حدیث اور سنت میں فرق اور صحیح بخاری کے نام پر دھوکہ خلاصہ 1 -نمبر امت مسلمہ کو آج دھوکا دیا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر حدیث آ گئی ہے بس …
حدیث اور سنت میں فرق اور صحیح بخاری کے نام پر دھوکہ خلاصہ 1 -نمبر امت مسلمہ کو آج دھوکا دیا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر حدیث آ گئی ہے بس …
حدیث اور سنت میں فرق اور صحیح بخاری کے نام پر دھوکہ
1 -نمبر
امت مسلمہ کو آج دھوکا دیا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر حدیث آ گئی ہے بس اس پر عمل کرنا ہے
نمبر – 2 امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو شروط کا بہت زیادہ انتظام کیا ہے۔
نمبر 1 – وہ کہتے تھے راوی عادل اور سکہ ہو۔
نمبر 2 – اس راوی کی اپنے استاد کے ساتھ جو ملاقات ہے وہ بھی پائی جائے۔
نمبر 3 – بخاری شریف کے اندر بے شمار احادیث ہیں جن کے اندر تعارض بھی پایا جاتا ہے۔
نمبر 4 – نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار افعال ایسے ہیں جو بخاری شریف کے اندر ہیں لیکن وہ سنت نہیں ہیں۔
نمبر 5 – ضروری نہیں کہ حدیث ہو اور وہ سنت بھی ہو۔ حدیث ہوگی وہ سنت نہیں ہوگی۔
ایک اس بات سے بھی دھوکا دیا جاتا ہے کہ یہ حدیث بخاری شریف کے اندر آ رہی ہے تو لہٰذا جب بخاری کے اندر آ گئی ہے تو اب اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔
تو ہماری عوام جب دیکھتی ہے کہ یہ حدیث واقعاتا بخاری کے اندر پائی جاتی ہے وہ کہتے ہیں بخاری کے اندر آئی ہے۔
ایک نوجوان میرے پاس آیا مجھے آ کر کہنے لگا کہ رفع الیعدین کرنے کی حدیث بخاری کے اندر ہے یا نہیں؟
میں نے کہا جی بالکل ہے تو کہتا ہے جب بخاری کے اندر آ گئی تو پھر آپ اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ تو میں نے سادی سی بات اس سے پوچھی کہ کیا بخاری کے اندر نماز کے احکامات کی ساری احادیث موجود ہیں؟ اگر ساری احادیث موجود نہیں ہیں تو پھر مجھے یہ بتائیں کہ پوری نماز پڑھنے کے لئے آپ احادیث کہاں سے لیں؟
امت مسلمہ کو آج دھوکا دیا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر حدیث آ گئی ہے بس اس پر عمل کرنا ہے۔
دو چیزیں سمجھ لیں کہ
ایک سنت
ایک حدیث
سنت الگ ہے حدیث الگ ہے۔
ہر حدیث سنت نہیں ہوتی لیکن ہر سنت وہ حدیث ضرور ہوتی ہے۔
شمار مسائل وہ حدیث میں آتے ہیں لیکن سنت میں نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر بخاری شریف کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جوتے پہن کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے؟ اب جوتے پہن کے نماز پڑھنے کی حدیث بخاری کے اندر ہے لیکن سنت نہیں ہے۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں میں نماز پڑھا کرتے تھے؟ آپ نے کہا ہاں۔
اب حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں ہے۔
پانچ مرتبہ نماز پڑھتے ہیں فجر پڑھتے ہیں۔ ظہر پڑھتے ہیں۔ عصر پڑھتے ہیں۔ مغرب پڑھتے ہیں۔عشاء پڑھتے ہیں۔ یہ آپ جوتے پہن کر پڑھتے ہیں یا جوتے اتار کر پڑھتے ہیں؟
بخاری شریف کے اندر جوتے اتار کے نماز پڑھنے کی ایک بھی حدیث نہیں ہے۔
اب ذخیرہ حدیث کے اندر اگر آگے پیچھے جائیں گے تو آپ کو مل جائیں گی لیکن میں صرف بخاری کی بات کر رہا ہوں بخاری شریف کے اندر جوتے اتار کے نماز پڑھنے کی حدیث نہیں ہے۔
کیا مطلب کے کیا جوتے اتار کے نماز پڑھنا یہ سنت نہیں ہوگا؟
تو یہیں سے تو دھوکا دیتے ہیں کہ ترک رفع الیدین کی حدیث بخاری کے اندر نہیں ہے
اگر ترک رفع الیدین کی حدیث بخاری کے اندر نہیں تو رفع یدین کرنا سنت بن گیا۔
تو پھر تو جوتے اتار کے نماز پڑھنے کی حدیث بخاری کے اندر نہیں ہےتو پھر جوتے پہن کے نماز پڑھنے کو بھی سنت ہونا چاہیے۔
میں نے اصول پہلے بتا دیا کہ ہر سنت حدیث ضرور ہوتی ہے لیکن ہر حدیث و سنت نہیں ہوتی یہ قاعدہ یاد رکھیں۔
احادیث مبارکہ میں
آتا ہے بخاری کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی امامہ رضی اللہ تعالی عنہ ان کو اٹھا کر نماز پڑھی-
ہم میں سے کون اپنی نواسی کو اٹھا کر نماز پڑھتا ہے؟
اب حدیث میں تو ہے لیکن سنت نہیں ہے-
اسی طرح ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے بخاری کے اندر نقل کیا ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے
پڑھتے تھے قرآن کریم «والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى» ۔ اب قرآن کریم میں آتا ہے وما خلق الذكر والأنثى۔ لیکن بخاری شریف کی اس حدیث پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا۔
حدیث بخاری کی ہے۔ تو سمجھنے والی بات یہ ہے کہ بخاری شریف کی حدیثیں ساری وہ صحیح لاسناد ضرور ہیں لیکن ساری حدیثوں کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قابل عمل ہیں یا تعارض سے پاک ہیں ایسا نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو شروط کا بہت زیادہ انتظام کیا ہے۔
نمبر 1۔ وہ کہتے تھے راوی عادل اور سکہ ہو۔
نمبر2۔ اس راوی کی اپنے استاد کے ساتھ جو ملاقات ہے وہ بھی پائی جائے۔ یعنی ملاقات ہو۔
جب کہ امام مسلم رحمۃ اللہ تعالی کی شرائط میں عادل اور سکہ تو ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ملاقات ضروری نہیں ہے۔
اس لئے اس اعتبار سے بخاری کو مسلم پر فوقیت حاصل ہے۔ حالانکہ بعض مقامات پر امام مسلم کو امام بخاری پر فوقیت حاصل ہے۔
جیسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی کے اصول میں سے ایک بات یہ تھی کہ وہ کہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس
حدیث کو دو صحابہ نے نقل کیا ہو اس سے نیچے دو تابعین پھر تبع تابعین۔ یعنی امام مسلم تک وہ حدیث دونوں کے اعتبار سے پہنچی ہو۔
اب اس شق میں امام مسلم امام بخاری سے زیادہ آگے ہے۔ تو بخاری شریف کی جو احادیث ہیں وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔
لیکن بخاری کے اندر حدیث کا موجود ہونا اس بات پر دلالت کرے کہ یہ قابل عمل بھی ہے یا وہ تعارض سے پاک ہو گی ایسا نہیں ہے۔
بخاری شریف کے اندر بے شمار احادیث ہیں۔ جن کے اندر تعارض بھی پایا جاتا ہے جیسے مثال کے طور ایک حدیث ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف پشت کرنے سے اور منہ کرنے سے منع کیا ہے۔
کہ نہ آپ قبلے کی طرف پشت کریں اور نہ آپ کی طرف منہ کریں۔ لیکن بخاری ہی میں آگے چل کر حدیث آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی طرف خود پشت کی ہوئی تھی۔ تو قول میں یہ ملتا ہے کہ قبلے کی طرف نہ پشت کی جائے اور نہ منہ کیا جائے، لیکن آپ کے فعل کے اندر یہ بات ملتی ہے کہ آپ نے قبلہ کی طرف پشت کی ہوئی تھی۔ اب دونوں حدیثیں بخاری کے اندر ہیں۔ کہ بخاری شریف کی حدیثیں سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن ہر حدیث قابل عمل ہو یا وہ تعارض سے پاک ہو ایسا نہیں ہے۔
قاعدہ مسلمہ یہ یاد رکھ لیں کہ ہر حدیث سنت نہیں ہوتی لیکن ہر سنت حدیث ضرور ہوگی۔ کیونکہ سنت تو حدیث سے ثابت ہوتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ حدیث ہو اور وہ سنت بھی ہو۔ حدیث ہوگی وہ سنت نہیں ہوگی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار افعال ایسے ہیں جو بخاری شریف کے اندر ہیں لیکن وہ سنت نہیں ہیں۔ قابل عمل بھی نہیں ہیں۔ عمل بھی کوئی نہیں کرتا ان پر۔ تو یہ صرف دو چار حدیثیں ہیں وہ یاد کروا دی جاتی ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث یاد کروا دی جاتی ہے کہ یہ بخاری کے اندر آئی ہے۔ ایک وہ فاتحہ کی حدیث یاد کروائی جاتی ہے ایک ہی حدیث ہے لا صلاه لمن لم يقرا بفاتحه الكتاب وہ یاد کروا دی جاتی ہے۔ آج کل وہ ایک انجینئر صاحب ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی حدیث یاد کروا دیتے ہیں جی بخاری کے اندر آئی ہے۔
تو بخاری شریف کے اندر پوری نماز کے احکامات کی پوری حدیثیں بھی نہیں ہیں۔ اس لیے کسی چیز کا بخاری کے اندر آ جانا۔۔۔ اچھا ایک دھوکا یہ بھی دیا جاتا ہے کہ جب بخاری شریف کے اندر آ گئی ہے تو امام بخاری اس پر عمل نہیں کرتے ہوں گے؟ یہ بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اگر یہی آپ اصول اور ضابطہ بنائیں گے کہ بخاری شریف کے اندر آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امام بخاری کا مذہب بھی تھا اور امام بخاری اس پر عمل بھی کرتے تھے تو پھر وہی حدیث جو کچھ دیر پہلے میں نے بیان کی کہ ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ کی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم پڑھتے تھے قرآن کریم میں والليل اذا يغشى والنار اذا تجلى والذكر والانثى تو کیا کہیں گے کہ امام بخاری قرآن ایسا پڑھتے تھے؟
تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ علی کی بخاری کے اندر آ جانا اس بات کی دلیل بھی نہیں ہے کہ خود امام بخاری کا اس پر عمل ہو گا۔ دلیل نہیں ہے اس بات کی۔ ہاں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری نے احادیث صحیحہ کے جمع کرنے میں جو انتظام کیا ہے اس میں بہت درجہ کی احتیاط کی لیکن کیا آپ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ بخاری شریف کے اندر جو احادیث ہیں جیسے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ساڑھے سات ہزار حدیثیں ہیں۔ مقررات کو نکال دیں تو تقریباً ساڑھے تین ہزار بچتی ہیں اور علامہ حافظ کے مطابق تقریبا نو ہزار ہیں۔ اور مقررات کو نکال دیں تو ڈھائی ہزار حدیثیں بچتی ہیں۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں امام بخاری خود فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح حدیث یاد تھی۔ ایک لاکھ صحیح حدیث میں سے امام بخاری نے صرف ساڑھے سات ہزار نقل کی ہیں اور مقررات کو نکال دیں تو ساڑھے تین ہزار یا ڈھائی ہزار حدیثیں بچتی ہیں تو باقی حدیث کہاں گئی؟ کتنی حدیثیں مسلم کے اندر ایسی ہیں جو امام بخاری نے نقل نہیں کیں۔ احادیث کی دوسری کتابوں کے اندر صحیح ہیں لیکن امام بخاری نے نقل نہیں کیں۔ تو اس لیے یہ قاعدہ بنا لینا اور یہ سوال کرنا کہ یہ بخاری کے اندر ہے اور بخاری کے اندر ہے تو پھر امام بخاری کا اس پر عمل بھی ہوگا۔ یا بخاری کے اندر ہے تو یہ قابل عمل بھی ہو گی۔ یا بخاری کے اندر ہے تو یہ تعارض سے پاک ہو گی۔ یا بخاری شریف کے اندر ہے تو یہ قاعدہ بنا لینا، یہ غلط ہے۔
خلاصہ
1۔ امت مسلمہ کو آج دھوکا دیا جاتا ہے کہ بخاری شریف کے اندر حدیث آ گئی ہے بس اس پر عمل کرنا ہے۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو شروط کا بہت زیادہ انتظام کیا ہے۔
نمبر 1۔ وہ کہتے تھے راوی عادل اور سکہ ہو۔
نمبر2۔ اس راوی کی اپنے استاد کے ساتھ جو ملاقات ہے وہ بھی پائی جائے۔
3۔۔ بخاری شریف کے اندر بے شمار احادیث ہیں جن کے اندر تعارض بھی پایا جاتا ہے۔
4۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار افعال ایسے ہیں جو بخاری شریف کے اندر ہیں لیکن وہ سنت نہیں ہیں۔
5۔ ضروری نہیں کہ حدیث ہو اور وہ سنت بھی ہو۔ حدیث ہوگی وہ سنت نہیں ہوگی۔
“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”
Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)
Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.
If you would like to become a volunteer at our Mosque, please complete and submit the volunteer application and process your fingerprints with our agency that does background checks on all our volunteers. You can download both .pdf applications below.
First, we must understand church is not a building, a Sunday school class, or a service time. According to scripture, a church gathering is a group of people coming together in Christ and the people are the church. Jesus shows us in Matthew 18 that a gathering can be as little as two people together.
The service usually involves the singing of hymns, reading of scripture verses and possibly a psalm. If the church follows a lectionary, the sermon will often be about the scripture lections assigned to that day. Eucharistic churches have usually Holy Communion either every Sunday or several Sundays a month.
There are no rules as to what to bring to church, other than your self, an open heart and mind. Some bring a bible, if you’re going to engage in bible study.
If you want to know how to dress for church, something modest and comfortable should be fine. Generally, graphic tees that show off sports team logos or bands should never be worn to church. Solid-colored tops are fine, and even something with a pattern should be OK to wear.
Ask your friends if they have a place to worship the Savior and invite them to come worship with you, especially at times like Christmas and Easter. If they aren’t Christians, ask them if they’d like to learn more about Jesus Christ and invite them to experience a Christian worship service with you. Remember to show the same respect for their beliefs that you hope they will give yours.
There are many questions Christians are asked that the individual Christian is unable to answer. It happens all the time.