Sunnat e Ibraheemi

سنت ابراہیم ؑ

Sharing is Caring

مواعظ حکیم الامت اوردینی رسائل کی اشاعت کا امین

مدیر مسؤل ماہنامہ الامداد لاھورپاکستان مدیر
مشرف علی تھانوی خلیل احمد تھانوی

جلد ۲
ذیقعد ۱۲۴۱؁ھ /فروری ۱۰۰۲ ؁ء
شمارہ ۳

سنت ابراہیم ؑ

ازافادات: حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی قدس سرہُ

عنوانات وحواشی: مولاناخلیل احمد تھانوی

قیمت فی پرچہ= /۰۱ روپیہ ٭ زرسالانہ = /۰۰۱ روپیہ

پتہ دفتر: جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ
ماہنامہ ۱۹۲۔کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
الامداد فون نمبر ۰۶۰۸۴۴۔۳۱۲۲۲۴۵

ناشر: مشرف علی تھانوی
مبطع: ہاشم اینڈ حمادپریس
۰۲/۳۱ رینی گن روڈ بلال گنج لاہور
مقام اشاعت
جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ لاہور پاکستان

حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ نے یہ وعظ جامع مسجد قصبہ کیرانہ ضلع مظفر نگر یوپی میں ۴۲ ذی القعدہ ۵۳۳۱؁ھ کو قربانی کے موضوع پر

تین گھنٹے میں بیان فرمایا۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب کیرانوی نے قلمبند فرمایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعظ المسمیٰ بہ

##############

Download PDF | Sunat_e_Ibrahim

##############

سنت ابراھیم

الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلامضل لہ ومن یضلہ فلاھادی لہ ونشھد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشھدان سیدنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وبارک وسلم۔

اما بعد: ففی حدیثہ صلی اللہ علیہ وسلم قالواماھذہ الاضاحی یارسول اللہ قال سنتہ ابیکم ابراہیم۔

اہمیت قربانی

چونکہ زمانہ قربانی کاقریب ہے اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ قربانی کے مسائل ضرور یہ بیان کئے جائیں، کیونکہ اکثردیکھاگیا ہے کہ آجکل قربانی بوجہ لاپرواہی کے حسب قاعدہ نہیں کی جاتی، حالانکہ اُن قواعد کالحاظ واہتمام نہایت ضروری ہے اور بعض اہل ثروت(۱) ]مال دار[ کودیکھاگیا ہے۔کہ وہ خودقربانی ہی کی طرف توجہ نہیں کرتے، حالانکہ ذی وسعت (۲) ]صاحب گنجائش[پرقربانی واجب اوراس کے ترک پر وعید (۳) ]اسکے چھوڑنے پر عذاب کی دھمکی بھی ہے[ وارد ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جوشخص وسعت رکھتا ہو اورقربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آوے۔

عیدگاہ میں نمازعیدکی اہمیت

یہ عیدگاہ وہ جگہ ہے جس میں حاضر ہونے کی تاکید اورترغیب بیان فرمائی ہے کہ جن پر نمازعید واجب (۱)]عورتوں پر نمازعیدواجب نہیں [ بھی نہیں بلکہ جن کو نمازپڑھنا جائز(۲)]یعنی حیض ونفاس والی عورتیں [ نہیں، اُنکو بھی پہلے یہ حکم تھا کہ عیدگاہ میں حاضر ہوں، چنانچہ حیض والی عورتوں کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا کہ وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں حالانکہ حائضہ کو نمازپڑھنا جائز نہیں۔ مگر یہ حکم حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے کے ساتھ خاص تھا اس زمانے میں بسبب فتنہ (۳)]فتنہ عام ہونے کی وجہ[ کے یہ حکم نہیں جیساکہ اپنے محل میں تحقیق ہوچکا ہے۔ یہاں یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کوعیدگاہ میں ضرورحاضر ہونا چاہیے اوروہیں نمازاداکرناچاہیے۔ بعض لوگ اس میں تساہل (۴)]سستی[ کرتے ہیں۔اوربلاعذراپنے محلہ کی مسجد میں نمازپڑھ لیتے ہیں ہمارے فقہاء نے اس کو منع فرمایا ہے۔ (۵)]بڑے شہروں میں جہاں سب کاایک عیدگاہ میں جمع ہونا مشکل ہو متعدد مساجد میں نمازعیداداکی جاسکتی ہے[ البتہ معذورین جوعیدگاہ جانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ان کو اتنی اجازت دی ہے کہ ان کے واسطے بستی میں ایک امام رہ جائے یا ایسا ہی کوئی عذرشرعی ہے، ان کو بھی شہر کی مسجد میں پڑھنے کی اجازت ہے۔اورفقہاء یہ اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ وہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ قواعد سے جن کووہ اپنی خداداد اجتہاد سے سمجھے، کہتے ہیں۔اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کافرمودہ باری تعالیٰ کا فرمودہ ہے، مولانا فرماتے ہیں:

##########################

گفتہ اوگفتہ اللہ بود

گرچہ ازحلقوم عبداللہ بود(۱)

##########################

(۱)] آپ ﷺ کافرماناہے اگرچہ وہ کلام عبداللہ یعنی حضورﷺ کے منہ سے نکل رہا ہے[

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بانی اسلام نہیں بلکہ مبلغ اسلام ہیں

یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کایہ خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بانی اسلام باری تعالیٰ ہیں یہ محض غلط اورباطل ہے۔ بلکہ بانی اسلام باری تعالیٰ ہیں چنانچہ ارشادفرماتے ہیں۔ یاایھاالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک (۲) ]اے رسول ﷺ جوکچھ آپ پر اتراہے اس کو دوسروں تک پہنچادیجئے۔ سورۃ المائدہ آیت ۷۶[ اس میں صاف تصریح ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم محض مبلغ ہیں اوراحکام دینی خداکے نازل کردہ ہیں۔اوریہ جوکہاجاتا ہے کہ اسلام دین محمدی ؐہے یعنی یہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاہے اس کے یہ معنی نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دین کے موجد(۳) ]ایجادکرنے والے[ اوربنانے والے ہیں، بلکہ یہ تعبیر مجازی ہے۔ کیونکہ دین تواللہ ہی کاہے مگرچونکہ ہم کو بذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے معلوم ہواہے اس نسبت خاصہ کی وجہ سے اس طرح تعبیرکردیاجاتا ہے۔

فقہاء مظہر قانون ہیں موجد نہیں

غرض اصل احکام خداورسول کے ہیں فقہاء کا صرف یہ کام ہے کہ انھوں نے اس قانون خداوندی کو جوبذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بندوں کو پہونچا تھا لوگوں پر ظاہر کردیا ہے اوربذریعہ قیاس ایسے لوگوں کے لئے اچھی طرح توضیح (۴)]وضاحت[ وتفصیل کردی جواس قانون کے سمجھنے کی استعدادنہیں رکھتے تھے۔

اسی واسطے اصول وفقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ مصرح ہے کہ القیاس مظہر لامثبت (۱)]قیاس سے کوئی بات ظاہر ہوتی ہے ثابت نہیں ہوتی[ اس کی ایسی مثال ہے جیسا کہ ججان ہائی کورٹ نے ایک مسئلہ کو طے کردیا ہو کہ وہ دراصل قانون کاہی فیصلہ ہے جوضرور صحیح ماناجائے گا کیونکہ ججاں مذکورہ واضعان قانون کے مقصود(۲)]قانون بنانے والوں کی غرض[کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لہذاان کا فیصلہ قانونی طورپر صحیح سمجھاجائے گا۔لیکن یہ نہیں کہاجائے گا کہ ججان مذکور موجد قانون ہیں اورانھوں نے اپنے ایجادکردہ قانون کے موافق یہ فیصلہ کیا ہے بلکہ وہ مظہرقانون (۳)]قانون کوظاہرکرنے والے[ کہلائیں گے۔یہی مثال فقہاء کی ہے کہ وہ بھی مظہرقانون ہیں نہ کہ موجد۔

احکام الہی میں مقصود معرفت الہی ہے نکات نہیں 

غرض اصل حکم یہ ہے کہ عیدگاہ میں جانا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اس اجتماع ودیگر اجتماعات کی مثل جماعت جمعہ وجماعت پنجگانہ وغیرہ کی کیامصلحت ہے؟ سواس مصلحت کے بیان کرنے میں اوردیگر امورشرعیہ (۴)]شرعی احکام[ کی مصالح کے بیان کرنے میں بھی اس وقت کے عقلاء اوربعض علماء نے بھی ایک غلطی کی ہے اورٹھوکر کھائی ہے اورحقیقت میں جوچیز اصل مصلحت خداوندی ہے وہ اورہی شئے(۵)]چیز[ ہے۔

مثلاً کہاجاتا ہے کہ جماعت میں مقصود اتفاق ہے اوریہ نکتہ بیان کیا جاتا ہے کہ جماعت پنجگانہ اس مصلحت سے وضع ہوئی تاکہ اہل محلہ شب وروز میں پانچ مرتبہ اپنی اپنی مسجد میں مجتمع ومتفق (۶)]جمع ہوں [ہوجاویں اور ملاقات کریں اورجمعہ کی جماعت اس مصلحت سے مقررہوئی ہے تاکہ تمام شہر کے مسلمان ایک مسجد میں جمع ہوجائیں اورباہم ملاقات کریں اورعیدکی جماعت اس غرض سے مقررکی گئی تاکہ تمام شہراوراطراف شہر کے کل مسلمان ایک جگہ یعنی عیدگاہ میں جمع ہوں اورباہم ملیں جومسلمانوں کے اتفاق واتحادکی اچھی صورت ہے۔

اے حضرات: محققین کے نزدیک یہ نکتے کچھ بھی قدرنہیں رکھتے اورحقیقت میں یہ نکتے کوئی چیز نہیں شریعت نے نکات کا اہتمام نہیں کیا ہے، دیکھو شعراء وغیرہ کی کتابیں قافیہ وغیرہ سے پرہیں اور قرآن مجیدمیں اس کاکچھ اہتمام نہیں کیاگیا۔ حالانکہ تمام دنیا بھر کی کتابوں سے قرآن پاک افصح وابلغ (۱)]زیادہ فصیح اورزیادہ بلیغ ہیں [ ہے۔

اگر نکتے قابل قدر ہوتے تو خداتعالیٰ قادرتھا کہ تمام قرآن کو مسجع ومقفی (۲)]قافیہ ردیف کی رعایت کی جاتی ہے[کردیتا مگرباوجود اس کامل قدرت کے پھرایسا کیا۔دیکھو سورۃ ق مکی ہے اورمکی سورتوں میں بہ نسبت مدنی سورتوں کے بوجہ اس کے کہ مکہ میں اہل زبان زیادہ تھے،صناعتیں زیادہ ہیں مگرتکلفات اورزائد نکات سے وہ بھی بری ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ق والقرآن المجید (۳)]قسم ہے قرآن بزرگی والے کی سورۃ ق آیت ۱[ یہاں تو قافیہ ”دال“ ہے۔ آگے فرماتے ہیں (بل عجبواان جأء ھم منذر منھم فقال الکفرون ھذاشئی عجیب) (۴)] انہوں نے تعجب کیاکہ انہیں میں کاایک رسول ڈرانے والا ان کی طرف بھیجاگیا اورکافروں نے کہیا یہ عجیب بات ہے سورۃ ق آیت ۲[ یہاں قافیہ ”با“ ہے۔علی ہذا القیاس۔ آگے دیکھئے کہ کچھ قافیہ وغیرہ کا اہتمام نہیں۔

پس بتلادیا کہ قافیہ وغیرہ کی ضرورت نہیں بلکہ حقائق ومعانی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قرآن روحانی مطب ہے اورطب کی کتاب میں زیادہ اہتمام اس کا ہوناچاہیے کہ اس کے نسخے شفا میں کامل ہوں لفظی نکات کا اس میں اہتمام نہیں ہواکرتا۔ دیکھئے اگرحکیم عبدالمجید خان صاحب کے نسخہ میں گل بنفشہ اورکاسنی (۱)]دویونانی دواؤں کے نام ہیں [ ہوتوکوئی یہ نہیں کہے گا کہ ان دونوں دواؤں میں قافیہ نہیں اس لئے یہ نسخہ ٹھیک نہیں۔بلکہ یہی کہاجائے گا کہ یہ نکتہ نہ مقصود ہے نہ قابل لحاظ ہے بلکہ مقصود شفاہے۔

چونکہ یہ نسخہ اس کے مناسب ہے اسلئے کامل ہے۔علی ہذاالقیاس۔ احکام شرعیہ میں نکات مقصود نہیں بلکہ معرفت الہی مقصود ہے پس علماء محققین کی نظر اسی مقصود پر ہے یہ نکات ان کی نظر میں کچھ بھی نہیں ظاہر ہے کہ جس کی نظر اشرفی پر ہو وہ پیسہ کوڑی (۲)]اشرفی سونے کی ہوتی ہے اورایک روپے میں سولہ آنے اورایک آنہ میں چارپیسے، ایک پیسے میں دودھیلے اورایک دھیلے میں دوچھدام، اورایک چھدام میں چھ کوڑی ہوتی تھی، گویا اشرفی سب سے بڑے سکہ کو اورکوڑی سب سے چھوٹے سکے کوکہتے ہیں [ کو کیا نظرمیں لاوے گا۔ وہ معرفت الہی ایسی نعمت ہے کہ ان کا ہی دل جانتا ہے اس کے مزہ کے مقابلہ میں تمام دنیا کی نعمتیں ہیچ ہیں وہ معرفت سے ہروقت مزے لیتے ہیں اورمنہ سے کچھ نہیں کہتے گوسب کچھ جانتے ہیں مگر۔

##########################

مصلحت نیست کہ ازپردہ بروں افتدراز
ورنہ درمجلس رنداں خبرے نیست کہ نیست (۳)

##########################

] (۳)اس بات میں مصلحت نہیں ہے کہ میں رازسے پردہ اٹھاؤں ورنہ رندوں کی مجلس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جس کی ان کو خبر نہ ہو[

احکام الہی میں مصالح کی حقیقت

جن فضلاء کو یہ معرفت حاصل نہیں اورجن کے آئینہ نظر میں یہ مقصود منکشف نہیں ہوا۔ وہ ایسے نکات کے درپے ہوتے ہیں چنانچہ کوئی نکتہ وحدۃ الوجود(۴)]وحدت الوجود کے لفظی معنی ہیں وجودکا ایک ہوناسوایک ہونے کے معنی ہیں کہ دوسراہے سہی مگرایسا ہی ہے جیسانہیں۔ اس کو مبالغہ وحدۃ الوجود کہاجاتا ہے۔جیسے بادشاہ کی موجودگی میں تحصیلداراپنے ہونے کی نفی کرے کہ صاحب سب کچھ آپ ہی ہیں۔اس لئے ہر صفت میں دومرتبے ہوتے ہیں ایک کامل ایک ناقص۔اوریہ قاعدہ ہیکہ کامل کے سامنے ناقص ہمیشہ کالعدم سمجھا جاتا ہے پس اللہ رب العزت کے سامنے سب کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اسی کو وحدۃ الوجود کہتے ہیں۔ یہ تصوف کی ایک اصطلاح ہے اوراسی کے ہم معنی وحدۃ الشہود ہے کہ سالک کو ایک ہی کا مشاہدہ ہوتا ہے۔اورسب کالعدم معلوم ہوتے ہیں۔ اس کو وحدۃ الشہود کہتے ہیں اس سے زائد تفصیل کی گنجائش نہیں تفصیل کے لئے حضرت تھانوی کی دوکتابیں مطالعہ

کیجئے ظہورالعدم بنورالقدم۔ شریعت وطریقت۔[  میں غرق ہے کوئی وحدۃ الشہود میں۔ لیکن انہیں نکتہ دانوں میں اگر کسی کویہ معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو یہ نکات سب نظر سے گرجاتے ہیں۔ پھر ان کا نام تک زبان پر نہیں آتا اور معرفت الہی سے سکون ہوجاتا ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے کیس شخص کے متعلق جو کہ صفائی کاداروغہ (۱) ]سینٹری انسپکٹر[ ہے گلیوں وغیرہ کی تحقیق ہو، اگر وہ وزیراعظم ہوجاوے تواب ان قصوں کی اس کوضرورت نہیں رہی بلکہ اب اس کو خدمت ورضائے شاہی ہروقت مدنظر رہے گی۔ پس جماعت وغیرہ میں جو یہ نکتے اتفاق کے بیان کئے جاتے ہیں میں اس کی نفی نہیں کرتا ہوں بلکہ مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ حکم شرعی اس مصلحت اتفاق پر مبنی نہیں بلکہ حکم شرعی پر خود یہ نکات مبنی اوراس کے تابع ہیں۔ حکم شرعی کی وضع توایسی بناپر ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں ہے ہم کو تواس قدر علم کافی ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچایا اوربس ہمارامشرب یہ ہونا چاہیے۔

##########################

زباں تازہ کردن باقرار تو

نینگیختن علت از کارتو (۲)

##########################

](۱) میں تو تیرانام لے کر اپنی زبان کوتروتازہ کرتا ہوں۔مجھے تیرے کاموں سے کوئی غرض نہیں [

ہمارے لئے بڑی بنا اس حکم کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اس کو مقررکیا ہے۔ البتہ جس حکم کی حکمت خوداللہ تعالیٰ نے بتلادی ہے، اس کو بے تکلف بیان کیجئے۔ باقی جس حکم کی مصلحت خودانھوں نے نہیں بتائی، اس میں اپنی رائے کو دخل دینا اوراپنی مزعومہ حکمت پرحکم مبنی کرنا بڑی حماقت اورسراسرنادانی ہے۔مثلا پھول پتی اورگلکاری پر تعمیر مبنی نہیں، بلکہ تعمیر پر یہ سب گلکاریاں مبنی ہیں۔ ہماری مزعومہ (۳)]خودساختہ[ مصلحتیں بالکل پھولوں کی مثل ہیں اورمقصود اعظم عمارت ہے نہ کہ پھول پتی۔

پس سمجھ لو کہ نمازوجماعت اس وجہ سے مقررنہیں ہوئی تاکہ اتفاق اس پر مرتب ہو بلکہ اتفاق سے حکم شرعی پریہ مصلحت اتفاق بھی تابع ہوکرمبنی (۱) ]اس حکم شرعی یعنی جماعت کااہتمام کرنے سے یہ اتفاق کی مصلحت بھی حاصل ہوجائے گی[ ہوگی۔

میں نے ایک کتاب لکھی ہے المصالح العقلیہ فی الاحکام النقلیہ (۲)]یہ کتاب اس نام سے شائع ہوئی ہے ”احکام اسلام عقل کی نظر میں“ (یہ کتاب کتب خانہ جمیلی ۱۹۲ کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور سے مل سکتی ہے)[ جس میں احکام شرعیہ کی کچھ حکمتیں بیان کی گئی ہیں مگر اس کتاب میں جو چیززیادہ پسندیدہ اورکارآمد ہے وہ اس کا خطبہ ہے جس میں چند مفید قواعد اورفوائد ہیں۔ اس میں یہ فائدہ بھی مذکور ہے کہ یہ نکات مذکورہ حکم شرعی کے تابع ہیں ان پر حکم شرعی (۳)]شرعی حکم ان مصلحتوں پر موقوف نہیں کہ اگریہ مصلحت حاصل نہ ہو تواس حکم پر عمل نہ کیاجائے بلکہ مصلحت حاصل ہو [نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ کے لئے بھی عیدگاہ میں حاضر ہونے کاحکم فرمایا تھا تواس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی اہتمام کے ساتھ قولاً بھی عیدگاہ میں جانے کا اہتمام کیا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عملی اہتمام یہ ہے کہ آپؐ ہمیشہ عیدگاہ میں نمازپڑھنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے صرف ایک بار بارش کی شدت سے تشریف نہیں لے گئے۔ لیکن یہ آپؐ کاتشریف نہ لے جانا اپنے ذاتی آرام وراحت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ محض امت پرشفقت کی وجہ سے تھا۔ بعض اعمال مستحبہ گاہ آپ نے اس لئے چھوڑدیے ہیں کہ کہیں امت دقت میں نہ پڑجائے۔

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات