میرے بھائیو: اس وقت ساری دنیا کے انسان، کیا کافر، کیا مسلمان، وہ من چاہی زندگی پر چل رہے ہیں، جو جی میں آیا وہ کرنا ہے،
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد! فاعوذ با للّٰہ من شیطان ا لرجیم () بسم ا للّٰہ الرحمٰن الرحیم () فَمَنْ یَّعْمَلْ مثْقَل ذَرَّۃِ ِ خَیْرُا یَّرَہٰ () وَ مَنْ یَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّۃِ ِ شَرَا یَّرَہ‘ () و قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الا فعملو و انتم من اللّٰہ علیٰ حضر وا عملو انکم معرضون علی اعمالکم فَمَنْ یَّعْمَلُ مثْقَل ذَرَّۃِ ِ خَیْرُا یَّرَہٰ () وَ مَنْ یَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّۃِ ِ شَرَا یَّرَہ‘ () او کما قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔
میرے بھائیو: اس وقت ساری دنیا کے انسان، کیا کافر، کیا مسلمان، وہ من چاہی زندگی پر چل رہے ہیں، جو جی میں آیا وہ کرنا ہے، اور جو جی میں نہیں آیا وہ نہیں کرنا، اپنی من چاہی زندگی کا دستوریہ گزشتہ تین سو سالوں سے باطل کی محنت ہوتے ہوتے، وہ ہمیں اس وقت یہاں تک پہنچا چکے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے اثر لینا یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اثر لینا، یا آخرت سے اثر لینا ہمارے دلوں سے مٹ چکا ہے یا بہت دھندلا ہو چکا ہے۔
یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے، یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، عرش و فرش اللہ تعالیٰ کا ہے، یہاں وہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، یہاں وہ نہیں ہوگا جو دنیا کے بادشاہ چاہتے ہیں، صدر، وزیر، فوجیں چاہتی ہیں۔ بلکہ ‘اِنَّ الْاَمْرَ کْلَّہ‘ لِلّٰہ’ ساری حکومت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ ‘من قبل’ شروع سے ہے اور ‘من بعد’ آخر تک ہے، اور وہ ایسی حکومت والا ہے کہ جس کو زوال کوئی نہیں۔
لم یلد ولم یولد۔
سارے جہاں کو بنایا خود بننے سے پاک ہے۔
سارے جہاں کو مارتا ہے، مارتا رہے گا، خود موت سے پاک ہے، سب کو بنایا خود بننے سے پاک ہے۔
سب کو مارا مرنے سے پاک اپنے ارادوں میں وہ کامل ہے۔
وما تشالون الا ایشاء اللّٰہ رب العٰلمین۔
تم بھی اللہ کے محتاج ہو، تمہارا چاہا بھی اس وقت پورا ہو گا جب اللہ تعالیٰ بھی چاہ لے گا۔
فرعون کی ساری طاقت لگی کہ موسیٰ علیہ السلام کو ذبح کرنا ہے، اللہ کا ارادہ ہے کہ ہم نے زندہ رکھنا ہے، اتنی کثرت سے بچے قتل ہوئے کہ اس کی اپنی قوم نے کہا کہ حکومت کس پر کرنی ہے؟
ایک سال چھوڑو ایک سال مارو، جس سال چھوڑتا تھا اس سال ہارون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا، جس سال قتل کرتا تھا، اس سال موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا، حالانکہ اس کے برعکس کرتا تاکہ معاملہ آسان ہوتا، لیکن اللہ کی قدرت کو کون جانتا ہے، پھر ایسا نظام چلایا کہ اس کو پانی میں ڈلوایا، پانی سے فرعون کے دربار میں پہنچایا، امّ موسیٰ، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ غمگین، جب یہ دریا میں ڈالوں گی تو یا ڈوبے گا یا مرے گا اور اس سے بچانا چاہتی ہوں تو یہ موت میں جارہا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
میرا دشمن فرعون پکڑ لے گا۔
‘وعدولہ’ اس کا بھی دشمن ہے، اس کو پکڑ لے گا، تو موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے جی میں آیا، یا اللہ! جس سے بچانا ہے، وہی اس کو پکڑے گا تو پھر بچے گا کیسے؟
وہ تو اس کو دیکھتے ہی ذبح کر دے گا، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لس تخاافی و لا تحزنی۔
نہ اس کی موت کا غم کھا، نہ اس کی موت کا خوف کھا، نہ اس کی جدائی کا غم کھا۔
میں تیری زندگی میں اسے رسول بنا دوں گا۔
یہ دونوں کام تو دیکھ کر مرے گی، اس سے پہلے نہیں مر سکتی، وہ فرعون کی گود میں جائے یا تپتی آگ میں گرے، یا وہ طوفانی موجوں میں گرے، بچانا جب تیرے اللہ کا ارادہ ہو جاتا ہے تو کائنات کا ہر سبب پھر حفاظت میں استعمال ہوتا ہے، پھر ہلاکت میں استعمال نہیں ہو سکتا ہے۔
ساری کی ساری نمرود کی طاقت استعمال ہوئی کہ ابراہیم ؑ کو آگ میں جلا دو۔ لکڑیاں اکٹھی ہوئیں، ڈھیر لگایا گیا، اور ایسی آگ دہکی کہ اوپر سے اڑنے والا پرندہ بھی اس میں گر کے راکھ ہو جائے۔
اب ابراہیم علیہ السلام کو پھینکنے کا وقت آیا تو آگ کے قریب جائے گا کون؟ راستہ ہی کوئی نہیں، ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے خود چلا جا۔ وہ کہنے لگے میں کیوں جاؤں؟ تم نے جلانا ہے، پھینکو مجھے۔ اب پھینکنے کا طریقہ کوئی نہیں، قریب جائیں تو خود جلتے ہیں۔ شیطان نے ایک ہتھیار بنا کے دیا، غلیل کی طرح، اس میں اتار کے پھینکا، کپڑے اتارے، رسیوں سے باندھا، جب ہوا میں اڑے تو جبرائیل دائیں طرف آ گئے اور پانی کا فرشتہ بائیں طرف آگیا، درمیان میں ابراہیم علیہ السلام،اِدھر جبرائیل علیہ السلام اُدھر پانی کا فرشتہ اور ابراہیم علیہ السلام خاموش ہیں بس اتنا کہ رہے ہیں:
حسبی اللّٰۃ و نعم الوکیل۔
اس سے آگے کچھ نہیں بول رہے اور اُدھر پانی کا فرشتہ اس انتظار میں ہے کہ ابھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا پانی ڈالو، آگ بجھاؤ، اِدھر جبرائیل علیہ السلام اس انتظار میں ہیں کہ یہ مجھ سے کچھ کہیں تو میں آگے کروں، تو جب دیکھا کہ ابراہیم علیہ السلام بولتے نہیں ہیں تو وہ بے قرار ہو گئے کہ یہ آگ میں جل جائیں گے؟ جبرائیل علیہ السلام بھی یہی جانتے ہیں کہ آگ جلاتی ہے، کہنے لگے:
ابراہیم ؑ آپ کو میری کوئی ضرورت نہیں؟ تو فرمایا ‘اما الیک فلا’ ضرورت ہے، پر مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں۔ ‘اما الی اللہ فنعم’ بے شک اللہ کا ضرور محتاج ہوں پر تیرا محتاج کوئی نہیں ہوں۔ آگ میں جا رہے ہیں۔ جب جبرائیل علیہ السلام سے نظر ہٹ گئی اور پانی کے فرشتے سے بھی نظر ہٹ گئی تو اللہ تعالیٰ نے براہ راست آگ کو حکم دیا۔
اے آگ ٹھنڈی ہو جا، سلامتی کے ساتھ، میرے ابراہیم ؑ پر۔
تو اللہ جل جلالہ نے ایسا ٹھنڈا فرمایا کہ شعلوں کو گود بنا دیا، شعلوں نے ابراہیم علیہ السلام کو گود میں لے لیا۔ جیسے ماں بچے کو چارپائی پر لٹاتی ہے ایسے آرام سے انگاروں پر بٹھادیا آگ کو شفاف بنا دیا، یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام کا باپ آذر، جو جانی دشمن اور قتل کے درپے تھا جب اس کی نظر پڑی تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔
میرے بھائیو! کائنات میں جو بھی شکل ہے، جو بھی صورت ہے، اس کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے تابع ہے، اللہ تعالیٰ کی چاہت سے استعمال ہوتی ہے، اس جہان میں فیصلہ اللہ تعالیٰ کا حتمی چلتا ہے، جو زمین کو کہے گا وہ کرے گی، جو آسمانوں کو کہے گا وہ کریں گے، جو ہواؤں کو کہے گا وہ کریں گی، جو پانیوں کو کہے گا وہی ہوگا، ساری کائنات میں آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔
میرے بھائیو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانی زندگی کے حالات کو اس کے اعمال کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، ساری دنیا کی طاقتیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو نہیں بدل سکتیں، جب لوگوں کے اعمال بگڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ حالات کو بھی برباد کرتا ہے اور آخرت کو بھی برباد کرتا ہے، مال نے نہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہلے عزت دلائی نہ آج عزت دلا سکتا ہے دنیا کے اقتدار نے نہ پہلے کسی کو کامیاب کیا نہ آج کسی کو کامیاب کرسکتا ہے۔
بھائیو! آج یہ دھوکہ ہے کہ ہم اپنی من چاہی پر چل رہے ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ کے دستور کا پتہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کن چیزوں سے راضی ہے، کن چیزوں سے ناراض ہے، کس پر اس کی پکڑ آتی ہے، کس پر وہ معاف کرتا ہے، اس لئے یہ ساری دنیا کے انسان انتہائی خطرے میں چل رہے ہیں کہ وہ سارے اعمال جن پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے وہ پوری دنیا میں ہیں، ہر محلے میں ہیں، ہر بازار میں ہیں، پورے پاکستان میں ہیں، پوری دنیا میں ہیں، پورے چھ براعظم میں پھیلی ہوئی انسانیت آج اللہ تعالیٰ کو للکار رہی ہے اور کبیرہ گناہوں کے ساتھ زمین کو بھر دیا ہوا ہے۔
ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس۔
اور اللہ اپنی سنت، قرآن کے ذریعے سے بتاتا ہے کہ جب تم جیسی قوموں نے، تمھارے جیسے اعمال اختیار کئے تو سنو:
ایک قوم تم سے پہلے آئی، نوح علیہ السلام کی، جنہوں نے زمین کو کفر سے بھر دیا، الٹا میرے نبی ؑسے کہنے لگے۔
فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین۔
وہ عذاب لاؤ، جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے اور وہ عذاب لاؤ جس کا تم نے وعدہ کیا ہوا ہے۔
پھر ہمارا وہ دن آیا۔
یہ نہیں کہا کہ زمین سے پانی نکالا، کہا:
ہم نے پوری زمین کو چشمہ بنا دیا۔
روئیں روئیں سے پانی اُبلنے لگا اور آسمان سے پانی گرا، زمین سے پانی نکلا اور ساری کائنات میں وہ پانی پھیلا، ایک تفسیر میں، میں نے پڑھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دن کسی پر رحم کرتا تو ایک عورت پر رحم کرتا جو بچے کو لے کے بھاگ رہی تھی کہ کوئی جائے پناہ ملے اور میں بچ جاؤں اور وہ بھاگتے بھاگتے ایک اونچے پہاڑ پر چڑھی، جس سے اونچا پہاڑ کوئی نہیں تھا، پیچھے سے پانی آیا، اس نے پہاڑ کو جو ڈبویا پھر اس کے پاؤں پرچڑھا، پھر اس کے سینے پر آیا، پھر اس نے بچے کو اوپر کر لیا پھر اس کی گردن تک آیا تو اس نے بچے کو اپنے سر سے اوپر کرلیا کہ شاید بچہ بچ جائے پرپانی کی موج نے نہ بچے چھوڑے نہ بڑے چھوڑے، سب کو برابر کر دیا، یہاں تک کہ نوح ؑکے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے غرق کر دیا۔
و حال بینھم الموج فکان من المغرقین۔
تین آدمی ایک غار میں چھپ گئے اور اوپر پتھر رکھ لیا کہ یہاں تو پانی نہیں آئے گا، چاروں طرف جو پانی کا تماشہ دیکھا تو اندر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر میں تینوں کو تیز پیشاب آیا اور بے قرار ہو کر پیشاب کرنے بیٹھ گئے، اللہ تعالیٰ نے پیشاب کو جاری کردیا اور وہ پیشاب کرتے کرتے، اپنے ہی پیشاب میں غرق ہو کے مر گئے۔
جو کام قوم نوح کیا کرتی تھی وہ کام آج ہو رہے ہیں، ساری دنیا میں ہو رہے ہیں۔
قوم عاد آئی، بڑی طاقتور، یہاں تک کہ للکارنے لگے۔
تو لاؤنا ہمیں جس سے ڈراتے ہو؟
ان یقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوء
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اولم یرو ان الذی خلقھم ھو اشد منھم قوۃ۔
ائے ھود ؑ انہیں بتاؤ، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے۔
تو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ حجت پوری ہوئی اور وہ اپنے تکبر میں بڑھتے رہے، نافرمانی میں بڑھتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے عذاب کا دروازہ کھولا، قحط آگیا، انسان ایسے بھوکے اور وہ انسان ہماری طرح تو نہیں تھے بلکہ چالیس ہاتھ قد ہوتا تھا، تیس ہاتھ قد ہوتا تھا، آٹھ سو سال نو سو سال عمر ہوتی تھی، نہ بوڑھے ہوتے تھے نہ بیمار ہوتے تھے، نہ دانت ٹوٹتے نہ کمزور ہوتے، نہ نظر کمزور ہوتی، جوان تندرست توانا، صرف موت آتی تھی، اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ہوتا تھا۔
اب ان کو بھوک بھی زیادہ لگی اور وہ اپنی ضرورتوں کا غلہ بھی کھا گئے، حلال بھی کھا گئے، حرام بھی کھا گئے، پھر کتے بھی کھا گئے، بلے بھی کھا گئے، چوہے بھی کھا گئے، جو چیز ہاتھ میں آئی، سانپ بھی کھا گئے۔ ہر چیز کھا گئے پر نہ بارش کا قطرہ گرا، نہ زمین سے دانہ پھوٹا، یہاں تک کہ درخت توڑ توڑ کے ان کے پتے بھی چبا گئے، قحط دور نہ ہوا تو پھر انہوں نے ایک وفد بیت اللہ بھیجا کہ ہمیں بارش دو۔ جب مصیبت آتی تھی تو اوپر والے کو پکارتے تھے، جب وہ کام کر دیتا تھا تو پھر سرکش ہو جاتے تھے، پھر انہیں پتھروں کو پوجنے لگتے تھے۔
تو اللہ تعالیٰ نے تین بادل سامنے کئے، آواز آئی، ان میں سے ایک کا انتخاب کرو، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک کالا۔ اب آپس میں کہنے لگے، سفید تو خالی ہوتا ہے، سرخ میں ہوا ہوتی ہے، کالے میں پانی ہوتا ہے۔ پس انہوں نے کہا یہ کالا بادل چاہئے، آواز آئی کہ پہنچے گا، یہ واپس پہنچے، انہوں نے کہا بارش ہوگی، پھر ساری قوم اکٹھی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے وہ بادل بھیجا۔
تو اللہ نے کہا:
اب دیکھو کیسے تمہارا رب تمہیں اُڑاتا ہے۔
ان کے گھروں کو ہوا نے اُڑا دیا، ان کو ہوا نے اُڑا دیا، ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے قد کے لوگ اور تنکے کی طرح ہوا میں اُڑ رہے تھے اور ان کے سروں کو آپس میں ہوا ٹکرا رہی تھی، وہ گھومتے تھے، سر ٹکراتے تھے، بعض لوگ بھاگ کے غاروں میں چھپ گئے، تو ہوا کا بگولہ ایسے زوردار طریقے کے ساتھ غار کے اندر جاتا اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ ان کو باہر نکالتا، پھر ان کو ہوا میں اچھال دیتا گیند کی طرح، پھر ان کے سر آپس میں ٹکراتے ٹکراتے ان کی کھوپڑیاں پھٹ گئیں اور ان کے بھیجے ان کے چہروں پر نکل آئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُلٹا کے ان کو زمین پر مارا، سر الگ ہوگیا، دھڑ الگ ہوگیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے للکار کے پوچھا۔
فھل ترا لھم من باقیہ۔
کوئی ہے باقی تو دکھاؤ، کہ اس کا بھی صفایا کر دوں، کوئی نظر نہ آیا، سب کو اللہ تعالیٰ نے مٹایا۔ جو کام قوم عاد کرتی تھی وہ کام آج پوری دنیا میں ہو رہے ہیں۔
پھر ایک قوم ثمود آئی۔ انہوں نے سنا تھا کہ قوم عاد کو ہوا نے اڑا دیا تھا، تو انہوں نے پہاڑ کے اندر گھر بنائے کہ اندر ہمیں کون کچھ کہے گا۔ اندر تو ہوا جا ہی نہیں سکتی، جائے گی بھی تو کہاں تک اندر جائے گی۔ نافرمانی نہیں چھوڑی، الٹے کام کو چل پڑے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہوا نہیں بھیجی، ایک فرشتہ آیا (بھیجا)۔
یعلمون و انجینا الذین امنو و کانو یتقون۔
اللہ تعالیٰ نے کہا، یہ دیکھو! ایک فرشتہ آیا، اس نے چیخ ماری اور ان کے کلیجے پھٹ گئے، چہرے نیلے اور کالے ہو گئے اور ساری قوم کو اللہ تعالیٰ نے آن کی آن میں ہلاک کر دیا۔
پھر اس پر قوم شعیب ؑ کا اللہ تعالیٰ نے قصہ سنایا، یہ تاجر قوم تھی۔ فیصل آباد کے بازاروں میں جو ناپ تول میں کمی ہے وہ وہاں ہو رہی تھی، جو جھوٹ ہے وہ وہاں چل رہا تھا،جو خیانت ہے و ہ وہاں چل رہا تھا دکھانا کچھ اور، دینا کچھ اور، یہ وہاں چل رہا تھا، تولنے میں زیادہ، ناپنے میں زیادہ، یہ سارا کام جو کچھ ہو رہاہے وہ وہاں ہوا اور بڑھتا گیا اور ساری دنیا کی تجارت انہوں نے قبضے میں کرلی اور شعیب علیہ السلام نے کہا کہ بھائیوں باز آ جاؤ۔
جواب آیا:
اصلاتک تامرک ان فترک ما یعبد اباء نا او انفعل فی اموالنا ما نشاء انک لانت الحلیم الرشید۔
ائے شعیب! بس تو مسجد میں بیٹھ جا، ہمارے کاروبار میں دخل نہ دے، یہ تیری نمازیں ہمیں کہتی ہیں کہ ہم باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دیں اور ہم اپنے کاروبار تیرے طریقے پر کریں گے تو ہم تو بھوکے رہ جائیں۔
اگر کسی سے آپ کہیں کہ بھائی دیانت سے تجارت کرو، تو وہ کہے گا میرا تو بجلی کا بل بھی ادا نہیں ہوتا، میں روٹی کہاں سے کھاؤں گا؟
میں نے ایک تیل والے سے کہا۔ تم ملاوٹ کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا، اگر ملاوٹ کریں تو ایک ڈرم کے پیچھے پانچ سو روپیہ بچتا ہے اور خالص بیچوں تو پچاس روپے بچتے ہیں اور پچاس روپے سے میرا کیا ہوگا۔ سبزی گوشت بھی نہیں آتا اور پانچ سو روپے سے تو کتنے دن گزر جاتے ہیں۔
تو یہی کچھ قوم شعیب نے کہا کہ:
بنک نہ ہوں تو کام کیسے چلے؟
یہ سارے اعتراضات جو آج کے تاجر کرتے ہیں یا دوکاندار کرتے ہیں، یہ سارے اعتراضات حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے کئے کہ پھر کاروبار کیسے چلے گا؟
پھر تجارت کیسے چلے گی؟
بھائی! ہم تو تجارت چلانے نہیں آئے، ہم تو اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے تجارت ٹھپ ہو جائے، یا چل پڑے تو برکت سبحان اللہ، ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ہم نے روٹی کھانی ہے اور بچوں کو کھلانی ہے، ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کمانا ہے اور اس کے مطابق کھلانا ہے۔ اس میں کچھ بچے گا کھلائیں گے، نہیں بچے گا فاقہ کریں گے، بچوں کو بھی کہیں گے، تمہارا باپ نہیں دے سکتا، میں تمہاری خاطر دوزخ کی آگ کو برداشت نہیں کر سکتا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ کے بارہ بیٹے تھے۔ جب انتقال ہونے لگا تو ان کے سالے، مسلمہ بن عبد الملک کہنے لگے:
” امیر المؤمنین آپ نے بچوں پر بڑا ظلم کیا ہے”۔
کہنے لگے، کیا ظلم کیا ہے؟
کہا، ان کے لئے جو چھوڑ کے جارہے ہیں وہ دو روپے فی کس ہے، آپ کے بچوں کو ترکے میں دو روپے (یعنی دو درہم) ملیں گے تو یہ کیا کریں گے؟ ان کا آپ نے کچھ نہ بنایا۔
عمر بن عبد العزیز ؓ پر زہر نے اثر کر لیا تھا، کہنے لگے مجھے بٹھا دو، تو انہیں بٹھا دیا گیا۔ کہنے لگے بات سنو!
” میں نے ان کو حرام کوئی نہیں کھلایا اور حلال میرے پاس تھا ہی نہیں لہٰذا میں اس کا مکلف نہیں ہوں کہ ان کے لئے جمع کروں “۔
وہ کہنے لگے، ایک لاکھ روپیہ میں دیتا ہوں، میری طرف سے بچوں کو ہدیہ کر دیں۔
کہنے لگے وعدہ کرتے ہو؟
کہا ہاں کرتا ہوں۔
کہنے لگے اچھا ایسا کرو، جہاں جہاں سے تم نے ظلم اور رشوت سے پیسہ اکٹھا کیا ہے نا، ان کو واپس کر دو، میرے بچوں کو تمہارے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر کہا میرے بچوں کو بلاؤ۔ سب کو بلا لیا گیا تو اس کے بعد ارشاد فرمایا!
ائے میرے بیٹو! میرے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ میں تمہارے لئے دولت جمع کرتا، چاہے حلال ہوتی چاہے حرام ہوتی، لیکن اس کے بدلے میں دوزخ میں جاتا۔
دوسرا راستہ یہ تھا کہ میں تمہیں تقویٰ سکھاتا، اللہ سے لینا سکھاتا اور خود جنت میں جاتا۔ میرے بچو! میں تمہارا باپ دوزخ کی آگ نہیں برداشت کر سکتا، لہٰذا میں نے دوسرا راستہ سکھا دیا ہے، تقویٰ والا۔ جب کبھی ضرورت ہو میرے اللہ سے مانگنا، میرے اللہ کا وعدہ ہے :
و ھوا یتولی الصٰلحین۔
کہ میں نیکوں کا دوست ہوں، نیکوں کا والی ہوں۔
پھر اپنے سالے سے کہا:
مسلمہ، اگر میرے بیٹے نیک رہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ضائع نہیں کرئے گا اور اگر یہ نافرمان ہوئے تو مجھے ان کی ہلاکت کا کوئی غم نہیں ہے۔ پھر اس آسمان نے دیکھا کہ اموی شہزادے، مسلمہ کی اولادیں اور سلیمان بن عبد الملک کی اولادیں، جو اپنے ایک ایک بچے کے لئے اس زمانے میں دس دس لاکھ درہم چھوڑ کر مرے، ان کی اولاد مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کے بھیک مانگا کرتی تھیں جیسے ابھی جمعے کے بعد بھکاری یہاں بھیک مانگیں گے اور عمر بن عبد العزیز ؓ کی اولاد ایک ایک مجلس میں سو سو گھوڑے اللہ تعالیٰ کے نام پر خیرات کیا کرتے تھے۔
ہم تاجر بعد میں ہیں، مسلمان پہلے ہیں، ہم افسر بعد میں ہیں، مسلمان پہلے ہیں، بچوں کے باپ بعد میں ہیں، مسلمان پہلے ہیں، بیوی کے خاوند بعد میں ہیں، مسلمان پہلے ہیں، کسی کے بچوں کی ماں، وہ عورت، بعد میں ہے، مسلمان پہلے ہے، کسی کی بیوی بعد میں ہے، مسلمان پہلے ہے۔
اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہوئے سب کچھ قربان کرنے کا حکم ہے، یہ نہیں کہ اپنی خواہشات پر حکم قربان کرو۔ ہمیں یہ حکم ہے کہ میرے حکم پر اپنی خواہش کو قربان کرو۔
ہمارے بازار قوم شعیب والے نہ بنیں، وہ تو مذاق اڑانے لگے۔
پھر کہاں سے کمائیں؟
تو چپ کر کے اپنے نفل پڑھا کر، اپنا اللہ اللہ کیا کر، ہمارے کاروبار میں دخل نہ دیا کر۔ جیسے ہم نے آج اسلام کو کہا ہوا ہے۔
خیانت سے روک دے۔
پھر تو ہماری تجارت ہی ٹھپ ہو جائے گی، تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر تین عذاب مارے۔ پہلی کافر قومیں جو تھیں ان پر ایک ایک عذاب آیا تھا۔ یہ کافر کے ساتھ ساتھ بد دیانت بھی تھے۔ لوگوں کا حق بھی لوٹتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر تین عذاب مارے۔
۳۔ اخذھم عذاب یوم الظلۃ انگاروں کی بارش
ہماری جماعت شعیب علیہ السلام کی قوم کے علاقے میں گئی تھی۔ وہ اتنا ٹھنڈا علاقہ ہے کہ جب ہم وہاں سے گزرے تو وہاں تقریباً تین تین فٹ برف پڑی ہوئی تھی۔ ایسا ٹھنڈا علاقہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک گرم ہوا بھیجی، وہ جھلس گئے، تڑپ گئے، آبلے پڑ گئے، تو اس کے بعد ایک دم ہوا ٹھنڈی ہوئی تو سارے بھاگ کے باہر آ گئے کہ شکر ہے ٹھنڈی ہوا آئی، اوپر سے بادل آیا، کہا شکر ہے بادل آیا، اس کے ساتھ ہی زمین میں زلزلہ آنا شروع ہوا اور اس کے اوپر فرشتے کی چیخ آئی اور اوپر وہ کالا بادل ایک دم سرخ ہو گیا، پھر اس میں سے ایک دم بڑے بڑے انگارے برسے، اور شعیب علیہ السلام کی ساری قوم کو اور مدائن کی منڈی کو اللہ تعالیٰ نے جلا کر راکھ کر دیا۔
اگر یہ بازار والے توبہ نہیں کریں گے تو مجھے ڈر ہے کہیں ان منڈیوں پر بھی وہ انگارے نہ برس جائیں، جو مدائن کی قوم پر برسے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی کسی سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے۔
خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا کہ:
ولیبتین اناس من امتی علی عشر و بطر و لھو ولعب فیصبحو قدمسخو قردہ و خنازیر با استحلاھم
المحارم و اکلھم الربو و لیسھم الحریر و شربھم الخمور و اتخاذھم القینات و قطعیتھم الرحم۔
ایک زمانہ آئے گا، میری امت عیاش ہو جائے گی، بدمعاش ہو جائے گی، ناچ گانے کی رسیاہ ہو جائے گی، گانا بجانا ان کی گھٹی میں پڑ جائے گا، اور اس حال میں ایک ایسی رات آئے کہ انسان رات کو سوئیں گے، صبح کو اٹھیں گے تو بندر اور خنزیر ہوں گے اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ انہوں نے حرام کو حلال کر دیا ہوگا۔
اور مرد ریشم پہنیں گے۔
سونے کی انگوٹھیاں، سونے کی چینیں، نوجوانوں نے گلے میں لٹکائی ہوئی ہیں، سونے کی چین، سونے کی انگوٹی، یہ کون سی لذت ہے، اس انگوٹھی کو پہننے میں، جو اللہ تعالیٰ کو بھی للکارا ہوا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی للکارا ہوا ہے۔
کاش میری امت سونے کا استعمال مت کرئے۔
دیکھو کتنے نوجوان ہیں جو ایسے شوق میں ہیں، ان کو پتہ ہی نہیں کہ یہ اتنا بڑا حرام ہے۔ جن کو کچھ نہیں پتہ ہے، نہ تو اللہ تعالیٰ کا پتہ ہے، نہ روکنے والے کا پتہ ہے، نہ اس کی سزا کا پتہ ہے۔ لہٰذا گاڑی چل رہی ہے تو یہ عذاب کس پر ہوگا؟
وہ اللہ کا رسول ﷺ جو ساری امت کے لئے روتا روتا دنیا سے اٹھ گیا اور ایسا رویا کہ کوئی نبی نہ رویا، ایسا تڑپا کہ کوئی نبی نہ تڑپا کہ اللہ تعالیٰ کو ہزاروں دفعہ تسلیاں دینے کے لئے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجنا پڑا، قرآن بھیجنا پڑا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا کیوں روتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے وہ آیتیں جمع کی تھیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو تسلی دی ہیں، وہ اتنی بن گئیں کہ میرے لئے ان کو لکھنا مشکل ہو گیا۔ سو سے زائد آیات بنتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ تسلی دے رہا ہے۔
لعلک باخع نفسلک الا یکونو مؤمنین لعلک باخع نفسلک علی اٰثارھم الم یومنوا بھذا الحدیث اسفا فلا تذھب نفسلک علیھم حسرت ما انت علیھم یوکیل لست علیھم بمصیطر ما انت علیھم بحجبار من کفر فلا یحزنک کفرہ۔
میرے بھائیو! اللہ کا رسول ﷺ قیامت کے دن جب ہماری نافرمانیوں کو دیکھے گا تو کہے گا۔
میرے قرآن نے پکارا، مسجد آؤ، انہوں نے مسجد کی راہیں چھوڑ دیں۔ مجھے بتاؤ یہ اتنا مجمع کہاں سے آگیا ہے؟ اس میں سے ایک تہائی باہر سے آیا ہوگا، یہ دو تہائی تو سارا گلستان کالونی کا ہے۔
ان کے قدم باقی پانچ نمازوں میں کیوں نہیں اٹھتے؟
یہ کہاں چلے جاتے ہیں؟
کیا یہ صرف آٹھویں دن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں؟
” ائے ہندوستان والو! میں نے تمہیں اتنا قرآن سنایا کہ میں صرصر کو سناتا تو صبا بن جاتی۔ میں پتھروں کو سناتا تو موم ہو جاتے۔
میں دریاؤں کو سناتا تو طوفان تھم جاتے اور میں موجوں کو سناتا تو ان کی طغیانی رک جاتی”۔
پتہ نہیں تم کس چیز سے بنے ہو؟
کس خمیر سے بنے ہو؟
تمہارے سینوں میں دل نہیں ہیں، پتھر ہیں اور پتھر سے بھی زیادہ کوئی چیز سخت ہے؟
کانپتا ہے پر تم کون سے انسان ہو۔ کیسے سینوں میں دل لئے پھرتے ہو کہ پانچ دفعہ اتنا بڑا بادشاہ تمہیں پکارے تو تم اس کی پکار پر نہیں آتے۔
آؤ نماز کی طرف۔
ایک تھانیدار پکارے گلستان کالونی کا، کہ تمہارا سمن ہے آجاؤ۔ تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہو، ڈی۔سی پکارے تو کام چھوڑ کے بھاگتے ہو۔ اور تمہارا، زمین آسمان کا بادشاہ تمہیں دن میں پانچ دفعہ پکارے اور کانوں پر جوں نہ رینگے، آٹھویں دن مسجد کو آرہے ہو۔
جس مسجد پر سجدہ نہ ادا ہو، اس سے بڑا بھی کوئی جرم ہے؟
زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔
رشوت کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت کھانے سے بڑا جرم ہے۔
قتل کر دینا بڑا گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دیان قتل سے بڑا جرم ہے۔ سجدے ہی کا انکار کیا تھا شیطان نے۔
کوئی شرک کیا تھا؟
شیطان سجدے کا انکاری ہوا۔ ایک سجدے کا انکار کرکے وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہو گیا، اس مسلمان کو ہوش نہیں ہے جو روزانہ دن میں پانچ دفعہ بیسوں سجدوں کا انکار کئے بیٹھا ہوا ہے۔ اور پھر آرام سے روٹی کھاتا جا رہا ہے۔
پھر مغرب اور عشاء کا مذاق اڑایا۔
گھر میں نماز پڑھنا بھی چلو نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے، پر یہ بھی نماز کا مذاق ہی ہے اور آٹھویں دن سر پر ٹوپی رکھ کے آیا، آٹھ دن جس نے اتنے سجدوں کا انکار کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے مردود نہ کر دے۔
تو کیا ہوگا اس دن، جن بچوں کی خاطر یا جس نفس کی خاطر اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی کہ اٹھا نہیں جاتا، آیا نہیں جاتا، گرمی بڑی ہے، سردی بڑی ہے، اندھیرا بہت ہے۔
یہ کیسا اسلام ہے؟ یہ کیسے پتھر دل ہیں جو کمانے میں تو ایسے مست ہوئے کہ ہوش نہیں اور جب اللہ بلائے تو ایسے غافل ہوجائیں، نہ بوڑھے کو اور نہ جوان کو ہوش آئے، نہ کسی عورت کو ہوش آئے نہ کسی مرد کو ہوش آئے اور نہ بازار بند ہوں۔
میرے بھائیو! حکومت سے پیسہ بچانے کے لئے ہڑتالیں کیں، بیس بیس دن بازار نہ کھولے، نماز کے لئے اگر دکانیں بند کرتے تو آج اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ظلم سے باہر نکال دیتا۔
دن دیہاڑے ڈاکے پڑئے، کیوں پڑے کہ ہم باغی ہو گئے۔
ہم نے اللہ سے بغاوت کر دی، کیا صرف جمعے کے دن اللہ بلاتا ہے؟ یہ جمعے کے دن اتنے کیوں آتے ہیں؟ باقی دنوں میں کیوں نہیں آتے؟ یہ کیسی وفا ہے؟ ایسا وفاؤں والا اللہ کہ:
زمین بولے، ائے اللہ! اجازت دے میں گلستان کالونی کو نگل جاؤں۔
سمندر بولیں، ائے اللہ! اجازت دے ہم چڑھ جائیں۔
فرشتے بولیں، ائے اللہ! اجازت دے ہم انہیں ہلاک کر دیں۔
اور جس کے سجدے کا انکار ہوا پڑا، اور آٹھوں دن بازاروں میں جس کی شریعت کا مذاق اڑایا جارہا، وہ جس کی غیرت خود جوش میں آ رہی، کہ:
یہ میرے بنائے ہوئے، گندے پانی کے بنے ہوئے، نطفے سے بنے ہوئے، میری غذا کھا کر۔
یہ میرے ہی منکر بن گئے، پندرہ سو کا ملازم آپ کو چائے کی پیالی نہ دے تو آپ کہتے ہیں چل چھٹی کر، ہم کوئی اور رکھ لیں گے۔
دو نالیاں لگائیں۔
سانس کی الگ کر دیں اور معدے کی الگ کر دیں اور وہاں پر پردہ لگایا، جو غذا منہ میں جائے تو معدہ کھل جائے، اور پھیپھڑے کی طرف جانے والی نالی رک جائے، وہ دونوں نالیاں ساتھ ساتھ ہیں اور وہ اللہ اتنی طاقت والا ہے کہ سانس کی نالی بند کرئے اور معدے کی نالی کا منہ کھولے، اور غذا کو منہ میں سے گزار کر معدے میں پہنچائے، پھر ایک زبردست طاقتور نظام چلائے، اس کو توڑ کر آنتوں میں پہنچائے۔
پھر کروڑوں قسم کی فیکٹریوں کو حرکت دے اور اس میں سے خود کو کھینچے، غذاؤں کو کھینچے، پھیپھڑوں کو غذا، خون کو غذا، خون خود غذا لے کے چل رہا، آنتوں کو غذا، دماغ کو غذا، ہڈیوں کو غذا، ناخن کو غذا، ایک ناخن کھینچ لے تو ہم کیا کریں؟ کیا میرے مولا کا نظام ہے!
تھوڑا سا ناخن کٹ جائے تو سارا دن سی سی کرتا ہے، سارا دن ہوئے ہوئے کرتا ہے، یہی ناخن میرا رب کھینچ لے تو؟ ہم تو ایک ناخن کا شکر ادا نہیں کر سکتے، یہ جوڑ بنا دئے، سیدھا کر دے تو؟ ہم اسی کا شکر ادا نہیں کر سکتے۔
میرے بھائیو! یہ سب کچھ کر کے پھر ہم اللہ تعالیٰ سے باغی ہو جائیں، ہے کوئی عقل والی بات؟ ہے کوئی سوچ بچار کی بات کہ پندرہ سو روپے دئے اور ااس نے چائے کی پیالی نہ دی تو نکال دیا، اس نے گاہک کو ڈیل نہیں کیا تو نکال دیا۔ اور یہ وجود کہاں سے خرید کے لائے؟ یہ زمین کس نے بچھا کے دی؟
ائے میرے بندو! میں نے ہی تو تمہیں بنا کے دی۔
فاکھۃ دیکھو میں نے ہی تمہارے لئے پھل نکالا۔
ان میں ایک پردہ لگایا۔
لا یبغان تاکہ کڑوا پانی میٹھے میں نہ چلا جائے، اگر میں پردہ ہٹا لوں تو کڑوا میٹھے میں چلا جائے۔ پھر نہ تمہیں دریا کا پانی میٹھا ملے نہ زمین کا پانی میٹھا ملے۔
فبای الاء ربکما تکذبٰن۔
تم دیکھتے نہیں ہو، تمہاری کشتیاں میرے اتنے بڑے سمندر میں آرام سے کراچی سے لے کر نیویارک تک چلی جاتی ہیں اور میں طوفانوں کو روکتا ہوں، موجوں کو لگام دیتا ہوں، پانی کو تھام کے رکھتا ہوں کہ تمہارے تنکوں جیسے جہاز میرے ایسے ہیبت اور خوفناک سمندروں پر ایک کنارےسے دوسرے کنارے تک چلے جاتے ہیں۔
فبای الاء ربکما تکذبٰن۔
کیوں جھٹلاتے ہو؟ کیوں باغی بنتے ہو؟
ائے انسان! ہوش میں آ۔ ائے جنات ہوش میں آؤ۔ تمہیں اپنے رب کے نظام کا پتہ نہیں ہے؟ کہ اس نے جہنم کو بنایا ہوا ہے اور وہ دن تمہیں یاد نہیں ہے کہ آسمان:
وردۃ کالدھان۔ اور یْرسل علیکما شواظ من النار و نحامر فلا تنصران۔
تمہیں آگ کی مار، تمہیں پانیوں کی مار، تمہیں جہنم کی مار، کوئی تمہیں بچا سکتا ہے؟
فبای الاء ربکما تکذبٰن۔
تمہیں کیا ہو گیا؟
تم کیوں میرے باغی ہوگئے؟ تم کیوں جھٹلاتے ہو ؟ یہ بھی سن لو!
اگر تم مجھ سے ڈر گئے تو تمہارے لئے بڑی عالیشان جنتیں ہیں۔
فبای الاء ربکما تکذبٰن () ذااتا افتان () فبای الاء ربکما تکذبٰن () فیھا من کل فاکھۃ زوجٰن () فبای الاء ربکما تکذبٰن () فیھا عینین تجریان () متکیئن علی فرش بطانھا من استبرق () و جنا الجنتین دان () فیھن قصرات الطرف () لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان () کانھن الیاقوت و المرجان () ھل جزاء الا احسان () فبای الاء ربکما تکذبٰن ()
کس رب سے تم بغاوت کر رہے ہو؟
جس نے تمہارے لئے ایسا گلستان تیار کیا ہے، یہ بھی کوئی گلستان ہے کہ سارا دن مٹی ہی مٹی،
وہ ذرا دیکھو تو سہی۔
کہ کیسے جنت کا سایہ دار درخت ہے اور اس کے نیچے تخت ہے اور اوپر خوشے پکے ہوئے ہیں اور اوپر تو بیٹھا ہوا ہے، تیرے ساتھ جنت کی خوبصورت بیویاں، تیری دنیا کی مومن بیویاں، جو جنت کی عورتوں سے بھی ستر ہزار گنا زیادہ خوبصورتہیں، وہ تیرے دائیں بائیں ہیں تو نیچے دیکھتا ہے تو جنت کی نہریں چلتی ہیں، اوپر دیکھتا ہے تو پھل جھکے ہوئے ہیں، پکے ہوئے ہیں۔ فبای الاء ربکما تکذبٰن۔۔۔ اب میں کیا کیا کہوں، میرے بندے تمہیں کیا کیا بتاؤں اور میری کس کس بات کا تم انکار کرو گے؟
اب وہ جہنم میں کیسے جائے؟
تو فرشتے ماریں گے، کہیں گے چل۔ وہ اس کو لے کے چلیں گے اور چلتے چلتے دوزخ کا سب سے خطرناک حصہ ‘ ہاویہ’، وہاں اس کو لے کے جائیں گے جہاں منافق رہتے ہیں، ایمان ہونے کے باوجود امانت کو کھانے والے لوگ ہاویہ میں چلے جائیں گے، جو منافقین کی آگ ہے۔ وہاں دیکھے گا کہ وہ جو مال دنیا میں دبایا تھا وہ وہاں پڑا ہو گا۔
کہے گا، اچھا یہاں پڑا ہے، اتنے میں وہ تباہ ہو جائے گا۔ اس کو اٹھائے گا، کندھے پر رکھے گا پھر اوپر چڑھنا شروع کرئے گا، جب دوزخ کے کنارے پر آ جائے گا تو وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا اور پھر ہاویہ میں جا گرئے گا۔ اس کو فرشتے مار کر پھر کہیں گے جا واپس لے کے آ، پھر یہ واپس جائے گا پھر اسے اٹھائے گا پھر کندھے پر لے کے چڑھے گا جب کنارے پر آئے گا تو پھر اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا، اس کو پھر فرشتے مار کے نیچے گرا دیں گے، جا لے کے آ، اب یہ کبھی اس میں سے نہیں نکل سکتا۔
اس کمائی سے توبہ کریں۔ یہ کمانا جہنم میں لے جائے گا اور ادھر دوسری سنو:
سیعلمون الیوم من اصحاب الکرم۔
ایک فرشتہ اعلان کرئے گا، آج پتہ چلے گا عزت والے کون ہیں؟
تتجا فا جؤبھم عن المضاجع۔
کہاں ہیں راتوں کو اٹھ کے نمازیں پڑھنے والے؟
ارے میرے بھائیو! یہ نماز کی غفلت بہت بڑی ہلاکت ہے، میں کیسے سمجھاؤں؟ میں تو جب بھی جمعہ پڑھاتا ہوں میں یہ مضمون ضرور بیان کرتا ہوں، مجھے یہ مجمع نظر آتا ہے تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے کہ آٹھویں دن آتے ہیں اور باقی دن کہاں ہوا کرتے ہیں؟
سب سے پہلا اعلان ہوگا آج نماز عزت دلائے گی، آج پتہ چلے گا عزت والے کون ہیں؟
کہاں ہیں راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھنے والے؟ اور اللہ تعالیٰ کے نام پر خرچ کرنے والے؟ صرف نماز نہیں زکوٰۃ بھی دینی پڑے گی، پیسہ ہے زکوٰۃ نہیں دے رہے، پیسہ ہے اللہ تعالیٰ کے نام پر خرچ نہیں کر رہے۔
بھائیو! اللہ کے واسطے اللہ کے نام پر خرچ کرنا سیکھیں، اپنے آپ کو سادگی پر لائیں اور اللہ تعالیٰ کے نام پر لٹانا سیکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کی نسل کو واپس کرئے گا، صرف آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کی نسلوں کو واپس کرئے گا۔
آپ اللہ تعالیٰ کو قرضہ دے رہے ہیں، کسی ایرے غیرے کو قرضہ نہیں دے رہے، یہاں مسجدوں والے چندے مانگ رہے ہیں، بھائی مسجد کو چندہ دو، مدرسوں والے چندہ مانگ رہے ہیں، بھائی مدرسوں کو چندہ دو، یہ تو مسلمان کی غیرت کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں مسجد کے لئے چندہ مانگا جائے، اور کہیں صندوقچیاں پھیلا رہے ہیں، کہیں جھولیاں پھیلا رہے ہیں، ایسی مجھے شرم آتی ہے، یہ کرنے والوں پر بھی میں کیا کہوں ان کی عقلوں پر بھی پردہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں مخلوق کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں اور پھر ان مسلمانوں ان مسلمانوں کی آنکھوں پر بھی پردہ ہے کہ ان کو غیرت نہیں آتی کہ مسجد کے لئے جھولی پھیلائی جا رہی ہو اور یہ گھر میں اچھا کھاتے پیتے ہوں اور مسجد کے لئے جھولی پھیلائی جائے اور مسجد کے لئے صندوق رکھے جائیں اور ہر نماز کے بعد مدرسے کے لئے لوگ چندہ مانگ رہے ہوں۔ یہ ایمان کی غیرت کے خلاف ہے، مسلمان کی سخاوت کے خلاف ہے کہ اس طرح مسجد کے لئے جھولیاں پھیلائیں اور مسجد کے لئے صندوق پھریں۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے نام پر بے دھڑک لگائیں۔
و اقیمو الصلوٰۃ و اٰ تو الزکوٰۃ۔
۷۶ دفعہ یہ حکم ملا ہے، اور ہر دفعہ زکوٰۃ کے ساتھ نماز کا حکم ہے، نماز پڑھنے والے زیادہ ہیں نسبتاً زکوٰۃ دینے والے تھوڑے ہیں، کیونکہ پیسہ جاتے ہوئے جان جاتی ہے، ہمیں نہ دیں اپنے غریب رشتہ داروں کو تلاش کر کے دیں۔
آج جو صحیح دیانت دار تنخواہ دار ہے وہ بھی مستحقِ زکوٰۃ ہے اگر وہ دیانت دار ہے تو، اگر وہ کسی سے رشوت نہیں لیتا تو، آج کا ایس پی بھی مستحقِ زکوٰۃ ہے۔ میرا ایک دوست ہے ایس پی، کہنے لگا میں زکوٰۃ کا مستحق ہوں حالانکہ میں ملتان کا ایس پی ہوں، پندرہ دن میرے گھر میں سالن پکتا ہے اور کبھی نہیں پکتا۔ اپنے اوپر صرف خرچ کرنا، بچے کو کھلونے کی خواہش ہو تو ایک ہزار روپے کے صرف کھلونے لے کے دے دئے، یہ کیا ظلم ہے کہ ہزار روپے کے کھلونے بچے کو لے کے دے دئے، کیا اللہ تعالیٰ پوچھے گا نہیں کہ اس ہزار روپے سے کسی غریب کے گھر کا دیا جل سکتا تھا اور کسی غریب کا ایک ہفتہ گزر سکتا تھا۔ تیرے کسی مسکین رشتے دار کے گھر میں بھی کچھ سالن پک سکتا تھا۔
رزق دیا تو اس کا ہوش نہیں کہ اس کا حق ادا کریں، جان دی تو اس کا ہوش نہیں کہ اس کا حق ادا کریں، سجدہ جان کا حق ہے اور زکوٰۃ اور صدقات مال کا حق ہیں۔ میں کب اپنے لئے مانگ رہا ہوں، میں کہہ رہا ہوں کہ اپنے غریب رشتہ داروں کو دیں ان کی تلاش کریں۔ اپنی بیویوں سے پوچھو، سونے کی زکوٰۃ دی ہے؟ نہ دی تو خود پکڑی جائے گی تیرا زیور تیرے لئے گنجا سانپ بن کے تیری زبان کو ڈسے گا، اس نے کہا کہ میں نے تو بچیوں کے لئے سنبھال کے رکھ ہے، اس کی زکوٰۃ دہ تو پھر ٹھیک ہے، نہیں تو یہ مال پکڑوا دے گا۔ قیامت کے دن نماز نہیں چھڑوا سکتی اگر زکوٰۃ نہیں دی، اور زکوٰۃ نہیں چھڑا سکتی اگر نماز نہیں پڑھی، پچاس لاکھ کی مسجد بنا دی، اگر خود نمازی نہیں تو یہ مسجد بنانا اسے جہنم سے نہیں بچا سکتا۔
میرے بھائیو! اپنی جان کا بھی صحیح استعمال کریں اور اپنے مال کا بھی صحیح استعمال کریں۔ ہم ایسے اندھے نہیں ہیں کہ جو بچے نے چاہا لا کے دے دیا، جو بیگم نے مانگا اٹھا کے دے دیا، نہیں ہم پہلے دیکھیں گے۔
حضرت عثمانؓ کے پاس ایک سائل آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگنے آیا تھا، آپ ؓ نے کہا عثمان ؓ کے پاس چلے جاؤ، عثمان ؓ سے مانگنے گیا، وہ بیوی سے لڑ رہے تھے، کس بات پر؟ یوں کہہ رہے تھے، اللہ کی بندی! رات تو نے چراغ میں بتی موٹی ڈال دی، وہ بتی ڈالتے تھے روئی کی، تو تیل زیادہ جل گیا۔ تو یہ سائل کہنے لگا یہ کس کنجوس کے پاس بھیج دیا، جو بیوی سے لڑ رہا ہو کہ بتی موٹی کیوں ڈالی ہے، تو یہ مجھے دے گا، مجھے تو دمڑی بھی نہیں دے گا۔
جب ان کو باہر بلایا اور خیرات مانگی، کہا وہاں سے آیا ہوں، تو اندر گئے اور ایک تھیلی اٹھائی، نہ پوچھا کہ کتنے چاہئے نہ پوچھا کون ہو؟
تین ہزار درہم اٹھا کے دے دئے۔ وہ حیران ہو کے کہنے لگا۔ یار ایک بات تو بتاؤ۔ کہا کیا؟ کہا یہ مجھے تو تونے اتنے دے دئے کہ میری اگلی نسل کو بھی کافی ہیں اور خود اپنی بیوی سے لڑ رہا تھا کہ بتی موٹی کیوں کر دی۔ کہنے لگے وہ اپنی ذات پر خرچ کر رہا تھا، وہ پھونک پھونک کر کرنا ہے، یہ اللہ کو دے رہا ہوں جتنا مرضی دے دوں۔ یہ تجھے تھوڑا ہی دے رہا ہوں، اللہ تعالیٰ کو دے رہا ہوں۔
تو اپنی جان کو بھی اللہ پر لگائیں اور اپنے مال کو بھی اللہ پر لگائیں۔ اپنی کمائیوں کو حلال پر لائیں، اپنی اولاد کو اور بیویوں کو سمجھا دیں کہ ہم تمہاری خاطر دوزخ میں نہیں جا سکتے۔ ہم اس پر توبہ کریں اور مسجد کی یہ آبادی ہر وقت ہونی چاہئے، چلو جو کوئی جہاں سے بھی آیا ہے وہ مسجد کا عادی بنے۔
۱۹۹۱ء میں اردن میں ہماری جماعت گئی ہم اسرائیل کے بارڈر پر چلے گئے، آمد و رفت، بات چیت ہوتی رہتی ہے، چونکہ کچھ عرب اِدھر رہتے ہیں کچھ عرب اُدھر رہتے ہیں، رشتہ داریاں ہیں، تو کسی نے کہا، یہ یہودی ہم سے پوچھتے ہیں، تمہاری فجر میں نمازی کتنے ہوتے ہیں اور تمہارے جمعے میں نمازی کتنے ہوتے ہیں۔
ہم نے پوچھا یہ تحقیق کیوں کرتے ہو؟
انہوں نے کہا، ہماری کتابوں میں یہ ہے کہ جب فجر کی نماز کے نمازی اور جمعے کی نماز کے نمازیوں کی تعداد برابر ہو جائے گی تو یہودی دنیا سے مٹ جائیں گے۔
اب یہاں فجر ڈیڑھ صف ہوتی ہے اور جمعے میں باہر بھی صفیں بنی پڑی ہیں۔ چلو میں کہتا ہوں مان لیا ۳/۱ طبقہ باہر سے آیا ہے، یہ ۳/۲ تو یہیں سے اٹھ کر آیا ہے، یہ ہر نماز میں کیوں نہیں آتا؟
میرے بھائیو! اپنے حال پر رحم کریں، اللہ کے واسطے میری پکار کو سنیں، میں آپ کو کوئی فلسفہ نہیں سمجھا رہا۔ میں ہر جمعے جب بھی آتا ہوں، یہی مضمون بیان کرتا ہوں۔ میں روزانہ آپ کو نیا بیان سنا سکتا ہوں، تین سو ساٹھ دن ہیں، میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین سو ساٹھ دن میں آپ کو تین سو ساٹھ نئے بیان سنا سکتا ہوں۔ یہ میں یہاں بیان کرنے نہیں بیٹھتا اپنا دکھڑا، میں روتا ہوں کہ پوری گلستان کالونی جہنم کی طرف جائے اور میری ہائے نہ نکلے تو میں ڈوب کے مر جاؤں، جلتا کتا ہم نہیں دیکھ سکتے اس پر ہمارے آنسو نکل پڑیں، چوہے کو ہم جلتا نہیں دیکھ سکتے اور میں اتنی شکلوں کو جہنم میں جاتا دیکھوں۔
جس نے آج فجر نہیں پڑھی اس نے اپنے آپ پر جہنم کو واجب کرلیا، جو اب آئندہ عصر نہیں پڑھے گا اس پر جہنم واجب ہو گئی، پھر میں کیا مضمون بیان کروں؟ کیا فلسفے بیان کروں؟ اس لئے میرے بھائیو! اپنی ذات پر رحم کریں، اپنے بچوں پر رحم کریں، اپنے گھر والوں پر رحم کریں، مسجد کی دوڑ لگائیں اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے نام پر خرچ فرمایا کریں تاکہ یہاں بھی جہان بنے اور وہاں بھی جہان بنے۔
کیا زندگی ہے؟ چلتے چلتے سانس نکل جاتا ہے۔ پھر یوں مٹ جاتے ہیں جیسے کبھی دنیا میں آئے ہی نہ تھے، پوتے پوچھتے ہیں ابا دادا کی قبر کہاں ہے؟ ابا کہتا ہے بیٹا یہیں کہیں ہوگی پتہ نہیں کہاں ہے؟
ارے آج تو اگلی نسل دادے کی قبر نہیں دیکھ سکتی، ہم اس دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے باغی ہو جائیں اس بے وفا جہاں کی خاطر اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر جائیں، جو ایسا مہربان جو ایسا کریم ہے۔
میرے بھائیو! اللہ کے واسطے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کریں اور اپنے اللہ کو راضی کریں، یہی میری فریاد ہے، یہی میری پکار ہے۔ میں بھی توبہ کرتا ہوں آپ بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کریں کہ کوئی کام اللہ تعالیٰ کی منشاء کے خلاف نہ ہو گا۔ اس کو سیکھنے کے لئے ہم کہتے ہیں، تبلیغ میں جاؤ چلہ لگاؤ۔ ہم کوئی کسی کو تبلیغی جماعت کا ممبر نہیں بنا رہے، ہم خود تبلیغ میں جاتے ہیں اوروں کو کہتے ہیں تبلیغ میں نکلو کہ ہماری توبہ پکی ہو، ہمارے اعمال درست ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے۔
و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین۔