نماز دین کا ستون ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک سنت کے مطابق ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

###ORIGINAL PDF###

Namazain Sunnat Ke Mutabiq Parhiye by Sheikh Mufti Taqi Usmani

###ORIGINAL PDF###

کتاب کا نام: نمازیں سنت کے مطابق پڑھئیے

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

نمازیں سنت کے مطابق پڑھئیے

جدید ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن

نمازیں
سنت کے مطابق پڑھئیے

مفتی محمد تقی عثمانی

ادارۃ المعارف کراچی ۴۱

باہتمام : محمد مشتاق ستی
طبع جدید : ذوالقعدہ ۴۲۴۱ھ۔ جنوری ۴۰۰۲ء
مطبع : احمد پرنٹنگ پریس، ناظم آباد کراچی
ناشر : ادارۃ المعارف کراچی۔ احاطہ دارالعلوم کراچی ۴۱
فون : 5049733 – 5032020
ای میل:
ملنے کے پتے:
)  ادارۃ المعارف کراچی احاطہ دارالعلوم کراچی ۴۱
    فون: 5049733 – 5032020
)  مکتبہ معارف القرآن کراچی احاطہ دارالعلوم کراچی
     فون: 5031565 – 5031566
اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔
کتاب کا تعارف

بسم اللہ الرحمٰ الرحیم
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذے اصطفی

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

admin – [email protected]

نماز دین کا ستون ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک سنت کے مطابق ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ ہم لوگ بے فکری کے ساتھ نماز کے ارکان جس طرح سمجھ میں آتا ہے، اداکرتے رہتے ہیں، اور اس بات کی فکر نہیں کرتے کہ وہ ارکان مسنون طریقے سے ادا ہوں، اس کی وجہ سے ہماری نمازیں سنت کے انوار و برکات سے محروم رہتی ہیں، حالانکہ ان ارکان کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے سے نہ وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے، نہ محنت زیادہ ہوتی ہے، بس ذرا سی توجہ کی بات ہے۔ اگر ہم تھوڑی سی توجہ دے کر صحیح طریقہ سیکھ لیں اور اس کی عادت ڈال لیں تو جتنے وقت میں ہم آج نماز پڑھتے ہیں، اتنے ہی وقت میں وہ نماز سنت کے مطابق ادا ہو جائے گی، اور اس کا اجر و ثواب بھی اور انوار و برکات بھی آج سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ ع ہم اجمعے کو ماز کا ایک ایک عمل خوب توجہ کے ساتھ س ت کے مطابق ا جام دے ے کا بڑا اہتمام تھا، اور وہ ایک دوسرے سے س تیں سیکھتے بھی رہتے تھے۔

اسی ضرورت کے پیش ظر احقر ے اپ ی ایک مجلس میں ماز کا مس و طریقہ اور اس سلسلے میں جو غلطیاں رواج پا گئی ہیں، ا کی تفصیل بیا کی تھی جس سے بفضلہ تعالیٰ سامعے کو بہت فائدہ ہوا۔ بعض احباب ے خیال ظاہر کیا کہ یہ باتیں ایک مختصر سے رسالے کی شکل میں آ جائیں تو ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ چ ا چہ اس مختصر سے رسالے میں ماز کا مس و طریقہ اور اس کو آداب کے ساتھ ادا کر ے کی ترکیب بیا کر ی مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہم سب کے لئے مفید ب ائیں اور اس پر عمل کر ے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

ماز کے مسائل پر بہت سی چھوٹی بڑی کتابیں بحمداللہ شائع ہو چکی ہیں،یہاں ماز کے تمام مسائل بیا کر ا مقصود ہیں ہے، بلکہ صرف ماز کے ارکا کی ہئیت س ت کے مطابق ب ا ے کے لئے چ د ضروری باتیں بیا کر ی ہیں، اور

ان غلطیوں اور کوتاہیوں پر تنبیہ کرنی ہے جو آج کل بہت زیادہ رواج پا گئی ہیں۔

ان چند مختصر باتوں پر عمل کرنے سے انشا ء اللہ نماز کی کم از کم ظاہری صورت سنت کے مطابق ہو جائے گی، اور ایک مسلمان اپنے پروردگار کے حضور کم از کم یہ عرضداشت پیش کر سکے گا کہ  ؎

ترے محبوب کی یا رب!شباہت لے کے آیا ہوں

حقیقت اس کو تو کر دے، میں صورت لے کے آیا ہوں

وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب

احقر  – محمد تقی عثمانی عفی عنہ   – دارالعلوم کراچی

نماز شروع کرنے سے پہلے

نماز شروع کرنے سے پہلے

یہ باتیں یاد رکھئے اور ان پر عمل کا اطمینان کر لیجئے:۔

(۱) آپ کا رخ قبلے کی طرف ہونا ضروری ہے۔

(۲) آپ کو سیدھا کھڑے ہونا چاہئے اور آپ کی نظر سجدے کی جگہ پر ہونی چاہئے۔ گردن کو جھکا کر ٹھوڑی سینے سے لگا لینا بھی مکروہ ہے، اور بلاوجہ سینے کو جھکا کر کھڑا ہونا بھی درست نہیں۔اس طرح سیدھے کھڑے ہوں کہ نظر سجدے کی جگہ پر رہے۔

(۳) آپ کے پاؤں کی انگلیوں کا رخ بھی قبلے کی جانب ہے، اور دونوں پاؤں سیدھے قبلہ رخ ہیں، (پاؤں کو دائیں بائیں ترچھا رکھنا خلاف سنت ہے) دونوں پاؤں قبلہ رخ ہونے چاہئیں۔

(۴) دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہئے۔

(۵) اگر جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ کی صف سیدھی رہے، صف سیدھی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی دونوں ایڑھیوں کے آخری سرے صف یا اس کے نشان کے آخری کنارے پر رکھ لے۔

(۶) جماعت کی صورت میں اس بات کا بھی اطمینان کر لیں کہ دائیں بائیں کھڑے ہونے والوں کے بازو ملے ہوئے ہیں اور بیچ میں کوئی خلا نہیں ہے۔ لیکن خلا کو پر کرنے کے لئے اتنی تنگی بھی نہ کی جائے کہ اطمینان سے کھڑا ہونا مشکل ہو جائے۔

(۷) اگر اگلی صف بھر چکی ہو تو نئی صف بیچ میں سے شروع کی جائے، دائیں یا بائیں کنارے سے نہیں۔ پھر جو لوگ آئیں، وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ صف دونوں طرف سے برابر ہے۔

(۸) پاجامے کو ٹخنے سے نیچے لٹکانا ہر حالت میں ناجائز ہے، ظاہر ہے کہ نماز میں اس کی شناعت اور بڑھ جاتی ہے، لہٰذا اس کا اطمینان کر لیں کہ پاجامہ ٹخنے سے اونچا ہے۔

(۹) ہاتھ کی آستینیں پوری طرح ڈھکی ہوئی ہونی چاہئیں، صرف ہاتھ کھلے رہیں، بعض لوگ آستینیں چڑھا کر نماز پڑھتے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے۔

(۰۱) ایسے کپڑے پہن کر نماز میں کھڑے ہونا مکروہ ہے جنہیں پہن کر انسان لوگوں کے سامنے نہ جاتا ہو۔

 

نماز شروع کرتے وقت

نماز شروع کرتے وقت

(۱) دل میں نیت کر لیں کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا ہوں، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا ضروری نہیں۔

(۲) ہاتھ کانوں تک اس طرح اٹھائیں کہ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہو اور انگوٹھوں کے سرے کان کی لوسے یا تو بالکل مل جائیں، یا اس کے برابر آجائیں، اور باقی انگلیاں اوپر کی طرف سیدھی ہوں، بعض لوگ ہتھیلیوں کا رخ قبلے کی طرف کرنے کے بجائے کانوں کی طرف کر لیتے ہیں۔ بعض لوگ کانوں کو ہاتھوں سے بالکل ڈھک لیتے ہیں۔ بعض لوگ ہاتھ پوری طرح کانوں تک اٹھائے بغیر ہلکا اشارہ سا کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ کان کی لو کو ہاتھوں سے پکڑ لیتے ہیں۔ یہ سب طریقے غلط اور خلاف سنت ہیں، ان کو چھوڑنا چاہئے۔

(۳) مذکورہ بالا طریقے پر ہاتھ اٹھاتے وقت اللہ اکبر کہیں، پھر دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھوٹی انگلی سے بائیں پہنچے کے گرد حلقہ بنا کر اسے پکڑ لیں اور باقی تین انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی پشت پر اس طرح پھیلا دیں کہ تینوں انگلیوں کا رخ کہنی کی طرف رہے۔

(۴) دونوں ہاتھوں کو ناف سے ذرا سا نیچے رکھ کر مذکورہ بالا طریقے سے باندھ لیں۔

کھڑے ہونے کی حالت میں

کھڑے ہونے کی حالت میں

(۱) اگر اکیلے نماز پڑھ رہے ہوں، یا امامت کر رہیں ہوں تو پہلے سبحانک اللھم الخ، پھر سورہ فاتحہ پھر کوئی اور سورت پڑھیں، اور اگر کسی امام کے پیچھے ہوں تو صرف سبحانک اللھم الخپڑھ کرخاموش ہو جائیں اور امام کی قراء ت کو دھیان لگا کر سنیں، اگر امام زور سے نہ پڑھ رہا ہوں تو زبان ہلائے بغیر دل ہی دل میں سورہ فاتحہ کا دھیان کئے رکھیں۔

(۲) نماز میں قراء ت کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر قراء ت کی جائے کہ خود پڑھنے والا اس کو سن سکے۔ بعض لوگ اس طرح قراء ت کرتے ہیں کہ زبان اور ہونٹ حرکت نہیں کرتے یہ طریقہ درست نہیں، بعض لوگ قراء ت کے بجائے دل ہی دل میں الفاظ کا تصور کر لیتے ہیں اس طرح بھی نماز نہیں ہوتی۔

(۳) جب خود قراء ت کر رہے ہوں تو سورہ فاتحہ پڑھتے وقت بہتر یہ ہے کہ ہر آیت پر رک کر سانس توڑ دیں پھر دوسری آیت پڑھیں، کئی کئی آیتیں ایک سانس میں نہ پڑھیں۔ مثلاً الحمد للہ رب العلمین پر سانس توڑ دیں، پھر الرحمن الرحیم پر، پھر ملک یوم الدین پر۔ اس طرح پوری سورہ فاتحہ پڑھیں، لیکن اس کے بعد کی قراء ت میں ایک سانس میں ایک سے زیادہ آیتیں بھی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں۔

(۴) بغیر کسی ضرورت کے جسم کے کسی حصے کو حرکت نہ دیں، جتنے سکون کے ساتھ کھڑے ہوں، اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر کھجلی وغیرہ کی ضرورت ہو تو صرف ایک ہاتھ استعمال کریں، اور وہ بھی صرف سخت ضرورت کے وقت اور کم سے کم۔

(۵) جسم کا سارا زور ایک پاؤں پر دے کر دوسرے پاؤں کو اس طرح ڈھیلا چھوڑ دیناکہ اس میں خم
آ جائے نماز کے آداب کے خلاف ہے۔ اس سے پرہیز کریں۔ یا تو دونوں پاؤں پر برابر زور دیں یا ایک پاؤں پر زور دیں تو اس طرح کہ دوسرے پاؤں میں خم پیدا نہ ہو۔

(۶) جمائی آنے لگے تو اس کو روکنے کی پوری کوشش کریں۔

(۷) ڈکار آئے تو ہوا کو پہلے منہ میں جمع کر لیا جائے پھر آہستہ سے بغیر آواز کے اسے خارج کیا جائے۔ زور سے ڈکار لینا نماز کے آداب کے خلاف ہے۔

(۸) کھڑے ہونے کی حالت میں نظریں سجدے کی جگہ پر رکھیں، ادھر ادھر یا سامنے دیکھنے سے پرہیز کریں۔

رکوع میں

رکوع میں

رکوع میں جاتے وقت ان باتوں کا خاص خیال رکھیں:

(۱) اپنے اوپر کے دھڑ کو اس حد تک جھکائیں کہ گردن اور پشت تقریباً ایک سطح پر آ جائیں نہ اس سے زیادہ جھکیں، نہ اس سے کم۔

(۲) رکوع کی حالت میں گردن کو اتنا نہ جھکائیں کہ ٹھوڑی سینے سے ملنے لگے، اور نہ اتنا اوپر رکھیں کہ گردن کمر سے بلند ہو جائے بلکہ گردن اور کمر ایک سطح پر ہو جانی چاہئیں۔

(ّ۳) رکوع میں پاؤں سیدھے رکھیں ان میں خم نہ ہونا چاہئے۔

(۴) دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اس طرح رکھیں کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کھلی ہوئی ہوں، یعنی ہر دو انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہو، اور اس طرح دائیں ہاتھ سے دائیں گھٹنے کو اور بائیں ہاتھ سے بائیں گھٹنے کو پکڑ لیں۔

(۵) رکوع کی حالت میں کلائیاں اور بازو سیدھے تنے ہوئے رہنے چاہئیں ان میں خم نہیں آنا چاہئے۔

(۶) کم از کم اتنی دیر رکوع میں رُکیں کہ اطمینان سے تین مرتبہ سبحان ربی العظیم کہا جا سکے۔

(۷) رکوع کی حالت میں نظریں پاؤں کی طرف ہونی چاہئیں۔

(۸) دونوں پاؤں پر زور برابر رہنا چاہئے، اور دونوں پاؤں کے ٹخنے ایک دوسرے کے بالمقابل رہنے چاہئیں۔

 

رکوع سے کھڑے ہوتے وقت

رکوع سے کھڑے ہوتے وقت

(۱) رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اتنے سیدھے ہو جائیں کہ جسم میں کوئی خم باقی نہ رہے۔

(۲) اس حالت میں بھی نظر سجدے کی جگہ پر رہنی چاہئے۔

(۳) بعض لوگ کھڑے ہوتے وقت کھڑے ہونے کی بجائے کھڑے ہونے کا صرف اشارہ کرتے ہیں، اور جسم کے جھکاؤ کی حالت ہی میں سجدے کے لئے چلے جاتے ہیں، ان کے ذمے نماز لوٹانا واجب ہو جاتا ہے، لہٰذا اس سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں،جب تک سیدھے ہونے کا اطمینان نہ ہو جائے، سجدے میں نہ جائیں۔

سجدے میں جاتے وقت

سجدے میں جاتے وقت

سجدے میں جاتے وقت اس طریقے کا خیال رکھیں کہ:

(۱) سب سے پہلے گھٹنوں کو خم دے کر انہیں زمین کی طرف اس طرح لے جائیں کہ سینہ آگے کو نہ جھکے، جب گھٹنے زمین پر ٹک جائیں، اس کے بعد سینے کو جھکائیں۔

(۲) جب تک گھٹنے زمین پر نہ ٹکیں، اس وقت تک اوپر کے دھڑ کو جھکانے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔

آج کل سجدے میں جانے کے اس مخصوص ادب سے بے پروائی بہت عام ہو گئی ہے، اکثر لوگ شروع ہی سے سینہ آگے کو جھکا کر سجدے میں جاتے ہیں، لیکن صحیح طریقہ وہی ہے جو نمبر

(۱) اور نمبر

(۲) میں بیان کیا گیا بغیر کسی عذر کے اس کو نہ چھوڑنا چاہئے۔

(۳) گھٹنوں کے بعد پہلے ہاتھ زمین پر رکھیں، پھر ناک، پھر پیشانی۔

سجدے میں 

سجدے میں

(۱) سجدے میں سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان اس طرح رکھیں کہ دونوں انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو کے سامنے ہو جائیں۔

(۲) سجدے میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بند ہونی چاہئیں، یعنی انگلیاں بالکل ملی ملی ہوں،اور ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔

(۳) انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہونا چاہئے۔

(۴) کہنیاں زمین سے اٹھی ہونی چاہئیں، کہنیوں کو زمین پر ٹیکنا درست نہیں۔

(۵) دونوں بازو پہلوؤں سے بالکل ملا کر نہ رکھیں۔

(۶) کہنیوں کو دائیں بائیں اتنی دور تک بھی نہ پھیلائیں جس سے برابر کے نماز پڑھنے والوں کو تکلیف ہو۔

(۷) رانیں پیٹ سے ملی ہوئی نہیں ہونی چاہئیں،  پیٹ اور رانیں الگ الگ رکھی جائیں۔

(۸) پورے سجدے کے دوران ناک زمین پرٹکی رہے،  زمین سے نہ اٹھے۔

(۹) دونوں پاؤں اس طرح کھڑے رکھیں جائیں کہ ایڑھیاں اوپر ہوں، اور تمام انگلیاں اچھی طرح مڑ کر قبلہ رخ ہو گئی ہوں۔ جو لوگ اپنے پاؤں کی بناوٹ کی وجہ سے تمام انگلیاں موڑنے پر قادر نہ ہوں، وہ جتنی موڑ سکیں،  ا تنی

موڑنے کا اہتمام کریں، بلاوجہ انگلیوں کو سیدھا زمین پر ٹیکنا درست نہیں۔

(۰۱) اس بات کا خیال رکھیں کہ سجدے کے دوران پاؤں زمین سے اٹھنے نا پائیں، بعض لوگ اس طرح سجدہ کرتے ہیں کہ پاؤں کی کوئی انگلی ایک لمحہ کے لئے بھی زمین پر نہیں ٹکتی، اس طرح سجدہ ادا نہیں ہوتا، اور نتیجتا نماز بھی نہیں ہوتی۔ اس سے اہتمام کے ساتھ پرہیز کریں۔

(۱۱) سجدے کی حالت میں کم از کم اتنی دیر گزاریں کہ تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی اطمینان کے ساتھ کہہ سکیں۔ پیشانی ٹیکتے ہی فوراً اٹھا لینا منع ہے۔

دونوں سجدوں کے درمیان

دونوں سجدوں کے درمیان

(۱) ایک سجدے سے اٹھ کر اطمینان سے دو زانو سیدھے بیٹھ جائیں، پھر دوسرا سجدہ کریں، ذرا سا سر اٹھا کرسیدھے ہوئے بغیر دوسرا سجدہ کر لینا گناہ ہے اور اس طرح کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہو جاتا ہے۔

(۲) بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں، اور دایاں پاؤں اس طرح کھڑا کر لیں کہ اس کی انگلیاں مڑ کر قبلہ رخ ہو جائیں، بعض لوگ دونوں پاؤں کھڑے کر کے ان کی ایڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں، یہ طریقہ صحیح نہیں۔

(۳) بیٹھنے کے وقت دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے ہونے چاہئیں مگر انگلیاں گھٹنوں کی طرف لٹکی ہوئی نہ ہوں بلکہ انگلیوں کے آخری سرے گھٹنے کے ابتدائی کنارے تک پہنچ جائیں۔

(۴) بیٹھنے کے وقت نظریں اپنی گود کی طرف ہونی چاہئیں۔

(۵) اتنی دیر بیٹھیں کہ اس میں کم از کم ایک مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے، اور اگر اتنی دیر بیٹھیں کہ اس میں اللھم اغفرلی و ارحمنی واسترنی واجبرنی واھدنی وارزقنی پڑھا جا سکے تو بہتر ہے، لیکن فرض نمازوں میں یہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، نفلوں میں پڑھ لینا بہتر ہے۔

دوسرا سجدہ اور اس سے اٹھنا

دوسرا سجدہ اور اس سے اٹھنا

(۱) دوسرے سجدے میں بھی اس طرح جائیں کہ پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھیں، پھر ناک، پر پیشانی۔

(۲) سجدے کی ہئیت وہی ہونی چاہئے جو پہلے سجدے میں بیان کی گئی۔

(۳) سجدے سے اٹھتے وقت پہلے پیشانی زمین سے اٹھائیں، پھر ناک پھر ہاتھ پھر گھٹنے۔

(۴) اٹھتے وقت زمین کا سہارا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر جسم بھاری ہو یا بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے مشکل ہو تو سہارا لینا بھی جائز ہے۔

(۵) اٹھنے کے بعد ہر رکعت کے شروع میں سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھیں۔

قعدے میں

قعدے میں

(۱) قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ وہی ہو گا جو سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کا ذکر کیا گیا۔

(۲) التحیات پڑھتے وقت جب ”اشھد ان لا “ پر پہنچیں تو شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ کریں، اور
” الااللہ“ پر گرا دیں۔

(۳) اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ بیچ کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنائیں، چھنگلی اور اس کے برابر والی انگلی کو بند کر لیں، اور شہادت کی انگلی کو اس طرح اٹھائیں کہ انگلی قبلے طرف جھکی ہوئی ہو، بالکل سیدھی آسمان کی طرف نا اٹھانی چاہئے۔

(۴) ”الاللہ“ کہتے وقت شہادت کی انگلی تو نیچے کر لیں، لیکن باقی انگلیوں کی جو ہیئت اشارے کے وقت بنائی تھی، اس کو آخر تک برقرار رکھیں۔

سلام پھیرتے وقت

سلام پھیرتے وقت

(۱) دونوں طرف سلام پھیرتے وقت گردن کو اتنا موڑیں کہ پیچھے بیٹھے آدمی کو آپ کے رخسار نظر آ جائیں۔

(۲) سلام پھیرتے وقت نظریں کندھے کی طرف ہونی چاہئیں۔

(۳) جب دائیں طرف گردن پھر کر ”السلام علیکم ورحمتہ اللہ“ کہیں تو یہ نیت کریں کہ دائیں طرف جو انسان اور فرشتے ہیں ان کو سلام کر رہے ہیں، اور بائیں طرف سلام پھیرتے وقت بائیں طرف موجود انسانوں اور فرشتوں کو سلام کرنے کی نیت کریں۔

دعا کا طریقہ

دعا کا طریقہ

(۱) دعا کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ اتنے اٹھائے جائیں کہ وہ سینے کے سامنے آ جائیں، دونوں ہاتھوں کے درمیانمعمولی سا فاصلہ ہو، نہ ہاتھوں کو بالکل ملائیں،اور نہ دونوں کے درمیان زیادہ فاصلہ رکھیں۔

(۲) دعا کرتے وقت ہاتھوں کے اندرونی حضے کو چہرے کے سامنے رکھیں۔

خواتین کی نماز

خواتین کی نماز

پیچھے نماز کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، وہ مردوں کیلئے ہے۔ عورتوں کی نماز مندرجہ ذیل معاملات میں مردوں سے مختلف ہے، لھذا خواتین کو ان مسائل کا خیال رکھنا چاہئے:۔

(۱) خواتین کو نماز شروع کرنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلینا چاہئے کہ انکے چہرے، ہاتھوں، پاوں کے سوا تمام جسم کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے۔

بعض خواتین اس طرح نماز پڑھتی ہیں کہ ان کے بال کھلے رہتے ہیں۔
بعض خواتین کی کلائیاں کھلی رہتی ہیں۔
بعض خواتین کے کان کھلے رہتے ہیں۔
بعض خواتین اتنا چھوٹا دوپٹہ استعمال کرتی ہیں کہ اس کے نیچے بال لٹکے نظر آتے ہیں۔

یہ سب طریقے ناجائز ہیں، اور اگر نماز کے دوران چہرے، ہاتھ اور پاوں کے سوا جسم کا کوئی عضو بھی چوتھائی کے برابر اتنی دیر کھلا رہ گیا جس میں تین مرتبہ سبحان ربی العظیم کہا جاسکے تو نماز ہی نہیں ہوگی، اور اس سے کم کھلا رہ گیا تو نماز ہوجائیگی مگر گناہ ہوگا۔

(۲) خواتین کے لئے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے سے افضل ہے اور برآمدے میں پڑھنا صحن سے افضل ہے۔

(۳) عورتوں کو نمازشروع کرتے وقت ہاتھ کانوں تک نہیں بلکہ کندھوں تک اٹھانے چاہئیں، اور وہ بھی دوپٹے کے اندر ہی سے اٹھانے چاہئیں، دوپٹے سے باہر نہ نکالے جائیں۔ (بہشتی زیور)

(۴) عورتیں ہاتھ سینے پر اس طرح باندھیں کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ دیں۔ انہیں مردوں کی طرح ناف پر ہاتھ نہ باندھنے چاہئیں۔

(۵) رکوع میں عورتوں کے لئے مردوں کی طرح کمر کو بالکل سیدھا کرنا ضروری نہیں، عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم جھکنا چاہئے۔(طحطاوی علی المراقی ص ۱۴۱)

(۶) رکوع کی حالت میں مردوں کو انگلیاں گھٹنوں پر کھول کر رکھنی چاہئیں، لیکن عورتوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ انگلیاں ملا کر رکھیں، یعنی انگلیوں کے درمیان فاصلہ نہ ہو۔ (در مختار)

(۷) عورتوں کو رکوع میں اپنے پاؤں بالکل سیدھے نہ رکھنے چاہئیں بلکہ گھٹنوں کو آگے کی طرف ذراسا خم دے کر کھڑا ہونا چاہئے۔ (در مختار)

(۸) مردوں کو حکم یہ ہے کہ رکوع میں ان کے بازو پہلوؤں سے جدا اور تنے ہوئے ہوں، لیکن عورتوں کو اس طرح کھڑا ہونا چاہئے کہ ان کے بازو پہلوؤں سے ملے ہوئے ہوں۔ (ایضاً)

(۹) عورتوں کو دونوں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا چاہئے، خاص طور پر دونوں ٹخنے تقریباًمل جانے چاہئیں، پاؤں کے درمیان فاصلہ نہ ہونا چاہئے۔ (بہشتی زیور)

(۰۱) سجدے میں جاتے وقت مردوں کے لئے یہ طریقہ بیان کیا گیا ہے کہ جب تک گھٹنے زمین پر نہ ٹکیں اس وقت تک وہ سینہ نہ جھکائیں، لیکن عورتوں کے لئے یہ طریقہ نہیں ہے۔ وہ شروع ہی سے سینہ جھکا کر سجدے میں جا سکتی ہیں۔

(۱۱) عورتوں کو سجدہ اس طرح کرنا چاہئے کہ ان کا پیٹ رانوں سے بالکل مل جائے، اور بازو میں بھی پہلوؤں سے ملے ہوئے ہوں۔ نیز عورت پاؤں کو کھڑا کرنے کے بجائے انہیں دائیں طرف نکال کر بچھا دے۔

(۲۱) مردوں کے لئے سجدے میں کہنیاں زمین پر رکھنا منع ہے، لیکن عورتوں کو کہنیوں سمیت پوری بانہیں زمین پر رکھ دینی چاہئیں۔ (درمختار)

(۳۱) سجدوں کے درمیان اور التحیات پڑھنے کے لئے جب بیٹھنا ہو تو بائیں کولھے پر بیٹھیں اور دونوں پاؤں دائیں طرف کو نکال دیں، اور دائیں پنڈلی پر رکھیں۔ (طحطاوی)

(۴۱) مردوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ رکوع میں انگلیاں کھول کر رکھنے کا اہتمام کریں، اور سجدے میں بند رکھنے کا، اور نماز کے باقی افعال میں انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دیں، نہ بند کرنے کا اہتمام کریں، نہ کھولنے کا۔ لیکن عورتوں کے لئے ہر حالت میں حکم یہ ہے کہ وہ انگلیوں کو بند رکھیں، یعنی ان کے درمیان فاصلہ نہ چھوڑیں، رکوع میں بھی، سجدے میں بھی، دو سجدوں کے درمیان بھی، اور قعدوں میں بھی۔

(۵۱) عورتوں کا جماعت کرنا مکروہ ہے۔ ان کے لئے اکیلی نماز پڑھنا ہی بہتر ہے۔ البتہ اگر گھر کے محرم افراد گھر میں جماعت کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہو جانے میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن ایسے میں مردوں کے بالکل پیچھے کھڑا ہونا ضروری ہے۔ برابر میں ہر گز کھڑی نہ ہوں۔

مسجد کے چند ضروری آداب

مسجد کے چند ضروری آداب

(۱) مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا ء پڑھیں:

بسم اللہ والصلوٰۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللھم افتح لی ابواب رحمتک

(۲) مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ نیت کر لیں کہ جتنی دیر مسجد میں رہوں گا، اعتکاف میں رہوں گا، اس طرح انشاء اللہ اعتکاف کا ثواب بھی ملے گا۔

(۳) داخل ہونے کے بعد اگلی صف میں بیٹھنا افضل ہے، لیکن اگر جگہ بھر گئی ہو تو جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں، لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنا جائز نہیں۔

(۴) جو لوگ مسجد میں پہلے سے بیٹھے ذکر یا تلاوت میں مشغول ہوں ان کو سلام نہیں کرنا چاہئے، البتہ اگر ان میں سے کوئی از خودمتوجہ ہو، اور ذکر وغیرہ میں مشغول نہ ہو تو اس کو سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(۵) مسجد میں سنتیں یا نفلیں پڑھنی ہوں تو اس کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں سامنے سے لوگوں کے گزرنے کا احتمال نہ ہو۔ بعض لوگ پچھلی صفوں میں نماز شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ ان کے سامنے اگلی صفوں میں جگہ خالی ہوتی ہے۔  چنانچہ ان کی وجہ سے دور تک لوگوں کے لئے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور انہیں لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہے، ایسا کرنا گناہ  ہے، اور اگر کوئی شخص ایسی حالت میں نمازی کے سامنے سے گزر گیا تو اس گزرنے کا گناہ بھی نماز پڑھنے والے پر ہو گا۔

(۶) مسجد میں داخل ہونے کے بعد اگر نماز میں کچھ دیر ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں تحےۃ المسجد کی نیت سے پڑھ لیں، اس کا بہت ثواب ہے۔

اگر وقت نہ ہو تو سنتوں ہی میں تحےۃالمسجد کی نیت کر لیں، اور اگر سنتیں پڑھنے کا بھی وقت نہیں ہے اور جماعت کھڑی ہے تو فرض میں بھی یہ نیت کی جا سکتی ہے۔

(۷) جب تک مسجد میں بیٹھیں، ذکر کرتے رہیں، خاص طور پر اس کلمے کا ورد کرتے رہیں۔ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر

(۸) مسجدمیں بیٹھنے کے دوران بلا ضرورت باتیں نہ کریں، نہ کوئی ایسا کام کریں جس سے نماز پڑھنے والوں یا ذکر کرنے والوں کی عیادت میں خلل آئے۔

(۹) نماز کھڑی ہو تو اگلی صفوں کو پہلے پر ُ کریں، اگر اگلی صفوں میں جگہ خالی ہو تو پچھلی صفوں میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔

(۰۱) جمعہ کا خطبہ دینے کے لئے جب امام منبر پر آ جائے تو اس وقت نماز ختم ہونے تک بولنا یا نماز پڑھنا یا کسی کو سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا جائز نہیں ہے، اس دوران اگر کوئی شخص بولنے لگے تو اسے چپ رہنے کی تاکید کرنا بھی جائز نہیں۔

(۱۱) خطبہ کے دوران اس طرح بیٹھنا چاہئے جیسے التحیات میں بیٹھتے ہیں، بعض لوگ پہلے خطبہ میں ہاتھ باندھ کر بیٹھتے ہیں، اور دوسرے خطبے میں ہاتھ زانوں پر رکھ لیتے ہیں، یہ طریقہ بے اصل ہے، دونوں خطبوں میں ہاتھ زانوں پر رکھ کر بیٹھنا چاہئے۔

(۲۱) ہر ایسے کام سے پرہیز کریں جس سے مسجد میں گندگی ہو، بدبو پھیلے یا کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے۔

(۳۱) کسی دوسرے شخص کو کوئی غلط کام کرتے دیکھیں تو چپکے سے نرمی کے ساتھ سمجھا دیں، اس کو برسر عام رسوا کرنے، ڈانٹ ڈپٹ یا لڑائی جھگڑے سے مکمل پرہیز کریں۔

(۴۱) مسجد سے باہر نکلتے وقت بایاں پاؤں پہلے باہر نکالیں اور یہ دعا پڑھیں:

”بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، اللھم انی اسالک من فضلک“

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

admin – [email protected]

Book Options

Author: Shaykh al-Islam Mufti Muhammad Taqi Usmani Hafizullah

Leave A Reply