مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس عقیدے | بطلان مذہب شیعہ

تصنیف | امام اھلسنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقی لکھنؤی نُوراللہ مرقدہ

شیعہ مذہب کے تعارف پر نہایت جامع اورمحققانہ تحریر

تزئین وتقدیم | ابوریحان ضیاالرحمٰن فاروقی

Original PDF###

Shia-Mazhab-key-40-Bunyadi-Aqeedey-Original

###Original PDF###

کتاب کا نام: مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس عقیدے بطلان مذہب شیعہ

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس عقیدے بطلان مذہب شیعہ

مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس عقیدے
بطلان مذہب شیعہ

تصنیف
امام اھلسنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقی لکھنؤی
نُوراللہ مرقدہ

شیعہ مذہب کے تعارف پر نہایت جامع اورمحققانہ تحریر

تزئین وتقدیم
ابوریحان ضیاالرحمٰن فاروقی
اشاعت المعارف ریلوے روڈ فیصل آباد فون ۴۲۰۰۴۶

نام کتاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیعہ مذہب کے چالیس بنیادی عقیدے
نام مصنف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام اہلسنت مولانا عبدالشکور لکھنؤیؒ
تزئین وتقدیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ ضیاء الرحمٰن فاروقی شہیدؒ
صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۶

ناشر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشاعت المعارف ریلوے روڈ فیصل آباد
فون: 041-640024 پاکستان
ھدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 روپے

فاعتبروایالی الابصار (القرآن

فہرست

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

[email protected]

فہرست
عنوان       صفحات

۱۔عرض ناشر (اول)    ۱

۲۔ تمہید   ۸

۳۔پہلاعقیدہ بدا    ۹۱

بداکے متعلق واقعہ اول وواقعہ دوم

عقیدہ بداکے متعلق علمائے شیعہ کا اقرار

عقیدہ بداکے بارے میں علمائے شیعہ کی تاویلات اوران کی حقیقت  ۴۸

۴۔ دوسراعقیدہ خداکوحالت غضب میں دوست ودشمن کی تمیز باقی نہیں رہتی    ۸۲

۵۔تیسراعقیدہ خداوندعالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے ڈرتا تھا    ۸۲

۶۔ چوتھا عقیدہ شیعوں کے نزدیک خدابندوں کی عقل کا محکوم ہے    ۹۲

۷۔پانچواں عقیدہ خداتمام چیزوں کا خالق نہیں    ۹۲

۸۔ چھٹاعقیدہ شیعوں کے نزدیک نبیوں کی ذات میں اصول کفرہوتے ہیں۔    ۹۲

۹۔ ساتواں عقیدہ نبیوں میں بعض خطائیں ہوتی ہیں۔    ۱۳

۰۱۔آٹھواں عقیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خداکی مخلوق سے ڈرتے تھے    ۲۳

۱۱۔ نواں عقیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے انعام کوواپس کردیتے تھے    ۲۳

۲۱۔دسواں عقیدہ انبیا علیہم السلام اپنی تعلیم کی اجرت مخلوق سے طلب کرتے تھے    ۴۳

۳۱۔گیارہواں عقیدہ رسول ﷺ نے اپنی جائیداد اپنی بیٹی کو ہبہ کردی    ۵۳

عنوان       صفحات

۴۱۔بارہواں عقیدہ تحریف قرآن    ۶۳

۵۱۔تیرہواں عقیدہ ازواج مطہرات طالب دنیا تھیں    ۶۳

۶۱۔چودہواں عقیدہ حضرت علی کو ازواج مطہرات کے طلاق دے دینے کااختیارتھا    ۶۳

۷۱۔پندرہواں عقیدہ شیعوں کے نزدیک ازواج مطہرات اہل بیت سے خارج ہیں۔            ۶۳

۸۱۔سولہواں عقیدہ حضرات صحابہ کرام مومن نہ تھے    ۶۳

۹۱۔سترہواں عقیدہ بارہ اماموں کو رسول کاہم پلہ تصورکرناشیعوں کا بے حدضروری عقیدہ ہے    ۶۳

۰۲۔اٹھارہواں عقیدہ آئمہ پیداہوتے ہی تمام آسمانی کتابیں پڑھ ڈالتے ہیں۔             ۶۳

۱۲۔انیسواں عقیدہ بارہویں امام غائب ہوگئے    ۷۳

۲۲۔بیسواں عقیدہ اماموں کے پاس تمام انبیاء کے معجزات ہوتے ہیں    ۷۳

۳۲۔اکیسواں عقیدہ امام حسین کی شہادت کے وقت فرشتوں کو غلط فہمی ہوگئی    ۷۳

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

admin – [email protected]

 

مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس (۰۴) عقیدے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مذہب شیعہ کے بنیادی چالیس (۰۴) عقیدے

عرض ناشر  (اول)

زیر نظر رسالہ ”چالیس ۰۴ عقیدے‘ امام اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقی لکھنؤی ؒ کی ان علمی تحقیقات کا ایک بے حد مختصر نمونہ ہے جوحضرت موصوف نے مذہب شیعہ کے تعارف کے لئے فرمائی ہیں۔

انسان پرستی شیعہ مذہب کی بنیادہے۔بارہ اماموں کو خدائی اختیارات دیناخداکو بداء (بھول چوک) کی تعلیم کرنا،سادات کی اس قدر فضیلت بیان کرنا اوراعمال صالح سے یک دم چشم پوشی۔

مذہب شیعہ میں عبادت کون سی ہے؟ گالی دینا (تبرا) جھوٹ بولنا (تقیہ) متعہ (زناء) کرنا زیادہ سے زیادہ تعزیے نکالنا‘ ماتم کرنا، مجالس منعقدکروانا، شیعوں کی اصالتا عداوت قرآن کریم سے ہے۔ظاہر ہے جس مذہب کی بنیاد ابن سبا اوراس کی ذریت ڈال رہے تھے۔قرآن کریم اس کی مزاحمت کررہا ہے۔ جس سے مذہب شیعہ کا گھروندا بالکل مٹاجاتا ہے۔

ایران میں خمینی کے برسراقتدارآنے کے بعد اس ضرورت کا شدت سے احساس ہواکہ اہلسنت والجماعت کے سامنے اختصار کے ساتھ مذہب شیعہ کا تعارف کرایاجائے تاکہ سنیوں میں خمینی کے برپاکردہ انقلاب کی وجہ سے جوغلط فہمیاں پیداہورہی ہیں۔ان کاازالہ ہو۔بہت سے سادہ لوح ناواقف مسلمان محض کم علمی کی بنیاد پرشیعوں کو اسلامی فرقہ تصورکرتے ہیں اوران کے ساتھ مسلمانوں جیسامعاملہ برتتے ہیں۔جس کی بناء پر بے پناہ مفاسد پیداہوتے ہیں۔حالانکہ علمائے امت کے نزدیک شیعوں کا کفرمسلمہ ہے لیکن عوام الناس اس سے بے خبر ہیں۔ چنانچہ اس ضرورت شدیدہ کے پیش نظر رسالہ مرتب کیا گیا ہے۔جوحضرت امام اہلسنت علیہ الرحمتہ کی معرکتہ الاراکتاب تنبیہ الحائرین کے مقدمہ وتکمہ پر مبنی ہے۔جن میں مذہب شیعہ کے چالیس ۰۴ اہم مسائل کاذکر ہے۔

امیدہے کہ اس رسالہ کے مطالعہ کے بعد اہل سنت والجماعت کو مذہب شیعہ کی حقیقت معلوم کرنے میں دقت نہ ہوگی۔جواس رسالہ کی اشاعت کابڑامقصد ہے۔ حق تعالی اسے قبول فرمائے اورامت مسلمہ کوزیادہ سے زیادہ استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے۔  آمین

عبدالعلیم فاروقی لکھنؤی

۱۱۔رمضان المبارک ۷۰۴۱ھ

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

admin – [email protected]

تمہید
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تمہید

۔۔۔۔۔۔۔ازمصنف

مذہب شیعہ کے برابر خلاف عقل کوئی مذہب دنیا میں نہیں۔ نہ اصول مطابق عقل ہیں نہ فروع۔ بانیان مذہب شیعہ خودبھی جانتے تھے کہ جس مذہب کو وہ ایجادکررہے ہیں۔ اس کی کوئی بات عقل کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے بطورپیش بندی کے انہوں نے یہ حدیث تصنیف کرلی کہ ائمہ معصومین فرماتے ہیں۔

ان حدیثنا صعب مستصعب لایحتملہ الانبی مرسل اوملک مقرب اوعبد مومن امتحن اللہ قلب للایمان

(اصول کافی)

ترجمہ:ہماری حدیثیں سخت مشکل ہیں۔ سوانبی مرسل یا فرشتہ مقرب کے یا اس بندہ مومن کے جس کے قلب کو خدانے ایمان کے لئے جانچ لیاہو کوئی شخص ان کو سمجھ نہیں سکتا۔یہ توشیعہ مذہب کی حالت ہے اس پر مجتہدکہہ رہے ہیں کہ یہی ایک مذہب عقل کے مطابق ہے اچھا فرمائیے۔

(۱)خداکی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کو بداہوتا ہے یعنی وہ جاہل ہے اوراسی وجہ سے اس کی اکثرپیش گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں اورنادم وپشیمان ہوتا ہے اورپھر اس عقیدہ کو اس قدرضروری بتانا کہ جب تک اس عقیدہ کا اقرار نہیں لیاگیا۔ کیس نبی کو نبوت نہیں ملی۔کس عقل کے مطابق ہے؟

(۲)خداکی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے ڈرتا تھا اس لئے اس نے بعض کام ان سے چھپاکرکئے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۳)خداکی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ بندوں کی عقل کا محکوم ہے اوراس پر عدل واجب ہے۔صلح واجب ہے یعنی بندوں کے حق میں جوکام زیادہ مفید ہو‘ خداپر واجب ہے کہ وہ کام کرے۔اسی بناء پر خداکے ذمہ واجب کیا گیا کہ ہرزمانے میں ایک امام معصوم کوقائم رکھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شیعوں کا سوچا ہواانتظام جب دنیا میں نہ پایاجائے اوراکثر ایسا ہی ہوتا ہے تو خداپر ترک واجب کا جرم قائم ہو۔ آج کل بھی صدیوں سے خداترک و واجب کا ارتکاب کررہا ہے کہ کوئی امام معصوم اس نے قائم نہیں کیا۔ایک صاحب صدیوں سے کسی غار میں روپوش بیان کئے جاتے ہیں مگر ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ کیوں کہ ان سے کسی کو فائدہ پہنچنا تودرکنار ملاقات تک نہیں ہوسکتی۔یہ عقیدہ کس عقل کے مطابق ہے؟

(۴)خداکی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ جب اس کو غصہ آتا ہے تودوست ودشمن کی اس کو تمیز نہیں رہتی کس عقل کے مطابق ہے؟

(۵)یہ تقلید مجوس یہ عقیدہ رکھنا کہ خداتمام چیزوں کا خالق نہیں بلکہ بندے بھی بہت سی چیزوں کے خالق ہیں۔ صفت خالقیت میں خداکے لاکھوں کروڑوں بے گنتی بے شمارشریک ہیں اور پھر اپنے کو موحد کہنا کس عقل کے مطابق ہے؟

سچ پوچھو تو شیعوں کا یہ عقیدہ مجوسیوں سے بدرجہا بڑھ گیا مجوسی صرف دوخالق کے قائل ہیں۔ایک یزدان دوسراہرمن۔ مگرشیعہ تو بے گنتی بے شمارخالق بتلاتے ہیں۔پھر نہ معلوم کس قانون سے مجوسی بے چارے تومشرک قراردئیے جائیں اورشیعہ موحد۔ ان ھذا الشئی عجیب۔

(۶) نبیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ ان میں اصول کفر موجود ہوتے ہیں۔کس عقل کے مطابق ہے؟

(۷)نبیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ ان سے بعض ایسی خطائیں سرزد ہوتی ہیں کہ اس کی سزا میں ان سے نورنبوت چھن جاتا ہے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۸)نبیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ مخلوق سے اس قدرڈرتے ہیں کہ احکام خداوندی کی تبلیغ مارے ڈرکے نہیں کرتے۔حتیٰ کہ سیدالانبیاء نے بہت سی آیتیں قرآن شریف کی صحابہ کے ڈر سے چھپاڈالیں جن کا آج تک کسی کو علم نہیں ہوانہ اب ہوسکتا ہے۔ جب کوئی حکم خواہ مخواہ تبلیغ کرانا ہوتا تو خداکوباربارتاکید کرناپڑتی تھی۔ اس پر بھی کام نہ نکلتا توخداکووعدہ حفاظت کرناپڑتا تھا۔کس عقل کے مطابق ہے؟

(۹)نبیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ خداکے انعام کوواپس کردیتے تھے۔باربارخداانعام بھیجتا تھا اوروہ باربارواپس کرتے تھ آخر خداکوکچھ اورلالچ دیناپڑتا تھا اس وقت اس انعام کو قبول کرتے تھے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۰۱)نبیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ اپنی تعلیم کی اجرت مخلوق سے مانگتے تھے اورخدانے ان کو ایسے قابل شرم کام کی اجازت دی تھی کس عقل کے مطابق ہے؟

(۱۱)آنحضرت ﷺ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ نے اپنی رحلت کے قریب ایک بڑی آمدنی کی جائیداد جو بحیثیت جہادحاصل ہوئی تھی اپنی بیٹی کو ہبہ کردی تھی جب کہ حکومت اسلامیہ بالکل مفلس اورحاجت مند تھی کس عقل کے مطابق ہے؟

(۲۱)قرآن شریف کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں پانچ قسم کی تحریف ہوئی،کم کردیاگیا، بڑھادیاگیا، الفاظ بدل دئیے گئے، حرف بدل دئیے گئے، اس کی ترتیب آیتوں اورسورتوں کی خراب کردی گئی اور اب موجودہ قرآن میں نہ فصاحت وبلاغت ہے نہ وہ معجزہ ہے بلکہ وہ دین اسلام کی بیغ کنی کررہا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اس میں ہے۔پھر یہ بھی کہنا کہ باوجودان سب باتوں کے دین اسلام باقی ہے۔ کس عقل کے مطابق ہے؟

(۳۱)آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات جن کو قرآن شریف میں ایمان والوں کی ماں فرمایا اورنبی کو حکم دیا کہ اگر یہ طالب دنیا ہوں توان کو طلاق دے دیجئے ان کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ نعوذباللہ منافقہ تھیں‘ طالب دینا تھیں اورباوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی صحبت میں رکھتے ان سے اختلاط وملاطفت فرماتے رہے کس عقل کی بات ہے؟

(۴۱)یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت علی کو آنحضرت ﷺ کی ازواج کے طلاق دینے کا اختیارتھا۔ اس لئے انہوں نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی نہیں بلکہ آپ کی وفات کے بعد اور بہت بعد حضرت عائشہ صدیقہ کو طلاق دے دی۔ کس عقل کے مطابق ہے؟

(۵۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج کرنا کس عقل کی بات ہے؟

لفظ اہل بیت ازروئے قواعد ولغت عرب ومحاورہ قرآنی زوجہ کے لئے مخصوص ہے۔ شیعوں نے زوجہ کو تو اہل بیت سے خارج کردیا اورجن لوگوں کو مجازی طورپرازراہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت فرمایا تھا ان کے لئے اس لفظ کوخاص کردیا۔

(۶۱) صحابہ جنہوں نے تمام دنیا میں اسلام پھیلایا جو قبل ہجرت ایسے نازک وقت میں اسلام لائے کہ اس وقت کلمہ اسلام کاپڑھنا اژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈالنا تھا۔ اورجب کہ بظاہر اسباب کوئی امید نہ تھی کہ کبھی اس دین کا عروج ہوگا۔ جنہوں نے دین کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں سالہاسال تک اٹھائیں۔جنہوں نے دین کے لئے اپناوطن چھوڑا۔اپنے اعزہ واقارب سے قطع تعلق کیا، جنہوں نے کافروں کی بڑی بڑی سلطنتیں زیروزبرکرکے اسلامی تعلیم کو وہاں رواج دیاجوتئیس برس تک شب وروز سفروحضر میں ہم رکاب وہم صحبت سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے رہے۔ ان حضرات کے بابت (جوہزاروں لاکھوں تھے) یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ سب لوگ دین اسلام کے دشمن تھے۔مال دنیا کے موہوم لالچ میں منافقانہ مسلمان ہوئے تھے اور نبی کے بعد سب کے سب سواتین چارکے مرتد ہو گئے۔قرآن میں تحریف کردی اوروہی محرف قرآن تمام دنیا میں رائج ہوگیا۔نبی کی بیٹی کو انہوں نے ماراپیٹا، حمل

کرایا، مارڈالا، سید الانبیاء کی تئیس برس کی صحبت وتربیت نے ان پرذرہ برابر اثر نہ کیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ اعتقاد کس عقل کے مطابق ہے؟

(۷۱)اپنے خانہ سازاماموں کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ نبیوں کی طرح معصوم ومفرض الطاعتہ ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رتبہ اورباقی انبیاء سے افضل تھے باوجود اس کے کہ ان کو نبی نہ کہنا چاہیے۔کس عقل کے مطابق ہے؟

(۸۱)اماموں کے بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ران سے پیداہوتے ہیں اوران کی پیشانی پر آیت لکھی ہوتی ہے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۹۱)امام مہدی کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ چاربرس کی عمر میں قرآن شریف اورتمام برکات لے کر بھاگ گئے اور سنیوں کے خوف سے ایک غار میں جاکر چھپ رہے اورصدیوں سے اسی غار میں چھپے بیٹھے ہیں۔کسی کو نظر نہیں آتے کس عقل کے مطابق ہے؟

ف:۔امام مہدی کے غائب ہونے کا قصہ تمام تر خلاف عقل باتوں سے بھراہواہے، بھلابتائیے تو اب کون سا خوف ہے جو وہ باہر نہیں نکلتے۔ مرزاغلام احمد قادیانی ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ نبوت کا کرے۔اپنے کو انبیاء سے افضل کہے۔حضرت عیسیٰ کی توہین کرے۔ جھوٹی پیشن گوئی بیان کرے۔ اپنے نہ ماننے والے مسلمان کو کافر کہے اورکوئی اس کاکچھ نہ بگاڑ سکے۔ آپ کے امام مہدی مرزا سے زیادہ کون سی ایسی بات کہتے۔وہ بھی اپنے کو نبیوں سے افضل کہتے۔صحابہ کرام کی توہین کرتے۔جھوٹی پیشین گوئیاں بیان کرتے۔اپنے کو معصوم مفترض الطاعتہ کہتے۔ اپنے نہ ماننے والے  کو ناری کہتے۔قرآن کی توہین کرتے توبس پھر ان کو ایسا کیاخوف ہے کہ وہ باہر نہیں نکلتے۔

(۰۲)اماموں کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ ان کے پاس عصائے موسیٰ، انگشتری سلیمان اوربڑے بڑے معجزات اور بڑے بڑے لشکرجنات کے ہوتے ہیں اوران کو اپنے مرنے کا وقت بھی معلوم ہوتا ہے اوران کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے۔بالخصوص حضرت علی میں علاوہ ان اوصاف کے قوت جسمانی بھی مافوق الفطرت تھی کہ جبرئیل جسے شدید القوی فرشتہ کے پرکاٹ ڈالے پھر باوجود ان عظیم الشان طاقتوں کے یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن محرف ہوگیا۔ فدک چھن گیا۔حضرت فاطمہ پر مارپڑی۔ حمل گرایا گیا،شہید کی گئیں۔حضرت علی کی لڑکی بجبر چھین لی گئی۔حضرت علی گردن میں رسی ڈال کر کھینچے گئے۔زبردستی بیعت لی گئی مگروہ کچھ نہ بولے نہ معجزات سے کام لیا نہ لشکرجنات سے نہ اس پر کچھ دل مضبوط ہوا کہ میری موت کا فلاں وقت مقرر ہے اوروہ بھی میرے اختیار میں ہے۔کس عقل کے مطابق ہے؟

(۱۲)باوجود ان سب قوتوں اورسامانوں کے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت علی کورسول خداصلی اللہ علیہ وسلم وصیت کر گئے تھے کہ چاہے قرآں محرف ہوجائے کعبہ گرادیاجائے تمہارے عزت خاک میں ملادی جائے مگرتم صبرکئے ہوئے خاموش بیٹھے رہنا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۲۲)باوجود وصیت رسول کے اوریاوصف معصوم ہونے کے حضرت علی کا ام المومنین حضرت صدیقہؓ اورحضرت معاویہؓ سے اس بنیاد پر لڑنا کہ وہ لوگ بے دینی کا کام کرتے تھے کس عقل کے مطابق ہے؟

ام المومنینؓ اورحضرت معاویہؓ نے کون سی بے دینی خلفائے ثلاثہ سے بڑھ کرکی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ معاذ اللہ خلفائے ثلاثہ کے کام حضرت معاویہؓ وغیرہ سے بدرجہا بڑھ کرہیں۔ قرآن میں تحریف کرنا‘ متعہ جسیی مرغوب عبادت کوحرام کرنا، نماز تراویح جیسے گناہ بے لذت کورواج دینا، فدک چھین لینا، حضرت فاطمہ کوزودوکوب کرنا، حضرت علی کی گردن میں رسی ڈال کر زبردستی بیعت لینا، ام کلثوم کو غصب کرنا، ان مظالم سے بڑھ کربلکہ ان کے برابر کون سے ظلم حضرت معاویہؓ وغیرہ کا تھا۔حضرت علیؓ خلفائے ثلاثہ سے نہ لڑے اورنہ وہ ان سے لڑے۔زندگی بھر خلفائے ثلاثہ کی خوشامد اوران کی جھوٹی تعریفیں کرتے رہے اور حضرت معاویہ سے برسرپیکار ہوگئے۔ کوئی مجتہد صاحب اسی ایک بات کو کسی طرح مطابق عقل کرکے دکھادیں؟

(۳۲) باوجود اس کے حضرت علی کے حالات خلاف شجاعت وخلاف حمیت وغیرت کتب معتبرہ شیعہ میں بکثرت موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ قدرقلیل اوپر بیان ہوئے۔ بقول شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ عمر بھر اپنا اصلی مذہب چھپائے رہے ہمیشہ جھوٹ بولا۔کئی لوگوں کوجھوٹے مسئلہ بتاتے رہے

پھر ان کواسداللہ الغالب اورراشعج الاشجعین کہنا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۴۲)باوجودحضرت علی کے ان حالات کے اورباوجود اس کے کہ حضرت علی سے زندگی بھرکوئی کارنمایاں نہیں ہوا۔ زمانہ رسول میں جوکام انہوں نے کئے وہ رسول کی پشت پناہی اوران کے اقبال سے۔ان کاذاتی جوہر تواس وقت معلوم ہوتا جب وہ رسول کے بعد کوئی کام کرکے دکھاتے مگر ایسا واقعہ بھی کوئی شیعہ نہیں پیش کرسکتا۔ایسے شخص کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ اصلاح عالم اسی کی خلافت میں تھی اوررسول نے اسی کواپنا خلیفہ بنایا تھا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۵۲)اصحاب آئمہ میں باہم نزاع ہوا اورباوصف امام کے زندہ موجود ہونے کے وہ نزاع رفع نہ ہوا بلکہ ترک  سلام وکلام کی نوبت آجائے مگر شیعہ ان میں سے کسی کو خاطی نہ کہیں سب کو اچھا سمجھیں اوراصحاب رسول میں اگر کوئی ایسا واقعہ ہوگیا ہوتو وہاں ایک فریق کو براکہنا ضروری سمجھیں کس عقل کے مطابق ہے؟

(۶۲)اصحاب آئمہ میں باقرار شیعہ نہ امانت تھی نہ صدق آئمہ پر افترا بھی کرتے تھے۔ آئمہ ان کی تکذیب بھی کرتے تھے‘ آئمہ سے نہ انہوں نے اصول دین کویقین کے ساتھ حاصل کیا تھا نہ فروع کوآئمہ ان سے تقیہ کرتے رہے اپنا اصلی مذہب ان سے چھپایا۔بایں ہمہ ان اصحاب آئمہ کی روایات پر اعتبارکرنا اورشیعہ کی تعلیمات کو آئمہ کی طرف کرنا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۷۲)اولاد رسول میں گنتی کے بارہ تیرہ اشخاص کو مان کرباقی سینکڑوں ہزاروں نفوس کو براکہنا ان سے عداوت رکھنا ان پر تبرابھیجنا اوراس حالت پر محبت آل رسول کادعویٰ کرنا کس عقل کے مطابق ہے؟

یہاں تک تو آپ کے اعتقادات کو نمونہ یکے ازہزار ومشتے ازخروارد دکھایاگیااب ذرااعمال کی طرف توجہ فرمائیے۔

(۸۲)جھوٹ بولنا جس کو ہرزمانہ میں تمام دنیا کے عقلاء نے بدترین عیب قراردیا تمام مذاہب نے اس کو گناہ عظیم مانا۔ اس کو عبادت قراردینا اورپھر عبادت بھی اس درجہ کی کہ دین کے دس حصہ میں ان میں سے نوحصے جھوٹ میں ہیں اور ایک حصہ باقی عبادات نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اورجہادوغیرہ میں ہے اور جو جھوٹ نہ بولے وہ بے دین وبے ایمان ہے اور انبیاء وآئمہ وپیشوایان دین مبلغین شریعت کا دین یہی تھا کہ وہ جھوٹ بولتے اورجھوٹے مسئلے لوگوں کو بتایا کرتے تھے کس عقل کے مطابق ہے؟

ضرورت شدیدہ کے وقت جھوٹ بولنا اگر جائز ہوتا یعنی اس کے ارتکاب میں نہ گناہوتا نہ ثواب تواس میں کچھ اعتراض نہ ہوتا۔

ضرورت شدیدہ کے وقت سورکاگوشت کھالینا بھی جائز ہے جوکچھ اعتراض ہے وہ اس کے عبادت اوربے انتہا ثواب اوراس کے رکن اعظم دین ہونے پر اوراس پر کہ پیشوایان مذہب کا اس کو شیوہ گنا جاتا ہے اوروہ بھی دینی تعلیم میں۔

(۹۲)دین ومذہب کے چھپانے کی تاکیدکرنا اوراپنااصلی مذہب ظاہرکرنے کوبدترین گناہ قراردینا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۰۳)زناء کی اجازت دینا اوراس کو حلال کہنا، عورت ومرد کی رضامندی کو نکاح کے لئے کافی قراردینا نہ گواہ کی ضرورت نہ مہر کی نہ کسی اورشرط کی کس عقل کے مطابق ہے؟

(۱۳)متعہ کو نہ صرف حلال کہنا بلکہ اس کو ایسی اعلیٰ عبادت قراردینا اوراس میں ایسا ثواب بیان کرنا کہ نکاح تونکاح نماز‘ روزہ‘ حج وزکوٰۃ میں بھی وہ ثواب ملتا نہیں کس عقل کے مطابق ہے؟

کتب شیعہ میں لکھا ہے کہ متعی مردوعورت جوحرکات کرتے ہیں ہرحرکت پران کوثواب ملتا ہے۔غسل کرتے ہیں توغسالہ کے ہرقطرہ سے فرشتے پیداہوتے ہیں اوریہ فرشتے قیامت تک تسبیح وتقدیس کرتے ہیں اوراس کاثواب متعی مردوعورت کوملتا ہے۔ایک مرتبہ متعہ کرے توامام حسین کادومرتبہ کرے تو امام حسن کاتین مرتبہ کرتے تو حضرت علی کا چارمرتبہ کرے تو رسول خداکامرتبہ ملتا ہے۔جومتعہ نہ کرے گا وہ قیامت کے دن نکٹا اٹھے گا۔ استغفراللہ

(۲۳) اصحاب رسول کوبُراکہنا گالی دینا اورسب دشنام کواعلیٰ درجہ کی عبادت سمجھنا کس عقل کے مطابق ہے؟

دشنام عذ ہبے کہ طاعت باشد

مذہب معلوم اہل مذہب معلوم

(۳۳)کافرعورتوں کوننگا دیکھنے کاجواز کس عقل کے مطابق ہے؟

(۴۳)سترعورت صرف بدن کے رنگ کو قراردینا اورکوئی ایسا ضمادوغیرہ جس سے صرف بدن کا رنگ بدل جائے لگاکر لوگوں کے سامنے برہنہ ہوجانا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۵۳)عورتوں کے ساتھ وطی فی الدبر یعنی فعل خلاف وضع فطری کا ارتکاب جائز کہنا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۶۳)بے وضو بلاغسل سجدہ تلاوت اورنمازجنازہ کو جائز کہنا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۷۳)کسی میت کی نمازجنازہ میں شریک ہوکربجائے دعاکے اس کو بددعادیناسخت دغا فریب ہے کیوں کہ نمازجنازہ دعائے خیر کے لئے ہے نہ کہ دعائے بد کے لئے۔ یہ دغا کس عقل کے مطابق ہے؟

(۸۳)نماززیارت آئمہ ان کی قبروں کی طرف منہ کرکے پڑھنا گوقبلہ کی طرف پیٹھ ہوجائے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۹۳)نجاست غلیظ میں پڑی ہوئی روٹی کو آئمہ معصومین کی غذابتانا اوریہ کہنا کہ جوایسی غذاکھائے وہ جنتی ہے کس عقل کے مطابق ہے؟

(۰۴)احادیث آئمہ میں اس قدراختلاف ہونا کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس میں اماموں نے مختلف ومتضاد فتوے نہ دئیے ہوں کس عقل کے مطابق ہے؟

اکابر مجتہدین شیعہ اپنی احادیث کے اس عظیم الشان اختلاف سے سخت حیران وپریشان ہیں۔ واقعی ایسا اختلاف کسی مذہب کی روایت میں نہیں ہے۔مجتہدین شیعہ کو مجبورہرکراس کا اقرارکرنا پڑا کہ ہمارے آئمہ معصومین کا اختلاف سینوں کے شافعی حنفی کے اختلاف سے بدرجہا زائد ہے۔بہت سے شیعہ جب اپنے مذہبی اختلاف سے واقف ہوئے تو مذہب شیعہ سے پھر گئے اس کا بھی اقرارمجتہدین شیعہ کی زبان سے موجود ہے۔

=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=.=

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

admin – [email protected]

چالیس ۰۴  عقیدے

چالیس ۰۴  عقیدے

اب ان مسائل کے لئے کتب شیعہ کاحوالہ اوران کی کتب کی اصلی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔حق تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو ذریعہ ہدایت بنائے خداکرے کہ شیعہ اس رسالے کو دیکھ کر اپنے مذہب کی اصلی حقیقت سے واقف ہوجائیں اوراس بات کوسمجھ لیں کہ ایسے بے بنیادمذہب کا نتیجہ سوائے دنیا کی رسوائی اورآخرت کے عذاب کے کچھ نہیں ہے۔ واللہ الموفق والمعین۔

۱۔ پہلا عقیدہ:۔

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خداکوبدا ہوتا ہے۔یعنی معاذاللہ وہ جاہل ہے۔ اس کو سب باتوں کاعلم نہیں۔اسی وجہ سے اس کی اکثر پیشین گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں اوراس کواپنی رائے بدلناپڑتی ہے۔

یہ عقیدہ مذہب شیعہ میں اس قدرضروری ہے کہ آئمہ معصومین کاارشادہے کہ جب تک اس عقیدہ کا اقرار نہیں لے لیاگیا کسی نبی کونبوت نہیں دی گئی اورخداکی عبادت اس عقیدہ کی برابر کسی عقیدہ میں نہیں ہے۔

اصول کافی ص ۴۷ پر ایک مستقل باب بداکا ہے۔اس باب کی چند حدیثیں ملاحظہ ہوں۔

عن زرارہ بن اعین عن احدھما قال ماعبداللہ بشئی مثل البداء۔

زرارہ ابن اعین سے روایت ہے انہوں نے امام باقر یا صادق سے روایت کی ہے کہ اللہ کی بندگی بداکے برابر کسی چیز میں نہیں ہے۔

عن مالک الجھنی قال سمعت اباعبداللہ یقول لوعلم الناس مافی القول بالبداء من الاجر ماافترداعن الکلام منہ۔

مالک جہنی سے روایت ہے۔وہ کہتے ہیں میں امام جعفر صادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ اگر لوگ جان لیں کہ بداء کے قائل ہونے میں کس قدرثواب ہے کبھی اس کے قائل ہونے سے باز نہ رہیں۔

عن مرازم بن حکیم قال سمعت ابا عبداللہ علیہ السلام یقول ماتنھا نبی قط حتی یقراللہ بخمس خصال البداء والمشیتہ والسجود والعبودیتہ والطاعتہ۔

مرازم بن حکیم سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے میں نے امام جعفرصادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ کوئی نبی نہیں بنایاگیا یہاں تک کہ وہ پانچ چیزوں کا اقرارنہ کرے۔بداء کا اورمشیت کا اورسجدہ کا اورعبودیت کا اوراطاعت کا۔

ان روایات سے معلوم ہوا کہ عقیدہ بداء کیسی ضروری چیز ہے۔ اب رہی بات کہ بداکیا چیز ہے۔اس کے لئے لغت عربی دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ واقعات بداکے کتب شیعہ سے پیش کروں گا۔ پھر علمائے شیعہ کا اقرار کہ بے شک بداء کے معنی یہی ہیں کہ خداجاہل ہے۔

لغت عرب:  

 بداء عربی زبان کالفظ ہے تمام لغت کی کتابوں میں لکھا ہے۔بدالہ ای ظھر لہ مالم یظھر یعنی بداء کے معنی ہیں نامعلوم چیز کا معلوم ہوجانا۔ یہ لفظ اسی معنی میں قرآن شریف میں بکثرت مستعمل ہے۔

رسالہ ”ازالتہ الغرور“ امروہبہ کے مصنف کودیکھئے عقیدہ بداکاجواب دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہاں دولغتیں ہیں۔ بدابالالف اوربدابہمزہ ہے۔ حالانکہ یہ محض جہل ہے۔ بدابہمزہ کے معنی شروع ہونا، اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی لغت دانی اوراس پر یہ لن ترانی لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔

واقعات:۔

بداکے واقعات کتب شیعہ میں بہت ہیں مگر ہم یہاں صرف دوواقعوں کا ذکر کافی سمجھتے ہیں۔ اول یہ کہ امام جعفرصادق نے خبردی کہ اللہ تعالی نے میرے بعد میرے بیٹے اسمٰعیل کو امامت کے لئے نامزدکیا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ امام کی علامات جو کتب شیعہ میں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام ران سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیشانی پر آیت تمت کلمتہ ربک صدقاوغدلا لکھی ہوتی ہے۔ نیزرسول خداحضرت علی کی بارہ لفافے سربمہر دے گئے تھے جو خداکی طرف سے اترے تھے۔جبرئیل لائے تھے پس ضروری ہے کہ اسمٰعیل بھی ران سے پیداہوئے ہوں گے ان کی پیشانی پر آیت بھی لکھی ہوگی۔ایک لفافہ بھی ان کے نام ہوگا مگرافسوس خداکو یہ معلوم نہ تھا کہ اسمٰعیل میں یہ قابلیت نہیں ہے۔ چنانچہ پھر خداکو اعلان کرناپڑا کہ اسمٰعیل امام نہ ہوں گے بلکہ موسیٰ کاظم امام ہوں گے۔ علامہ مجلسی بحارالانوار میں روایت فرماتے ہیں اوراس روایت کو محقق طوسی بھی فقد المحصل میں لکھتے ہیں۔

عن جعفر الصادق انہ جعل اسمٰعیل القائمہ مقامہ بعد فظھر من اسمٰعیل مالم یرتضہ فجعل القائمہ مقامہ موسی فسئل عن ذالک فقال بداللہ فی اسمٰعیل۔

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ انہوں نے اسمٰعیل کو قائم مقام اپنے بعدکے لئے مقررکیا مگراسمٰعیل سے کوئی بات ایسی ظاہر ہوئی جس کو انہوں نے پسند نہ کیا لہذا انہوں نے موسیٰ کا اپنا قائم مقام بنایا اس کی بابت پوچھا گیا توفرمایا کہ اللہ کو اسمٰعیل کے بارہ میں بداہوگیا۔

ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ جس کو شیخ صدوق نے رسالہ اعتقادیہ میں لکھا ہے۔ کہ

مابداللہ فی شیئی کمابدالہ فی اسمعیل ابنی 

اللہ کوایسابداکبھی نہیں ہوا جیسابدا میرے بیٹے اسمٰعیل کے بارہ میں ہوا۔

دوسراواقعہ یہ ہے کہ امام علی تقی نے خبردی کہ میرے بعد میرے بیٹے محمد امام ہوں گے۔ مگرخداکویہ معلوم نہ تھا کہ محمد اپنے والد کے سامنے مرجائیں گے۔جب یہ واقعہ پیش آیا توخداکواپنی رائے بدلنی پڑی اورخلاف قاعدہ مقررہ کہ بڑے بیٹے کو امامت ملتی ہے حسن عسکری کو امام بنایا۔

اصول کافی ص ۴۰۲ میں ہے۔

عن ابی الھاشم الجعفری قال کنت عندابی الحسن علیہ السلام بعدمامعنی ابنہ ابوجعفر وابی لافکر فی نفسی اربدان اقول کانھما اعتی ابا جعفر وابامحمد فی ھذاالوقت کاہی الحسن موسی واسمٰعیل وان قصتہ کقصتھما اذاکان ابومحمد الموجابعدابی جعفر فاقبل علی ابوالحسن علیہ السلام قبل ان انطق فقال نعم یا ابا ھاشم بداء اللہ فی ابی محمد بعد ابی جعفر مالم تکن تعرف لہ کمابدالہ فی موسی بعد مضی اسمٰعیل ماکشف بہ عن حالہ وھوکما حدشتک نفسک وان کرہ المبطلون وابومحمد ابنی الخلف بعدی عندہ علم مایحتاج الیہ ومعہ الہ الامامہ۔

ابوالہاشم جعفری سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے میں ابوالحسن (یعنی امام تقی) علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہواتھا جب کہ ان کے بیٹے ابوجعفر یعنی محمد کی وفات ہوئی۔میں اپنے دل میں سوچ رہاتھا اوریہ کہناچاہتا تھا کہ محمد اورحسن عسکری کا اس وقت وہی حال ہوا جو امام موسیٰ کاظم اوراسمٰعیل فرزندان امام جعفرصادق کا ہواتھا۔ان دونوں کے واقعہ کے مثل ہے کیوں کہ ابومحمد (یعنی حسن عسکری) کی امامت بعدابوجعفر (یعنی محمد) کے مرنے کے ہوئی توامام تقی میری طرف متوجہ ہوئے اورانہوں نے قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں (روشن ضمیری دیکھئے) فرمایا اے ابوہاشم اللہ کو ابوجعفر کے مرجانے کے بعد ابومحمد کے بارے میں بداء ہوا جوبات معلوم نہ تھی وہ معلوم ہوگئی جیسا کہ اللہ کو اسمٰعیل کے بعد موسیٰ کے بارہ میں بداء ہواتھا۔جس نے اصل حقیقت ظاہر کردی اور یہ بات ویسی ہی ہے جیسی تم نے خیال کی اگرچہ بدکارلوگ اس کو ناپسند کریں اورابومحمد (یعنی حسن عسکری) میرے بعد میراخلیفہ ہے اس کے پاس تمام ضرورت کی چیزوں کا علم ہے اوراس کے پاس آلہ امامت بھی ہے۔

اقرار:۔

اگرچہ ایسی صاف بات کے لئے اقرارکی ضرورت نہ تھی مگر خداکی قدرت ہے کہ علمائے شیعہ نے اگرچہ اہل سنت کے مقابلہ میں تو ہمیشہ تاویلات سے کام لیا لیکن آپس کی تحریروں میں انہوں نے صاف اقرار کرلیا ہے کہ بدا سے خداکاجاہل ہونا لازم آتا ہے۔ شیعوں کے مجتہد اعظم مولوی دلدارعلی اساس الاصول مطبوعہ لکھنؤ کے ص ۹۱۲ پر لکھتے ہیں۔

اعلم ان البدالا ینبغی ان یقول بہ لانہ یلزم منہ ان یتصف الباری تعالی بالجبل کمالایخفی

جاننا چاہیے کہ بدااس قابل نہیں کہ کوئی اس کا قائل ہو کیوں کہ اس سے باری تعالیٰ کا جاہل ہونالازمی آتا ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے۔

اس کے ساتھ اساس الاصول میں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ شیعوں میں سوائے محقق طوسی کے اورکوئی بداکامنکر نہیں ہوا۔

اب ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ شیعوں کو کیا ضرورت اس عقیدہ کے تصنیف کی پیش آئی۔اصل واقعہ یہ ہے کہ جب اسلام کے چالاک دشمنوں نے مذہب شیعہ کوتصنیف کیا تووہ خودبھی جانتے تھے کہ کوئی انسان اس مذہب کو قبول نہیں کرسکتا لہذا انہوں طرح طرح کی تدبیریں اس مذہب کے رواج دینے کے لئے اختیارکیں۔ازاں جملہ یہ کہ فسق وفجور کے راستے خوب وسیع کردئیے۔ متعہ، لواطت، شراب خوری کا بازار گرم کیا۔چنانچہ اس قسم کی روایتیں بکثرت آج بھی کتب شیعہ میں موجود ہیں۔

ازاں جملہ یہ کہ انہوں نے دنیاوی طمع کاراستہ بھی خوب کشادہ کیا۔سینکڑوں روایتیں اس مضمون کی آئمہ کے نام سے تصنیف کردیں کہ فلاں سنہ میں جوبہت ہی قریب ہے دنیا میں انقلاب عظیم ہوجائے گا اوربڑی سلطنت وحکومت جاہ وحشمت شیعوں کو حاصل ہوگی پھر جب وہ سنہ آتا اوران پیشین گوئیوں کا ظہورنہ ہوتا توکہہ دیتے کہ خداکو بداہوگیا ہے۔ ایک روایت اس قسم کی حسب ذیل ہے۔ اصول کافی مطبوعہ لکھنؤ ص ۲۳۳ میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان اللہ تبارک وتعالیٰ قدکان وقت ھذاالامر فی السبعین فلما ان قتل الحسین صلوات اللہ علیہ اشتد غضب اللہ علی اھل الارض فاخرہ الی اربعین وماتہ فحد ثناکم فاذاعم الحدیث فکشفت تناع السرولم یجعل اللہ وقتا بعد ذلک عندنا قال حمزہ فحدثت بذلک بابی عبداللہ علیھم السلام فقال قدکان ذلک بہ تحقیق اللہ تبارک نے اس کام (یعنی امام مہدی کے ظہور) کا وقت سن ستر ہجری مقررکیا تھا مگرجب حسین صلوات اللہ علیہ شہیدہوگئے تواللہ کا غصہ زمین والوں پر سخت ہوگیا لہذااللہ نے اس کام کو ۰۴۱ھ تک پیچھے ہٹادیا ہم نے تم سے بیان کردیا تم نے رازکوفاش کردیا اوربات مشہورکردی اب اللہ نے کوئی وقت اس کے بعد ہم کو نہیں بتایا۔ابوحمزہ (راوی) کہتا ہے میں نے یہ حدیث امام جعفرصادق علیہ السلام سے بیان کی انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔

یہ تماشا بھی قابل دید ہے کہ جب اہل سنت کی طرف سے اعتراض ہواتو علمائے شیعہ کو جواب دینے کی فکر ہوئی اوراس پریشانی میں انہوں نے ایسی ایسی ناگفتہ بہ باتیں کہہ ڈالیں جو عقیدہ بدا سے بڑھ گئیں۔مولوی حامد حسین نے استقصاء الافحام جلد اول ص ۸۲۱ سے لے کر ص ۸۵۱ تک پورے ۰۳ صفحہ اسی بحث کے نام سے سیاہ کرڈالے مگرکوئی بات بنائے نہ بن پڑی۔بڑی کوشش انہوں نے اس بات کی کی ہے کہ بدا کے معنی میں تاویل کریں۔چنانچہ کھینچ تان کرانہوں نے بداکے وہ معنی بیان کئے ہیں جو نحو واثبات یا نسخ کے ہیں لیکن خودہی خیال پیداہوا کہ یہ تاویل چل ہی نہیں سکتی۔ لہذاعلامہ مجلسی سے ایک تاویل کرکے اس پر بہت نازکیا ہے۔ یہ عبارت استقضاء مجلد اول کے ص ۰۳ پر ملاحظہ ہو۔

ومنھا ان یکون ھذہ الاحبار تسلیتہ لقوم من المومنین المنتظرین نفرج اولیاء اللہ وغلبۃ اھل الحق واھلہ کماروی فی فرج اھل البیت علیھم السلام مروغلبتھم لانھم علیھم السلام لوکانوااخبر واالشیعۃ فی اول ابتلاء ھم باسلسلا، المخالفین ووشدھم فحقتھم انہ لیس فرجھم الا بعدالف سنتہ اوالفی سنتہ لئیسوا ولرجعواعن الدین ولکتھم اخبر وشیعتھم بتعجیل الفرج اورمن جملہ ان تاویلات کے ایک یہ کہ یہ پیشین گوئیاں ان مومنین کی تسلی کے لئے تھیں جودوستان خدا کی آسائش اوراہل حق کے غلبہ کے منتظر تھے جیسا کہ اہل بیت علیھم السلام کی آسائش اوران کے غلبہ کے متعلق روایت کیاگیا ہے۔اگرآئمہ علیھم السلام شیعوں کو شروع ہی میں بتادیتے کہ مخالفین کا غلبہ ابھی رہے گا اورشیعوں کو مصیبت سخت ہوگی اوران کوآسائش نہ ملے گی مگر ایک ہزارسال یا دوہزارسال کے بعد تووہ مایوس ہوجاتے اوردین سے پھر جاتے۔ لہذا انہوں نے اپنے شیعوں کو خبردی کہ آسائش کا زمانہ جلد آنے والا ہے۔

۱۔ علمائے شیعہ کی تاویلات:۔

۱۔ علمائے شیعہ کی تاویلات:۔

یہ تاویل بڑی مستند تاویل ہے۔ اصحاب آئمہ سے منقول ہے۔چنانچہ اصول کافی ص ۳۳۲ میں ہے۔

عن الحسن بن علی بن یقطین عن اخیہ الحسین عن ابیہ بن یقطین قال قال ابوالحسن الشیعہ تربی بالامانی منذ مائتی سنہ قال قال یقطین لابنہ علی ابن یقطین مابالنا قیل لنا فکان وقیل لکم فلم یکن قال فقال لہ علی ان الذی قیل لنا ولکم کان من مخرج واحد غیران امرکم حضر فاعطیتم محضہ فکان کماقیل لکم وان امرنا لم یحضر فعللنا بالامانی فلوقیل لناان ھذالامر لایکون الاالی مائتی سنہ اوثلاث ماۂ سنہ بقست القلوب ولرجع عامہ الناس عن الاسلام ولکن قالوامااسرعہ وما اقربہ تائفا لقلوب الناس۔

حسن بن علی بن یقطین نے اپنے بھائی حسین سے انہوں نے اپنے والدعلی بن یقطین سے روایت کی ہے کہ ابوالحسن نے کہا شیعہ دوسوبرس سے امید دلادلاکر رکھے جاتے تھے۔ یقطین (سنی) نے اپنے بیٹے علی بن یقطین (شیعہ) سے کہا یہ کیا بات ہے جو وعدہ ہم سے کیاگیا وہ پوراہوگیا اورجوتم سے کیا گیاوہ پورانہ ہوا۔علی نے اپنے باپ سے کہا کہ جوتم سے کہاگیا اورجو ہم سے کہاگیا۔سب ایک ہی مقام سے نکلا مگرتمہارے وعدہ کا وقت آگیا لہذاتم سے خاص بات کہی گئی وہ پوری ہوگئی اورہمارے وعدہ کا وقت نہیں آیا تالہذاہم امیددلادلا کربہلائے گئے۔اگرہم سے کہہ دیاجاتا کہ یہ کام نہیں ہوگا دوسوبرس یا تین سوبرس تک تودل سخت ہوجاتے اوراکثرلوگ دین اسلام سے پھر جاتے اس وجہ سے آئمہ نے کہا کہ یہ کام بہت جلد ہوگا بہت قریب ہوگا لوگوں کی تالیف قلب کے لیے۔

یہ تاویل اگرچہ ان روایات میں نہیں چل سکتی جن میں بہ تعین وقت پیشین گوئی کی گئی ہے۔ گول گول الفاظ نہیں ہیں کہ یہ کام جلد ہوگا قریب ہوگا۔نیز ان روایات میں بھی چل نہیں سکتی۔جن میں کسی خاص شخص کی امامت کی پیشین گوئی کی گئی ہے اوروہ شخص امام نہیں ہوا یا قبل ازوقت مرگیا لیکن علمائے شیعہ کی خاطر ہم اس تاویل کو قبول کرلیں توماحصل اس کا یہ ہے کہ اماموں کی پیشین گوئیاں جوغلط نکل گئیں۔اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ خداکوآئندہ کا حال معلوم نہ تھا بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ پیشین گوئیاں شیعوں کی تسلی کے لئے بیان کی گئیں۔شیعوں کے بہلانے کے لئے ایسی باتیں کہی گئیں۔اگرشیعوں کو تسلی نہ دی جاتی اوروہ بہلائے نہ جاتے تومرتدہوجاتے۔

نتیجہ:۔اس تاویل کا یہ ہے کہ ہمارے خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ عقیدہ بداکی تصنیف محض ترویج مذہب شیعہ کے لئے ہوئی ہے۔

مگر یہاں ایک سوال بڑالاینحل یہ پیداہوتا ہے کہ جھوٹی پیشین گوئیاں کرکے لوگوں کوفریب دینا اوربہلانا کس کا فعل تھا۔ آیا آئمہ اپنی طرف سے ایساکرتے تھے یا یہ کرتوت خداکے ہیں۔غالباً آئمہ کی آبروکابچاناشیعوں کے نزدیک زیادہ اہم ہو اوروہ خداہی کی طرف سے اس حرکت کو منسوب کریں گے توہم کہیں گے کہ جہل سے خداکو بچالیاتوفریب دہی کے الزام میں مبتلا کردیا۔بارش سے بچنے کے لئے صحن سے بھاگ کرپرنالے کے نیچے کھڑے ہوگئے۔

یہ بات بھی نتیجہ خیز تھی کہ جو شیعہ اصحاب آئمہ تھے وہ ایسے ضعیف الاعتقاد تھے کہ ان کو مذہب پر قائم رکھنے کے لئے خداکویا اماموں کو جھوٹی پیشین گوئیاں بیان کرناپڑتی تھیں۔ طرح طرح سے ان کو بہلاناپڑتا تھا ایسا نہ کیاجاتا تووہ مرتد ہوجاتے۔جب اس زمانے کے شیعوں کا یہ حال تھا توآجکل کے شیعوں کا کیا حال ہوگا اوران کوبہلانے کے لئے مجتہدوں کو کیا کچھ نہ تدبیریں کرنی پڑتی ہوں گی۔

شیعوں کے اصحاب آئمہ کا تویہ حال تھا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحاب کرام کو دیکھو ایسے قوی الایمان کیسے پختہ اعتقاد کے تھے کہ ان کو دین پر قائم رکھنے کے لئے نہ خداکوجھوٹ بولنا پڑا نہ رسول کو۔ ان پر مصائب کے آلام کے پہاڑ توڑے گئے۔بلاؤں کی بارش برسائی گئی۔مگران کے قدم کو جنبش نہ ہوئی۔

انصاف سے دیکھو یہی ایک مسئلہ بداپورے مذہب کی حقیقت ظاہرکرنے کے لئے کافی ہے۔ جس مذہب میں خداکو جاہل یافریبی ماناگیا ہو اس مذہب کا کیا کہنا۔

۲۔ دوسراعقیدہ:۔

۲۔ دوسراعقیدہ:۔

شیعوں کاعقیدہ ہے کہ خداکوجب غصہ آتا ہے توغصہ میں اس کو دوست دشمن کیا امتیاز نہیں رہتا۔ حتیٰ کہ اس غصہ میں بجائے دشمنوں کے دوستوں کونقصان پہنچادیتا ہے۔ بھلاخیال توکیجئے کیا خداکی یہی شان ہونی چاہیے؟ اورکیاایساخداماننے کے قابل ہوسکتا ہے؟ سند اس عقیدہ کی پہلے مسئلہ میں اصول کافی ص ۲۳۱ سے نقل ہوچکی کہ امام حسین کی شہادت سے جوخداکوغصہ آیا تو امام مہدی کاظہوراس نے ٹال دیا حالانکہ امام مہدی کے ظہور نہ ہونے سے شیعوں کا نقصان ہوا۔قاتلان اما م حسین کا کیابگڑا بلکہ ان کا تواورفائدہ ہوا یایہ کہاجائے کہ قاتلان امام حسین شیعہ تھے اسی وجہ سے خدانے ان کونقصان پہنچایا اوریہ واقعی بات بھی ہے۔

۳۔ تیسراعقیدہ:۔

۳۔ تیسراعقیدہ:۔

شیعوں کااعتقادہے کہ خدآنحضرت ﷺ کے صحابہ سے ڈرتاتھا۔اس لئے بہت سے کام ان سے چھپاکرکرتاتھا۔بظاہر انہوں نے اپنے نزدیک توصحابہ کرام کے ظالم ہونے کوثابت کیا ہے مگرفی الحقیقت خداکی عاجزی اورمغلوبیت جو اس سے ثابت ہوئی اس کا انہوں نے خیال نہ کیا۔کتاب احتجاج طبرسی میں ہے کہ جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدانے اپنے نبی کا نام ےٰسین رکھا ہے اورسلام علی آل ےٰسین اس لئے فرمایا کہ اگرصاف صاف سلام علی آل محمد فرماتا توخداکومعلوم تھا کہ صحابہ اس کو قرآن میں نہ رہنے دیں گے نکال دیں گے۔آخری فقرہ عبارت کا یہ ہے کہ یعلمہ بانھم لیقطعون قولہ سلام علی ال محمد کمااسقطو اغیرہ

۴چوتھا عقیدہ:۔

۴۔ چوتھا عقیدہ:۔

شیعوں کے نزدیک خدابندوں کی عقل کا محکوم ہے اوراس پر واجب ہے کہ عدل کرے اورجوکام بندوں لطافت اس عقیدہ کی ظاہر ہے اس سے زیادہ اب اورکیا ہوگا کہ خدابجائے حاکم کے محکوم بنادیاگیا۔پھر جب شیعوں کا تجویزکیا ہواانتظام عالم میں نہیں پایاجاتا اوراکثر ایساہی ہوتا ہے۔ اس وقت خداپر ترک واجب کاجرم قائم ہوتا ہے چنانچہ آج کل بھی صدیوں سے خداترک واجب کا مرتکب ہے۔ اس نے کوئی امام معصوم دنیا میں قائم نہیں کیا۔ایک صاحب ہیں تھی توان پر خوف اس قدرطاری کررکھا ہے کہ وہ غارمیں چھپے ہوئے ہیں باہر نکلنے کا نام نہیں لیتے لیکن معلوم نہیں خداکے لئے ترک واجب کی سزاکیا ہے اوراس سزاکادینے والاکون ہے؟

۵۔ پانچواں عقیدہ:۔

۵۔ پانچواں عقیدہ:۔

شیعہ قائل ہیں کہ خداتمام چیزوں کا خالق نہیں۔یہ بھی شیعوں کا مشہورعقیدہ ہے اوران کی کتب عقائد میں مذکور ہے وہ کہتے ہیں کہ خیروشر دونوں کاخالق خدانہیں ہے کیوں کہ شرکا پیداکرنا براہے اوربراکام خدانہیں کرتا بلکہ شر کے خالق خودبندے ہیں۔اس بناء پر بے گنتی بے شمارخالق ہوگئے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ خیروشر دونوں کاخالق خداہے اورشرکاپیداکرنا برانہیں ہے۔البتہ شرکی صفت اپنے میں پیداکرنابرا ہے اس سے خدابری ہے۔

۶۔ چھٹاعقیدہ:۔

۶چھٹاعقیدہ:۔

شیعوں کاعقیدہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی ذات اقدس میں اصول کفر موجود ہوتے ہیں۔ اصول کافی کے باب فی اصول الکفر وارکانہ میں ابوبصیر سے روایت ہے کہ

قال ابوعبداللہ علیہ السلام اصول الکفر ثلثہ الحرص والاستکبار روالحسد فاماالحرص فان ادم حسین نھی من الشجردجملہ الحرص علی ان اکل منھا واماالاستکبارفابلیس حیث امربالسجود لادم فابی واما الحسد فابناادم حیث قتل احدھما صاحبہ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اصول کفر کے تین ہیں۔ حرص،تکبر،حسد، حرص توآدم میں تھا جب ان کو درخت کے کھانے سے منع کیا توحرص نے انکو آمادہ کیا کہ انہوں نے اس درخت میں سے کھالیا اورتکبرابلیس میں تھا کہ جب اس کو آدم کے سجدہ کا حکم دیاگیا تواس نے انکارکردیا۔ حسد آدم کے دونوں بیٹوں میں تھا اسی وجہ سے ایک نے دوسرے کو قتل کرڈالا۔

دیکھو کس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو ابلیس کا ہم پلہ قراردیاہے ایک اصول کفرابلیس میں توایک آدم علیہ السلام میں  بھی ہے بلکہ شیعہ صاحبوں نے تو حضرت آدم کو ابلیس سے بھی بدتر قراردیا ہے کیوں کہ ابلیس میں صرف ایک اصول کفرثابت کیا ہے یعنی تکبر اورآدم میں دواصول کفرثابت کئے ہیں۔حرص اورحسد کا۔حرص کا بیان تواس روایت میں ہوچکا۔حسد کابیان دوسری روایتوں میں ہے۔چنانچہ حیات القلوب جلد اول ص ۰۵ میں ہے کہ خدا نے آدم کو آئمہ اہل بیت کوحسد کرنے سے منع فرمایا اورکہا کہ خبردار میرے نوروں کی طرف حسد کی آنکھ سے نہ دیکھنا ورنہ تم کو اپنے قرب سے جداکردوں گا اوربہت ذلیل کروں گا مگرآدم نے ان پر حسد کیا اوراسی کی سزامیں جنت سے نکالے گئے۔اخیر ٹکڑا حیات القلوب کا یہ ہے:

پس نظرکردندبسوی ایشاں بدیدہ حس پس

بایں سبب خداایشاں راتجود گذاشت و

یاری وتوفیق خودراازایشاں برداشت

پس آدم وحوانے آئمہ کی طرف حسد کی

آنکھ سے دیکھا اس سبب سے خدانے ان

کو ان کے نفس کے حوالے کردیا اوراپنی

مدد اورتوفیق ان سے روک لی۔

یہ ہے ابوبشر حضرت آدم علیہ السلام کی قدر۔ استغفراللہ

۷۔ ساتواں عقیدہ:۔

۷۔ ساتواں عقیدہ:۔

نبیوں کے متعلق شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان سے بعض خطائیں ایسی سرزد ہوتی ہیں کہ اس کی سزامیں ان سے نورنبوت چھین لیا جاتا ہے۔چنانچہ حیات القلوب جلداول میں ہے:

وبچندیں سند منقولہ ازحضرت صادق علیہ السلام باسقبال حضرت یعقوب علیہ السلام بیرون آمد یکدیگر واملاقات کروند یعقوب پیادہ شد ویوسف راشوکت بادشاہی‘ مانع شدوپیادہ نشدہنوزاز معانقہ فارغ نشدد بوند کہ جبرئیل برحضرت یوسف نازل شد وخطاب مقرون بعتاب ازجانب رب الارباب آوردکہ اے یوسف خداوند عالمیان میفر ماید کہ ملک بادشاہی ترامانع شد کہ پیادہ شوی برائے بندہ شائستہ صدیق من دست خودرابکشا چوں دست کشودازکف دستش وبروایتی وگرمیان انگشتانس تورے بیرون رفعت یوسف گفت ایں چہ نوربودے جبرئیل گفت نورپیغمبری بودواز صلب توبہم نخواہد رسید یعقوبت آنچہ کردی نسبت یعقوب کہ برائے اوپیادہ نشدی۔

بہت سی معتبر سندوں کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیشوائی کے لئے باہرآئے اورایک دوسرے سے ملے یعقوب پیادہ ہوگئے مگریوسف کے دبدبہ بادشاہی نے پیادہ ہونے سے روکا جب معانقہ سے فارغ ہوئے توجبرئیل حضرت یوسف پر نازل ہوئے اورخداکی طرف سے غصہ کا خطاب لائے کہ اے یوسف خداوند عالم فرماتا ہے کہ بادشاہت نے تجھ کو روکا تومیرے بندہ شائستہ صدیق کے لئے پیادہ نہ ہوا، ہاتھ تو کھول جیسے ہی انہوں نے ہاتھ کھولا توان کی ہتھیلی سے ایک اورروایت میں ہے کہ انگلیوں کے درمیان سے ایک نورنکلا یوسف نے کہا یہ کیا نورتھا جبرئیل نے کہا یہ پیغمبری کا نورتھا اب تمہاری اولاد میں کوئی پیغمبر نہ ہوگا اس کام کی سزامیں جوتم نے یعقوب کے ساتھ کیا۔

۸۔ آٹھواں عقیدہ:۔

۸۔ آٹھواں عقیدہ:۔

نبیوں کے متعلق شیعوں کا اعتقاد یہ بھی ہے کہ وہ مخلوق سے بہت ڈرتے ہیں اوربسااوقات مارے ڈرکے تبلیغ احکام الہیٰ نہیں کرتے۔چنانچہ خداکی طرف سے حجتہ الوداع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ملا کہ حضرت علی کی خلافت کا اعلان کردو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کرٹال دیا کہ میری قوم ابھی نومسلم ہے اگرمیں اپنے بھائی کے متعلق ایساحکم دوں تولوگ بھڑک اٹھیں گے پھر دوبارہ خداکو عتاب کرناپڑا کہ اے رسول اگرایسا نہ کروگے توفرائض رسالت سے سبکدوش نہ ہوگے اس پر بھی رسول نے ٹالا آخرخداکووعدہ حفاظت کرناپڑا۔اس وعدہ کے بعد بھی رسول نے صاف صاف تبلیغ نہ کی۔گول گول الفاظ کہہ دئیے انتہا یہ کہ بہت سی آیات قرآنیہ رسول نے مارے ڈر کے چھپاڈالیں جن کا آج تک کسی کو علم نہ ہوا اورنہ اب ہوسکتا ہے۔

(دیکھو عمادالاسلام مصنفہ مولوی دلدارعلی مجتہد اعظم شیعہ)
۹۔ نواں عقیدہ:۔

۹۔ نواں عقیدہ:۔

نبیوں کے متعلق شیعوں کا ایک نفیس عقیدہ یہ بھی ہے کہ وہ خداکے بھیجے ہوئے انعام کو ردکردیتے تھے۔خدا بارباران کو انعام بھیجتا اوروہ اس کے لینے سے انکارکردیتے تھے۔ آخر خدا کو کچھ اورلالچ دیناپڑتا تھا۔اس وقت وہ اس انعام کو قبول کرتے تھے غرض کہ خداکی کچھ قدر منزلت ان کے دل میں نہ تھی۔اصول کافی ص ۴۹۱ میں ہے۔

عن رجل من اصحابنا عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال ان جبرئیل نزل علی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال لہ یامحمد ان یبشرک بمولود یولد من فاطمہ تقتلہ امتک من بعدک فقال وعلی ربی السلام لا حاجہ لی فی مولود بولد من فاطمہ تقتلہ امتی من بعدی فعرج جبرئیل الی السماء ثم ھبط فقال یامحمد ان ربک یقرئک السلام ویبشرک بانہ جاعل فی ذریتہ الامامتہ والولاےۃ والوصےۃفقال انی قدرضیت ثم ارسل الی فاطمہ ان انہ یبشرنی بمولود یولد لک تقتلہ امتی من بعدی فارسلت الیہ ان لاحاجت لی فی مولود تقتلہ امتک من بعدک فارسل الیھا ان اللہ عزوجل قدجعل فی ذریہ الامامہ والولایہ والوصیہ فارسلت الیہ انی قدرضیت۔

ہمارے اصحاب میں سے ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا جبرئیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اوران سے کہا کہ اے محمد! اللہ آپ کوایک بچہ کی بشارت دیتا ہے جو فاطمہ سے پیداہوگا۔ آپ کی امت آپ کے بعد اس کو شہیدکرے گی تو حضرت نے فرمایا کہ اے جبرئیل میرے رب پرسلام ہو مجھے اس بچہ کی کچھ حاجت نہیں جوفاطمہ سے ہوگا اس کو میری امت میرے بعد قتل کرے گی پھر جبریل چڑھے پھراترے اورانہوں نے ویسا ہی کہا۔ آپ نے فرمایا اے جبرئیل میرے رب پر سلام ہو۔مجھے حاجت اس بچہ کی نہیں جس کو میری امت میرے بعد قتل کرے گی۔ جبریل پھر آسمان پرچڑھے پھر اترے اورانہوں نے کہا کہ اے محمد آپ کا پروردگار آپ کو سلام فرماتا ہے اورآپ کو بشارت دیتا ہے کہ وہ اس بچہ کی ذریت میں امامت اورولایت اوروصیت مقررکرے گا توحضرت نے فرمایا کہ میں راضی ہوں۔پھر آپ نے فاطمہ کو خبربھیجی کہ اللہ مجھے بشارت دیتا ہے ایک بچہ کی جوتم سے پیداہوگا۔میری امت میرے بعد اس کو قتل کرے گی فاطمہ نے بھی کہلابھیجا کہ مجھے کچھ حاجت اس بچہ کی نہیں جس کوآپ کی امت آپ کے بعد قتل کرے گی توحضرت نے کہلابھیجا کہ اللہ عزوجل نے اس کی ذریت میں امامت اورولایت اوروصیت مقررکی ہے تب فاطمہ نے کہلابھیجا کہ میں راضی ہوں۔

دیکھو کس طرح رسول نے خداکی بشارت کو باربارردکردیا اورشہادت فی سبیل اللہ کوحقیرسمجھا اورحضرت فاطمہ نے بھی سنت رسول کی پیروی میں خداکی بشارت کو ردکردیا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرخدا امامت کا لالچ نہ دیتا توکبھی رسول خداکے انعام کو قبول نہ کرتے۔

۰۱۔ دسواں عقیدہ:۔

۰۱۔ دسواں عقیدہ:۔

شیعوں کا یہ اعتقاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی تعلیم کی اجرت مخلوق سے مانگتے ہیں اورکہتے ہیں کہ سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خدانے قرآن شریف میں حکم دیا ہے کہ اپنی تعلیم کی اجرت لوگوں سے مانگ لیجئے۔ نعوذ باللہ۔انبیاء علیہم السلام کی کس قدرتوہین اس عقیدہ میں ہے۔ آج ان کے ادنی غلامان غلام ایسے موجود ہیں جوعمر بھر کوئی کام ایسا نہیں کرتے جس کی اجرت مخلوق سے مانگیں جوکام کرتے ہیں خالصتاً توجہ اللہ کرتے ہیں۔

یہ عقیدہ شیعوں کا بہت مشہور ہے اورآیت کریمہ قل لااسئلکم علیہ اجراالاالمودہ فی القریبی کی تفسیر میں مفسرین شیعہ نے ذکرکیا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی کہہ دیجئے کہ میں تم سے اوراجرت نہیں مانگتا صرف یہ اجرت مانگتا ہوں کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو اورقرابت والوں سے مرادعلی، فاطمہ، حسنین ہیں اورمحبت کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد ان کومثل میرے امام مانو۔

اہل سنت کہتے ہیں یہ مطلب آیت کا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ بیسیوں آیتیں قرآن شریف میں ہیں جن میں دوسرے پیغمبروں کی بابت ذکرہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتے۔ ہماری اجرت توخداکے ذمہ ہے اور بہت سی آیتیں ہیں جن میں خاص آنحضرت ﷺ کو حکم دیاہے  آپ کہہ دیجئے میں اس تعلیم پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا یہ توصرف ہدایت خلق کا کام ہے۔ لہذاآیت مذکورہ کا یہ مطلب ہے کہ اے نبی کہہ دیجئے کہ میں تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا۔صرف یہ کہتا ہوں کہ میں تمہاراقرابت دارہوں۔قرابت کا خیال کرکے مجھے ایذا نہ پہنچاؤ۔

اس بحث میں ایڈیٹر اصلاح سے تحریری مباحثہ ہوا بالآخر ایک خاص رسالہ موسوم بہ تفسیر آیت مودت القربیٰ اس ناچیز نے تالیف کیا جس کے بعد ایڈیٹر صاحب اصلاح ایسے خاموش ہوئے کہ صدائے برنخواست۔

۱۱۔ گیارہواں عقیدہ:۔

۱۱۔ گیارہواں عقیدہ:۔

ہبہ فدک کے متعلق ہے، بہت مشہور مسئلہ ہے۔لہذا حوالہ کتاب کی حاجت نہیں ہے۔ ہرشیعہ ہرموقع پر مطاعن صحابہ میں ہبہ فدک کاذکرکرتا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم فدک حضرت فاطمہ کودے گئے تھے۔حضرت ابوبکر نے چھین لے مگریہ عقل کے دشمن اتنا نہیں سوچتے کہ رسول پر کس قدرسخت الزام خود غرضی اوردنیا طلبی عائد ہوتا ہے۔ نعوذباللہ۔

۲۱۔ بارہواں عقیدہ:۔

۲۱۔ بارہواں عقیدہ:۔

عقیدہ تحریف قرآن کے متعلق ہے۔ جس کی بابت تتبیہہ الحائرین کے بعد اب کچھ لکھنے کی حاجت نہیں۔ پانچوں قسم کی روایتیں علماء شیعہ کا اقرارسب کچھ اس میں نقل ہوچکا۔
۳۱۔ تیرہواں‘ (۴۱) چودہواں‘ (۵۱) پندرہواں عقیدہ:۔

۳۱۔ تیرہواں‘ (۴۱) چودہواں‘ (۵۱) پندرہواں عقیدہ:۔

ازواج مطہرات کے متعلق ہے کہ شیعوں نے خلاف عقل ونقل کس قدرناپاک عقیدہ ان کے متعلق قائم کررکھا ہے۔ اس کے متعلق بھی اب کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔جس کا جی چاہے ہمارارسالہ تفسیر آیت تطہیر دیکھئے۔

۶۱۔ سولہواں عقیدہ:۔

۶۱۔ سولہواں عقیدہ:۔

صحابہ کرام کے متعلق ہے۔اس کے لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ واقعات ہیں جن کاکوئی منکر نہیں ہے اورصحابہ کرام کے متعلق جیسانجس عقیدہ شیعوں کا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔

۷۱۔ سترہواں عقیدہ:۔

۷۱۔ سترہواں عقیدہ:۔

شیعوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کے مجوزہ بارہ امام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل اورہم رتبہ ہیں اوراسی طرح معصوم ومفترض الطاعتہ ہیں۔دیکھو اصول کافی کتاب الحجتہ صاف الفاظ یہ ہیں کہ ”آئمہ کووہی بزرگی حاصل ہے جومحمد علیہ السلام کو حاصل ہے”اسی حدیث کو صاحب حملہ حیدری نے نظم کیا ہے کہ

ہمہ صاحب حکم برکائنات
ہمہ چوں محمد منزہ صفات
۸۱۔ اٹھارہواں عقیدہ:۔

۸۱۔ اٹھارہواں عقیدہ:۔

اماموں کی بابت شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ ران سے پیداہوتے ہیں۔پیداہوتے ہی تمام آسمانی کتب کی تلاوت کرڈالتے ہیں اوران کی پیشانی پریہ آیت تمت کلمت ربک صدقا وعدلا لکھی ہوتی ہے۔سایہ ان کا نہیں ہوتا۔ناف بریدہ ختنہ شدہ پیداہوتے ہیں اوربجائے قابلہ کے امام سابق کام کرتے ہیں۔

(دیکھو اصول کافی وتصنیفات علامہ باقر مجلسی)
۹۱۔ انیسواں عقیدہ:۔

۹۱۔ انیسواں عقیدہ:۔

امام مہدی کے غائب ہونے کے متعلق ہے۔ یہ عقیدہ بھی شیعوں کا اس قدرمشہورہے کہ کسی خاص کتاب کے حوالہ دینے کی بالکل ضرورت نہیں۔

بیسواں، اکیسواں،بائیسواں، تئیسواں، چوبیسواں عقیدہ:۔

بیسواں، اکیسواں،بائیسواں، تئیسواں، چوبیسواں عقیدہ:۔

اماموں کی بابت شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے پاس تمام انبیاء کے معجزات ہوتے ہیں۔عصائے موسیٰ، انگشتری سلیمان، اسم اعظم اورلشکر جنات وغیرہ وغیرہ اوران کواپنے مرنے کاوقت بھی معلوم ہوتا ہے اوران کی موت ان کے اختیار میں ہوتی ہے۔ دیکھو اصول کافی کتاب الحجتہ، بکثرت احادیث ان مضامین کی ہیں۔ حضرت علی میں علاوہ ان اوصاف کے قوت جسمانی بھی ایسی تھی کہ جبریل جیسے شدید القوی فرشتے کے جنگ خیبر میں پرکاٹ ڈالے۔ دیکھو حیات القلوب وحملہ حیدری۔بایں ہمہ آئمہ نے کبھی ان معجزات سے کام نہ لیا۔فدک چھن گیا۔ حضرت فاطمہ پر مارپیٹ ہوئی۔حمل گرادیاگیا۔حضرت علی سے جبراً بیعت لی گئی۔

اس مسئلہ کو اورنیزاس کے بعدچوبیسویں مسئلہ تک ہم نہایت مفصل اپنی دوسری تصنیفات میں بیان کرچکے ہیں کتب شیعہ کی عبارتیں بھی نقل کرچکے ہیں۔ اس لئے یہاں طول دینافضول معلوم ہوتا ہے دیکھو مناظرہ لکیریان

۵۲۔ پچیسواں عقیدہ:۔

۵۲۔ پچیسواں عقیدہ:۔

شیعہ اپنے خانہ ساز آئمہ کے اصحاب کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ان میں باہم نزاعات ہوئیں اورباوجود امام کے زندہ ہونے کے وہ نزاعات رفع نہ ہوئیں۔ترک کلام وسلام کی نوبت آئی مگرشیعہ ان میں سے کسی کو خاطی نہیں کہتے۔ سب کو اچھا سمجھتے ہیں اورمانتے ہیں۔بخلاف اس کے رسول خداﷺ کے صحابہ کرام کی کچھ بھی عزت نہیں۔ ان میں اگرکوئی نزاع ھو، اوروہ بھی بعد رسول کے توکہتے ہیں ایک فریق کو براکہنا ضروری ہے۔اپنے آئمہ کے اصحاب کی تو یہاں تک پاسداری ہے کہ ان میں فاسق، فاجر،شرابی لوگ بھی ہیں ان کو بھی مانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ خداکی رحمت سے کیابعید ہے کہ فلاں امام کے طفیل میں ان کے یہ گناہ معاف ہوجائیں۔یہیں سے سمجھ لینا چاہیے کہ شیعوں کوکوئی تعلق رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے اوراگرکچھ بھی تعلق ہوتا توان کے اصحاب کی کم ازکم اتنی عزت توکرتے جتنی اپنے آئمہ کے اصحاب کی کرتے ہیں۔

۶۲۔ چھبیسواں عقیدہ:۔

۶۲۔ چھبیسواں عقیدہ:۔

شیعہ جن حضرات کو امام معصوم کہتے ہیں اوردعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ان کے پیرو ہیں۔ان کے اصحاب کی یہ حالت تھی کہ ان میں نہ امانت تھی نہ سچائی نہ وفاداری یہ سب صفتیں اہل سنت میں تھیں۔ اصول کافی ص۷۳۲ میں عبداللہ بن یعقورسے روایت ہے۔

قال قلت لابی عبداللہ علیہ السلام انی اخالط الناس فیکثر عجمی من اقوام لایتولونکم ویتولون فلانا وفلانا لھما مانہ وصدق ووفاء واقوام یتولونکم لیس لھم تلک الامانہ ولا الوفاء ولاالصدق قال فاستوی ابوعبداللہ علیہ السلام جالسا فاقتل علی کالغضان ثم قال لادین لمن دان اللہ بولایہ امام لیس من اللہ ولاعتب علی من دان بولایہ امام من اللہ میں نے امام جعفرصادق سے کہا کہ میں لوگوں سے ملتا ہوں توبہت تعجب ہوتا ہے کہ جو لوگ آپ لوگوں کی ولایت کے قائل نہیں، فلاں اور فلاں کومانتے ہیں ان میں امانت ہے، سچائی ہے، وفا ہے اورجولوگ آپ کو مانتے ہیں ان میں نہ امانت ہے، نہ سچائی اور نہ وفا یہ سن کرامام جعفر صادق سیدھے بیٹھ گئے اورمیری طرف غصہ سے متوجہ ہوئے اورفرمایا کہ جس شخص نے ایسے امام کو مانا جوخداکی طرف سے نہیں اس کا دین ہی نہیں اورجس نے ایسے امام کومانا جو خداکی طرف سے ہے اس پر کچھ عتاب نہیں۔

وصدقناہ وقد احببت ان عرضہ علیک فقال ھاتہ فقلت یزعم انہ سائلک عن قول اللہ عزوجل وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا فقلت من ملک زادوراھلتہ فھو مستطیع الحج وان لم یحج فقلت نعم فقال لیس ھکذا اسئالنی ولاھکذاقلت‘ کذب علی واللہ کذب علی واللہ کذب علی واللہ لعن اللہ زراہ لعن اللہ زرارہ انما قال لی من کان لہ زادواھلہ فھو مستطیع للحج قلت قدوجب علیہ قال فمستطیع ھوفقلت لاحتی یوذن لہ قلت فاخبرزرارہ بذلک قال نعم قال زیادفقدمت الکوفہ فلقیت زرارہ فاخبرتہ بماقال ابوعبداللہ وسکت عن لعنہ قتال لعلا انہ قد اعطانی الاستطاعہ من حیث لایعلم وصاحبکم ھذا لیس لہ بصر بکلام الرجال۔

زیادبن حلال کہتے ہیں میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ زرارہ نے آپ سے استطاعت کے بارہ میں ایک روایت نقل کی۔ ہم نے اس کو قبول کیا اوراس کی تصدیق کی اوراب میں چاہتا ہوں کہ وہ حدیث آپ کو سناؤں امام نے کہا سناؤ۔میں نے کہا زرارہ کا بیان ہے کہ انہوں نے آپ سے اللہ عزوجل کے قول وللہ علی الناس حج البیت کا مطلب پوچھا۔آپ نے فرمایا جوشخص زادراہ اورسواری کا مالک ہو وہ حج کی استطاعت رکھتا ہے چاہے حج نہ کرے توآپ نے کہا ہاں امام نے فرمایا نہ زرارہ نے مجھ سے اس طرح پوچھا اورنہ اس طرح میں نے جواب دیا وہ میرے اوپر جھوٹ جوڑتا ہے۔ اللہ کی قسم وہ میرے اوپر جھوٹ جوڑتا ہے۔خدالعنت کرے زرارہ پر اس نے مجھ سے یہ کہا تھا کہ جوشخص زادراہ اورسواری کامالک ہے وہ مستطیع ہے میں نے کہا نہیں یہاں تک اسے اجازت دی جائے۔میں نے کہا کیا میں زرارہ کواس کی خبردوں۔امام نے فرمایا ہاں چنانچہ میں کوفہ گیا اورزرارہ کو ملا۔امام صادق کا مقولہ اس سے بیان کیا مگرلعنت کا مضمون نہ بیان کیا تو زرارہ نے کہا وہ مجھے استطاعت کا فتویٰ دے چکے اوران کو خبر نہیں اورتمہارے اس امام کو لوگوں کی بات سمجھنے کی تمیز نہیں ہے۔

ف:۔یہ وہی زرارہ صاحب ہیں جن پر امام جعفرصادق نے لعنت کی اوردوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے بھی امام جعفر صادق پر لعنت بھیجی۔امام نے یہ بھی فرمایا کہ وہ میرے اوپر افتراء کرتا ہے۔زرارہ کوئی معمولی شخص نہیں ہے۔مذہب شیعہ کے رکن اعظم اور راوی معتمد ہیں۔ خاص کتاب کافی کی ایک ثلث احادیث انہیں کی روایت سے ہیں۔

یہ بھی علماء شیعہ کواقرار ہے کہ اصحاب آئمہ نے آئمہ سے نہ اصول دین کو یقین کے ساتھ حاصل کیا تھا نہ فروع دین کو۔ ائمہ ان سے تقلید کرتے رہے اور اپنا اصلی مذہب ان سے چھپاتے رہے۔ اس مضمون کی روایات بھی کتب شیعہ میں بہت ہیں۔ نمونے کے طورپر دوایک روایتیں سن لیجئے۔

علامہ شیخ مرتضیٰ فرائد الاصول مطبوعہ ایران کے ص ۶۸ میں لکھتے ہیں۔

ثم ان ماذکرد من تمکن اصحاب الائمہ من اخذ الاصول والفروع بطریق الیقین دعوی ممنوعہ واضحہ للمنع واقل مایشھد علیہا ماعلم بالعین والاثر من اختلاف اصحابھم صلوات اللہ علیھم فی الاصول والفروع ولذا شکی غیر واحد من اصحاب الائمہ الیھم اختلاف اصحابہ فاجابوھم تارد بانھم قد القواالاختلاف بینھم حقنا لدمائھم کمافی روایہ حریز وزرارہ وابی ایوب الجزار واخزی اجابوھم بان ذالک من جھہ الکذابین کمافی روایہ الفیض بن المختار۔

پھر یہ بیان کیا ہے کہ اصحاب آئمہ نے اصول وفروع دین کو یقین کے ساتھ حاصل کیا۔ یہ دعویٰ ناقابل تسلیم ہے اور اس کا ناقابل تسلیم ہونا ظاہر ہے اور کم سے کم اس کی شہادت یہ ہے جو چیز آنکھ سے دیکھی گئی اورنقل سے معلوم ہوئی کہ آئمہ صلوات اللہ علیہم کے اصحاب اصول وفروع میں باہم مختلف تھے اور اس وجہ سے بہت سے صاحب آئمہ نے شکایت کی کہ آپ کے اصحاب میں اس قدراختلاف کیوں ہے تو آئمہ نے کبھی یہ جواب دیا کہ یہ اختلاف ہم نے خودڈالا ہے۔ ان لوگوں کی جان بچانے کے لئے چنانچہ حریز وزرارہ اور ابوایوب جزار کی روایت میں یہی منقول ہے اورکبھی یہ جواب دیا کہ اختلاف جھوٹ بولنے والوں کے سبب سے پیدا ہوگیا ہے جیسے کہ فیض بن مختار کی روایت میں منقول ہے۔

مولوی دلدار علی صاحب اساس الاصول مطبوعہ لکھنؤ کے صفحہ ۴۲۱ میں لکھتے ہیں۔ لانسلم انھم کانو امکلفین بتحصیل القطع والیقین کما یظبر من بعجیہ اصحاب الائمہ بل انھم کانو امامودین باخذ الاحکام من الثقاد ومن غیرھم ایضا مع قیام قرینتہ تفید الظن کما عرفت مرارابالحاء مختلفہ کیف ولولم یکن الامر کذالک لزم ان یکون اصحاب ابی جعفر الصادق الذین اخذ یونس کتبھم وسمع احادیثھم مثلا بالکین مستوحبین الناروھکذاحال جمیع اصحاب الائمہ فانھم کانوامختلفین فی کثیر من المسائل الجزےۃ والفروعیہ کمایظبر ایضامرہ کتاب العدد وغیرہ وقدعرفتہ۔

ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ اصحاب آئمہ پر یقین کاحاصل کرنا ضروری تھا۔چنانچہ اصحابہ آئمہ کی روش سے یہ بات ظاہر ہے بلکہ ان کو حکم تھا کہ احکام دین کو ثقہ غیر ثقہ سب سے لیں بشرطیکہ قرینہ سے گمان غالب حاصل ہوجائے جیسا کہ تم کو مختلف طریقوں سے معلوم ہوچکا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو لازم آئے گا کہ امام جعفر صادق کے اصحاب جن سے یونس نے کتابیں لیں اور ان کی احادیث سنیں ہلاک ہونے والے اور دوزخی ہوں اور یہی حال تمام اصحاب آئمہ کا ہے کیوں کہ وہ لوگ مسائل جزئیہ فروعیہ میں مختلف تھے جیسا کہ کتاب العدۃ وغیرہ سے ظاہر ہے اور تم اس کو معلوم کرچکے ہو۔

اب ایک روایت اس مضمون کی دیکھ لیجئے کہ آئمہ اپنے مخلصین شیعوں سے بھی تقیہ کرتے تھے حتیٰ کہ ابوبصیر

جیسے مسلم الکل سے بھی۔ کتاب استبصار کے باب الصلوۃ میں ہے۔

عن ابی بصیر قال قلت لابی عبداللہ متی صلی رکعتی الفجر قال لی بعد طلوع الفجر قلت لہ ان اباجعفر علیہ السلام امرنی ان اصلیہا قبل طلوع الفجر فقال یا ابا محمد ان الشیعہ اتوا ابی مسترشدین فافتا بھم بمرالحق واتونی شکاکافافتیتھم بالتقیہ۔

ابوبصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفرصادق سے پوچھا کہ سنت فجر کس وقت پڑھوں تو انہوں نے کہا کہ بعد طلوع فجر کے۔میں نے کہا کہ امام باقر علیہ السلام نے تو مجھے حکم دیا تھا کہ قبل طلوع فجر کے پڑھ لیا کرو توامام صادق نے کہا کہ اے ابومحمد شیعہ میرے والد کے پاس ہدایت حاصل کرنے کو آتے تھے لہذا میرے والد نے ان کو صحیح صحیح مسئلہ بتادیا اورمیرے پاس شک کرتے ہوئے آئے لہذامیں نے ان کو تقیہ سے فتویٰ دیا۔

ف:ابوبصیر کی حرکت دیکھنے کے قابل ہے۔ جب امام باقر علیہ السلام اس مسئلہ کو بتاچکے تھے تو اب اس کو امام جعفرصادق سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔غالباً ان کا امتحان لینا منظورتھا۔ کیونکہ جناب حائری صاحب انہیں حالات پر اور انہیں روایات کی بنیادپر اپنے آپ کومتبع آئمہ کہتے ہیں۔

۷۲۔ ستائیسواں عقیدہ:

۷۲۔ ستائیسواں عقیدہ:

حضرات شیعہ اولاد رسول میں گنتی کے چند اشخاص کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔باقی سینکڑوں ہزاروں اشخاص کو براکہنا ان سے عداوت رکھنا ان پرتبرابھیجنا ضروری جانتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم محب آل رسول ہیں۔ شواہد اس مضمون کے کتب شیعہ میں بہت ہیں۔کتاب ”احتجاج“ مطبوعہ ایران میں بڑے فخر کے ساتھ لکھا ہے کہ اولاد رسول میں سے جولوگ مسئلہ امامت میں ہمارے مخالف ہیں ہم ان کاکچھ بھی خیال نہیں کرتے۔ان سے عداوت رکھتے ہیں ان پر تبرابھیجتے ہیں۔اصل عبارت کتاب احتجاج کی مناظرہ مکیریاں میں منقول ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے۔

۸۲۔ اٹھائیسواں عقیدہ:

۸۲۔ اٹھائیسواں عقیدہ:

جھوٹ بولنا جو تمام مذاہب میں بدترین گناہ ہے۔تمام دنیا کے عقلاء نے اس کو سخت ترین عیب مانا ہے۔ مذہب شیعہ نے اس کو اعلیٰ ترین عبادت قراردیا ہے کہ دین کے دس حصے بتلائے ہیں ان میں سے نوحصے جھوٹ بولنے میں ہیں۔ جوجھوٹ نہ بولے اس کو بے دین وبے ایمان کہتے ہیں۔جھوٹ بولنا خداکادین بتایاگیا ہے۔انبیاء وآئمہ کا دین کہاگیا ہے۔ اصول کافی مطبوعہ لکھنؤ کے ص ۱۸۴ میں ہے۔ عن ابن عمیر الاعجمی قال قال ابوعبداللہ علیہ السلام یاابا عمران تسعہ اعشارالدین فی التقےۃ ولادین لمن لاتقیہ لہ والتقیہ فی کل شئی الا فی النبیذوالمسح علی الخفین۔

ابن عمیر عجمی سے منقول ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ دین کے دس حصوں میں سے نوحصہ تقیہ میں ہے اورجوتقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے اورتقیہ ہر چیز میں ہے سوانبیذ اورموزوں پر مسح کرنے کے۔

ایضاً اصول کافی ص ۴۸۴ میں ہے۔

قال ابوجعفر علیہ السلام التقیہ من دینی ودین ابائی ولاایمان لمن لاتقیہ لہ

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ تقیہ میرا دین ہے اورمیرے باپ دادا کا دین ہے اورجوتقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے۔

اگر شیعہ صاحب فرمائیں کہ ان احادیث میں تو تقیہ کی فضیلت بیان ہوئی نہ جھوٹ بولنے کی تو میں عرض کروں گا تقیہ کے معنی جھوٹ بولنے ہی کے ہیں۔علماء شیعہ نے بہت کچھ ہاتھ پیر مارے۔ لیکن تقیہ کے معنی امام معصوم کے قول سے ثابت ہیں۔ اس میں کوئی تاویل چل نہیں سکتی۔ اصول کافی ص۳۸۴ میں ہے۔

عن ابی بصیرقال قال ابوعبداللہ علیہ السلام التقیہ من دین اللہ قلتہ من دین اللہ قال ای واللہ من دین اللہ ولقد قال یوسف ایتھا العیر انکم لسارقون واللہ ماکانواسرقواشیاء ولقد قال ابراہیم انی سقیم واللہ ما کان سقیما۔

ابوبصیر کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا تقیہ اللہ کے دین میں سے ہے۔میں نے(تعجب سے کہا) اللہ کے دین میں سے ہے؟ امام نے فرمایا ہاں خداکی قسم اللہ کے دین میں ہے اور یہ تحقیق یوسف (پیغمبر) نے کہاتھا اے قافلہ والو! تم چور ہو حالانکہ اللہ کی قسم انہوں نے کچھ نہ چرایا تھا اورابراہیم (پیغمبر) نے کہا تھا میں بیمار ہوں حالانکہ وہ اللہ کی قسم بیمار نہ تھے۔

اس حدیث میں تقیہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ وہ خداکادین اور پیغمبروں کا شیوہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ تقیہ نام جھوٹ بولنے کا ہے کیوں کہ ایک شخص نے چوری نہیں کی تھی اس کو امام نے چورکہا امام اس کو تقیہ کہتے ہیں اور ایک شخص بیمار نہ تھا۔اس نے اپنے کو بیمارکہا امام اس کو تقیہ کہتے ہیں اور اسی کو جھوٹ بھی کہتے ہیں۔

ف:۔تقیہ کی پہلی حدیث میں نبیذپینے اور موزوں پر مسح کرنے میں تقیہ کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ عجیب لطیفہ ہے۔خداجانے ان دونوں کاموں میں کیابات ہے۔تقیہ کرکے خداکے ساتھ شرک کرنا اوردنیا بھر کے گناہوں کا ارتکاب جائز ہو مگر یہ دونوں کام جائز نہ ہوں۔عقل حیران ہے مگر استبصار کے مصنف کہتے ہیں کہ ایک دوسری روایت میں ان دونوں کاموں میں بھی تقیہ کرنے کی اجازت ہے اور ہماراعمل اسی کے مطابق ہے اور اسی حدیث کامطلب انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ ان دونوں کاموں میں تقیہ اس وقت جائز ہے جب جان کا یا مال کا خوف شدید ہو۔معمولی تکلیف کے لئے جائز نہیں۔ عبارت استبصار کی حسب ذیل ہے۔

والثالیثان یکون ارادالا اتقی فیہ احدااذالم یبلغ الخوف علی النفس اوالمال وان لحقہ ادنی  مشقہ احیملہ وانماتجوز التقیہ فی ذالک عند الخوف الشدید علی النفس اوالمال۔

اورتیسری بات یہ ہے کہ امام نے یہ مراد لیاہوگا کہ میں ان کاموں میں کسی سے تقیہ نہیں کرتا جب تک کہ جان یا مال کا خوف نہ ہو معمولی تکلیف کو برداشت کرلیتا ہوں اور ان کاموں میں تقیہ اسی وقت جائز ہے جب کہ خوف شدید جان یا مال کا ہو۔

استبصارکی اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیعہ جو کہتے ہیں کہ تقیہ ہمارے یہاں خوف جان یامال کے وقت کیاجاتا ہے بالکل غلط ہے۔خوف جان یا مال کی قید صرف مذکورہ بالاکاموں میں ہے۔ان کے سوااورامور میں بغیر جان ومال کے بھی تقیہ جائز ہے۔ ف:۔بعض شیعہ تقیہ کی بحث میں گھبراکریہ بھی کہہ بیٹھتے ہیں کہ تقیہ اہلسنت کے یہاں بھی ہے حالانکہ یہ محض فریب اوردھوکہ دینے کی بات ہے۔اہلسنت کے یہاں ہرگز تقیہ نہیں ہے۔امورذیل کے سمجھنے کے بعد یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے۔

اول:۔ اہلسنت کے یہاں تقیہ کرنا کوئی ثواب کا کام نہیں، کوئی ضروری کام نہیں‘ نہ اس میں کوئی فضیلت ہے جیسا کہ شیعوں کے یہاں ہے۔

دوم:۔اہل سنت کے یہاں خوف شدید کے وقت میں بحالت اضطرارواکراہ تقیہ کی بالکل اسی طرح جیسے کہ بحالت اضطرار سورکا گوشت کھالیناقرآن شریف میں جائز قرارکیاگیا ہے۔اس اجازت کی بناء پر کون کہہ سکتا ہے کہ سورکاگوشت مسلمانوں کے یہاں جائز ہے۔

سوم:۔اہلسنت کے یہاں حالت اضطرارمیں بھی تقیہ جائز ہے واجب نہیں اگرکوئی شخص تقیہ نہ کرے جان دے دے تو ثواب ہے۔

چہارم:۔اہلسنت کے یہاں انبیاء علیہم السلام بلکہ جمیع پیشوایان دین کے لئے تقیہ جائز نہیں صرف ان لوگوں کے لئے جائز ہے جن کے تقیہ کرنے سے دین ومذہب پر کوئی اثر نہ پڑے۔ان کھلے کھلے فرقوں کے بعد یہ کہنا کہ اہل سنت کے یہاں بھی تقیہ ہے سوائے بے حیائی کے اورکس چیز کی دلیل ہے۔

۹۲۔ انتیسواں عقیدہ:۔

۹۲۔ انتیسواں عقیدہ:۔

مذہب شیعہ میں اپنا دین چھپانے کی بڑی تاکید ہے اوردین کے ظاہر کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ اصول کافی ص۸۵۴ میں ہے۔

عن سلیمان بن خالدقال قال ابوعبداللہ علیہ السلام یا سلیمان انکم علی دین من کتمہ اعزداللہ ومن اذاعہ اذلہ اللہ

سلیمان بن خالد سے روایت ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تحقیق تم لوگ ایسے دین پر ہوکہ جواس کو چھپائے گا اللہ اس کو عزت دے گا اورجواس کوظاہر کرے گا اللہ اس کو ذلیل کرے گا۔

فی الحقیقت شیعوں کا مذہب چھپانے ہی کے قابل ہے۔ انہوں نے بڑی عقلمندی کی کہ زمانہ سلف میں اپنا مذہب ظاہر نہ کیا۔ ورنہ اس کاباقی رہنا دشوارتھا۔اب شیعوں کی کتابیں چھپ گئی ہیں اس لئے بہت سی باتیں ان کے مذہب کی معلوم ہوگئیں۔لیکن علمائے شیعہ اب بھی اپنے عوام سے اپنے مذہب کے اسرارپوشیدہ رکھتے ہیں۔

۰۳۔ تیسواں عقیدہ:۔

۰۳۔ تیسواں عقیدہ:۔

شیعوں کے مذہب شریف میں زناء کو ایک عجیب تدبیر سے جائز کیا گیا ہے اول تومتعہ ہی کیاکم تھا اورمتعہ میں بھی طرح طرح کی جدتیں مثلاً متعہ دوری وغیرہ لیکن براہ راست زنا کو بھی جائز کرلیاگیا۔عورت ومرد تنہا راضی ہوجائیں کوئی گواہ بھی نہ ہو حضرات شیعہ کے مذہب میں یہ بھی نکاح ہے۔

عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال جاء امراہ الی عمر فقالت انی زینت نطھرنی فامرھابھا ان ترجم فاخبر ذالک امیرالمومنین صلوات اللہ علیہ فقال کیف زنیت قالت مررب بالبادیہ فاصابنی عطش شدید فاستقیت اعرابافابی ان یقینی الاان امکنہ من نفسی فلما اجدنی فی العطش وخفت علی نفسی سقانی فامکنتہ من نفسی فقال امیر المومنین علیہ السلام ھذاتزویج ورب الکعبہ

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک عورت حضرت عمر کے پاس آئی اوراس نے کہا میں نے زناء کیا ہے مجھے پاک کردیجئے۔حضرت عمرؓ نے اس کے سنگسارکرنے کا حکم دیا اس کا اطلاع امیر المومنین صلوات اللہ علیہ کو کی گئی تو انہوں نے اس عورت سے پوچھا کہ تو نے کس طرح زناء کیا تھا اس عورت نے کہا میں جنگل میں گئی تھی وہاں مجھ کو سخت پیاس معلوم ہوئی۔ایک اعرابی سے میں نے پانی مانگا اس نے مجھے پانی پلانے سے انکارکیا مگر اس شرط پر کہ میں اس کو اپنے اوپر قابودوں جب مجھ کو پیاس نے بہت مجبورکیا اورمجھے اپنی جان کا اندیشہ ہوا تو میں راضی ہوگئی اس نے مجھ پانی پلادیااورمیں نے اس کو اپنے اوپر قابودے دیا۔امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایاکہ یہ توقسم رب کعبہ کی نکاح کی ہے۔

دیکھئے اس روایت کے مطابق زناء کا وجوددنیا سے اٹھ گیا۔بازاروں میں جس زناء کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں عورت ومرد باہم راضی ہوہی جاتے ہیں یہاں اگرپانی پلایا گیا تووہاں اس سے بڑھ کرروپیہ دیاجاتا ہے۔ گواہ کی صیغہ نکاح کی شرط نہ یہاں ہے نہ وہاں شاباش۔

منطور ہے کہ سیم تنوں کا وصال ہو

مذہب وہ چاہیے کہ زناء بھی حلال ہو

۱۳۔ اکتیسواں عقیدہ:۔

۱۳۔ اکتیسواں عقیدہ:۔

متعہ مذہب شیعہ میں نہ صرف حلال بلکہ اتنی بڑی عبادت ہے کہ نمازروزہ کی بھی اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں۔ تفسیر منہج الصادقین میں ہے کہ متعی مرد اور عورت جو حرکات کرتے ہیں۔ہر حرکت پر ان کو ثواب ملتا ہے۔غسل کرے تو غسالہ کے ہرقطرہ سے فرشتے پیداہوتے ہیں اوربے تعدادفرشتے قیامت تک تسبیح وتقدیس میں مشغول رہیں گے اوران کی تمام عبادات کا ثواب متعہ کرنے والوں کو ملے گا۔ ایک مرتبہ متعہ کرنے سے امام حسین کا دومرتبہ امام حسن کا تین مرتبہ میں حضرت علی کا چارمرتبہ میں رسول خداکارتبہ ملتا ہے۔جومتعہ نہ کرے گاوہ قیامت کے دن نکٹا اٹھے گا۔

حضرات شیعہ نے متعہ میں ایک لطیف صورت اورپیداکی ہے اوراس کا نام متعہ دوریہ رکھا ہے جس کے ذکر سے بھی شرم معلوم ہوتی ہے۔بادل نخواستہ بقدر ضرورت ذکرکیاجاتا ہے۔ صورت اس کی یہ ہے کہ دس بیس آدمی مل کرکسی ایک عورت سے متعہ کریں اوریکے بعددیگرے اس سے ہم بسترہوں۔نعوذباللہ منہ۔ اب چند روز سے شیعہ اس متعہ کا انکارکرنے لگے ہیں مگر اپنی کتابوں کو کیا کریں گے۔قاضی نوراللہ شوستری سے کچھ نہ بن پڑا تواپنی کتاب مصائب النواصب میں یہ قیدلگادی گئی کہ ہمارے ہاں متعہ دوریہ اس عورت سے جائز ہے جس کا حیض بند ہوچکا ہو۔ عبارت ان کی یہ ہے:

واماتاسعافلان مانسیہ الی اصحابنا من انھم جوزوان یتمتع الرجال المتعددان لیلتہ واحدہ من امراد سواء کانت من ذوات الاقراء عام لا فمما خان فی بعض قیودہ وذالک لان الاصحاب قد خصواذالک بالائسہ لا بمایعم بالائسہ وغیرھامن ذوات الاقراء مصنف نواقض الروافض نے یہ جوہمارے اصحاب امامیہ کی طرف منسوب کیا ہے وہ اس بات کو جائز کہتے ہیں کہ متعدد مرد ایک رات میں ایک عورت سے متعہ کریں خواہ اس عورت کو حیض آتا ہویا نہیں، اس میں ازراہ خیانت بعض قیدیں چھوڑ دی ہیں کیونکہ ہمارے اصحاب امامیہ نے متعدد دوریہ کو اس عورت کے ساتھ خاص کیا ہے جس کو حیض نہ آتا ہونہ یہ کہ جس کے ساتھ چاہے کرے۔حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔

قاضی نوراللہ شوستری نے یہ جوتاویل کی ہے اگرمان بھی لی جائے توبھی جس قدربے حیائی اس فعل میں ہے ظاہر ہے جس مذہب میں ایسے بے حیائی کے افعال جائز ہوں اس مذہب کے عمدہ ہونے میں کیاشک ہے؟

النجم دورجدید کے نمبرچہارم میں متعہ کی بحث لکھی جاچکی ہے۔جس میں ثابت کردیاگیا ہے کہ متعہ مذہب اسلام میں کبھی حلال نہ تھا۔قرآن شریف کی متعدد آیتیں مکی بھی اورمدنی بھی حرمت متعہ کی تعلیم دیتی ہیں۔اس مضمون کو دیکھ کر بعض انصاف پسند شیعوں نے بھی اقرارکرلیا کہ بے شک متعہ اسلام میں کبھی حلال نہ تھا چنانچہ حکیم سید شبیر حسن صاحب مولوی فاضل کا اقرارالنجم میں چھپ چکا ہے۔

۲۳۔ بتیسواں عقیدہ:۔

۲۳۔ بتیسواں عقیدہ:۔

تبراہ بازی کے متعلق ہے۔ اس کے لئے کسی خاص کتاب کے حوالے کی ضرورت نہیں۔ مذہب شیعہ کارکن اعظم یہی ہے کہ صحابہ کرام کو گالیاں دی جائیں۔اس گالی دینے کی بدولت ذلت ہوتی ہے۔ خونریزی ہوتی ہے۔دفعہ تعزیرات کے ماتحت سزائیں ملتی ہیں۔مگر پھر بھی بازنہیں آتے۔
۳۳۔تیتسواں عقیدہ:۔

۳۳۔تیتسواں عقیدہ:۔

غیرمسلم عورتوں کو ننگا دیکھنا مذہب شیعہ میں جائز ہے۔ فروع کافی جلددوم ص۱۶ میں ہے۔ عن ابی عبداللہ علیہ السلام قال النظر الی عورت من لیس بمسلم مثل نظرک الی عورہ الحمار۔ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جوشخص مسلمان نہ ہو اس کی شرمگاہ کادیکھنا ایسا ہے جیسے گدھے کی شرمگاہ کودیکھنا۔

۴۳۔چوتیسواں عقیدہ:۔

۴۳۔چوتیسواں عقیدہ:۔

مذہب شیعہ میں سترعورت صرف بدن کا رنگ ہے خود آئمہ معصومین اپنے عضو مخصوص پر چونہ لگاکرسامنے ننگے ہوجایا کرتے تھے۔فروع کافی جلددوم ص۱۶ میں ہے۔

ان اباجعفر علیہ السلام کان یقول من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلایدخل الحمام الابمیززقال فدخل ذات یوم الحمام نتنور فلما ان اطبقت النورہ علی بینہ القی المیزر فقال لہ مولی لہ بابی انت وامی انک لتومینابالمیزروقدالقیتہ عن نفسک فقال اماعلمت ان النورہ قداطبقت العورہ امام باقر علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اللہ پراورقیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ حمام میں بغیر پائجامہ کے نہ داخل ہو پھر امام ممدوح ایک دن حمام میں گئے اورچونہ لگایا جب چونہ لگ گیا توپائجامہ اتارکرپھینک دیا ان کے ایک غلام نے ان سے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر فداہوں آپ ہم کو پائجامہ پہننے کی تاکید کرتے ہیں مگر خود آپ نے اتارڈالا تو امام نے فرمایا کہ کیاتم نہیں جانتے؟ کہ چونہ نے سترکوچھپالیا۔

۵۳۔ پینتیسواں عقیدہ:۔

۵۳۔ پینتیسواں عقیدہ:۔

عورتوں کے ساتھ خلاف وضع فطرت حرکت کا جواز مذہب شیعہ میں متفق علیہ کافی استبصار تہذیب سب میں اس کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام سے پوچھا گیا کہ آپ بھی اپنی بی بی کے ساتھ ایساکرتے ہیں۔امام نے اس کے جواب میں انکارکیا ہے۔

لطف یہ ہے کہ اس مسئلہ کا جوازقرآن شریف سے ثابت کیاجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا نسائکم حرث لکم فاتواحرثکم انی شئتم۔ ترجمہ یہ کیاجاتا ہے کہ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں پس اپنی کھیتی میں سے جہاں سے چاہو آؤ۔ حالانکہ یہ ترجمہ غلط ہے یوں ہوناچاہیے کہ جس طرح چاہو آؤ۔کھیتی کا مضمون خود اس کو بتلارہا ہے کیوں کہ کھیتی کامقام صرف ایک ہی ہے بعض علماء شیعہ نے اہل سنت کی کتابوں سے بھی اس فعل قبیح کا جوازثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگروہ کامیاب نہ ہوئے۔(دیکھو قبقاب لال الکذاب)

۶۳۔ چھتیسواں عقیدہ:۔

۶۳۔ چھتیسواں عقیدہ:۔

بے وضو اوربلاغسل سجدہ تلاوت اورنمازجنازہ شیعوں کے یہاں درست ہے۔ان کی کتب فقہ میں اس کی تصریح ہے لہذاطول دینے کی حاجت نہیں۔طہارت کے مسائل مذہب شیعہ میں بہت نفیس نفیس ہیں۔پیشاب کی بڑی قدرہے مگراب اس وقت طول دینے کو دل نہیں چاہتا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
۷۳۔سینتیسواں عقیدہ:۔

۷۳۔سینتیسواں عقیدہ:۔

مذہب شیعہ میں دغاوفریب ایسی عمدہ چیز ہے کہ آئمہ اکثر اپنے مخالفوں کی نمازجنازہ میں شرکت کرتے اوربجائے دعا کے نماز میں بددعادیتے تھے اور اپنے متبعین کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے کہ تم بھی ایساکیاکرو۔لوگ سمجھتے تھے کہ امام نمازجنازہ پڑھ رہے ہیں اوروہاں معاملہ برعکس ہے۔ فروع کافی جلداول صفحہ ۹۹ میں ہے۔

عن ابی عبداللہ علیہ السلام ان رجلا من المنافقین مات فخرج الحسین بن علی صلوات اللہ علیہ یمشی فلقیہ مولالہ فقال لہ الحسین علیہ السلام این تذھب یا فلان قال فقال لہ مولاہ افرمن جنازہ ھذا المنافق ان اصلی علیھا فقال لہ الحسین علیہ السلام انظر ان تقوم علی یمینی فما سمعتی اقول فقل مثلہ فلما ان کبر علیہ ولیہ قال الحسین علیہ السلام اللہ اکبر اللھم العن فلانا عبدک الف لعنہ مئرتلفہ غیر مختلفہ اللھم اخزک عبدک فی عبادک وبلادک وواصلہ حر نارک واذقہ اشد عذابک فانہ کان یتولی اعدائک ویعادی اولیاء ک ویبغض اہل بیت نبیک امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ ایک شخص منافقوں میں سے مرگیا۔امام حسین صلوات اللہ علیہ اس کے جنازہ کے ہمراہ چلے راستہ میں غلام ان کا ان کو ملا اس سے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ تو کہاں جاتا ہے۔ اس نے کہا میں اس منافق کے جنازہ سے بھاگتا ہوں۔نہیں چاہتا کہ اس پر نماز پڑھوں۔حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا دیکھو میری داہنی جانب کھڑاہو اورجوکچھ مجھے کہتے ہوئے سننا وہی تو بھی کہنا پھر جب منافق کے ولی نے تکبیر کہی تو حسین علیہ السلام نے تکبیر کہہ کر یہ دعا مانگی کہ یا اللہ اپنے فلانے بندے پر لعنت کر ہزارلعنتیں جو ساتھ ساتھ ہوں مختلف نہ ہوں یا اللہ اپنے اس بندے کو دوسرے بندوں میں اور شہروں میں رسواکر اوراپنی آگ کی گرمی میں اس کو ڈال اورسخت عذاب اس پر کر کیوں کہ وہ تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتا تھا اورتیرے دوستوں سے دشمنی رکھتا تھا اورتیرے نبی کے اہل بیت سے بغض رکھتا تھا۔

ف:۔دیکھئے یہ امام معصوم ہیں جو اس طرح لوگوں کو فریب دے رہے ہیں اگر اس منافق کی نماز جنازہ جائز ہی نہ تھی تو امام کوعلیحدہ رہنا چاہیے تھا خواہ مخواہ نمازجنازہ میں شریک ہو کر بددعا کس قدر مذموم خصلت ہے؟ غلام بے چارہ جارہا تھا اس کو زبردستی امام نے شریک کرکے اپنے ساتھ فریب دہی کا مرتکب بنایا۔ کتب شیعہ میں اس قسم کے افعال اورائمہ سے بھی منقول ہیں۔ (استغفراللہ)

۸۳۔ اڑتیسواں عقیدہ:۔

۸۳۔ اڑتیسواں عقیدہ:۔

مذہب شیعہ میں ائمہ کی زیارت کی بھی نمازپڑھی جاتی ہے اور اس میں ان کی قبروں کی طرف منہ کیاجاتا ہے۔قبلہ روہونے کی شرط نہیں۔ یہ مسئلہ بھی ان کی کتب حدیث وفقہ میں مذکورہے اور غالباً شیعہ اس کو عیب بھی نہیں سمجھتے کیوں کہ کعبہ مکرمہ سے ان کو چنداں تعلق نہیں دین اسلام کی تمام چیزوں سے ان کی بے تعلقی ظاہر ہے۔صرف زبان سے تعلق کا اظہار محض اس لئے کرتے ہیں کہ ناواقف لوگ ان کو اسلامی فرقوں میں شمارکریں اورمسلمانوں کو بہکانے کا موقع ملے۔

۹۳۔ انتالیسواں عقیدہ:۔

۹۳۔ انتالیسواں عقیدہ:۔

مذہب شیعہ میں نجاست میں پڑی ہوئی روٹی کی اس درجہ قدرہے کہ اس کو ائمہ معصومین کی غذا بتایاجاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ جوشخص اس روٹی کو کھالے گا جنتی ہوگا۔ من لایحضرہ الفقیہ باب المکان للحدث میں ہے۔

دخل ابوجعفر الباقر الخلاء فوجد لقصہ نبذ فی القذرفاخذھا وغلباودنعبا الی مملوک معہ وقال یکون معک لاکلبا اذاخرجت فلما خرج قال للملوک این اللقمہ قال اکلتبہا یاابن رسول الہ فقال انبا مااستقرت فی جوف احدالاوجبت لہ اللجنۃ فاذھب فانت خرفانی اکرہ ان استخدم من اہل الجنہ امام باقر علیہ السلام ایک روزپاخانہ گئے تو انہوں نے ایک لقمہ نجاست میں گراہواپایا پس اس کو اٹھالیا اوردھوایا اورایک غلام کو جو ان کے ہمراہ تھا فرمایا کہ اس کواپنے پاس رکھ جب میں نکلوں گا تو اس کو کھاؤں گا چنانچہ جب نکلے تو اس غلام سے پوچھا کہ وہ لقمہ کہاں ہے۔غلام نے کہا اے فرزند رسول اللہ! میں نے اسے کھالیا۔امام نے فرمایا وہ لقمہ جس کے پیٹ میں جائے گا وہ جنت واجب ہوجائے گی۔توجا تو آزاد ہے کیوں کہ اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ جنتی سے خدمت لوں۔

۰۴۔ چالیسواں عقیدہ

۰۴۔ چالیسواں عقیدہ

شیعوں نے جو حدیثیں ائمہ کی طرف منسوب کرکے روایت کی ہیں ان میں اس قدراختلاف ہے کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس میں اماموں کے مختلف اقوال نہ ہوں۔اس اختلاف نے مجتہدین شیعہ کو سخت پریشان کررکھا ہے۔بیچارے اکثر تو یہ کرتے ہیں کہ مختلف حدیثوں میں ایک کو امام کا اصلی مذہب کہہ دیتے ہیں اور دوسری حدیثوں کو تقیہ کہہ کر اڑادیتے ہیں مگر کہیں یہ بات بھی نہیں بنتی۔اس وقت سخت حیران ہوتے ہیں۔مولوی دلدارعلی صاحب نے ”اساس الاصول“ میں مجبورہوکریہ بھی لکھ دیا کہ اگر ہمارے اختلاف کو دیکھو تو حنفی شافعی کے اختلاف سے بدرجہا زائد ہے۔ مولوی دلدارعلی نے یہاں تک اقرارکرلیا کہ ہمارے ائمہ کا اختلاف عقدہ لاینحل ہے اورہرجگہ اس بات کومعلوم کرلینا کہ یہ اختلاف کیوں ہے۔انسانی طاقت سے باہر ہے۔بہت سے شیعہ اس اختلاف کودیکھ کرمذہب شیعہ سے پھر گئے۔

”اساس الاصول“ ص ۱۵ میں ہے۔

الاحادیث الماثوردعن عن الائمہ مختلفہ جدالایکاد یوجد حدیث الاوفی مقابلہ ماینافیہ ولایتفر خبر الاوبازۂ مایضاد حتی صارذالک سبیا لرجوع بعض الناقصین عن اعتقاد الحق کما صبرح بہ شیخ الطائفہ فی اوائل التبذیب والاستبصار ومنا بشئی ھذاہ الاختلافات کثیرہ جدامن التقیتہ والوضع السامع والنسخ التخصیص والتعقبدوغیرھذاہ المذکورات من الامور الکثیرہ کماوقع التصریح علی اکثرھا فی الاخبار الماثورہ عنھم لیتازالمناشی بعضھا عن یعض فی باب کل حدیثین مختلفین بحیث یحصل العلم والیقین یتعین المنشاء عرجدا وفوق الطاقہ کمالایخفی۔

جوحدیثیں ائمہ سے منقول ہیں۔ان میں بہت اختلاف ہے۔کوئی حدیث ایسی نہیں مل سکتی جس کے مقابلہ میں دوسری حدیث نہ ہو اور کوئی خبر ایسی نہیں ہے جس کے مقابلہ میں دوسری ضد موجود نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس اختلاف کے سبب سے بعض ناقص لوگ اعتقاد حق (یعنی مذہب شیعہ) سے پھر گئے جیساکہ شیخ الطائفہ نے تہذیب واستبصار کے شروع میں اس کی تصریح کی ہے اوراس اختلاف کے اسباب بہت ہیں مثلاً تقیہ اورجعلی حدیثیں کابنایا جانا اور سننے والے سے اشتباہ کا ہوجانا اورمنسوخ ہوجانا یا خاص اورمقید کا ہوجانا اورعلاوہ ان مذکورہ باتوں کے بہت سی باتیں ہیں چنانچہ اکثر باتوں کی تصریح ان روایات میں ہے جو ائمہ سے منقول ہیں اورہردومختلف حدیثوں میں یہ پتہ لگانا کہ کس سبب سے اختلاف ہوا اس طورپرکہ تعین سبب کا علم ہو یقین ہوجائے نہایت دشواربلکہ طاقت انسانی سے بالاتر ہے جیساکہ پوشیدہ نہیں۔

جناب شیعہ صاحب اپنی احادیث کے اس عظیم وشدید اختلافات کو دیکھئے اور اس پر غورکریں کہ ان مختلف حدیثوں میں آپ کے اسلاف نے جس کو چاہا امام کا اصلی مذہب کہہ دیا جس کو چاہا تقیہ وغیرہ کہہ کراڑادیا کیونکہ بقول مولوی دلدارعلی صاحب کے ہرجگہ سبب اختلاف کا معلوم کرناطاقت انسانی سے بالاتر ہے۔کیا باوجود اس کے بھی آپ اپنے کوپیروائمہ کہہ سکتے ہیں۔ شرم۔شرم۔شرم جن مسائل کاذکر تنبیہ الحائرین کے دیباچہ میں تھا ان کا بیان ختم ہوچکا اورکتب شیعہ کا حوالہ بقدر ضرورت دیا جاچکا ہے۔اب چند اموراورجن کاوعدہ اسی تکملہ پر محمول تھا ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں۔

حضرت عثمانؓ پر قرآن شریف جلانے کا اہتمام

حضرت عثمانؓ پر قرآن شریف جلانے کا اہتمام

یہ ایک پرانا فرسودہ طعن ہے جس کا معقول جواب اہل سنت کی طرف سے بارہادیاگیا اوراس جواب کا کوئی رد حضرات شیعہ کی طرف سے نہیں ہوسکا مگرعقتضائے حیا حضرات شیعہ اس جواب سے آنکھ بندکرکے پھر جہاں موقع پاتے ہیں اس طعن کو ذکر کردیتے ہیں۔

(۱) حائری صاحب نے بھی جاہلوں اور بے وقوفوں کو دھوکہ دینے کے

لئے اس طعن کو بیان کیا ہے اورچھ کتابوں کے نام بھی لکھ دئیے ہیں کہ ان میں یہ طعن مذکورہے اورلکھا ہے کہ ان کتابوں

(۲) کی عبارتیں رسالہ موعظہ حسنہ میں نقل کرچکا ہوں۔حائری صاحب تفسیر اتقان وغیرہ دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ اس زمانہ میں اکثر لوگوں نے اپنے اپنے مصحف میں اپنی یاداشت کے لئے تفسیری الفاظ اورمنسوخ التلاوۃ آیتیں قرآن شریف کی آیتوں کے ساتھ ملاکرلکھ لی تھیں۔اس وقت تو ان لوگوں کو کسی قسم کے اشتباہ کا اندیشہ نہ تھا لیکن اگروہ مصاحف رہ جاتے تو آئندہ نسلوں کو بہت اشتباہ ہوتا۔یہ پتہ نہ چلتا کہ لفظ قرآنی کون ہے اورتفسیری لفظ کون ہے۔منسوخ التلاوۃ کون کون آیات ہیں اورغیرمنسوخ کون کون۔ لہذا حضرت عثمانؓ نے بمشورہ جمہور صحابہ ان مصاحف کومعدوم کردیا اور ان کے معدوم کرنے کی سب سے بہتر صورت یہی تھی کہ ان کو جلادیاجائے۔سنن ابی داؤد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لاتقولوافی عثمان الاخیرافانہ مافعل فی المصاحف الاعن ملامنا حضرت عثمان کے حق میں سواکلمہ خیر کے کچھ نہ کہو کیوں کہ انہوں نے مصاحف کے بارہ میں جوکچھ کیا وہ ہم سب کے مشورہ سے کیا۔

پھر یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ جب تفسیری الفاظ بھی قرآن کے ساتھ مخلوط تھے توآیا اس مجموعہ کو قرآن کہاجاسکتا ہے ہرگز نہیں۔

اگر حائری صاحب کسی روایت سے یہ ثابت کردیں کہ حضرت عثمانؓ نے جن مصاحف کو جلوایا تھا ان میں خالص قرآن تھا اورمنسوخ التلاوت آیتیں اس میں نہ تھیں تو جوانعام وہ اپنے منہ سے مانگیں ان کودیاجائے گا۔  جناب حائری صاحب کو خبر نہیں کہ احراق قرآن کے طعن کا ایسا نفیس جواب اہل سنت نے دیا ہے کہ علمائے شیعہ کومجبورہوکراس کی تعریف کرنی پڑی۔ علامہ ابن میسم بحرانی شرح نہج البلاغہ میں مطاعن حضرت عثمانؓ کا ذکرکرکے لکھتے ہیں۔

وقداجاب الناصرون لعثمان عن ھذا الاحداث باجوبہ مستحسنہ وھی مذکورہ فی المطولات حضرت عثمانؓ کے طرفداروں نے ان اعتراضات کے عمدہ عمدہ جوابات دئیے جو بڑی بڑی کتابوں میں مذکورہیں۔ حضرت عثمانؓ نے ان مصاحف کو معدوم کرکے مسلمانوں پر بڑااحسان کے ورنہ آج قرآن شریف کی حالت بھی توریت وانجیل کی سی ہوتی مگرجن کوقرآن شریف سے تعلق نہیں وہ اس احسان کی کیاقدرکرسکتے ہیں۔

مصحف فاطمہؓ وکتاب علیؓ وغیرہ

مصحف فاطمہؓ وکتاب علیؓ وغیرہ

شیعوں کا ایمان قرآن شریف پر نہیں ہے نہ ہوسکتا ہے۔حضرات شیعہ نے قرآن سے منحرف کرنے کے لئے دینی مسائل کے کئی ایک فرضی ماخذ بنائے اورائمہ سے ان کی روایتیں نقل کیں۔ جن کے نام حسب ذیل ہیں۔ مصحف فاطمہ جس کی بابت امام صادق کا قول ہے۔ ”تمہارے قرآن سے تگنا ہے اور واللہ اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف نہیں۔“ (اصول کافی ص ۶۴۱) دوسرے جفر جس کی بابت امام جعفر صادق کا ارشاد ہے کہ ”وہ ایک چمڑے کا تھیلا ہے جس میں تمام انبیاء اوراوصیاء اور علمائے بنی اسرائیل کے علم بھرے ہوئے ہیں۔ (اصول کافی ص ۶۴۱) دوسرے کتاب علی جس کی بابت زرارہ صاحب کا بیان ہے کہ مجھے امام جعفر صادق نے وہ کتاب دکھائی اونٹ کی ران کے برابر موٹی تھی اور اس میں تمام مسلمانوں کے خلاف مسائل لکھے ہوئے تھے“ (فروع کافی جلد سوم ص ۲۵) چوتھے مصحف علی جس کی بابت ہم تنبہیہ الحائرین میں کتب شیعہ کی عبارتیں نقل کرچکے ہیں۔ وہ ہمارے قرآن سے بالکل مختلف تھا۔ کمی بیشی تغیروتبدل غرض ہر لحاظ سے اصل اور ہمارے قرآن میں بڑافرق تھا۔حائری صاحب کتاب القوانین الاصول میں صدوق کا قول ہے اور صدوق منجملہ ان چاراشخاص کے ہے جو تحریف قرآن کے منکر ہیں اور اس کے لئے اپنی روایات کے خلاف باتیں بناتے ہیں جیسا کہ تنبہیہ الحائرین میں لکھا جاچکا ہے۔ ھذااخر الکلام بالاختصار الاتمام والحمدللہ تعالی

موجودہ دورکے حقیقی تقاضے

موجودہ دورکے حقیقی تقاضے
اسلام کے خلاف خطرناک سازشوں کا انکشاف
ہر مسلمان کے لئے

ہدیہ: 10 روپیہ۔ صفحات: 24

ناشر: اشاعت المعارف
ریلوے روڈ فیصل آباد پاکستان فون نمبر 640024
ادارہ اشاعت المعارف کی شہرہئ آفاق مطبوعات
ناشر: اشاعت المعارف
ریلوے روڈ فیصل آباد پاکستان فون نمبر 640024

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔
admin – [email protected]

Book Options

Author: Imam Ahl-e-Sunnat Hazrat Maulana Muhammad Abdul Shakur Farooqi Lucknowi

Leave A Reply