کتاب کا نام: المہدی والمسیع کے بارے میں پانچ سوالوں کا جواب

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

کتاب کا سرورق | فہرست مضامین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ۔

آپ کے ساتھ ایک دودفعہ جمعہ نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی، آپ کی تقاریر بھی سنیں، آپ کو دوسرے علمائے کرام سے بہت مختلف پایا، اور آپ کی باتوں اور آپ کے علم سے بہت متاثر ہواہوں، آپ سے نہایت ادب کے ساتھ اپنے دل کی تسلی کے لئے چند ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، امید ہے جواب سے ضرورنوازیں گے۔

۱۔ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں کیا کیا نشانیا ں ہیں؟ اور وہ کب آئیں گے اور کہاں آئیں گے؟

۲۔امام مہدی علیہ السلام کو کیا ہم پاکستانی یا پاکستان کے رہنے والے مانیں گے یا نہیں؟ کیونکہ پاکستانی آئین کے مطابق ایساکرنے والا غیرمسلم ہے؟

۳۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق ذرا وضاحت سے تحریر فرمائیں۔

۴۔حضرت رسول اکرمؐ کی حدیث کے مطابق ایک آدمی کلمہ پڑھنے کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے، یعنی کلمہ صرف وہی آدمی پڑھتا ہے جس کوخداتعالیٰ کی وحدانیت اور خاتم النبیین پر مکمل یقین ہوتا ہے، اس کے باوجود ایک گروہ کو جوصدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے، ان کو کافر کیوں کہاجاتا ہے؟

۵۔اگر آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر مانتے ہیں تو ان کی واپسی کیسے ہوگی؟ اور ان کے واپس آنے پر”خاتم النبیین“ لفظ پر کیا اثر پڑے گا؟

امید ہے کہ آپ جواب سے ضرورنوازیں گے، اللہ تعالیٰ آپ کو مزیدعلم سے سرفراز فرمائے (آمین ثم آمین)

آپ کا مخلص پرویز احمدعابد اسٹیٹ لائف، اسٹیٹ لائف بلڈنگ، نواں شہر، ملتان

جواب | امام مہدی کی نشانیاں

جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصفطفی

امام مہدی کی نشانیاں

امام مہدی رضی اللہ عنہ کی نشانیاں تو بہت ہیں، مگر میں صرف ایک نشانی بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بیت اللہ شریف میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوگی۔ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں:

ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کہ امام مہدیؒ قرب قیامت میں ظاہر ہوں گے، اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک امام برحق ہیں، اور وہ زمین کو عدل وانصاف کے ساتھ بھردیں گے، جیسا کہ ان سے پہلے ظلم اور بے انصافی کے ساتھ بھری ہوئی ہوگی۔۔۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد سے امام مہدیؒ کے خلیفہ ہونے کی پیش گوئی فرمائی۔ اور امام مہدیؒ کی پیروی کرنا ان امور میں واجب ہواجو خلیفہ سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کی خلافت کا وقت آئے گا لیکن یہ پیروی فی الحال نہیں، بلکہ اس وقت ہوگی جبکہ امام مہدیؒ کا ظہورہوگا، اور حجر اسود اورمقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پربیعت ہوگی۔

حضرت شاہ صاحبؒ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حدیث نبویؐ کی روسے

(۱) سچے مہدیؒ کاظہور قرب قیامت میں ہوگا۔

(۲) امام مہدیؒ مسلمانوں کے خلیفہ اور حاکم ہوں گے……اور

(۳) رکن ومقام کے درمیان حرم شریف میں ان کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوگی۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ جن لوگوں نے ہندوستان میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ان کادعویٰ خالص جھوٹ تھا۔

امام مہدی اور آئین پاکستان

امام مہدی اور آئین پاکستان

امام مہدی علیہ الرضوان جب ظاہر ہوں گے تو ان کو پاکستانی بھی ضرورمانیں گے، کیونکہ امام مہدی نبی نہیں ہوں گے، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے، نہ لوگ ان کی نبوت پر ایمان لائیں گے۔ پاکستان کے آئین میں نبوت کا دعویٰ کرنے والوں اور جھوٹے مدعیان نبوت پر ایمان لانے والوں کو غیر مسلم قراردیاگیا ہے، نہ کہ سچے مہدی کے ماننے والوں کو، امام مہدی کا نبی نہ ہونا ایک اور دلیل ہے اس بات کی کہ مرزاغلام احمد قادیانی وغیرہ جن لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور اسی کے ساتھ اپنے آپ کو ”نبی اللہ“ کی حیثیت سے پیش کیا، وہ نبی تو کیا ہوتے! ان کا مہدی ہونے کا دعویٰ بھی جھوٹ اور فریب تھا کیونکہ سچا مہدی جب ظاہر ہوگا تو نبوت کا دعویٰ نہیں کرے گا، نہ وہ نبی ہوگا۔ پس مہدی ہونے کے دعوے کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مدعی جھوٹا ہے۔ ملاعلی قاری شرح فقہ اکبر میں لکھتے ہیں:۔

دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم کفر بالجماع۔  (شرح فقہ اکبر ص۲۰۲)

اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا دعویٰ نبوت کرنا بالاجماع کفر ہے۔

ظاہر ہے کہ جوشخص حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے بالاجماع کافر ہووہ مہدی کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ تومسیلمہ کذاب کا چھوٹا بھائی ہوگا، اس کو اور اس کے ماننے والوں کواگرآئین پاکستان میں ملت اسلامیہ سے خارج قراردیاگیا ہے تو بالکل بجا ہے۔

حیات عیسیٰ علیہ السلام

۳۔  حیات عیسیٰ علیہ السلام

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرآج تک تمام امت محمدیہ (علیٰ صاحبھا الصلوۃ والسلام) کا اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں، قرب قیامت میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کے زمانہ میں جب کانہ دجال نکلے گا تو اس کو قتل کرنے کے لئے آسمان سے اتریں گے۔ یہاں تین مسئلے ہیں:

(۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایاجانا۔

(۲) آسمان پر ان کازندہ رہنا۔

(۳) اورآخری زمانے میں ان کاآسمان سے نازل ہونا۔

یہ تینوں باتیں آپس میں لازم وملزوم ہیں، اور اہل حق میں سے ایک بھی فرد ایسا نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا قائل نہ ہو، پس جس طرح قرآن کریم کے بارے میں ہرزمانے کے مسلمان یہ مانتے آئے ہیں کہ یہ وہی کتاب مقدس ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، اور مسلمانوں کے اس تواتر کے بعد کسی شخص کے لئے یہ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ اس قرآن کریم کے بارے میں کسی شک وشبہ کا اظہارکرے، اسی طرح گذشتہ صدیوں کے تمام بزرگان دین اور اہل اسلام یہ بھی مانتے آئے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالیاگیا اور یہ کہ وہ آخری زمانے میں دوبارہ زمین پر اتریں گے۔ اس لئے نسلاً بعد نسل ہر دور، ہر زمانے، ہرطبقے اور ہرعلاقے کے مسلمانوں کا عقیدہ جو متواتر چلاآتا ہے، کسی مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ اورتردد کی گنجائش نہیں، اور جو شخص ایسے قطعی اجماعی اور متواتر عقیدوں کا انکارکرے وہ مسلمانوں کی فہرست سے خارج ہے۔

۴۸۸۱ء تک مرزا غلام احمد قادیانی کے نزدیک بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ تھے اور قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہونے والے تھے، چنانچہ وہ براہین احمدیہ حصہ چہارم میں (جو ۴۸۸۱ء میں شائع ہوئی) ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ”حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص چھوڑکرآسمانوں میں جابیٹھے۔“ (ص۱۶۳)

ایک اورجگہ لکھتے ہیں: ”ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ“ یہ آیت جسمانی اورسیاست ملکی کے طور پرحضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔اور حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطارمیں پھیل جائے گا (ص۸۹۴/۹۹۴)

ایک اور جگہ اپنا الہام درج کرکے اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:

”عیسیٰ ربکم ان یرحم علیکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکفرین حصیراً“

خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے، اوراگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے، اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قیدخانہ بنارکھا ہے“ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طورپر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے۔ یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف اور احسان کو قبول نہیں کریں گے، اور حق محض جو دلائل واضحہ اورآیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خداتعالیٰ مجرمین سے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اورناراست کانام ونشان نہ رہے گا اور جلال الہی گمراہی کے تخم کواپنی بجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا اور یہ زمانہ اس زمانہ کے لئے بطور ارہاص کے واقع ہواہے۔“ (ص۵۰۵)

مندرجہ بالا عبارتوں سے واضح ہے کہ ۴۸۸۱ء تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ تھے اور قرآن نے ان کے دوبارہ دنیا میں آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ قرآن کریم کے علاوہ خود مرزا صاحب کو بھی الہام ہواتھا، ۴۸۸۱ء سے لے کر اب تک نہ عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ آئے ہیں، اور نہ ان کی وفات کی خبر آئی ہے۔ اس لئے قرآن کریم کی پیش گوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور امت اسلامیہ کے چودہ سوسالہ متواتر عقیدے کی روشنی میں ہر مسلمان کو یقین رکھنا چاہیے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور وہ آسمان سے نازل ہوکر دوبارہ دنیا میں آئیں گے، کیونکہ بقول مرزاغلام احمد قادیانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں ان کے دوبارہ آنے کی پیش گوئی فرمائی ہے۔ مرزاصاحب ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:۔

”مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے باتفاق قبول کرلیاہے۔ اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے، اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا اور بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قال اللہ اور قال الرسول کی عظمت باقی نہیں رہی اس لئے جو بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہو اس کو محالات اور ممتنعات میں داخل کرلیتے ہیں …… مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ فرقہ بھی اسلام میں پیدا ہوگیا جس کا قدم دن بدن الحاد کے میدانوں میں آگے ہی آگے چل رہا ہے“  (ازالہ اوہام ص۷۵۵)

مرزا صاحب کے ان حوالوں سے مندرجہ ذیل باتیں واضح ہوئیں:

اول: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے کی قرآن کریم نے پیش گوئی کی ہے۔

دوم: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں بھی یہی پیش گوئی کی گئی ہے۔

سوم: تمام مسلمانوں نے باتفاق اس کو قبول کیا ہے، اور پوری امت کا اس عقیدے پر اجماع ہے۔

چہارم: انجیل میں خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی اس پیش گوئی کی تصدیق وتائید کرتا ہے۔

پنجم: خود مرزا صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی اطلاع الہام کے ذریعے دی تھی۔

ششم: جوشخص ان قطعی ثبوتوں کے بعد بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کونہ مانے وہ دینی بصیرت سے یکسرمحروم اور ملحد وبے دین

مسلمان کو ن ہے اور کافر کون؟

۴۔  مسلمان کو ن ہے اور کافر کون؟

مسلمان وہ شخص کہلاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پورے دین کو دل وجان سے تسلیم کرتا ہو۔ کلمہ طیبہ ”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ اس پورے دین کو ماننے کا مختصر عنوان ہے۔ کیونکہ جوشخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا ہے وہ لازماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات کو بھی مانے گا۔ اس کے برعکس جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کسی قطعی یقینی اور متواتر چیز (جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے) کو نہیں مانتا وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتا ہے۔اس کا کلمہ پڑھنا محض جھوٹ، فریب اور منافقت ہے۔ چنانچہ منافق بھی یہ کلمہ پڑھتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”واللہ یشہدان المنافقین لکذبون۔“ یعنی ”اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق قطعاً جھوٹے ہیں“

