سیرت النّبیؐ اور ہماری زندگی
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ واشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان سیدنا ونبینا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم تسلیماً کثیراً۔
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ لمن کان یرجو اللہ والیوم الاخر، وذکراللہ کثیرا (سورۃ الحزاب ۱۲)
آمنت باللہ صدق اللہ مولانا العظیم وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک من الشاھدین والشاکرین، والحمد للہ رب العالمین۔
آپ کاتذکرہ باعث سعادت
۲۱ ربیع الاول ہمارے معاشرے، ہمارے ملک اور خاص کر برصغیر میں باقاعدہ ایک جشن اور ایک تہوار کی شکل اختیارکرگئی ہے۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو سارے ملک میں سیرت النبی اور میلادالنبیؐ کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامبارک تذکرہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے برابر کوئی اور سعادت نہیں ہوسکتی۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپ کے مبارک تذکرہ کو اس ماہ ربیع الاول کے ساتھ بلکہ صرف ۲۱ ربیع الاول کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے، اور یہ کہاجاتا ہے کہ چونکہ ۲۱ ربیع الاول کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اس لئے آپ کا یوم ولادت منایا جائے گا۔ اور اس میں آپ کی سیرت اور ولادت کا بیان ہوگا۔
لیکن یہ سب کچھ کرتے وقت ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس ذات اقدس کی سیرت کا یہ بیان ہورہا ہے اور جس ذات اقدس کی ولادت کا یہ جشن منایاجارہا ہے، خود اس ذات اقدس کی تعلیم کیا ہے؟ اور اس تعلیم کے اندر اس قسم کا تصور موجود ہے یا نہیں؟
تاریخ انسانیت کا عظیم واقعہ
اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا میں تشریف لانا، تاریخ انسانیت کا اتناعظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم، اس سے زیادہ پرمسرت، اس سے زیادہ مبارک اور مقدس واقعہ اس روئے زمین پر پیش نہیں آیا، انسانیت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کانور ملا، آپ کی مقدس شخصیت کی برکات نصیب ہوئیں، یہ اتنا بڑاواقعہ ہے کہ تاریخ کا اور کوئی واقعہ اتنا بڑا نہیں ہوسکتا، اور اگر اسلام میں کسی کی یوم پیدائش منانے کا کوئی تصور ہوتا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش سے زیادہ کوئی دن اس بات کا مستحق نہیں تھا کہ اس کو منایا جائے، اور اس کو عید قراردیاجائے، لیکن نبوت کے بعد آپ ۳۲ برس اس دنیا میں تشریف فرمارہے، اورہر سال ربیع الاول کا مہینہ آتا تھا، لیکن نہ صرف یہ کہ آپ نے ۲۱ ربیع الاول کویوم پیدائش نہیں منایا، بلکہ آپ کے کسی صحابی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ نہیں گزرا کہ چونکہ ۲۱ ربیع الاول آپ کی پیدائش کا دن ہے۔ اس لئے اس کو کسی خاص طریقے سے منانا چاہیے۔
۲۱ ربیع الاول اور صحابہ کرام
اس کے بعدسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور تقریباً سوالاکھ صحابہ کرام کو اس دنیا میں چھوڑگئے، وہ صحابہ کرام ایسے تھے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سانس کے بدلے اپنی پوری جان نچھاور کرنے کے لئے تیار تھے۔ آپ کے جانثار، آپ پر فداکار، آپ کے عاشق زار تھے۔ لیکن کوئی ایک صحابی ایسا نہیں ملے گا جس نے اہتمام کرکے یہ دن منایا ہو، یا اس دن کوئی جلسہ منعقد کیاہو۔ یاکوئی جلوس نکالا ہو، یاکوئی چراغاں کیا ہو، یاکوئی جھنڈیا ں سجائی ہوں۔ صحابہ کرام نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اسلام کوئی رسموں کا دین نہیں ہے۔ جیساکہ دوسرے اہل مذاہب ہیں کہ ان کے ہاں چند رسومات اداکرنے کانام دین ہے۔، جب وہ رسمیں ادا کرلیں تو بس چھٹی ہوگئی۔ بلکہ اسلام عمل کا دین ہے۔ اور یہ تو جنم روگ ہے۔ یہ پیدائش سے لے کرمرتے دم تک ہر انسان اپنی اصلاح کی فکر میں لگا رہے۔ اور سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں لگا رہے۔
”کرسمس“ کی ابتدا
یوم پیدائش منانے کا یہ تصور ہمارے یہاں عیسائیوں سے آیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش کرسمس کے نام سے ۵۲/دسمبر کو منایاجاتا ہے۔ تاریخ اٹھاکردیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریباً تین سو سال تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش منانے کا تصور نہیں تھا، آپ کے حوارین اور صحابہ کرام میں سے کسی نے یہ دن نہیں منایا، تین سو سال کے بعد کچھ لوگوں نے یہ بدعت شروع کردی۔ اور یہ کہا کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش منائیں گے۔اس وقت بھی جولوگ دین عیسوی پر پوری طرح عمل پیرا تھے انہوں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ سلسلہ کیوں شروع کیا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں تو یوم پیدائش منانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ یہ کوئی ایسی بری بات تو نہیں ہے، بس ہم اس دن جمع ہوجائیں گے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کریں گے۔ ان کی تعلیمات کو یاددلائیں گے، اور اس کے ذریعہ سے لوگوں میں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا شوق پیداہوگا، اس لئے ہم کوئی گناہ کا کام تو نہیں کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ کہہ کر یہ سلسلہ شروع کردیا۔
”کرسمس“ کی موجودہ صورتحال
چنانچہ شروع شروع میں تو یہ ہوا کہ جب ۵۲/دسمبر کی تاریخ آتی تو چرچ میں ایک اجتماع ہوتا، ایک پادری صاحب کھڑے ہوکرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات اور آپ کی سیرت بیان کردیتے۔ اس کے بعد اجتماع برخواست ہوجاتا۔ گویا کہ بے ضرر اور معصوم طریقے پر یہ سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے سوچا کہ ہم پادری کی تقریر تو کرادیتے ہیں۔ مگر وہ خشک قسم کی تقریر ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان اور شوقین مزاج لوگ تو اس میں شریک نہیں ہوتے، اس لئے اس کو ذرا دلچسپ بنانا چاہیے، تاکہ لوگوں کے لئے دلکش ہو، اور اس کو دلچسپ بنانے کے لئے اس میں موسیقی ہونی چاہیے، چنانچہ اس کے بعد موسیقی پر نظمیں پڑھی جانے لگیں، پھر انہوں نے دیکھا کہ موسیقی سے بھی کام نہیں چل رہا ہے،اس لئے اس میں ناچ گانا بھی ہونا چاہیے، چنانچہ پھر اس میں ناچ گانا بھی شامل ہوگیا، پھر سوچا کہ اس میں کچھ تماشے بھی ہونے چاہئیں۔چنانچہ ہنسی مذاق کے کھیل تماشے شامل ہوگئے۔ چنانچہ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ وہ کرسمس جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات بیان کرنے کے نام پر شروع ہوا تھا، اب وہ عام جشن کی طرح ایک جشن بن گیا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ناچ گانا اس میں، موسیقی اس میں، شراب نوشی اس میں، قماربازی اس میں، گویا کہ اب دنیا بھر کی ساری خرافات کرسمس میں شامل ہوگئیں۔ اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پیچھے رہ گئیں۔
”کرسمس“ کا انجام
اب آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی ممالک میں جب کرسمس کا دن آتا ہے۔ تو اس میں کیا طوفان برپاہوتا ہے، اس ایک دن میں اتنی شراب پی جاتی ہے کہ پورے سال اتنی شراب نہیں پی جاتی۔ اس ایک دن میں اتنے حادثات ہوتے ہیں کہ پورے سال اتنے حادثات نہیں ہوتے، اسی ایک دن میں عورتوں کی عصمت دری اتنی ہوتی ہے کہ پورے سال اتنی نہیں ہوتی، اور یہ سب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش کے نام پر ہورہا ہے۔
میلادالنبی کی ابتدا
]اللہ تعالیٰ انسان کی نفسیات اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہیں، اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے کہ اگر اسکو ذرا سا شوشہ دیاگیا تو یہ کہاں سے کہاں بات کو پہنچائے گا۔ اس واسطے کسی کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں رکھا[ جس طرح ”کرسمس“ کے ساتھ ہوا، اسی طرح یہاں بھی ہوا کہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آگیا کہ جب عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یوم پیدائش مناتے ہیں تو ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ یہ کہہ کر اس بادشاہ نے میلاد کا سلسلہ شروع کردیا، شروع میں یہاں بھی یہی ہوا کہ میلاد ہوا جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ہوا اور کچھ نعتیں پڑھی گئیں۔ لیکن اب آپ دیکھ لیں کہ کہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے۔
یہ ہندوانہ جشن ہے
یہ تو حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ چودہ سوسال گزرنے کے باوجود الحمد اللہ وہاں تک ابھی نوبت نہیں پہنچی جس طرح عیسائیوں کے ہاں پہنچ چکی ہے۔ لیکن اب بھی دیکھ لو کہ سڑکوں پر کیا ہورہا ہے، کس طرح روضہئ اقدس کی شبیہیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ کس طرح کعبہ شریف کی شبیہیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ کس طرح لوگ اس کے اردگرد طواف کررہے ہیں کس طرح اس کے چاروں طرف ریکارڈنگ ہورہی ہے، کس طرح چراغاں کیا جارہا ہے، اور کس طرح جھنڈیاں سجائی جارہی ہیں۔ معاذ اللہ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ یہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا کوئی جشن نہیں ہے۔ بلکہ جیسے ہندوؤں اور عیسائیوں کے عام جشن ہوتے ہیں اس طرح کا کوئی جشن ہے اور رفتہ رفتہ ساری خرابیاں اس میں جمع ہورہی ہیں۔
یہ اسلام کا طریقہ نہیں
سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ سب کچھ دین کے نام پر ہورہا ہے، اور یہ سب کچھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام پر ہورہا ہے، اور سب کچھ یہ سوچ کر ہورہا ہے کہ یہ بڑے اجروثواب کا کام ہے۔ اور یہ خیال کررہے ہیں کہ آج ۲۱ ربیع الاول کو چراغاں کرکے، اور اپنی عمارتوں کو روشن کرکے، اور اپنے راستوں کو سجاکر ہم نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا حق اداکردیا، اور اگر ان سے پوچھاجائے کہ آپ دین پر عمل نہیں کرتے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں تو میلاد ہوتا ہے، ہمارے یہاں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش پر چراغاں ہوتا ہے، اس طرح دین کا حق اداہورہا ہے۔حالانکہ یہ طریقہ اسلام کاطریقہ نہیں ہے۔ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں ہے۔ آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ نہیں ہے۔ اور اگر اس طریقے میں خیروبرکت ہوتی تو ابوبکر صدیق، فاروق اعظم، عثمان غنی، اور علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم اس سے چوکنے والے نہیں تھے۔
بنیے سے سیانا سوباؤلا
میرے والد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ہندی زبان کی ایک مثل اورکہاوت سنایاکرتے تھے کہ ان کے ہاں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ:
(بنیے سے سیانہ سوباؤلا)
یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں تجارت میں بنیے سے زیادہ سیانا اور ہوشیار ہوں، اور اس سے زیادہ تجارت جانتا ہوں، تو وہ باؤلا اور پاگل ہے اس لئے کہ حقیقت میں تجارت کے اندر کوئی شخص بنیے سے زیادہ سیانہ نہیں ہوسکتا یہ کہاوت سنانے کے بعد حضرت والد صاحب فرماتے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں صحابہ کرام سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہوں اور صحابہ کرام سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں۔ وہ حقیقت میں پاگل ہے، بے وقوف اور احمق ہے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام سے بڑاعاشق اور محب کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
آپ کا مقصد بعثت کیا تھا؟
صحابہ کرام کایہ حال تھا کہ نہ جلوس ہے، نہ جلسہ ہے، نہ چراغاں ہے نہ جھنڈی ہے، اور نہ سجاوٹ ہے۔ لیکن ایک چیز ہے۔ وہ یہ کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ زندگیوں میں رچی ہوئی ہے۔ ان کاہردن سیرت طیبہ کا دن ہے۔ ان کا ہر لمحہ سیرت طیبہ کا لمحہ ہے۔ ان کا ہر کام سیرت طیبہ کا کام ہے۔ کوئی کام ایسا نہیں تھا جو سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے خالی ہو۔چونکہ وہ جانتے تھے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ اپنا دن منوائیں اور اپنی تعریفیں کرائیں۔ اپنی شان میں قصیدے پڑھوائیں، خدانہ کرے اگر یہ مقصود ہوتا تو جس وقت کفار مکہ نے آپ کو یہ پیش کش کی تھی کہ اگر آپ سردار بنناچاہتے ہیں تو ہم آپکو اپناسردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر آ پ مال ودولت کے طلب گار ہیں تو مال ودولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لانے کے لئے تیارہیں، اگر آپ حسن وجمال کے طلب گار ہیں تو عرب کا منتخب حسن وجمال آپ کی خدمت میں نذرکیاجاسکتا ہے۔ بشرطیکہ آپ اپنی تعلیمات کو چھوڑدیں، اور یہ دعوت کا کام چھوڑدیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ چیزیں مطلوب ہوتیں توآپ ان کی اس پیش کش کو قبول کرلیتے۔ سرداری بھی ملتی، روپیہ پیسہ بھی مل جاتا، اور دنیا کی ساری نعمتیں حاصل ہوجاتیں۔لیکن سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ میں آفتاب اور ایک ہاتھ میں ماہتاب بھی لاکر رکھ دوگے، تب بھی میں اپنی تعلیمات سے ہٹنے والا نہیں ہوں۔
############
############