ہوائی اڈہ روڈ نزد مسجد اقصیٰ۔ رحیم یار خان۔
دوسرا خط
محترم مولانا صاحب دامت برکاتہم
رمضان و شوال۱۰۴۱ھ بمطابق اگست ۱۸۹۱ ء کا شمارہ نمبر۳۔۴/ج ۹۳ زیر نظر ہے۔ مسائل و احکام کے زیر عنوان فضل القیوم نامی سائل کے ایک اہم سوال کے جواب میں آپ نے تحریرفرمایا ہے کہ۔۔۔
”اہل سنت کے نزدیک یزید پر لعنت کرنا جائز نہیں‘ یہ رافضیوں کا شعار ہے“ ۲۶-۷۷ آپ کو معلوم ہے کہ محمود احمد عباسی کی تشدد آمیز تحقیق اور مودودی کی منافقانہ تالیف ”خلافت وملوکیت“ کے بعداس طرح کے یہ مسائل ایک خاص اہمیت حاصل کرچکے ہیں۔اس لئے میں اس عریضہ کے توسط سے مزید تحقیق اور روایات کی تطبیق کا متمنی ہوں۔
آپ کے اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت میں سے کوئی بھی جواز لعنت یزید کا قائل نہیں۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی شہرہئ آفاق کتاب ”السیف المسلول“ میں فرماتے ہیں۔
”فقیر کے نزدیک مختار بات یہ ہے کہ یزید پر لعنت کرنا جائز ہے اور محققین اہل حدیث کا مذہب بھی یہی ہے۔ان میں امام ابو الفرج ابن جوزی بھی ہیں۔علم و جلالت شان میں بہت اونچے‘ انہوں نے اس مسئلہ پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کانام ہے ”الردعلی المتعصب العنید المانع من ذم یزید “ صفحہ۸۸۴۔
ترجمان مسلک اہل دیوبندحکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب مدظلہ العالی ”شہید کربلا اور یزید“ میں فرماتے ہیں۔
”یہ سب شہادتیں ہم نے اس لئے نہیں پیش کیں کہ ہمیں یزید پر لعنت کرنے سے کوئی خاص دلچسپی ہے۔ نہ ہم نے آج تک کبھی لعنت کی‘ نہ آئندہ ارادہ ہے اور نہ ان لعنت ثابت کرنے والے علماء و ائمہ کا منشاء یزیدکی لعنت کو بطور وظیفہ کے پیش کرنا ہے‘ ان کا منشاء صرف یزید کو ان غیر معمولی ناشائستگیوں کی وجہ سے مستحق لعنت قرار دینا یازیادہ سے زیادہ لعنت کا جواز ثابت کرنا ہے“۔ صفحہ ۵۴۱
علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں: ان الامام احمدلما سألہ والدہ عبداللہ عن لعن یزید قال کیف لایلعن من لعنہ اللہ تعالیٰ فی کتابہ فقال عبداللہ قد قرات کتاب اللہ عزوجل فلم اجد فیہ لعن یزید فقال الامام ان اللہ
——————————————————————————————————————————
تعالیٰ یقول:
فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوافی الارض وتقطعواار حامکم اولئک الذین لعنہم اللہ (محمد۔۲۲۔۳۲)
وای فساد و قطعیتہ اشد مما فعلہ یزید۔
چند سطروں کے بعد فرماتے ہیں:
وقد جزم بکفرہ وصرح بلعنہ جماعتہ من العلماء فمنھم الحافظ ناصر السنۃ ابن الجوزی وسبقہ القاضی ابو یعلیٰ وقال العلامۃ التفتازانی ”لانتوقف فی شانہ بل فی ایمانہ لعنۃاللہ علیہ وعلیٰ انصارہ واعوانہ”وممن صرح بلعنہ الجلا ل سیوطی علیہ الرحمۃ (ص۲۷ ج ۶۲)
وانا اقول الذی یغلب علیٰ ظنی ان الخبیث لم یکن مصدقاً برسالۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وان مجموع مافعل مع اہل حرم اللہ تعالیٰ و اہل حرم نبیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام وعترتہ الطیبین الطاھرین فی الحیاۃ وبعد المماۃ وما صدرمنہ من المخازی لیس بضعف دلالۃ علی عدم تصدیقہ من القاء ورقۃ من المصحف الشریف فی قذر۔ ولا اظن ان امرہ کان خافیا علی اجلۃ المسلمین اذ ذاک ولکن کانوامغلوبین مقھورین لم یسعھم الا الصبر لیقضی اللہ امراکان مفعولاً ولوسلم ان الخبیث کان مسلماً فھومسلم جمع من الکبائرمالایحیط بہ نطاق البیان وانا اذھب الیٰ جواز لعن مثلہ علی تعیین (ص ۳۷ج۶۲)
آپ جیسے معتدل اور متین صاحب علم پر ضروری ہے کہ اس مسئلہ کی تنقیح فرماکرجواب عنایت فرمادیں اور اکابرین اہل سنت کے ان مختلف اقوال کے درمیان تطبیق دے کر ذہنی الجھن کو دور فرمادیں۔
احقر
عبدالحق رحیم یار خان
ج۔۔۔۔یہ دونوں خط یزید کے بارے میں افراط وتفریط کے دو انتہائی سروں کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ایک فریق ”حبِ یزید“ میں یہاں تک آگے نکل گیا ہے کہ ”مدحِ یزید“ کو اہل سنت کا شعار ثابت کرنے لگا ہے اس کی خواہش ہے کہ یزید کا شمار اگر ”خلفائے راشدین“ میں نہیں تو کم ازکم ”خلفائے عادلین“ میں ضرور کیاجانا چاہیے‘ اور یزید کے سہ سالہ دور میں جو سنگین واقعات رونما ہوئے‘ یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کا قتل‘ واقعہئ حرہ میں اہل مدینہ
——————————————————————————————————————————
کا قتل عام اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں حرم کعبہ پر یورش‘ ان واقعات میں یزید کو برحق اور اس کے مقابلہ میں اکابر صحابہؓ کوامام برحق کے باغی قرار دیاجائے۔
دوسرافریق ”بغض یزید“ میں آخری سرے پر ہے، اس کے نزدیک یزید کی سیاہ کاریوں کی مذمت کا حق ادا نہیں ہوتا‘ جب تک کہ یزید کودین وایمان سے خارج اور کافر و ملعون نہ کہاجائے۔ یہ فریق یزید کو اس عام دعائے مغفرت و رحمت طلبی کا مستحق بھی نہیں سمجھتا جوامت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے گناہگاروں کے لئے کی جاتی ہے۔
لیکن اعتدال و توسط کا راستہ شاید ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں سے ہوکر گزرتا ہے اور وہ یہ کہ یزید کی مدح سرائی سے احتراز کیا جائے اس کے مقابلہ میں حضرت حسینؓ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ اور دیگراجلّہئ صحابہؓوتابعینؒ(جو یزیدی فوجوں کی تیغ ظلم سے شھیدہوئے) کے ئموقف کو برحق سمجھاجائے،لیکن اس کی تمام تر سیاہ کاریوں کے باوجود چونکہ اس کا خاتمہ برکفر کسی دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہے‘ اس لئے اس کے کفر میں توقف کیا جائے‘ اور اس کا نام لے کر لعنت سے اجتناب کیاجائے جمہور اہل سنت و اکابر اہل دیوبند کا یہی مسلک ہے اور یہی سلامتی کی راہ ہے۔ حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری نور اللہ مرقدہ ”معارف السنن“ میں لکھتے ہیں۔
ویزیدلاریب فی کونہ فاسقاً ولعلمأالسلف فی یزید و قتلہ الامام الحسین خلاف فی اللعن والتوقف قال ابن الصلاح: فی یزید ثلاث فرق فرقۃ تحبہ وفرقۃتسبہ وفرقۃمتوسطۃ لاتتولاہ ولا تلعنہ قال: وھذہ الفرقۃھی المصیبۃ الخ ( ص ۸۔ج۶ )
ترجمہ۔۔۔۔یزید کے فاسق ہونے میں تو کوئی شک نہیں‘ اور علمائے سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ یزید پر اور امام حسینؓ کے قاتلین پرلعنت کی جائے یا توقف کیاجائے۔ابن صلاح کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں تین فرقے ہیں‘ ایک فرقہ اس سے محبت رکھتا ہے ایک فرقہ اس سے بغض رکھتا ہے اور اسے گالیاں دیتا ہے اورایک فرقہ میانہ رو ہے وہ نہ اسے اچھا جانتا ہے اور نہ اس پر لعنت کرتا ہے۔ ابن صلاح کہتے ہیں یہی فرقہ جادہئ صواب پر ہے۔“
حضرت بنوری قدس سرہ کی اس تحریر سے معلوم ہوا کہ یزید کے فسق پر تو اہل سنت کا قریب قریب اجماع ہے۔البتہ اس میں اختلاف رہا ہے کہ یزید پر لعنت کی جائے یا اس کے معاملے میں توقف کیاجائے؟ مکتوب دوم میں اس فریق کی نمائندگی کی گئی ہے۔جو یزید کے ایمان میں بھی شک رکھتا ہے اور بلا تردّد اس پر لعنت کے جواز کا قائل ہے۔اگرچہ یہ قول بھی سلف کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں۔ جمہور اکابر اہل سنت اور اکابر دیوبند اس کو گنہگار مسلمان سمجھتے ہوئے اس پر لعنت کے بارے میں توقف ہی کے قائل ہیں۔
——————————————————————————————————————————
مدح یزید کو اہل سنت کا شعار قراردینا‘ جیسا کہ ہمارے علوی صاحب کی تحریر سے مترشح ہے۔ایک نیا انکشاف ہے جوکم ازکم ہماری عقل وفہم سے بالاتر چیز ہے۔
ہمارے بعض اکابرین کے قلم سے”یزیدپلید“ کا لفظ نکل جاتا ہے۔ میراجومضمون ہفت روزہ ”ختم نبوت“ میں ایک سوال کے جواب میں شائع ہواتھا اس میں ان اکابر کے اس طرزِعمل کی توجیہہ کی گئی تھی کہ یہ یزید کی سیاہ کاریوں کے خلاف بے ساختہ نفرت و غیظ کا اظہارہے۔چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانیؒ مکتوبات شریفہ میں بڑے اہتمام کے ساتھ یزید کے نام کے ساتھ”بے دولت“ کا لفظ لکھتے ہیں‘ شاہ عبدالحق محدثؒ دہلوی مسند السند شاہ عبدالعزیز دہلویؒ‘ حجتہ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ‘ قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور دیگر اکابر ”یزیدپلید“ کا لفظ لکھتے ہیں۔ ہمارے علوی صاحب انکشاف فرماتے ہیں کہ یہ سب ”ننھے منے“ بزرگ تھے۔ ماشاء اللہ! چشم بدُور! اپنے اکابر کا ادب واحترام ہو توایسا ہو۔
میرے لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اگر یہ تمام اکابر ”ننھے منے“ بزرگ تھے تو ان کے مقابلے میں جناب محمدیوسف لدھیانوی یا جناب ارشاد علوی صاحب کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ان اکابر نے حدیث وتاریخ،حالات صحابہؓ اورعقائد اہل سنت کو نہیں سمجھا تھا تو ماوشما کی ”تحقیق“ کا کیا وزن رہ جاتا ہے؟ شاید ہمارے علوی صاحب کے نزدیک ”حضرت یزید رحمتہ اللہ علیہ“ کے مقابلے میں حضرت حسینؓ ‘حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ‘حضرت عبداللہ بن عباسؓ ‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ ‘حضرت ابو شریح ؓ اور واقعہ حرہ کے تمام صحابہؓ وتابعین بھی ”ننھے منے“ بزرگ ہی ہوں گے‘ بلکہ خود حرم مدینہ‘ حرم مکہ اور حرمت بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یزید کے مقابلہ میں ”ننھی منی سی چیز“ہی ہوگی۔ کیونکہ یزید نے آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو بھی ملحوظ نہیں رکھا۔حرم مدینہ کو بھی پامال کیا اورحرم کعبہ پر بھی چڑھائی کی۔اگر یہ تمام چیزیں یزید کے مقابلے میں ”ننھی منی“ ہیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ بس ”یزیدکی محبت“ ہی اسلام کا ایسا مقدس عقیدہ ہے کہ جس کے مقابلے میں نہ حرم مکہ کی کوئی عظمت ہے نہ حرم مدینہ کی‘ نہ خانوادہئ نبوت کی‘ نہ اجلہ صحابہؓ و تابعین ؒکی اور نہ بعد کے تیرہ سو
