Qurbani our Ahle Hadees

قربانی اور اہل حدیث

Sharing is Caring

قربانی اور اہل حدیث

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قربانی کا وجود اگرچہ ہر امت میں ثابت ہے۔ مگر تمام روئے زمین پر قربانی کرنا اسلام کا امتیازی نشان ہے۔ یہود صرف ہیکل یروشلم میں قربانی کے قائل ہیں عیسائی کہتے ہیں کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب پر مرجانا ہی ہم سب کی طرف سے قربانی کا بدل ہے۔ جب کہ قرآن پاک نے اس غلط افواہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب پر مرنا تو کجا صلیب پر چڑھنا ہی ثابت نہیں رسول اقدس ﷺ نے ہجرت کے بعد ہر سال قربانی فرمائی۔ کسی بھی سال ترک نہیں فرمائی۔

گذشتہ صدی سے بعض لوگوں میں دین میں خودرائی کا مرض پیدا ہوگیا تو کئی اسلامی مسائل ان کا تختہ مشق بنے۔ چنانچہ قربانی کا مسئلہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ بعض منکرین حدیث نے قربانی کی مخالفت میں لکھا تو اہلسنت والجماعت نے ان کے ہر مغالطہ کاجواب دیا۔ ہمارے اہل حدیث حضرات کو بھی اس معرکہ میں فقہاء کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ فتاویٰ علمائے حدیث میں آئمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کی عبارات سے قربانی کا ثبوت پیش کرکے مخالفین سے مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ان (منکرین قربانی) کو اپنے اس ادعا پر ناز ہے تو پھر ہمیں بھی اپنے ان فقہاء کا پتہ دیں جو قربانی کے مشروع اور مسنون ہونے کے قائل نہیں کہ کون ہیں، کتنے ہیں؟ سنی ہیں یا شیعہ……(ھاتو ابرھانکم ان کنتم صادقین)

لاؤ تو صحیح ذرا میں بھی دیکھ لوں کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی۔

اللہ تعالیٰ سمجھ دے نہ مانیں تو آئمہ اربعہ کو بھی جواب دے دیں ماننے پر آئیں تو شیعہ فقہ بھی برہان بن جائے۔

یہ بھی یاد رکھیے کہ مذکورہ بالا فقہاء اسلام کا یہ اجماع واتفاق قربانی کے مشروع ومسنون ہونے پر خود ایک مستقل اور ناقابل انکار شہادت ہے کیونکہ ان فقہاء کرام کا زمانہ عہد نبوت اور عہد صحابہؓ سے اتنا قریب تھا۔ کہ وہ بڑی آسانی سے شرعی احکام ومسائل پر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ رضی اللہ عنہم کا طرز عمل معلوم کرسکتے تھے کہ تحقیق وتفحص کے تمام ذرائع موجود تھے۔ دیکھیے آئمہ اربعہ کے زمانہ ولادت ووفات کا نقشہ یہ ہے۔

امام ابوحنیفہؓؒ۔ ولادت  ۰۸ھ؁ وفات ۰۵۱ھ؁۔ امام مالکؒ  ولادت ۳۹ھ؁ وفات ۹۷۱ھ؁ امام شافعیؒ ولادت ۰۵۱ھ؁ وفات ۴۰۲ھ؁ امام احمدؒ ولادت ۴۶۱ھ؁ اور وفات ۱۴۲ھ؁ مثلاً امام مالکؒ نے اسی مسئلہ سے نقل فرمائی ہے۔ یعنی مالک نے ابن زبیر مکی سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے وہ حدیث سنی (موطاص ۶۹۴)………… امام ابوحنیفہؒ تو امام مالک سے تیرہ سال بڑے ہیں آپ کا مؤلد ومسکن شہر کوفہ رہا جو حضرت علیؓ کا دارالخلافہ تھا۔ امام ابو حنیفہؒ کی ولادت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے درمیان صرف چالیس برس کا فاصلہ ہے۔ امام موصوف کے زمانہ میں ایسے لوگ ہزاردر ہزار موجود تھے جنہوں نے خلفائے راشدین ؓ کا عہداپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اور صحابہ کرامؓ کی صحبت پائی تھی۔

ایسے میں ان فقہاء کے بارے میں کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ ان کو یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل آڑے آسکتی تھی کہ قربانی کا یہ طرز عمل کب سے اور کیسے رائج ہوا اور کس نے اسے رواج دیا۔

یہی حالت پہلی اوردوسری صدی ہجری کے تمام فقہاء کی ہے ان سب کا زمانہ عہد نبوتؐ اور عہد صحابہؓ سے اتنا قریب تھا کہ ان کے لئے سنت اور بدعت کے درمیان تفریق کرنا کوئی مشکل امر نہ تھا اور وہ آسانی کے ساتھ اس غلط فہمی

