ترجمہ: مولانا عمران اشرف عثمانی ترتیب وتلخیص: مولانا سفیر احمد ثاقب
سُود کے معاشی نقصانات
سود کے نقصان دہ اثرات
سودی قرضوں کا دائمی رجحان یہ ہے کہ وہ مالداروں کو فائدہ اور عام آدمیوں کونقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ پیدائش دولت، وسائل کی تخصیص اور تقسیم دولت پر بھی منفی اثرات لاتے ہیں۔ ان میں سے چند اثرات ذیل میں درج ہیں۔
(۱) وسائل کی تخصیص پر اثرات بد:
موجودہ بینکاری نظام میں قرضے زیادہ تر ان لوگوں کو دئیے جاتے ہیں جو مال ودولت کے لحاظ سے خوب مضبوط ہوتے ہیں اور وہ ان قرضوں کے لئے آسانی کے ساتھ رہن (گروی) مہیا کرسکتے ہیں، ڈاکٹر عمر چھاپرا جو اس مقدمہ میں بطور عدالتی مشیر تشریف لائے تھے انہوں نے ان اثرات کو درج ذیل الفاظ میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
”اسی لئے قرضے لیسٹرتھرو کے قول کے مطابق ان لوگوں کو دئیے جاتے ہیں جو خوش قسمت ہوں نہ کہ وہ جو حاجتمند اور مستحق ہوں۔ اسی لئے موجودہ بینکاری نظام تقسیم دولت کا غیر عادلانہ نظام مسلط کرتا ہے، یہاں تک کہ مورگن گارنٹی ٹرسٹ کمپنی جو امریکہ کا چھٹا سب سے بڑا بینک ہے اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ بینکاری نظام ان لوگوں کو سرمایہ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جو چھوٹی کمپنیاں ہوں یا شراکت داری کرنا چاہتی ہوں اور بینکوں کے سرمایہ کی زیادتی بھی انہیں صرف ان کمپنیوں کو تمویل کرنے پر ہی ابھارتی ہیں جن کے پاس بہت زیادہ مال ہوتا ہے۔ لہذا اگرچہ بینکوں کی زیادہ تر آمدنی آبادی کی اکثریت سے آتی ہے لیکن اس کا فائدہ مجموعی طور پر مالدار لوگ ہی اٹھاتے ہیں۔“
(ڈاکٹر چھاپرا کا تحریری بیان بعنوان ”اسلام نے سود کو کیوں حرام قرارد یا؟“ ص ۸۱)
مہلت سے خاتمے تک
اس کی مخلوق پر تمام ہوگئی ہے۔ اس کا ااردو ترجمہ شعبان ۱۲ھ نومبر ۰۰۰۲ء سے شوال ۲۲ھ، جنوری ۲۰۰۲ء تک پندرہ اقساط میں ماہنامہ البلاغ میں شائع ہوتا رہا ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرف سے تو علمی اعتبار سے انتہائی دقیع ہے، دوسری طرف اعلیٰ پائے کی انگریزی کا خوبصورت مرقع ہے۔یوں تو وکلاء کے اٹھائے گئے نکات بہت سے تھے لیکن چونکہ اس بات کی بازگشت بہت زور سے دور دور تک سنی گئی کہ سود ہماری معیشت کے لئے ناگزیر ہے۔ بینک ملکی معیشت کے لئے مفید خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کا نظام تبدیل کرنے سے ملکی معیشت شدید عدم استحکام اور وطن عزیز انارکی کا شکار ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس واسطے اس اشکال کے جواب پر مشتمل اقتباسات اس فیصلے سے اخذ کرکے درج کئے جاتے ہیں۔ اس جواب پر دوسرے اشکالات کے جواب کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔ یہ تلخیص وترتیب مولانا سفیر احمد ثاقب نے کی ہے جو حضرت کے تلمیذ رشید اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ومخصص ہیں، امید ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔
۸۹۹۱ء کے دسمبر کے اخیر تک مجموعی تمولیات ٪۵۔۴۶ فیصد حصہ ہیں۔
(۲) پیداوار پر بُرے اثرات:
چونکہ سود پر مبنی نظام میں سرمایہ مضبوط رہن (گروی) کی بنیاد پر فراہم کیا جاتا ہے اور فنڈز کا استعمال تمویل کے لئے کسی قسم کا بنیادی معیار قائم نہیں کرتا اسی واسطے یہ لوگوں کو اپنے وسائل کے پار رہنے پر مجبورکرتا ہے، مالدار لوگ صرف پیداواری مقاصد کے لئے قرضے نہیں لیتے بلکہ عیاشیانہ خرچوں کے لئے بھی قرضے لیتے ہیں اسی طرح حکومت صرف حقیقی ترقیاتی پروگرام کے لئے قرضے نہیں لیتی بلکہ فضول اخراجات اوراپنے ان سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے بھی قرضے لیتی ہے جو صحت مند معاشی فیصلوں پر مبنی نہیں ہوتے، منصوبوں سے غیر مربوط قرضے جو کہ صرف سود پر مبنی نظام میں ہی ممکن ہیں ان کا فائدہ قرضوں کے سائز کو خطرناک حد تک بڑھانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ۸۹۹۱ء سے ۹۹۹۱ء تک کے بجٹ کے مطابق ہمارے ملک کے ٪۶۴ فیصد اخراجات صرف قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوئے جبکہ صرف ۸۱ فیصد ترقیات پر لگے جن میں تعلیم، صحت اور تعمیرات شامل ہیں۔
(ج) اثرات بدتقسیم دولت پر:
ہم یہ بات پہلے بیان کرچکے ہیں کہ جب تجارت کو سود کی بنیاد پر فائنانس (تمویل) کیا جائے تو سود پر مبنی تمویل اس وقت مقروض کو مزید نقصان پہنچاتی ہے جب وہ تجارتی خسارہ کا شکار ہو یا پھر وہ قرض دینے والے کو نقصان پہنچاتی ہے اگر مقروض اس سے عظیم نفع کمائے۔ سودی نظام میں مذکورہ دونوں صورتوں میں ہونے والا ظلم کہیں زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے تقسیم دولت کا نظام بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔
جب اس صورتحال کو اس حقیقت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جسے پیچھے بھی ذکر کیا گیا تھا کہ مجموعی تمویلات کا ٪۵۔۴۶ فیصد صرف ٪۳۴۲۴ء فیصد کھاتہ داروں کو دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی لاکھ (میلنز) افراد کی رقوم سے صرف ۹ ہزار۲سو ۹۶افراد نے فائدہ اٹھایا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم دولت کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں میں اس قسم کے تمویلات نے کتنابڑا کردار ادا کیا ہے اور یہ نسبت اس پرانے صرفی سودکے جو چند افراد پر انفرادی طور پر ظلم کرتا تھا اس جدیدتجارتی سود نے پورے معاشرے کے ساتھ مجموعی طور پر کس قدر زبردست ظلم کیا ہے۔
موجودہ سودی نظام کس طرح امیروں کے لئے کام کرتا ہے اور کس طرح غریب کو ماردیتا ہے یہ بات جیمس رابرٹس نے درج ذیل الفاظ میں بیان کی ہے:
”سود کا ایک عام کردار معاشی نظام میں یہ ہوتا ہے کہ یہ خود کار طریقہ سے غریب سے امیر کی طرف سرمایہ کے انتقال کا سبب بنتا ہے اور پھر غریب سے امیر کی طرف انتقال سرمایہ تیسری دنیا کے ممالک کے قرضوں کے ذریعہ اور بھی زیادہ چونکا دینے کی حد تک واضح ہوگیا ہے لیکن یہ اصول پوری دنیا میں لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم نظام سرمایہ پر غورکرتے ہیں کہ کب اور کس طرح ہم اس قابل ہونگے کہ اس نظام کو دوبارہ ازسرنو اس طرح ترتیب دیں کہ وہ نظام انصاف کے ساتھ بہترین طریقے سے چل سکے۔
”انتقال نفع غریب سے امیر کی طرف، غریب جگہوں سے امیر جگہوں کی طرف، غریب ممالک سے امیر ممالک کی طرف موجودہ مالیاتی تمویلی نظام کی وجہ سے ہے ایک وجہ غریب سے امیر کی طرف انتقال سرمایہ کی سود کی ادائیگی اور وصولی ہے جو معیشت کے اندر ایک کردار اداکرتی ہے۔“
(۴) مصنوعی سرمایہ اور افراط زر کا اضافہ:
چونکہ سودی قرضے حقیقی پیداوار کے ساتھ کوئی خاص ربط نہیں رکھتے اور تمویل کرنے والا ایک مضبوط گروی حاصل کرنے کے بعدعموماً اس کا کوئی خیال نہیں کرتا کہ اس کی رقم مقروض کہاں استعمال کررہا ہے نیز بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ذریعہ سرمایہ کی فراہمی و رسد ان اشیاء خدمات سے کوئی تعلق یا ربط نہیں رکھتی جو کہ واقعات کی دنیا میں پیدا کی گئی ہیں، اس طرح یہ صورتحال سرمایہ کی رسد اور اشیاء و خدمات کی پیداوار کے درمیان ایک سنگین حدتک عدم توازن پیداکرتی ہے، یہی درحقیقت ایک واضح وجہ ہے جو افراط زر پیدا کرتی یا اسے مزید بھڑکاتی ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال کو جدید بینکوں کے اس عمل نے خوفناک حد تک بڑھادیا ہے جو تخلیقِ زر کے نام سے مشہور ہے، معاشیات کی ابتدائی کتابیں بھی عموماً تعریفی انداز میں ذکر کرتی ہیں کہ کس طرح بینک سرمایہ تخلیق کرتے ہیں؟ بینکوں کے اس بظاہر ”معجزانہ کردار“ کو بعض اوقات افزائش پیداوار اور خوشحالی لانے کا ایک اہم ذریعہ قرار دیاجاتا ہے، لیکن موجودہ بینکاری کے چیمپئین اس تصور کے ذیل میں موجود خرابیوں کو بہت کم منکشف کرتے ہیں۔
موجودہ بینک کسی چیز کے بغیر تخلیق زر کرتے ہیں، انہیں اپنے کھاتوں کے مقابلے میں دس گنا زائد قرضے دینے کی بھی اجازت ہوتی ہے، اس واسطے حکومت کے حقیقی ذخائر اور قرضوں سے آزاد سکے اور روپے کی تعدادگردش کرنے والے مجموعی روپوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں، ان میں سے اکثر مصنوعی ہیں اور ان کو بینکوں کی تمویل کی وجہ سے پیدا کیا گیا ہے، حکومت کے جاری کئے ہوئے حقیقی روپیہ کی تعداد روز بروز اکثر ممالک میں کم ہوتی جارہی ہے جبکہ بینکوں کے پیداکئے ہوئے روپے کی جن کی پشت پر کچھ نہیں ہے تعداد مستقل بڑھ رہی ہے، قرضوں در قرضوں کا یہ چکر اب سرمایہ کی رسد کا ایک عظیم حصہ بن چکا ہے اور حکومت کے جاری کئے ہوئے حقیقی زر کا تناسب اکثر ملکوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے۔ برطانیہ کی مثال لیجئے ۷۹۹۱ء کی شماریاتی رپورٹ کے مطابق مجموعی زر کا اسٹاک ۰۸۶ بلین پاؤنڈ تھا جن میں سے صرف ۵۲ بلین پاؤنڈ حکومت برطانیہ نے سکوں اور کاغذی نوٹ کی شکل میں جاری کئے اس کے علاوہ بقیہ۵۵۶ بلین پاؤنڈ بینکوں کی تخلیق کے ذریعہ پیدا ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی رسد سرمایہ کا صرف ٪۶ء۳ قرضوں سے آزاد سرمایہ تھا جبکہ بقیہ ٪۴ء۶۹ بینکوں کے پیدا کئے ہوئے بلبلہ یا جھاگ کے سوا کچھ نہ تھا۔
دنیا کی پوری معیشت اس طرح ایک غبارہ کی شکل اختیار کر چکی ہے جوروز بروز ایسے نئے قرضوں اور تمویلی معاملات سے پھولتا جارہا ہے جس کا حقیقی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ بڑا غبارہ بازار کے جھٹکوں کی زد میں ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور ماضی قریب میں ایسا متعدد مرتبہ ہوچکا ہے خصوصاً جبکہ ایشین ٹائیگرز مکمل تباہی کے کنارے پہنچے اور ان کے جھٹکے پورے عالم میں محسوس کئے گئے اور میڈیا نے یہ شور مچایا کہ مارکیٹ کی معیشت آخری سانس لے رہی ہے۔
آج پوری دنیاکی خطرناک صورتحال دراصل سود پر مبنی نظام کو معیشت پر بے قابو اختیار دئیے جانے کا نتیجہ ہے، کیا کوئی شخص پھر بھی یہ اصرار کرسکتا ہے کہ تجارتی سود ایک معصومانہ معاملہ ہے؟ درحقیقت تجارتی سود کے بحیثیت مجموعی نقصانات ان صرفی سود کے معاملات سے کہیں زیادہ ہیں جس سے گذشتہ زمانے میں چند افراد انفرادی طورپر متاثر ہوتے تھے۔
Download PDF
Sood ke Marshi Nukasanat سُود کے معاشی نقصانات
Download PDF