منافق لوگ ایمان کا دعویٰ بھی کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعویٰ کو بھی غلط قراردیا اور فرمایا: ”وماھم بمومنین یخادعون اللہ والذین آمنوا“یعنی یہ لوگ ہرگز مومن نہیں۔ محض خداکو اور اہل ایمان کودھوکہ دینے کے لئے ایمان کادعویٰ کرتے ہیں۔“پس ان کے کلمہ طیبہ پڑھنے اور ایمان کادعویٰ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹے اور بے ایمان کہا تو اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی کہ وہ کلمہ صرف زبانی پڑھتے تھے، اور ایمان کادعویٰ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کرتے تھے، ورنہ دل سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دین کی جوباتیں ارشادفرماتے تھے ان کوصحیح نہیں سمجھتے تھے۔ پس اس سے یہ اصول نکل آیا کہ مسلمان ہونے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایک ایک بات کو دل وجان سے مانناشرط ہے، اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی کسی ایک بات کو بھی جھٹلاتا ہے،یا اس میں شک وشبہ کااظہارکرتا ہے، وہ مسلمان نہیں، بلکہ پکا کافر ہے۔ اور اگروہ کلمہ پڑھتا ہے تو محض منافقت کے طورپر مسلمانوں کو دھوکادینے کے لئے پڑھتا ہے۔

یہاں ایک اور بات کابھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ ایک ہے الفاظ کو ماننا، اور دوسرا ہے معنی ومفہوم کو ماننا۔ مسلمان ہونے کے لئے صرف دین کے الفاظ کو ماننا کافی نہیں، بلکہ ان الفاظ کے جو معنی ومفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرآج تک تواترکے ساتھ تسلیم کئے گئے ہیں ان کو بھی مانناشرط اسلام ہے۔ پس اگرکوئی شخص کسی دینی لفظ کوتومانتا ہے، مگر اس کے متواتر معنی ومفہوم کو نہیں مانتا، بلکہ اس لفظ کے معنی وہ اپنی طرف سے ایجادکرتا ہے، توایسا شخص بھی مسلمان نہیں کہلائے گا، بلکہ کافر وملحد اور زندیق کہلائے گا۔

مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں ایمان رکھتا ہوں کہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہواتھا، مگر میں یہ نہیں مانتا کہ قرآن سے مراد یہی کتا ب ہے، جس کو مسلمان قرآن کہتے ہیں، تو یہ شخص کافر ہوگا۔

یامثلاًایک شخص کہتا ہے کہ میں ”محمد رسول اللہ“ پر ایمان رکھتا ہوں۔ مگر ”محمد رسول اللہ“ سے مراد مرزاغلام احمد قادیانی ہے کیونکہ مرزاصاحب نے وحی الہی سے اطلاع پاکریہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ”محمد رسول اللہ“ ہیں چنانچہ وہ اپنے اشتہار ”ایک غلطی کا ازالہ“ میں لکھتے ہیں:

”پھر اسی کتاب (براہین احمدیہ) میں یہ وحی اللہ ہے: ”محمدرسول اللہ والذین معہ اشداہ علی الکفار رحماء بینھم۔“ اس وحی الہیٰ میں میرانام محمد رکھا گیا اور رسول بھی“

یامثلا ایک شخص کہتا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ مسلمانوں پر نمازفرض ہے، مگراس سے یہ عبادت مراد نہیں جوپنج وقتہ اداکی جاتی ہے تو ایسا شخص مسلمان نہیں۔

یامثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسیٰ علیہ السلام کے قرب قیامت میں آنے کی پیش گوئی کی ہے۔ مگر ”عیسیٰ بن مریم“سے مراد وہ شخصیت نہیں جس کو مسلمان عیسیٰ بن مریم کہتے ہیں، بلکہ اس سے مرادمرزا غلام احمد قادیانی یا کوئی دوسراشخص ہے توایسا شخص بھی کافر کہلائے گا۔

یامثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر اس کے معنی وہ نہیں جو مسلمان سمجھتے ہیں کہ آپؐ آخری نبی ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو نبوت نہیں عطاکی جائے گی، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اب نبوت آپؐ کی مہر سے ملاکرے گی، توایسا شخص بھی مسلمان نہیں بلکہ پکا کافر ہے۔

الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے تمام حقائق کو ماننااور صرف لفظاً نہیں بلکہ اسی معنی ومفہوم کے ساتھ ماننا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرآج تک متواتر چلے آتے ہیں۔ شرط اسلام ہے۔ جوشخص دین محمدیؐ کی کسی قطعی اور متواتر حقیقت کا انکارکرتا ہے، خواہ لفظاً ومعنیً دونوں طرح انکارکرے،یا الفاظ کو تسلیم کرکے اس کے متواتر معنی ومفہوم کاانکارکرے، وہ قطعی کافر ہے، خواہ وہ ایمان کے کتنے ہی دعوے کرے، کلمہ پڑھے، اور نمازروزے کی پابندی کرے۔اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کسی ایک بات کو جھٹلانا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوجھٹلانا ہے۔ اورجوشخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات کوبھی جھٹلاتا ہے یااسے غلط کہتا ہے، یااس میں شک وشبہ کااظہارکرتا ہے وہ دعویٰ ایمان میں قطعاًجھوٹا ہے۔

کفرکی ایک اور صورت

کفرکی ایک اور صورت

اسی طرح جوشخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کسی بات کا مذاق اڑاتا ہے وہ بھی کافر اور بے ایمان ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی قطعی پیش گوئی فرمائی ہے، جیسا کہ اوپر گزرچکا ہے۔ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ بھی کافر ہوگا،کیونکہ یہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامذاق اڑاتا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامذاق اڑانا (نعوذباللہ ثم نعوذباللہ) خالص کفر ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص کسی نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرتے ہوئے کہتا ہے:

”ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طورپرجھوٹی نکلیں، اورکون زمین پر ہے، جو اس عقدے کو حل کرے۔“

(اعجاز احمدی ص۴۱مصنفہ مرزاغلام احمد قادیانی) توایسا شخص بھی کافرہوگا، کیونکہ ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا تمام نبیوں کو بلکہ نعوذباللہ خداتعالیٰ کوجھوٹا کہنے کے ہم معنی ہے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص خداکے نبی کی توہین کرتا ہے، مثلاً یوں کہتا ہے:”لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کرثابت نہیں ہوتی بلکہ یحیی نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے، کیونکہ وہ شراب نہیں پیتاتھا اور کبھی نہیں سناگیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکراپنی کمائی کے مال سے اس کے سرپرعطر ملا تھا۔ یاہاتھوں یااپنے سرکے بالوں سے اس کے بدن کوچھواتھا یاکوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے قرآن میں یحییٰ کانام ”حصور“ رکھا۔ مگر مسیح کا نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام رکھنے سے مانع تھے“

(وافع البلاء صفحہ مصنفہ مرزاغلام احمد قادیانی)

ایسا شخص بھی دعویٰ اسلام کے باوجود اسلام سے خارج اور پکاکافر ہے۔

اسی طرح اگرکوئی شخص حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت ورسالت کا دعویٰ کرے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے یامعجزہ دکھانے کا دعویٰ کرے یاکسی نبی سے اپنے آپ کو افضل کہے، مثلاً یوں کہے:

ابن مریم کے ذکر کوچھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

(وافع البلاء صفحہ مصنفہ مرزاغلام احمد قادیانی)

اس شعر کا کہنے والا اور اس کو صحیح سمجھنے والا پکا بے ایمان اور کافر ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو عیسیٰ ۱بن مریم علیہما السلام سے بہتر اور افضل کہتا ہے۔ یایوں کہے:

محمد پھر اترآئے ہیں ہم میں

اورآگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں

محمد دیکھنے  ہوں جس نے اکمل

غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں

(اخبار بدرقادیان جلد۲ش ۳۴ مورخہ ۵۲ اکتوبر ۶۰۹۱ء)

ایسا شخص بھی پکا بے ایمان اور کافر ہے۔اور اس کا کلمہ پڑھنا اہلہ فریبی اورخودفریبی ہے۔

خلاصہ یہ کہ کلمہ طیبہ وہی معتبر ہے جس کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کسی حقیقت کی قولاً یا فعلاً تکذیب نہ کی گئی ہو۔ جوشخص ایک طرف کلمہ پڑھتا ہے اور دوسری طرف اپنے قول یا فعل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی کسی بات کی تکذیب کرتا ہے اس کے کلمہ کا کوئی اعتبارنہیں،جب تک کہ وہ اپنے کفریات سے توبہ نہ کرے، اور ان تمام حقائق کو، جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اسی طرح تسلیم نہ کرے جس طرح کہ ہمیشہ سے مسلمان مانتے چلے آئے ہیں، اس وقت وہ مسلمان نہیں، خواہ لاکھ کلمہ پڑھے۔

جن لوگوں کو کافر کہاجاتا ہے وہ اسی قسم کے ہیں کہ بظاہر کلمہ پڑھتے ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا مذاق اڑاتے ہیں، آپ خود انصاف فرمائیں کہ ان کو کافرنہ کہاجائے تو کیا کہاجائے؟

جس گروہ کی وکالت کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ”وہ صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے“ اس کے بارے میں آپ کومعلوم ہوناچاہیے کہ وہ لعین قادیان، مسیلمہ پنجاب مرزاغلام احمدقادیانی کو ”محمد رسول اللہ“ مان کر کلمہ ”لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ“ پڑھتا ہے۔ اس کی پوری تفصیل آپ کو میرے رسالہ ”قادیانیوں کی طرف سے کلمہ طیبہ کی توہین“ میں ملے گی، یہاں صرف مرزابشیر احمد قادیانی کا ایک حوالہ ذکرکرتا ہوں۔ مرزابشیر احمد لکھتا ہے:

”مسیح موعود (مرزاقادیانی) کی بعثت کے بعد ”محمد رسول اللہ“ کے مفہوم میں ایک اور رسول (یعنی مرزاقادیانی) کی زیادتی ہوگئی، لہذا مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے آنے سے نعوذ باللہ ”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ“ کا کلمہ باطل نہیں ہوتا، بلکہ اور بھی زیادہ شان سے چمکنے لگتا ہے۔“

آگے لکھتا ہے:

”ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ مسیح موعود (مرزاقادیانی) نبی کریمؐ سے کوئی الگ چیز نہیں ……پس مسیح موعود (مرزاقادیانی) خود ”محمدؐ رسول اللہ“ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر ”محمدؐرسول اللہ“ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی فتدبرو“

(کلمتہ الفصل ص ۸۵۱ ازمرزا بشیر احمد قادیانی)

پس جوگروہ ایک ملعون، کذاب دجال قادیان کو ”محمد رسول اللہ“مانتاہو، اور جو گروہ اس دجال قادیان کو کلمہ طیبہ”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کے مفہوم میں شامل کرکے اس کا کلمہ پڑھتا ہواس گروہ کے بارے میں آپ کا یہ کہناکہ”وہ صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے“ نہایت افسوسناک ناواقفی ہے، ایک ایسا گروہ، جس کاپیشواخود کو ”محمد رسول اللہ“ کہتا ہو، جس کے افراد

محمد پھر اتر آئے ہم میں

اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں

کے ترانے گاتے ہوں، اور اس نام نہاد ”محمدرسول اللہ“ کو کلمہ کے مفہوم میں شامل کرکے اس کے نام کا کلمہ پڑھتے ہوں۔ کیا ایسے گروہ کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ”وہ صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہے“ اور کیا ان کے کافر بلکہ اکفر ہونے میں کسی مسلمان کو شک وشبہ ہوسکتا ہے؟

نزول عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت

۵۔  نزول عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا لفظ ”خاتم النبیین“ کے منافی نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی جوفہرست حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی پر مکمل ہوگئی ہے، جتنے لوگوں کو نبوت ملنی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پہلے مل چکی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کونبوت نہیں دی جائے گی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص منصب نبوت پر فائز نہیں ہوگا۔ شرح عقائد نسفی میں ہے:  ”اول الانبیاء آدم وآخرھم محمد صلی اللہ علیہ وسلم“