سالہ اکابر امت کی۔۔۔رہا علوی صاحب کا یہ شبہ کہ بہت سے صحابہؓ و تابعین نے یزید کی بیعت کی تھی‘ان کے بنائے ہوئے خلیفہ کو”پلید“ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اس ناکارہ کے خیال میں یہ شبہ ایسا نہیں کہ کوئی ذی فہم آدمی اس میں الجھ کر رہ جائے۔
——————————————————————————————————————————
جناب علوی صاحب غور فرمائیں کہ یہاں دو بحثیں الگ الگ ہیں۔ ایک یہ کہ یزید کا استخلاف صحیح تھا یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ خلیفہ بن جانے کے بعد اس نے جو کارنامے انجام دئیے وہ لائق تحسین ہیں یا لائق نفرت؟ اور ان کارناموں کی بناء پر وہ اہل ایمان کی محبت اور مدح وستائش کا مستحق ہے‘ یا نفرت و بیزاری اور مذمت و تقبیح کا۔؟
جناب علوی صاحب کا استدلال اگر کچھ مفید ہوسکتا ہے توپہلی بحث میں ہوسکتا ہے کہ چونکہ بہت سے صحابہؓ وتابعینؒ نے اس سے بیعت کرلی تھی۔اسلئے اس کے استخلاف کو صحیح سمجھنا چاہئے۔ہر چند کے اس استدلال پر بھی جرح وقدح کی کافی گنجائش ہے‘ لیکن یہاں استخلاف یزید کا مسئلہ سرے سے زیرِ بحث ہی نہیں‘ اس لئے علوی صاحب کا یہ شبہ قطعی طور پربے محل ہے۔ یہاں تو بحث یزید کے استخلاف کے بعد کے کارناموں سے ہے کہ مسند خلافت پرمتمکن ہونے کے بعداس نے جو کچھ کیا وہ خیر وبرکت کے اعمال تھے یا فسق و فجور کے؟ ان کی وجہ سے وہ ”طاہرومطہر“ کہلانے کا مستحق ہے یا ”پلید وملعون“ کہلانے کا؟ اور ان کارناموں کے بعد اس کے بارے میں اکابر امت نے کیا رائے قائم کی؟ میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اس کے سہ سالہ دور کے تین واقعات مشہور ہیں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کاقتل۔حرم مدینہ کی پامالی اور اہل مدینہ کا قتل عام۔ حرم کعبہ پر فوج کشی۔ کیا کوئی ایسا شخص جس کے دل میں ایمان کی رمق ہو ان سنگین واقعات کے بعد بھی اس کے دل میں یزید کی محبت اور اس کی عزت و عظمت باقی رہ سکتی ہے؟ کیا ہمارے علوی صاحب کسی صحابیؓ یا کسی جلیل القدر تابعی کا حوالہ پیش کرسکتے ہیں؟ کہ انہوں نے ان واقعات پر یزید کو داد تحسین دی ہو؟ اور کیا یہ واقعات ہمارے علوی صاحب کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء کے موجب نہیں ہوئے ہوں گے؟ یزید کی حمایت و مخالفت سے ذہن کو فارغ کرکے ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ جب خانوادہئ نبوت کو خاک وخون میں تڑپایا جارہا ہو‘ جب مدینتہ الرسول میں صحابہ کرامؓ اور ان کی اولاد کو تہہ تیغ کیا جارہا ہو اور حرم کعبہ پر فوج کشی کرکے اس کی حرمت کو مٹایا جارہا ہو اور پھر یہ واقعات ایک کے بعد ایک پے درپے ہورہے ہوں تو کون مسلمان ہوگا جو یزید کے کردار پرصدائے آفرین بلند کرے‘ اور ان تمام سیاہ کاریوں کے باوجود یزید کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہو۔ حق تعالیٰ شانہ‘ ہمیں اپنی مرضیات کی توفیق عطا فرمائیں۔
=================
Download PDF
اہل سنت کے نزدیک یزید پر لعنت کرنا
=================