Original PDF Ilm-e-Hadith-mein-Imam-Abu-Hanifa-ka-Martaba-Original
طلب حدیث کے لیے اسفار
امام اعظم ابو حنیفہؒ نے فقہ و کلام کے علاوہ بطور خاص حدیث پاک کی تعلیم و تحصیل کی تھی اور اس کے لیے حضرات محدثین کی روش کے مطابق اسفار بھی کیے چنانچہ امام ذہبی جور جال علم وفن کے احوال وکوائف کی معلومات میں ایک امتیازی شان کے مالک ہیں اپنی مشہور اور انتہائی مفید تصنیف ”سیر اعلام النبلا“ میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں وعنی بطلب الآثار وارتحل فی ذالک(۱)“امام صاحب نے طلب حدیث کی جانب خصوصی توجہ کی اور اس کے لیے اسفار کیے۔
مزید یہ بھی لکھتے ہیں:۔
ان الامام ابا حنیفۃ طلب الحدیث واکثر منہ سنۃ مءۃ و بعدھا (۲)
امام ابو حنیفہؒ نے حدیث کی تحصیل کی بالخصوص ۰۰۱ھ اور اس کے بعد کے زمانہ میں اس اخذو طلب میں بہت زیادہ سعی کی۔
امام ذہبی کے بیان ”وارتحل فی ذالک“ کی قدرے تفصیل صدر الائمہ موفق بن احمد مکیؒ نے اپنی مشہور جامع کتاب ”مناقب الامام الاعظم میں ذکر کی ہے وہ لکھتے کہ امام اعظم ابو حنیفہ کوفی نے طلب علم میں بیس مرتبہ سے زیادہ بصرہ کا سفر کیا تھا اور اکثر سال‘ سال بھر کے قریب قیام رہتا تھا۔“(۳)
اس زمانے میں سفر حج ہی افادہ و استفادہ کا ایک بڑا ذریعہ تھا کیونکہ بلاد اسلامیہ کے گوشہ گوشہ سے ارباب فضل و کمال حرمین شریفین میں آ کر جمع ہوتے تھے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ امام ابو المحاسن مرغینانی نے بالسند نقل کیا ہے کہ امام صاحب نے پچپن حج کیے تھے۔ اور یہ تاریخ اسلام میں کوئی عجیب بات نہیں کہ اسے مبالغہ آمیز تصور کیا جائے کیونکہ متعدد شخصیتوں کے نام پیش کیے جا سکتے ہیں جن کی حج کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ امام ابن ماجہؓ کے شیخ علی بن منذر نے اٹھاون حج کئے تھے اور ان میں اکثر پاپیادہ ہی تھے‘ (۱) محدث سعید بن سلیمان ابو عثمان واسطی نے ساٹھ حج کئے تھے(۲) اور حافظ عبدالقادر قرشی نے جواھر المضیہ فی طبقات الحنفیہ میں امام سفیان بن عینیہ نے تذکرہ میں لکھا ہے کہ انھوں نے ستر حج کیے تھے۔
(۱) سیر اعلام النبلاء ۶/۲۹۳(۲) سیر اعلام النبلاء ۶/۶۹۳(۳) مناقب الامام الاعظم ۱/۹۵=
علاوہ ازیں ۰۳۱ھ سے خلیفہ منصور عباسی کے زمانہ تک جسکی مدت چھ سال کی ہوتی ہے آپ کا مستقل قیام کہ معظّمہ ہی میں رہا(۳)
ظاہر ہے کہ اس دور کے طریقہئ رائج کے مطابق دوران حج اور اس چھ سالہ مستقل قیام کے زمانہ میں آپ نے شیوخ حرمین شریفین اور واردین وصادرین اصحاب حدیث سے خوب خوب استفادہ کیا ہو گا طلب علم کے اسی والہانہ اشتیاق اور بے پناہ شغف کا ثمرہ ہے کہ آپ نے اساتذہ و شیوخ کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی(۴)۔ پھر ان چار ہزار اساتذہ سے آپ نے کس قدر احادیث حاصل کیں اس کا کچھ اندازہ مشہور امام حدیث حافظ مسعر بن کدام کے اس بیان سے کیا جا سکتا ہے جسے امام ذہبی نے ”مناقب امام ابی حنیفہ وصاحبیہ“ میں نقل کیا ہے۔
امام مُسعر بن کدام جو اکابر حفاظ حدیث میں ہیں امام صاحب کی جلالت شان کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
طلبت مع ابی حنیفہ الحدیث فغلبنا‘ واخذنا فی الزھد فبرع علینا وطلبنا معہ الفقہ فجاء ماترون حوالہ تلخیص(۵)
”میں نے امام ابو حنیفہ کی رفاقت میں حدیث کی تحصیل کی تو وہ ہم پر غالب رہے اور زہدو پرہیز گاری میں مصروف ہوئے تو اس میں بھی وہ فائق رہے اور فقہ ان کے ساتھ شروع کی تو تم دیکھتے ہو کہ اس فن میں کمالات کے کیسے جوہر دکھائے“۔
(۱) سنن ابن ماجہ باب صید الکلب=(۲) مناقب امام احمد از ابن الجوازی ص ۷۸۳=(۳) عقود الجمان از مؤرخ کبیرو محدث امام محمد بن یوسف الصالحی الشافعی ص ۲۱۳(۴) عقو الجمان میں امام صالحی نے الباب الرابع فی ذکر بعض شیوخہ کے تحت ۴۲ صفحات میں شیوخ امام اعظم کے اسماء ذکر کیے ہیں۔ (۵) مناقب ذہبی ص:۷۲
یہ مسعر بن کدام وہ بزرگ ہیں جن کے حفظ و اتقان کی بناء امام شعبہ انہیں مصحف کہا کرتے تھے(۱) اور حافظ ابو محمد رامہرمزی نے اصول حدیث کی اولین جامع تصنیف المحدث الفاضل میں لکھا ہے کہ امام شعبہ اور امام سفیان ثوری میں جب کسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوتا تو دونوں کہا کرتے کہ ”اذھبنا الی المیزان مسعر“ ہم دونوں کو مسعر کے پاس لے چلو جو فن حدیث کے میزان علم ہیں‘ ذرا غور تو فرمائیے کہ امام شعبہ اور امام سفیان ثوری دونوں امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں پھر ان دونوں بزرگ کی میزان جس ذات کے بارے میں یہ شہادت دے کہ وہ علم حدیث میں ہم پر فوقیت رکھتی ہے اس شخصیت کا فن حدیث میں پایہ کیا ہو گا۔
مشہور امام تاریخ و حدیث حافظ ابو سعد سمعانی کتاب الانساب میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔
اشتغل بطلب العلم و بالغ فیہ حتی حصل لہ مالم یحصل لغیرہ۔ (۲)
”امام ابو حنیفہ طلب علم میں مشغول ہوئے تو اس درجہ غایت انہماک کے ساتھ ہوئے کہ جس قدر علم انہیں حاصل ہوا دوسروں کو نہ ہو سکا“
