Kufar Sherk aur Irtad ki Tareef aur Ahkam

کفر‘ شرک اور ارتداد کی تعریف اور احکام

Sharing is Caring

کفر‘ شرک اور ارتداد کی تعریف اور احکام

شرک کسے کہتے ہیں؟

س۔۔۔۔شرک کس کو کہتے ہیں؟

ج۔۔۔۔خداتعالیٰ کی ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک کہلاتا ہے۔ اس کی قسمیں بہت سی ہیں۔مختصر یہ کہ جو معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونا چاہیے تھا وہ کسی مخلوق کے ساتھ کرنا شرک ہے۔

شرک کی حقیقت کیا ہے؟

س۔۔۔۔شرک ایک ایسا گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ البتہ وہ شخص مرنے سے پہلے توبہ کرلے تب ہی یہ گنا ہ معاف ہوسکتا ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نادانستہ طور پر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اسی حالت میں مرجاتا ہے تواس کا یہ گنا ہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے یا کبھی بخشش نہ ہوگی۔

ج۔۔۔۔شرک کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں یا اس کی صفات خاصہ میں کسی دوسرے کو شریک کرنا۔اور یہ جرم بغیر توبہ کے ناقابل معافی ہے۔نادانستہ طور پر شرک میں مبتلا ہونے کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔

امور غیر عادیہ اور شرک

س۔۔۔۔کیا اللہ تعالیٰ نے انبیاء‘ اولیاء اور فرشتوں کو اختیارات اور قدرتیں بخشی ہیں۔ جیسے انبیاء کرام نے مُردوں کو زندہ کیا اس کے علاوہ کوئی فرشتہ ہوائیں چلاتا ہے کوئی پانی برساتا ہے وغیرہ مگر ”درس توحید“ کتاب میں ہے کہ بھلائی برائی نفع نقصان کا اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں خواہ نبی ہو یا ولی‘ اللہ کے سوا کسی اور میں نفع نقصان کی قدرت جاننا ماننا شرک ہے۔

ج۔۔۔۔جو امور اسباب عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً کسی بھوکے کا کسی سے روٹی مانگنایہ تو شرک نہیں‘  باقی انبیاء واولیاء کے ہاتھ پر جو خلاف عادت واقعات ظاہر ہوتے ہیں وہ معجزہ اور کرامت کہلاتے ہیں اس میں جوکچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا ہے۔مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا‘ یہ ان کی قدرت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا تھا یہ بھی شرک نہیں یہی حال ان فرشتوں کا ہے جو مختلف کاموں پر معمور ہیں۔ امور غیر عادیہ میں کسی نبی اور ولی کا متصرف ماننا شرک ہے۔

کافر اور مشرک کے درمیان فرق

س۔۔۔۔کافر اور مشرک کے درمیان کیا فرق ہے؟ اور یہ کہ کافر اور مشرک کے ساتھ دوستی رکھنا‘ طعام کھانا اور سلام کا جواب دیناجائز ہے یا نہیں نیز یہ کہ اگر سلام کا جواب دینا جائز ہے تو کس طرح جواب دیا جائے؟

ج۔۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں سے کسی بات سے جو انکار کرے وہ ”کافر“ کہلاتا ہے۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کی ذات میں‘ صفات میں‘ یا اس کے کاموں میں کسی دوسرے کو شریک سمجھے وہ ”مشرک“ کہلاتا ہے۔ کافروں کے ساتھ دوستی رکھنا منع ہے۔مگر بوقت ضرورت ان کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کافروں نے کھانا کھایا ہے۔کافر کو خود توسلام نہ کیا جائے۔اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف ”وعلیکم“کہا جائے۔

ولی اور نبی میں کیا فرق ہے؟

س۔۔۔۔اولیاء اور انبیاء میں فرق کس طرح واضح کیا جائے؟

ج۔۔۔۔نبی براہئ راست خداتعالیٰ سے احکام لیتا ہے اور ”ولی“ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے تابع ہوتا ہے۔

کوئی ولی‘ غوث‘ قطب‘ مجدد‘ کسی نبیؑ یا صحابیؓ کے برابر نہیں

س۔۔۔۔حضرت‘ ولی‘ قطب‘غوث‘ کوئی بڑا صاحب تقویٰ‘ عالم دین‘ امام وغیرہ ان سب میں سے کسی کے درجہ کو پیغمبروں کے درجہ کے برابر کہاجاسکتا ہے؟

ج۔۔۔۔کوئی ولی‘ غوث‘ قطب‘ امام‘ مجدد کسی ادنیٰ صحابیؓ کے مرتبہ کو بھی نہیں پاسکتا۔ نبیوں کی تو بڑی شان ہے۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔

کیا گوتم بدھ کو پیغمبروں میں شمار کرسکتے ہیں؟

س۔۔۔۔تعلیم یافتہ جدید ذہن کے لوگ گوتم بدھ کو بھی پیغمبروں میں شمار کرتے ہیں۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

ج۔۔۔۔قرآن وحدیث میں کہیں اس کا ذکر نہیں آیا۔ اس لئے ہم قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے۔شرعی حکم یہ ہے کہ جن انبیاء کرام علیہم السلام کے اسمائے گرامی قرآن کریم میں ذکر کئے گئے

ہیں ان پر تو تفصیلاً قطعی ایمان رکھناضروری ہے اور باقی حضرات پر اجمالاً ایمان رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ شانہ‘ نے بندوں کی ہدایت کے لئے جتنے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا‘ خواہ ان کا تعلق کسی خطہئ ارضی سے ہو‘ اور خواہ وہ کسی زمانے میں ہوئے ہوں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں۔

کسی نبی یا ولی کو وسیلہ بنانا کیسا ہے؟

س۔۔قرآن شریف میں صاف صاف آیا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہے مجھ سے مانگو۔لیکن پھر بھی یہ وسیلہ بنانا کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟

ج۔۔۔۔وسیلہ کی پوری تفصیل اور اسکی صورتیں میری کتاب ”اختلاف امت اورصراط مستقیم“ حصہ اول میں ملاحظہ فرمالیں۔ بزرگوں کو مخاطب کرکے ان سے مانگنا تو شرک ہے۔مگر خدا سے مانگنا اور یہ کہنا کہ یااللہ! بطفیل اپنے نیک اور مقبول بندوں کے میری فلاں مراد پوری کردیجئے یہ شرک نہیں۔

صحیح بخاری جلد1 صفحہ ۷۳۱ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ کی یہ دعا منقول ہے:۔

اللھم انا کنا لتوسل الیک بسبنا ”اے اللہ! ہم آپ کے دربار میں اپنے نبی صلی اللہ

صلی اللہ علیہ وسلم  تسلیمنا علیہ وسلم کے ذریعہ توسل کیا کرتے تھے پس آپ ہمیں

 وانا لتوسل الیک بعم بیننا استغنا باران رحمت عطافرماتے تھے اور(اب) ہم اپنے نبی کے چچا(عباس) کے ذریعہ توسل کرتے ہیں تو ہمیں بارانِ رحمت عطا فرما۔“

اس حدیث سے توسل بن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور توصل باولیاء اللہ دونوں ثابت ہوئے‘ جس شخصیت سے توسل کیا جائے اسے بطور شفیع پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔

شرک وبدعت کسے کہتے ہیں؟

س۔۔۔۔شرک وبدعت کی تعریف کیا ہے۔ مثالوں سے وضاحت کریں؟

ج۔۔۔۔خدا تعالیٰ کی ذات وصفات اور تصرف و اختیار میں کسی اور کو شریک سمجھنا شرک کہلاتا ہے اور جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ و تابعین نے نہیں کیا‘ بلکہ دین کے نام پر بعد میں ایجاد ہوا‘اسے عبادت سمجھ کر کرنا بدعت کہلاتا ہے۔اس اصول کی روشنی میں مثالیں آپ خود بھی متعین فرما سکتے ہیں۔

بدعت کی تعریف

س۔۔۔۔بدعت کسے کہتے ہیں؟ بدعت سے کیا مراد ہے؟ جواب ٹودی پوائنٹ دیں۔

ج۔۔۔۔بدعت کی تعریف درمختار (مع عاشیہ شامی جلد۱ صفحہ ۰۶۵ طبع جدید)میں یہ کی گئی ”ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم لابمعاندۃ بل بنو شبعۃ“

(ترجمہ) ”جوچیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معروف ومنقول ہے اس کے خلاف کا اعتقاد رکھنا ضد وعناد کے ساتھ نہیں بلکہ کسی شبہ کی بناء پر۔“  اور علامہ شامیؒ نے علامہ شمسی سے اس کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے”ما احدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من علم او عمل او حال بنوع شبھۃ اواستحسان وجعل دینا قویما وصراطا مستقیما“ (ترجمہ) ”جو علم‘ عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیاجائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بناء پر اور پھر اسی کو دین قویم اور صراط مستقیم بنا لیا جائے وہ بدعت ہے۔“

خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ‘ طریقہ اور عمل ایجادکرنا بدعت ہے جو:

الف:طریقہئ نبویؐ کے خلاف ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ قولاً ثابت ہو‘ نہ فعلاً‘نہ صراحتاً‘ نہ دلالتہً‘ نہ اشارۃً۔۔۔۔

ب: جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سے بطور ضد وعناد اختیار نہ کرے‘ بلکہ بزعم خود ایک اچھی بات اور کار ثواب سمجھ کر اختیارکرے۔

ج: وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے۔

Download PDF:

Kufaar Sherk our Biddah

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات