ کا خرچ نہ ہو تو حج کو فرض نہیں سمجھتے۔ یاد رکھو!

جس کے پاس مکہ معظمہ تک آنے جانے کا خرچ ہو اس کے ذمے حج واجب ہو جاتا ہے، مدینہ طیبہ جانا فرض نہیں۔ بتلائیے اس میں کیا خسارہ

(۱) ہے بلکہ بعض لوگوں کو اور نفع ہوجاتا ہے کہ تجارتی مال لے جاتے ہیں اگرچہ بلا ضرورت اولیت

(۲) کے خلاف ہے اور ایک نفع یہ ہے کہ تجربہ بڑھتا ہے۔ خصوصاً ترقی یافتہ حضرات تو اتنا بڑا نفع سمجھتے ہیں کہ اس کے واسطے ہزارہا روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔ غرض سمجھ میں نہیں آتا کہ احکام شرعیہ میں کوئی بھی حکم ایسا ہو جس میں مال اور جان کا ضرر

(۱) ہو۔ مال کا ضرر نہ ہونا تو میں ثابت ہی کر چکا ہوں اور جان کے متعلق ارشاد ہے
لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا یعنی اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی وسعت سے زائد تکلیف نہیں دیتے ہیں۔ دیکھئے اگر نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اگر وضو نہ کرسکو پانی نقصان کرتا ہو تو تیمم سے پڑھ لو اور اگر پانی نقصان نہیں کرتا لیکن بیماری سے حرکت
نشست و برخاست

(۲) میں تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے سے التجا کرنا ضروری نہیں ہے۔ شریعت اس کو بھی معذور قرار دیتی ہے ہاں اپنا خادم اور
محکوم ہو تو اس سے وضو میں استعانت

(۳) ضروری ہے۔ اگر راستے میں ڈول رسی نہ ہو اور دوسرے سے مانگنے سے جی رکتا ہو تو امام ابوحنیفہؒ کے
نزدیک مانگنا واجب نہیں۔ وغیر ذالک من التسھیلات (اور اس کے علاوہ بہت سی سہولتیں ہیں)


(۱) نقصان (۲) خلاف اولیٰ ہے یعنی اچھا نہیں
قانون شریعت دنیا کے تمام قوانین سے زیادہ آسان ہے
میں تو کہتا ہوں کہ دنیا کے قوانین ایک جگہ جمع کرلو اور شریعت کو ایک طرف۔ سب سے زیادہ آسانی شریعت میں دیکھو گے۔ افسوس ہے کہ آج کل لوگ شریعت کو خونخوار

(۴) سمجھتے ہیں، اصل یہ ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ شتر بے مہار کی طرح پھریں۔ ایسے مطلق العنان

(۵) لوگ دنیا میں بھی خوار اور ذلیل ہیں اور جو ظاہری عزت ان کو حاصل ہے اور لوگ ان سے ڈرتے ہیں، یہ ایسی ہے جیسے بھیڑیے اور شیر سے ڈرتے ہیں۔ اگر ابھی شیر یا بھیڑیا آجائے، سب اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ چناچہ پیٹھ پیچھے ان ہی لوگوں کو لوگ گالیاں دیتے ہیں، بخلاف ان لوگوں کے جو خداوند تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں کہ ان کی عزت سچی عزت ہے۔ ان کی تعظیم و تکریم لوگ دل سے کرتے ہیں اور پیٹھ  پیچھے  مدح و ثنا  کرتے  ہیں۔  یہ  تو  ان  آزاد  لوگوں کے لئے  دنیا  میں ہے  اب  آخرت  کی نسبت سنئے،  فرماتے ہیں۔  ذق انک انت العزیز الکریم۔ یعنی چکھ مزہ عذاب کا بے شک تو بڑا عزیز و مکرم ہے۔ یہ ابوجہل کو خطاب ہے، یہ وہاں عزت ہوگی۔ عزیز کریم بطور طعن و تہکم (استہزاء) کے فرمایا۔ سو لوگ ایسی مطلق العنانی کو جس میں دنیا اور دین دونوں میں رسوائی ہو پسند کرتے ہیں۔

شریعت میں سراسر منعفت(۶) و راحت ہے
شریعت کو کہ جس میں سراسر منعفت و عزت و راحت ہے چھوڑتے ہیں۔ غور کرکے دیکھئے کہ جن معاملات میں ہم نے شریعت کو چھوڑ دیا ہے اور نئی رسوم مقرر کرلی ہیں، کس قدر دقتوں میں واقع ہوگئے ہیں۔

(۱) نقصان (۲) اٹھنے بیٹھنے میں (۳) وضو کے لئے مدد لینا (۴) پھاڑ کھانے والی (۵) بالکل آزاد پھریں (۶) فائدہ (۷) یہ اس وقت کا ذکر ہے جب روپیہ چاندی کا ہوتا تھا اب نہیں ہے، بلکہ حنفیہ کے نزدیک مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے جس کا وزن ۲ تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے۔ اتنی چاندی کی قیمت کے برابر کم از کم مہر ہونا لازمی ہے

مہر کی کم از کم مقدار

ایک شادی کے طریقے کو دیکھئے کہ شریعت نے اس میں اس قدر آسانی فرمائی ہے کہ کوئی قید نہیں لگائی۔ اس کا پابند نہیں فرمایا کہ مہر ہزار ہی روپے کا ہو، کم از کم مقدار پونے تین روپے مقرر فرما دی(۷) جس کو ادنیٰ استطاعت والا بھی ادا کرسکتا ہے روپیہ کی کچھ مقدار نہیں اور وہ بھی نکاح کے وقت دینا ضروری نہیں۔ جب ہو سکیں دیدو اور اگر عورت معاف کردے تو معاف بھی ہو جاتا ہے۔ نقد ایک پیسے کا بھی خرچ نہیں۔ چھوہارے اگر ہوں تو مستحب ہے، واجب فرض نہیں۔ بلکہ نکاح میں یہ برکت رکھی ہے کہ اس سے غنا حاصل ہوتا ہے۔ لوگوں کو سن کر یہ تعجب ہوگا کہ نکاح سے غنا کیسے حاصل ہوتا ہے، ہم تو اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ خرچ بڑھنے سے اور مصیبت ہو جاتی ہے۔

نکاح سے غنا کس طرح حاصل ہوگا
نکاح سے غنا کس طرح حاصل ہوگا صاحبو! آپ غور نہیں کرتے اگر ہر شئے کی روح اور حقیقت پر نظر ہو تو ان سب دعووں کا سمجھنا سہل(۱) ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ مسلمہ(۲) ہے کہ التدبیر نصف المعیشت (گھر کا انتظام و تدبیر آدھی معیشت ہے) یہ مسئلہ تمدن کا ہے۔ اگر دس روپے ہوں اور ساتھ ہی تدبیر بھی تو اس میں بیس روپے کام چل سکتا ہے۔ بعض امور خانہ داری کے ایسے ہوتے ہیں کہ مرد اکیلا پانچ روپے میں گزر نہیں کر سکتا۔ بیوی اگر عاقلہ ہو تو پانچ روپے میں اپنا اور دوسرے کا گزر کرلے گی اور بغیر تدبیر اور عقل کے ہزاروں روپیہ بھی کافی نہیں۔

(۱) آسان (۲) یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ (۳) شوہر کی ناشکری (۴) ذات کا حصہ (۵) دو پھٹے پرانے کپڑے (۶) مٹی کے دو برتن (۶) پھٹے پرانے جوتے (۷) چیز (۸) پریشان (۹) قرض پیسے لے کر
عورتوں کا کفران عشیر

آج کل عورتیں حقیقت میں گھر کو کھوتی ہیں۔ بعض تو اپنے ماں باپ بھائیوں کو دیتی ہیں، بعض کپڑوں اور زیور میں روپیہ برباد کرتی ہیں اور جس قدر ان کو دیا جائے ان کی نظر میں کچھ اس کی قدر نہیں۔ کفرانِ عشیر(۳) گویا ان کا جزو ذات(۴) ہے۔ بقول مولوی عبد الرب صاحب مرحوم کہ عورتوں سے جب کبھی پوچھا جاتا ہے کہ تم کو کچھ کپڑوں کی ضرورت ہے یا کافی مقدار میں موجود ہیں تو یہی کہیں گی کہ میرے پاس کیا ہے دو چیتھڑے(۵) اور جب برتنوں کا ذکر آتا ہے تو کہتی ہیں کہ کیا ہیں دو ٹھیکرے(۶)، جوتے کی نسبت پوچھو تو کہتی ہیں کیا ہے دو لیترے(۷)۔ یہ نری قافیہ بندی نہیں حقیقت یہی ہے کہ اس فرقے کے اندر شکر گزاری مطلق نہیں، الا ماشاء اللہ اور شب و روز فضولیات میں لگی رہتی ہیں۔ اگر کوئی شے سامنے آ جاتی ہے اور پسند آ جائے تو اگرچہ ضرورت نہ بھی ہو مگر پھر بھی لے لیتی ہیں اور پوچھنے پر یہ جواب دیتی ہیں کہ گھر میں ہوئی چیز کبھی نہ کبھی کام آ جاتی ہے اور شادی بیاہ میں تو ایسا بے تکا روپیہ اڑاتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر پاس نہ ہو تو قرض لیتی ہیں خواہ سود ہی ملے اور مشہور یہ کر رکھا ہے کہ شادی اور تعمیر کا قرضہ ضرور ادا ہو جاتا ہے تو ایسی عورتوں کا تو ذکر نہیں۔ باقی اگر فضولیات سے باز آ جائیں اور انتظام سے چلیں تو وہ رونق ہو جاتی ہے کہ مرد دس روپے میں نہیں کرسکتا۔ تو دیکھئے شادی کرنے سے افلاس اسی طرح دور ہو جاتا ہے۔ بہرحال شادی میں تھوڑا سا خرچ ہوا اور اس کے بدلے گھر میں رونق ہو گئی لیکن شرط یہی ہے کہ سلیقے سے کام لیا جائے۔

شریعت کو پس پشت ڈالنے کے نتائج

شریعت کی سہولت تو آپ نے شادی کے بارے میں ملاحظہ فرمالی اب دیکھئے کہ بجائے شریعت کے جو قوائد آپ نے شادی کے اندر مقرر کئے ہیں ان سے کس قدر کلّف(۸) واقع ہوئی کہ شادی جس کو شریعت نے بہت ارزاں کیا تھا، آپ نے اس کو کس قدر گراں کردیا ہے کہ منگنی سے لے کر فراغت تک اس قدر بکھیڑے اور خرچ اس میں بڑھا دئے ہیں کہ جان کا شریعت میں کہیں پتہ نہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لڑکے لڑکیاں بڑی عمر تک کنوارے رہتے ہیں اور سنت نکاح سے محروم رہتے ہیں اور بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جنہوں نے قرض دام(۹) کرکے شادی کی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج گھر نیلام ہو رہا ہے، کل جائیداد بک رہی ہے۔ یہ سب نتائج شریعت کو چھوڑنے کے ہیں۔

غمی میں شریعت کا قانون
اسی طرح غمی کو دیکھئے کہ اس میں ضروری جزو صرف اس قدر ہے کہ کفن دفن کیا جائے۔ اس میں کس قدر خرچ ہے، لیکن اگر اس قدر خرچ بھی کسی کے پاس نہ ہو تو سبحان اللہ دیکھئے کیا پاکیزہ قانون ہے کہ عامہ مسلمین کے ذمے اس کا کفن دفن ہے۔ علاوہ اس کے جو فضولیات اختراع(۱) کر رکھی یں وہ بالکل قابل حذف(۲) ہیں۔ مثلاً تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں وغیرہ ان کا شریعت میں کہیں پتہ نہیں، اپنی طرف سے اختراع کرکے مصیبت میں پڑتے ہیں۔ اب خیال فرمائیے کہ شریعت میں کیا دشواری ہے کہ آمدنی کے ابواب(۳) بند کردئے۔ مثلاً سود، رشوت، جوا وغیرہ دوسرے یہ کہ ہماری آزادی کو بند کردیا۔ رشوت اور جوئے کا جواب تو بہت ظاہر ہے کہ اس کے تسلیم کرنے میں ہمارے نوجوان تو ہرگز تامل  ہی  نہ  کریں  گے  وہ  یہ  کہ  رشوت و جوا  سرکاری  قانون  میں  بھی  ممنوع  ہے۔  فما ھوا جوابکم فھو جوابنا(۴)۔

(۱) گھڑ رکھی ہیں (۲) ترک کے قابل (۳) سب دروازے (۴) پس جو تم اس میں جواب دو وہی ہمارا جواب ہے (۵) ضرورتوں (۶) نظروں سے گرا ہوا (۷) مشکل (۸) یہ بھی تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ (۹) بالکل آزاد رہیں (۰۱) موت اور اس کے بعد کے حالات (۱۱) آسان
سود کا وبال
ربا  سود  اس  کے  بارے  میں  ارشاد  ہے۔  یمحق اللّٰہ الربوا و یربی الصدقات  یعنی  اللہ تعالیٰ   ربوا  (سود)  کو  مٹاتے  ہیں  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔ مٹانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آج گن کر سو روپے رکھے تھے، دوسرے دن پچاس رہ گئے یا بالکل نہیں رہے۔ بات یہ ہے کہ مال کا اصل مقصود یہ ہے کہ اپنے یا اپنی اولاد کے کام آئے۔ کھانے پہننے اور دوسرے حوائج(۵) میں صرف ہو اور سود خوار کی آمدنی اس کے کام نہیں آتی، فضول اڑ جاتی ہے۔ یا تو مکانات کی تعمیر میں روپیہ اڑ جاتا ہے یا رنڈیوں اور شراب خواری میں ضائع ہو جاتا ہے اور دوسرا وبال سود کا یہ ہے کہ سود خوار سے کسی کو محبت نہیں ہوتی اور سرمایہ راحت آپس کی محبت و الفت ہے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ سود خوار لوگوں میں
نہ باپ کو بیٹے سے محبت ہے نہ بیٹے کو باپ سے، سود خوار ہر شخص کے نزدیک ساقط النظر(۶) ہوتا ہے اور نیز اس کو کسی وقت راحت نہیں ہوتی۔ ہر وقت ادھیڑبن میں لگا رہتا ہے اور اسی فکر میں رہتا ہے کہ کسی طرح دس کے بیس ہو جائیں۔ دنیا کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔ یہ مٹانے کی روح ہے۔  اب  بے تکلف  آپ  کی  سمجھ  میں  یمحق اللّٰہ الربوا  (اللہ تعالیٰ  سود  کو  مٹاتے  ہیں)  کے  معنی  آگئے  ہوں  گے  نیز  کبھی  قرضداروں  کے پاس روپیہ مارا بھی جاتا ہے۔ بہرحال یہ دعویٰ بالکل محفوظ ہے کہ شریعت آسانی کی طرف بلا رہی ہے اور آپ کا دستور و عرف دشواری(۷) میں
ڈال رہا ہے اور نیز یہ بھی محقق(۸) ہوا کہ شریعت پر عمل کرنے سے راحت ہی راحت ہے اور شریعت کو چھوڑنے میں دشواری ہی دشواری ہے۔ مگرلوگوں کی یہ حالت ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم مطلق العنان(۹) رہیں۔ اس لئے شریعت کی پابندی دشوار معلوم ہوتی ہے لیکن واقع میں دین میں کوئی مشقت نہیں
علاج غفلت کے دو اجزاء
پس اسی طرح دین کے حکم میں بھی جس کا ذکر ہو رہا ہے، کوئی دشواری نہیں کہ موت و ما بعد الموت(۰۱) کو سوچا کرو۔ پس ثابت ہو گیا کہ حق تعالیٰ نے جو اس آیت شریف میں علاج ارشاد فرمایا ہے وہ بے حد سہل(۱۱) ہے۔ حاصل علاج کا یہ نکلا کہ موت اور ما بعد الموت کو یاد کرلیا کرے۔ سو دیکھئے یہ علاج اس قدر سہل اور سستا ہے کہ اس میں نہ جان کا خرچ ہے نہ مال کا اور موثر ایسا کہ حقیقت میں اگر دنیا بھر کے حکماء، بقراط و سقراط بھی جمع ہو کر سوچتے تو ایسے آسان علاج تک ان کے ذہن کو ہرگز رسائی نہ ہوتی تو ایسے شدید مرض کا علاج چند لفظوں میں ارشاد فرما دیا۔ پس علاج کے صرف دو جزو ہیں۔ ایک موت کو یاد کرنا اور دوسرے ما بعد الموت کی طرف اشارہ فرمایا۔ و اللّٰہ خبیر بما تعملون سے اشارہ ما بعد الموت کی طرف ہے اس لئے کہ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کچھ دن رات کیا کرتے ہو اللہ سب کی خبر رکھنے والے ہیں، تو خبررکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم کو سب خبر ہے تو سب اعمال کی جزاء و سزا بھی دیں گے جیسے استاد شاگردوں سے کہتا ہے یا آقا نوکر سے کہا کرتا ہے کہ مجھ کو تمہاری سب حرکتوں کی اطلاع ہے۔ مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کی سزا ملے گی اور جزاء و سزا اعمال کی جو کچھ ہوگی وہ ما بعد الموت ہوگی۔ پس حاصل علاج کا یہ ہوا کہ موت اور ما بعد الموت کو یاد کرو اور حدیث میں بھی اس علاج کا ذکر آیا ہے
موت ھاذم اللذات(۱) ہے
چناچہ  فرمایا  اکثروا  ذکر ھاذم  اللذات  یعنی  لذات  کی  قطع  شکستہ  کرنے  والی  شئے  (موت)  کو  بہت  یاد  کیا  کرو۔  سبحان اللہ کیا خوبصورت عنوان سے حکم فرمایا ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ موت کو یاد کیا کرو بلکہ موت کو ھاذم اللذات سے تعبیر فرمایا۔ اس میں ایک بڑی گہری بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ بات یہ ہے کہ جو آدمی گناہ کرتا ہے یا دنیا کے مال و جاہ میں منہمک ہوتا ہے تو مقصود اور غایت سب کی تحصیلِ لذت ہے اور جب یہ یاد کرئے گا کہ یہ سب ایک دن ختم ہو جائے گا اور اس کا تصور ہوگا تو مزہ ہی نہ آئے گا اور جب مزہ ہی نہ آئے گا تو وہ گناہ بھی چھوٹ جائے گا۔ دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً کسی بڑے عہدے پر ہے مثلاً ڈپٹی کلکٹر ہے لیکن اس پر کوئی مقدمہ بھی قائم ہے جس سے خوف غالب ہے کہ اس عہدے سے برطرف کر دیا جائے گا۔ اس کو اس کلکٹری میں خاک بھی لذت نہ ہو گی۔ غرض کلیہ قائدہ
ہے کہ جس شئے میں انقطاع(۲) کا خوف ہوتا ہے اس میں لذت نہیں رہتی ہے