کا شکار نہ ہوسکتے تھے کہ جو عمل سنت نہ ہواسے سنت باور کربیٹھیں۔

امت کا متواتر عمل

قربانی کے مشروع ومسنون عمل ہونے پر اس شہادت کے علاوہ ایک اور اہم ترین شہادت امت مسلمہ کے متواتر عمل کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی اور اسکی قربانی جس روز سے شروع فرمائی اس روز سے وہ امت مسلمہ میں عملاً رواج پاگئی اور اس تاریخ سے آج تک دنیا کے تمام اطراف واکناف میں مسلمان ہر سال مسلسل اس پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے چودہ سوسالہ تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہر نسل نے پہلی نسل سے اس کو سنت المسلمین کے طور پر لیا اور اپنے سے بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔ یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ ﷺ کے عہد تک اسطرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہوئی۔ دراصل یہ ویسا ہی تواتر ہے جس تواترکے برتے ہم نے قرآن کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب مانا ہے اور عرب کے در یتیم محمد بن عبداللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول تسلیم کیا ہے۔ کوئی فتنہ اگر اس تواتر کو بھی مشکوک قراردینے کی ٹھان لے تو پھر اسلام میں کونسی چیز شک سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا

مختصر یہ کہ قربانی کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور ایسا گزرا ہو جس میں کسی معتمد فقیہ نے قربانی ایسی سنت مؤکدہ کو مشکوک ٹھہرایا (والحمدللہ علی ذلک)(فتاویٰ علمائے حدیث ص۱۳ج۳۱)

مزید تحریر فرماتے ہیں۔

تحقیق گزیدہ حضرات نے انکار سنت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اسلام کے ان مسائل و احکام میں بھی تشکیک پیداکردینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جن میں مسلمانوں کے درمیان ابتدا سے لے کر آج تک اتفاق موجود ہے گویا ان حضرات کے نزدیک دین کی اصل خدمت اور ملت اسلامیہ کی صحیح خیر خواہی بس یہ رہ گئی ہے کہ متفق علیہ مسائل کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے اختلافی بنادیاجائے اور دین کا کوئی مسئلہ ایسا نہ چھوڑاجائے جس کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہو کہ سب مسلمانوں کے نزدیک یہ اجتماعی مسئلہ ہے۔(فتاویٰ علمائے حدیث ص۴۱ج۳۱)

حضرات منکرین قربانی کو جو فہمائش کی گئی ہے۔ بے شک برحق ہے۔ لیکن اگر یہ حضرات خود اس قانون پر کاربند ہوجائیں تو امت کے کتنے اختلافات مٹ سکتے ہیں خود ان حضرات نے ہی تو یہ راستہ دکھایا۔ چنانچہ ذیل میں ہم ان چندمسائل کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں جن میں ان حضرات نے عملی متواترات سے انحراف کیا ہے۔

(۱)امت میں قرآن کے اوقاف عملاً قربانی کے عمل سے بہت زیادہ متواتر تھے لیکن ان حضرات نے قرآن پاک چھپوایا جس کانام رکھا”مسنون قرأت والا قرآن“ اور اس سے تمام اوقاف حذف کردیے۔

(۲)اسلام میں تقلید کا عمل پہلے دن سے آج تک متواتر ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ مصنف عبدالرزاق میں صحابہ وتابعین کے ہزارہا فتاویٰ بلاذکردلیل درج ہیں لوگوں نے بلامطالبہ دلیل ان پر عمل کیا نہ فتویٰ دینے والوں کو ابلیس کہا گیا نہ عمل کرنے والوں کو مشرک کہاگیا۔ ان حضرات نے اس تواتر سے اعراض کیا۔

(۳) جمعتہ المبارک سے قبل دواذانیں امت میں یقینا قربانی کے عمل سے زیادہ متواتر ہیں۔ مگر فتاویٰ ستاریہ میں

پہلے اذان کو بدعت قراردیا گیا۔

(۴)رمضان المبارک میں بیس تراویح پڑھنا امت میں یقینا قربانی کے تواتر سے زیادہ تواتر ہے۔مگر آج اسلام کی اہم خدمت بیس رکعت تراویح کے خلاف چیلنج بازی کو ہی سمجھاجارہا ہے۔

(۵)باریک جرابوں پر مسح آئمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ یہ امت کے عملی تواتر کے خلاف ہے مگریہ حضرات باریک جرابوں پر مسح کرکے اپنا وضو اورنمازیں خراب کرلیتے ہیں۔

(۶)جس طرح متعہ کے حرام ہونے پر امت کا اجماع ہے اسی طرح تین طلاقیں خواہ کسی طرح دی جائیں اس کے بعد بیوی کے حرام ہونے پر بھی آئمہ اربعہ کا اجماع ہے مگر ان حضرات نے تین کے ایک ہونے پراجماع سے اختلاف کیا۔