غالباً امام صاحبؒ کے اسی کمال علمی کے اعتراف کے طور پرامام احمد بن حنبل اور امام بخاریؒ کے استاذ حدیث شیخ الاسلام حافظ ابو عبدالرحمٰن مقری جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے تو اس الفاظ کے ساتھ روایت کرتے تھے اخبرنا شاھنشاہ ہمیں علم حدیث کے شہنشاہ نے خبر دی۔ یہ حافظ ابو عبدالرحمٰن مقری امام ابو حنیفہ کے خاص شاگر د ہیں اور امام صاحب سے نو سو ۰۰۹ حدیثیں سنی ہیں جیسا کہ علامہ کردی مناقب الامام الاعظم (ج۲ص ۶۱۲ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد) میں لکھتے ہیں عبداللہ بن یزید المقری(ابو عبدالرحمن) سمع من الامام تسع مأۃ حدیث)
اسی بات کا اعتراف محدث عظیم حافظ یزید بن ہارون نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
کان ابو حنیفۃ نقیا‘ تقیا‘ زاھد أعالماً صدوق اللسان احفظ اھل زمانہ(۳)
۰۱) تذکرۃ الحفاظ ازامام ذہبی۱/۸۸۱=(۲) کتاب الانساب طبع لندن ورق ۶۹۱=(۳) اخبار ابی حنیفہ اصھابہ از جمیری ص۶۳=
امام ابو حنیفہ ؒپاکیزہ سیرت‘ متقی‘ پرہیز گار‘ صداقت شعار اور اپنے زمانہ میں بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کے علوم و قرآن و حدیث میں امتیازی تبحر اور وسعت معلومات کا اعتراف امام الجرح و التعدیل یحییٰ بن سعید القطان نے ان و قیع الفاظ میں کیا ہے۔
إ نہ واللہ لأ علم ھذہ الامۃ بما جاء عن اللہ ورسولہ۔(۱)
”بخدا ابو حنیفہ اس امت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہو رہے اس کے سب سے بڑے عالم تھے۔“ امام بخاری ؒکے ایک اور استاذ حدیث امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں۔ کان أبو حنیفۃ زاھدا‘ عالماً‘ راغباً فی الآخرۃ صدوق اللسان أحفظ اھل زمانہ(۲)
”امام ابو حنیفہؒ‘ پرہیز گار‘ عالم،آخرت کے راغب‘ بڑے راست باز اور اپنے معاصرین میں سے سے بڑے حافظ حدیث تھے۔“
امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں کثرت معلومات کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ امام صاحب نے حدیث پاک میں اپنی اولین تالیف کتاب الآثار کو چالیس ہزار احادیث کے مجموعہ سے منتخب کر کے مرتب کیا ہے۔ چانچہ صدر الائمہ موفق بن احمد مکہ محدث کبیر امام الائمہ بکر بن محمد زر نجری متوفیٰ ۲۱۵ھ کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
وانتخب ابو حنیفۃ رحمہ اللہ الآثار من اربعین الف حدیث۔(۳)
”امام ابو حنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔“
پھر اسی کے ساتھ امام حافظ ابو یحییٰ زکریا بن یحییٰ نیشا پوری متوفیٰ ۸۹۲ھ کا یہ بیان بھی پیش نظر کھیے جسے انہوں نے اپنی کتاب مناقب ابی حنیفہ میں خود امام اعظم سے بہ سند نقل کیا ہے کہ:
(۱) مقدمہ کتاب التعلیم از مسعودبن شیبہ سندھی‘ بحوالہ ابن ماجہ اور علم حدیث ص ۷۶۱ از محقق کبیر علامہ محمد عبدالرشید نعمانی(۲) مناقب الامام الاعظم از صدر الائمہ موفق بن احمد مکی(۳) مناقب الامام الاعظم ۱/۵۹
عندی صنادیق الحدیث ما أخر جت منھما إلا ألیسیر الذی یتفع بہ۔(۱)
”میرے پاس حدیث کے صندوق بھر ے ہوئے موجودہیں مگر میں نے ان میں سے تھوڑی حدیثیں نکالی ہیں جن سے لوگ نفع اٹھائیں۔“
اب خدا ہی کو معلوم ہے کہ ان صندوقوں کی تعداد کیا تھی اور ان میں احادیث کا کس قدر ذخیرہ محفوظ تھا۔ لیکن اس سے اتنی بات تو بالکل واضح ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمہ والغفران کثیر الحدیث ہیں اور یار لوگوں نے جو یہ مشہور کر رکھا ہے کہ حدیث کے باب میں امام صاحب تہمی دامن تھے اور انہیں صرف سترہ حدیثیں معلوم تھیں یہ ایک بے بنیاد الزام ہے علمی دنیا میں قطعاً غیر معروف اور اوپرا ہے۔ جو بازاری افسانوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس موقعہ پر یہ علمی نکتہ پیش نظر رہے کہ یہ چالیس ہزار متون حدیث کا ذکر نہیں بلکہ اسانید کا ذکر ہے پھر ا س تعداد میں صحابہ و اکابر تابعین کے آثار و اقوال بھی داخل ہیں کیونکہ سلف کی اصطلاح میں ان سب کے لیے حدیث و اثر کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔
امام صاحب کے زمانہ میں احادیث کے طرق و اسانید کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی بعد کو امام بخاری‘ امام مسلم وغیرہ کے زمانہ میں سندوں کی یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی کیونکہ ایکشیخ نے کسی حدیث کو مثلاً دس تلامذہ سے بیان کیا تو اب محدثین کی اصطلاح کے مطابق یہ دس سندیں شمار ہونگی اگر اب کتاب الآثار اور مؤطا امام مالک کی احادیث کی تخریج دیگر کتب حدیث کی احادیث سے کریں تو ایک ایک متن کی دسیوں بیسیوں سندیں مل جائیں۔
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مسند ابی حنیفہ میں بسند متصل یحییٰ بن نصر صاحب کی زبانی نقل کیا ہے کہ:
دخلت علی أبی حنیفۃ فی بیت مملوء کتبأ فقلت: ماھٰذہ ؟
(۱) مناقب الامام الاعظم ۱/۵۹
قال ھذہ أحادیث کلھا وما حدثت بہ الالیسیر الذی ینتفع بہ(۱)
”میں امام ابو حنیفہ کے یہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور میں نے ان سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جائے“۔
مشہور محدث ابو مقاتل حفص بن سلم امام ابو حنیفہؒ کی فقہ وحدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
وکان أبو حنیفۃ إمام الدنیا فی زمانہ فقھا و علما وورعاً قال: وکان أبو حنیفۃ محنۃ یعرف بہ أھل البدع من الجماعۃ ولقد
ضرب بالسیاط علی الدخول فی الدنیا لھم فابی(۲)
امام ابو حنیفہ ؒ اپنیزمانہ میں فقہ و حدیث اور پرہیز گاری میں امام الدنیا تھے۔ ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل سنت و الجماعت اور اہل بدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا انہیں کوڑوں سے مارا گیا تا کہ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہو جائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کر لی) مگر دخول دنیا کو قبول نہیں کیا۔
حفص بن مسلم کے قول ”وکان أبو حنیفۃ محنۃ یعرف بہ أھل البدع من الجماعۃ“ (امام ابوحنیفہ آزمائش تھے ان کے ذریعہ اہل سنت اور اہل بدعت میں تمیز ہوتی تھی) کی وضاحت امام عبدالعزیز ابن ابی رواد کے اس قول سے ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں: أبو حنیفۃ المحنۃ من أحب أباحنیفۃ فھو سنیی ومن أبغض فھو مبتدع (۳) ”امام ابو حنیفہ آزمائش میں ہیں جو امام صاحب سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے“۔
مؤرخ کبیر شیخ محمد بن یوسف صالحی اپنی معتبر، مقبول اور جامع کتاب عقو د الجمان
(۱) الانتفاء از حافظ عبدالبرص ۹۱۳ مطبوعہ دالرالبشائر الاسلامیہ بیروت ۷۱۴۱۵
(۲) اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ از امام صمیری ص ۹۷(۳) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ازامام صمیری ص ۹۷
فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان۔ میں امام صاحب کی عظیم محدثانہ حیثیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اعلم رحمک اللہ أن الامام أبا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی من کبار حفاظ الحدیث وقد تقدم انہ اخذ عن أربعۃ آلاف شیخ من التابعین وغیر ھم وذکرہ الحافظ الفاقد ابو عبداللہ الذھبی فی کتابہ الممتع طبقات الحفاظ من المحدثین منھم ولقد اصاب وأجاد، ولو لاکثرۃ اعتناۂ بالحدیث ماتھیّا لہ استنباط مسائل الفقہ فانہ أوّل من استنبطہ من الأدلۃ ۱۵(۱)
”معلوم ہونا چاہیے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں اور اگلے صفحات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ امام صاحب چار ہزار شیوخ تابعین وغیرہ سے تحصیل علم کیا ہے اور حافظ ناقد امام ذہبی نے اپنی مفید ترین کتاب تذکرۃ الحفاظ میں حفاظ محدثین میں امام صاحب کا بھی ذکر کیا ہے(جو امام صاحب کے حافظ حدیث ہونے کی بڑی پختہ دلیل ہے ان کا یہ انتخاب بہت خوب اور نہایت درست ہے اگر امام صاحب تکثیر حدیث کا مکمل اہتمام نہ کرتے تو مسائل فقہیہ کے استنباط کی استعداد ان میں نہ ہوتی جبکہ دلائل سے مسائل کا استنباط سب سے پہلے انہوں نے ہی کیا ہے“۔
علم حدیث میں امام صاحب کے اسی بلند مقام و مرتبہ کی بناء پر اکابر محدثین اور ائمہ حفاظ کی جماعت میں عام طور پر امام اعظم کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے:۔ چنانچہ امام المحدثین ابو عبداللہ الحاکم اپنی مفید و مشہور کتاب ”معرفۃ علوم الحدیث“ کی انچاسویں ۹۴ نوع کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ھٰذا النوع من ھذہ العلوم معرفۃ الائمۃ الثقات المشھور ین من التابعین وأتباعھم ممن یجمع حدیثھم للحفظ والمذاکرۃ والتبرک بذکرھم من الشرق الی الغرب۔
”علوم حدیث کی یہ نوع مشرق و مغرب کے تابعین اور اتباع تابعین میں سے مشہور ائمہ ثقات کی معرفت اور ان کے ذکر میں ہے جن کی بیان کردہ احادیث حفظ و مذاکرہ اور تبرک کی غرض سے جمع کی جاتی ہیں“۔
پھر اس نوع کے تحت بلاد اسلامیہ کے گیارہ علمی مراکز مدینہ، مکہ،مصر، شام یمن، یمامہ، کوفہ، جزیرہ، بصرہ، واسط، خراسان کے مشاہیر ائمہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔
۱۔ محدثین مدینہ میں سے امام محمد بن مسلم زہری، محمد بن المنکدر قرشی، ربیعۃبن ابی عبدالرحمٰن الرائی، امام مالک بن انس، عبد اللہ بن دینار، عبید اللہ بن عمر بن حفص عمری، عمر بن عبدالعزیز، سلمہ بن دینار، جعفر بن محمد الصادق وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۲۔ محدثین مکہ میں سے ابراہیم بن میسرہ، اسماعیل بن امیہ، مجاہدبن جبیر، عمر و بن دینار، عبدالملک بن جریج، فضیل بن عیاض وغیرہ کے اسماء ذکر کئے ہیں۔
۳۔ محدثین مصر میں سے عمرو بن الحارث، یزید بن ابی حبیب، عیاش بن عباس القتبانی عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر، حیوۃ بن شریح التحبیبی، رزیق بن حکیم الایلی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
۴۔ محدثین شام میں سے عبدالرحمٰن بن عمرو الاوزاعی، شعیب بن ابی حمزہ الحمصی، رجاء بن حیوۃ الکندی، امام ملحول (الفقیہ) وغیرہ کے اسماء بیان کئے گئے ہیں۔
۵۔ اہل یمن میں سے ہمام بن منبہ، طاؤس بن کیسان، ضحاک بن فیروز ویلمی، شرجیل بن کلیب صنعانی وغیرہ کے نام لیے ہیں۔