(۱) لذتوں کو مٹانے والی ہے (۲) جس چیز کے ختم ہونے کا خوف ہو اس میں لذت نہیں ہوتی
موت ہر لذت کو ختم کرنے والی ہے
پس حاصل حدیث شریف کا یہ ہوا کہ اگر تم سے گناہ بوجہ لذت کے نہیں چھوٹتے تو ہم تم کو علاج بتاتے ہیں کہ تم یاد کرلیا
کرو کہ یہ سب لذات سب ختم ہونے والی ہیں جب اس کا تصور کامل ہوگا تو گناہ چھوٹ جائیں گے اور موت سے تو تمام لذات   کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو بہت ظاہر ہے
موت کے دو مقدمات
موت کے جو مقدمات ہیں ان سے بھی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ موت کے دو مقدمے ہیں، بیماری اور بڑھاپا۔ دیکھ لیجئے دونوں
سے لذات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بیماری میں کسی شئے کا لطف نہیں رہتا، اچھے اچھے لذیز کھانے کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ سب شہوانی جوش و خروش ختم ہو جاتے ہیں بلکہ بولنا تک برا معلوم ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ تو کسی کا پوچھنا اور عیادت کرنا بھی برا معلوم ہوتا ہے۔
موت کے دو مقدمات
موت کے جو مقدمات ہیں ان سے بھی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ موت کے دو مقدمے ہیں، بیماری اور بڑھاپا۔ دیکھ لیجئے دونوں
سے لذات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بیماری میں کسی شئے کا لطف نہیں رہتا، اچھے اچھے لذیز کھانے کڑوے معلوم ہوتے ہیں۔ سب شہوانی جوش و خروش ختم ہو جاتے ہیں بلکہ بولنا تک برا معلوم ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ تو کسی کا پوچھنا اور عیادت کرنا بھی برا معلوم ہوتا ہے
عیادت میں تھوڑی دیر بیٹھنے میں حکمت
اسی  واسطے  تو  حدیث شریف  میں  آیا  ہے  من  عاد  منکم  مریضا  فلیخففا  الجلوس  (یعنی  جو  شخص  تم  میں  سے  کسی  مریض  کی  عیادت کرئے تو چاہئے کہ کم بیٹھے) سبحان اللہ شریعت کی کس قدر گہری نظر ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پوری نظر ہے اور یہ بجز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی کا کام نہیں۔ کوئی کتنا ہی بڑا فلاسفر ہو مگر اس کی نظر ایسے دقائق(۱) تک کہاں پہنچ سکتی ہے۔ اکثر لوگ آج کل ایسی غلطی کرتے ہیں کہ بیمار کے پاس بیٹھ کر مجلس آرائی کرتے ہیں، ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ آرام کرئے یا کروٹ بدلے لیکن ان کے لحاظ سے بیچارہ ایک حالت سے لیٹا رہتا ہے۔ یہ بڑی سخت غلطی ہے۔ ہاں اگر مریض سے ایسی بے تکلفی ہو کہ اس کو اس سے کچھ لحاظ نہ ہو اور اس لئے آرام میں خلل نہ ہو بلکہ اور اس سے انس و روحت ہو تو وہ مستثنیٰ ہے۔ اس لئے کہ علت اس حکم کی ایذا ہے اور وہ یہاں مرتفع(۲) ہے۔ حاصل یہ کہ مرض میں کسی شئے کی حلاوت(۳) نہیں رہتی۔ ہر امر میں بے لطفی ہو جاتی ہے۔ نہ کھانے کو جی چاہتا ہے نہ پینے کو۔ اسی  واسطے  تو فرمایا ہے۔  لا تکرھو مرضا کم علی الطعام  اور  مریضوں  کو  کھانے پینے  پر  مجبور  نہ  کرو۔  آج  کل  اس  کے  بھی  خلاف  کرتے ہیں اور مریض کو مجبور کرتے ہیں کہ کچھ کھا ہی لے۔ خاص کر مائیں بچوں کو بے انتہا مجبور کرتی ہیں۔ یاد رکھو بعض مرتبہ کھانے
سے  مرض  بڑھ  جاتا ہے  بلکہ  اکثر  ایسا  ہی  ہوتا ہے،  ایسا  ہرگز  نہ  کرو  اس  کے  آگے  فرماتے ہیں۔ فان  اللّٰہ  یطعمھم و  یسقیھم  یعنی  اللہ تعالیٰ ان کو کھلا پلا دیتے ہیں۔ حقیقت میں بعض مریضوں پر بیس بیس دن گزر جاتے ہیں اور بالکل نہیں کھاتے اور پھر جس قدر کمزوری ہونی چاہئے اس قدر نہیں ہوتی۔ تندرست آدمی اگر اتنے دنوں تک نہ کھائے تو بہت ضعیف ہو جائے۔ اس کے اعتبار سے مریضوں کو اتنا ضعف نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کہے کہ ہم رات دن بیمار کے پاس بیٹھے رہتے ہیں، کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے اور خود بھی بیمار پڑتے ہیں مگر کبھی اللہ تعالیٰ کو کھلاتے
پلاتے نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ کھلانے پلانے سے جو مقصود ہے وہ حاصل ہو جاتا ہے۔

(۱) باریک باتوں (۲) نہیں پائی جاتی (۳) کسی چیز کا مزہ نہیں رہتا (۴) زائد رطوبتیں اس کی غذا کا بدل بنتی رہتی ہیں جس سے غذا کی کمی پوری ہو جاتی ہے (۵) دماغ میں خشکی
کھانے پینے سے مقصود
کھانے پینے سے مقصود قوت ہے، وہ برابر رہتی ہے۔ اس لئے کہ رطوبات فضلیہ بدل ما یتحل بنتی رہتی ہیں (۴) اس لئے اس کو قوت رہتی ہے اور رطوبت کا اس طرف منعرف کر دینا یہ کام حق تعالیٰ ہی کا ہے۔ پھر کھلانے پلانے میں کیا شبہہ رہا۔ حاصل یہ ہے کہ ایک مقدمہ موت کا تو یہ تھا اور دوسرا مقدمہ بڑھاپا ہے کہ اس میں بھی سارے مزے ختم ہو جاتے ہیں کھانے کا لطف نہیں رہتا۔ اس لئے کہ کھانے کا لطف بھوک پر ہے۔ جوانی میں جیسی بھوک لگتی ہے وہ بڑھاپے میں نہیں رہتی پس اگر کچھ بھوک ہو بھی تو جو شئے چاہیں وہ کھا نہیں سکتے اس لئے کہ دانت سب رخصت ہوگئے۔ اسی طرح سرد پانی نہیں پی سکتے کہ نزلے کی تحریک ہو جاتی ہے، تازہ پانی یا گرم پانی پیتے ہیں۔ سونے کا آرام جاتا رہا اس لئے کہ
اول تو گھر میں نیند نہیں آتی پھر پوست دماغ(۵) میں اس قدر ہوتی ہے کہ وہ سونے نہیں دیتی
جوانی گئی زندگانی گئی
حضرت مولانا گنگوہیؒ فرماتے تھے کہ حاجی صاحبؒ کا یہ شعر، جوانی گئی زندگانی گئی الخ، سن کر ہم کو تعجب اور اشکال ہوتا تھا کہ جوانی جانے سے زندگانی کیسے جاتی رہی مگر جب اپنے اوپر گزری تو معلوم ہوا کہ واقعی بڑھاپے میں زندگانی کا لطف نہیں۔ ہماری ایک تائی تھیں، اللہ تعالیٰ ان کو بخشے وہ بڑھاپے کے مصائب سے موت کی تمنا کیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بوڑھا ہو کر اگر گناہ کرئے تو اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے
لعنت تین شخصوں پر
حدیث شریف میں تین شخصوں پر لعنت آئی ہے۔ اول ملک کذاب یعنی جھوٹے بادشاہ پر، اس لئے کہ جب وہ بادشاہ ہے تو اس کو جھوٹ کی کیا ضرورت۔ جھوٹ تو وہ بولے جو کسی سے دبتا ہو اور جب اللہ تعالیٰ نے سلطنت عطا فرمائی ہے تو اس کو کیا حاجت ہے۔ دوسرے عائل(۱) متکبر پر لعنت آئی ہے یعنی غریب ہو کر تکبر کرئے۔ چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض غریب باوجود اپنی شکستہ حالی کے بھی اینٹھ (۲) مروڑ میں رہتے ہیں۔ امیر بیچارے ریچ(۳) جاتے ہیں مگر یہ غریب اپنی شیخی میں رہتے ہیں۔ خاص کر تقریبات میں اکثر اینٹھ جاتے ہیں اور بلائے سے بھی نہیں آتے۔ تقریب والے مناتے ہیں خوشامدیں کرتے ہیں مگر ان کی ناک ہی سیدھی نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں ایک مالدار شخص تھے ان کے یہاں تقریب تھی۔ ایک مفلس شخص کو جو کہ ان کے یہاں مدعو تھے اور انتظارِ طعام  میں بیٹھے تھے، ان کے یہاں کا سامان دیکھ کر بہت حسد ہوا۔ سوچنے لگے کہ کوئی عیب نکلے چنانچہ ایک بات نکلی۔ سقہ(۴) کارخانے میں جا رہا تھا۔ اس کی مشک میں ایک سوراخ تھا، اس میں سے پانی نکل کر ان کے کپڑوں پر گرا۔ بس شیخ صاحب چھنک(۵) کر کھڑے ہو گئے اور خدا جانے گھر والوں کو کیا کیا کہا۔ اب مناتے ہیں، منتے نہیں۔ ایسوں کا علاج تو یہ ہے کہ ان کو منہ نہ لگانا چاہئے، اگر خفا ہو جائیں بلا سے۔ تیسرے زانی شیخ پر لعنت آئی ہے اور بدنگاہی اور دل کے اندر خیال پکانا بھی زنا ہی میں
داخل ہے اور وجہ یہ ہے کہ تقاضا کرنے والی تو کوئی چیز اندر ہے نہیں جو مجبور کرے۔ اس پر بھی کمبخت مبتلا ہوتا ہے تو یہ زیادہ موجب وعید ہے۔ یہ وقت تو وہ تھا کہ ذکر و فکر میں گزارتا۔

(۱) غریب متکبر (۲) اکڑتے رہنا (۳) نرم پڑ جاتے ہیں (۴) ماشکی (۵) جھپٹ کر (۶) لذت کو ختم کرنے والی
بڑھاپا پیغامِ موت ہے
اسی  واسطے  تو  فرماتے ہیں  اولم  نعمر کم  ما  یتذکر  فیہ  من  تذکر  وجائکم  النذیر  یعنی  کیا  ہم  نے  تم  کو  ایسی  عمر نہیں  دی  کہ  اس  میں نصیحت و عبرت حاصل کرئے۔ وہ شخص جو نصیحت حاصل کرنا چاہے اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا۔ مراد نذیر سے بڑھاپا ہے اس لئے کہ بڑھاپا پیغامِ موت ہے اس لئے اس کو نذیر فرمایا۔ غرض بڑھاپا پیغامِ موت ہے کیونکہ بچوں کو تو یہ بھی امید ہے کہ جوان ہو کر کچھ کرلیں گے اور جوانوں کو یہ خیال ہے کہ بوڑھے ہو کر کچھ کریں گے۔ اگرچہ یہ خیال اور امید بھی سراسر باطل ہے اس لئے کہ یہ کیا معلوم ہے کہ جوانی اور بڑھاپا ضرور آئے گا بلکہ اس زمانے میں تو اکثر پہلے ہی پہلے ختم ہو جاتے ہیں لیکن خیر عامی خیال میں تو اس کی گنجائش ہے لیکن ان بوڑھوں کو کیا امید ہے کہ کس بات پر بھولے ہوئے ہیں۔ حاصل یہ کہ مرض اور بڑھاپا کہ دونوں مقدمات موت سے ہیں۔ انہی سے دیکھئے لذت کیسے قطع ہو جاتی ہے۔ سو خود موت تو کیسی کچھ قاطع لذت(۶) ہوگی۔ پس عنوان سے ذکر موت کو معالجہ میں اور زیادہ دخل ہوا۔ بالجملہ معالجے کا حاصل موت کو یاد کرنا ہے اور اس وقت ایک لطیفہ اور یاد آیا وہ یہ کہ علاج بھی وہ فرمایا جس میں سراسر اسی کا نفع ہے اور اس حیثیت سے مکلف کو اپنے نفع کے لئے اس کا اختیار کرنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے امر پر کوئی شخص کسی خاص اجرت یا انعام کا مستحق نہیں ہو سکتا بلکہ مرض کا علاج بتلانے والا اگر کوئی اجرت یا فیس مانگنے لگے تو گنجائش ہے مگر اللہ اکبر کیا رحمت ہے کہ علاج بھی بتلا دیا اور اس کے علاج کے کرنے پر خود ایک انعام کا بھی وعدہ فرمایا۔
دن میں چالیس مرتبہ موت کو یاد کرنے کا اجر
چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص دن بھر میں چالیس مرتبہ موت کو یاد کرئے تو اس کو شہادت کا مرتبہ ملتا ہے اور شہادت کا مرتبہ معلوم ہے کتنا بڑا ہے، کہ شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور بے حساب جنت میں جاتا ہے۔ سو علاج کے ساتھ انعام بھی کیسی عنایت ہے۔ اس پر ایک مثال یاد آگئی۔ مجھ کو ایک مرتبہ بچپن میں والد صاحب نے مسہل(۱) دیا۔ میں وہ مسہل پیتا نہ تھا تو والد صاحب نے فرمایا کہ ہم تم کو ایک روپیہ دیں گے اگر تم یہ پی لو۔ دیکھئے وہ ہمارے ہی نفع کے لئے تھی اگر ہم پئیں گے ہمارا ہی نفع ہوگا نہ پئیں گے تو اس کا ضرر ہم کو ہوگا لیکن دوا پینے پر
بھی انعام دیا جاتا ہے۔ یہ غایت شفقت ہے۔ شفاخانے میں ذرا تجربہ کرکے دیکھو۔ اس سے حق تعالیٰ کی رحمت اپنے بندوں پر رافت و شفقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے نفع کے لئے ایک علاج تجویز فرمایا اور پھر اس انعام کا بھی وعدہ یعنی شہادت، جو کہ اعلیٰ مراتب میں سے ہے۔ اس کے عطاء کا وعدہ۔ یہ تو ذکر موت کی فضیلت ہوئی جس کو میں نے انعام سے تعبیر کیا۔ باقی رہے اس کے آثار جن کے ترتیب کے اعتبار سے(۲) اس کا یاد کرنا علاج قرار دیا گیا ہے۔ سو وہ یہ ہیں کہ موت کو جب کثرت سے یاد کرئے تو دنیا سے دل اس کا سرد(۳) ہو جائے گا اور دنیا کے بکھیڑوں میں پڑنا پسند نہ کرئے گا اور اس کی موئید ایک نظیر(۴) ہے وہ یہ کہ جس زمانے میں طاعون پھیلا تھا اس وقت یہ حالت تھی کہ کام تو دنیا کے سب کرتے تھے۔ بازار والے، تجارت والے، زراعت والے، سب اپنا اپنا کام کرتے تھے مگر سب میں ایک سوناپن(۵) تھا کہ کسی کام میں جی نہ لگتا تھا  اذا  اصبحت  فلا  تحدث  نفسک  بالمساء  و اذا  امسیت  فلا  تحدث  فی  نفسک  بالصبح  (یعنی  جب  صبح  کا  وقت  آوے  تو  شام  کا انتظار مت کرو اور جب شام کا وقت آوے تو صبح کو انتظار مت کرو) کا مرتبہ ہر شخص کو بلا مجاہدہ حاصل تھا۔

(۱) دست لانے والی دوا (۲) مرتب ہونے کے اعتبار سے (۳) دل بجھ جاتا ہے (۴) اس کی تائید میں ایک (۵) خاموشی سی تھی
طاعون اللہ کی رحمت ہے