(۷)امام ابن تمیمہ فرماتے ہیں یہ استفاضہ (تواتر) سے ثابت ہے کہ آیت واذا قریئ القرآن نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ حضرات کہتے ہیں کہ یہ آیت کافروں کے لئے ہے۔

(۸) ساری امت کا اتفاق ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن میں شامل ہے مگر ان کے عوام اس کا انکارکرتے ہیں۔

(۹)آئمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ مقتدی رکوع میں شامل ہوجائے تو اس کی وہ رکعت پوری شمار ہوتی ہے۔ مگر یہ حضرات اس رکعت کو شمار نہیں کرتے۔

(۰۱)پوری امت کا اتفاق ہے کہ قربانی کے حصہ داروں میں اگر ایک مرزائی ہو توکسی کی قربانی جائز نہیں ہوگی مگر ان حضرات نے فتویٰ دے دیا اگر حصہ داروں میں مرزائی شامل ہو تو قربانی جائز ہے۔ (ملاحظہ ہو فتاویٰ علمائے حدیث ج۳۱ص۹۸)

الغرض جو شکوہ غیرمقلدین کو منکرین حدیث سے ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیداکرنے کو ہی عمل بالقرآن سمجھتے ہیں۔ یہی شکوہ اہلسنت والجماعت کو غیر مقلدین سے ہے۔ کہ جو مسائل اور احکام فقہاء اور عوام میں متواتر چلے آرہے ہیں ان میں شکوک وشبہات پیداکرنے کا عمل بالحدیث رکھا ہوا ہے۔ قربانی کے جانور کے بارہ میں حدیث میں مسنہ کا لفظ آیا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔ فتاویٰ نذیریہ میں ہے۔

مسنہ ہر جانور میں سے ثنی کو کہتے ہیں بکری میں سے جوایک سال کی ہو۔ دوسرا شروع اور گائے بھینس میں سے جودوسال کی ہو تیسرا شروع اور اونٹ کاجوپانچ سال کا ہو، چھٹا شروع ہو۔ (فتاویٰ نذیریہ ج۲ص۲۵ فتاویٰ علمائے حدیث ج۳۱ص۴۲۱)

اس فتویٰ پر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری اور میاں نذیر حسین کے علاوہ سات اور غیر مقلدین کے دستخط ہیں اور علامہ شوکائی نے بھی یہی بیان کیا ہے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اب غیر مقلدین کہتے ہیں کہ مسنہ کایہ معنی فقہاء نے بیان کیا ہے لغت میں اس کا معنی ہے دوندا یعنی جس کے دودانت گرگئے ہوں۔

عرض یہ ہے اگر آپ نے مسنہ میں فقہاء کا بیان کردہ معنی چھوڑ کر لغت کا سہارا لیا ہے تو اگرکوئی شخص ”صلوٰۃ“ کا لغوی معنی ودعا ہی لے یا حج کا لغوی معنی ارادہ کرنا ہی لے اور ارادے کو ہی حج سمجھے اور زکوٰۃ کا لغوی معنی پاکی ہی لے اور ان الفاظ کے شرعی معنی کالحاظ نہ کرے تو پھر آپ ان کو فقہاء کی طرف آنے کی دعوت کیونکر دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو غلط راستہ آپ ہی دکھارہے ہیں کیونکہ اس مسئلہ میں تو آپ بھی فقہاء سے بگڑ گئے ہیں۔

قربانی کے دن

اس بات پر ساری امت کا اتفاق ہے کہ آنحضرت  ﷺ ہمیشہ دس تاریخ کو ہی قربانی کرتے تھے اور اسی دن قربانی کرنے کا ثواب زیادہ ہے اوراس پر بھی امت کا اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عید کے دن فرمایا کہ تین دن

بعد قربانی کا گوشت گھر نہ رکھنا۔ یہ حدیث تقریباً سولہ صحابہؓ سے مروی ہے اور متواتر ہے۔ اس حدیث سے جمہور امت نے یہی سمجھا کہ جب چوتھے دن گوشت کی ایک بوٹی رکھنے کی بھی اجازت نہیں تو پورابکرا قربان کرنا کیسے جائز ہوگا معلوم ہوا قربانی کے تین ہی دن ہیں۔

۱۔مالک عن نافع عن عبداللہ ابن عمر قال الاضحی یومان بعد یوم الاضحی (موطاص ۷۹۴)

مالک اور نافع کی سنہری سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے قربانی کے تین دن ہیں ۰۱،۱۱،۲۱۔

۲۔مالک ان بلغہ عن علی بن ابی طالب مثل ذلک موطا (موطا ص۷۹۴ وصلی فی المحلی ج۷ص۰۲۳)

امام مالک فرماتے ہیں کہ حضرت علیؓ بھی قربانی کے تین دن فرماتے تھے ابن حزم نے المحلی میں اس کی سند بیان کی ہے۔

منکرین حدیث نے اعتراض کیا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ قربانی نہیں کرتے تھے اس کا جواب دیتے ہوئے حضرات مقلدین لکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ اول اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی نے اپنی زندگی بھر عید الاضحی کے موقع پر قربانی نہیں کی تھی تو وہ تین دن تک قربانی کے قائل کس لیے تھے (فتاویٰ علمائے حدیث ص۴۳ج۳۱)

اس فتویٰ میں صاف تسلیم کیا کہ حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ تین دن قربانی کے قائل تھے (۴۔۵۔۶۔۷) امام ابن حزم نے حضرت ابو ہریرہؓ حضرت انسؓ۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عمرؓ سے بھی قربانی کے تین دن روایت کیے ہیں۔  (المحلی ج۷ص۷۷۳)

ہمارے غیر مقلدین دوستوں کا شیوہ یہ ہے کہ معروف روایات پر جو تعامل جاری ہے اس کو مٹانے کے لیے منکر روایات کا سہارا لیا کرتے ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ تین دن کی قربانی کی بنیاد مذکورہ متواتر روایات پر تھی دور صحابہؓ میں تمام مراکز اسلام مکہ مکرمہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کوفہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بصرہ میں حضرت انسؓ اس فتویٰ کی مخالفت نہیں کی۔ مگر ہمارے غیر مقلدین حضرات اس لیے یہ ایک منکر حدیث لے اُڑے کہ:

آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں یعنی ان میں روزہ نہ رکھیں یہ مضمون تقریباً چودہ صحابہؓ نے روایت فرمایا ہے اس کے خلاف حضرت جبیرؓ بن معطم کی روایت میں ایک راوی سلیمان بن موسیٰ الاشدق نے کھانے کی بجائے لفظ ذبح بیان کردیا۔ غیر مقلدین میں سے جو علم حدیث سے معمولی مناسبت بھی رکھتے ہیں وہ اس کو صحیح نہیں مانتے چنانچہ ان کے سابقہ مناظر اعظم مولانا بشیر احمد سہوانی اس کو ضعیف کہتے ہیں (فتاویٰ علمائے حدیث ج۳۱ص۸۷۱) اور سابق امیر جماعت اہلحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی بھی فرماتے ہیں اس کے ہر طریق میں کچھ نہ کچھ نقص ہے (فتاویٰ، علمائے حدیث ج۳۱ص۹۶۱) اور دوسری جگہ تو غصے میں آپے سے باہر ہوکرفرماتے ہیں، بعض کم فہم اور متعصب حضرات سارازور جبیرؓ بن معطم کی حدیث اور اس پر جرح میں صرف کردیتے ہیں۔ حالانکہ جبیرؓ بن معطم کی حدیث استدلال کی بنیادنہیں۔(ص۱۷۱ج۳۱)

الغرض چوتھے دن قربانی کرنا رسول اقدس ﷺ سے تو کجا کسی ایک صحابی سے بھی بسند صحیح ثابت نہیں۔ پھر تکبیرات تشریق تو ۹تاریخ کو بھی کہی جاتی ہیں تو ۹ تاریخ کو بھی قربانی کرنی چاہیے ہاں ان کے مناظر اعظم مولانا بشیر احمد سہوانی نے تویہ رسالہ لکھا ہے ایام النحرمن عاشر ذالحجتہ الی آخر الشھر جس کا خلاصہ فتاویٰ علمائے حدیث ص۵۷۱ج۳۱تاص۰۸۱ج۳۱ پر درج ہے کہ قربانی کے دن بیس یا اکیس ہیں جب تک محرم کا چاند نظر نہ آئے قربانی کرسکتا ہے۔ ضد کی بات الگ ہے ورنہ ان کے مفتی صاحبان بھی چوتھے دن کی قربانی کو پسند نہیں فرماتے حتیٰ کہ ان کے مفتی ابولبرکات احمد صاحب فرماتے ہیں جس کو پہلے دن قربانی میسر ہو اور وہ نہ کرے اور وہ قربانی کو باندھ رکھے اس کا عمل حدیث کے خلاف ہے۔ (فتاویٰ برکاتیہ ص ۵۵۲) اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جس طرح اول وقت نماز پڑھنا افضل ہے آخر وقت نماز پڑھنے کی عادت بنالیں تو نماز تو ہوجائے گی لیکن منافقانہ نماز ہوگی۔

(فتاویٰ علمائے حدیث ص۶۷۱ج۳۱)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ فرمائیں۔ آمین!

Download PDF: Ahle-Hadees-or-Qurbani

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات