بیس رکعات سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثابت ہیں۔ اسی لئے حضرات تابعین، ائمہ مجتہدین حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک تراویح کی بیس (۰۲) رکعات ہیں
الْحَمْدُلِلّٰہِ وَسَلاَم’‘ عَلیٰ عِبَادِہ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی
سوال: تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کی کتنی رکعات ہیں؟ کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کا کوئی
ثبوت ہے؟ اگر ہے توکتنی رکعات؟
ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں کہ تراویح کی نماز صرف آٹھ رکعات ہیں، بیس رکعات کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس سے عوام میں بڑا خلجان ہے۔ برائے کرم آپ واضح دلائل کے ساتھ قرآن و سُنّت کی روشنی میں صحیح صورت حال متعےّن فرمائیں تاکہ ہماری پریشانی دور ہو اور راہ صواب ہم پر کھل جائے اور پھر اطمینان سے اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔
جواب: تراویح سُنّت موکدہ ہیں اور مرد و عورت دونوں کے لئے حکم ایک ہی ہے۔ اور تراویح کی بیس رکعات ہیں۔ اور یہ بیس رکعات سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ثابت ہیں۔ اسی لئے حضرات تابعین، ائمہ مجتہدین حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے نزدیک تراویح کی بیس (۰۲) رکعات ہیں اور امام مالکؒ کے بھی ایک قول کے مطابق تراویح کی بیس(۰۲) رکعات ہیں۔ ان چاروں برحق اماموں نے بیس (۰۲) سے کم تراویح کو اختیار نہیں فرمایا۔ یہی جمہور کا قول ہے اور آج تک مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں اسی پر امّتِ مسلمہ کا عمل ہے، آج کل بھی مسجد الحرام مکّہ مکّرمہ میں اور مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ منورہ میں تراویح کی بیس (۰۲) رکعات ہوتی ہیں۔ آٹھ رکعات تراویح پر عمل کرنے والے بہت اقلیت میں ہیں اور غلطی پر ہیں۔ کیونکہ جن روایات میں آٹھ رکعات کا ذکر ہے، اس سے تہجد کی نماز مراد ہے، تراویح کی نماز مراد نہیں۔ اور یہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں۔
(عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر) (رواہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم وتر اور بیس رکعات (تراویح) پڑھاکرتے تھے۔“
ٖفائدہ: اس روایت کو ابن ابی شیبہؒ نے اپنی مصنف میں،عبد بن حمیدؒ نے اپنی مسند میں، طبرانی نے معجم کبیر میں، بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں، اور امام مغویؒ نے ”مصابیح السنہ“ میں تحریر فرمایا ہے۔ اس حدیث مرفوع کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن عثمان کے، لیکن محض ایک راوی کی وجہ سے جبکہ بعض سے اس کی توثیق بھی منقول ہے، بالکل نظرانداز کرنا صحیح نہیں۔ علاوہ اسکے بہت سے آثار قوےّہ اور تعامل صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ جس سے اس کا یہ معمولی سا ضعف بھی دور ہوجاتا ہے۔ اور اس مسئلہ میں اس سے استدلال کرنا یقینادرست اور صحیح ہے (اعلاء السنن صفحہ ۱۷ جلد۷ بتصرف)
(عن یزید بن رومان انہ قال الناس یقومون فی زمان عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فی رمضان بثلاث و عشرین رکعۃ) (رواہ مالکؒ واسناد و مرسل قوی)
حضرت یزید بن رومان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ رمضان میں بیس رکعات (تراویح) اور تین رکعات وتر پڑھاکرتے تھے۔“
(عن یحییٰ بن سعیدان عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ امر وجلایصلی بھم عشرین رکعۃ) (رواہ ابو بکر بن ابی شیبۃؒ فی مصنفہ و اسنادہ قوی مرسل)
”حضرت یحییٰ بن سعیدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات (تراویح) پڑھائے۔“
(وعن عبدالعزیزبن رفیع قال کان ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یصلی بالناس فی رمضان بالمدینۃعشرین رکعۃ ویوتر بثلاث) (اخرجہ ابوبکر بن ابی شیبۃ ؒ فی مصنفہ واسنادہ حسن)
حضرت عبدالعزیز بن رفیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو بیس رکعات (تراویح) اور تین رکعت وترپڑھایا کرتے تھے۔“(عن عطاء بن السائب عن عبدالرحمن السلمی عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال دعا القراء فی رمضان فامر منھم رجلاً یصلی بن الناس عشرین رکعۃ قال وکان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یو تربھم الخ) ۔“
(السنن الکبریٰ للبہیقی صفحہ ۶۹۴ کتاب الصلوٰۃ جلد دوم)
”حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان المبارک میں قراء کو بلایا، پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ راوی کا کہنا ہے کہ وتر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود پڑھایا کرتے تھے۔“
ٖفائدہ: ان روایتوں اوردیگر تصریحات سے ثابت ہواکہ حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے زمانہ میں بھی بیس رکعا ت تراویح پڑھائی جاتی تھیں۔
علامہ ابن قدامہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”المغنی“ میں بڑے دلکش انداز سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کے پس منظر کو اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ تراویح کی بیس رکعات ہیں اور یہ سنّت موکدہ ہیں۔ سب سے پہلے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا آغاز فرمایا، دو یا تین شب آپؐ نے ان کی باقاعدہ جماعت فرمائی، پھر جب آپؐ نے اس کے بارے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا انتہائی شوق و جذبہ دیکھا تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تراویح امّت پر فرض نہ ہوجائے، اس لئے آپ نے اس کی جماعت ترک فرمادی۔ اور حضرات صحابہ کرام انفرادی طور پر تراویح پڑھتے رہے، یہاں تک کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آگیا، آپ انتہائی غوروفکر کے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعداب ان کی فرضیت کا کوئی امکان نہیں لہٰذا اسے پھر جماعت کے ساتھ اداکرنا چاہیے۔ بالآخر آپ نے اس کا فیصلہ فرمالیا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تراویح کی امامت پر مقرر فرمایا اور حضرات صحابہ میں سے کسی نے آپ کے اس فیصلہ کی نکیر نہیں فرمائی، بلکہ بخوشی اس پر عمل شروع کردیا۔ اور روایات صحیحہ سے ثابت ہے۔ کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبیس رکعات پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ صحابہ کرام فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے، اسی پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع ہوگیا۔ اور ”اجماع“ خود مستقل حجت شرعیہ ہے۔ اس لئے بیس رکعات تراویح کے ثبوت میں کوئی شک وشبہ نہیں، یہی راہ حق ہے اور اس کو چھوڑنا گمراہی ہے۔
(المغنی صفحہ ۹۹۷ جلد ابزیادہ)
سوال: تراویح کا وقت عشاء کے فرضوں سے پہلے ہے یا بعد میں؟ اگر کوئی شخص فرضوں سے پہلے تراویح پڑھ لے اور بعد میں عشاء کے فرض اداکرے تو کیا اس کی تراویح درست ہوجائیں گی، نیز تراویح کا وقت کب تک باقی رہتا ہے؟
جواب: تمام تراویح کا وقت عشاء کے فرضوں کے بعد شروع ہوتا ہے اور صبح صادق تک رہتا ہے۔ نماز عشاء سے پہلے اگر تراویح پڑھی جائیں گی تواس کا شمار تراویح میں نہ ہو گا۔فرضوں کے بعد تراویح دوبارہ پڑھنی ہوں گی۔
(افتادیٰ محمودیہ بحوالہ در مختار صفحہ ۳۷۴، جلدا، والاختیار صفحہ ۹۶ جلد۱)
سوال: تراویح اور وترسب پڑھ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ امام یا منفرد کو عشاء کے فرض میں کچھ سہو ہوگیا تھا جس کی وجہ سے عشاء کی نماز نہیں ہوئی تھی تو کیا صرف عشاء کے فرض لوٹائیں گے یا عشاء کے فرض کے ساتھ ساتھ تراویح اور وتر سب دوبارہ پڑھنے ہوں گے؟
جواب: تراویح عشاء کے تابع ہیں، لہٰذاجیسے اگر کوئی شخص عشاء سے پہلے تراویح پڑھ لے تو تراویح نہیں ہوں گی، اسی طرح اگر عشاء کے فرض فاسد ہوجائیں اور منفرد یا امام تراویح پڑھ چکا ہے تو فرضوں کے لوٹانے کے ساتھ تراویح بھی لوٹائی جائیں گی خواہ تراویح تمام پڑھ چکا ہو یا بعض، البتہ وتر کے لوٹانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ عشاء کے تابع نہیں ہیں۔ (ہندیہ وکبیری)
سوال: تراویح کی نیت کس طرح کرنی چاہیے؟
جواب: تراویح کی نیت یوں کرنی چاہیے:
”یا اللہ آپ کی رضا کے لئے تراویح پڑھتا ہوں“ یا ”یااللہ! اس وقت کی سُنت اداکرتا ہوں“ یا ”رمضان المبارک کے قیامِ لیل کی نماز پڑھتا ہوں“ یا”امام کی اقتداء میں تراویح پڑھ رہا ہوں“ یا ”یااللہ! امام جو نماز پڑھارہا ہے میں بھی وہی نماز اداکرتا ہوں۔“
ان میں سے جو بھی نیت کی جائے تراویح ادا ہوجائیں گی۔ (خانیہ)
مسئلہ: مطلقاً نماز یا نوافل کی نیت پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے۔
سوال: تراویح میں پورا قرآن کریم پڑھنا افضل ہے یا سنت؟واضح فرمائیں!
جواب: ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرنا(پڑھ کر یاسن کر) سنت ہے۔دو مرتبہ فضیلت ہے اور تین مرتبہ افضل ہے، لہٰذا اگر ہر رکعت میں تقریباً دس آیتیں پڑھی جائیں تو ایک مرتبہ بسہولت ختم ہوجائے گا اور مقتدیوں کو بھی گرانی نہ ہوگی، تاہم لوگوں کی سستی کی وجہ سے حتی الامکان سنت کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(در مختار وخانیہ)
مسئلہ: جو لوگ حافظ ہیں ان کے لئے فضیلت یہ ہے کہ مسجد سے واپس آکربیس رکعت اور پڑھاکریں تاکہ دو مرتبہ قرآن کریم ختم کرنے کی فضیلت حاصل ہوجائے۔ (خانیہ)
مسئلہ: ہر عشرہ میں ایک مرتبہ قرآن کریم ختم کرنا افضل ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
مسئلہ: اگر مقتدی اس قدرضعیف اور کاہل ہوں کہ ایک مرتبہ بھی پورا قرآن شریف نہ سن سکیں بلکہ اس کی وجہ سے جماعت چھوڑدیں تو پھر جس قدر سننے پر وہ راضی ہوں اس قدر پڑھ لیاجائے یا الم ترکیف (سورۃ الفیل) سے پڑھ لیاجائے (بحر)
لیکن اس صورت میں ختم قرآن کریم کی سنت کے ثواب سے محروم رہیں گے۔
(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
مسئلہ: ستائیسویں شب کوقرآن کریم ختم کرنا مستحب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
مسئلہ: اگر اپنی مسجد کے امام صاحب قرآن شریف ختم نہ کریں تو پھر کسی دوسری مسجد میں جہاں پر ختم ہو، تراویح پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (کبیری)
کیونکہ ختم کی سنت وہیں حاصل ہوگی(فتاویٰ محمودیہ)
مسئلہ: اگر اپنی مسجد کے امام صاحب قرآن شریف غلط پڑھتے ہوں تو دوسری مسجد میں تراویح پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ ہندیہ)
سوال: آج کل بعض شہروں میں فرمائیں کسی جگہ ایک رات میں تراویح کے اندرقرآن کریم ختم کیاجاتا ہے اور بعض جگہ تین راتوں میں اور بعض جگہ سات راتوں میں، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگرایک رات میں یا تین یا سات راتوں میں تراویح کے اندر قرآن کریم اس طرح ختم کیا جائے کہ قواعد تجوید کے مطابق صاف صاف اور بالکل صحیح طریقہ سے پڑھاجائے، حروف نہ کاٹے جائیں اور صرف تعلمون یعلمون سنائی نہ دے بلکہ کلام پاک اچھی طرح سامعین کی سمجھ میں آئے اور نمازی خوش دلی سے اس میں شریک ہوں تو اسطرح ختم کرنا جائز ہے، شرعاً کچھ مضائقہ نہیں، لیکن اگر قرآن کریم صاف اور صحیح نہ پڑھا جائے، حروف کٹنے لگیں، سامعین کو سوائے تعلمون یعلمون کے کچھ سمجھ نہ آئے جیسا کہ بعض جگہ صورتحال اسی طرح ہے، تو پھر اسطرح پڑھنا درست نہیں، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
سوال:تراویح میں عورتوں کی جماعت کیسی ہے، جب کہ امام بھی عورت ہو اور مقتدی بھی عورت ہو؟ اس طرح جو عورت حافظ قرآن ہو اور تراویح میں سنائے بغیر اس کا قرآن کریم حفظ نہ رہ سکتا ہو، بھولنے کا اندیشہ ہو، تو کیا ایسی حافظہ عورت گھر کے اندر عورتوں کی جماعت میں تراویح کے اندر قرآن کریم سنا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب:عورتوں کی جماعت کے بارے میں اصل حکم یہی ہے کہ ان کی جماعت مکرہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح میں ہو، اس لئے خواتین کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہئے۔ البتہ جو عورت قرآن کریم کی حافظہ ہو اور تراویح میں سنائے بغیر حفظ رکھنا مشکل ہو اور بھولنے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی جماعت تراویح میں حافظ عورت کو قرآن ِ کریم سنانے کی کوئی تصریح تو نہیں ملی، لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ بلا تداعی (بغیر اعلان کے) صرف گھر کی خواتین کو حافظہ عورت کے قرآن کریم کی یاداشت محفوظ رکھنے کی غرض سے اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیز کیا جائے۔ تداعی سے پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر دو باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے۔ ایک یہ کہ اس کے لئے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے۔ دوسری یہ کہ اگرچہ اہتمام سے خواتین کو نہ بلایا، لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعداد امام خاتون کے علاوہ دو یا تین سے زیادہ نہ ہو۔ حضرت مفتی اعظمؒ کی اس اجازت کی تائید ذیل کی تصریحات سے ہوتی ہے بلکہ آخری تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظہ خاتون کی اگر صرف ایک ہی خاتون مقتدی ہو اور دونوں برابر کھڑی ہوں تو اس میں کچھ کراہت نہیں۔
بہر حال جہاں تک ہوسکے حافظہ خواتین کو بھی تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہئے، البتہ بوقت ضرورت شرائطِ مذکورہ کے ساتھ مذکورہ گنجائش پر عمل کر سکتی ہیں۔
(وفِی خلاصۃ الفتاویٰ، امامۃ المراٗۃ للنساء جائزۃ الا ان صلانھن فرادیٰ أفضل)
(صفحہ ۷۴۱ جلد ۱)
(قولۃ: ویکرہ تحریما جماعۃ النساء، لان الامام ان تقدمت لزم زیادۃ الکشف
وان وقفت وسط الصف لزم ترک المقام مقامہ و کل منھامکروہ کما فی العنایۃ
و ھٰذا ایقتضی عدم الکراھۃ لو اقتدت واحدۃ محاذیۃ لفقد الا مرین ۵)
(طحطاوی علی الذرصفحہ ۵۴۲ جلد ۱ ”تببویب رجستر ۷۵۳، ۸۳ الف)
سوال:نابالغ بچہ کلام پاک کا حافظ ہے، کیا وہ مردوں کو تراویح پڑھا سکتا ہے؟
جواب:مختار اور صحیح قول یہ ہے کہ نابالغ بچہ”چاہے قریب البلوغ ہی کیوں نہ ہو“ تراویح میں بالغوں کی امامت نہیں کرا سکتا اور ان کو تراویح نہیں پڑھا سکتا۔ (ہدایہ و در مختار)
مسئلہ: نابالغ کو تراویح کے لئے امام بنانا درست نہیں (کبیری) البتہ اگر وہ نابالغوں کی امامت کرے تو جائز ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
سوال:تراویح جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا واجب ہے یا سنت؟ وضاحت فرمائیں نیز تراویح کی جماعت اگر گھر میں کر لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
جواب:تراویح مسجد میں باجماعت پڑھنا سنتِ کفایہ ہے یعنی مسجدمیں اگر تراویح کی جماعت نہ ہو اور تمام اہلِ محلہ تراویح کی جماعت کو چھوڑ دیں تو تمام اہلِ محلہ گنہگار ہوں گے اور تارکینِ سنت بھی، اور اگر بعض نے با جماعت مسجد میں اور بعض نے با جماعت گھر میں ادا کی تو ترکِ سنت کا گناہ تو نہ ہوگا مگر گھر میں تراویح پڑھنے والے مسجد کی فضیلت عظمیٰ اور جماعتِ مسجد کی فضیلت اعلیٰ سے محروم رہیں گے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تراویح کی جماعت سنتِ کفایہ نہیں بلکہ ہر شخص پر جماعت سے تراویح پڑھنا مستقل سنت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جماعت چھوڑ دے، چاہے مسجد ہی میں تراویح ادا کر لے پھر بھی ترک سنت کا گناہ ہو گا۔ (شامی و کبیری)
امداد الفتاویٰ میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ مصالح دین کے پیش نظر اسی قول ثانی پر فتویٰ ہو نا چاہئے۔ اس لئے پورے اہتمام کے ساتھ مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح ادا کرنی چاہئے اور بلا ضرورت گھر میں تراویح کی جماعت کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
مسئلہ:گھر پر تراویح کی جماعت کرنے سے بھی جماعت کی فضیلت حاصل ہو جائے گی اور جماعت سے تراویح پڑھنے کی سنت بھی ادا ہو جائے گی لیکن مسجد میں پڑھنے کا جو ستائیس گناہ ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری صفحہ ۴۸۳)
مسئلہ:تراویح کی جماعت عشاء کی جماعت کے تابع ہے (لہٰذا عشاء کی جماعت سے پہلے تراویح جائز نہیں) اور جس مسجد میں عشاء کی جماعت نہیں ہوئی وہاں پر تراویح کو بھی جماعت سے پڑھنا درست نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری صفحہ۱۹۳)
مسئلہ:ایک شخص تراویح پڑھ چکا ہے، امام بن کر یا مقتدی ہو کر۔ اب اسی شب میں اس کو امام بن کر تراویح پڑھنا درست نہیں البتہ دوسری مسجد میں اگر تراویح کی جماعت ہو رہی ہو تو وہاں جاکر (بہ نیت نفل) جماعت میں شریک ہونا بلا کراہت جائز ہے۔ (کبیری صفحہ ۹۸۳)
مسئلہ:ایک امام کے پیچھے فرض اور دوسرے امام کے پیچھے تراویح اور وتر پڑھنا بھی جائز ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
مسئلہ:کسی مسجد میں ایک مرتبہ تراویح کی جما عت ہو چکی ہو تو دوسری مرتبہ اسی شب میں وہاں تراویح کی جماعت جائز نہیں، لیکن تنہا تنہا پڑھنا درست ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
سوال:بعض حفاظ ایسا کرتے ہیں کہ تمام سال داڑھی منڈواتے یاکترواتے رہتے ہیں اور ماہ رمضان سے کچھ عرصہ پہلے داڑھی چھوڑ دیتے ہیں، رمضان تک کچھ ہلکی ہلکی سی داڑھی نکل آتی ہے، پھر لوگ انہیں تراویح پڑھانے کے لئے امام مقرر کر لیتے ہیں اور رمضان کے بعد یہ حفاظ حسبِ سابق دوبارہ داڑھی منڈوا یا کتروا لیتے ہیں، تو ایسے حفاظ کے پیچھے تراویح پڑھنا کیسا ہے؟
جواب:حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث سے (جو آگے آرہی ہے) داڑھی کا چھوڑنا اور زیادہ کرنا اور مونچھوں کا کتروانا اور کم کرنا ثابت ہے اور داڑھی جبکہ ایک مٹھی سے کم ہو تو اس کا منڈوانا یا کتروانا شرعاََ بالکل ناجائز ہے۔ لہٰذا جو حفاظ ایک مٹھی سے کم داڑھی کو منڈواتے یا کترواتے ہیں وہ ارتکاب حرام کی وجہ سے فاسق ہیں (خواہ دوسری باتوں میں کتنے ہی نیک ہوں مگر ان باتوں سے یہ فسق ختم نہیں ہو سکتا) اور فاسق کے پیچھے تراویح پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، یعنی حرام کے قریب ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔ ہر مسجد کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ اچھی طرح دیکھ بھال کر تراویح کے لئے حافظ مقرر کرے۔ اس میں قرابت داری یا باہمی تعلقات کی رعایت کر کے فاسق کا امام مقرر کرا جائز نہیں ہے، جو انتظامیہ ایسا کرے گی وہ گنہگار ہو گی اور لوگوں کی نماز خراب کرنے کا وبال بھی انہی پر ہو گا۔ لہٰذا تراویح کے لئے ایسا حافظ منتخب کریں جو ظاہراً بھی با شرع، متقی اور پرہیزگار ہو۔
عن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
خالقوا المشرکین او فروا اللحیٰ و احفوا الشوارب و فی روایۃ انھکوا
الشوارب و عفوا اللحیٰ متفق علیہ (مشکوٰۃ صفحہ ۰۸۳)
البتہ اگر کوئی حافظ داڑھی منڈوانے یا کتروانے کے گناہ سے سچے دل کے ساتھ توبہ کر لے اور آثار و قرائن سے نمازیوں کو یا انتظامیہ کو اس کی توبہ پر اطمینان ہو تو بعد توبہ صادقہ کے اس کو تراویح میں امام بنا لینا درست ہے۔
سوال (الف):اجرت دے کر تراویح پڑھوانا کیسا ہے؟ بعض حفاظ صاف صاف معاملہ کرتے ہیں۔ بعض یوں کہ دیتے ہیں کہ جو آپ چاہیں دے دینا۔ بعض کچھ نہیں کہتے مگر لینے کی نیت ہوتی ہے۔ کسی جگہ متولی صاحب کہہ دیتے ہیں کہ اپنی خوشی سے جو چاہیں گے دے دیں گے، تو اس طرح کی اجرت کا تعین مشروط یا معروف طور پر شرعاََ درست ہے؟
(ب) : بعض جگہ رقم کے علاوہ جوڑا بھی بنا کر دیتے ہیں اور بعض مساجدمیں ختم قرآن کے موقع پر یا اس سے پہلے تراویح پڑھانے والے کی امداد کرنے کے لئے لوگوں سے باقاعدہ چندہ جمع کیا جاتا ہے اور تراویح پڑھانے والے کو دے دیا جاتا ہے، اس کے لینے کا کیا حکم ہے؟
(ج): بعض لوگ انفرادی طور پر تنہائی میں امام صاحب کی کچھ مدد کر دیتے ہیں۔ پہلے سے کچھ طے نہیں ہوتا، نہ ملنے کی امید ہوتی ہے، تو اس کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ نیز حافظ صاحب مسجد کی انتظامیہ سے اپنی آمدرفت کا خرچہ لے سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی طرح اگر تراویح پڑھانے کے لئے حافظ صاحب دوسرے شہر میں جائیں اور وہاں قیام کریں تو وہاں کے قیام کا خرچہ بھی لے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب (الف، ب): تراویح میں کلام پاک پڑھنے کی اجرت خواہ مشروط ہو یا معروف ہو، جیسا کہ عام طور پر رائج ہے کہ کسی نہ کسی عنوان سے لینا دینا لازم سمجھا جاتا ہے، اور حفاظ بھی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں جہاں زیادہ ملنے کی امید ہو، حتیٰ کہ اگر دوسرے شہر جانا پڑے تو اس کو بھی برداشت کرتے ہیں، اور اگر کسی جگہ کچھ امید ملنے کی نہ ہو تو وہاں نہیں جاتے، بلانے پر بھی عذر کر دیتے ہیں، اور اگر زبان سے نہ کہیں مگر دل میں ملنے یا لینے کی نیت ہوتی ہے
تو ان سب صورتوں میں ہدیہ، چندہ اور اعانت کے عنوان سے جو کچھ نقدی یا جوڑا دیا جاتا ہے، ان کا لینا حرام ہے، کیونکہ قرآنِ کریم پڑھنا عبادت ہے اور عبادت پر اجرت لینا حرام ہے۔
بعض حضرات اس کو اذان و اقامت اور تعلیم و وعظ پر قیاس کرکے جائز کہتے ہیں۔ مگر ان کا یہ قیاس غلط ہے کیونکہ اصل مسئلہ ان میں بھی عدم جواز ہی کا ہے مگر متأخرین فقہاء نے ضروریات شرعی کی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیا ہے اور تراویح میں قرآن سنانا ضروریات دین میں سے نہیں ہے، لہٰذا اس کی اجرت حرام رہے گی۔ (امداد الفتاویٰ صفحہ ۰۹۲ جلد ۱ میں اس مسئلہ پر مفصّل بحث کی گئی ہے) لہذا اگر خالص لوجہ اللہ تراویح پڑھانے والا حافظ نہ ملے تو تراویح ” ا لم ترکیف ” سے پڑھ لی جائیں۔
(ج): اگر کسی حافظ نے خالص اللہ کی رضا کے لئے قرآن سنایا اور معروف یا مشروط طور پر کچھ نہ ٹھہرایا اور نہ لینے کا کوئی ارادہ تھا۔
پھر اتفاق سے چپکے سے کسی نے کچھ پیش کر دیا تو اس کا لینا درست ہے۔ یہ اجرت کے حکم میں داخل نہیں ہے۔
سوال:جس طرح پانچ وقت کی نمازوں کے لئے اجرت پر امام مقرر کیا جاتا ہے، اسی طرح ماہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے لئے کسی حافظ کو اجرت پر امام مقرر کرنا کیسا ہے، جائز ہے یا نہیں؟
جواب:چونکہ مقصود اصلی یہاں امامت نہیں ہے بلکہ تراویح میں قرآن پاک کا ختم ہے، اس لئے اس پر جو اجرت لی اور دی جائے گی وہ ختم قرآن کی وجہ سے ہو گی نہ کہ محض امامت کی وجہ سے،لہٰذا یہ اجرت ناجائز ہوگی، اور قرآنِ کریم کی اجرت حلال کرنے کے لئے یہ حیلہ اختیار کرنا درست نہ ہو گا۔ (ملخص از فتاویٰ دار العلوم مدلّل)
سوال:تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد بیٹھنے کا کیا حکم ہے؟ کتنی دیر بیٹھنا چاہئے اور اس میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:ہر ترویحہ یعنی چار رکعت پڑھ کر اتنی ہی دیر یعنی چار رکعت کے موافق جلسہ استراحت کرنا مستحب ہے (اسی طرح پانچویں ترویحہ یعنی بیس رکعت کے بعد وتر سے پہلے بھی جلسہ استراحت مستحب ہے لیکن اگر مقتدیوں پر جلسہ استراحت سے گرانی ہوتی ہو تو نہ بیٹھے۔ (عالمگیری) اور جلسہ استراحت میں اختیار ہے کہ تسبیح، قرآن شریف، نفلیں، جو دل چاہے پڑھتا رہے۔ اہلِ مکہ کا معمول طواف کرنے اور دو رکعت نفل پڑھنے کا ہے اور اہلِ مدینہ کا معمول چار رکعت
پڑھنے کا (کبیری) اور اس دوران یہ دعاء بھی منقول ہے:
سُبْحَانَ ذِی المُلکِ وَ الْمَلَکوتِ، سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَ الْعَظْمَۃِ وَ الْقُدْرَۃِ الْکِبرِیَاءِ وَالْجبروتِ
سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِی لَا یَموتُ، سُبّوح قدوُّس رَبُّناَ وَ رَبُّ الْملَاءِکَۃِ وَ الرُّوحِ
لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ نستَغْفِر اللّٰہ نَسئالکَ الجَنَّۃ وَ نَعُوذُبِکَ مِنَ النَّارِ
(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ شامی)
مسئلہ:دس رکعت پر جلسہ استراحت کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
سوال:ہمارے یہاں ہر تراویح کی چار رکعت کے بعد جلسہ استراحت کرتے ہیں اور ہر جلسہ استراحت میں امام اور تمام مقتدی بآواز بلند درود اور کلمہ توحید و استغفار پڑھتے ہیں۔ ایسے پڑھنا کیسا ہے، کتب فقہ سے جواب دیں۔
جواب:دعاء و درود آہستہ پڑھنا افضل ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
(ادعوا رَبکم تَضَرّعَا وَ خفیَۃ)َ (الآیۃ)
” تم اپنے رب کو آہستہ اور عاجزی کے ساتھ پکارو”۔ (فتاویٰ محمودیہ)
سوال:ہر شفعہ کے بعد دو رکعت علیحدہ پڑھنا بدعت ہے تو جواب طلب امریہ ہے کہ شفعہ کسے کہتے ہیں؟
جواب: دو رکعت کو شفعہ کہتے ہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ)
سوال:تراویح کی کتنی رکعتیں ایک سلام سے پڑھنا جائز ہے؟ تفصیلی جواب دیجئے۔
جواب:تراویح کی دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنا افضل ہے اور چار رکعت بھی ایک سلام سے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور آٹھ رکعت بھی ایک سلام سے پڑھنا مکروہ نہیں (مگر ہر ترویحہ پر جلسہ استراحت کی فضیلت حاصل نہ ہوگی) البتہ آٹھ رکعت سے زائد خلاف اولیٰ اور مکروہ ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
سوال:زید جب مسجد میں آیا تو دیکھا کہ عشاء کی نماز ہو گئی ہے اور تراویح ہو رہی ہے، تو اب زید پہلے عشاء کے فرض پڑھے یا تراویح میں شریک ہو جائے؟ جواب:زید کو چاہئے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھے یعنی چار فرض اور دو سنت پڑھے اور پھر تراویح میں شریک ہو، کیونکہ تراویح عشاء کے فرض کے تابع ہے۔ اور اس دوران میں جو تراویح کی رکعات رہ جائیں انہیں دو ترویحوں کے درمیان جلسہ استراحت کے وقت پوری کر لے، اگر موقع نہ ملے تو وتر پڑھنے کے بعد پڑھے۔ (ہندیہ)
سوال:زید نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے اور تراویح میں امام کے ساتھ شریک ہو گیا تو اب وتر بھی جماعت سے پڑھ سکتا ہے یا نہیں۔ نیز اگر تراویح کی کچھ رکعت رہ گئی ہوں تو بھی وتر کی جماعت میں شرکت کرسکتا ہے یا نہیں؟
جواب:زید نے اگرچہ عشاء کے فرض جماعت سے نہ پڑھے ہوں مگر تراویح اور وتر میں امام کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے۔ اور اگر کچھ تراویح باقی رہ گئی ہوں تو انہیں وتر ادا کرنے کے بعد ادا کرے۔ (ہندیہ)
مسئلہ:اسی طرح اگر زید نے عشاء کے فرض جماعت سے نہیں پڑھے بلکہ تنہا پڑھے ہیں، تب بھی وہ تراویح اور وتر کی نمازوں میں امامت کر سکتا ہے۔
سوال:تراویح کے شروع ہونے کے وقت بعض لوگ پیچھے بیٹھے رہتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں اور امام جب رکوع میں جاتا ہے تو یہ لوگ کھڑے ہو کر رکوع میں شامل ہو جاتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:اس طرح مکروہ اور منع ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنے میں سستی کا اظہار ہے جو منافقین کے عمل کے مشابہ ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
مسئلہ:جس شخص پر نیند کا غلبہ ہو اس کو چاہئے کہ کچھ دیر سو رہے، اس کے بعد تراویح پڑھے۔ (شامی)
مسئلہ:تراویح کو شمار کرتے رہنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ اکتا جانے کی علامت ہے۔ (خانیہ)
مسئلہ:مستحب یہ ہے کہ شب کا اکثر حصّہ تراویح میں خرچ کیا جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
سوال:تراویح میں جب قرآنِ پاک ختم ہو جاتا ہے تو بعض لوگ تراویح بھی چھوڑ دیتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب:یہاں دو چیزیں جدا جدا سنت ہیں۔ ایک تو تراویح میں قرآن پاک کا ختم کرنا جو مستقل الگ سنت ہے۔ اور دوسری: پورے مہینے تراویح پڑھنا۔ یہ علیحدہ سنت موٗکدہ ہیں۔ تراویح رمضان کا چاند نظر آنے پر شروع ہوتی ہیں اور عید الفطر کا چاند نظر آنے پر ختم ہوتی ہیں۔ چنانچہ اگر کلام پاک کسی جگہ ایک رات یا تین راتوں یا سات راتوں یا دس پندرہ روز میں ختم ہو جائے تو بھی بقیہ رمضان میں روزانہ تراویح پڑھنی ہوں گی۔ کیونکہ یہاں ایک سنت ختمِ قرآن تو مکمل ہو گئی۔ مگر دوسری سنت تراویح باقی ہیں، لہذا ختمِ قرآن کے بعد رمضان کی جتنی راتیں باقی ہوں ان میں بھی تراویح جماعت سے پڑھنی چاہئیں۔ (ہندیہ)
سوال:رکعات تراویح کے بارے میں مقتدی حضرات کے درمیان اختلاف ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ اٹھارہ ہوئیں اور بعض کہتے ہیں کہ بیس ہوئیں اور ہر فریق کو اپنی بات کا پورا یقین ہے، تو اب کس کا قول معتبر ہوگا۔
جواب :امام جس طرف ہوگا اس جماعت کا قول معتبر ہوگا۔
فَان اختلفوا و کان الا مام مع بعضھم رحج انا
ادعی کل فریق الیقین (کبیری صفحہ ۷۸۳)
سوال:امام نے دو رکعت تراویح پڑھ کر سلام پھیرا تو مقتدیوں میں اختلاف ہوا۔ بعض کہتے ہیں دو رکعت ہوئیں، بعض کہتے ہیں تین ہوئیں تو اب امام کس کی بات مانے اور اگر امام کو بھی شک ہو جائے تو کس بات پر عمل کرے۔
جواب:اگر امام کو بھی یقین ہے کہ دو رکعت ہوئی ہیں، تب تو امام ہی کی بات معتبر ہوگی، مقتدیوں کی بات کا اعتبار نہ ہو گا، لیکن اگر خود امام کو بھی شک ہو جائے تو اس صورت میں مقتدیوں میں جو لوگ امام کے نزدیک سچے اور قابل اعتبار ہیں۔ ان کی بات مانی جائے گی۔
(قاضی خان صفحہ ۹۳۲ جلد ۱، کبیری صفحہ ۷۸۳)
سوال:تراویح کی رکعات میں امام کو شک ہو گیا کہ اٹھارہ ہوئی ہیں یا بیس؟ اور مقتدیوں میں بھی اختلاف ہے اور امام کو مقتدیوں میں سے کسی کی بات کا یقین بھی نہیں ہے، تو ایسی صورت میں امام کیا کرے۔
جواب:جب یہ صورت پیش آئے تو سمجھا جائے گا کہ گویا سب لوگ شک میں مبتلا ہیں۔ جس کا حکم یہ ہے کہ بغیر جماعت کے سب لوگ علیحدہ علیحدہ دو رکعت تراویح پڑھیں، جس میں انہیں شک ہوا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، بحوالہ قاضی خان صفحہ ۹۳۲ جلد۱، کبیری صفحہ ۷۸۳)
مسئلہ:اگر اٹھارہ رکعات پڑھ کر امام سمجھا کہ بیس تراویح پوری ہو گئیں اور وتروں کی نیت باندھ لی مگر دو رکعت پڑھ کر یاد آیا کہ دو رکعت تراویح باقی رہ گئی ہیں۔ اور اسی وقت دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو یہ وتر کی نیت سے پڑھی ہوئی دو رکعتیں تراویح میں شمار نہ ہونگیں۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
مسئلہ:اگر وتر پڑھنے کے بعد یاد آیا کہ تراویح کی دو رکعتیں رہ گئی ہیں تو اس کو بھی جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہئے۔
مسئلہ:اگر وتر کے بعد میں یاد آیا کہ ایک مرتبہ صرف ایک ہی رکعت پڑھی گئی اور دو رکعت پوری نہیں ہوئیں تھیں اور کل تراویح انیس ہوئی ہیں تو صرف انہی دو رکعت کا اعادہ ہوگا اور اس کے بعد کی تمام تراویح کا اعادہ نہ ہوگا۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
مسئلہ:جب فاسد رکعت کا اعادہ کیا جائے تو اس میں جس قدر قرآن شریف پڑھا تھا اس کا بھی اعادہ کرنا چاہئے تاکہ تمام قرآن شریف صحیح نماز میں ختم ہو۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
مسئلہ:ایک شخص تراویح سمجھ کر نماز میں شریک ہوا پھر معلوم ہوا کہ امام وتر پڑھ رہا ہے،تو اس کو چاہئے کہ امام کے سلام کے بعد چوتھی رکعت بھی اپنی رکعات میں ملالے لیکن اگر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا اور چوتھی رکعت نہیں ملائی تب بھی اس کے ذمہ اس کی قضا نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ)
سوال:تراویح کی دوسری رکعت میں بیٹھنا بھول جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب :تراویح کی دوسری رکعت پر قعدہ بھول کر کھڑا ہو جائے توجب تک تیسری رکعت کا سجدہ نہ کیاہو، واپس آکر بیٹھ جائے اور سجدہ سہو کر کے نماز پوری کرے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو چوتھی رکعت ملا کر سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کرے، مگر ان چار رکعت کو صرف دو رکعت شمار کیا جائے یعنی دو رکعت تراویح ہوں گی اور دو رکعت نفل۔ (ہندیہ)
مسئلہ:اسی طرح اگر امام نے دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا بلکہ چار پڑھ کر قعدہ کیا اور سجدہ سہو بھی کر لیا تو یہ اخیر کی دو رکعت تراویح شمار ہوں گی اور پہلی دو رکعت نفل ہو جائیں گی۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
سوال:امام یا منفرد نے تراویح کی تین رکعت پڑھ کر سلام پھر دیا تو اب اس کی دو رکعت تراویح ٹھیک ہوئی یا نہیں؟
جواب:اگر امام یا منفرد دوسری رکعت میں بیٹھ گئے تھے تب تو دو رکعت تراویح صحیح ہو گئیں، لیکن نفل کی ایک رکعت ملا چکا تھا لہٰذا چوتھی رکعت بھی ملانی چاہئے تھی مگر جبکہ درمیان میں سلام پھیر دیا تو اب دو رکعت نفل کی قضاء پڑھنا واجب ہوگی۔ اور اگر دوسری رکعت کا قعدہ بالکل کیا ہی نہیں بلکہ بھول کر تیسری رکعت کے بعد دو رکعت سمجھ کر سلام پھیر دیاتو نماز فاسد ہوگئی۔ اب یہ دو رکعت تراویح دوبارہ پڑھنی پڑیں گی۔ اور ان تین رکعت میں جس قدر قرآن شریف پڑھا تھا، اس کا بھی اعادہ ہوگا۔ (خانیہ)
سوال:اگر تراویح میں امام غلطی سے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو مقتدیوں کو کن الفاظ کے ذریعے امام کو اس کی غلطی یاد دلانی چاہئے؟
جواب:تیسری رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے مقتدیوں کو لفظ سبحان اللہ کہنا چاہئے تاکہ امام واپس قعدہ میں بیٹھ جائے۔(فتاویٰ محمودیہ بحوالہ ہندیہ صفحہ ۸۷جلد ۱)
مسئلہ:تراویح میں امام کو قرات وغیرہ میں غلطی بتلانے کے لئے نابالغ حافظ کو مقرر کرنا جائز ہے، اور نابالغ حافظ جب امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو اور امام کو لقمہ دے تو جائز ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (طحطاوی علی المراقی بتصرف)
مسئلہ:اور نیز مردوں کی صف اول میں امام کے پیچھے نابالغ حافظ کو غلطی بتلانے کی غرض سے کھڑا کرنا بھی جائز ہے۔ (احسن الفتاویٰ بتصرف)
مسئلہ:بلا عذر تراویح بیٹھ کر پڑھنے سے تراویح ادا ہو جائے گی، مگر ثواب نصف ملے گا۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ ہندیہ)
مسئلہ:اگر امام کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر تراویح پڑھائے، تب بھی مقتدیوں کو کھڑے ہو کر پڑھنا مستحب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ خانیہ)
مسئلہ:کوئی شخص ایسے وقت جماعت میں شریک ہوا کہ امام قرأت شروع کر چکا تھا تو اب اس کو سبحانک اللّٰھمنہیں پڑھنا چاہئے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ کبیری)
مسئلہ:اگر مسبوق نے امام کے ساتھ یا امام سے کچھ پہلے بھول کر سلام پھیر دیا تو اس پر سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر امام کے لفظ السلام کہنے کے بعد سلام پھیرا ہے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:مسبوق اپنی نماز پوری کرنے کے لئے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ امام کی نماز ختم ہونے کا یقین نہ ہو جائے۔ (محیط)
کیونکہ بعض دفعہ امام سجدہ سہو کے لئے سلام پھیرتا ہے اور مسبوق اس کو ختم کا سلام سمجھ کر اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں فوراََ لوٹ کر امام کے ساتھ شریک ہو جانا چاہئے۔
مسئلہ:اگر کوئی شخص ایسے وقت میں آیا کہ امام رکوع میں تھا،یہ فوراََ تکبیر تحریمہ کہ کر رکوع میں شریک ہوا اور جب ہی امام نے رکوع سے سر اٹھا لیا، پس اگر سیدھا کھڑا ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہ کر رکوع میں گیا تھا اور رکوع میں جھکنے سے پہلے پہلے اللہ اکبر کہ چکا تھا اور کمر کو رکوع میں برابر کر لیا تھا اس کے بعد امام نے رکوع سے سر اٹھایا ہے، تب تو رکعت مل گئی، تسبیح اگرچہ ایک مرتبہ بھی نہ کہی ہو۔ اور اگر امام کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع میں کمر کو برابر نہیں کر سکا تو رکعت نہیں ملی، اور اگر تکبیر سیدھے کھڑے ہو کر نہیں کہی بلکہ جھکتے ہوئے کہی اور رکوع میں پہنچ کر ختم کی ہے تو یہ نماز شروع کرنا
ہی صحیح نہیں ہوا، اور اس کی نماز نہیں ہوئی۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:اگر قیام میں امام کے ساتھ شریک ہو گیا مگر رکوع امام کے ساتھ نہیں کیا، بلکہ امام کہ رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رکوع کیا، تب بھی رکعت مل گئی۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط بتصرف)
مسئلہ:اگر رکوع میں امام کے ساتھ آکر شریک ہو ا اور صرف ایک ہی مرتبہ تکبیر کہی(یعنی تکبیر تحریمہ اور رکوع کی تکبیر دونوں نہیں کہیں) تب بھی نماز صحیح ہو گئی۔ (فتح القدر) بشرطیکہ تکبیر کھڑے ہو نیکی حالت میں کہی ہو، رکوع میں نہ کہی ہو۔
مسئلہ:امام جب تشہد کے لئے بیٹھا تو ایک مقتدی سو گیا، امام نے سلام پھیر کر دوسری دو رکعتیں شروع کر دیں، پھر جب تشہد کے لئے بیٹھا، تب یہ سونے والا جاگا، پس اگر اس کو معلوم ہے کہ یہ دوسری رکعتیں ہیں تو سلام پھیر کے اس میں شریک ہو جائے اور امام کے سلام کے بعد کھڑے ہو کر مسبوق کی طرح دو رکعت پڑھے پھر امام کے ساتھ اگلی تراویح میں شریک ہو جائے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ ہندیہ)
مسئلہ:امام کو چاہئے کہ تراویح کے دوران پورے قرآن شریف میں ایک مرتبہ کسی بھی سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی زور سے پڑھے، آہستہ پڑھنے سے امام کا قرآن شریف تو پورا ہو جائے گا مگر مقتدیوں کا پورا نہ ہو گا۔ (فتاویٰ محمودیہ)
مسئلہ:اگر کوئی آیت چھوٹ گئی اور کچھ حصہ آگے پڑھ کر یاد آیا کہ فلاں آیت چھوٹ گئی ہے، تو اس چھوٹی ہوئی آیت کے پڑھنے کے بعد آگے پڑھے ہوئے حصہ کا بھی اعادہ بھی مستحب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ ہندیہ صفحہ ۸۱۱)
مسئلہ:کسی چھوٹی سورت کا فصل کرنا دو رکعت کے درمیان فرائض میں مکرہ ہے تراویح میں مکروہ نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
مسئلہ:اگر تراویح کسی وجہ سے فوت ہو جائیں اور رات گزر جائے تو دن میں یا کسی اور وقت ان کی قضا نہیں نہ جماعت کے ساتھ نہ بغیر جماعت کے۔ اگر کسی نے قضا کی تو وہ تراویح نہ ہوں گی بلکہ نفلیں ہوں گی۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ بحر)
کیونکہ قضا فرائض اور واجبات یا فجر کی سنتوں کی ہوتی ہے۔ (در مختار و ہندیہ)
مسئلہ:آیت سجدہ کے بعد فوراََ ہی سجدہ تلاوت کرنا افضل ہے لیکن اگر نماز میں آیت سجدہ کے بعد سجدہ تلاوت نہ کیا بلکہ رکوع کر لیا اور اس میں اس سجدہ تلاوت کی نیت کر لی تب بھی سجدہ تلاوت ادا ہو جائے گا۔ اور اگر رکوع میں نیت نہیں کی تو اس کے بعد نماز کے سجدہ سے بلا نیت بھی یہ سجدہ تلاوت ادا ہو جائے گا۔ لیکن یہ جب ہے کہ آیت سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ نہ پڑھا ہو، اگر آیت سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ پڑھ چکا ہو تو اب اس سجدہ تلاوت کا وقت جاتا رہا، نہ نماز میں ادا ہو سکتا ہے نہ خارج نماز بلکہ توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔ (محیط، فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ: اگر آیت سجدہ جو کہ سورت کے ختم پر ہے پڑھ کر سجدہ کیا تواب سجدہ سے اٹھ کر فوراََ رکوع نہ کیا جائے(اس خیال سے کہ سورت ختم ہو ہی گئی) بلکہ تین آیت کی مقدار پڑھ کر رکوع کرنا چاہئے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:آیت سجدہ پڑھنے والے اور سننے والے دونوں پر سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:سورۃ حج میں پہلا سجدہ واجب ہے دوسرا نہیں۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:اگر خارج نماز آیت سجدہ کی تلاوت کی،مگر سجدہ نہیں کیا، نماز میں وہی آیت دوبارہ پڑھی اور سجدہ کیا تو یہ سجدہ دونوں دفعہ کے لئے کافی ہو جائے گا اور اگر پہلے سجدہ کر لیا تھا تو اب دوبارہ بھی سجدہ کرنا واجب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
مسئلہ:اگر امام نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کیا اور کوئی شخص آیت سجدہ سن کر امام کے ساتھ اس سجدے کے بعد اس رکعت میں شریک ہو گیا تو اس کے ذمہ سے یہ سجدہ ساقط ہو گیا، اور اگر اس رکعت میں شریک نہیں ہوا تو اس کو خارجِ صلوٰۃ علیحدہ سجدہ کرنا واجب ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ بحوالہ محیط)
وصلی اللّٰہ تعالٰی علی خیر خلقہ محمد و آلہ
واصحابہ و بارک وسلم تسلیما
کثیرا کثیرا
(بشکریہ ”البلاغ“ کراچی، مئی۷۸۹۱ء)