رمضان المبارک میں فرائض(فرض نمازوں) کے اہتمام کی خاص ضرورت ہے حدیث پاک میں ہے “رمضان المبارک میں ایک فرض کا ادا کرنا  ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر (۰۷) فرض کو ادا کرنا”

کتاب کا نام: اعمال رمضان کتاب تحفہ رمضان سے انتخاب

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

اعمال رمضان

اعمال رمضان
کتاب تحفہ رمضان سے انتخاب

مصنف
مفتی ابو سلمہ عبد ا للّٰہ نعمانی

ناشر
مدرسہ مفتاح ا لعلوم و اسلامیہ
جامع مسجد پیپلز چورنگی، بطحہ ٹاؤن،
بلاک این، نارتھ ناظم آباد کراچی

اعمال رمضان

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

(اعمال رمضان)

رمضان المبارک میں فرائض(فرض نمازوں) کے اہتمام کی خاص ضرورت ہے حدیث پاک میں ہے “رمضان المبارک میں ایک فرض کا ادا کرنا  ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر (۰۷) فرض کو ادا کرنا”گویا نیکیوں کا بھاؤ بڑھ جاتا ہے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ دینے بیٹھے ہیں اور ہم ہیں کہ اوقات برباد کر رہے ہیں فجر کی نماز ہماری  سحری کھا کر سستی میں ہی صرف ہو جاتی ہے ظہر اگر ہوئی تو ٹھیک ورنہ جماعت اسکی بھی چلی گئی۔عصر افطار خریدنے میں صرف ہو گئی مغرب کی جماعت افطار کرنے میں صرف ہوگئی اور عشاء اور تراویح افطار کی وجہ سے سستی میں  گھر ہی پر پڑھ لی یہ تو ہمارے فرائض کا حال ہے۔ مظاہر حق میں لکھا ہے کہ جو شخص بغیر عذر کے بدون جماعت پڑھتا ہے اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جاتا ہے مگر اس کو نماز کا ثواب نہں ملتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ر ضان المبارک میں ایسا ٹائم ٹیبل بنائیں کہ خاص طور پر فرائض وواجبات اور عام طور پر دیگر معمولات میں سستی یا بازار کی نذر نہ ہوں بلکہ ان مختصر اوقات (۹۲،۰۳دن) کو ہم وصول کرنے والے ہوں۔

رمضان المبارک کے بارے میں حدیث پاک میں آتا ہے کہ اس میں جو آدمی نفل نیکی کرے گا اسکا ثواب دوسرے زمانہ (رمضان کے علاوہ) کی  فرض نیکی کے برابر ملے گا۔

حضرات صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق و شوق ایسا تھا کہ انہوں نے اپنی ساری توانائی و طاقت عبادات میں صرف کرنا طے کر لیا تھا۔  خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم با وجود ساری بشارتوں اور وعدوں کے جن کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یقین تھا پھر بھی اتنی لمبی نماز (تہجد ودیگر نوافل) پڑھتے تھے کہ  پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔ آپ صلی علیہ و سلم روکنے پر فرماتے تھے کہ “کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں “۔

آہ!آج ہم عشق نبوی ﷺکے دعوے کرتے ہیں اور صرف میٹھی میٹھی سنتوں پر عمل کرتے ہیں اور مشقتوں والی سنتیں دوسروں کے لیے چھوڑے  ہوئے ہیں۔نماز پڑھنا توبہت دور کی بات ہے نماز کو صحیح کرنے کی فکر ہم نے نہیں کی۔ دنیا کی ساری چیزوں کو سیکھنے کا وقت ہے اگر وقت نہیں ہے تو نمازیں سیکھنے کا وقت  نہیں ہے۔ اگر کسی سے نماز کی سنتیں پوچھی جائیں تو بغل جھانکے گا اور پھر بھی عشق نبوی ﷺکا دعویٰ۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی نمازیں ایسی بنائیں کہ اللہ تعالیٰ سے باتیں  کرنے میں وہ مزہ آئے جو دنیا سے ہمیں غافل کر دے اور اُسی(اللہ)کابنا دے۔ اس میں تجوید(قرآن صحیح پڑھنا) سے پڑھنا سیکھیں۔ رمضان کا مہینہ اس کام کے لیے بہترین ہے۔

کثرت نوافل در رمضان

کثرت نوافل در رمضان

رمضان المبارک کے علاوہ گیارہ مہینے جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو رمضان میں پڑھنے کی خوب کوششں کریں جیسے تہجد، اشراق، چاشت، اوابین،وغیرہ کا اہتمام ہو۔ سحری سے کچھ دیر پہلے اٹھ کر چار،چھ رکعات ضرور پڑھ لیں اس وقت اللہ تعالیٰ دینے بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ بہت اہم نماز ہے اولیاء عظامؒ کی روحانی ترقی میں تہجد کا بڑا دخل ہے۔ اس کے علاوہ صلوٰۃ التسبیح کا اہتمام ہو۔ جس کا طریقہ آگے آ رہا ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آدمی جس طرح گزارتا ہے پورے گیارہ مہینے پر اُس کا اثر پڑتاہے اگر نیک اعمال میں وقت گزارہ ہو گا تو پورا سال نیک اعمال میں گزرے گا۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ! ان نوافل کے متعلق اپنی اپنی مساجد کے ائمہ اور مفتی صاحبان سے معلومات حاصل کرکے اُس پر عمل کریں۔

صلوٰۃ  التسبیح

صلوٰۃ  التسبیح

حضرت عبد اللہ عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباسؓ سے فرمایا اے عباسؓ اے میرے محترم چچا  کیا میں آپ کے دس کام اور دس خدمتیں کروں؟ (یعنی آپ کو ایک ایسا عمل بتاوں جس سے آپ کو دس عظیم الشان فائدے حاصل ہوں،وہ ایسا عمل ہے کے) جب آپ اس کو  کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (۱) اگلے بھی (۲) پچھلے بھی (۳) اور نئے بھی(۴) اور پرانے بھی(۵) بھول چوک سے ہونے والے بھی  (۶)دانستہ ہونے والے بھی (۷) صغیرہ بھی اور (۸)کبیرہ بھی (۹) اور علانیہ ہونے والے بھی (۰۱) اور پوشیدہ ہونے والے بھی۔(اوروہ صلوٰۃ التسبیح ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ) آپ چار رکعت نماز پڑھیں اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور دوسری کوئی سورۃ پڑھیں،پھر جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو جائیں تو قیام  ہی کی حالت میں پندرہ دفعہ کہیں۔
سُبْحَانَ  اللّٰہِ  وَ  الْحَمْدُ  لِلّٰہِ  وَ  لَا  اِلہَ  اِلاَ  اللّٰہَ  وَ  اللّٰہُ   اَکْبَر
پھر اس کے بعد رکوع کریں اور رکوع میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ پڑھیں پھر رکوع سے اٹھ کر قومہ میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں پھر سجدہ میں چلے جائیں  اور اس میں بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں پھر سجدہ سے اٹھ کر جلسہ میں یہی کلمہ دس دفعہ کہیں پھر دوسرے سجدہ میں  بھی یہی کلمہ دس دفعہ کہیں پھر دوسرے سجدہ کے بعد بھی  (کھڑے ہونے سے پہلے) یہ کلمہ دس دفعہ کہیں چاروں رکعتیں اسی طرح پڑھیں اور اس ترتیب سے ہر رکعت میں یہ کلمہ پچھتر دفعہ کہیں (میرے چچا) اگر آپ سے ہو سکے   تو روزانہ یہ نماز پڑھا کریں اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں اور اگر آپ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور اگر یہ بھی نہ کر سکیں  تو کم از کم زندگی میں ایک دفعہ پڑھ ہی لیں۔ (معارف الحدیث، بحوالہ سنن ابی داؤد)
ایک اور روایت:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ کو حبشہ بھیج دیا تھا۔جب وہ وہاں سے واپس مدینہ منورہ پہنچے تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گلے سے لگایا اور ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور فرمایا میں تمہیں ایک (خاص) چیز دوں ایک خوشخبری سناؤں ایک بخشش دوں ایک تحفہ دوں؟  انہوں نے عرض کیا ضرور دیجیے حضوراقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا چار رکعت نماز پڑھو مراد صلوٰۃ التسبیح ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک اور صلوٰۃ التسبیح:
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے صلوٰۃ التسبیح کے بارے میں فرمایا کہ چار رکعت کی نیت باندھ کر پہلے تکبیر تحریمہ کہیں پھر ثناء پڑھیں   پھر  پندر ہ  دفعہ  سُبْحَانَ  اللّٰہِ  وَ  الْحَمْدُ  لِلّٰہِ   وَ  لَا  اِلہَ  اِلاَ  اللّٰہَ  وَ  اللّٰہُ   اَکْبَر پڑھیں  پھر  ا عو ذ با  للّٰہ،   بسم  اللّٰہ،  فاتحہ  اور کوئی سورت  پڑھیں  پھر  دس  دفعہ  سُبْحَانَ  اللّٰہِ  وَ  الْحَمْدُ  لِلّٰہِ   وَ  لَا  اِلہَ  اِلاَ  اللّٰہَ  وَ  اللّٰہُ   اَکْبَر پڑھ کر رکوع  میں  جائیں  رکوع  میں  پھر  ان  تسبیحات  کو  دس  دفعہ  پڑھیں  پھر  قومہ  میں  دس دفعہ پڑھیں پھر سجدہ میں دس دفعہ پڑھیں پھر جلسہ میں دس دفعہ پڑھیں پھر دوسرے سجدہ میں دس دفعہ پڑھیں اسی ترتیب سے چار رکعت پوری کریں اس طرح ہر رکعت میں پچھتر(۵۷) تسبیحات ہو گئیں ہر رکعت کے شروع میں تسبیحات پندرہ دفعہ پڑھیں پھر قرأت کریں گے پھر رکوع سے پہلے اس تسبیحات کو دس دفعہ  پڑھیں گے۔
حضرت  عبد  اللہ بن  مبارک  رحمتہ  ا للہ علیہ  نے  یہ  بھی  فرمایا  کہ  رکوع  اور  سجدے  سے  پہلے  تین  دفعہ   سبحان  ربی  ا لعظیم  اور  سبحان  ربی  الا علی    پڑھیں  اس  کے  بعد  مذکورہ  تسبیحات  کو  پڑھیں۔
آپ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر اس نماز میں سجدہ سہو پیش آئے تو کیا اس کے دونوں سجدوں میں بھی یہ تسبیحات دس دس  دفعہ پڑھیں؟ تو آپ نے  فرمایا نہیں کیونکہ ان کی مجموعی تعداد تین سو دفعہ ہے جو سجدہ سہو میں پڑھے بغیر پوری ہو جاتی ہیں۔  (ترمذی جلد نمبر۱ص۴۶)
اس حدیث مبارکہ سے بھی صلوٰۃ التسبیح کی خاص ترغیب معلوم ہوئی لہٰذا اس نماز کے پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
٭حضرت عبد اللہ العزیز بن داؤدؒ جو حضرت عبد اللہ بن مبارک ؒ سے بھی اونچے درجے کے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنت کا طالب ہو  اس کو صلوٰۃ التسبیح ضرور پڑھنی چائیے۔
٭حضرت ابو عثمان زاہد ؒ فرماتے ہیں غموں اور مصیبتوں کے وقت میں نے صلوٰۃ التسبیح سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں دیکھا یعنی اس کے پڑھنے  سے رنج و غم اور مصیبتیں دور ہو جاتی ہیں۔  (معارف السنن)
٭حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ صلوٰۃ التسبیح پڑھا کرتے تھے اور یہی صلحاء کا طریقہ رہا ہے کہ اس نماز کو ایک دوسرے سے لیا کرتے تھے یعنی  اس کو ایک دوسرے سے سیکھتے اور حاصل کرتے اور اس کا معمول بنایا کرتے تھے۔  (بذل المجہود)
صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا وقت

صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا وقت

جن اوقات میں نفل نمازیں ادا کرنا مکروہ اور منع ہیں جیسے صبح صادق سے طلوع آفتاب تک اور عصر کے فرضوں کے بعد سے غروب آفتاب تک عین  طلوع آفتاب، زوال اور غروب کے وقت اس نماز کو پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کے علاوہ دن اور رات کے باقی تمام اوقات میں پڑھنا جائز ہے البتہ زوال کے بعد یعنی  جب دوپہر کو آفتاب ڈھل جائے اس وقت ظہر سے پہلے یہ نماز پڑھنا بہترہے اس وقت کسی وجہ سے نہ پڑھی جا سکے توجس وقت ممکن ہو رات میں یا دن میں اس کو  پڑھا جا سکتا ہے۔ (شامیہ)

اس نماز کو روزانہ پڑھنا چاہئے یہ نہ ہو سکے تو ہر جمعہ کو یعنی ہفتہ میں ایک مرتبہ پڑھنا چاہئے یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک مرتبہ پڑھنا چاہئے  یہ بھی نہ ہو سکے تو عمر بھر میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ لینا چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہر جمعہ کو زوال کے بعد نماز جمعہ سے پہلے یہ نماز پڑھا کرتے تھے اس نماز کے بارے میں  یہی درمیانی درجہ ہے لہٰذا جمعہ کو زوال کے بعد صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔

ذکر اللہ اور درود شریف کی کثرت

ذکر اللہ اور درود شریف کی کثرت

اُس کے علاوہ جب بھی ان اعمال مذکورہ سے وقت ملے تو ہم ذکر میں مشغول رہیں۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہم کثرت سے اللہ کے ذکر کا  اہتمام کریں۔

حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”اس مہینے میں (رمضان میں) چار چیزوں کی کثرت کرو۔ جن میں دو چیزیں اللہ تعالی کے  لئے (جو اصل مقصود اور مطلوب ہے) اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارہ کا ر نہیں ہے۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار  کی کثرت ہے۔ اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو”

اس لئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ آدمی ان چار کلمات کو یوں کثرت سے پڑھتا رہے۔

لاَ  اِلَہَ الا  اللّٰہُ  نَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ  نَسْءَلُکَ  اْلجَنَّۃ  وَ  نَعُوْذُ وْ بِکَ  مِنَ  النَّار

ذکر میں استغفار کا اہتمام کریں۔ نیز کثرت سے درود شریف کا اہتمام ہونا چاہیے کہ اس سے عشق نبوی ﷺ پیدا ہوتا ہے جو سنتوں پر زندگی کے آنے   کا  بہترین  سبب  بنتا ہے۔  نیز  کلمہ طیبہ،  تیسرا کلمہ  اور  سُبْحَانَ  اللّٰہِ  وَ بِحَمْدِہِ  سُبْحَانَ  اللّٰہِ  الْعَظِیْم  ہر  و قت  پڑھتے  رہیں۔  اس  کے  علاوہ  جو  بھی  ذکر  یاد  ہو  اپنی زبان پر ہر وقت جاری رکھیں۔

بس اصل بات یہ ہے کہ ہم رمضان المبارک کو صحیح انداز میں وصول کرنے والے بنیں ورنہ رمضان گزرنے کے بعد افسوس کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔

وائے    ناکامی   متاع    کارواں    جاتا    رہا

کارواں  کے  دل  سے  احساس  زیاں  جاتا  رہا

تعلق قرآن از رمضان

تعلق قرآن از رمضان

متعدد روایات سے یہ مضمون ثابت ہے کہ حق اللہ تعالی شانہ کے دربار میں کلام پاک سے بڑھ کر تقرب کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ (فرائض  کی ادائیگی کے بعد)۔

امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ میں نے حق تعالی شانہ کی خواب میں زیارت کی تو پوچھا کہ سب سے بہتر چیز جس سے آپ کے دربار میں تقرب ہو،  کیا چیز ہے، ارشاد ہوا کہ “احمد میرا کلام ہے” (قرآن کریم) میں نے عرض کیا کہ سمجھ کر یا بلا سمجھے۔ ارشاد ہوا کہ سمجھ کر پڑھے یا بلا سمجھے دونوں طرح مؤجب تقرب ہے۔

تراویح کے اہتمام کے علاوہ (جس کا مختصر تذکرہ تراویح کے بیان میں گذر چکا ہے) کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام ہو نا چاہئے۔  ویسے تو روزانہ ایک مسلمان کا معمول تلاوت کا ہونا چاہئے کہ یہ قرآن شریف کا حق ہے بندہ پر۔ لیکن رمضان میں اس کا خاص اہتمام ضروری ہے۔ کیونکہ رمضان  المبارک کو قرآن کریم سے خاص مناسبت ہے۔

قرآن کریم کا نزول رمضان المبارک کی ایک بابرکت رات (شب قدر) میں ہوا ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں حضرت  جبرائیل ؑ کے ساتھ قرآن پاک کا ورد کیا کرتے تھے۔ (گردان کرتے تھے)۔

حضرت عمرؓ عشاء کی نماز کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور صبح تک نماز میں گذار دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ صرف رات کے اول حصے میں تھوڑا  سا آرام کرتے اور پوری رات عبادت میں گذار دیتے ایک ایک رکعت میں پورا قرآن شریف پڑھ لیتے تھے۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ رمضان المبارک میں روزانہ ایک قرآن کریم دن میں اور ایک رات میں ختم فرماتے تھے اور ایک قرآن کریم پورے  رمضان میں تراویح کے دوران ختم فرماتے تھے گویا اس طرح پو رے رمضان المبارک میں اکسٹھ (۱۶) قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ اللہ اکبر کبیرا (اللہ ہمیں بھی  اہتمام تلاوت نصیب فرمائے)۔

حضرت امام شافعیؒ رمضان المبارک میں دن رات کی نمازوں میں ساٹھ (۰۶) قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے۔

حضرت علامہ ابن عابد بن شامیؓ رمضان المبارک کے دن رات میں روزانہ ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ گویا پورے رمضان میں ۰۳ قرآن  ختم کرتے تھے۔

حضرت گنگوہیؒ کے متعلق لکھا ہے کہ”یوں تو رمضان المبارک میں آپ کی ہر عبادت میں بڑہوتری ہو جاتی تھی مگر تلاوت قرآن کریم کا شغل  خصوصیت کے ساتھ اتنا تھا کہ نمازوں اور نمازوں کے بعد تقریباََ آدھا قرآن کریم ختم کرنے کا معمول رہا۔ واضح رہے اس وقت حضرت کی عمر ستر(۰۷)  سال سے متجاوز تھی۔

اس کے علاوہ حضرت شیخ الہندؒ، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ وغیر ہم اور ان حضرات کے مشائخ کے معمولات ایسے تھے کہ ہم صرف تمنا ہی کرتے  رہ جاتے ہیں۔(اس سلسلے میں فضائل رمضان حضرت شیخ زکریاؒ کا مطالعہ ضرور کریں)

اس پر فتن دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ جن کی رمضان کی راتیں رب تعالیٰ سے راز و نیاز کرتے ہوئے گذر جاتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی  دنیا کی فکر چھوڑ کر خاص طور پر اس مہینے میں دین کی فکر میں لگا دے کہ یہی حقیقی دولت ہے۔ لہٰذا اللہ تعالی ہم سب کو کثرت تلاوت قرآن کریم کی توفیق نصیب  فرمائے اور پھر قبول فرمائے۔ (آمین)۔

سنتوں کا اتباع

سنتوں کا اتباع

رمضان المبارک بہترین موقع ہے کہ اس میں آدمی اپنی زندگی کے اندر خوشگوار اور انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کے لئے یہ طے کرے کہ سنتوں پر زندگی  گذارنی ہے۔ کھانا، پینا، سونا، جاگنا، بیت الخلاء جانا، نکلنا، مسجد جانا، نکلنا، بازار جانا، گھر جانا، نمازوں کی سنتیں ان تمام معمولات اور پو رے چوبیس گھنٹے ایسے گذریں  کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ زندہ ہو رہا ہو۔ کہ اصل کامیابی اسی میں ہے۔ ان سنتوں کو سیکھیں۔ اور یہود و نصاری کے طرز زندگی کو ہم ہمیشہ کے لئے  چھوڑنے کا پختہ عہد کر لیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو سنتوں کا اتباع نصیب فرما کر عشق نبوی ﷺ نصیب فرمائے۔ (آمین)۔

صدقات کی کثرت

صدقات کی کثرت

رمضان المبارک میں زکوٰۃ کے علاوہ ہم نفلی صدقات کا زیادہ اہتمام کریں۔ حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا دریا  ویسے تو پورے سال موجزن رہتا تھا لیکن رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ایسی ہو تی تھی جیسے جھونکیں مارتی ہوائیں چلتی ہیں۔ جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اس کو نوازتے۔

 ایک حدیث پاک میں ہے کہ جو شخص بھوکے کو روٹی کھلائے یا ننگے کو کپڑا پہنائے یا مسافر کو شب باشی کی جگہ دے حق تعالی شانہ قیامت کے ہولوں  (خوف) سے اس کو پناہ دیتے ہیں۔

حدیث پاک میں ہے کہ صدقہ حق تعالی کے غصہ کو سرد کر دیتا ہے اور بری موت سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔

یحییٰ بر مکی حضرت سفیان ثوریؒ پر ہر ماہ ایک ہزار درہم خرچ کرتے تھے تو حضرت سفیان ثوریؒ سجدے میں ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ یا اللہ یحییٰ  نے میری دنیا کی کفایت کی تو اپنے لطف سے اسکی آخرت کی کفایت فرما۔ جب یحییٰ ؒ کا انتقال ہوا تو لوگوں نے خواب میں ان سے پوچھا کہ کیا گذری انہوں نے کہا کہ  سفیان کی دعا کی بدولت مغفرت ہوئی۔ (یہاں صدقہ سے مراد صدقہ نافلہ ہے)

گناہوں سے بچنا

گناہوں سے بچنا

فضائل روزہ اور اعتکاف وغیرہم کے بیان میں گذر چکا ہے کہ روزہ رکھ کر حرام سے افطاری کا وبال کیا ہے۔ نیز غیبت، جھوٹ، بہتان، طعنہ دینا،  جھگڑا کرنا، گالی گلوچ کرنا، یہ سب اعمال روزہ کی برکت کو ختم کر دیتے ہیں۔ (جس کا بیان حدیث کے حوالے سے گذر چکا ہے) اس مہینے میں ہم اپنے آپ کو خاص طور پر فضول   بحث اور لغویات سے بچائیں۔ آج کل ایک عام مزاج  ہے کہ مسجد میں ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے پھر اس کی غیبت، اس پر الزام، اس سے جھگڑا، اسکو گالی دی، اس سے بچنے کی  بہت ضرورت ہے۔ مسجد تو عبادت کی جگہ ہے اس میں ان سب باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ذکر و تلاوت وغیرہ میں گذارنا چاہئے۔  اور رمضان کے اس مبارک مہینے کو اپنی مغفرت کا ذریعہ بنانا چاہئے۔ فضول بحث و مباحثہ اور لغویات میں پڑنے سے بہتر ہے کہ بندہ گھر جا کر سو جائے۔ اکبر الہ آبادی  کا شعر ہے کہ   ؎

مذہبی  بحث  میں  نے  کی  ہی  نہیں
فالتو  عقل  مجھ  میں  تھی  ہی  نہیں

نیز ہم اپنی عبادات پر نازاں نہ ہوں اور لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں کہ فلاں تو مسجد میں نظر ہی نہیں آتا۔ تمہیں کیا پتہ وہ تنہائی میں عبادت کرتا ہو نیز  اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذمہ دار نہیں بنایا۔ ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے، دوسروں کو حقیر سمجھ کر اپنی عبادات کے متعلق حسن ظن میں مبتلا ہونا اپنے اعمال کو  برباد کرنے کے برابر ہے۔

شیخ سعدی ؒفرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد صاحب ؒنے مسجد میں تہجد کے لئے اُٹھایا۔ میں نے اُٹھ کر کہا کہ تہجد کا وقت ہے اور سب سو رہے ہیں  (واضح رہے کہ تہجد سنت ہے، فرض نہیں) تو فرماتے ہیں کہ والد صاحب نے عجیب نصیحت فرمائی کہ سعدی ” ان کا سونا تیرے اُٹھنے سے بہتر ہے” گویا تو اُٹھ کر اُنکی  برائیوں میں مبتلا ہو گیا، جو کہ حرام ہے۔ لہٰذا اس عمل سے بہت بچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کسی مسلمان کے بارے میں غلط باتوں میں مشغول ہوں۔

اسی طرح ہم اپنے گھروں سے ٹی وی، وی سی آر، اور کیبل وغیرہ کو نکالیں کہ یہ آج کل سب سے بڑا بے حیائی فسق و فجور اور بے برکتی کا ذریعہ ہے۔ اپنے گھروں  کو ان چیزوں سے پاک کریں اور اپنے گھروں کو اللہ کے حکموں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے آباد اور منورکریں۔

رمضان اور دعا

رمضان اور دعا

٭  حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رمضان المبارک کی ہر شب و روز میں اللہ کے یہاں سے (جہنم کے)  قیدی چھوڑے جاتے ہیں اور ہر مسلمان کے لئے ہر شب و روز میں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (الترغیب)

٭  روایت میں آتا ہے کہ افطار کے وقت کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ (فضائل رمضان ۰۲)

٭  حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت سے ترغیب میں نقل کیا ہے کہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر کے تلاش کرنے والے  متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور ائے برائی کے طلبگار بس کر اور آنکھیں کھول، اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے  والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، کوئی مانگنے والاہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔  (الترغیب)

٭  ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہ‘ رمضان میں عرش کے اُٹھانے والے فرشتوں کو حکم فرما دیتے ہیں کہ اپنی اپنی عبادتوں کو چھوڑو اور روزہ داروں  کی دعا پر آمین کہا کرو۔  (فضائل رمضان ۶۲)

٭  حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے کہ جب رمضان آتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی  فرماتے تھے اور خوف غالب ہو جاتا تھا (فضائل رمضان بحوالہ در منشور)۔ویسے بھی دعا کے فضائل قرآن و حدیث میں بے شمار ہیں۔ اللہ تعالیٰ مانگنے والوں سے خوش ہوتے اور نہ  مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں۔

لہٰذا ایسا بابرکت مہینہ جو مہمانوں کی شکل میں ہمارے درمیان آرہا ہے اور جس میں دعا کی اس قدر فضیلت ثابت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ خود گڑگڑا  کرعاجزی کے ساتھ اپنے لئے، والدین، اساتذہ، مشائخ، اولاد، محسنین اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت، آخرت کی کامیابی اور  اللہ کی رضا مانگے۔

٭  حضرت عمرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا بخشا بخشایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے والا نامراد  نہیں رہتا۔  (بیہقی)

دعا کے متعلق کچھ ضروری آداب

دعا کے متعلق کچھ ضروری آداب
اااا

٭ اللہ تعالیٰ شانہ‘ سے دعاکے لئے اخلاص بہت ضروری ہے، اگر اخلاص نہیں ہوگا تو دعا قبول نہ ہوگی۔

٭ دعا کی قبولیت میں جلد بازی نہ کرئے مثلاً یوں کہنا کہ” دعا کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا قبول ہی نہیں ہوئی” وغیرہ۔

٭ بہتر ہے کہ قبلہ رخ ہو کر دعا کرئے۔

٭ دعا مانگنے سے پہلے اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنا، یہ مستحب ہے۔

٭ دعا مانگنے کے اول اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا (اس سے دعا قبول ہوئی ہے)۔

٭ کسی دعا پر اصرار نہ کریں مثلاً یوں کہنا کہ ائے اللہ تجھے میری اس دعا کو قبول کرنا ہی ہوگا۔
٭ اپنے گناہوں کا اقرار کرئے۔

٭ پہلے اپنی ذات کے لئے دعا کریں، پھر ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا کرئے۔

٭ دعا سے فارغ ہو کر دونوں ہاتھ منہ پر پھیر دیں۔

(دعا کا وقت)
دعا کا وقت

ویسے تو ہر فرض نماز کے بعد دعا ضرورکریں کیونکہ حدیث میں ہے کہ اس وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ اسی طرح تہجد کے وقت کے متعلق بھی حدیث میں ہے   کہ دعا قبول ہوتی ہے۔ اس وقت بھی خوب دعا کریں۔ حدیث پاک میں ہے کہ ہر شب و روز میں مسلمان کی ایک دعاضرور قبول ہوتی ہے اس لئے اس اہم ترین عبادت میں ہماری  طرف سے کوتاہی نہ ہو۔ مانگنا اسی خالق و مالک و رزاق سے ہے اور خوب مانگنا ہے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ افطار کے وقت یہ دعا پڑھے۔

اَللّٰھُمَّ لََکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ      (ابوداؤد شریف)

ترجمہ: اے اللہ میں نے تیرے ہی واسطے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔

نیز حدیث پاک میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار سے پہلے یہ دعا مانگتے رہتے تھے۔

یَا وَاسِعَ الفَضْلِ اِغْفِرْلِیْ

ترجمہ: اے وسیع بخشش کرنے والے، میری مغفرت فرما دیجئے۔

نوٹ: افطاری سے کم از کم ۰۱۔ ۵۱ منٹ پہلے سب کاموں سے فارغ ہو کر اس اہم عبادت (دعا) میں ہمیں مشغول ہو جانا چاہئے۔ اور یہ دعا کا عمل صرف  رمضان کے ساتھ ساتھ خاص نہیں بلکہ پوری زندگی ہمیں اس کو کرنا ہے۔ اگر اس وقت حزب الاعظم (ملا علی قادری رحمۃ اللہ علیہ) یا مناجاتِ مقبول (حضرت تھانویؒ)  پڑھ لیں تو بہت اچھا ہے لیکن ترجمہ کے استحضار کے ساتھ پڑھیں، اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو حسب ذیل دعا بزبان اردو ہے اس کو ہم استحضار اور دلجمعی کے ساتھ مانگنے کا  اہتمام کریں۔ اس حقیر کو بھی اپنی مخصوصانہ و مشفقانہ و مخلصانہ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں کہ بندہئ عاصی انتہائی محتاج ہے۔ (مرتب)

(خاص طور پر کچھ دعائیں ضرور مانگیں)

خاص طور پر کچھ دعائیں ضرور مانگیں

اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف کردے، ہمارے ماں باپ، بھائی، بہنیں، اساتذہ، مشائخ، شاگردوں، بیوی، بچے اور ساری امت کے  گناہوں کو معاف فرما۔۔۔۔۔۔۔ائے اللہ رمضان المبارک کی حقیقی قدردانی ہمیں نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ گناہوں کی نفرت دلوں میں ڈال دے اور نیکیوں کا شوق  اور جذبہ پیدا فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ آپ کی محبت دل میں پیدا فرما اور اسی پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی پر زندگی گذارنے کی کوفیق عطا فرما۔۔۔۔۔اے اللہ سنتوں کو سیکھ سیکھو کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔۔۔ہمارے دلوں کو اور ہمارے سینوں کو سنتوں کے انوارات سے منور فرما۔۔۔۔ہمارے دلوں سے حسد،کینہ،بغض،عداوت دور فرما۔۔۔۔امت میں جوڑ عطا فرما اور جوڑ والے اسباب  اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ عافیت سے ہمارے دلوں اور زندگیوں سے یہود و نصاریٰ کے ناپاک طریقوں کو ختم فرما اور ان طریقوں کی نفرت  ڈال دے۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ بیماروں کو شفائے کلیہ، عاجلہ، دائمہ، مستمرہ نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب کو حلال، پاکیزہ، اور برکت والی روزی عطا فرما   ۔۔۔۔۔۔۔  اے اللہ ہمیں تقویٰ،ہدایت،پاکدامنی اور ساری مخلوق سے بے نیازی عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ ہمیں اپنی ذات کا محتاج بنا کر ساری مخلوقات سے بے نیاز  کر دے۔ ہمیں مخلوق کا محتاج نہ بنا۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ آپ کی ذاتِ کامل پر کامل یقین نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ مخلوق کا یقین دل سے نکال دے۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ علم نافع، وسعت والا رزق اور ہر بیماری سے ہمیں شفا نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔  ائے اللہ ہماری اولاد کو نیک اور صالح بنا، انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے  چین و سکون کا ذریعہ بنا۔۔۔۔۔۔۔ انہیں علوم نافعہ، اعمال صالحہ، اخلاق فاضلہ اور عقائد حقہ کی دولت عظمیٰ سے مالا مال فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ اپنی شان ربوبیت  سے ان کی بہترین تربیت فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ قرآن پاک کی تلاوت کی حلاوت نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ذکر کی لذت نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ذات  کے ساتھ قرب خاص نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ اسلام اور اہل اسلام کی حفاظت فرما۔۔۔۔۔۔۔ کفر و شرک کا خاتمہ فرما۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اور اہل اسلام کو  غالب فرما۔۔۔۔۔۔۔ کفر و شرک والوں کو مغلوب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ میرے دل کو نفاق سے پاک کر دے اور میرے عمل کو ریا سے پاک کردے اور میری زبان کو  جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے کیونکہ آپ آنکھوں کی چوری اور سینوں کے راز خوب جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ میں تیری پناہ لیتا ہوں ایسے مکار  دوست سے جس کی آنکھیں مجھے دیکھیں اور اس کا دل میری ٹوہ میں لگا رہے، اگر کوئی نیکی دیکھے تو چھپا لے اور برائی دیکھ لے تو اس کو پھیلاتا پھرے۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ مجھے فقر اور تنگ دستی سے بچالے۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ ہمیں صحت، عفت، امانت، حسن اخلاق اور تقدیر پر رضامندی نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ مجھے علم دے کر بے نیاز  کر دے (مخلوق سے) اور بردباری سے سرفراز فرما کر زینت بخش اور تقویٰ نصیب فرما کر بزرگی عطا کر اور عافیت بخش کر مزین فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ جو مقروض ہیں  انہیں عافیت اور عزت کے ساتھ سبکدوش فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ ہر بلا سے عافیت نصیب فرما، میرے دین اور دنیا کے معاملے میں اور میرے اہل مال اور اولاد کے  معاملے میں۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ ہم سے راضی ہو جائیے اور اپنی رضامندی والے اعمال میں ہمیں لگا دیجئے اور ناراضگی والے کاموں سے ہماری حفاظت فرمائیے۔۔۔۔۔۔۔  ائے اللہ میں ایسی

مالداری سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے تکبر پر اُبھارے اور ایسے فقر سے پناہ مانگتا ہوں جو ذلت میں ڈال دے۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ موت سے پہلے پہلے موت کی  تیاری کی توفیق عطا فرما۔ جب ہم دنیا سے رخصت ہو رہے ہوں تو ہماری زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو اور آپ سے ملاقات کا شوق غالب ہو، ایسے فیصلے فرما۔۔۔۔۔۔۔ قبر کی سختی

اور عذاب سے حفاظت فرما۔۔۔۔۔۔۔ پل صراط پر سے بجلی کی طرح پار فرما۔۔۔۔۔۔۔ عرش کے سایہ کے نیچے جگہ نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ جنت الفردوس میں  اعلیٰ مقام نصیب فرما۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اور ساری امت کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ریت کے ذرات اور سمندر کے قطروں سے زیادہ اور بے انتہا رحمتیں  نازل فرما اور ہم سب کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ جن جن لوگوں کے ذریعے آج تک ہمیں علم ملا ہے ان سب کو ہماری طرف سے ان کے   شایانِ شان بدلہ عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ آسیب، سحر اور ہر قسم کی آفتوں سے پوری امت کی پوری پوری حفاظت فرما۔۔۔۔۔۔۔ جو اعمال بھی رمضان المبارک میں

ہو رہے ہیں انہیں ہماری نجات کا ذریعہ بنا۔ مزید عافیت اور اخلاص کے ساتھ اعمال کر کے نیکی کی توفیق عطا فرما۔ ہماری دعاؤں کو اپنے فضل و کرم اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے قبول و مقبول فرما۔

٭ پہلا عشرہ ختم ہونے کے قریب ہو تو یوں دعا کرئے:

ائے اللہ! رمضان المبارک کا رحمت کا یہ عشرہ ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کو آپ کے حضور پیش کرکے ہم رحمت کے  مستحق ہو سکیں۔۔۔۔۔۔۔ ائے اللہ اس عشرے میں جو کوتاہیاں ہوئیں، اپنے فضل و کرم سے در گزر فرما کر ہمیں بھی رحمت کا مستحق بنا دے۔ ائے اللہ جب آپ اپنے برگزیدہ  بندوں پر اس عشرہ میں رحمت برسائیں تو ہم گنہگاروں کو محروم نہ فرمانا، آپ بلا استحقاق ہمیں بھی رحمت میں ڈھانپ لیں۔

٭ دوسرا عشرہ ختم ہونے کے قریب ہو تو یوں کہیں:

ائے اللہ! رمضان المبارک کا مغفرت کا عشرہ ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے اس میں ایسا کوئی عمل نہیں کیا جو ہمیں آپ کی مغفرت کا مستحق بنا سکے۔  ائے اللہ بغیر استحقاق کے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں اور ہمارے اہل و عیال کو مغفرت کا پروانہ عطا فرما۔

٭ آخری عشرہ کے ختم ہونے کے قریب یہ دعا کریں:

ائے اللہ! اس آخری عشرے میں آپ بے شمار مخلوق کو جہنم سے خلاصی عطا فرمائیں گے۔ ائے اللہ! ہمیں، ہمارے اہل و عیال، ماں باپ، اساتذہ،   مشائخ، شاگرد اور تمام امت کو جہنم سے خلاصی عطا فرما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ائے اللہ! ہم نے تو اپنے گناہوں سے اپنے آپ کو جہنم کا حقدار بنا دیا ہے۔ ہم میں جہنم کا عذاب سہنے  کی طاقت نہیں ہے۔ اگر آپ نے جہنم میں ڈال دیا تو بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ محض اپنے فضل و کرم سے بغیر استحقاق کے ہمارے اور ساری امت کے لئے جہنم سے  آزادی کا فیصلہ فرما۔

ان دعاؤں کوخاص اپنا معمول بنائیں

ان دعاؤں کوخاص اپنا معمول بنائیں

رمضان کی آمد سے پہلے (رجب سے پہلے) ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِس دعا کو خوب پڑھتے تھے۔

اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِغْنَا  رَمَضَانْ۔

ترجمہ:  ائے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت ڈال دے اور ہم کو رمضان المبارک تک پہنچا دے۔

رمضان المبارک کی اہم دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام ؓ کو سکھاتے تھے۔

اللّٰھُمَّ  سَلِّمْنَا  لِرَمَضَانَ وَسَلَّمْ رَمَضَانَ لَنَا وَ سَلِّمْہ‘ لَنَا مُتَقَبَّلاً

ترجمہ: ائے اللہ ہم کو رمضان کے لئے صحیح سالم بنا اور رمضان کو سلامتی والا بنا، ہمارے لئے قبولیت والا بنا۔

اس دعا کو خاص طور پر رمضان میں ہر نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کریں۔

عبداللہ ابن عباسؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے پر یہ دعا بتلائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے۔

اللّٰھُمََّ اِنّیِ اَسئلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ فْیِ دِیْنِیْ وَدُنیَایَ وَ اَھْلِیْ وَ مَا لِیْ۔

ترجمہ: ائے اللہ میں تجھ سے عفو اور عافیت کا سوال کرتا ہوں، میرے دین، دنیا، اہل (بال بچے) اور مال میں۔

فائدہ:  بہت ہی جامع دعا ہے پوری زندگی کا معمول بنالیں، مجرب دعا ہے۔

اللّٰھُمََّ اِنّیِ اَسئلُکَ الْھُدَیٰ  وَ التَّقٰی وَ الْعَفَافَ وَ الْغِنٰی۔

ترجمہ:  ائے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہدایت، تقویٰ، پاکدامنی اور ساری مخلوق سے بے نیازی کا۔

اللّٰھُمََّ اِعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ۔

ترجمہ:  ائے اللہ! میری مدد فرما، تیرے ذکر اور شکر اور تیری حسن عبادت پر (اخلاص پر)۔

اللّٰھُمََّ اسْتُرْ عَوْرَ اتِنَا وَ اٰ مِنْ  رَوْ عَاتِنَا۔

ترجمہ:  ائے اللہ! ہماری آبرو کی حفاظت فرما اور ہمارے خوف کو امن سے بدل دے۔

جامع دعا ہے:

اللّٰھُمََّ اِنّیِ اَسئلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبَّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِی یُبَلَّغُنِی حُبَّکَ اللّٰھُمََّ اجْعَلُ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلِیَّ مِنْ نَفْسِی وَ اَھْلِی وَ مِنَ المَاءِ الباَردُ۔

ترجمہ:  ائے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی محبت کا اور ان لوگوں کی محبت کا جو آپ سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس عمل کا جو آپ کی محبت تک

پہنچا دے۔ ائے اللہ! آپ کی محبت میرے نفس، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ مجھے عطاء فرما دیجئے۔

ایک اور عافیت کی دعا:

اللّٰھُمََّ اِنّیِ اَعُوْذُبِکَ مَنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوَّلِ عَا فِیَّتِکَ وَ فُجَآءَ ۃِ نِقُمَتِکَ وَ جَمِیْعِ سَخَطِکَ۔

ترجمہ:  ائے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ موجودہ نعمت جاتی رہے۔ اور تیری عافیت مجھ سے اپنا رخ پھیرلے اور تیرے ناگہانی  عذاب سے اور تیرے تمام غصہ کے اسباب سے۔

Book Options

Author: Mufti Abu Salama Abdul Allah Nomani Hafizullah

Leave A Reply