یہ اثر کس چیز کا تھا صرف موت کے یاد رکھنے کا اور اس حیثیت سے طاعون کا ایک رحمت ہونا ثابت ہوتا ہے مگر بعض لوگ جہل سے طاعون کو ملعون اور بعض غایت جہل شئے ملاعون بالالف کہتے ہیں لیکن اوپر کی تقریر سے معلوم ہوگیا کہ طاعون خدا کی رحمت ہے۔ دعا تو یہی کرو کہ طاعون نہ ہو کیونکہ مصیبت ہے لیکن اگر ہو جائے تو اس کو برا بھی نہ کہو کہ ایک رحمت ہے اور اس میں کچھ منافات نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ہر شئے کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت۔ ظاہر صورت تو طاعون کی مصیبت ہے اس اعتبار سے تو دعا کا حکم ہے اور حقیقت اس کی رحمت ہے۔ اس کے اعتبار سے اس سے نہ بھاگنے کا حکم ہے۔ اب لوگ اس سے بھاگتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں اور برا کہتے ہیں۔ پریشانی کی کیا بات ہے مقدر میں جو کچھ ہوگا واقع ہو گا۔ ہم لوگوں کا تقدیر پر پورا اطمینان نہیں ہے ورنہ پریشانی بالکل نہ رہے۔ حضرت علیؓ جنگ صفین میں گھوڑے پر سوار تھے اور اسی حالت میں آپؓ سو رہے تھے، کسی نے کہا کہ ایسی حالت میں آپؓ اطمینان سے سو رہے ہیں۔ فرمایا کہ دو قسم کے دن ہیں ایک وہ جن میں موت لکھی ہوئی ہے ان میں ٹل نہیں سکتی پھر پریشانی کی کیا بات ہے۔ اللہ اکبر، کس قدر توکل ہے۔ دوسرا قصہ ان کے محقق ہونے کا بھی بیان کر دوں تاکہ کسی کو اس مسئلہ میں لغو اور غلط فہمی نہ ہو جائے۔

وہ یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپؓ تقدیر پر ایمان لاتے ہیں۔ فرمایا کہ ہاں، اس نے کہا کہ تقدیر پر ایمان ہے تو اس دیوار سے کود پڑو اگر مقدر ہوگا تو زندہ رہو گے ورنہ نہیں فرمایا کہ مجھ کو اپنے مولا کے امتحان لینے کا کب حق حاصل ہے جو کچھ مقدر میں ہے ہوگا  تو  وہی  لیکن  حق تعالیٰ  سے  عافیت  طلب  کرنا  چاہئے  اور  احتیاط  رکھنا  چاہئے۔  چنانچہ  حدیث  میں  ہے۔  سلو اللّٰہ العافیتہ  (اللہ تعالیٰ  سے

عافیت کی درخواست کرو) پس نہ طاعون سے اس قدر گھبرانا چاہئے جیسے لوگ بھاگتے پھرتے ہیں کہ ایمان بالقدر(۱) کے منافی ہے اور نہ مقام طاعون میں بے ضرورت گھسنا چاہئے بلکہ مشروع احتیاط(۲) و دعائے عافیت کرنا چاہئے۔ الحاصل جس طرح طاعون کے زمانے میں تمام لذات سے دل برداشت ہو جاتا ہے اسی طرح ہر زمانے میں موت کے ذکر سے تمام لذات سے دل سرد ہو جائے گا اور گناہ چھوٹ جائیں گے اور شہادت کا مرتبہ ملے گا وہ مزید براں۔ اور راز، شہادت کے ملنے میں یہ ہے کہ شہید پر تو ایک ہی مرتبہ تلوار چلی ہے اور اس ذاکر موت کو چونکہ ہر وقت نفس سے مقابلہ رہتا ہے اس لئے اس پر ہر دم تلواریں چلتی ہیں، ایک جزو تو علاج کا یہ ہوا۔

دوسرا جزو یہ ہے کہ ما بعد الموت یعنی جزا و سزا کو یاد کرنا جس کا اصل مقام احرار آخرت ہے اور اصل مقام اس لئے کہا کہ دنیا میں بھی کسی قدر  جزاء  و  سزا  ہو  جاتی  ہے۔  چنانچہ  رسالہ  جزء  الاعمال  میں  اس  کو  عقلاً  و  نقلاً  ثابت  کردیا  ہے۔  ان  العبرۃ  لیحرم  الرزق  بخطیئتہ  یعملھا  یعنی بے شک بندہ رزق سے محروم ہو جاتا ہے بہ سبب گناہ کے، جس کو وہ کرتا ہے

گناہ کا اثر
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ بعض دن گھوڑا شرارت کرتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ آج مجھ سے کوئی گناہ ضرور سرزد ہوا ہے چنانچہ سوچنے سے گناہ یاد آ جاتا ہے اور بعض دن گناہ کی وجہ سے بیوی بچے مجھ سے لڑتے ہیں۔ یہ تو نافرمانی کی سزائیں ہیں اسی طرح فرمانبرداری پر جزائیں بھی ملتی ہیں چنانچہ اس کے بعد کے آثار کی نسبت فرماتے ہیں۔
  تو  ہم  گردان  از  حکم   داور  ہیچ
کہ  گردن  نہ  پچیدز  حکم  تو  ہیچ
(تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے رو گردانی مت کرو تمہارے حکم سے بھی کوئی روگردانی نہیں کرئے گا)
حق تعالیٰ شانہ کی اطاعت کا اثر
چنانچہ حضرت حاجی صاحبؒ کی ایک حکایت حضرت مولانا گنگوہیؒ سے سنی کہ سہارنپور میں ایک مکان تھا اس میں جن کا سخت اثر تھا جس سے وہ مکان متروک(۳) کر دیا گیا تھا۔ اتفاق سے حضرت حاجی حاحبؒ پران کلیر(۴) سے واپس ہوتے ہوئے سہارنپور تشریف لائے تو مالک مکان نے حضرت کو اسی مکان میں ٹھہرایا کہ حضرت کی برکت سے جن دفع ہو جائیں گے۔ رات کو تہجد کے واسطے جب حضرت اٹھے اور معمولات سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص سامنے آ کر بیٹھ گیا۔ حضرت کو حیرت ہوئی کہ باہر کا آدمی اندر کوئی نہ تھا اور کنڈی بھی لگی ہوئی ہے پھر یہ اندر کیسے آیا۔ حضرت نے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے کہا حضرت میں وہ شخص ہوں جس کی وجہ سے یہ مکان متروک ہوگیا یعنی جن ہوں۔ مدت دراز سے حضرت کی زیارت کا مشتاق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آج میری تمنا پوری کی۔ حضرت نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور پھر مخلوق کو ستاتے ہو، توبہ کرو۔ حضرت نے اس کو توبہ کرائی پھر فرمایا دیکھو سامنے حافظ صاحب تشریف رکھتے ہیں ان سے بھی ملے ہو۔ اس نے کہا  نہ حضرت! ان سے ملنے کی ہمت نہیں ہے وہ بڑے صاحبِ جلال ہیں ان سے ڈر لگتا ہے۔ صاحبو! اللہ کی فرمانبرداری وہ شئے ہے کہ جن و انس سب مطیع ہو جاتے ہیں۔

(۱) مسئلہ تقدیر پر ایمان کے خلاف ہے (۲) بلکہ شریعت نے جو احتیاط بتائی ہے وہ عافیت کی دعا کرنا ہے (۳) خالی چھوڑ دیا گیا
(۴) جگہ کا نام ہے
حکایت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوبؒ
حافظ غلام مرتضیٰ صاحبؒ ہمارے یہاں ایک مجذوب تھے، مگر ایسے پاک باز مجذوب تھے کہ کبھی ننگے نہ ہوئے تھے اور سلیقہ دار اس قدرتھے کہ ایک مرتبہ جلال آباد تشریف لے گئے۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ نے بڑی تکلیف فرمائی، فرمایا یوں نہ کہو، مجھ کو تکلیف کرنے کی کیا غرض تھی بلکہ یہ کہو کہ حضرت آپ نے کرم فرمایا۔ ان کی ایک حکایت سنی ہے کہ حافظ صاحبؒ ایک مرتبہ جنگل میں کھڑے تھے اور بھیڑیے دونوں طرف سے کھلاڑیاں کر رہے تھے۔ میرے نانا صاحب بھی وہاں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت یہ بھیڑیے ہیں، یہ نہیں سمجھتے کہ کون بزرگ ہیں کون نہیں۔ فرمایا کہ یہ آدمیوں کو نہیں کھایا کرتے ان کی غذا جانور ہیں ہم کو کچھ نہ کہیں گے۔
بعض اہل کشف بزرگوں کے واقعات
اس پر مجھ کو شاہ عبد العزیزؒ کی حکایت یاد آ گئی کہ شاہ صاحب جامع مسجد میں آتے تھے تو عمامہ آنکھوں پر جھکا لیا کرتے تھے اور اِدھر اُدھر نظر نہ فرماتے تھے۔ ایک شخص نے اس کا سبب دریافت کیا۔ شاہ صاحبؒ نے اپنا عمامہ اس کے سر پر رکھ دیا، دیکھا کہ جامع مسجد میں بجز دو چار آدمیوں کے سب گدھے کتے بندر بھیڑیے پھر رہے ہیں۔ فرمایا اسی وجہ سے میں اس صورت میں آتا ہوں، مجھ کو سب کتے بندر وغیرہ نظر آتے ہیں اور طبیعت پریشان ہو جاتی ہے۔ اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ جس شخص کے اندر جو خصلت غالب ہوتی ہے اہل کشف و اہل بصیرت کو وہ شخص اسی جانور کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جس کے اندر جو خصلت ہو مثلاً اگر کسی میں ستانے کی صفت ہے تو وہ کتے کی شکل میں نظر آئے گا اگر تملق مذموم(۱) کی خصلت ہو تو بلی کی شکل میں، حیلہ گری(۲) ہو تو لومڑی کی شکل میں متمثل ہوگا اور قیامت کے دن انہی شکلوں میں اٹھیں گے۔ دیو بند میں ایک بزرگ تھے، مولانا فرید الدین صاحبؒ اور ان کے زمانے میں ایک مجذوبہ تھی۔ وہ ننگی پھرا کرتی تھی۔ اس سے کسی نے پوچھا تو پردہ کیوں نہیں کرتی اس نے کہا کہ بیلوں گدھوں سے پردہ کا حکم نہیں ہے۔ ایک روز وہ حسب عادت ننگی پھر رہی تھی، اسی حالت میں اس نے کہا کہ کپڑا لاؤ مرد آگیا۔ تھوڑی دیر میں مولانا فرید الدین صاحب تشریف لائے۔ پس حقیقت میں آدمی تو فرمانبردار ہی ہے باقی تو سب جانور ہیں۔

(۱) ناپسندیدہ چاپلوسی (۲) حیلے بہانے بنانے
کشف کوئی بڑا کمال نہیں
ان حکایات سے کوئی کشف کو بڑا کمال نہ سمجھا جائے کیونکہ جانور بھی صاحب کشف ہوتے ہیں دلیل اس کی یہ ہے کہ عذابِ قبر کے بارے  میں  حدیث  میں  آیا  ہے۔  یسمعہ  دابۃ  غیر الثقلین  یعنی  اس  کو  سوائے  جن  و  انس  کے  ہر  حیوان  زمین  پر  چلنے  والا  سنتا  ہے۔  پس جو لوگ طالب کشف ہیں وہ نادان ہیں۔ یہ کوئی کمال مقصود نہیں کمال تو اللہ کی رضا اور قرب ہے۔ یہ حکایتیں صرف اس کی تائید میں لایا ہوں کہ اطاعت کرنے والوں کو دنیا میں بھی یہ نعمتیں مل جاتی ہیں کہ مخلوق ان کی عظمت اور اطاعت کرنے لگتی ہے۔ الحاصل بندہ مطیع کی سب شئے مطیع ہو جاتی ہے حتیٰ کہ کفار کے دل میں بھی اس شخص کی محبت ہوتی ہے
دنیا میں اطاعت کے ثمرات
یہ  جزائیں  ہیں  فرمانبرداری  کی  جو  دنیا  میں  ملتی  ہیں  لیکن  اصل مقام  اس  کا  ما بعد الموت ہے۔ اس  واسطے  و اللّٰہ خبیر  بما تعملون  (اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب کاموں کی پوری خبر ہے) سے ما بعد الموت کو یاد دلاتے ہیں اور ما بعد الموت(۱) قبر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے قبر سے جنت دوزخ میں جانے تک جو حالات پیش آنے والے ہیں سب کو فرداً فرداً سوچے کہ مجھ کو مرنا ہے اور قبر میں جانا ہے وہاں منکر نکیر(۲) آئیں گے وہ سوال جواب کریں گے۔ اس کے بعد حشر ہوگا وہاں جو شدت ہوگی اس کو یاد کرئے کہ زمین گرم ہوگی اس پر پاؤں نہ رکھے جائیں گے کہیں سایہ نہ ہوگا۔
سات آدمی سایہ عرش الہٰی میں
سایہ سوائے عرش کے کہیں نہ ہوگا اور وہ سایہ سات آدمیوں کو ملے گا ایک ملک عادل کو دوسرے شاب عابد تیسرے  جس کا دل مسجد میں زیادہ لگتا ہوگا چوتھے جو خلوت میں خدا کو یاد کر کے رونے لگے پانچویں جن دو شخصوں میں اللہ کے واسطے محبت ہو چھٹے جو خفیہ خیرات دے ساتویں جس کو کوئی حسین عورت بلائے اور وہ خدا کے خوف سے رک جائے پھر سوچے کہ حساب کا وقت آئے گا ہر شخص کو الگ الگ بلایا جائے گا۔ وہاں کوئی وکیل بیرسٹر نہ ہوگا۔ جب یہاں کی عدالت کی جرح کا تحمل نہیں تو وہاں کیسے ہوگا۔ پھر صراط(۳) کو یاد کر ئے کہ اس پر چلنا ہوگا، وہ تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہوگا اس کے بعد جہنم اور اس کے قسم قسم کے عذاب کو یاد کرئے۔ غرض کہ ایک وقت مقرر کرکے اسی طرح ہمیشہ بلا ناغہ کم از کم ایک گھنٹہ مراقبہ کر لیا کرئے۔ اول اول تکلف سے یہ یاد ہو گی اور خاص وقت میں یاد ہوگی پھر رفتہ رفتہ اکثر وقت میں اور پھر ہر وقت یہ حالت پیش رہنے لگے گی اور معصیت(۴) چھوٹ جائے گی۔ چنانچہ جن لوگوں پر یہ حالت غالب ہو جاتی ہے اس سے کبھی نافرمانی نہیں ہوتی۔
ایک بادشاہ اور فقیر کی حکایت
یہاں مجھ کو ایک حکایت یاد آ گئی۔ ایک بادشاہ ایک فقیر کے معتقد تھے اور ان کی خدمت میں جایا کرتے تھے اور ہمیشہ دیکھتے تھے کہ وہ فقیر ایک گولی روز کھاتے ہیں۔ بادشاہ نے ایک دن ان سے پوچھا کہ حضرت یہ گولی کیسی ہے۔ فقیر نے ایک گولی بادشاہ کو بھی دے دی۔ بادشاہ نے وہ گولی کھا لی۔ شب(۵) کو اس کو اس کے سبب شہوت کا جوش ہوا کہ محل میں جس قدر بیبیاں لونڈیاں تھیں سب سے قربت کی لیکن ان سے بھی تسلی نہ ہوئی۔ بادشاہ کے دل میں وسوسہ گزرا کہ میں نے یہ گولی آج ہی کھائی ہے میری یہ حالت ہوئی اور فقیر روزانہ کھاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس عورتیں آتی ہیں اور اس وسوسے نے اس کو زیادہ پریشان کیا۔ ان بزرگ کو بذریعہ کشف اس خطرہ کی اطلاع ہوئی۔ جب دوسرے روز بادشاہ آئے تو چاہا کہ ایک تدبیر لطیف سے اس کا وسوسہ زائل کریں۔ ان حضرات کی عادت ہوتی ہے کہ زبان سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ترکیب سے مرض زائل کرتے ہیں (۶)

