آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامات کبریٰ کے ضمن میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور، ان کے زمانے میں کانے دجال کے خروج اور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر متواتر احادیث میں دی ہے

کتاب کا نام: علامات قیامت مسیح اور مہدی

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

پیش لفظ

پیش لفظ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی۔ امابعد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی علامات کبریٰ کے ضمن میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور، ان کے زمانے میں کانے دجال کے خروج اور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر متواتر احادیث میں دی ہے۔گذشتہ صدیوں میں بہت سے بے باک طالع آزماؤں نے مہدویت یا مسیحیت کے دعوے کئے۔لیکن حقائق وواقعات کی کسوٹی پر ان کے دعوے غلط ثابت ہوئے، ان میں سے بعض مدعیان مسیحیت یامہدویت کی جماعتیں اب تک موجود ہیں۔ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چودھویں صدی میں مرزا غلام احمد قادیانی نے ۴۸۸۱ء میں مجددیت کا،۱۹۸۱ء میں مسیحیت کا اور ۱۰۹۱ء میں نبوت کادعویٰ کیا، اس طرح مدعیان مسیحیت و مہدویت میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوا۔

زیرنظر رسالہ ایک قادیانی کے خط کا جواب ہے، جو رجب ۹۹۳۱ء میں لکھاگیا تھا، اور جس میں آنے والے مسیح کی علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے، جوخود مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی مسلم ہیں، ذکر کی گئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ غلط ہے، یہ رسالہ ”شناخت“ کے نام سے متعددبار شائع ہوچکا ہے، اور اب نظرثانی کے بعداسے جدید انداز میں شائع کیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو شرف قبول نصیب فرمائیں، اور اسے اپنے بندوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائیں، آمین یارب العالمین۔

محمد یوسف لدھیانوی
۴۱ رجب ۰۱۴۱ھ

مکرم ومحترم جناب……صاحب!……زیدت الطافہم، آداب ودعوات۔

مزاج گرامی! جناب کا گرامی نامہ محررہ ۶۲ مئی ۹۷۹۱، آج ۶۱جون کو مجھے ملا، قبل ازیں چار گرامی ناموں کے جواب لکھ چکا ہوں، آج کے خط میں آپ نے مرزاصاحب کے کچھ دعوے کچھ اشعار اور کچھ پیش گوئیاں ذکرکرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ ”جب مسیح اور مہدی ظاہر ہو تواس کو میراسلام پہنچائیں“پھر اس ناکارہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ:

”اب تک آپ نے (یعنی راقم الحروف نے) اس کی تباہی وبربادی کی تدبیریں کرکے بہت کچھ اس کے خدا اور رسول کی مخالفت کرلی، اب خداکے لئے اپنے حال پر رحم فرمائیں، اگر اپنی اصلاح نہیں کرسکتے تو دوسروں کی گمراہی اور حق سے دوری کی کوششوں سے بازرہ کر اپنے لئے الہی ناراضگی تو مول نہ لیں۔“

جناب کی نصیحت بڑی قیمتی ہے،اگر جناب مرزاصاحب واقعی مسیح اور مہدی ہیں توکوئی شک نہیں کہ ان کی مخالفت خدااور رسول کی مخالفت ہے، حق سے دوری وگمراہی ہے، اور الہٰی ناراضگی کا موجب ہے اور اگروہ مسیح یا مہدی نہیں تو جولوگ ان کی پیروی کرکے سچے مسیح اورسچے مہدی کے آنے کی نفی کررہے ہیں ان کے گمراہ ہونے، حق سے دورہونے، الہٰی ناراضگی کے نیچے ہونے اور خدااور رسول کے مخالف ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ اگر واقعی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو سلام پہنچانے کا حکم فرمایا ہے تو کھلی ہوئی بات ہے کہ آپؐ نے امت کو یہ ہدایت بھی فرمائی ہوگی کہ حضرت مسیح اور حضرت مہدی کی کیاکیا علامتیں ہیں؟ وہ کب تشریف لائیں گے؟ کتنی مدت رہیں گے؟ کیا کیاکارنامے انجام دیں گے؟ اور ان کے زمانے کا نقشہ کیا ہوگا؟ پس اگرمرزاصاحب اس معیارپر، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے، پورے اترتے ہیں تو ٹھیک ہے، انہیں ضرورمسیح مانئے اوران کی دعوت  بھی دیجئے۔ ورنہ ان کی حیثیت سید محمد جونپوری، ملامحمداٹکی، اورعلی محمد باب وغیرہ جھوٹے مدعیان مسیحیت ومہدویت کی ہوگی، اور ان کو مسیح کہہ کراحادیث نبویہ کوان پر چسپاں کرنا ایسا ہوگا کہ کوئی شخص ”بوم“ کا نام ”ہما“ رکھ کر ہما کی صفات وکمالات اس پر چسپاں کرنے لگے، اور لوگوں کو اسے ”ہما“ سمجھنے کی دعوت دے۔ لہذا مجھ پرآپ پر اور سارے انسانوں پرلازم ہے کہ مرزاصاحب کو فرمودہ نبویؐ کی کسوٹی پر جانچیں، وہ کھرے نکلیں تو مانیں۔ کھوٹے نکلیں تو انہیں مسترد کردیں۔ اس منصفانہ اصول کو سامنے رکھ کرمیں جناب کو بھی آپ کی اپنی نصیحت پر عمل کرنے، اور مرزاصاحب کی حیثیت پر غوروفکرکی دعوت دیتا ہوں اور اس سلسلہ میں چند نکات مختصرا عرض کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔

۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کب آئیں گے؟

۱۔ حضرت مسیح علیہ السلام کب آئیں گے؟

اس سلسلہ میں سب سے پہلا سوال یہ پیداہوتا ہے۔ کہ مسیح علیہ السلام کب آئیں گے؟ کس زمانے میں ان کی تشریف آوری ہوگی؟ اس کاجواب خود جناب مرزاصاحب ہی کی زبان سے سننا بہترہوگا۔ مرزاصاحب، اپنے نشانات ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”پہلا نشان: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ یبعث لہٰذہ الامۃ علی راس کل مأءۃ من یجددلھا دینہا۔ (رواہ ابوداؤد)

یعنی خداہرایک صدی کے سرپراس امت کے لئے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا۔ جواس کے لئے دین کوتازہ کرے گا۔

اور یہ بھی اہل سنت کے درمیان متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اس امت کا مسیح موعود ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا، اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے یا نہیں؟ یہودونصاریٰ دونوں قومیں اس پر اتفاق رکھتی ہیں کہ یہ آخری زمانہ ہے۔ اگر چاہو تو پوچھ لو۔“ (حلفیہ الوحی ص ۳۱۱)

مرزاصاحب نے اپنی دلیل کو تین مقدموں سے ترتیب دیا ہے۔

(الف) ارشاد نبویؐ کہ ہرصدی کے سرپر ایک مجدد ہوگا۔

(ب) اہل سنت کا اتفاق کہ آخری صدی کا آخری مجددمسیح ہوگا۔

(ج) یہود ونصاریٰ کا اتفاق کہ مرزاصاحب کا زمانہ آخری زمانہ ہے۔

نتیجہ ظاہر ہے کہ اگرچودہویں صدی آخری زمانہ ہے تو اس میں آنے والامجدد نبی ”آخری مجدد“ ہوگا اور جو ”آخری مجدد“ ہو گا لازماً وہی مسیح موعودبھی ہوگا۔ لیکن اگرچودھویں صدی کے ختم ہونے پرپندرھویں صدی شروع ہوگئی  (یہ تحریر پندرہویں صدی شرو ع ہونے سے پہلے کی ہے۔)تو فرمودہ نبویؐ کے مطابق اس کے سرپربھی کوئی مجدد آئے گا، اس کے بعد سولہویں صدی شروع ہوئی تو لازماً اس کا بھی کوئی مجدد ضرورہوگا۔

پس نہ چودھویں صدی آخری زمانہ ہوا اور نہ مرزاصاحب کا ”آخری مجدد“ ہونے کادعویٰ صحیح ہوا۔ اور جب وہ ”آخری مجدد“ نہ ہوئے تو مہدی یامسیح بھی نہ ہوئے کیونکہ ”اہل سنت میں یہ امر متفق علیہ امر ہے کہ ”آخری مجدد“ اس امت کے حضرت مسیح علیہ السلام ہوں گے۔“ اگر آپ صرف اسی ایک نکتہ پر بنظر انصاف غورفرمائیں توآپ کا فیصلہ یہ ہوگا کہ مرزاصاحب کا دعویٰ غلط ہے۔ وہ مسیح اور مہدی نہیں۔

۲۔ حضرت مسیح علیہ السلام کتنی مدت قیام فرمائیں گے؟

۲۔ حضرت مسیح علیہ السلام کتنی مدت قیام فرمائیں گے؟

زمانہ نزول مسیح کا تصفیہ ہوجانے کے بعددوسراسوال یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کتنی مدت زمین پرقیام فرمائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث طیبہ میں ان کی مدت قیام چالیس سال ذکرفرمائی گئی ہے۔(حقیقتہ النبوہ ص۲۹۱۔ از مرزامحمود احمد صاحب) یہ مدت خود مرزاصاحب کو بھی مسلم ہے، بلکہ اپنے بارے میں ان کا چہل (۰۴) سالہ دعوت کا الہام بھی ہے، چنانچہ اپنے رسالہ ”نشان آسمانی“ میں شاہ نعمت اللہ ولی کے شعر:

”تاچہل سال اے برادر مندورآں شہسوارمی بینم“

کو نقل کرکے لکھتے ہیں: ”یعنی اس روز سے جو وہ امام مُلہم ہو کر اپنے تئیں ظاہر کرے گا، چالیس برس تک زندگی کرے گا، اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامورکیاگیا اور بشارت دی گئی کہ اسی ۰۸ برس تک یا اس کے قریب تیری عمر ہے، سواس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے۔جن میں سے تقریباًدس برس کامل گزربھی گئے۔“(ص۳۱طبع چہارم اگست ۴۳۹۱ء)

مرزاصاحب کے اس حوالے سے واضح ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام چالیس برس زمین پر رہیں گے اور سب جانتے ہیں کہ مرزاصاحب نے ۱۹۸۱ء میں مسیحیت کا دعویٰ کیا اور ۶۲ مئی ۸۰۹۱ء کو داغ مفارقت دے گئے۔ گویا مسیح ہونے کے دعوے کے ساتھ کل ساڑھے سترہ برس دنیا میں رہے۔اور اگر اس کے ساتھ وہ زمانہ بھی شامل کرلیاجائے جبکہ ان کا دعویٰ صرف مجددیت کا تھا، مسیحیت کا نہیں تھا، تب بھی جون ۲۹۸۱ء (جونشان آسمانی کا سن تصنیف ہے) تک ”دس برس کامل“ کا زمانہ اس میں مزیدشامل کرنا ہوگا اور ان کی مدت قیام ۶۲سال بنے گی۔ لہذافرمودہ نبویؐ (چالیس برس زمین پر رہیں گے) کے میعارپر تب بھی وہ پورے نہ اترے اور نہ ان کادعویٰ مسیحیت ہی صحیح ثابت ہوا۔یہ دوسرانقطہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاصاحب مسیح نہیں تھے۔

۳۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے احوال شخصیہ

۳۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے احوال شخصیہ

(الف)۔شادی اور اولاد

حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر تشریف لانے کے بعد شادی کریں گے۔ اور ان کے اولاد ہوگی

(مشکوۃ ص۰۸۳)

یہ بات جناب مرزاصاحب کو بھی مسلم ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ”نکاح آسمانی“ کی تائید میں فرماتے ہیں۔

اس پیش گوئی ۱؎ (۱؎ محمدی بیگم سے مرزاصاحب کے نکاح آسمانی کی الہامی پیش گوئی) کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے۔”یتزوج ویولدلہ“ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا، اور نیز صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر کہ تزوج اور اولاد کا ذکرکرنا عام طورپر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طورپر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں۔ بلکہ تزوج سے مراد خاص تزوج ہے جو بطورنشان ہوگا۔ اور اولاد سے مرادخاص اولاد ہے۔ جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی ہے۔ گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرورپوری ہوں گی۔“(ضمیمہ انجام آتھم ص۳۵)

بلاشبہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے پوراہونے سے منکر ہو، اس کے سیاہ دل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔  ۲؎ ( ۲؎ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے پہلی زندگی میں نکاح نہیں کیا تھا اور بیوی بچوں کے قضیے سے آزاد رہے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دوبارہ تشریف لائیں گے تو نکاح بھی کریں گے اور ان کے اولاد بھی ہوگی۔)

جناب مرزا صاحب کی یہ تحریر ۶۹۸۱ء کی ہے اس وقت مرزاصاحب کی دوشادیاں ہوچکی تھیں۔اور دونوں سے اولاد بھی موجود تھی۔ مگر بقول ان کے ”اس میں کچھ خوبی نہیں“ لیکن جس شادی کوبطورنشان ہونا تھا اور اس سے جو ”خاص اولاد“ پیداہونی تھی، جس کی تصدیق کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”یتزوج ویولدلہ“ فرمایا تھا۔ وہ مرزاصاحب کو نصیب نہ ہوسکی۔ لہذاوہ اس معیارنبوی پر بھی پورے نہ اترے، اور جولوگ خیال کرتے ہوں کہ مسیح کے  لئے اس خاص شادی اور اس سے اولاد کا ہونا کچھ ضروری نہیں تو اس کے بغیر بھی کوئی شخص ”مسیح موعود“ کہلاسکتا ہے مرزاصاحب کے بقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا ارشادمیں ان ہی سیاہ دل منکروں کے شبہات کا ازالہ فرمایا ہے۔یہ تیسرانکتہ ہے جس سے ثابت ہوا کہ مرزاصاحب مسیح نہیں تھے۔

(ب) حج وزیارت

(ب) حج وزیارت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات ذکرکرتے ہوئے ان کے حج وعمرہ کرنے اور روضہ اقدس پر حاضر ہوکرسلام پیش کرنے کو بطورخاص ذکر فرمایا ہے۔ (معتدرک حاکم ج۲ص۹۹۵)

جناب مرزاصاحب کو بھی یہ معیارمسلم تھا۔ چنانچہ ”ایام الصلح“ میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ آپ نے اب تک حج کیوں نہیں کیا، کہتے ہیں:

”ہماراحج تواس وقت ہوگا جب دجال بھی کفراوردجل سے بازآکر طواف بیت اللہ کرے گا۔ کیونکہ بموجب حدیث صحیح کے وہی وقت مسیح موعود کے حج کا ہوگا۔“  (ص ۸۶۱)

ایک اور جگہ مرزاصاحب کے ملفوظات میں ہے۔ (ص۸۶۱)

”مولوی محمد حسین بٹالوی کا خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں سنایا گیا۔ جس میں اس نے اعتراض کیا تھا کہ آپ حج کیوں نہیں کرتے۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ: ”میراپہلا کام خنزیروں کا قتل اورصلیب کی شکست ہے، ابھی تومیں خنزیروں کو قتل کررہا ہوں، بہت سے خنزیر مرچکے ہیں اور بہت سخت جان ابھی باقی ہیں۔ ان سے فرصت اور فراغت ہولے“  (ملفوظات احمدیہ حصہ پنجم ص ۴۶۲مرتبہ منظور الہی صاحب)

مگر سب دنیا جانتی ہے کہ مرزاصاحب حج وزیارت کی سعادت سے آخری لمحہ حیات تک محروم رہے لہذا وہ اس معیارنبویؐ کے مطابق بھی مسیح موعود نہ ہوئے۔

(ج) وفات اورتدفین

(ج) وفات اورتدفین

حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشادفرمایا ہے کہ اپنی مدت قیام پوری کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوگا۔ مسلمان ان کی نمازجنازہ پڑھیں گے، اور انہیں روضہ اطہر میں حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پہلومیں دفن کیاجائے گا۔(مشکوۃ ص۰۸۴)

جناب مرزا صاحب بھی اس معیارنبویؐ  کو تسلیم کرتے ہیں ”کشتی نوح“ میں تحریر فرماتے ہیں۔”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا، یعنی وہ میں ہی ہوں۔“(ص ۵۱)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:   ”ممکن ہے کوئی مثل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس دفن ہو۔“(ازالہ اوہام ۰۷۴)

اور سب دنیا جانتی ہے کہ مرزاصاحب کو روضہ اطہر کی ہوابھی نصیب نہ ہوئی۔ وہ تو ہندوستان کے قصبہ قادیان میں دفن ہوئے۔ لہذاوہ مسیح موعود بھی نہ ہوئے۔

۴۔ حضرت مسیحؑ آسمان سے نازل ہوں گے

۴۔ حضرت مسیحؑ آسمان سے نازل ہوں گے

جس مسیح علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پہنچانے کا حکم فرمایا ہے ان کے بارے میں یہ وضاحت بھی فرمادی ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔  یہ معیار نبویؐ خودمرزاصاحب کو بھی مسلم ہے۔ چنانچہ ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں: ”مثلاً صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کا لباس زردرنگ کا ہوگا۔ (ص۱۸)

اور سب کو معلوم ہے کہ مرزاصاحب چراغ بی بی کے پیٹ سے پیداہوئے تھے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ عورت کے پیٹ کا نام آسمان نہیں۔ لہذامرزا صاحب مسیح نہ ہوئے۔
۵۔ حضر ت مسیح علیہ السلام کے کارنامے

۵۔ حضر ت مسیح علیہ السلام کے کارنامے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مسیح کے آنے کی خبردی اور جنہیں سلام پہنچانے کا حکم فرمایا ان کے کارنامے بڑی تفصیل سے امت کو بتائے۔ مثلاً صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:

والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکماً عدلاً فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیرویضع الحرب۔ (صحیح بخاری ص۰۹۴ج۱)

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ بن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ پس صلیب کو توڑدیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے اور لڑائی موقوف کردیں گے۔

اس حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ازنزول کارنامے مذکورہیں ان کی مختصر تشریح کرنے سے پہلے لازم ہے کہ ہم اس حقیقت کو من وعن تسلیم کرنے کے لئے تیارہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھاکر بیان فرمائی ہے۔ کیونکہ قسم اسی جگہ کھائی جاتی ہے۔جہاں اس حقیقت کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہو۔ یاوہ مخاطبین کو کچھ اعجوبہ اور اچنبھا معلوم ہوتی ہو اور اسے بغیر کسی تاویل کے تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہ آتے ہوں۔ قسم کھانے کے بعد جولوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کریں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انہیں قسم کھانے والے کی قسم پر بھی اعتبار نہیں اور نہ وہ اسے سچا ماننے کے لئے تیار ہیں، یہ بات خود مرزاصاحب کو بھی مسلم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

والقسم یدل علی‘ ان الخبر محمول علی الظاھر، لاتاویل فیہ ولااستثناء (حامۃ لبشری ص۳)  قسم اس امر کی دلیل ہے کہ خبر اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء

(الف)۔ مسیح علیہ السلام کون ہیں؟

(الف)۔ مسیح علیہ السلام کون ہیں؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھاکرفرماتے ہیں کہ:

(۱)آنے والے مسیح کا نام عیسیٰ ہوگا جبکہ مرزاصاحب کا نام غلام احمد تھا، ذراغورفرمائیے کہ کہاں عیسیٰ اور کہاں غلام احمد؟ ان دونوں ناموں کے درمیان کیا جوڑ؟

(۲) مسیح کی والدہ کا نام مریم صدیقہ ہے۔ جبکہ مرزاصاحب کی ماں کا نام چراغ بی بی تھا۔

(۳) مسیح علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے، جب کہ مرزاصاحب نازل نہیں ہوئے۔

یہ تینوں خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفاً دی ہیں۔ اور ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ جو خبر قسم کھاکردی جائے اس میں کسی تاویل اور کسی استثناء کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب انصاف فرمائیے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حلفیہ خبروں میں تاویل کرتے ہیں کیا ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے؟ یا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں!

(ب) حاکم عادل

(ب) حاکم عادل

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں حلفیہ خبردی ہے کہ وہ حاکم عادل کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور ملت اسلامیہ کی سربراہی اور حکومت وخلافت کے فرائض انجام دیں گے اس کے برعکس مرزاصاحب پشتوں سے انگریزوں کے محکوم اور غلام چلے آتے تھے۔ ان کا خاندان انگریزی سامراج کاٹوڈی تھا۔ خود مرزاصاحب کا کام انگریزوں کے لئے مسلمانوں کی جاسوسی کرنا تھا، اور وہ انگریزوں کی غلامی پرفخر کرتے تھے۔ ان کو ایک دن کے لئے بھی کسی جگہ کی حکومت نہیں ملی۔ اس لئے ان پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادصادق نہیں آتا۔ چنانچہ وہ خود لکھتے ہیں:

”ممکن ہے اور بالکل ممکن   ۱؎ (۱؎ صرف ”ممکن“ نہیں بلکہ قطعی ویقینی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلفیہ بیان پورانہ ہو! ناممکن)ہے کہ کسی زمانے میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے ظاہری الفاظ صادق آسکیں،کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔“

(ازالہ اوہام ص۰۰۲)

پس جب مرزاصاحب بقول خودحکومت وبادشاہت کے ساتھ نہیں آئے، اوران پر فرمان نبویؐ کے الفاظ صادق ہی نہیں آتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وہ مسیح نہ ہوئے۔

(ج) کسر صلیب

(ج) کسر صلیب

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کا سب سے اہم اور اصل مشن اپنی قوم کی اصلاح کرنا ہے اور ان کی قوم کے دوحصے ہیں۔ ایک مخالفین یعنی یہود، اور دوسرے محبین، یعنی نصاریٰ۔

ان کے نزول کے وقت یہود کی قیادت دجال یہودی کے ہاتھ میں ہوگی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لاکرسب سے پہلے دجال کو قتل اور یہود کا صفایاکریں گے۔ (میں اسے آگے چل کر ذکرکروں گا) ان سے نمٹنے کے بعدآپ اپنی قوم نصاریٰ کی طرف متوجہ ہوں گے، اور ان کی غلطیوں کی اصلاح فرمائیں گے، ان کے اعتقادی بگاڑ کی ساری بنیاد عقیدہ تثلیث، کفارہ اور صلیب پرستی پر مبنی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے واضح ہوجائے گا کہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں، لہذا تثلیث کی تردید ان کا سراپا وجودہوگا، کفارہ اور صلیب پرستی کامداراس پر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معاذاللہ سولی پر لٹکایا گیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بقید حیات ہونا ان کے عقیدہ کفارہ اورتقدس صلیب کی نفی ہوگی۔ اس لئے تمام عیسائی اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے، اور اپنے سارے عقائد باطلہ سے توبہ کرلیں گے، اورایک بھی صلیب دنیامیں باقی نہیں رہے گی۔

خنزیرخوری ان کی ساری معاشرتی برائیوں کی بنیادتھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑڈالیں گے۔اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ جس سے عیسائیوں کے اعتقادی اور معاشرتی بگاڑکی ساری بنیادیں منہدم ہوجائیں گی۔ اور خود نصاریٰ مسلمان ہو کر صلیب کوتوڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کا کام کریں گے۔ اور جوشخص صلیبی طاقتوں کا جاسوس ہو اس کو کسر صلیب کی توفیق ہو بھی کیسے سکتی تھی۔

یہ ہے وہ ”کسرصلیب“ جس کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے ذیل میں حلفاً بیان فرمایا ہے۔

جناب مرزاصاحب کو کسر صلیب کی توفیق جیسی ہوئی وہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مزعومہ ”کسر صلیب“ کے دورمیں عیسائیت کو روزافزوں ترقی ہوئی۔ خود مرزاصاحب کا بیان ملاحظہ فرمائیے:

”اور جب تیرھویں صدی کچھ نصف سے زیادہ گذرگئی تو ایک دفعہ اس دجالی گروہ کا خروج ہوا اور پھر ترقی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اس صدی کے اواخر میں بقول پادری ہیکر صاحب پانچ لاکھ تک صرف ہندوستان میں ہی کرسٹان شدہ لوگوں کی نوبت پہنچ گئی اور اندازہ کیا گیا کہ قریباً بارہ سال میں ایک لاکھ آدمی عیسائی مذہب میں داخل ہوجاتا ہے۔“ (ازالہ اوہام ص ۱۹۴)

یہ تو مرزاصاحب کی سبزقدمی سے ان کی زندگی میں حال تھا، اب ذراان کے دنیا سے رخصت ہونے کا حال سنئے۔ اخبارالفضل قادیان ۹۱جون کی اشاعت میں صفحہ ۵ پر لکھتا ہے۔

”کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت ہندوستان میں عیسائیوں کے (۷۳۱) مشن کام کررہے ہیں۔ یعنی ہیڈ مشن۔ان کی برانچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہیڈ مشنوں میں اٹھارہ سو سے زائد پادری کام کررہے ہیں۔ (۳۰۴) اسپتال ہیں جن میں (۰۰۵) ڈاکٹر کام کررہے ہیں (۳۴) پریس ہیں اورتقریباً (۰۰۱) اخبارات مختلف زبانوں میں چھپتے ہیں۔ (۱۵) کالج (۷۱۶) ہائی اسکول اور (۱۶) ٹریننگ کالج ہیں۔ ان میں ساٹھ ہزارطالب علم تعلیم پاتے ہیں۔ مکتی فوج میں (۸۰۳) یورپین اور (۶۸۸۲) ہندوستانی مناد کام کرتے ہیں۔ان کے ماتحت (۷۰۵) پرائمری اسکول ہیں جن میں (۵۷۶۸۱) آدمیوں کی پرورش ہورہی ہے۔ اور ان سب کوششوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کہاجاتا ہے روزانہ (۴۲۲) مختلف مذاہب کے آدمی ہندوستان میں عیسائی ہورہے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مسلمان کیا کررہے ہیں؟ وہ تو شاید اس کام کوقابل توجہ بھی نہیں سمجھتے۔ (یوں بھی یہ جارج مسیح کے سپردکیا جاچکا تھا۔اس لئے مسلمانوں کو اس طرف توجہ کیوں ہوتی؟) احمدی جماعت کو سوچناچاہیے کہ عیسائیوں کی مشنریوں کی تعداد کے اس قدروسیع جال کے مقابلے میں اس کی مساعی کی کیاحیثیت ہے۔ ہندوستان بھر میں ہمارے دودرجن مبلغ ہیں اور وہ بھی جن مشکلات میں کام کررہے ہیں۔ انہیں بھی ہم خوب جانتے ہیں۔“

دیدہ عبرت سے الفضل کی رپورٹ پڑھیے کہ ۱۴۹۱ء میں (۰۶۷۱۸) اکیاسی ہزارسات سو ساٹھ آدمی سالانہ کے حساب سے صرف ہندوستان میں عیسائی ہورہے تھے، باقی سب دنیا کا قصہ الگ رہا۔ اب انصاف سے بتائے کہ کیا یہی ”کسرصلیب“ تھی جس کی خوشخبری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حلفاً دے رہے ہیں اور کیا یہی ”کاسر صلیب“ مسیح ہے جسے سلام پہنچانے کی آپ ؐ وصیت فرمارہے ہیں؟ کسوٹی میں نے آپ کے سامنے پیش کردی ہے۔ اگر آپ کھوٹے کھرے کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ کے ضمیر کو فیصلہ کرناچاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ”مسیح قادیانی“ کو ”کاسر صلیب“ کہہ کرسلام نہیں بھجوارہے۔ وہ کوئی اور ہی مسیح ہوگا جو چند دنوں میں عیسائیت کے آثار روئے زمین سے صفایاکردے گا۔ صلوات اللہ وسلام علیہ۔

مرزا صاحب کی کوئی بات تاویلات کی بیساکھیوں کے بغیر کھڑی نہیں ہوسکتی تھی حالانکہ میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلفیہ بیان ہے جس میں تاویلات کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔ اسی لئے مرزاصاحب نے ”کسر صلیب“ کے معنی ”موت مسیح کا اعلان“ کرنے کے فرمائے۔ چونکہ مرزاصاحب نے بزعم خود مسیح علیہ السلام کو مارکر (نعوذ باللہ) یوزاآسف کی قبر واقع محلہ خانیارسرینگر میں انہیں دفن کردیا۔اس لئے فرض کرلینا چاہیے کہ بس صلیب ٹوٹ گئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

مرزاصاحب نے بہت سی جگہ اس بات کو بڑے طمطراق سے بیان کیا ہے کہ میں نے عیسائیوں کا خداماردیا، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ  ”اصل میں ہماراوجود دوباتوں کے لئے ہے ایک تونبی کو مارنے کے لئے دوسراشیطان کو مارنے کے لئے۔“(ملفوظات ص۰۶جلد۰۱)

اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کوعقل وفہم کی دولت عطافرمائی ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ ہندوستان میں عیسائیوں کے خداکومارنے کا سہرا سرسید کے سر پر ہے، جس زمانے میں مرزاصاحب حیات مسیح کا عقیدہ رکھتے تھے اور براہین احمدیہ میں ص۸۹۴، ۹۹۴،۵۰۵ میں قرآن کریم کی آیات اور اپنے الہامات کے حوالے دے کرحیات مسیح ثابت فرماتے تھے، سرسید بزعم خود اسی وقت عیسیٰ علیہ السلام کی موت (نعوذ باللہ) ازروئے قرآن ثابت کرچکے تھے،حکیم نوردین، مولوی محمد احسن امرہوی اور کچھ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سرسید کے نظریات سے متاثر ہوکروفات مسیح کا قائل تھا۔ اسلئے اگر وفات مسیح ثابت کرنا ”کسرصلیب“ ہے تو ”مسیح موعود“ اور ”کاسرصلیب“ کا خطاب مرزا صاحب کو نہیں بلکہ سرسید احمد خان کو ملنا چاہیے۔

اوراس بات بھی غورفرمائیے کہ عیسائیوں کی صلیب پرستی اورکفارہ کا مسئلہ صلیب کے اس تقدس پر مبنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذباللہ) صلیب پر لٹکائے گئے، اور اس نکتہ کو مرزاصاحب نے خودتسلیم کرلیا۔مرزاصاحب کو عیسائیوں سے صرف اتنی بات میں اختلاف ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے، بلکہ کالمیت (مردہ کی مانند) ہوگئے تھے اور بعد میں اپنی طبعی موت مرے۔

بہرحال مرزاصاحب کو عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب پرلٹکایاجانابھی مسلم اور ان کا فوت ہوجانا بھی مسلم۔ اس سے تو عیسائیوں کے عقیدہ وتقدس صلیب کو تائید ہوئی نہ کہ ”کسر صلیب“۔

اس کے برعکس اسلام یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر لٹکائے جانے کا افسانہ ہی یہودیوں کا خودتراشیدہ ہے جسے عیسائیوں نے اپنی جہالت سے مان لیا ہے۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ صلیب پر لٹکائے گئے، اورنہ صلیب کے تقدس کا کوئی سوال پیداہوتا ہے۔اور یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر کھلے گی۔اوردونوں قوموں پران کی غلطی واضح ہوجائے گی۔ جس کے لئے نہ مناظروں اور اشتہاروں کی ضرورت ہوگی نہ ”لندن کانفرنسوں“ کی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجودسامی ان کے عقائد کے غلط ہونے کی خوددلیل ہو گا۔

ّ(د) لڑائی موقوف، جزیہ بند

ّ(د) لڑائی موقوف، جزیہ بند

صحیح بخاری کی مندرجہ بالا حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک کارنامہ ”یضع الحرب“ بیان فرمایا ہے یعنی وہ لڑائی اور جنگ کو ختم کردیں گے۔ اوردوسری روایات میں اس کی جگہ ”ویضع الجزیہ“ کے لفظ ہیں۔ یعنی جزیہ موقوف کردیں گے۔

مرزاصاحب نے اپنی کتابوں میں بے شمار جگہ اس ارشادنبویؐ کے حوالے سے انگریزی حکومت کی دائمی غلامی اور ان کے خلاف جہادکوحرام قراردیا۔حالانکہ حدیث نبویؐ کا منشایہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد لوگوں کے مذہبی اور نفسانی اختلافات مٹ جائیں گے (جیسا کہ آگے ”زمانہ کا نقشہ“ کے ذیل میں آتا ہے) اس لئے نہ لوگوں کے درمیان کوئی عداوت وکدورت باقی رہے گی۔ نہ جنگ وجدل……اور چونکہ تمام مذاہب مٹ جائیں گے،اورچونکہ تمام مذاہب مٹ جائیں گے، اس لئے جزیہ بھی ختم ہوجائے گا۔

ادھر مرزاصاحب کی سبزقدمی سے اب تک دوعالمی جنگیں ہوچکی ہیں، روزانہ کہیں نہ کہیں جنگ جاری ہے اور تیسری عالمی جنگ کی تلوارانسانیت کے سروں پر لٹک رہی ہے اورمرزاصاحب جزیہ توکیا بندکرتے وہ اوران کی جماعت آج تک خودغیر مسلم قوتوں کی باج گزار ہے،اب انصاف فرمائیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی جویہ علامت حلفاً بیان فرمائی ہے کہ ان کے زمانے میں لڑائی بند ہوجائے گی اور جزیہ موقوف ہوجائے گا کیا یہ علامت مرزاصاحب میں پائی گئی؟ اگر نہیں، اور یقینا نہیں تومرزاصاحب کو مسیح ماننا کتنی غلط بات ہے۔

(ہ) قتل دجال

(ہ) قتل دجال

سیدناعیسیٰ علیہ السلام کا ایک عظیم الشان کارنامہ ”قتل دجال“ ہے۔ احادیث طیبہ کی روشنی میں دجال کا مختصر قصہ یہ ہے کہ وہ یہود کا رئیس ہوگا۔ابتداء میں نیکی وپارسائی کا اظہارکرے گا۔ پھر نبوت کا دعویٰ کرے گا اوربعد میں خدائی کا۔ (فتح الباری ج۳۱ص۱۷) وہ آنکھ سے کانا ہوگا۔ماتھے پر ”کافر“ یا (ک،ف،ر) لکھا ہوگا۔جسے ہرخواندہ وناخواندہ مسلمان پڑھے گا، اس نے اپنی جنت ودوزخ بھی بنارکھی ہوگی، (مشکوۃ ص ۳۷۴)۔ اصفہان کے سترہزار یہودی اس کے ہمراہ ہونگے (مشکوۃ ص ۵۷۴) شام وعراق کے درمیان سے خروج کرے گا، اور دائیں بائیں فسادپھیلائے گا، چالیس دن تک زمین میں اودھم مچائے گا،ان چالیس دنوں میں سے پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسراایک ماہ کے برابر،تیسرا ایک ہفتہ کے برابراور باقی ۶۳ دن معمول کے مطابق ہونگے۔ ایسی تیزی سے مسافت طے کرے گا جیسے ہواکے پیچھے بادل ہوں۔ (مشکوۃ ص ۳۷۴)

لوگ اس کے خوف سے بھاگ کرپہاڑوں میں چلے جائیں گے۔

حق تعالیٰ کی طرف سے اس کو فتنہ واستدراج دیا جائے گا۔اس کے خروج سے پہلے تین سال ایسے گزریں گے کہ پہلے سال ایک تہائی بارش اورایک تہائی غلہ کی کمی ہوجائے گی، دوسرے سال دوتہائی کی کمی ہوگی اور تیسرے سال نہ بارش کا قطرہ برسے گا اور نہ زمین میں کوئی روئیدگی ہوگی۔اس شدت قحط سے حیوانات اور درندے تک مریں گے۔جولوگ دجال پر ایمان لائیں گے ان کی زمینوں پر بارش ہوگی اور ان کی زمین میں روئیدگی ہوگی،ان کے چوپائے کھوکھیں بھرے ہوئے چراگاہ سے لوٹیں گے، او رجولوگ اس کو نہیں مانیں گے وہ مفلوک الحال ہوں گے، ان کے سب مال مویشی تباہ ہوجائیں گے۔ (مشکوۃ ص ۳۷۴أ۷۷۴)

دجال ویرانے پر سے گزرے گا تو زمین کو حکم دے گا کہ اپنے خزانے اگل دے۔چنانچہ خزانے نکل کر اس کے ہمراہ ہولیں گے۔ (مشکوۃ۔ص ۳۷۴)

ایک دیہاتی اعرابی سے کہے گا کہ اگرمیں تیرے اونٹ زندہ کردوں تو مجھے مان لے گا؟ وہ کہے گا ضرور! چنانچہ شیطان اس کے اونٹوں کی شکل میں سامنے آئیں گے اور وہ سمجھے گا کہ واقعی اس کے اونٹ زندہ ہوگئے ہیں اور اس شعبدہ کی وجہ سے دجال کو خدامان لے گا۔

اسی طرح ایک شخص سے کہے گا کہ اگر میں تیرے باپ اور بھائی کو زندہ کردوں تومجھے مان لے گا؟وہ کہے گا ضرور۔ چنانچہ اس کے باپ اور بھائی کی قبر پرجائے گا توشیاطین اس کے باپ اور بھائی کی شکل میں سامنے آکر کہیں گے ہاں! یہ خداہے، اسے ضرورمانو۔ (مشکوۃ:ص ۷۷۴)

اس قسم کے بے شمارشعبدوں سے وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے خاص مخلص بندے ہی ہوں گے جواس کے دجل وفریب اور شعبدوں اور کرشموں سے متاثر نہیں ہوں گے۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی جو شخص خروج دجال کی خبر سنے اس سے دوربھاگ جائے۔ (مشکوۃ۔ص ۷۷۴)

بالآخر دجال اپنے لاؤولشکر سمیت مدینہ طیبہ کا رخ کرے گا،مگر مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوسکے گا،بلکہ احد پہاڑ سے پیچھے پڑاؤکرے گا،پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کا رخ ملک شام کی طرف پھیر دیں گے، اور وہیں جاکر وہ ہلاک ہوگا۔ (مشکوۃ ص ۵۷۴)

دجال جب شام کا رخ کرے گا تو اس وقت حضرت امام مہدی علیہ الرضوان قسطنطنیہ کے محاذ پرنصاریٰ سے مصروف جہادہوں گے۔خروج دجال کی خبر سن کرملک شام کو واپس آئیں گے، اوردجال کے مقابلے میں صف آراء ہوں گے، نمازفجر کے وقت،جب کہ نمازکی اقامت ہوچکی ہوگی،عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کونماز کے لئے آگے کریں گے۔اورخود پیچھے ہٹ جائیں گے،مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام انہی کو نماز پڑھانے کا حکم فرمائیں گے (مشکوۃ ص۰۸۴)۔ نماز سے فارغ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کے مقابلہ کے لئے نکلیں گے۔وہ آپ کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑاہوگا۔ اور سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا۔آپ ”باب لد“ پر (جواس وقت اسرائیلی مقبوضات میں ہے) اسے جالیں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ (مشکوۃ ۳۷۴)امام ترمذیؒ حضرت مجمع بن جاریہؒ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادنقل کرکے کہ ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو باب لدپرقتل کریں گے“ فرماتے ہیں:۔

”اس باب میں عمران بن حصینؓ، نافع بن عقبہؓ، ابی برزۃؓ، حذیفہ بن اسیدؓ، ابی ہریرہؓ، کیسانؓ، عثمان بن ابی العاصؓ، جابرؓ، ابی امامہؓ، ابن مسعودؓ، عبداللہ بن عمرؓ، سمرہ بن جندبؓ، نواس بن سمعانؓ، عمربن عوفؓ، حزیفہ بن یمانؓ، (یعنی پندرہ صحابہؓ) سے احادیث مروی ہیں، یہ حدیث صحیح ہے۔“(ترمذی ص ۸۴ج۲)

یہ ہے وہ دجال جس کے قتل کرنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے اورجس کے قاتل کو سلام پہنچانے کا حکم فرمایا ہے۔

کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان ہی نہ رکھتاہوتواس کی بات دوسری ہے۔ لیکن جوشخص آپ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے اسے انصاف کرناچاہیے کہ کیا ان صفات کا دجال کبھی دنیا میں نکلا ہے اور کیاکسی عیسیٰ ابن مریم نے اسے قتل کیا ہے؟

جس طرح مرزاصاحب کی مسیحیت خودساختہ تھی اسی طرح انہیں دجال بھی مصنوعی تیارکرناپڑاچنانچہ فرمایا کہ عیسائی پادریوں کا گروہ دجال ہے، یہ بات مرزاصاحب نے اتنی تکرار سے لکھی ہے کہ اس کے لئے کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔

اول تو یہ پادری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے سے چلے آرہے تھے۔ اگر یہی دجال ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے ہی میں فرمادیتے کہ یہ دجال ہیں۔ پھر کیاوہ نقشہ اوردجال کی وہ صفات واحوال جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں، ان عیسائی پادریوں میں پائے جاتے ہیں۔

اوراگرمرزاصاحب کی اس تاویل کو صحیح بھی فرض کرلیا جائے تو عقل وانصاف سے فرمایا جائے کہ مرزاصاحب کی مسیحیت سے پادری ہلاک ہوچکے ہیں؟ اوراب دنیا میں کہیں عیسائی پادریوں کا وجودباقی نہیں رہا؟ یہ تو ایک مشاہدے کی چیز ہے جس کے لئے قیاس ومنطق لڑانے کی ضرورت نہیں۔ اگرمرزاصاحب کا دجال قتل ہوچکا ہے تو پھر یہ دنیا میں عیسائی پادریوں کی کیوں بھرمارہے؟ اوردنیا میں عیسائیت روزافزوں ترقی کیوں کررہی ہے؟

۶۔ مسیح علیہ السلام کے زمانے کا عام نقشہ

۶۔ مسیح علیہ السلام کے زمانے کا عام نقشہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بابرکت زمانے کا نقشہ بھی بڑی وضاحت وتفصیل سے بیان فرمایا ہے۔اختصار  ۱؎ ( ۱؎ تفصیل کے لئے دیکھئے مشکوۃ ”با ب العلامت بین یدی الساعتہ)کے مدنظر میں یہاں بطور نمونہ صرف ایک حدیث کا ترجمہ نقل کرتا ہوں جسے مرزامحمود احمد صاحب نے حقیقتہ النبوۃ کے صفحہ ۲۹۱ پر نقل کیا ہے۔ یہ ترجمہ بھی خودمرزامحموداحمدصاحب کے قلم سے ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

”انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ان کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں، اور دین ایک ہوتا ہے، اور میں عیسیٰ ابن مریم سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں، کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں، اور وہ نازل ہونے والا ہے پس جب اسے دیکھو تو پہچان لو کہ وہ درمیانہ قامت،سرخی سفیدی ملاہوارنگ، زردکپڑے پہنے ہوئے، اس کے سرسے پانی ٹپک رہاہوگا، گوسرپرپانی ہی نہ ڈالا ہو۔اوروہ صلیب کو توڑدے گا اورخنزیرکوقتل کردے گا اورجزیہ ترک کردیگا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے گااس کے زمانے میں سب مذاہب ہلاک ہوجائیں گے،اورصرف اسلام ہی رہ جائے گااورشیر اونٹوں کے ساتھ،چیتے گائے بیلوں کے ساتھ،بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے،اوربچے سانپوں سے کھیلیں گے،اوروہ ان کو نقصان نہ دیں گے۔عیسیٰ بن مریم چالیس سال زمین پر رہیں گے اورپھر وفات پاجائیں گے اورمسلمان ان کے جنازہ کی نمازپڑھیں گے۔“

