القرآن ریسرچ سنٹر کا شرعی حکم
س۔۔۔۔مولانا صاحب آج کل ایک نیا فتنہ قرآن ریسرچ سنٹر کے نام سے بہت زورں پر ہے، اس کا بانی محمد شیخ انگلش میں بیان کرتا ہے، اور ضروریات دین کا انکار کرتا ہے۔ہم اس انتظار میں تھے کہ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں آپ کی کوئی مفصل تحریر شائع ہوگی مگر آپ کے مسائل میں ایک خاتون کے سوال نامہ کے جواب میں آپ کامختصر سا جواب پڑھا، اگرچہ وہ تحریر کسی حد تک شافی تھی مگر اس سلسلہ کی تفصیلی تحریر کی اب بھی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے ایسی کوئی تحریر لکھی ہو یا کہیں شائع ہوئی ہو تو اس کی نشاندہی فرمادیں یا پھر ازراہ کرم امت مسلمہ کی اس سلسلہ میں راہ نمائی فرمادیں۔
ج۔۔۔۔آپ کی بات درست ہے، ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں میرا نہایت مختصر ساجواب شائع ہوا تھا، اور احباب کا اصرار تھا کہ اس سلسلہ میں کوئی مفصل تحریر آنی چاہیے، چنانچہ میری ایک مفصل تحریر ماہنامہ بینات کراچی کے ”بصائر و عبر“ میں شائع ہوئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے افادہ عام کے لئے قارئین۔۔۔۔ کی خدمت میں پیش کردیاجائے، جو حسب ذیل ہے:
”مسلمانان ہندوستان کی دلی خواہش اور چاہت تھی کہ ایک ایسی آزاد ریاست اور ملک میسر آجائے جہاں مسلمان آزادی سے قرآن وسنت کا آئین نافذ کرسکیں اور انہیں دین اور دینی شعائر کے سلسلہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، چونکہ مسلمانوں کا جذبہ نیک تھا، اس لئے اس میں جوان بوڑھے، عوام وخواص اور عالم و جاہل سب برابر کے متحرک و فعال تھے۔ بالآخر لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی کے بعد ۴۱اگست ۷۴۹۱ء کو ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی نظام حکومت یعنی حکومت الہیہ کا قیام باور کرایا گیا تھا۔ جس کا عنوان تھا”پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ“! اور یہ ایسا نعرہ تھا جس کے زیر اثر تمام مسلمان مرمٹنے کے لئے تیار تھے، حتیٰ کہ وہ جن کے علاقے تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی حدود میں آتے تھے وہ بھی اس کے قیام میں پیش پیش تھے، لیکن: اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔ کے مصداق، آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی پاکستانی مسلمانوں کو اسلامی نظام حکومت نصیب نہیں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
الٹا پاکستان روز بروز مسائلستان بنتا چلا گیا، اس میں مذہبی، سیاسی، روحانی غرض ہر طرح کے فتنے پیدا ہوتے چلے گئے، ایک طرف اگر انگلینڈ میں مرتد رشدی کا فتنہ رونما ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں یوسف کذاب نام کا ایک بدباطن دعویٰ نبوت لے کر میدان میں آگیا۔ اسی طرح بلوچستان میں ایک ذکری مذہب ایجاد ہوا جس نے وہاں کعبہ اور حج جاری کیا۔ یہاں رافضیت اور خارجیت نے بھی پر پرزے نکالے، یہاں شرک و بدعات والے بھی ہیں اور طبلہ سارنگی والے بھی۔ اس ملک میں ایک گوہرشاہی نام کا ملعون بھی ہے جن کے مریدوں کو چاند میں اس کی تصویر نظر آتی ہے۔ اور خود اس کو اپنے پیشاب میں اپنے مصلح کی شبیہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں ایک بدبخت عاصمہ جہانگیر بھی ہے جوتحفظ حقوق انسانیت کی آڑ میں کتنی لڑکیوں کی چادر عفت کو تارتار کرچکی ہے۔
اسی طرح اس ملک میں ”جماعت المسلمین“ نامی ایک جماعت بھی ہے جو پوری امت کی تجہیل و تحمیق کرتی ہے۔ یہاں ڈاکٹر مسعود کی اولاد بھی ہے جو اپنے علاوہ کسی کو مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں، یہاں غلام احمد پرویز کی ذریت بھی ہے جو امت کو ذخیرہ احادیث سے بدظن کر کے اپنے پیچھے لگانا چاہتی ہے، اوران سب سے آگے اور بہت آگے ایک نیافتنہ اور نئی جماعت ہے جس کے تانے بانے اگرچہ غلام احمد پرویز سے ملتے ہیں مگر وہ کئی اعتبار سے غلام احمد پرویز کو پیچھے چھوڑ گئی ہے، غلام احمد پرویز نے امت کو احادیث سے برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، ہاں البتہ اس نے چند آیات قرآنی پر بھی اپنی تاویلات باطلہ کا تیشہ چلایا تھا، مگراس نئی جماعت اور نئے فتنہ کے سربراہ محمد شیخ نامی شخص نے تقریباً پورے اسلامی عقائد کی عمارت کو منہدم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، چنانچہ وہ توراۃ، زبور، انجیل اور دوسرے صحف آسمانی کے وجود اور حضور ﷺ کی دوسرے انبیاء پر فضیلت وبرتری اور انبیاء کرام کے مادی وجود کامنکر ہے، بلکہ وہ بھی اصل میں تو مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح مدعی نبوت ہے۔ مگر وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی ناکام حکمت عملی کو دہرانا نہیں چاہتا، کیونکہ وہ مرزا غلام احمدقادیانی کی طرح براہ راست نبوت اور عقیدہئ اجراء وحی کا دعویٰ کرکے قرآن وسنت اور علماامت کے شکنجہ میں نہیں آنا چاہتا، یہ تو وہ بھی جانتا ہے کہ وحی نبوت بند ہوچکی ہے، اور جو شخص آنحضرت ﷺ کے بعد اپنے لئے اجراء وحی کا دعویٰ کرے وہ دجال و کذاب اور واجب القتل ہے۔ اس لئے محمد شیخ نامی اس شخص نے اس کا عنوان بدل کر یہ کہا کہ: ”جو شخص جس وقت قرآن پڑھتا ہے اس پر اس وقت قرآن کا وہ حصہ نازل ہورہا ہوتا ہے اور جہاں قرآن مجید میں ”قل“ کہاگیا ہے وہ اس انسان ہی کے لئے کہا جارہا ہے، یوں وہ ہر شخص کو نزول وحی کا مصداق بتا کر اپنے لئے نزول وحی اور اجرأ نبوت کے معاملہ کو لوگوں کی نظروں میں ہلکا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کو یوں بھی تعبیر کرتا ہے کہ:
”انبیاء، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور میں بھی یہی کام انجام دے رہاہوں“۔
نعوذ باللہ۔ منصب نبوت کو اس قدر خفیف اور ہلکا کرکے پیش کرنا اور یہ جرأت کرنا کہ میں بھی وہی کام کررہا ہوں جو (نعوذباللہ) انبیاء کرام کیاکرتے ہیں۔ کیا یہ دعویٰ نبوت اور منصب نبوت پر فائز ہونے کی ناپاک کوشش نہیں؟
لوگوں کی نفسیات بھی عجیب ہے، اگر وہ ماننے پر آئیں تو ایک ایسا شخص جو کسی اعتبار سے قابل اعتماد نہیں، جس کی شکل و شباہت مسلمانوں جیسی نہیں، جس کا رہن سہن کسی طرح اسلاف سے میل نہیں کھاتا، ابلیس مغرب کی نقالی اس کا شعار ہے، اسوہئ نبویؐ سے اسے ذرہ بھر مناسبت نہیں، اس کی چال ڈھال، رفتار وگفتار اور لباس و پوشاک سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ شخص مسلمان بھی ہے کہ نہیں؟ پھر طرہ یہ کہ وہ نصوص صریحہ کا منکر ہے، اور تاویلات فاسدہ کے ذریعہ اسلام کو کفر، اور کفر کو اسلام باور کرانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے کان کاٹتا ہے، فلسفہئ اجرأ نبوت کا نہ صرف وہ قائل ہے بلکہ اس کا داعی اور مناد ہے۔
وہ تمام آسمانی کتابوں کا یکسر منکر ہے، وہ انبیاء کے مادی وجود کا قائل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی وجود کی بھول بھلیوں کے گورکھ دھندوں سے آپؐ کی نبوت و رسالت اور مادی وجود کا انکاری ہے، انبیاء بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دیتا ہے-
ذخیرہئ احادیث کو من گھڑت کہانیاں کہہ کر ناقابل اعتماد گردانتا ہے، غرضیکہ عقائد اسلام کے ایک ایک جز کا انکار کرکے ایک نیا دین و مذہب پیش کرتا ہے، اور لوگ ہیں کہ اس کی عقیدت و اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور اس کو اپنا پیشوا اور راہ نما مانتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسری جانب اللہ کا قرآن ہے، نصوص صریحہ اور احادیث نبویؐ کا ذخیرہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہئ حسنہ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی سیرت و کردار کی شاہراہ ہے، اور اجماع امت ہے، جو پکار پکار کر انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے خطوط متعین کرتے ہیں، مگر ان ازلی محروموں کے لئے یہ سب کچھ ناقابل اعتماد ہے۔
کس قدر لائق شرم ہے کہ یہ حرماں نصیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری کی بجائے اپنے گلے میں اس ملحد و بے دین کی غلامی کا پٹہ سجانے اور اس کی امت کہلانے میں ”فخر“ محسوس کرتے ہیں۔ حیف ہے اس عقل ودانش اور دین و مذہب پر جس کی بنیاد الحاد و زندقہ پر ہو، جس میں قرآن وسنت کی بجائے ایک جاہل مطلق کے کفریہ نظریات و عقائد کو درجہ استناد حاصل ہو۔ سچ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو عقل و خرد چھین لیتے ہیں، جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔
گذشتہ ایک عرصہ سے اس قسم کی شکایات سننے میں آرہی تھیں کہ سیدھے سادھے مسلمان اس فتنے کا شکار ہورہے ہیں، چنانچہ اس سلسلہ میں کچھ لکھنے کا خیال ہوا تو ایک صاحب راقم الحروف اور دارالعلوم کراچی کے فتاوی کی کاپی لائے اور فرمائش کی کہ اس فتنہ کے خلاف آواز اٹھائی جائے، اس لئے کہ حکومت اور انتظامیہ اس فتنہ کی روک تھام کے لئے نہایت بے حس اور غیر سنجیدہ ہے۔ جب کہ یہ فتنہ روزبروز بڑھ رہاہے۔ کس قدر لائق افسوس ہے کہ اگر کوئی شخص بانیئ پاکستان یا موجودہ وزیر اعظم کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوجائے تو حکومت کی پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، لیکن یہاں قرآن وسنت، دین متین اور حضرات انبیاء اور ان کی نبوت کا انکار کیاجاتا ہے، ان کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی، اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ان ہردوتحریروں کو یکجا شائع کردیا جائے، تاکہ مسلمانوں کا دین وایمان محفوظ ہوجائے، اور لوگ اس فتنہ کی سنگینی سے واقف ہوکر اس سے بچ سکیں۔
راقم الحروف کا مختصر جواب اگرچہ روزنامہ جنگ کے کالم ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ میں شائع ہوچکا ہے مگر دارالعلوم کراچی کا فتویٰ شائع نہیں ہوا۔ چنانچہ سب سے پہلے ایک ایسی خاتون کا مرتب کردہ سوال نامہ ہے جو براہ راست اس فتنہ سے متاثر رہی ہے، اس کے بعد راقم الحروف کا جواب ہے، اور آخر میں دارالعلوم کراچی کا جواب ہے،اور سب سے آخر میں اختتامیہ کلمات ہیں، چونکہ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں قرآنی آیات اور دوسری نصوص کے ترجمے نہیں تھے اس لئے افادہئ عام کی خاطر قرآنی آیات اور عربی عبارتوں کے ترجمے کردئیے گئے ہیں، قرآنی آیات کا ترجمہ حضرت تھانویؒ کے ترجمہ سے نقل کیا گیا ہے:
سوال نامہ:
سوال: محترم مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
احوال حال کچھ اس طرح ہے کہ بحیثیت مسلمان میں اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے دین کو ضرب پہنچانے اور اس کے عقائد کی عمارت کو مسمار کرنے کی جوکوششیں کی جارہی ہیں، اس کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرناچاہتی ہوں۔
محترم یہاں پر چند تنظیموں کی جانب سے نام نہاد پمفلٹ آڈیو/ویڈیو کیسٹس کے ذریعے ایسا لٹریچر فراہم کیا جارہاہے جس سے بڑا طبقہ شکوک وشبہات اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہورہا ہے۔ پاکستان، جسے اسلامی فلسفہ وفکر کے ذریعے حاصل کیا گیا اس کے شہر کراچی میں ایک تنظیم ”القرآن ریسرچ سنٹر“ کے نام سے عرصہ چھ سات سال سے قائم ہے اس تنظیم کے بنیادی عقائد مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔۔۔دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے انسانیت کی بھلائی کے لئے قرآن پاک معجزانہ طورپراکٹھا دنیا میں موجود تھا، مختلف انبیاء پر مختلف ادوار میں مختلف کتابیں نازل نہیں ہوئیں، بلکہ اس کتاب یعنی قرآن پاک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے پکاراگیا، کبھی توریت، کبھی انجیل اور کبھی زبور کے نام سے۔
قرآن جو جہاں اور جس وقت پڑھ رہا ہے اس پر اسی وقت نازل ہورہا ہے۔ اور جہاں ”قل“ کہا گیا ہے وہ اس انسان کے لئے کہاجارہا ہے جو پڑھ رہا ہے۔