(۱) مرنے کے بعد کا زمانہ (۲) وہ فرشتے جو سوال کریں گے، ان کے نام ہیں (۳) پل صراط (۴) نافرمانی (۵) رات کو (۶) واقعات کی ترتیب آرہی ہے
حضرت فرید الدین عطارؒ کا اپنے مرید کے عشق مجازی کا علاج
اس پر ایک حکایت یاد آگئی۔ حضرت فرید الدین عطارؒ کے ایک مرید تھے۔ حضرت کے گھر ایک باندی تھی یہ مرید صاحب اس پر فریفتہ ہو گئے، حضرت کو اطلاع ہوئی۔ زبان سے کچھ نہیں فرمایا اس باندی کو دستوں کی دوا پلا دی، اس کو دست آنے شروع ہوئے اور حکم دیا کہ ان دستوں کو ایک جگہ جمع رکھو اور اس باندی کی یہ حالت ہوئی کہ اس کے چہرے کا رنگ پیلا ہو گیا اور چہرے پر بے رونقی ہو گئی اس کے بعد اس باندی کے ہاتھ اس مرید کے پاس کھانا بھیجا اور چھپ کر دیکھا کہ اس کو دیکھتا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ اس کی طرف رخ بھی نہیں کرتا، حضرت نے فرمایا ہم کو تمہارے تعلق
کی اطلاع ہے۔ اب اس کو کیوں نہیں دیکھتے یہ تو وہی ہے اب ہم بتلاتے ہیں کہ اس میں کون سی شئے کم ہوئی ہے اور حکم دیا کہ وہ کونڈا لاؤ جس میں دست جمع ہیں، وہ کونڈا آیا۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہارا محبوب یہ ہے۔
حضرت معروف کرخیؒ کا غیبت کرنے والے پر عتاب
حضرت معروف کرخیؒ کی حکایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے عرض کیا کہ آپ کا فلاں مرید شرب خانے میں مست پڑا ہے۔ حضرت کو غیبت کرنا اس کا برا معلوم ہوا اور اس کو سزا دینا چاہا۔ زبان سے تو کچھ نہیں فرمایا، فرمایا کہ جاؤ کندھے پر اٹھا لاؤ۔ یہ بہت چکرائے اور پچھتائے لیکن کرتے کیا، پیر کا حکم تھا۔ شراب خانے گئے اور اس کو کندھے پر لاد کر لا رہے تھے اور لوگ کہتے تھے کہ بھائی ان صوفیوں کا بھی کچھ اعتبار نہیں دیکھو دونوں نے شراب پی ہے۔ ایک کو تو نشہ ہوگیا اور دوسرے کو اب ہوگا۔ دونوں اپنا اپنا عیب چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
موت کو پیشِ نظر رکھنے کے آثار

چنانچہ اس فقیر نے بھی اس بادشاہ سے زبان سے تو کچھ نہیں کہا ایک لطیف تدبیر سے اس کا علاج کیا۔ وہ یہ کہ اس فقیر نے یہ بات کہی کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تمہاری موت قریب ہے۔ چالیس دن کے اندر تم مر جاؤ گے۔ یہ بات سن کر بادشاہ کا رنگ فق ہوگیا اور چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور جھرنا شروع ہو گیا۔ فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، مرنا تو ایک دن ہے ہی اب تم کو چاہئے کہ اپنا انتظام کر لو۔ اہل حقوق کے حقوق ادا کردو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کرو اور یہ گولیاں کھالیا کرو، ان سے عبادت کی طاقت رہے گی۔ بادشاہ وہاں سے اٹھ کر قلعہ میں آئے وزراء امراء کو بلا کر جملہ امور سلطنت کا انتظام کیا۔ ولی عہد کو سلطنت سپرد کرکے خود ایک حجرے میں بیٹھ گئے۔ جب چالیس روز گزر گئے اور مرے نہیں تو خوش ہوئے لیکن حیرت اور تعجب ہوا کہ شاہ صاحب نے تو پیشین گوئی کی تھی یہ بات کیا ہے؟ خوش خوش شاہ صاحب کے پاس گئے اور عرض کیا کہ حضرت موت تو نہیں آئی۔ فرمایا کہ گولیاں کھائیں تھیں، کہا کہ کھائیں تھیں۔ پوچھا کچھ اثر؟  انہوں نے کہا اثر کیا کرتیں موت تو سامنے کھڑی رہتی تھی۔ فرمایا کہ تم کو تو موت میں چالیس روز کی مہلت بھی تھی باوجود اس مہلت کے تم پر کوئی اثر نہیں کیا اور فقیر کو تو ایک گھڑی کی بھی توقع نہیں پھر مجھ پر ان کا کیا اثر ہوتا۔ تو تمہارا وہ گمان کیسے ہو سکتا ہے۔ بادشاہ اپنے وسوسے پر شرمندہ اور نادم ہوا اور معذرت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم استنجے کے بعد تیمم فرما لیتے تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی تو موجود ہے۔ فرمایا کہ کیا معلوم کہ پانی آنے تک زندہ بھی رہوں۔

صاحبو! موت کو پیش نظر رکھنے کے یہ آثار ہیں۔ اب کبھی کوئی اگر اسے معالجے میں اختیار کرئے گا تو اب بھی وہی نفع ہوگا۔ یہ حاصل ہے اس آیت کا۔

خلاصہ وعظ

خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اوراصلاح کے واسطے مراقبہ موت کا نسخہ استعمال کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جب یہ مراقبہ صحیح ہو جائے گا تو غلطی سے بھی گناہ نہ ہوگا۔۔ اس وقت مجھ کو جو بیان کرنا تھا بیان ہو چکا۔ امید ہے کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

(برحمتک  یا  ارحم  الراحمین)

Book Options

Author: Molana Ashraf Ali Thanvi

Leave A Reply