اس حدیث کو بارباربنظرعبرت پڑھاجائے۔کیامرزاصاحب کے زمانے کا یہی نقشہ ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لڑائی بندہوجائے گی مگراخباری رپورٹ کے مطابق اس صدی میں صرف ۴۲دن ایسے گزرے ہیں جب زمین انسانی خون سے لالہ زارنہیں ہوئی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دورمیں امن وآشتی کا یہ حال ہوگا کہ دوآدمیوں کے درمیان توکیادودرندوں کے درمیان بھی عداوت نہیں ہوگی۔مگریہاں خودمرزاصاحب کی جماعت میں عداوت ونفرت کے شعلے بھڑک رہے ہیں، دوسروں کی توکیابات؟

۷۔ دنیا سے بے رغبتی اورانقطاع الی اللہ

۷۔ دنیا سے بے رغبتی اورانقطاع الی اللہ

صحیح بخاری شریف کی حدیث، جس کا حوالہ پہلے گزرچکا ہے کہ آخرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں مال سیلاب کی طرح بہہ پڑے گا،یہاں تک کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیاومافیھاسے بہتر ہوگا۔(صحیح بخاری ص۱۴ج۔۱)

اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے دنیا کوقیامت کے قریب آلگنے کا یقین ہوجائے گا، اس لئے ہرشخص پردنیا سے بے رغبتی اور انقطاع الی اللہ کی کیفیت غالب آجائے گی،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صحبت کیمیا اثراس جذبے کو مزیدجلابخشے گی۔دوسرے، زمین اپنی تمام برکتیں اگل دے گی اورفقروافلاس کا خاتمہ ہوجائے گا حتیٰ کہ کوئی شخص زکوٰۃ لینے والابھی نہیں رہے گا۔اس لئے مالی عبادات کے بجائے نماز ہی ذریعہ تقرب رہ جائے گی اور دنیا ومافیھا کے مقابلے میں ایک سجدے کی قیمت زیادہ ہوگی۔

جناب مرزاصاحب کے زمانے میں اس کے بالکل برعکس حرص اورلالچ کو ایسی ترقی ہوئی کہ جب سے دنیا پیداہوئی ہے اتنی ترقی اسے شاید کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔

حرف آخر

حرف آخر

چونکہ آنجناب نے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں خدااوررسول کی مخالفت ترک کرنے کی اس ناکارہ کوفہمائش کی ہے۔اسلئے میں جناب سے اورآپ کی وساطت سے آپ کی جماعت اور جماعت کے امام جناب مرزاناصر احمد سے اپیل کروں گا کہ خدااوررسول کے فرمودات کو سامنے رکھ کرمرزاصاحب کی حالت پر غورفرمائیں۔ اگر مرزاصاحب مسیح ثابت ہوتے ہیں توبے شک ان کو مانیں۔اوراگروہ معیارنبوی پر پورے نہیں اترتے تو ان کو ”مسیح موعود“ خدااوررسول کی مخالفت اور اپنی ذات سے صریح بے انصافی ہے۔اب جبکہ پندرھویں صدی کی آمد آمد ہے ( ؎  یہ مجلہ ۹۹۳۱ء  کے وسط میں آج سے بارہ سال پہلے لکھاگیا تھا۔ آج پندرھویں صدی کے بھی دس سال گزرچکے ہیں، اورچودھویں صدی کے ختم ہونے سے مرزاغلام احمدکادعویٰ قطعاً غلط ثابت ہوچکا ہے۔)  ہمیں نئی صدی کے نئے مجدد کے لئے منتظر رہنا چاہیے۔اورمرزاصاحب کے دعوے کوغلط سمجھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی تصدیق کرنی چاہیے۔کیونکہ خودمرزاصاحب کاارشاد ہے:

”اگرمیں نے اسلام کی حمایت میں وہ کام کردکھایا جومسیح موعود اورمہدی موعود کو کرناچاہیے توپھر میں سچاہوں اوراگرکچھ نہ ہوااورمیں مرگیاتوپھر سب گواہ رہیں کہ میں جھوٹاہوں۔‘‘

”پس اگرمجھ سے کروڑنشان بھی ظاہر ہوں اوریہ علت غائی ظہورمیں نہ آوے تومیں جھوٹا ہوں۔“(مرزاصاحب کا خط بنام قاضی نذرحسین، مندرجہ اخبار بدر ۹۱جولائی ۶۰۹۱ء)

جناب مرزاصاحب کا آخری فقرہ آپ کے پورے خط کا جواب ہے۔

پیش گوئیوں کی، بلندآہنگ دعووں کی، اشعارکی، رسالوں کی، کتابوں کی، پریس کانفرنسوں کی، پریس (وغیرہ وغیرہ) کی صداقت وحقانیت کے بازارمیں کوئی قیمت نہیں ہے۔ دیکھنے کی چیز وہ معیارنبویؐ ہے جوحضرت مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو عطافرمایا۔ اگرمرزاصاحب ہزارتاویلوں کے باوجود بھی اس معیارصداقت پر پورے نہیں اترتے تواگرآپ ان کی حقانیت پر ”کروڑ نشان“ بھی پیش کردیں تب بھی نہ”مسیح موعود“ بنتے ہیں اور نہ ان کومسیح موعود کہنا جائز ہے۔میں جناب کو دعوت دیتا ہوں کہ مرزاصاحب کے دعاوی سے دستبردارہوکرفرمودات نبویؐ پرایمان لائیں۔حق تعالیٰ آپ کواس کا اجردیں گے اوراگرآپ نے اس سے اعراض کیا تومرنے کے بعد انشاء اللہ حقیقت کھل کرسامنے آجائے گی۔

سبتعلیم لیلیٰ ای دین تدانیت
وای غریم فی التقاضی غریمھا
والحمد للہ اولاواخرا
فقط والدعا
محمدیوسف عفااللہ عنہ
ّّ————————————————————————————————-

Book Options

Author: Molana Yusu Ludhviani

Leave A Reply