”یعنی سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبی ہیں، اور مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے جن انبیاء کرام علیھم السلام پر ایمان رکھتے ہیں، ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں پس جب وہ تشریف لائیں گے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبی ہونے کی حیثیت سے تشریف لائیں گے، ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت نہیں دی جائے گی، اور نہ مسلمان کسی نئی نبوت پر ایمان لائیں گے لہذا ان کی تشریف آوری لفظ خاتم النبیین کے منافی نہیں۔ ان کی تشریف آوری ”خاتم النبیین“ کے خلاف تو جب سمجھی جاتی کہ ان کو نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملی ہوتی، لیکن جس صورت میں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے نبی ہیں تو حصول نبوت کے اعتبار سے آخری نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی رہے۔

اس تشریح کے بعد میں آپ کی خدمت میں دوباتیں اور عرض کرتا ہوں:

ایک یہ کہ تمام صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین، مجددین اور علمائے امت ہمیشہ سے ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر بھی ایمان رکھتے آئے ہیں، اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے پربھی ان کا ایمان رہاہے، اور کسی صحابیؓ، کسی تابعیؒ، کسی امامؒ، کسی مجددؒ، کسی عالم کے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا خاتم النبیین کے خلاف ہے، بلکہ وہ ہمیشہ یہ مانتے آئے ہیں کہ خاتم النبیین کامطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کسی شخص کو نبوت نہیں دی جائے گی، اور یہی مطلب ہے آخری نبی کا۔ شیخ السلام حافظ ابن حجر عسقلانی ”الاصابہ“ میں لکھتے ہیں:

فوجب حمل التقی علیٰ انشاء النبوۃ، لکل احد من الناس لاعلیٰ وجود نبی قد نبی قبل ذالک۔  (ص ۵۲۴ج۱)

”آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں“، اس نفی کو اس معنی پر محمول کرنا واجب ہے کہ آپؐ کے بعد کسی شخص کو نبوت عطانہیں کی جائے گی، اس سے کسی ایسے نبی کے موجود ہونے کی نفی نہیں ہوتی جو آپؐ سے پہلے نبی بنایاجاچکا ہو۔“

ذراانصاف فرمائیے کہ کیا یہ تمام اکابر خاتم النبین کے معنی نہیں سمجھتے تھے؟ دوسری بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اناخاتم النبیین لانبی بعدی (شکوۃ:ص۵۶۲): میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

اسی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں یہ پیش گوئی بھی فرمائی ہے کہ قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، جیسا کہ پہلے باحوالہ نقل کرچکا ہوں، مناسب ہے کہ یہاں دوحدیثیں ذکرکردوں۔

اول: عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس بینی وبینہ، نبی یعنی عیسیٰ علیہ السلام، وانہ نازل فاذارائیتموہ فاعرِ فوہ رجل مربوع، الی الحمرۃ والبیاض، بین ممترتین، کانہ راسہ یقطروان لم یصبہٰ بلل فیقاتل الناس علی الاسلام، فیدق الصلیب، ویقتل الخنزیر، ویضع الجزےۃ، ویھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الاالاسلام، ویھلک المسیح الدجال، فیمکث فی الارض اربعین سنتہ، ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون۔  (ابوداؤد ص۴۹۵ج۲،مسنداحمدص۷۳۴ج۲، تفسیر ابن جریرص۶۱ج۶،درمنشورص۲۴۲ج فتح الباری ص۷۵۳ج۶)

اول: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔اور بے شک وہ نازل ہوں گے۔پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا۔ وہ میانہ قد کے آدمی ہیں۔سرخی سفیدی مائل دوزردچادریں زیب تن ہوں گی۔گویا ان کے سرسے قطرے ٹپک رہے ہیں۔اگرچہ اس کوتری نہ پہنچی ہو۔پس لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے۔پس صلیب کوتوڑیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو موقوف کردیں گے، اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں اسلام کے علاوہ باقی تمام ملتوں کو مٹادیں گے، اوروہ مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے، پس چالیس برس زمین پر رہیں گے۔ پھر ان کی وفات ہوگی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔

دوم: عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لقیت لیتہ اُسری بی ابراہیم وموسےٰ وعیسیٰ قال فتذاکرواامرالساعۃ، فردوا امرھم الی ابراھیم، فقال لاعلم لی بھا، فردواالامرالی موسیٰ، فقال لاعلم لی بھا، فردواالامرالی عیسیٰ فقال اماوجبتھا فلایعلمھا الا اللہ تعالیٰ ذالک، وفیما عھدالی ربی عزوجل ان الدجال خارج قال ومعی تضیبان، فاذارانی ذاب کما یذوب الرصاص، قال فیھلکہ اللہ (وفی رواےۃ ابن ماجہ: قال: فانزل فاقتلہ)…… الی قولہ……ففیما عھد الی ربی عزوجل ان ذالک اذا کان کذالک فان الساعتہ کالحامل المتم التی لایدری متیٰ تفجاء ھم بولاد ھالیلااونھاراً۔

(ابن ماجہ ص۹۰۳، مسنداحمد ص۵۷۳ج۱‘ ابن جریرص۲۷ج۷۱، مستدرک حاکم ص۸۸۴،۵۴۵ج۴، فتح الباری ص۹۷ج۳۱‘ درمنشور ص۶۲۳ج۴)

دوم: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ  (اوردیگر انبیاء کرام) علیہم السلام سے ہوئی، مجلس میں قیامت کا تذکرہ آیا (کہ قیامت کب آئے گی) سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا مجھے علم نہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بھی فرمایا مجھے علم نہیں۔پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ قیامت کا ٹھیک وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اور میرے رب عزوجل کا مجھ سے ایک عہد ہے کہ قیامت سے پہلے دجال نکلے گا تو میں نازل ہوکر اس کوقتل کروں گا۔ میرے ہاتھ میں دوشاخیں ہونگی۔ پس جب وہ مجھے دیکھے گا تو سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا۔پس اللہ تعالیٰ اس کوہلاک کردیں گے (آگے یاجوج ماجوج کے خروج اور ان کی ہلاکت کاذکر کرنے کے بعد فرمایا) پس میرے رب کاجومجھ سے عہد ہے وہ یہ ہے کہ جب یہ ساری باتیں ہوچکیں گی توقیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ کی ہوگی جس کے بارے میں کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کس وقت اچانک اس کے وضع حمل کا وقت آجائے، رات میں یا دن میں۔

یہ دونوں احادیث شریفہ مستند اور صحیح ہیں۔ اب غورفرمائیے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ان کو دوبارہ زمین پر نازل کرنے کا عہد کرتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرات انبیاء علہیم السلام کی قدسی محفل میں اس عہد خداوندی کا اعلان فرماتے ہیں، اورہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس گفتگو کا اظہار واعلان امت کے سامنے فرماتے ہیں۔اس کے بعد کون مسلمان ہوگا جو اس عہد خداوندی کا انکارکرنے کی جرات کرے؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا آیت خاتم النبیین کے خلاف ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نازل کرنے کا کیوں عہدکرتے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے کیوں بیان فرماتے؟ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امت کے سامنے کیوں اعلان فرماتے؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جولوگ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے منکر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی، تمام انبیاء کرام کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور پوری امت اسلامیہ کی تکذیب کرتے ہیں غورفرمائیے ایسے لوگوں کا اسلام میں کیاحصہ ہے؟ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔

محمد یوسف عفااللہ عنہ

۶۲/۷/۱۰۴۱ھ

ضمیمہ

ضمیمہ

سلام مسنون

کے بعد عرض ہے کہ میں کافی دنوں سے پریشان ہوں اوراپنی پریشانی کا تذکرہ یہاں کے تمام علماء سے کیا لیکن مجھے کسی سے بھی تشفی نہیں ہوئی۔ اب آپ سے اسلئے رجوع کررہا ہوں کیونکہ آپ کے علم اور تحقیق کا ملک بھر میں چرچا ہے، اسلیے اس خط میں ذکر ہونے والی میری گزارشات کا برائے احسان وکرم مختصر ساجواب ارشاد نقل فرمادیں۔ اور ساتھ ہی اگر کسی کتاب کا کوئی حوالہ ہووہ بھی درج فرمادیں، وہ گزارشات یہ ہیں۔

۱۔ حضرت محمد بن عبداللہ المعروف بہ امام مہدی کو لوگ کس وقت خلیفہ تسلیم کریں گے؟

۲۔ امام مہدی صرف مکہ اور مدینہ یا عرب کے لئے ہوں گے یا پوری دنیا کے لئے؟

۳۔وقت خلافت عوام میں امام مہدی کی کتنی عمر گزرچکی ہوگی اور پھر خلیفہ بننے کے بعد امام مہدی کی قیادت میں اسرائیل سے جو جنگ ہوگی وہ خلیفہ بننے کے کتنا عرصہ بعد تک جاری ہوگی؟

۴۔ امام مہدی کیا کسی جنگ میں شہیدہوں گے یا ان کا انتقال ہوگا؟

۵۔ امام مہدی کن خصائل کی بناپر عوام کے خلیفہ بنیں گے؟

۶۔ امام مہدی کے پیروکاروں کی تعداد اندازاً ان کے اپنے وقت میں کتنی ہوگی؟

۷۔بعض حضرات امام کے متعلق جوغاروالا خاص عقیدہ رکھتے ہیں اس میں کتنی صداقت ہے اور اہل سنت حضرات کو اس بارے میں کیا خیال رکھنا چاہیے؟۸۔حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ا گر مسجد اقصیٰ سے ہوگا تو وہ اس وقت تک آزاد ہوچکی ہوگی یا نہیں اور پھر کیا اترتے ہی حضرت مسیح علیہ السلام نماز عصر کے وقت جنگی صفوں میں شامل ہوجائیں گے اور قیادت امام مہدی کی ہوگی؟

۹۔حضرت امام مہدی کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خلافت کا چناؤ کس طرح ہوگا؟ یعنی مسیح علیہ السلام اپنے خلیفہ ہونے کا دعویٰ خودکریں گے یا عوام بنائیں گے؟

۰۱۔ دجال کا سامنا امام مہدی سے ہوگا یا حضرت مسیح علیہ السلام سے ہوگا؟

۱۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت کتنا عرصہ ہوگی اور خلافت کے خاتمے کا کیاسبب ہوگا؟

۲۱۔ قیامت کا ظہور حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہوگا یا بعد میں؟

۳۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت مکہ ومدینہ میں ہوگی یا پورے عرب میں یا پورے جہاں میں؟

۴۱۔ فتنہ دجال کب واقع ہوگا اور دجال سے مقابلہ امام مہدی کا ہوگا یا حضرت مسیح علیہ السلام کا ہوگا؟

۵۱۔ فتنہ دجال سے مقابلہ پورے عرب میں ہوگا یا تمام جہاں میں؟

۶۱۔ کیادجال کا خاتمہ خلیفہ حق کی زندگی میں ہوگا یا بعد میں کوئی اور حالت ہوگی؟ اور کس کے ہاتھ سے دجال قتل ہوگا؟

۷۱۔ حضرت خضر علیہ السلام کی وفات سمندر یا پانی میں ہوئی جیسا کہ مشہور ہے؟

۸۱۔ حضرت اویسؒ قرنی ولی تھے یا صحابی یا فقط ولی تھے، گویا کیا تھے؟

۹۱۔ خرگوش کو حیض آتا ہے۔پھر اسکی وجہ حرمت کیا ہے جیسا کہ مشہور ہے؟

۰۲۔پنجہ سے پکڑکرچیز کھانے والا جانورحرام ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ حلال ہے؟ جیسا کہ یہ مسئلہ مشہور ہے۔ پھر طوطا اور یہ عام دیواری کواکیوں حلال ہے؟ توپھر کیا گوہ، گدھ اور پہاڑی کوا بھی حلال ہے؟

۱۲۔اور کیا یہ صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ امام جعفر کے شاگرد ہیں تو پھر ان دونوں میں سے علم وعمل اور درجہ کے اعتبار سے کسی امام کو اولیت واولویت دینی چاہیے؟

۲۲۔ کیابعض حضرات کے بارہ امام قرآن وحدیث کی روشنی میں برحق تھے اور واقعی امام تھے؟

۳۲۔ اہلسنت حضرات کو بارہ اماموں کے متعلق کیا اور کیسا عقیدہ رکھنا چاہیے؟

۴۲۔ مسیح علیہ السلام اور امام مہدی کا مرکز تبلیغ کون سی جگہ ہوگی؟

۵۲۔جیسا کہ مشہور ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک نجدی کو دیکھ کر کہاتھا کہ یہ شخص حرم پاک کی بے حرمتی اور پورے عرب اور جہاں میں فتنہ وفساد کا سبب ہوگا؟ جب کہ خانہ کعبہ کی پہلی اینٹ گرانے والے کے متعلق آتا ہے کہ وہ حبشی اور چھوٹے قد کا یہودی ہوگا۔

طالب دعا

رانامحمداشفاق خان

مکان ۱۶۲۱ محلہ جنڈی والا کمالیہ شہر

ضلع فیصل آباد۔

آپ کے مرسلہ سوالات کا مختصر ساجواب پیش خدمت ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرم ومحترم۔ زید مجد کم سلام مسنون

آپ کے مرسلہ سوالات کا مختصر ساجواب پیش خدمت ہے۔ ۱۔حضرت مہدی علیہ الرضوان سے بیعت کس سنہ اور کس مہینے کی کس تاریخ کو ہوگی؟ یہ معلوم نہیں۔ حدیث میں یہ بتایاگیا ہے کہ ایک خلیفہ کی وفات پر اس کے جانشین کے مسئلہ پر اختلاف ہوگا۔ حضرت مہدی علیہ السلام اس خیال سے کہ یہ بارکہیں ان کے کندھے پر نہ ڈال دیاجائے مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ آجائیں گے۔ وہاں انکی شناخت کرلی جائے گی اور ان کے انکاروگریز کے باوجود انہیں اس ذمہ داری کو قبول کرنے پر مجبورکیاجائے گااور حرم شریف میں حجراسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت ہوگی۔

۲۔ ان کی خلافت عرب وعجم سب کے لئے ہوگی۔

۳۔ بوقت خلافت ان کاسن چالیس برس کا ہوگا۔ سات برس خلیفہ رہیں گے۔دوبرس حضرت عیسی علیہ السلام کی رفاقت میں گزریں گے۔ کل عمر ۹۴ برس ہوگی۔اسرائیل کے ساتھ ان کی جنگ کے بارے میں کوئی روایت مجھے معلوم نہیں البتہ رومیوں کے ساتھ ان کا جہاد کرناروایات میں آتا ہے یہ جہاد سات سال تک جاری رہے گا اس کے بعد دجال کا ظہورہوگا اور حضرت مہدیؓ دجال کی فوج کے مقابلہ میں صف آراہوں گے اس اثنا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور حضرت مہدیؓ ان کی رفاقت میں دجال کی فوج کے خلاف جہادکریں گے۔

۴۔جنگ میں شہید نہیں ہوں گے۔ یہ نہیں بتایاگیا کہ کہاں وفات ہوگی صرف اتنا آتا ہے ثم یموت ویصلی علیہ المسلمون۔ (مشکوۃ ص۱۷۴) یعنی ”پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نمازجنازہ پڑھیں گے“

۵۔احادیث میں حضرت مہدی کا حلیہ ذکرکیاگیا ہے جس سے انکی پہچان ہوگی، اور کچھ اسباب من جانب اللہ ایسے رونما ہونگے کہ وہ قبول خلافت پر اور لوگ ان کی بیعت پر مجبور ہوجائیں گے۔

۶۔حضرت مہدیؓ کے رفقاء کی تعداد کا علم اللہ تعالیٰ کے سواکسی کو نہیں، وہ تمام مسلمانوں کے امام ہوں گے اور بے شمارلوگ ان کے رفیق ہونگے،ایک روایت کے مطابق پہلی بیعت (جورکن ومقام کے درمیان ہوگی) کرنے والوں کی تعداد ۳۱۳ ہوگی۔ مگر یہ روایت کمزورہے۔ اوربعض اکابر نے اس کو صحیح قراردیا ہے۔

۷۔حضرت مہدیؓ کے بارے میں ان حضرات کا یہ عقیدہ کہ وہ کسی نامعلوم غارمیں روپوش ہیں اہل سنت کے نزدیک صحیح نہیں۔

۸۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت مسجداقصیٰ مسلمانوں کی تحویل میں ہوگی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام جامع دمشق کے شرقی منارہ کے پاس اتریں گے، اور پہلی نماز میں حضرت مہدیؓ کی اقتداء کریں گے، بعد میں امامت کے فرائض حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنفس نفیس انجام دیاکریں گے، اور جہاد کی قیادت بھی آپ کے ہاتھ ہوگی۔ حضرت مہدیؓ ان کے رفیق اور معاون کی حیثیت اختیارکریں گے۔

نوٹ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کی متواتر احادیث میں خبر دی ہے۔ ”مسیح موعود“ کی اصطلاح اسلامی لٹریچیر میں نہیں آئی، یہ اصطلاح مرزاغلام احمد قادیانی دجال قادیان نے اپنے مطلب کے لئے گھڑی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ چھوڑکر ہمیں مرزاغلام احمدقادیانی کی گھڑی ہوئی اصطلاح نہیں اپنانی چاہیے۔

۹۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا خلیفہ کی حیثیت سے ہوگا اور یہ حیثیت ان کی اہل اسلام کے معتقدات میں شامل ہے۔ اس لئے ان کا آسمان سے نازل ہونا ہی ان کا چناؤ ہے۔ چنانچہ جب وہ نازل ہوں گے تو حضرت مہدی علیہ الرضوان امورخلافت ان کے سپردکرکے خود ان کے مشیروں میں شامل ہوجائیں گے، اور تمام اہل اسلام ان کے مطیع ہوں گے، اس لئے نہ کسی دعویٰ کی ضرورت ہوگی، نہ رسمی چناؤ یا انتخاب کی۔

۰۱۔دجال حضرت مہدی علیہ الرضوان اور ان کے لشکر کا محاصرہ کئے ہوئے ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر اس کے مقابلہ کے لئے نکلیں گے، اور مقام لُد پر اس کو قتل کردیں گے، اورمسلمان دجال کے لشکر کا صفایاکردیں گے۔

۱۱۔حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال زمین پر رہیں گے، پھر آپ کاانتقال ہوگا اور مسلمان آپ کے جنازہ کی نمازپڑھیں گے۔“ زمین میں آپ کا چالیس سالہ قیام خلیفہ کی حیثیت سے ہوگا۔ گویا نزول کے بعد مدۃ العمر خلیفہ رہیں گے۔ اس سے آپ کی مدت خلافت اور انتہائے خلافت کا سبب معلوم ہوا۔

۲۱۔قیامت کا قیام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوگا۔آپ کی وفات کے کچھ ہی عرصہ بعد آفتاب مغرب سے نکلے گا۔ توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، دابتہ الارض نکلے گا اور دیگر علامات قیامت جلد جلد رونما ہوگی۔ یہاں تک کہ کچھ عرصہ بعد صورپھونک دیا جائے گا۔

۳۱۔ پورے جہان میں، دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہ ہوگا جہاں آپ کی خلافت نہ ہو۔

۴۱۔فتنہ دجال حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کے سات سال بعد ہوگا،  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کے وقت حضرت مہدی علیہ الرضوان دجال کے مقابلے میں ہوں گے، اور مسلمانوں کا لشکر بیت المقدس میں محصورہوگا،  حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر حصارتوڑدیں گے، خود دجال کا تعاقب کرتے ہوئے مقام لد پر اس کو قتل کردیں گے۔مسلمانوں اور دجال کے لشکر کا کھلے میدان میں مقابلہ ہوگا جس میں لشکر دجال کا صفایا کردیاجائے گا۔

۵۱۔ دجال سارے جہاں میں فتنہ پھیلائے گا۔ مگر اس کا مقابلہ ملک شام میں ہوگا۔

۶۱۔دجال کا خاتمہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ہوگا، دجال اور فتنہ دجال کے خاتمہ کے بعد صرف اسلام باقی رہ جائے گا۔اور دیگر تمام مذاہب مٹ جائیں گے۔

۷۱۔ اس کی کچھ اصل نہیں۔

۸۱۔ جلیل القدر تابعی۔

۹۱۔ اس میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی۔ حیض آنا وجہ حرمت نہیں۔ اس لئے خرگوش حلال ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خرگوش کا ہدیہ پیش کیاجانا حدیث سے ثابت ہے۔

۰۲۔ پنجہ سے پکڑنے والے جانور حرام نہیں، بلکہ پنجہ سے شکارکرنے والے حرام ہیں۔ دونوں میں فرق ہے۔

طوطا حلال ہے، کوے کی کئی قسمیں ہیں۔بعض حلال ہیں بعض مکروہ، بعض حرام۔ گوہ حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ یہ حشرات الارض میں شامل ہے۔ گدھ حرام ہے۔ کیونکہ یہ پنجے سے شکارکرتا ہے اور مردارکھاتا ہے۔ پہاڑی کوااگردانے کھاتا ہے تو حلال ہے اور اگرمردارکھاتا ہے تو نہیں۔

۱۲۔ یہ غلط ہے کہ امام ابوحنیفہؒ امام جعفر ؒ کے شاگردتھے۔ یہ دونوں بزرگ ہم سن ہیں۔امام جعفر کی ولادت ۰۸ھ میں ہوئی اور وفات ۸۴۱ھ میں، جبکہ امام ابوحنیفہ کے سن ولادت میں تین قول ہیں ۰۶ھ، ۰۷ھ، اور۰۸ھ اوریہ آخری قول زیادہ مشہور ہے۔ ان کی وفات ۰۵۱ھ میں ہوئی۔ امام ابوحنیفہؒ نے امام جعفرؒ کے اساتذہ واکابر سے علم حاصل کیا تھا۔ اور ان کے والد امام محمد باقرؒ کی زندگی میں مسند فتویٰ پر فائز تھے، اس لئے ان کی شاگردی کا افسانہ محض غلط ہے۔

۲۲۔جن اکابر کو بعض لوگ ”بارہ امام“ کہتے ہیں وہ اہل سنت کے مقتداوپیشواہیں ان کے عقائد ٹھیک وہی تھے جو اہل سنت کے عقائد ہیں، بعض لوگ ان کے بارے میں جو کہتے ہیں کہ وہ ساری عمر تقیہ کرتے رہے، یعنی ان کے عقائد کچھ اورتھے، مگر ازراہ تقیہ وہ اہل سنت کے عقائد ظاہر کرتے رہے، یہ ان اکابر پر بہتان ہے۔ جو مسائل ان اکابر کی طرف اہل سنت کے خلاف منسوب کئے جاتے ہیں وہ بھی ان پر افتراہے۔ یہ حضرات خود بھی ان مسائل سے برات کا اعلان فرماتے تھے۔ اور ان مسائل کے نقل کرنے والے راویوں پر لعنت کرتے تھے۔

۳۲۔وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تھے قرب وولایت کے بلند مراتب پر فائز تھے، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ کی عظمت کے قائل تھے، نہ وہ معصوم تھے نہ مفترض الطاعت، نہ مامور من اللہ۔

۴۲۔ مکہ۔ مدینہ۔بیت المقدس

۵۲۔جس شخص کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا وہ خارجیوں کے ساتھ جنگ نہروان میں قتل ہوا۔ جس حبشی کے کعبہ شریف کو ڈھانے کا فرمایا ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آخری زمانہ میں ہوگا۔ واللہ اعلم۔

Leave A Reply