کیا شیعہ سُنّی اتحاد ازروئے شریعت جائز ہے؟

کتاب کا نام: شیعہ سُنّی اختلافات حقائق کے آئینہ میں

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

کتاب کا سرورق

شیعہ سُنّی اختلافات
حقائق کے آئینہ میں

ازافادات
قائد اھل سُنّت مولانا مُحمّد منظور نعماؔنی مدظلّہ‘

کیا شیعہ سُنّی اتحاد ازروئے شریعت جائز ہے؟

”شیعہ سُنّی بھائی بھائی“
ایک تحقیقی جائزہ

شیعیوں کے کفریہ عقائد اور ان کی تکفیر کے بارے میں چند شبہات کا ازالہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیعیوں کے کفریہ عقائد اور ان کی تکفیر کے بارے میں چند شبہات کا ازالہ

یہ بات عام طورپر کہی جاتی ہے کہ چودہ سوسال سے شیعہ اسلامی فرقوں میں شمار ہوتے آئے ہیں۔اب انہیں کیونکر کافر قراردیاجاسکتا ہے؟

اس اہم مسئلہ کی وضاحت مولانا منظور نعمانی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب ”ایرانی انقلاب‘ امام خمینی اور شیعیت“ اور بعد میں اپنے مضمون (ماہنامہ ”الفرقان“ لکھنؤ اگست ۵۸۹۱ء) میں نہایت تفصیل کے ساتھ کی ہے۔یہاں اس کا خلاصہ کچھ ترمیم واضافہ کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تاکہ قارئین کرام شیعیت کی حقیقت اور شیعی ذہنیت سے آگاہ ہوکران کے دجل وفریب سے بچ سکیں۔

دواہم نکات:۔(۱) بانی ایرانی انقلاب کے تقدس وعظمت کا پروپیگنڈہ اور اس پروپیگنڈے کی طاقت وتاثر: موجودہ ایرانی حکومت اپنے سفارت خانوں اور ایجنٹوں کے ذریعے خمینی کی شخصیت اور اس کے برپاکردہ انقلاب کی ”اسلامیت“ کوثابت کرنے کے لئے اور اسی سلسلہ میں ”وحدت اسلامی“ اور ”شیعہ سنی اتحاد“ کی دعوت کو عام کرنے کے لئے ملک کی دولت پانی کی طرح بہارہی ہے۔ اس مقصد کے لئے کانفرنسوں پر کانفرنسیں بلائی جارہی ہیں اور مختلف زبانوں میں کتابوں‘ کتابچوں‘ پمفلٹوں اور رسائل اور رسائل واخبارات کا ایک سیلاب جاری ہے اور عالم اسلام کے لئے بے ضمیر دانشوروں‘ صحافیوں اور علماء ومشائخ کو خریدنے کے لیے گویا حکومتی خزانے کا منہ کھول دیاگیا ہے۔ حالانکہ شیعہ مذہب کا ماخذ نہ تو قرآن ہے نہ حدیث۔ نہ اس مذہب کا اللہ سے کوئی تعلق ہے نہ رسولؐ سے واسطہ!

(۲)شیعہ مذہب سے علماء اہل سنت کی ناواقفی اور ناواقفیت کی وجہ سے مذہب شیعہ کی خاص تعلیم کتمان اور تقیہ: کتمان کے معنی چھپانے اور ظاہر نہ کرنے کے ہیں اور تقیہ کا مطلب ہے اپنے قول یا عمل سے اصل حقیقت اور واقعہ کے خلاف ظاہر کرنا اور اس طرح دوسرے کو دھوکے میں مبتلاکرنا۔

مذہب شیعہ کی اس تعلیم کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ جب تک پریس کے ذریعے عربی فارسی کی دینی کتابوں کی طباعت کا سلسلہ شروع نہیں ہواتھا اور ہاتھ ہی سے کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ علماء اہل سنت عام طور سے مذہب شیعہ سے ناواقف رہے کیونکہ وہ کتابیں صرف خاص خاص شیعہ علماء ہی کے پاس ہوتی تھیں اور وہ کسی غیر شیعہ کو ان کی ہوابھی نہیں لگنے دیتے تھے۔ بعد میں جب دینی مذہبی کتابیں پریس کے ذریعے چھپنے لگیں اور مذہب شیعہ کی یہ کتابیں بھی چھپ گئیں۔ تب بھی ہمارے علماء کرام نے ان کے مطالعہ کی طرف توجہ نہیں کی۔ سوائے گنتی کے چندحضرات کے‘ اورجب علماء کا یہ حال رہا تو ہمارے عوام کا کیاذکر اور کسی سے کیا شکایت!

اس عام ناواقفیت کے سبب عوام الناس کا خمینی اور ایرانی انقلاب سے متاثر ہونا ایک فطری بات ہے کیونکہ وہ شیعیت کے بنیادی خدوخال سے آگاہ نہ تھے۔

اسلام میں شیعیت کا آغاز

اسلام میں شیعیت کا آغاز

شیعیت، اسلام کے اندر سے تخریب کاری اور مسلمانوں میں اختلاف وانتشار پیداکرنے کے لئے یہودیت ومجوسیت کی مشترکہ کاوش سے اس وقت وجودمیں آئی تھی جب یہ دونوں قوتیں طاقت کے بل بوتے پر اسلام کی برق رفتاری سے پھیلتی ہوئی دعوت کو روکنے میں ناکام رہی تھیں اور اسی لیے شیعیت کا تانابانا پولوس کی تصنیف کردہ مسیحیت کے تانے بانے سے بہت کچھ ملتا ہے جس نے عیسائی بن کر اندرسے عیسائیت کی تحریف اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لائے ہوئے دین حق کی تخریب کی کامیاب کوشش کی تھی۔ جس کا نتیجہ موجودہ عیسائی مذہب ہے۔

شیعہ مذہب کا اساسی وبنیادی عقیدہ امامت ہے۔ منصب امامت کی غرض وغایت‘ ائمہ (بارہ اماموں) کا درجہ اور ان کے اختیارات کا طول وعرض نیچے پیش کیا جارہا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ منصب امامت الوہیت ونبوت کا ایک مرکب ہے اور اس منصب کے حامل ائمہ خداوندی صفات واختیارات اور مقام نبوت دونوں کے جامع ہیں۔ یعنی عقیدہ امامت کی زدبراہ راست عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت پر پڑتی ہے۔ پھر شیعہ مذہب کے چند اور عقائد ومسائل ایسے ہیں جیسے عقیدہ بداء (خداسے بھول چوک کاہوجانا) عقیدہ رجعت وغیرہ جو فی الحقیقت عقیدہ امامت ہی کے لازمی نتائج میں سے ہیں جن میں سرفہرست قرآن میں تحریف کا عقیدہ اور تمام صحابہ کرام‘ ازواج مطہرات اور بالخصوص خلفائے ثلاثہ کے بارے میں سب وشتم ہی نہیں ان کو منافق‘ کافر‘ زندیق اور مرتد قراردینے والی وہ خون کھولادینے والی شیعی روایات ہیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا۔ ان کے علاوہ بعض شرمناک مسائل اور متعہ کا بیان ہے۔

شیعہ مذہب میں عقیدہ امامیت کا درجہ اور اس کی عظمت واہمیت

شیعہ مذہب میں عقیدہ امامیت کا درجہ اور اس کی عظمت واہمیت

(خمینی کی تحریرات کے مطابق)

٭کائنات کے ذرہ ذرہ پرائمہ کی تکوینی حکومت ہے۔ (الکومتہ الاسلامیہ ص۲۵) ٭ائمہ کا مقام ملائکہ مقربین اور انبیاء ومرسلین سے بالاتر ہے۔ ص۲۵٭ ائمہ سہو اور غفلت سے محفوظ اور منزہ ہیں۔ص۱۹٭ ائمہ کی تعلیمات قرآنی احکام وتعلیمات ہی کی طرح دائمی اور واجب الاتباع ہیں۔ص۳۱۱٭ توحید ورسالت کی شہادت کے ساتھ بارہ اماموں کی امامت کی شہادت دینا بھی جزو ایمان ہے (تحریر الوسیلہ ج۵۶)

یہاں یہ واضح رہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی نے شیعیت کی صرف بنیاد ڈالی اور تخم ریزی کی تھی، اس کے بعد شیعیوں کے جو مختلف فرقے اور ان کے مذاہب وجود میں آئے وہ عبداللہ سبا کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فیض یافتہ لوگوں کی تصنیف ہیں۔ اثنا عشری (بارہ اماموں) مذہب بھی ایسے ہی کچھ لوگوں کی تصنیف ہے۔

مذہب شیعہ کے ترجمان اعظم علامہ باقر مجلسی کا قول ہے ”امامت بالاتر از مرتبہ پیغمبری“ (حیات القلوب ج۲ص) یعنی امامت کا درجہ پیغمبر سے بالاترہے۔ اس لئے عقیدہ امامت کو تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ دو اوردوچار کی طرح یہ نکلتا ہے کہ نبوت ختم نہیں ہوئی بلکہ ترقی کے ساتھ امامت کے عنوان سے جاری ہے۔

مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات اورائمہ معصومین کے ارشادات

مسئلہ امامت کے متعلق کتب شیعہ کی روایات اورائمہ معصومین کے ارشادات

٭ مخلوق پر اللہ کی حجت امام کے بغیر قائم نہیں ہوتی (اصول کافی ص۳۰۱)٭ امام کے بغیر یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی(اصول کافی ص۴۰۱)٭اماموں کوپہچاننا اور مانناشرط ایمان ہے(اصول کافی ص۵۰۱)٭امامت اور اماموں پر ایمان لانے کا اور اس کی تبلیغ کا حکم سب رسولوں پر جس منزل من اللہ نورپر ایمان لانے کا حکم قرآن میں دیاگیا۔ اس سے مراد ائمہ ہیں (اصول کافی ص۷۱۱)٭اماموں کی اطاعت فرض ہے(اصول کافی۹۰۱)٭ ائمہ کی اطاعت رسولوں ہی کی طرح فرض ہے (اصول کافی۰۱۱)٭ ائمہ کو اختیار حاصل ہے جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام قراردیں (اصول کافی۸۷۲)٭ ائمہ انبیاء علیہ السلام کی طرح معصوم ہوتے ہیں (اصول کافی ص۱۲۱‘۲۲۱)٭  ائمہ معصومین کو ”امام“ ماننے والے (شیعہ)  اگر ظالم اور فاسق وفاجر بھی ہیں تو جنتی ہیں اور ان کے علاوہ مسلمان اگر متقی پرہیزگار بھی ہیں تو دوزخی ہیں (اصول کافی ص۸۳۲)٭ ائمہ کادرجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور ساری مخلوق اور دوسرے تمام انبیاء علیہ السلام سے بھی برتر اور بالاترہے۔(اصول کافی کتاب الحجہ)٭امیرالمومنین (حضرت علی) کاارشاد ہے کہ تمام فرشتوں اور تمام پیغمبروں نے میرے لئے اس طرح اقرارکیا جس طرح محمدؐ کے لئے کیا تھا۔ اور میں ہی لوگوں کو جنت اور دوزخ میں بھیجنے والا ہوں۔(اصول کافی ص۷۱۱)٭ ائمہ کو ماکان ومایکون کا علم ہوتا ہے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہوتی۔(اصول کافی ص۰۶۱)٭ ائمہ قیامت کے دن اپنے زمانے کے لوگوں کے بارے میں شہادت  دیں گے۔(اصول کافی ص۳۱۱)٭ انبیاء سابقین پرنازل ہونے والی تمام کتابیں تورات‘ انجیل‘ زبور وغیرہ ائمہ کے پاس ہوتی ہیں اور وہ ان کو اصل زبانوں میں پڑھتے ہیں۔(اصول کافی ص۷۳۱۔۷۴۱)٭ ائمہ کے لئے کلامِ ربانی کے علاوہ علم کے دوسرے عجیب وغریب ذرائع ہیں مثلاً ”مصحف فاطمہ“ جو (بقول امام جعفر صادق) تمہارے اس قرآن سے تین گناہ ہے اور اللہ کی قسم اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے۔“(اصول کافی ص۶۴۱)٭ ائمہ پر بھی

 بندوں کے دن رات کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔(اصول کافی ص۴۳۱)٭ ائمہ کے پاس فرشتوں کی آمدورفت رہتی ہے۔(اصول کافی ص۵۲۱)٭ ہرشب جمعہ میں ائمہ کو معراج ہوتی ہے وہ عرش تک پہنچائے جاتے ہیں اور وہاں ان کوبے شمار نئے علوم عطاء ہوتے ہیں۔(اصول کافی ص۵۵۱)٭ ائمہ کو وہ سب علوم حاصل ہوتے ہیں۔جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں اور نبیوں‘ رسولوں کو عطاہوئے ہیں۔ اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے علوم بھی جونبیوں اور فرشتوں کو بھی عطا نہیں ہوئے۔(اصول کافی ص۶۵۱)٭ ائمہ پرہرسال کی شب قدرمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کتاب نازل ہوتی ہے جس کوفرشتے اور الروح لے کر آتے ہیں۔(اصول کافی ص۳۵۱)٭ ائمہ اپنی موت کا وقت بھی جانتے ہیں اور ان کی موت ان کے اختیارمیں ہوتی ہے۔(اصول کافی ص۸۵۱)٭ ائمہ کے پاس انبیاء سابقین کے معجزات بھی تھے۔(اصول کافی ص۲۴۱)٭ ائمہ دنیا اور آخرت کے مالک ہیں وہ جس کو چاہیں دے دیں اور بخش دیں (اصول کافی ص۹۵۲)٭

ائمہ اور امامت کے بارے میں شیعیوں کی مستند ترین کتاب ”الجامع الکافی“ سے جوکچھ اوپر نقل کیاگیا ہے وہ یہ جاننے اور سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ شیعہ مذہب کی روسے ائمہ (بارہ اماموں) کو انبیاء علیہم السلام کے تمام خصائص وکمالات اورمعجزات حاصل تھے اور ان کا درجہ تمام انبیاء سابقین سے بھی برتروبالاہے اور خاتم الانبیاء سیدنامحمد ﷺ کے بالکل برابر ہے۔۔۔ اور اس سے بھی آگے یہ کہ وہ صفات الوہیت کے بھی حامل ہیں۔ان کی شان یہ ہے کہ وہ عالم ماکان ومایکون ہیں‘ کوئی چیز ان سے مخفی اور ان کے لئے غیب نہیں اور یہ کہ ان کے بارے میں غفلت اور سہو ونسیان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور کائنات کے ذرہ ذرہ پران کی تکوینی حکومت ہے یعنی ان کو کن فیکونی اقتدارحاصل ہے اور وہ دنیا وآخرت کے مالک ہیں جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں محروم رکھیں گویا وہ خداوندی صفات واختیارات کے حامل ہیں!

اب بھی اگر علمائے اہل سنت شیعوں کے ان کفریہ عقائد کو جاننے کے بعد بھی ان کی تکفیر نہ کریں تو وہ ایک بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوں گے۔

کتمان اور تقیہ

کتمان اور تقیہ

مذہب شیعہ کی اصولی تعلیمات میں کتمان اور تقیہ بھی ہیں یہ دونوں بھی عقیدہ امامت کے لوازم ونتائج میں سے ہیں۔ اس لئے یہ شیعہ مذہب کی خصوصیات میں سے ہیں۔ عبداللہ بن سبا کے فیص یافتہ کوفہ کے لوگوں نے امام باقر اور امام جعفر صادق کے زمانہ میں اثنا عشری مذہب کی جب بنیادڈالی تو انہوں نے اس ناقابل تردید حقیقت اور شہادت کی زد سے عقیدہ امامت اور شیعہ مذہب کو بچانے کے لیے یہ دو عقیدے ایجادکئے۔

کتمان اور تقیہ کے بارے میں ائمہ معصومین کا ارشاد اور عمل

کتمان اور تقیہ کے بارے میں ائمہ معصومین کا ارشاد اور عمل

(۱) امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اے سلمان‘ تم ایسے دین پرہو کہ جوشخص اس کوچھپائے گا اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عزت عطا ہوگی اور جواسکو ظاہر اور شائع کرے گا اللہ اسکو ذلیل ورسواکرے گا۔ (اصول کافی ۵۸۴)۔

ابوعمیر اعجمی راوی ہیں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا۔ ”اے ابو عمیر! دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔“ (اصول کافی ۲۸۴)

خلاصہ یہ کہ تقیہ کی وجہ سے شیعوں کی بات پر اعتماد ناممکن ہے اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ شیعہ کی توبہ بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ کیا پتہ اپنے اصول تقیہ کی روسے دھوکہ بازی سے کام لے رہاہو!

قرآن مجید میں تحریف اور کمی بیشی

قرآن مجید میں تحریف اور کمی بیشی

یہ عقیدہ بھی اسی عقیدہ امامت کے لازمی نتائج میں سے ہے جومذہب شیعہ کی اساس وبنیاد ہے۔۔۔ ہمارے زمانہ کے عام شیعہ علماء اس سے انکارکرتے ہیں کہ وہ قرآن پاک میں تحریف اور کمی بیشی کے قائل ہیں۔ مگر یہ انکاردروغ گوئی پر مبنی ہے کیونکہ ائمہ معصومین کی ان بے شمارروایات کی موجودگی میں جو مذہب

شیعہ کی مستند ترین کتابوں میں روایت کی گئی ہیں اور جوقطعیت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہیں کہ قرآن پاک میں تحریف اور کمی بیشی ہوئی ہے لہذاکسی شیعہ عالم کے لئے انکارکی گنجائش باقی نہیں رہتی ہاں تقیہ کی بنیاد پرانکار کیا جاسکتا ہے۔اور تقیہ ان لوگوں کا (شیعوں کا) شعاراور اوڑھنابچھونا ہے۔

(۱)امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ قرآن جوجبرئیل علیہ السلام محمد ﷺ پر لے کرنازل ہوئے تھے اس میں سترہ ہزارآیتیں تھیں (اصول کافی ۱۷۶)

تو اس روایت کے مطابق قرآن کا تقریباًدوتہائی حصہ غائب کردیاگیا کیونکہ موجودہ قرآن میں ۶۶۶۶ آیات ہیں۔اور باقی ماندہ ایک تہائی قرآن میں (شیعی روایات کے مطابق) تورات وانجیل ہی کی طرح تحریف ہوئی ہے۔ (فضل الخظاب ص۰۷)

اس موقع پریہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک بڑے شیعہ عالم اور مجتہد علامہ نوری طبرسی نے قرآن کے محرف ہونے کے ثبوت میں مندرجہ بالا ضخیم کتاب (فضل الخظاب) تصنیف کی جس میں عقلی اور نقلی دلائل سے یہ ثابت کرنے کی بسیار کوشش کی ہے کہ موجودہ قرآن محرف ہے اور لکھا ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین کی دوہزار سے زیادہ روایتیں ہیں جو یہ بتاتیں ہیں کہ موجودہ قرآن میں تحریف ہوئی اور ہرطرح کی تحریف ہوئی اور ہمارے عام علمائے متقدمین کا یہی عقیدہ رہاہے۔

(۲)اصلی قرآن وہ تھا جو حضرت علی نے مرتب فرمایا تھا۔ وہ امام غائب کے پاس ہے۔ اور موجودہ قرآن سے مختلف ہے۔ (اصول کافی ۹۳۱)

(۳) قرآن میں ”پنجتن پاک“ اور تمام ائمہ کے نام تھے وہ نکال دئیے گئے اور تحریف کی گئی۔(اصول کافی ۳۲۶)

واقعہ یہ ہے کہ ”الجامع الکافی“ نے شیعوں کے لیے عقیدہ تحریف قرآن سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ متقدمین علماء شیعہ سب ہی تحریف قرآن کے قائل اور مدعی ہیں۔ صرف چار وہ ہیں جنہوں نے تحریف سے انکارکیا ہے۔ اس لئے قیاس یہی ہے کہ ان چارحضرات نے تحریف سے انکارتقیہ ہی کی بنیاد پر کیا ہو۔ واللہ اعلم۔

جیسا کہ پہلے بتایاجاچکا ہے کہ قرآن میں تحریف اور کمی بیشی کا عقیدہ مذہب شیعہ کی اساس وبنیاد اور عقیدہ امامت کے لوازم میں سے ہے۔۔۔اس کے علاوہ اس عقیدہ کی تصنیف کا ایک خاص محرک اور مقصد یہ بھی ہے کہ حضرات شیعین (ابوبکرؓ وعمرؓ) وذوالنورین (عثمانؓ) کو غصب خلافت اور غصب فدک وغیرہ جرائم کے علاوہ کتاب اللہ کی تحریف کابھی مجرم ثابت کیا جائے جویقینا شدید ترین جرم اور بدترین کفر ہے۔

معتبر شیعہ کتب کی روسے (معاذاللہ) عام صحابہ کرام خاص کر خلفائے ثلاثہ کافرومرتد ورسول کے غدار‘ جہنمی اور لعنتی ہیں:

معتبر شیعہ کتب کی روسے (معاذاللہ) عام صحابہ کرام خاص کر خلفائے ثلاثہ کافرومرتد ورسول کے غدار‘ جہنمی اور لعنتی ہیں:

(۱) حضرت علی کی ولایت وامامت نہ ماننے کی وجہ سے خلفائے ثلاثہ اور عام صحابہ کرام قطعی کافرومرتد ہوگئے (معاذ اللہ)۔ (اصول کافی ۵۷۳)

(۲) ایمان کے معنی امیر المومنین علی‘ کفر کا مطلب ابوبکر‘ فسق سے مراد عمر اور عصیان سے عثمان (معاذاللہ) (اصول کافی ۹۶۲)

(۳) امیرالمومنین (علیؓ) کی امامت نہ ماننے والے جہنمی ہیں (اصول کافی ص۰۷۲)

(۴) جس طرح نبی اللہ تعالیٰ کے طرف سے نامزد ہوتے ہیں اسی طرح امیر المومنین (علیؓ) سے لے کر بارہ امام قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نامزد ہیں۔ (اصول کافی ص۰۷۱)

(۵) ہر امام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سربمہر لفافہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا تھا جس میں امام کے لئے خاص ہدایات تھیں۔ وہ ہر امام کو سربمہر ہی ملتا رہا۔ (اصول کافی ص۱۷۱‘۲۷۱)

(۶) حضرت علی نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک دن ان کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرادی۔ آپؐ نے ابوبکر کو علی اور ان کی اولاد میں سے گیارہ اماموں پر ایمان لانے کی اور خلافت کے بارے میں جوکچھ کہا اس سے توبہ کرنے کی ہدایت فرمائی (اصول کافی ۸۴۳)

(۷) ابوبکر کی بیعت سب سے پہلے ابلیس نے کی تھی (فروع کافی ۰۷۳ کتاب الروضہ ص ۹۵۱۔۰۶۱)

(۸) تین کے سواتمام صحابہ مرتد ہوگئے (فروع کافی‘ کتاب الروضہ ص۵۱۱)

عقیدہ رجعت

عقیدہ رجعت

شیعہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں غلطی واقع ہوسکتی ہے بلکہ ہوتی رہتی ہے وہ اسے بداکہتے ہیں اور عقیدہ بدا سے بڑھ کران کے مذہب میں اور کوئی عبادت نہیں (اصول کافی ص۴۸) امام رضا نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو حرمت شراب اور بداماننے کا حکم دے کر بھیجاہے (اصول کافی ۶۸) سبحانک ھنا بھتان عظیم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر غلطی اور بھول چوک سے پاک ہے۔

عقیدہ رجعت

عقیدہ رجعت

رجعت کا عقیدہ بھی شیعوں کے مخصوص عقائد میں سے ہے اور یہ عقیدہ بھی عقیدہ امامت ہی کا شاخسانہ ہے۔

جمہور امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔ اور یہی قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات نے بتلایا ہے کہ مرنے کے بعد تمام بنی آدم‘ مومن وکافر اور صالح وفاسق وفاجر قیامت ہی میں زندہ کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جزاوسزا اور ثواب وعذاب کافیصلہ ہو گا۔ لیکن شیعوں کے نزدیک قیامت سے پہلے امام غائب یعنی امام مہدی کے ظہور پر بھی ایک قیامت قائم ہوگی۔اور اس میں سزا اور عذاب دینے والے خودامام مہدی ہوں گے۔ اس طرح وہ خداوندی صفت ”عزیزذو۱نتقام“ کے بھی حامل ہوں گے۔

شیعوں کے بارھویں امام مہدی جب ظاہر ہوں گے تو

شیعوں کے بارھویں امام مہدی جب ظاہر ہوں گے تو

(۱) رسول خداامام مہدی کی بیعت کریں گے۔ (حق الیقین ص۹۳۱ ازعلامہ باقرمجلسی)

(۲) حضرت عائشہ کو زندہ کرکے سزادیں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے۔ (حق الیقین ص۵۴۱)

(۳) حضرت ابوبکر وعمر کو قبروں سے نکالیں گے اور زندہ کرکے ہزاروں بارسولی پر چڑھائیں گے۔ (حق الیقین ص۵۴۱)

(۴)کافروں سے پہلے سینوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کرکے نیست ونابود کردیں گے۔(حق الیقین ج۲ص۷۲۵)

”حق الیقین“ فارسی زبان میں علامہ باقر مجلسی کی خاصی ضخیم کتاب ہے۔اور خمینی نے اپنی کتاب ”کشف الاسرار“ ص ۱۲۱ پر مجلسی کی عام فارسی تصانیف کی تعریف کرتے ہوئے ان کے مطالعہ کا مشورہ دیا ہے۔ اسی ”حق الیقین“ میں ہے کہ کربلا کعبہ سے افضل اور برتر ہے (ص ۵۴۱) علامہ باقر مجلسی نے اپنی ایک دوسری کتاب ”حیات القوب“ ص۰۷۸ میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بیان میں لکھا ہے۔ کہ عائشہ اور حفصہ نے آنحضرت کوزہر دے کر شہیدکیا تھا۔“ (معاذاللہ) اسی طرح ان کی روایات کے مطابق فاروق اعظم کا یوم شہادت (شیعوں کے ہاں) سب سے بڑی عید ہے (زادالمعادص۳۳۴ تا۶۲۴ از علامہ باقرمجلسی)

متعہ کیا ہے؟متعہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مرد کسی بھی بے شوہر والی غیر محرم عورت سے‘ وقت کے تعین کے ساتھ مقررہ اجرت پر متعہ کے عنوان سے معاملہ طے کرے تو اس وقت کے اندراندر یہ دونوں مباشرت اور ہم بستری کرسکتے ہیں۔اس میں شاہد ’گواہ‘ قاضی‘ وکیل کی اور اعلان کی‘ بلکہ کسی تیسرے آدمی کے باخبر ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ چوری چھپے بھی یہ سب کچھ ہوسکتا ہے (اورمعلوم ہواہے کہ زیادہ تر ایساہی ہوتا ہے۔ واللہ اعلم)

خمینی نے اپنی فقہ کی کتاب ”تحریر الوسیلہ“ میں لکھا ہے کہ متعہ جسم فروشی کا پیشہ کرنے والی بازاری عورت سے بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ صرف گھنٹہ‘ دوگھنٹے کے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ شیعوں کے ہاں متعہ صرف جائز اور حلال ہی نہیں ہے بلکہ نماز‘ روزہ‘ اور حج سے بھی افضل عباد ت ہے۔ (تفسیر منج الصادقین ج۱ص۶۵۲)

علامہ باقرمجلسی نے متعہ کے موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں متعہ کی فضیلت کے بارے میں ایک یہ روایت بھی نقل کی ہے۔ ”جس نے زن مومنہ سے متعہ کیا۔ گویا اس نے ستر مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کی (عجالہ حسنہ ص۶۱)فاعتبرو یااولی الابصارہ انتباہ:۔کیا مذکورہ بالا عقائد کے کفر ہونے میں کسی کو شک وشبہ کی گنجائش ہے؟ اب بھی جو عاماً شیعوں کی تکفیر میں توقف کریں وہ عنداللہ مجرم ہوں گے۔ وماعلینا الالبلاغ۔

نوٹ:اس تحریری کاوش کا مقصد اہل سنت میں سے ان لوگوں کو خاص کر ان اہل علم اور دانشور حضرات کو جو شیعیت سے ناواقف ہیں۔ شیعی عقائدونظریات اور ان کی بنیاد ان کے”ائمہ معصومین“ کی روایات سے واقف کرانا ہے تاکہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں اور کفر کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

٭شیعہ کو مسلمان کہنا خوداسلام کی نفی ہے٭ شیعہ سنی کااصولی تقابل ملاحظہ ہو!

٭شیعہ کو مسلمان کہنا خوداسلام کی نفی ہے٭

شیعہ سنی کااصولی تقابل ملاحظہ ہو!

(۱)مسلمانوں کا کلمہ: لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ۔۔۔ اور۔۔۔۔شیعوں کا کلمہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ خمینی حجتہ اللہ (وحدت اسلامی سالنامہ ۴۸۹۱ء)

گویا مسلمانوں کا کلمہ جدا۔۔۔۔اور۔۔۔۔شیعوں کا کلمہ جدا (شیعوں کا کلمہ دین اسلام کی نفی کرتا ہے)

(۲)مسلمانوں کی اذان جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کی اذان جدا (شیعوں کی اذان خلفائے ثلاثہ پر کھلم کھلا تبراہے)

(۳)مسلمانوں کاقرآن جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کی معتبر کتاب ”اصول کافی“ کے مطابق موجودہ قرآن تحریف شدہ اوراصل قرآن امام غائب (مہدی) کے پاس ہے۔

(۴)مسلمانوں کی نمازجدا۔۔۔اور شیعوں کی نمازجدا۔ (مسلمان نمازپنجگانہ کے قائل ہیں جب کہ شیعہ صرف تین نمازیں پڑھتے ہیں)

(۵)مسلمانوں کا نظام زکوٰۃ جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کا نظام زکوٰۃ جدا(شیعہ موجودہ نظام زکوٰۃ کے منکر اور مخالف ہیں)

(۶)مسلمانوں کے حج کا رکن اعظم، عرفات کی حاضری (وقوف) ہے۔۔۔اور شیعوں کے حج کا رکن اعظم مزدلفہ کی حاضری (وقوف) ہے۔ویسے بھی شیعہ حج کے قائل نہیں اور صرف خمینی کے ایماپر حجاز میں حج کے بہانہ تخریب کاری کے لئے جاتے ہیں۔واضح رہے کہ شیعہ کی معتبر کتب کے مطابق کربلا کعبتہ اللہ سے افضل ہے۔

(۷)مسلمانوں کے ہاں متعہ زنا کا دوسرانام ہے۔۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کے ہاں متعہ کرنے والاجنت میں حضرت حسینؓ کے برابر ہوگا۔

(۸)مسلمانوں کے ہاں جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی سب سے بڑاجرم ہے۔۔۔اور شیعوں کے ہاں تقیہ کے نام سے یہ سب چیزیں نہ صرف جائز ہیں بلکہ فرض اور واجب ہیں اور ان کے مذہب کے نوے فیصد حصہ ہیں۔

(۹)مسلمانوں کے نزدیک چاروں خلفائے راشدین ؓبرحق ہیں۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کے نزدیک سوائے حضرت علیؓ کے باقی خلفائے راشدینؓ منافق اور غاصب‘ ظالم اور ایمان سے عاری ہیں۔ نعوذباللہ۔

(۰۱)مسلمانوں کے نزدیک تمام صحابہ کرامؓ سچے مومن وشیدائی رسول، قابل اتباع اور معیارحق ہیں کیونکہ قرآنی وعدہ کے مطابق اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کے نزدیک نبی کریمؐ کے وصال کے بعدسب صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے یعنی مقدار،ابوذراورسلمان (فروع کافی ج۳ص۵۱۱) شیعہ اصطلاح میں اہل سنت کوناصبی کہا جاتا ہے۔شیعوں کامذہبی قائدملاباقر مجلسی لکھتا ہے۔ ”ناصبی ولدالزنا سے بدترہے۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کتے سے بدتر کسی چیز کو نہیں بنایا لیکن ناصبی خداکے ہاں کتے سے بھی زیادہ خوارہے (حق الیقین ج۲ص۶۱۵)

(۱۱)مسلمانوں کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تمام خواتین سے افضل اور انتہائی قابل احترام ہیں۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کے نزدیک ازواج مطہرات ناقابل احترام ہیں بلکہ بعض منافقہ ہیں۔ (نعوذباللہ) شیعہ عقیدے کے مطابق جب ان کا بارہواں امام مہدی ظاہر ہوگا توام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو زندہ کرکے ان پر حد لگائے گا۔ (نعوذباللہ)۔ (حق الیقین ج۲ص۱۶۳)

(۲۱)مسلمانوں کا وضو جدااور قبلہ جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کا وضواورسجدہ جدا (شیعوں کا وضو پاؤں سے شروع اور سجدہ کربلائی مٹی پر ہوتا ہے)۔ شیعوں کی قبلہ سمت بھی قدرے مختلف ہے۔

(۳۱)مسلمانوں کی غسل میت جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کا غسل میت جدا۔

(۴۱)مسلمانوں کی صیام رمضان کی سحری اور افطاری جدا۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کاوقت سحروافطارجدا۔

(۵۱)مسلمانوں کے نکاح، طلاق اوروراثت کا نظام جدا۔۔۔۔اور۔۔۔۔شیعوں کے نکاح، طلاق اور وراثت کا نظام جدا۔

(۶۱)مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ جل جلالہ تمام کائنات کا مالک وخالق اور عالم الغیب ہے۔۔۔اور۔۔۔شیعہ اس کے منکر ہیں اور قائل ہیں کہ امام کو ماضی اور مستقبل کا پوراپورا علم ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی چیز امام سے مخفی نہیں (اصول کافی) شیعہ مذہب میں عقیدہ بداکی روسے خداکے جاہل ہونے کا اقرارلازم آتا ہے۔

(۷۱) مسلمانوں کے نزدیک عقیدہ ختم نبوت، جزوایمان ہے۔۔۔اور۔۔۔شیعہ ختم نبوت کے منکر اور اجرائے نبوت کے قائل ہیں،اوران کے نزدیک ان کے بارہ امام سابق انبیاء سے افضل اور رسول اللہ ﷺ کے برابر ہیں۔

(۸۱) مسلمانوں کا نعرہ اللہ اکبر اور تکیہ کلام یااللہ مدد ہے۔۔۔اور شیعوں کا نعرہ حیدری اور تکیہ کلام ”یاعلی مدد“ جو کہ سراسر شرک ہے۔

(۹۱) مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ توحید ہے۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کا بنیادی عقیدہ امامت ہے جو کہ کھلم کھلا کفر ہے۔

(۰۲)مسلمانوں کی فقہ حنفی قرآن اور سنت سے ماخوذ ہے۔۔۔اور۔۔۔شیعوں کی فقہ جعفریہ قرآن وسنت کے قطعاً مخالف ہے۔ تقیہ (جھوٹ) متعہ (زنا) اور تبرا (خلفائے ثلاثہ امہات المومنین اور صحابہ کرام پر لعن طعن) اس کے اہم جزو ہیں اور متعہ وہ لذت آفرین عبادت ہے کہ چاردفعہ متعہ کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا درجہ مل جاتا ہے۔ (نعوذباللہ)

(۱۲)مسلمانوں کا نصب العین حضرت محمد ﷺ اور اصحاب محمد رضی اللہ عنہم کے طرز کی قرآنی حکومت کا قیام۔۔۔اور شیعوں کا نصب العین یہودی حکومت کا قیام ہے۔

ایران کی اسرائیل کے ساتھ خفیہ دوستی اور عربوں کے خلاف پروپیگنڈہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

الغرض شیعہ عقائد ونظریات میں اسلام کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی سوائے اشتراک اسمی یعنی نام وہی ہیں: خدا۔ رسول، قیامت، کلمہ۔ اذان۔ نماز۔ زکوۃ وغیرہ مگر ان ناموں کے اندر جو چیز ہے وہ بالکل الٹ ہے جو اسلام نے ان ناموں کے ساتھ وابستہ کی ہیں۔ مختصر یہ کہ جب قرآن مجید کے صحیح ہونے پر ایمان ہی

نہیں تو پھر اسلام کہاں اور مسلمان کیسے؟
خلاصہ یہ کہ ملت اسلامیہ جدااورملت ابن سباجدا

خلاصہ یہ کہ ملت اسلامیہ جدااورملت ابن سباجدا

لہذا شیعہ سنی اتحاد خلاف شرع ہے کیونکہ

امت مسلمہ کے بارے میں شیعہ عقیدہ ہے کہ تمام مسلمان کنجریوں کی اولاد ہیں (فروع کافی‘ کتاب الروضہ ص۵۳۱) خمینی کا مخدوم، ملاباقرمجلسی لکھتا ہے کہ ”جب ہماراامام ظاہر ہوگا تو کفار سے پہلے اہل سنت اور ان کے علماء کو قتل کرے گا“ (حق الیقین ج۲ص۷۲۵)

حاصل کلام:اس تقابلی مقابلہ سے بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں اور شیعوں میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں بلکہ شیعوں کے کفریات قادیانیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔جب قادیانی مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے کی وجہ سے اسلام سے خارج اور غیر مسلم ہیں تو شیعہ کیونکر کافر نہ ہوں گے جب کہ وہ اپنے بارہ اماموں کو خداکی طرف سے مامور، واجب الاطاعت اور خطا سے پاک مانتے ہیں۔ خمینی نے اپنی کتاب ”اتحاد ویک جہتی“ جو کہ خانہ فرہنگ ایران کی طرف سے طبع ہوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن میں ناکام قراردیا ہے۔ (نعوذباللہ)

اسلام کی بنیادقرآن وسنت پر ہے جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ قرآن محرف ہے اور سنت ناقابل اعتبار کیونکہ حدیث کے راوی یعنی صحابہ ان کے نزدیک منافق ومرتد تھے ان کو مسلمان کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے؟ لہذا ”شیعہ وسنی بھائی بھائی“ کا نعرہ ایک ایسا جھوٹ اورفراڈ ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ اورفراڈ نہیں ہوسکتا! اب بھی جو لوگ ناواقفیت کی وجہ سے ایرانی انقلاب کو اسلامی انقلاب اور خمینی کو اس دور کا ”امام المسلمین“ اور امت مسلمہ کا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں اور عام مسلمانوں کو یہی باورکرانے کی کوشش میں سرگرم ہیں وہ سراسر فریب اور گمراہی میں مبتلا ہیں۔ وما علینا الابلاغ۔

نوٹ: امام ابوحنیفہؒ اکثر کہاکرتے تھے کہ جو شیعہ کے کفرمیں شک کرے وہ خودکفر کا مرتکب ہے (بحوالہ”سراب فی ایران“ از ڈاکٹر احمد الافغانی ص۲۴)

اہل سنت کی ذمہ داری

اہل سنت کی ذمہ داری

شیعیت دراصل اسلام کے خلاف کفر کی ایک خفیہ سازش ہے اور یہ وہ کفر ہے جس پر اسلام کا لیبل لگاکر مخلوق خدا کو گمراہ کیاجارہا ہے۔

لہذا گھر گھر شیعیت کو بے نقاب کرنے کا عزم کیجئے کیونکہ شیعیت پاکستان اور عالم اسلام کے لئے سب سے بڑاخطرہ ہے۔ براہ مہربانی اپنی تمام توانائیوں اور وسائل کو بروئے کارلاکر امت مسلمہ کو اس گمراہی سے بچائیں۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں تاخیر نہ کیجئے۔ جزاک اللہ

واضح رہے کہ ہمارے قدیم بنیادی تاریخی ماخذ جوکہ۵۳ ہیں ان میں سے ۰۳ شیعوں کے مرتب کردہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ہوگی اور یہ حقیقت ہے کہ شیعہ مذہب کی بنیاد صرف صحابہ کرام ؓ کی مخالفت پر نہیں رکھی گئی بلکہ خاندان نبوتؐ کی توہین کرنا شیعیت کا بنیادی مقصد ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والے تحفظ ناموس رسالتؐ سے منہ موڑچکے ہیں ورنہ کسی بدفطرت کی کیا مجال جو پاکستان کی پارلیمنٹ میں ناموس صحابہؓ واہل بیعتؓ بل کی مخالفت کرے۔ وماعلینا الاالبلاغ۔

اہل سنت کے اہم مطالبات

شیعی فتنہ کی سرکوبی کے سلسلہ میں

اہل سنت کے اہم مطالبات

(۱) حکومت پاکستان فوری طورپر شرعی کے تحت شیعوں وقادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف فوری کاروائی کرکے شریعت محمدیؐ کے تحفظ کا آئینی فریضہ سرانجام دے۔

(۲) پاکستان میں شیعہ آبادی صرف پونے دوفیصد ہے مگر کم وبیش چالیس فیصد سول وملٹری کی کلیدی آسامیوں پر شیعہ مسلط ہیں۔ جس سے اہل سنت کے حقوق کی شدید حق تلفی ہورہی ہے۔ حکومت بطور غیر مسلم اقلیت کے قادیانیوں اور شیعوں کا ملازمتوں میں کوٹہ مقررکرے۔تاکہ اہل سنت کے جائز حقوق کاتحفظ ہوسکے۔

(۳) پاکستان میں چونکہ اکثیریت سنی حنفی ہے لہذا بلاتاخیر پاکستان کو سنی اسٹیٹ قراردیاجائے اور فقہ حنفی کو رائج کیا جائے۔ فقہ حنفی کا نفاذ قرآن وسنت کا نفاذ ہے کیونکہ فقہ حنفی قرآن وسنت ہی کے صریحی اور استنباطی احکام کا مجموعہ ہے۔

(۴) شہدائے کربلا کی طرح خلفائے راشدین کے ایام کو بھی سرکاری طورپرمنایاجائے اور ان ایام میں اجتماعات کی خاطر سرکاری تعطیل کا اعلان کیاجائے (یعنی وصال سیدنا ابوبکرؓ ۲۲جمادی الثانی‘ شہادت سیدنا عمرؓ یکم محرم، شہادت سیدنا عثمانؓ ۸۱ذی الحج اور شہادت سیدنا علیؓ ۱۲ رمضان۔ حضرت حسینؓؓ کی شہادت مورخہ۰۱محرم کے ساتھ سیدنا حسنؓ کا یوم شہادت بھی منایاجائے تاکہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کی عظمت ومحبت مسلمانوں کے دلوں میں رچ وبس جائے کہ یہی احیائے اسلام کا منبع ہیں۔

(۵) ناموس صحابہؓ واہل بیت ؓکا بل منظورکیا جائے تاکہ فرقہ واریت کاقلع قمع ہو۔

Book Options

Author: قائد اھل سُنّت مولانا مُحمّد منظور نعماؔنی مدظلّہ‘

Leave A Reply