۶۔ محدثین یمامہ میں سے یحییٰ بن ابی کثیر، ابو کثیر یزید بن عبدالرحمٰن السحیمی، عبداللہ بن بدر یمانی وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۷۔ محدثین کوفہ میں سے عامر بن شراحیل الشعبی، ابراہیم نخعی، ابو اسحاق السبیعی، عون بن عبداللہ، موسی بن ابی عائشہ الہمدانی سعید بن مسروق الثوری، الحکم بن عتیبہ الکندی، حماد بن ابی سلیمان(شیخ امام ابو حنیفہ) منصور بن المعتمر السلمی، زکریا بن ابی زائدہ الہمدانی، معسر بن کدام الہلالی، امام ابو حنیفہ النعمان بن ثابت التیمی، سفیان بن سعد الثوری، الحسن بن صالح بن حی، حمزہ بن حبیب الزیات، زفر بن الہذیل (تلمیذ امام ابو حنیفہ) وغیرہ کا نام لیا ہے۔
۸۔ محدثین جزیرہ میں سے میمون بن مہران، کثیر بن مرۃ حضری، ثور بن یزید ابو خالد الرجی، زہیر بن معاویہ،خالد بن معدان العابد وغیرہ کے اسماء ذکر کیے ہیں۔
۹۔ اہل بصرہ کے محدثین میں سے ایوب بن ابی تیمیہ السختیانی معاویہ بن قرۃ مرنی، عبداللہ بن عون، داؤد بن ابی ہند شعبہ بن الحجاج(امام الجرح والتعدیل) ہشام بن حسان، قتادۃ بن دعامتہ سددسی، راشد بن یحیح حمانی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
۰۱۔ اہل واسط میں سے یحییٰ بن دینار رمانی، ابو خالد یزید بن عبدالرحمٰن دالانی، عوام بن حوشب وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۱۱۔ محدثین خراسان میں عبدالرحمٰن بن مسلم، عتیبہ بن مسلم، ابراہیم بن ادہم الزاہد، محمد بن زیاد وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے (۱)
اس نوع میں امام حاکم نے پانچ سو سے زائد ان ثقات ائمہ حدیث کو ذکر کیا ہے جن کی مرویات محدثین کی اہمیت کی حامل ہیں اور انہیں جمع کرنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور ان ائمہ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کیا اس کے بعد بھی امام صاحب کے حافظ حدیث بلکہ کبار حفاظ حدیث میں ہونے کے بارے میں کسی تر دد کی گنجائش رہ جاتی ہے۔
اسی طرح امام ذہبی جو بقول حافظ ابن حجر عسقلانی نقدر جال میں استقراء تام کے مالک تھے۔ اپنی اہم ترین و مفید ترین تصنیف سیر اعلام النبلاء میں امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے تذکرہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول ”العلم یدور علی ثلثۃ مالک، واللیث وابن عیینۃ“
(علم حدیث تین بزرگوں امام مالک، امام لیث بن سعد اور امام سفیان بن عیینہ پر دائر ہے) کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
(۱) معرفۃ علو الحدیث از امام حاکم نیساپوری ص۔ ۴۲۔ ۹۴۲
قلت بل وعلی سبعۃ معھم، وھم الاوزاعی، الثوری، وأبو حنیفۃ، وشعبۃ والحمادان(۱)
(۱) سیر اعلام النبلاء ۸/۴۹
میں کہتا ہوں کہ ان تینوں مذکورہ ائمہ حدیث کے ساتھ مزید سات بزرگوں یعنی امام اوزاعی، امام ثوری، امام معمر امام حنیفہ، امام شعبہ امام حماد اور امام حماد بن زید پر علم دائر ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں امام ذہبی ان اکابر ائمہ حدیث کے زمرہ میں جن پر علوم حدیث دائر ہے امام ابو حنیفہ کو بھی شمار کر رہے ہیں امام صاحب کے کبار محدثین کے صف میں ہونے کی یہ کتنی بڑی اور معتبر شہادت ہے اس کا اندازہ اہل علم کر سکتے ہیں۔
نیز اسی سیر اعلام النبلاء، میں مشہور امام حدیث یحییٰ بن آدم کے تذکرہ میں محمود بن غیلان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ
”سمعت أباأسامۃ یقول کان عمرؓ فی زمانہ راس الناس وھو جامع وکان بعدہ ابن عباس فی زمانہ وبعدہ الشعبی فی زمانہ وکان بعدہ سفیان الثوری وکان بعد الثوری یحیٰ بن آدم“
محمودبن غیلان کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر فاروقؓ اپنے عہد میں علم واجتہاد کے اعتبار سے لوگوں کے سردار تھے اور وہ جامع فضائل تھے۔ اور انکے بعد حضرت ابن عباسؓ اپنے زمانہ میں، اور ان کے بعد امام شعبی اپنے زمانہ میں اور امام شعبی کے بعد سفیان ثوری اپنے زمانہ میں اور ان کے بعد یحییٰ بن آدم اپنے زمانے میں علم واجتہاد کے امام تھے۔
اس قول کو نقل کرنے کے بعد اس بارے میں اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
قلت: قد کان یحییٰ بن آدم من کبارائمۃ الاجتھاد، وقد کان عمر کما قال فی زمانہ ثم کان علی، وابن مسعود، ومعاذ، وابو الدر داء، ثم کان بعدھم فی زمانہ زید بن ثابت، وعائشہ وابو موسیٰ، وابو ھریرۃ، ثم کان ابن عباس وابن عمر، ثم علقمۃ، مسروق وابوادریس وابن المسیب، ثم عروۃ والشعبی والحسن وابراھیم النخعی ومجاھدوطاؤس وعدّہ ثم الزھری وعمر بن عبدالعزیز، وقتادۃ وأیوب ثم الأعمش وابن عون وابن جریج وعبیداللہ بن عمر ثم الأوزاعی وسفیان الثوری، ومعمر و ابو حنیفہ وشعبہ ثم مالک واللیث وحماد بن زید و ابن عیینۃ ثم ابن المبارک یحییٰ القطان ووکیع وعبدالرحمن وابن وھب، ثم یحییٰ بن آدم وعفان والشافعی وطائفۃ ثم أحمد واسحاق ابو عبید و علی المدینی وابن معین ثم ابو محمد الدارمی ومحمد بن اسماعیل البخاری وآخرون من ائمۃ العلم والاجتھاد۔ (۱)
وہ کہتا ہو یقینا یحییٰ بن آدم کبار ائمہ اجتہاد میں سے تھے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلاشبہ اپنے زمانہ میں علم و اجتہاد میں سرتاج مسلمین تھے پھر ان کے بعد حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل ابو درداء رضی اللہ عنہم کا مرتبہ ہے، ان حضرات کے بعد زید بن ثابت عائشہ صدیقہ ابو موسیٰ اشعری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم کا علم و اجتہاد میں مرتبہ تھا، ان حضرات کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا مقام تھا پھر ان حضرات صحابہ کے بعد علقمہ، مسروق، ابو ادریس خولانی اور سعید بن المسیب کا درجہ تھا پھر عروۃ بن زبیر، امام شعبی، حسن بصری، ابراہیم تخعی، مجاہد، طاؤس وغیرہ تھے پھر ابن شہاب زہری، عمر بن عبدالعزیز، قتادہ، ایوب سختیانی کامرتبہ تھا پھر امام اعمش، ابن عون، ابن جریج، عبیداللہ بن عمر کر درجہ تھا پھر امام اوزاعی، سفیان ثوری، معمر، امام ابو حنیفہ اور شعبہ بن حجاج کا مقام و مرتبہ تھا پھر امام مالک، لیث بن سعد، حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ تھے، پھر عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید قطان، وکیع بن جراح، عبدالرحمٰن بن مہدی، عبداللہ بن وہب تھے پھر یحییٰ بن آدم، عفان بن مسلم، امام شافعی وغیرہ تھے پھر امام احمد بن حنبل اسحاق بن راہویہ، ابو عبید، علی بن المدینی اور یحییٰ بن معین تھے پھر ابو محمددارمی، امام بخاری اور دیگر ائمہ علم و اجتہاد اپنے زمانہ میں تھے۔
اس موقع پر بھی امام ذہبی نے اکابر ائمہ حدیث کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا ہے جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ امام ذہبی کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث میں ان اکابر کے ہم پایہ ہیں۔
(۱) سیر اعلام النبلاء ۹/۵۲۵۔۶۲۵۔
یہ اکابر محدثین یعنی امام مسعر بن کدام، امام ابو سعد سمعانی، حافظ حدیث یزید بن ہارون، استاد امام بخاری مکی بن ابراہیم ابو مقاتل، امام عبدالعزیز بن رداد، مؤرخ کبیر المحدث محمد بن یوسف صالحی، امام المحدثین ابو عبداللہ حاکم نیشا پوری امام ذہبی وغیرہ بیک زبان شہادت دے رہے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اپنے عہد کے حفاظ حدیث میں امتیازی شان کے مالک تھے ان اکابر متقد مین ومتأخرین علمائے حدیث کے علاوہ امام ابن تیمیہ، ان کے مشہور تلمیذ ابن القیم وغیرہ حفاظ حدیث بھی امام صاحب کو کثیر الحدیث ہی نہیں بلکہ اکابر حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہیں۔
اس موقع پر بغرض اختصار انہیں مذکورہ ائمہ حدیث وفقہ کی نقول پر اکتفا کیا گیا ہے امام اعظم ؒ کی مدح و توصیف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ امام حافظ عبدالبر اندلسی مالکی اپنی انتہائی وقیع کتاب ”الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء“ میں سرسٹھ ۷۶ اکابر محدثین وفقہاء کے اسماء نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:وکل ھٰولاء أثنو ا علیہ و مدحوہ بألفاظ مختلفۃ (۱)
ان سارے بزرگوں نے مختلف الفاظ میں امام ابو حنیفہ ؒ کی مدح و ثناء کی ہے امام صاحب کے بارے میں تاریخ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں کے اقوال کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس صحیح حدیث کی روشنی میں دیکھئے خادم رسول اللہﷺ بیان کرتے ہیں کہ:
مرّو ابجنازۃ فاثنوا علیھا خیراّفقال النبی ﷺ! وجبت فقال عمر ماوجبت؟ فقال ھذا اٗثنیتم علیہ خیرا، فوجیت لہ الجنۃ أنتم شھداء اللہ فی الأرض (متفق) علیہ)(۲)
حضرات صحابہ کا ایک جنازہ کے پاس سے گزر ہوا تو ان حضرات نے اس کی خوبیوں کی تعریف کی اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا واجب ہو گئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا چیز واجب ہو گئی؟ تو رسول خداﷺ نے فرمایا تم نے اسکے خیرو بھلائی کو بیان کیا لہٰذا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (۱) الانتفاء ص ۹۲۲ مطبوعہ دارالبشائر بیروت ۷۱۴۱(۲) مشکوٰۃ المصابیح ص ۵۴ اباختصار اس حدیث پاک کے مطابق یہ اعیان علماء اسلام یعنی محدثین فقہاء، عباد زہاد اور اصحاب امانت و دیانت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی عظمت شان اور دینی امامت کے بارے میں شہداء اللہ فی الارض ہیں اور اللہ کے ان گواہوں کے شہادت کے بعد مزید کسی شہادت کی حاجت نہیں
یہ رتبہئ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر اک کا نصیب یہ بخت رساں کہاں
سید الفقہاء، سراج الامت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علم و فضل اور امامت و شہرت کے جس بلند و بالا مقام پر ہیں، ان کی عظمت شان بذات خود انہیں ائمہئ جرح و تعدیل کی انفرادی تعدیل و توثیق سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
چنانچہ امام تاج الدین سبکی اصول فقہ پر اپنی مشہور کتاب ”جمع الجوامع“ کے آخر میں لکھتے ہیں۔
ونعتقد أن أباحنیفۃ ومالکا، والشافعی، وأحمد، والسفیانین، والأوزاعی، واسحاق بن راھویہ، وداؤدالظاھری، وابن جریر وسائر ائمۃ المسلمین علی ھدی من اللہ فی العقائد وغیر ھا والالتفات الی من تکلم فیھم بماھم بریؤن منہ فقد کانو ا من العلوم الدنیۃ والمواھب الالھیۃ والاستنباط الدقیقۃ والمعارف الغزیرۃ والدین والورع والعبادۃ والزھادۃ والجلالۃ بالمحل لایسامیٰ۔“(۱)
ہمارا اعتقاد ہے کہ ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد، سفیان ثوری، وسفیان بن عیینہ، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ، داؤد ظاہری، ابن جریر طبری اور سارے ائمہ مسلمین عقائد و اعمال میں منجانب اللہ ہدایت پر تھے اور ان ائمہ دین پر ایسی باتوں کی حرف گیری کرنے والے جن سے یہ بزرگان دین بری تھے مطلقاً لائق التفات نہیں ہیں کیونکہ یہ حضرات علوم لدنی، خدائی عطایا، باریک استنباط، معارف کی کثرت، اور دین و پرہیز گاری، عبادت و زہد نیز بزرگی کے اس مقام پر تھے جہاں پہنچا نہیں جا سکتا ہے۔ نیز شیخ الاسلام ابو اسحاق شیرازی شافعی اپنی کتاب اللمع فی اصول الفقہ میں رقم طراز ہیں۔
وجملتہ أن الراوی لا یخلوا اما ان یکون معلوم العدالۃ أومعلوم الفسق أو مجھول الحال، فان کانت عدالتہ معلومۃ کالصحابۃ رضی اللہ عنھم أو أفاضل التابعین کالحسن وعطاء والشعبی والنخعی اواجلاء الأئمۃ کمالک، وسفیان، وأبی حنیفۃ، والشافعی، وأحمد، واسحاق، ومن یجری مجراھم وجب قبول خیرہ ولم یجب البحث عن عدالتہ۔ (۱)
(۱) اللمع فی اصول الفقہ ص ۱۴ مطبوعہ مصطفیٰ البالی الحلی بمصر ۸۵۳۱ ھ
”جرح و تعدیل کے باب میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ راوی کی یا تو عدالت معلوم و مشہور ہو گی یا اس کا فاسق ہونا معلوم ہو گا، یا وہ مجہول الحال ہو گا(یعنی اس کی عدالت یا فسق معلوم نہیں) تو اگر اس کی عدالت معلوم ہے جیسے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم یا افاضل تابعین جیسے حسن بصری، عطاء بن رباح، عامر شعبی، ابراہیم نخعی یا جیسے بزرک ترین ائمہ دین جیسے امام مالک، امام سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ اور جو ان کے ہم درجہ ہیں تو ان کی خبر ضرور قبول کی جائے گی اور ان کی عدالت و توثیق کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی۔“
یہی بات اپنے الفاظ میں حافظ ابن صلاح نے اصول حدیث پر اپنی مشہور ومعروف کتاب علوم الحدیث میں تحریر کی ہے۔ لکھتے ہیں۔
فمن اشتھرت عدالتہ بین أھل النقل من اھل العلم وشاع کالثناء علیہ بالثقۃ والأمانۃ استغنی فیہ بذالک عن بینۃ شاھد بعد التہ تنصیصاً(۱)
”علمائے اہل نقل میں جس کی عدالت مشہور ہو اور ثقاہت و امانت میں جس کی تعریف عام ہو اس شہرت کی بناء پر اس کے بارے میں صراحتاً انفرادی تعدیل کی حاجت نہیں ہے۔“
حافظ شمس الدین سخاوی ”الجواھر الدرفی ترجمۃ شیخ الاسلام ابن حجر“ میں رقم طراز ہیں:۔
وسئل ابن حجر مما ذکرہ النسائی فی ”الضعفاء والمتروکین عن أبی حنیفۃ رضی اللہ أنہ لیس بقوی فی الحدیث وھو کثیر الغلط والخطاء علی قلۃ روایتہ، ھل ھو صحیح؟ وھل وافقہ علی ھذا احد من ائمۃ المحدثین ام لا؟
فاجاب: النسائی من ائمۃ الحدیث والذی قالہ انما ھو حسب ماظھر لہ وأداہ الیہ اجتھادہ، ولیس کل أحدیؤ خذ یجمیع قولہ، وقد وافق النسائی علی مطلق القول فی جماعۃ من المحدثین، واستوعب الخطیب فی ترجمتہ من تاریخہ أقاویلھم وفیھا مایقبل ومایرد وقدا اعتذر عن الامام بانہ کان یری أنہ لایحدث الا بما حفظہ منذ سمعہ الی أن اداہ، فلھذا قلت الروایۃ عنہ وصارت روایتہ قلیلۃ بالنسبۃ لذالک، والا فھو فی نفس الأمر کثیر الروایۃ۔
وفی الجملہ: ترک الخوض فی مثل ھذا أولی فان الا امام وأمثالہ ممن قفزو القنطرۃ فما صار یؤثر فی أحدمنھم قول أحد بل ھم فی الدرجۃ اللتی رفعھم اللہ تعالیٰ الیھا من کونھم متبوعین یقتدیٰ بھم فلیعتمد ھذا واللہ ولی التوفیق(۲)
(۱) علوم الحدیث المعروف بمقدمۃ ابن صلاح ص ۵۱۱
(۲)بحوالہ اثر الحدیث الشریف فی اختلاف الائمہ رضی اللہ عنہم ص ۶۱۱، ۷۱۱ از محقق علامہ محمد عوامہ
”شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانیؒ سے دریافت کیا گیا کہ امام نسائی نے اپنی کتاب ”الضعافاء المتروکین“ میں امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے متعلق جو یہ لکھا ہے کہ ”انہ لیس بالقوی فی الحدیث وھو کثیر الغلط والخطاء علی قلۃ روایتہ“ (کیا یہ بات درست ہے اور ائمہ محدثین میں کسی نے اس قول میں انکی موافقت کی ہے؟) تو شیخ الاسلام حافظ ابن حجر نے جواب دیا۔ نسائی ائمہ حدیث میں ہیں انہوں نے امام اعظمؒ کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ اپنے علم و اجتہاد کے مطابق کہی ہے۔ اور ہر شخص کی ہر بات لائق قبول نہیں ہوتی، محدثین کی جماعت میں سے کچھ لوگوں نے اس بات میں نسائی کی موافقت کی ہے اور امام خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں امام اعظم کے تذکرے میں ان لوگوں کے اقوال کو جمع کر دیا ہے جن میں لائق قبول اور قابل رد دونوں طرح کے اقوال ہیں، امام اعظمؒ کی قلت روایت کے بارے میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ روایت حدیث کے سلسلے میں چونکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ اسی حدیث کا نقل کرنا درست ہے جو سننے کے وقت سے بیان کرنے کے وقت تک یاد ہو باب روایت میں اسی کڑی شرط کی بناء پر ان سے منقول روایتیں کم ہو گئیں ورنہ وہ فی نفسہ کثیر الروایت ہیں“۔
”بہر حال (امام اعظمؒ کے متعلق) اس طرح کی باتوں میں نہ پڑنا ہی بہتر ہے کیونکہ امام ابو حنیفہؒ اور ان جیسے ائمہ دین ان لوگوں میں ہیں جو اس پل کو پار کر چکے ہیں (یعنی باب جرح میں ہماری بحث و تحقیق سے بالاتر ہیں) لہذا ان میں کسی کی جرح مؤثر نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کو امامت و مقتدائیت کی جو رفعت و بلندی عطا کی وہ اپنے اسی مقام بلند پر فائز ہیں۔ ان ائمہئ حدیث کے متعلق اسی تحقیق پر اعتماد کرو اللہ تعالیٰ ہی توفیق کے مالک ہیں“۔
ان اکابر علماء حدیث وفقہ کی مذکورہ بالا تصریحات اور حدیث وفقہ کے اس مسلمہ اصول کے پیش نظر اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کی توثیق و تعدیل سے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کے انفرادی اقوال پیش کیے جائیں پھر بھی بغرض فائدہ مزید امام اعظمؒ کی توثیق و تعدیل سے متعلق ذیل میں کچھ ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال درج کیے جا رہے ہیں۔
۱۔ قال محمد بن سعد العوفی سمعت یحییٰ بن معین یقول کان أبو حنیفۃ ثقۃ لا یحدث بالحدیث الا بما یحفظہ ولا یحدث بما لا یحفظ۔ (۱)
”محمد بن سعد عوفی کا بیان ہے کہ میں نے یحییٰ بن معین سے کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ ثقہ تھے وہ اسی حدیث کو بیان کرتے تھے جو انہیں محفوظ ہوتی تھی اور جو حدیث یاد نہ ہوتی بیان نہیں کرتے تھے“۔
۲۔ وقال صالح بن محمد الأسدی الحافظ سمعت یحییٰ بن معین یقول کان أبو حنیفۃ ثقۃ فی الحدیث۔(۲)
”حافظ صالح بن محمد اسدی کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں ثقہ تھے“۔
۳۔ وقال علی بن المدینی أبو حنیفۃ روی عنہ الثوری، وابن المبارک وحماد بن زیدو ھشیم ووکیع بن الجراح و عباد بن العوام و جعفر بن عون وھو ثقۃ لا بأس بہ۔(۳)
”امام بخاری کے استاذ کبیر علی بن المدینی کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ سے سفیان ثوری عبداللہ بن مبارک، حماد بن زید، ہشیم، وکیع بن الجراح، عباد بن عوام اور جعفر بن عون روایت کرتے ہیں اور وہ ثقہ تھے ان میں کوئی خرابی نہیں تھی۔
۴۔ قال محمد بن اسماعیل سمعت شبابۃ بن سوار کان شعبۃ حسن الرای فی أبی حنیفۃ۔ (۴)
(۱)تھذیب الکمال ا زحافظ مزی ۷/۰۴۳ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ ۸۱۴۱ ھ۔(۲) ایضاً۔
(۳) جامع بیان العلم وفضلہ /۲/۳۸۔ از حافظ ابن عبدالبرمطبوعہ دارالجوزیہ صٰعبۃ ثالثہ ۸۱۴۱(۴) الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء ص ۶۹۱ ازحافظ ابن عبدالبر مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ بیروت لطیعۃ الاولی ۷۱۴۱۔
شبابۃ بن سوا ر کا بیان ہے کہ امام شعبہ بن الحجاج امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔
۵۔ قال عبداللہ بن أحمد بن ابراھیم الدورقی قال سئل یحییٰ بن معین وانا اسمع عن ابی حنیفۃ فقال: ثقۃ ماسمعت احدأضعف ھذا شعبۃ بن الحجاج یکتب الیہ ان یحدث ویامرہ وشعبۃ شعبہ(۱)
(۱) جامع بیان العلم وفضلہ ۲/۴۸۰۱ ”عبداللہ دورقی کہتے ہیں یحییٰ بن معین سے امام ابو حنیفہ کے متعلق پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین نے فرمایا وہ ثقہ ہیں میں نے کسی سے اس کی تضعیف نہیں سنی، یہ امام شعبہ ہیں جنہوں نے امام ابو حنیفہ کو مکتوب لکھا کہ آپ حدیث روایت کیجئے یعنی امام شعبہ نے انہیں حدیث کی روایت کا حکم دیا اور جرح و تعدیل کے فن میں شعبہ کا جو مقام ہے وہ سب کو معلوم ہے“۔
اس موقع پر بغرض اختصار ائمہئ جرح و تعدیل میں سے امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی اور امام شعبہ بن الحجاج کے اقوال پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ورنہ”بقول امام ابن عبدالبرالذین روواعن أبی حنیفۃ ووثقوہ واثنو اعلیہ اکثر من الذین تکلمو افیہ“۔
”یعنی امام ابو حنیفہ سے حدیث کی روایت کرنے اور ان کی توثیق و تعریف کرنے والوں کی تعداد ان پر کلام کرنے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔
پھر ان مذکورہ ائمہ کا فن جرح و تعدیل میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں کہ ان میں سے صرف ایک کی تعدیل کسی کی عدالت کے ثبوت کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔
سراج الامت، سیدالفقہاء نہ صرف ایک عادل و ضابطہ حافظ حدیث تھے بلکہ ائمہ محدثین کی اس صف میں شامل تھے جو علوم حد یث ا ور رجال حدیث میں مہارت، نیز ذکاوت و فراست اور عدالت و ثقاہت میں اس معیار پر تھے جن کے فیصلوں پر راویانِ حدیث کے مقبول و غیر مقبول ہونے کا مدار ہے۔
چنانچہ الامام الناقد الحافظ ابو عبداللہ شمس الدین محمد الذہبی المتوفیٰ ۸۴۷ھ طبقات المحدثین کے فن میں اپنی جامع و نافع ترین کتاب ”تذکرۃ الحفاظ“ کے سر ورق پر رقم طراز ہیں۔
ھذہ تذکرۃ اسماء معدلی حملۃ العلم النبوی ومن ویر جع الی اجتھادھم فی التوثیق والتضعیف والتصحیح والتعریف۔(۱)
”یہ مستقیم السیرت حاملین حدیث اور رجال کی توثیق و تضعیف نیز حدیث کی تصحیح و تضعیف میں جن کے اجتہاد و رائے کی جانب رجوع کیا جاتا ہے کے اسماء کا تذکرہ ہے۔“
اور تذکرہ میں امام ذہبی پانچویں طبقہ کے حفاظ حدیث میں امام صاحب کا بھی ذکر کیا ہے۔ (۲) جس سے صاف ظاہر ہے کہ امام ذہبی نے(جن کے بارے میں ابن حجر کا فیصلہ ہے کہ نقد رجال میں استقراء تام کے مالک ہیں) کے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہؒ کا شمار ان ائمہ حدیث میں ہے جن کے قول سے جرح و تعدیل کے باب میں سند پکڑی جاتی ہے۔
پھر یہی امام ذہبی اپنے رسالہ”ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل“ میں لکھتے ہیں۔
فاول من زکتٰی وجرّح عن دالانقراض عصر الصحابۃ
۱۔ الشعبی، ۲۔ وابن سیرین ونحو ھما حفظ عنھم توثیق أناس و تصعیف آخرین۔ وسبب قلۃ الضعفاء قلۃ متبوعھم من الضعفاء اذکاکثر المتبوعین صحابۃ عدول واکثرھم من غیر الصحابۃ بل عامتھم ثقات صادقون یعون مایرون وھم کبار التابعین۔۔۔۔۔ثم کان فی الماءۃ الثانیۃ فی ادائھا جماعۃ من الضعفاء من ارساط التابعین وصغارھم………… فلما کان عند انقراض عامۃ التابعین فی حدود الخمسین وماءۃ تکلم طائفۃ من الجھابذۃ فی التوثیق والتضعیف ۳۔ فقال ابو حنیفۃ مارایت اکذب من جابر الجعفی الخ۔(۱)
(۱) تذکرۃ الحفاظ۱/۱مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بلا تاریخ (۲) ایضاً ۱/۸۶۱
”عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے خاتمہ کے بعد اولین جرح و تعدیل کرنے والوں میں امام شعبی اور امام ابن سیرین ہیں ان دونوں بزرگوں سے کچھ لوگوں کی توثیق اور کچھ دوسرے لوگوں کی جرح محفوظ ہے۔ اس عہد میں ضعفاء کی کمی کا سبب یہ ہے کہ اس زمانہ کے متبوعین میں حضرات صحابہ ہیں جو سب کے سب عادل ہی ہیں اور غیر صحابہ میں کبار تابعین ہیں جو عام طور پر ثقہ صادق اور اپنی مرویات کو محفوظ رکھنے والے تھے پھر دوسری صدی ہجری کے اوائل میں اوساط و صغار تابعین میں ضعفاء کی ایک جماعت ہے۔ پھر جب ۰۵۱ھ کے حدود میں اکثر اور عام تابعین ختم ہو گئے تو ناقدین رجال کی ایک جماعت نے توثیق و تضعیف کے باب میں کلام کیا چنانچہ امام ابو حنیفہ نے جابر جعفی پر جرح کرتے ہوئے فرمایا مارأیت اکذب من جابر الجعفی، جابر جعفی سے بڑا جھوٹا میں نے نہیں دیکھا“۔
جابر جعفی کے بارے میں امام صاحب کی اس جرح کی بنیاد پر عام طور پر ائمہ رجال نے یہی فیصلہ صادر کیا ہے کہ جابر جعفی کی روایت قابل اعتبار نہیں ہے۔ چنانچہ امام ترمذی کی کتاب العلل میں امام صاحب کے حوالہ سے جابر جعفی پر جرح نقل کی ہے وہ لکھتے ہیں۔
حدثنا محمود بن غیلان، حدثنا ابو یحییٰ الحمانی قال سمعت أبا حنیفہ یقول: مارأیت أحداً أکذب من جابر الجعفی ولأافضل من عطاء۔(۲)
”امام ترمذی ناقل ہیں کہ مجھ سے محمود بن غیلان نے اور انہوں نے اپنے شیخ ابو یحییٰ حمانی سے نقل کیا کہ میں نے ابو حنیفہ سے کہتے ہوئے سنا کہ جابر جعفی سے بڑا جھوٹا اور عطا بن ابی رباح سے افضل میں نے نہیں دیکھا“۔
جرح و تعدیل کے باب میں امام صاحب کے اس قول کی امام ترمذی کے علاوہ امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں، حافظ ابن عدی نے”الکامل فی الضعفاء“ میں اور حافظ ابن عبدالبر نے”جامع بیان العلم و فضلہ“ میں نقل کیا ہے۔
(۱) اربع رسسائل فی علوم الحدیث ص ۲۷۱-۵۷۱ مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ الطبعۃ السادسۃ ۶۱۴۱۵ بتحقیق علامہ محدث عبدالفتاح ابو غدہ۔ (۲) جامع ترمذی ۲/۳۳۳طبع مصر ۲۹۲۱ بحوالہ ابن ماجہ اور علم حدیث از محقق علامہ عبدالرشید نعمانی ص ۹۲۲، تھذیب التھذیب ۲/۸۴(۲) ص۸۰۱،۹۰۱ مطبوعہ دھلی ۵۱۸۱
امام بیہقی کتاب القرأت خلف الامام میں لکھتے ہیں۔
”ولو لم یکن فی جرح الجعفی الاقوال ابی حنیفۃ رحمہ اللہ لکفاہ بہ شرافانہ راہ وجربہ وسمع منہ مایوجب تکذیبہ فاخبربہ۔“(۱)
”جابر جعفی کی جرح میں اگر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ ہی کا قول ہوتا تو بھی اس کے مجروح ہونے کے لیے کافی تھا کیونکہ امام صاحب نے اسے دیکھا اور اس کا تجربہ کیا تھا اور اس سے ایسی باتیں سنی تھیں جس سے اسکی تکذیب ضروری تھی لہٰذا انہوں نے اسکی خبر دی“
اور امام ابو محمد علی بن احمد المعروف بہ ابن حزم اپنی مشہور کتاب ”امحلی فی شرح امجلی“ میں لکھتے ہیں۔
جابر الجعفی کذاب و أول من شھد علیہ بالکذب ابو حنیفۃ(۲)
جابر جعفی کذاب ہے اور سب سے پہلے جس نے اسکے کاذب ہونے کی شہادت دی وہ امام ابو حنیفہ ہیں۔ ان نقول سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ جرح و تعدیل کے باب میں امام بخاری امام علی بن المدینی استاذ امام بخاری امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، یحییٰ بن سعیدقطان، عبدالرحمٰن بن مہدی، امام شعبہ وغیرہ ائمہئ جرح و تعدیل کے اقوال کی طرح امام ابو حنیفہ کے اقوال سے بھی ائمہ حدیث احتجاج و استدلال کرتے ہیں کتب رحال مثلاً تھدیب الکمال ازامام مزی، تذہیب التھذیب از امام ذہبی، تہذیب التہیذیب از حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ میں جرح و تعدیل سے متعلق امام صاحب کے دیگر اقوال بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس مختصر مقالہ میں ان سب اقوال کے نقل کی گنجائش نہیں کسی دوسرے موقع پر انشاء اللہ اس اختصار کی تفصیل بھی پیش کر دی جائے گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔
(۱) ص ۸۰۱۔۹۰۱ مطبوعہ دہلی ۶۱۴۱ (۲) ۱۸۷۳ طبع بیروت
وآخر دعوانا ان الحمداللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