۲۔۔۔۔انبیاء کا کوئی مادی وجود نہیں رہا، اس دنیا میں وہ نہیں بھیجے گئے، بلکہ وہ صرف انسانی ہدایت کے لئےSYMBOLS کے طور پر استعمال کئے گئے اور موجودہ دنیا سے ان کا کوئی مادی تعلق نہیں۔ قرآن شریف کے اندر وہ انسانی رہنمائی کے لئے صرف فرضی کرداروں اور کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں۔
۳۔۔۔۔قرآن شریف میں چونکہ حضورؐ کو زمان حال یعنی Present میں پکارا گیاہے۔ لہذا حضور بحیثیت روح ہرجگہ اور ہروقت موجود ہیں اور وہ مادی وجود سے مبرا ہیں اور نہ تھے۔
۴۔۔۔۔حضور کی دیگر انبیاء پر کوئی فضیلت نہیں، وہ دیگر انبیاء کے برابر ہیں بلکہ حضرت موسیٰ، بعض معنوں اور حیثیتوں میں یعنی قرآن پاک نے بنی اسرائیل، اور حضرت موسیؑ کاکثرت سے ذکر کیا، جس کی وجہ سے ان کی فضیلت حضورؐپر زیادہ ہے۔ حضورؐ کے متعلق جتنی بھی احادیث تاریخ اور تفسیر میں موجود ہیں وہ انسانوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔
ان تمام عقائد کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ قرآن وسنت کے مطابق یہ فتویٰ دیں کہ:
۱۔۔۔۔یہ عقائد اسلام کی رو سے درست ہیں یا نہیں؟
۲۔۔۔۔اس کو اپنانے والامسلمان رہے گا؟
۳۔۔۔۔ایسی تنظیموں کو کس طرح روکا جائے؟
۴۔۔۔۔ایسے شخص کی بیوی کے لئے کیاحکم ہے؟ جس کے عقائد قرآن وسنت کے مطابق ہیں جو تمام انبیاء تمام کتابوں آخرت کے دن اور احادیث پرمکمل یقین اور ایمان رکھتی ہو؟
۵۔۔۔۔آخر میں مسلمانیت کے ناطے اپیل ہے کہ ایسے اشخاص سے بھرپور مناظرہ کیاجائے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ ہم سچے مسلمان ہیں۔
ایک خاتون۔ کراچی
راقم الحروف کا جواب:
جواب: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، میری بہن! یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور جس شخص کے ذہن میں جوبات آجاتی ہے وہ اس کوبیان کرنا شروع کردیتاہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلف بیزاری اورانکار حدیث کا نتیجہ ہے، اور جو لوگ حدیث کا انکارکرتے ہیں وہ پورے دین کا انکارکرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں میں اپنے رسالہ ”انکار حدیث کیوں“ میں لکھ چکا ہوں کہ:
آپ ﷺ کے پاک ارشادات کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والوں اور آپ کے اقوال شریفہ کے ساتھ تمسخر برتنے والوں کے متعلق اعلان کیاگیا کہ ان کے قلوب پر خدائی مہر لگ چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایمان و یقین اور رشدوہدایت کی استعداد گم کرچکے ہیں اور ان لوگوں کی ساری تگ ودو خواہش نفس کی پیروی تک محدود ہے، چنانچہ ارشاد الہی ہے: ”ومنھم من یستمع الیک حتی اذا خرجوا من عندک قالو اللذین اوتوا العلم ماذا قال آنفا اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم واتبعوا اھوآء ھم۔“ (محمد:۶۱)
ترجمہ: ”اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحقیر کے طورپر) کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی کیابات فرمائی تھی؟یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی، اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں۔“
(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
قرآن کریم نے صاف صاف یہ اعلان بھی کردیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو صرف اسی مقصد کے لئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار اور آپؐ کے ارشادات سے سرتابی کرنا، گویا انکار رسالت کے ہم معنی ہے۔ اس طرح آپؐ کی اطاعت کے منکرین، انکار رسالت کے مرتکب ہیں-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جب قرآن ہی وحی خداوندی بتلاتا ہے: ”وما ینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی“ اور آپؐ کے کلمات طیبات کو جب قرآن ہی ”گفتہ او گفتہ اللہ بود“ کا مرتبہ دیتا ہے تو بتلایا جائے کہ حدیث نبوی کے حجت دینیہ ہونے میں کیا کسی شک و شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ اور کیا حدیث نبوی کا انکار کرنے سے کیا خود قرآن ہی کا انکار لازم نہیں آئے گا؟ اور کیا فیصلہ نبوت میں تبدیلی کے معنی خود قرآن کو بدل ڈالنا نہیں ہوں گے؟ اور اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ قرآن کریم بھی تو امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان مبارک سے سنا، اورسن کر اس پر ایمان لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”یہ قرآن ہے“، یہ ارشاد بھی تو حدیث نبوی ہے، اگر حدیث نبوی حجت نہیں تو قرآن کریم کاقرآن ہونا کس طرح ثابت ہوگا؟ آخر یہ کون سی عقل ودانش کی بات ہے کہ اس مقدس و معصوم زبان سے صادر ہونے والی ایک بات تو واجب التسلیم ہو اور دوسری نہ ہو؟
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا:
”یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور یہ میرا کلام ہے، ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا“۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن تو حجت ہے مگر حدیث حجت نہیں ہے، ان ظالموں کو کون بتلائے کہ جس طرح ایمان کے معاملہ میں خدا اور رسول کے درمیان تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے، ٹھیک اسی طرح کلام اللہ اور کلام الرسول کے درمیان بھی اس تفریق کی گنجائش نہیں، کہ ایک کو واجب الاطاعت ماناجائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے، ایک کو تسلیم کر لیجئے تودوسرے کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا اور ان میں سے ایک کا انکار کردینے سے دوسرے کا انکار آپ سے آپ ہوجائے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعوی کیا جائے، اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ٹھکرایا جائے، وہ ایسے ظالموں کے خلاف صاف اعلان کرتا ہے:
”فانھم لایکذبونک ولکن الظالمین بآیت اللہ یجحدون“۔
ترجمہ: ”پس اے نبیؐ! یہ لوگ آپؐ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں“۔
لہذا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور کلام اللہ کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں انہیں لامحالہ رسول اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانا ہوگا، ورنہ ان کادعویئ ایمان حرف باطل ہے۔“
جس تنظیم کا آپ نے تذکرہ کیا ہے ان عقائد کے رکھنے والے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے دین کی پوری عمارت کو مسمار کردینے کا عزم کرلیا ہے، نیز انہوں نے تمام شعائر اسلام اور قرآن وحدیث اور انبیاء اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں کا انکارکیا ہے، اور جولوگ اسلامی معتقدات کا انکار کریں، ان میں تاویلات باطلہ کریں، اور اپنے کفر کو اسلام باور کرائیں، وہ ملحدو زندیق ہیں،اور زندیق، کافر ومرتد سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ وہ بکرے کے نام پہ خنزیر کا گوشت فروخت کرتا ہے، اور امت مسلمہ کو دھوکہ دے کر ان کے ایمان و اسلام کو غارت کرتا ہے، اسی بنآپر اگرزندیق گرفتار ہونے کے بعد توبہ بھی کرلے تواس کی توبہ کا اعتبار نہیں، اس لئے حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو اس الحادوزندقہ سے روکے، اگر رک جائیں تو فبہا ورنہ ان پر اسلامی آئین کے مطابق ارتدادوزندقہ کی سزاجاری کرے۔
اہل ایمان کا ان سے رشتہ ناطہ بھی جائز نہیں، اگر ان میں سے کسی کے نکاح میں کوئی مسلمان عورت ہو تواس کا نکاح بھی فسخ ہوجاتا ہے۔
جہاں تک مناظرے کا تعلق ہے، ان حضرات سے مناظرہ بھی کرکے دیکھا، مگر ان کے دل میں جو بات بیٹھ گئی ہے اس کو قبر کی مٹی اور جہنم کی آگ ہی دورکرسکتی ہے۔ واللہ اعلم۔
دارالعلوم کراچی کا جواب:
الجواب حامداً ومصلیاً
(۱)۔ (۲)۔۔۔۔سوال میں ذکر کردہ اکثر عقائد قرآن وسنت اور اجماع امت کی تصریحات اور موقف کے بالکل خلاف ہیں، اس لئے اگر کسی شخص کے واقعتا یہی عقائد ہیں تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اور اس کے ماننے والے بھی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
مذکورہ نظریات وعقائد کا قرآن وسنت کی روسے باطل ہونا ذیل میں ترتیب وار تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں:
۱۔۔۔۔یہ(کہنا کہ قرآن پاک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے پکارا گیا، کبھی تورات،کبھی انجیل اور کبھی زبور اورمختلف ادوار میں مختلف کتابیں نازل نہیں ہوئیں) کفریہ عقیدہ ہے کیونکہ پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ صحف آسمانی کے علاوہ آسمانی کتابیں چارہیں، اور قرآن کریم میں اسکی تصریح ہے کہ قرآن کے علاوہ تین آسمانی کتابیں اور ہیں جن میں سے توراۃ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی گئی، لہذا قرآن کے علاوہ مذکورہ تین کتب کے مستقل وجود کا انکارکرنا درحقیقت قرآن کریم کی ان آیات کا انکارکرنا ہے جن میں ان کتابوں کے مستقل وجود کاذکر ہے، درج ذیل آیات اور ان کاترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
٭ ”وانزل التوراۃ والانجیل من قبل ھدی للناس۔“ (آل عمران: ۳)
ترجمہ: ”اور (اسی طرح) بھیجا تھا تورات اور انجیل کو اس کے قبل لوگوں کی ہدایت کے واسطے“۔
(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”وماانزلت التوراۃ والانجیل الامن بعدہ۔“ (آل عمران: ۵۶)
ترجمہ: ”حالانکہ نہیں نازل کی گئی تورات اور انجیل مگر ان کے (زمانہ کے بہت) بعد“۔
(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”وآتیناہ الانجیل فیہ ھدی ونور۔“ (مائدہ: ۶۴)
ترجمہ: ”اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور وضوح تھا“۔
٭ ”ولیحکم اھل الانجیل بماانزل اللہ فیہ۔“ (مائدہ: ۷۴)
ترجمہ: ”اور انجیل والوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جوکچھ اس میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم کیا کریں“۔
٭ ”واذ علمتک الکتاب والحکمتہ والتوراۃوالانجیل ۔“ (مائدہ: ۰۱۱)
ترجمہ: ”اورجب کہ میں نے تم کو کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور تورات اور انجیل تعلیم کیں“۔
٭ ”الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل ۔“ (اعراف: ۷۵۱)
ترجمہ: ”جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں“۔
٭ ”والقدکتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرلھا عبادی الصالحون۔“ (انبیاء:۵۰۱)
ترجمہ: ”اور ہم(سب آسمانی) کتابوں میں لوح محفوظ (میں لکھنے) کے بعد لکھ چکے ہیں کہ اس زمین (جنت) کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے“۔
٭ ”والقدفضلنابعض النبین علی بعض وآتینا داود زبورا“۔(اسرأ:۵۵)
ترجمہ: ”اور ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور ہم داؤد (علیہ السلام) کو زبور دے چکے ہیں“۔
٭ ”فاتوابلتوراۃ فاتلو ھا ان کنتم صادقین۔“ (آل عمران:۳۹)
ترجمہ: ”پھر تورات لاؤ، پھر اس کو پڑھواگر تم سچے ہو“۔
٭ ”وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ فیھا حکم اللہ۔“ (مائدہ:۳۴)
ترجمہ: ”اور وہ آپ سے کیسے فیصلہ کراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم ہے“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”انا أنزلنا التوراۃ فیھا ونور“۔ (مائدہ:۴۴)
ترجمہ: ”ہم نے تورات نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت تھی اور وضوح تھا“۔
٭ ”وقفینا علی آثار ھم یعیسی ابن مریم مصدقا لمابین یدیہ من التوراۃ“۔(مائدہ:۶۴)
ترجمہ: ”اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو اس حالت میں بھیجا کہ وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق فرماتے تھے“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”انی رسول اللہ الیکم مصدقا لمابین یدی من التوراۃ۔“ (صف:۶)
ترجمہ: ”میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہو ا ا ٓیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (آچکی) ہے میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”ومن یکفر باللہ وملائکتہ و کتبہ و رسلہ والیوم الأخر فقد ضل ضلالا بعیدا“۔ (نساء:۶۳۱)
ترجمہ: ”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے، اور اس کے فرشتوں کا، اور اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا، اور روز قیامت کا، تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”کل آ من باللہ وملائکتہ و کتبہ و رسلہ“۔ (بقرہ:۵۸۲)
ترجمہ: ”سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ اور اس کی کتابوں کے ساتھ اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ“۔
اور یہ کہنا کہ قرآن جو جس وقت پڑھ رہا ہے اس اسی وقت نازل ہورہا ہے اور ”قل“ اسی کے لئے کہا جارہا ہے جو پڑھ رہا ہے“۔ یہ بھی تعبیر کے لحاظ سے غلط ہے، کیونکہ قرآن کریم ایک مرتبہ آپ ﷺ پر پورا نازل ہوچکا ہے، اس کے اولین اور آخرین براہ راست مخاطب آپ ﷺ ہیں، اب جو شخص پڑھ رہا ہے وہ قرآن کا اولین اور براہ راست مخاطب نہیں ہے بلکہ حضور ﷺ کے واسطہ سے مخاطب ہے اور اس اعتبار سے اپنے آپ کو مخاطب سمجھنا بھی چاہیے۔
۲۔۔۔۔یہ عقیدہ بھی کفریہ ہے، (کہ انبیاء کا مستقل کوئی وجود نہیں تھا) کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء کا مستقل وجود تھا وہ دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور وہ بشریت کے اعلی مقام پر فائز تھے، انہوں نے عام انسانوں کی طرح دنیا میں زندگی گزاری، ان میں بشری حوائج اور مادی صفات پائی جاتی تھیں، چنانچہ وہ کھاتے بھی تھے، پیتے بھی تھے اور انہوں نے نکاح بھی کئے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے معجزات بھی ظاہر فرمائے، انہوں نے اللہ کے راستہ میں جہاد بھی کیا، یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو اپنے وجود کے لئے مادہ اور مستقل وجود کا تقاضا کرتی ہیں، اس کے بغیر ان کا وجود اور ظہور ہی محال ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ انبیاء کا مادی وجود نہیں رہا، قرآن میں وہ صرف فرضی کرداروں اور کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں، بالکل غلط اور قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، اس سلسلہ میں درج ذیل آیات قرآنیہ ملاحضہ فرمائیں:
٭ ”کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبین مبشرین ومنذرین وانزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوافیہ“۔ (البقرہ: ۳۱۲)
ترجمہ: ”سب آدمی ایک ہی طریق کے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو کہ خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں، اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امور اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمادیں۔“
٭ ”وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین“۔ (الانعام:۸۴)
ترجمہ: ”اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈراویں“۔
٭ ”یامعشر الجن والانس الم یاتکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی وینذرونکم لقاء یومکم ھذا“۔ (الانعام:۰۳۱)
ترجمہ: ”اے جماعت جنات اور انسانوں کی کیا تمہارے پاس تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے تھے؟ جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیاکرتے تھے“۔
(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”ولقدارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذرےۃ“۔ (رعد:۸۳)
ترجمہ: ”اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیبیاں اور بچے بھی دئیے۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”ولقدبعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت“۔ (نحل:۶۳)
ترجمہ: ”اور ہم ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجتے رہے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچتے رہو“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”وماکنا معذبین حتی نبعث رسولا“۔ (اسراء:۵۱)
ترجمہ: ”اور ہم(کبھی) سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو نہیں بھیج لیتے“۔
٭ ”وماارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیاکلون الطعام و یمشون فی الاسواق“(فرقان:۰۲)
ترجمہ: ”اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”وکم ارسلنا من نبی فی الأولین، وما یاتیھم من نبی الا کانوا بہ یستھزئون“۔ (زخرف:۶۔۷)
ترجمہ: ”اور ہم پہلے لوگوں میں بہت سے نبی بھیجتے رہے ہیں اور ان لوگوں کے پاس کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزانہ کیا ہو“۔
٭ ”کما ارسلنا فیکم رسولا یتلوا علیکم ایاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون“۔ (بقرہ:۱۵۱)
ترجمہ: ”جس طرح تم لوگوں میں ہم نے ایک (عظیم الشان) رسول کو بھیجا تم ہی میں سے ہماری آیات (واحکام) پڑھ پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور(جہالت سے) تمہاری صفائی کرتے رہتے ہیں اور تم کو کتاب(الہی) اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور تم کو ایسی(مفید) باتیں تعلیم کرتے رہتے ہیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”وقالوا مال ھذالرسول یاکل العطام ویمشی فی الاسواق“۔ (فرقان۔)
ترجمہ: ”اوریہ (کافر) لوگ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت)یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ(ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”لقد من اللہ علی المؤمنین اذبعث فیھم رسولا من أنفسھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ“۔ (آل عمران:۴۶۱)
ترجمہ: ”حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جب کہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں، اور ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں“۔
٭ ”ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ“۔ (فتح:۸۲)
ترجمہ: ”وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت دی، اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کردنیا میں بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے“۔(ترجمہ حضرت تھانویؒ)
٭ ”رسولا یتلو علیکم آیات اللہ مبینات لیخرج الذین آمنوا وعملوا الصالحات من الظلمات الی النور“۔ (طلاق:۰۱)
ترجمہ: ”ایک ایسا رسول(بھیجا) جو تم کو اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ ایسے لوگوں کو کہ جو ایمان لاویں اور اچھے عمل کریں (کفروجہل کی) تاریکیوں سے نور کی طرف لے آویں“۔
٭ ”لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم“۔ (توبہ:۸۲۱)
ترجمہ: ”(اے لوگو)تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں، جو تمہاری جنس (بشر) سے ہیں، جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، (یہ حالت تو سب کے ساتھ ہے بالخصوص) ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق (اور) مہربان ہیں“
٭ ”یاایھاالذین أمنوا لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجھروالہ بالقول“۔ (حجرات::۲)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیاکرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کروجیسے آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو“۔
۳۔۔۔۔قرآن کریم میں حضور اکرم ﷺ کو زمانہ حال میں جو خطاب کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت قرآن کریم کا نزول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہورہا تھا اس وقت آپ اپنے مادی وجود کے ساتھ دنیا میں موجود تھے اس لئے زمانہ حال میں آپ ﷺ سے خطاب کیا گیا، یہ مطلب نہیں کہ آپؐ بحیثیت روح ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں۔
یہ عقیدہئ (رکھنا کہ چونکہ قرآن شریف میں صیغہ حال سے پکارا گیا ہے اس لئے حضورؐ بحیثیت روح ہر جگہ موجود ہیں اور وہ مادی وجود سے مبرا ہیں) قرآن وسنت کی صریح نصوص اور اہل السنتہ والجماعۃ کے موقف کے خلاف ہے۔ علما نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں اسی طرح حضور اکرم ﷺ بھی ہر وقت ہر جگہ موجود ہیں، تو یہ کھلا ہوا شرک ہے اور نصاری کی طرح رسول کو خدائی کا درجہ دینا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی تاویل کے ساتھ یہ عقیدہ رکھتا ہے تب بھی اس عقیدہ کے غلط اور فاسد ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ایسا شخص گمراہ ہے۔ ملاحظہ ہو: جواہر الفقہ ص۵۱۱ ج۱، تبرید النواظر مصنفہ مولانا سرفراز صفدر صاحب مد ظلہم،
۴۔۔۔۔ اہل السنتہ والجماعۃ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ آنحضور ﷺ بحیثیت مجموعی تمام انبیاء سے افضل ہیں، البتہ بعض جزئیات اور واقعات میں اگر کسی نبی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ اس کے معارض نہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلام حاصل ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صفت ”خلت“ حاصل ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام جزئی فضیلتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجموعی فضیلت کے منافی اور اس کے معارض نہیں ہیں۔
اور یہ کہنا کہ ”حضور ﷺ کے متعلق جتنی بھی احادیث، تاریخ اور تفسیر میں موجود ہیں وہ انسانوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں“۔ درحقیقت احادیث نبویہ کا انکار ہے جو کہ موجب کفر ہے پوری امت محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا اہم ماخذ ہے، قرآن کریم نے جس طرح اللہ رب العزت کے احکام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اسی طرح جناب رسول کریم ﷺ کے افعال واقوال کی بھی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ لہذا قرآن میں بہت سے ایسے احکام ہیں جن کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں، بلکہ ان کی تفصیلات اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے بیان اور عمل پر چھوڑ دی ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے احادیث میں ان کی تفصیلات اور ان پر عمل کرنے کا طریقہ، اپنے قول وفعل سے بیان کیا، اگر احادیث انسانوں کی من گھڑت ہیں تو قرآن کریم کے ایسے احکام پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ اور یہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟
اور اللہ رب العزت نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح قرآن کریم کے معانی کی بھی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور معانی قرآن کی تعلیم حدیث ہی میں ہوئی، اور جن ذرائع سے قرآن کریم ہم تک پہنچا ہے انہی ذرائع سے احادیث بھی ہم تک پہنچی ہیں، اگر یہ احادیث من گھڑت ہیں اور یہ ذرائع قابل اعتماد نہیں تو یہ امکان قرآن کریم میں بھی ہوسکتا ہے، تو پھر تو
قرآن کریم کو بھی نعوذ باللہ من گھڑت کہنا لازم آتا ہے، لہذا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح قرآن کریم اب تک محفوظ چلا آرہا ہے اسی طرح احادیث بھی محفوظ چلی آرہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا بے نظیر انتظام فرمایا ہے جس کی تفصیل تدوین حدیث کی تاریخ سے معلوم ہوسکتی ہے۔ لہذا احادیث کو انسانوں کی من گھڑت کہانیاں قراردینا صریح گمراہی اور موجب کفر ہے۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: ”حجیت حدیث“ مصنفہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم“ کتابت حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں ”مصنفہ مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم، ”حفاظت و حجیت حدیث“ مصنفہ مولانافہیم عثمانی صاحب۔
۵۔۔۔۔مسلمانوں کو چاہیے کہ جو شخص یا تنظیم ایسے عقائد کی حامل ہو اس سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں، اور ان کے لٹریچر اور کیسٹ وغیرہ سے مکمل احتراز کریں، خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں، اور ارباب حکومت کو بھی ایسی تنظیم کی طرف توجہ دلائیں تاکہ ان پر پابندی لگائی جاسکے۔
۶۔۔۔۔جو شخص مذکورہ عقائد کو بغیر کسی مناسب تاویل کے مانتا ہے وہ شخص مرتداور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اس کی مسلمان بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی، اب اس کے عقد میں کوئی مسلمان عورت نہیں رہ سکتی، اور نہ کسی مسلمان عورت کا اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔
مذکورہ بالا شخص کے عقائد قرآن و سنت، اجماع امت اور اکابر علما اہل سنت والجماعت کی تصریحات کے خلاف ہیں، اس کے لئے درج ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں:
”فی شرح العقائد: ۷۱۲: وللہ تعالیٰ کتب انزلھا علی انبےأہ وبین فیھا امرہ ونھیہ ووعدہ و وعیدہ وکلھا کلام اللہ تعالیٰ۔۔۔۔۔وقدتسخت بالقرآن تلاوتھا وکتابتھا وبعض أحکامھا، وفی الحاشےۃ قولہ ”وللہ کتب“ رکن من ارکان مایجب بہ الایمان مما نطقت النصوص القرآنیہ والاخبار النبویہ۔“
ترجمہ: ”شرح عقائد ص: ۷۱۲ میں ہے: ”کہ اللہ تعالیٰ کی (قرآن کے علاوہ) کئی کتابیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء پر نازل فرمایا اور ان کتابوں میں امرونہی، وعدہ ووعید کو بیان فرمایا اور یہ تمام کتابیں کلام الہی ہیں۔۔۔۔ اور قرآن مجید کے نازل ہونے پران سابقہ کتب کی تلاوت اور کتابت اوران کے بعض احکام کو منسوخ کیا گیا، اور حاشیہ میں ہے قولہ ”وللہ کتب“ یعنی ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن یہ بھی ہے کہ ان سابقہ کتب پر ایمان لایا جائے جن کے بارہ میں نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ شہادت دیتی ہیں۔“
وفیہ:۵۴: والرسول انسان بعثہ اللہ تعالیٰ الی الخلق التبلیغ الاحکام۔
ترجمہ: ”اور شرح عقائد ص ۵۴ میں ہے: اور رسول وہ انسان ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے مبعوث فرماتے ہیں۔“
وفی شرح المقاصد:۵/۵: النبی انسان بعثہ اللہ تعالیٰ التبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول“۔
ترجمہ: ”اور شرح مقاصد ص ۵ج۵ میں ہے کہ:نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ ان احکام کی تبلیغ کے لئے بھیجتے ہیں جو ان کی طرف وحی فرماتے ہیں اور رسول کی تعریف بھی یہی ہے“۔
وفی شرح العقیدۃ الطحاوےۃ لابن ابی العز:۷۹۲: قولہ ونؤمن بل ملائکۃوالنبین والکتب المنزلۃ علی المرسلین ونشھد انھم کانو ا علی الحق المبین۔ ھذہ الامور من ارکان الایمان قال تعالیٰ: أمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل آمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ“۔ (البقرہ: ۵۸۲)
وقال تعالی: لیس البران تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من أمن باللہ والیوم الأخر والملائکۃ والکتاب والنبین“۔ (البقرہ: ۷۷۱)
فجعل اللہ سبحانہ وتعالیٰ الایمان ھو الایمان بھذہ الجملۃ وسمی من أمن بھذہ الجملۃ مومنین کما جعل الکافرین من کفر بھذہ الجملۃ بقولہ: ومن یکفر باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الأخر فقد ضل ضلالہ بعیدا“۔(النساء:۶۳۱)
ترجمہ: ”اور ابن ابوالعزؒ کی شرح عقیدہ طحاویہ کے ص۷۹۲ میں ہے کہ: ہم ایمان لاتے ہیں ملائکہ پر، نبیوں پر اور ان پر نازل ہونے والی تمام کتابوں پر اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ(رسول) سب کے سب حق پر تھے۔ اور یہ تمام امور ارکان ایمان میں سے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اور مومنین بھی سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ، اور اسکی کتابوں کے ساتھ، اور اس کے پیغمبروں میں سے کسی سے تفریق نہیں کرتے۔“ اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ”کچھ ساراکمال اس میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، لیکن کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر، اور فرشتوں پر اور کتب پر اور پیغمبروں پر“۔
(ان دلائل سے معلوم ہوا کہ) اللہ تعالیٰ نے ایمان ہی اس چیز کو قرار دیا ہے کہ ان تمام چیزوں پر ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ”مومنین“ نام ہی ان لوگوں کا رکھا ہے جو ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ”کافرین“ ان لوگوں کو کہاگیا ہے جو ان تمام چیزوں کا انکار کرتے ہیں، جیسے کہ ارشاد الہی ہے: ”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے، اور اس کے فرشتوں کا، اور اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا، اور روز قیامت کا، تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا“۔
”وقال فی الحدیث المتفق علی صحتہ، حدیث جبرئیل، وسوالہ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم عن الایمان فقال: ان تؤمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ الح، فھذہ الاصول التی اتفقت علیھا الانبےأ والرسل صداقت اللہ علیھم وسلامہ، ولم یؤمن بھا حقیقۃ الایمان الا اتباع الرسل۔“
ترجمہ: ”اور حدیث جبرئیلؑ، (جس کی صحت پر بخاری ومسلم متفق ہیں) میں ہے کہ: حضرت جبرئیلؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: ”ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی تمام کتابوں پر، اور تمام رسولوں پر“۔۔۔۔۔ پس یہ وہ اصول ہیں جن پر تمام پیغمبروں اور رسولوں کا اتفاق ہے، اور اس پر صحیح معنی میں کوئی ایمان نہیں لایا مگر وہ جو انبےأ و رسل کے متبعین ہیں“
۔
”وفیہ: ۱۱۳ : واما الانبےأ والمرسلون فعلینا الایمان بمن سمی اللہ تعالیٰ فی کتابہ من رسلہ والایمان بان اللہ تعالیٰ ارسل رسلا سواھم وآنبیاء لایعلم اسماء ھم وعددھم الا اللہ تعالیٰ الذی ارسلھم۔۔۔۔۔وعلینا الایمان بانھم بلغوا جمیع ما ارسلوا بہ علی ما امرھم اللہ بہ وانھم بینوہ بیانا لایسع احداممن ارسلوا الیہ جھلہ ولایحل خلافہ الخ
۔۔۔واما الایمان بالکتب المنزلۃ علی المرسلین فنومن بما سمی اللہ تعالیٰ منھا فی کتابہ من التوراۃ والانجیل والزبور، ونومن بان اللہ تعالیٰ سوی ذلک کتبا انزلھا علی انبےأہ لایعرف اسمائھا وعددھا الا اللہ تعالیٰ۔
ترجمہ: ”اور اسی کتاب کے ص۱۱۳ پر ہے: رہے انبےأ اوررسول، پس ہمارے ذمہ واجب ہے کہ ان میں سے ان تمام نبیوں پر ایمان لائیں جن کا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، (اسی طرح) اس پر بھی ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ دوسرے انبےأ اور رسول بھی بھیجے کہ جن کے نام اور تعداد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بات پر
ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کو جن احکام کے پہنچانے کا حکم دیا تھا، ان انبیاء نے وہ تمام احکام پہنچادئیے۔ اور انبیاء نے ان احکام کو اتنا کھول کھول کر بیان کردیا کہ امت میں سے ناواقف سے ناواقف آدمی کو بھی کوئی اشکال نہ رہا، اور ان کے خلاف کرنا حلال نہ رہا۔۔۔اور رہا ان کتابوں پر ایمان لانا جن کو رسولوں پر نازل کیا گیا سو ہم ان تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نام لیا ہے، یعنی تورات، انجیل، اور زبور۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ اور کتابیں بھی اپنے انبیاء پر نازل فرمائیں، جن کا نام اور ان کی تعداد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔‘
‘
”وفی شرح العقیدۃ الطحاوےۃ للمیدانی: ۴۰۱: والایمان المطلوب من المکلف ھو الایمان باللہ وملائکتہ وکتبہ بانھا کلام اللہ تعالیٰ الازلی القدیم المنزہ عن الحروف والاصوات وبانہ تعالی انزلھا علی بعض رسلہ بالفاظ حادثۃ فی الواح ا وعلی لسان ملک وبان جمیع ماتضمنتہ حق وصدق، رسلہ بانہ ارسلھم الی الخلق لھدایتھم وتکمیل معاشھم ومعادھم وایدھم بالمعجزات الدالۃ علی صدقھم فبلغوا عنہ رسالتہ الغ۔“
ترجمہ: ”اور میدانی کی شرح عقیدہ طحاویہ ص ۴۰۱ پر ہے: ”مکلف (یعنی جن وانس) سے جو ایمان مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ: اللہ پر ایمان لانا، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی تمام کتابوں پر، اس طرح ایمان لانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام، کلام ازلی اور قدیم ہے، جو حروف اورآواز سے پاک ہے، اور نیز اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو اپنے بعض رسولوں پرتختیوں میں حادث الفاظ کی صورت میں نازل کیا، یا فرشتہ کی زبان پر اتارا۔
اور نیز وہ تمام کا تمام کلام جس پر کتاب مشتمل ہے حق اور سچ ہے۔ اور اللہ کے رسول جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی طرف ان کی ہدایت، اور ان کی تکمیل معاش و معاد کیلئے بھیجا، اور ان انبےأ کی ایسے معجزات سے تائید کی جو ان انبیاء کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں۔ ان انبیاء نے اللہ کے پیغام کو پہنچایا۔“
”قال القاضی عیاض فی شرح الشفأ: ۵۳۳: واعلم ان من استخف بالقرآن او المصحف او بشیئی منہ او سبہ او جحدہ او حرف منہ او آےۃ او کذب بہ او بشیئی مما صرح بہ فیہ من حکم او خبر اواثبت ما نفاہ اونفی مااثبتہ علی علم منہ بذلک او شک فی شیئی من ذلک فھو کافر عنداھل العلم باجماع۔“
ترجمہ: ”علامہ قاضی عیاضؒ شرح شفاء ص۵۳۳ میں لکھتے ہیں:
”جان لیجئے کہ جس نے قرآن یا کسی مصحف یا قرآن کی کسی چیز کو ہلکا جانا یا قرآن کو گالی دی یا اس کے کسی حصہ کا انکار کیا یا کسی حرف کا انکار کیا یا قرآن کو جھٹلایا، یاقرآن کے کسی ایسے حصہ کا انکار کیا جس میں کسی حکم یا خبر کی صراحت ہو، یا کسی ایسے حکم یا خبر کوثابت کیا جس کی قرآن نفی کررہا ہے، یا کسی ایسی چیز کی جان بوجھ کر نفی کی جس کو قرآن نے ثابت کیا ہے، یا قرآن کی کسی چیز میں شک کیا ہے، تو ایسا آدمی بالاجماع، اہل علم کے نزدیک کافر ہے۔‘
وفی شرح العقائد۔۵۱۲: وافضل الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم لقولہ تعالیٰ، کنتم خیر امۃ ولا شک ان خیریہ الامۃ بحسب کمالھم فی الدین وذلک تابع لکمال نبیھم الذی یتبعونہ۔“
ترجمہ: ”شرح عقائد ص۵۱۲ میں ہے کہ انبیاء میں سے سب سے افضل حضرت محمد ﷺ ہیں“ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے کہ”تم بہترین امت ہو“ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کا بہترین ہونا دین میں ان کے کمال کے اعتبار سے ہے۔ اور امت کا دین میں کامل ہونا یہ تابع ہے ان کے اس نبی کے کمال کے، جس کی وہ اتباع کررہے ہیں۔“
وفی المشکوۃ: عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: انا سید ولد آدم یوم القیمۃ و اول من ینشق عنہ القبر و اول شافع و اول مشفع۔ (رواہ مسلم)
ترجمہ: ”اور مشکوۃ شریف میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ:”رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی،اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی“۔
”وفی المرقاۃ:۱/۷: فی شرح مسلم للنوری۔۔۔وفی الحدیث دلیل علی فضلہ علی کل الحلق لان مذھب اھل السنۃ ان الأدمی افضل من الملائکۃ وھو افضل الأدمیین بھذا الحدیث۔“
ترجمہ: ”اور مرقات ص۱ج۷ میں ہے کہ:”یہ حدیث آپ ﷺ کی تمام مخلوق پر فضیلت کی دلیل ہے“ کیونکہ اہل سنت کا مذہب ہے کہ آدمی ملائکہ سے افضل ہے اور آپ ﷺ اس حدیث کی بنأ پر تمام آدمیوں سے افضل ہیں (تو گویا آپ ﷺ تمام مخلوقات سے افضل ہوئے)۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الغرض یہ شخص ضال ومضل اور مرتد وزندیق ہے، اسلام اور قرآن کے نام پر مسلمانوں کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈال رہا ہے، اور سیدھے سادے مسلمانوں کی نبی آخر الزمان ﷺ کے دامنِ رحمت سے کاٹ کر اپنے پیچھے لگانا چاہتا ہے۔
حکومت پاکستان کافرض ہے کہ فوراً اس فتنہ کا سدباب کرے۔ اور اس بے دین کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور اسے ایسی عبرتناک سزادی جائے کہ اس کی آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں، اور کوئی بدبخت آئندہ ایسی جرأت نہ کرسکے۔
نیز اس کا بھی کھوج لگایا جائے اوراس کی تحقیق کی جائے کہ کن قوتوں کے اشارہ پر یہ لوگ پاکستان میں اور مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی کی فضأ پیدا کررہے ہیں؟