مرتب
فیض اللہ چترالی
ملنے کا پتہ
مکتبہ اہلسُنت دَارالعُلوم تعلیم القرآن
باڑہ گیٹ پشاورصدر
کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ چترال اور گلگت کے علاقہ میں آغاخانیوں کا خاصا اثر ہے چونکہ یہ علاقہ بہت ہی پسماندہ ہے اور یہاں کے اکثر لوگ کافی غریب ہیں اس لئے آغا خانی لوگ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے اور غریب مسلمانوں کولالچ دے کرآغاخانی بنانے کی کوشش کرتے ہیں پچھلے دنوں کئی لوگوں کو آغاخانی بنایاگیا تو بعض علماء کو اس کا احساس ہوا اور آغاخانیوں کے مذہب کی حقیقت تمام مسلمانوں کو بتاناشروع کی۔ اس پر آغاخانیوں کی طرف سے ان پر شدید حملے کئے گئے اور اُن کاداخلہ اس علاقے میں بندکرادیااب آغاخانیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے آغا خان فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس کے تحت وہاں کے مسلمانوں کو دولت کے لالچ میں گمراہ کرنے کا ایک بہت بڑامنصوبہ بنا یا ہے اس ادارے کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ہر گاؤں سے کم ازکم پچاس افراد کو اپنا ممبر بناتا ہے۔ہر ممبر اس ادارہ کو -/۵۵ روپے فیس ممبری اداکرتا ہے اور پھر ان ممبروں کی سفارش پر اس گاؤں کے ترقیاتی کاموں کے لئے ۵۱۔۰۲ ہزار روپے سے لیکر تین لاکھ روپے تک دیاجاتا ہے۔اس ممبری کے لئے علماء اور باشرع لوگوں کو چناجاتا ہے اور سناگیا ہے کہ ہر ممبرکو ماہواردوروپے فیس تاحیات اداکرنا پڑتی ہے۔کسی مسلمان کے لے ”آغاخان فاؤنڈیشن“ کا ممبر بنناشرعی نقطہئ نظر سے درست ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ پر وہاں کے لوگوں میں خاصا نزاع پایاجاتا ہے بعض لوگ بڑی شدومد سے اس کی حمایت اور تائید کرتے ہیں اور بعض لوگ اس کو آغا خانیوں کی ایک خوفناک سازش تصورکرتے ہوئے اس کی ممبری کو مسلمانوں کے لئے جائز قرارنہیں دیتے کیونکہ اس کا مقصد اس سنہرے جال کے ذریعے سے وہاں کے فاقہ کش اور غریب عوام کو آغاخانیوں کے مذہب میں پھنسانا ہے۔ یہ رقم جب کسی گاؤں کودی جاتی ہے تو ممبروں سے مختلف قسم کے نعرے لگوائے جاتے ہیں اور ان کو ٹیپ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔نیز اس موقعہ کی تصویر لیکر فلم تیارکی جاتی ہے۔ آغاخانی تمام علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق زندیق ہیں اور اس آغاخان فاؤنڈیشن کا مقصد مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ایسے حالات میں کیا کسی مسلمان کو اس فاؤنڈیشن کا ممبر بننا اور امداد وصول کرنا شرعاًجائز ہے یا نہیں؟ اور شرع شریف کے حکم کے مطابق اس کے ممبر بننے والے لوگ گنہگار ہوں گے یانہیں؟
المستفتن:سواداعظم اہلسنّت چترال
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی مدظلہ‘ کا فتویٰ
الجواب باسم تعالیٰ
ارشاد ربانی ہے۔ یاایھاالذین آمنوالاتتخذواعدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالودۃ وقدکفروابما جاء کم من الحق یخرجون الرسول وایاکم أن تومنواباللہ ربکم ان کنتم خرجتم جھاداً فی سبیلی وابتغاء مرضاتی تسرون الیھم بالمودۃ وانااعلم بمااُخفیتم وما اعلنتم ومن یفعلہ فقدضل سواء السبیل (الممتحنہ‘ آیت ۱ پارہ۸۲)
ترجمہ: ”اے ایمان والو میرے اوراپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم ان کوپیغام دوستی بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو حق آیا ہے وہ اس کا انکارکرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور تم کو صرف اس بناء پرنکالتے ہیں کہ تم اپنے رب پرایمان لائے ہو جبکہ تم میرے راستے پر جہادپرنکلے اور میری رضامندی کی تلاش میں گئے تم اُن سے خفیہ محبت رکھتے ہو حالانکہ میں تمہاری خفیہ اور علانیہ باتوں کو خوب جانتا ہوں اور جو ایسا کرے گا اس نے راہ حق گم کردیا۔“ آیت کریمہ سے واضح طورپرمعلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے محبت اور دوستی رکھنا اور اسی طرح اُن سے خفیہ محبت ومودت رکھنا جس سے اسلام کونقصان اور ضرر پہنچے منع ہے۔ اِسی طرح سورۃ المجادلہ میں ہے۔
لاتجدقومایؤمنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاداللہ ورسولہ، اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان لانے والوں کو نہ پاؤگے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین سے محبت رکھیں (المجادلہ آخری آیت پارہ ۸۲)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی مفتی وقت تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں۔
ھذہ الاےۃ تدل علی أن ایمان المومن تفسد بموداۃ الکافرین وان المومن لایوالی الکفار وان کان قریبہ (صفحہ ۸۲۲ ج۹) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں سے محبت کرنے سے مومن کا ایمان فاسد ہوجاتا ہے اور یہ کہ مومن کو کافروں سے معاملات نہیں کرنا چاہیے اگرچہ اس کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
یاایھاالذین آمنوالاتتخذوالکافرین اولیاء من دون المؤمنین (آل عمران)
ایمان والو! تم کافروں کو اپنا ولی اور دوست نہ بناؤ مومنوں کو چھوڑکر۔
ابوبکر الرازی الجصاص اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں۔ اقتضت الأےۃ النھی عن استنصار بالکفار والا ستعانۃ بھم والرکون الیھم والثقہ‘ بھم۔ آیت کریمہ کا تقاضہ یہ ہے کہ کافروں سے نصرت حاصل کرنا، مددحاصل کرنا ان کی طرف میلان رکھنا اور اعتمادکرنے کی ممانعت شدید ہے۔
بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں مندرجہ بالا مضمون کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے جس سے چار اور درجے برآمد ہوتے ہیں ایک درجہ قلبی موالات یا ولی ودت ومحبت کا ہے یہ صرف مومنین کے ساتھ مخصوص ہے۔غیر مومن کے ساتھ قطعاً کسی حال میں جائز نہیں ہے۔ دوسرادرجہ مواسات کا ہے جس کے معنی ہمدردی وخیرخواہی اور نفع رسانی کے ہیں یہ بجز کفار اہل حرب کے جومسلمانوں سے برسرپیکار ہیں باقی سب غیرمسلموں کے ساتھ جائز ہے۔تیسرادرجہ مدارات کا ہے جس کے معنی ظاہری خوش خلقی اور دوستانہ برتاؤ یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہے۔جبکہ اس سے مقصود ان کودینی نفع پہنچانا یا ان کے شراورضرررسانی سے اپنے آپ کو بچانامقصودہو۔ چوتھا درجہ معاملات کا ہے کہ ان سے تجارت یا اجرت وملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات کئے جائیں۔یہ سب امورجائز ہیں احادیث کے سلسلہ میں سب سے پہلے حاطب بن ابی بلتعہ کی حدیث آتی ہے جسمیں اُنہوں نے کافروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف لے جانے کی اطلاع دیدی تھی آپ کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہوگیا چند صحابہ کرام کو بھیجاگیا وہ جاسوسہ عورت سے حاطب بن ابی بلتعہ کاخط لے آئے بعض صحابہ نے حاطب کو قتل کرناچاہا تاہم آپ نے اُن کے صدق نیت سے معاف کردیا۔اسی موقعہ پر سورہ ممتحنہ کی آیات نازل ہوئیں اور اس سے مسلمانوں کے لئے قانون بن گیا کہ کافروں سے موالات ومودت جائز نہیں ہے (بخاری:۲۔غزوہ بدروفتح مکہ)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لایلدغ المومن من حجر مرتین۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا۔ اور علامہ محمد امین شامی، والمحتار میں لکھتے ہیں۔ یعلم مماناحکم الدروزوالیتا منہٰ فانھم فی البلاد الشامےۃ یظھرون الاسلام والصوم والصلوۃ مع انھم یعتقدون تناسخ الارواح وحل الخمر والزناوان الالوھیتہ تظہر فی شخص بعد شخص ویچحدون الحشر والصوم والصلاۃ والحج ویقولون المسمی بھا غیر المعنی المراد ویتکلمون فی جناب نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کلمات فظیعہ اوللعلامہ ٰ المحقق عبدالرحمان العمادی فیھم فتوی مطولہ۔وذکرفیھا۔انھم ینتحلون عقائد النصیرےۃ والاسماعیلیہ الذین یلقبون بالقرامطہٰ والباطنےۃ الذین ذکرھم صاحب المواقف ونقل عن علماء المذاھب الاربعہٰ انہ لایحل اقراھم فی دیارالاسلام یجزیتہُ ولاغیرھا ولاتحل مناکحتھم ولاذبائحھم۔ (روالمحتار صفحہ ۱۱۴ ج۲)
ترجمہ:۔ یہاں سے دروز اور تیامنہ کا حکم معلوم ہوا یہ لوگ دیارِ شام میں اسلام اور روزہ ونماز کا اظہارکرتے ہیں لیکن اس کے باوجود تناسخ ارواح کے قائل ہیں اور شراب اور زنا کو حلال سمجھتے ہیں اور یہ بھی اعتقادرکھتے ہیں کہ الوہیت کا یکے بعد دیگرے ایک خاص شخص میں ظہورہوتا رہتا ہے۔ نیز حشر‘ روزہ‘ نماز اور حج کے بھی منکر ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ ان الفاظ سے جومعنیٰ مرادلئے جاتے ہیں وہ ان کے اصل معنی نہیں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں بھی گستاخانہ کلمات منہ سے نکالتے رہتے ہیں۔ علامہ محقق عبدالرحمان عمادی کا ان کے بارے میں ایک طویل فتوی ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ یہ لوگ نصیریہ اور اسماعیلیہ کے عقائد رکھتے ہیں جن کو قرامطہ اور باطنیہ کہاجاتا ہے صاحبِ مواقف نے ان کا ذکر کیا ہے اور چاروں مذاہب کے علماء سے ان کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان کو جزیہ لے کر یاکسی اورطریقہ سے دارالاسلام میں رہنے دینا روانہیں۔ نہ ان سے نکاح کرنا حلال ہے اور نہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا۔
دلائل مندرجہ بالا اور آغاخانیوں (جو دراصل قرامطہ اور اسماعیلیہ ہیں) کی گذشتہ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آغا خان فاؤنڈیشن کا ممبر بنناقطعاً ناجائز اور حرام ہے کیوں کہ اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی غربت وافلاس سے فائدہ اٹھاکران کے ایمان واسلام کوخریدنا ہے جو علماء اس فاؤنڈیشن کے حق میں ہیں وہ سخت ناعاقبت اندیشی میں مبتلا ہیں ان کوچاہیے کہ فوراً اس سے رجوع کریں اور مسلمانوں کو ابتلاء وآزمائش میں ڈالنے کا سبب نہ بنیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جولوگ ان کواس فاؤنڈیشن کاممبر بننے کی تلقین کریں اُن سے مقاطعہ کریں اور غربت وافلاس کو کفر اور زندقہ کے مقابلہ میں قبول کریں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جب سے اسلامی حکومت کا نام لیاجارہا ہے خواہ غلط یا صحیح اس نے جہاں اسلام دشمن طاقتوں کو پاکستان کی طرف متوجہ کردیا ہے وہاں یہاں کے فرق باطلہ کوبیدارکردیا ہے۔ یہ لوگ کبھی ملک توڑنے کی طرف لگ جاتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کو کافر اور بددین بنانے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ضرورت ہے کہ مسلمان جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، تابعین، علماء ربانیین کے ماننے والے ہیں ان کی سازشوں کو بالکل ناکام بنادیں۔
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
دار الافتاء جامعہ العلوم اسلامیہ، کراچی
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
۱۔ جس شخص کو اسلامی تعلیمات اورآغاخانی عقائد ونظریات سے ذرا بھی شدبد ہو اسے اس امر میں قطعاً کوئی شبہ نہیں ہوگا کہ آغاخانی جماعت بھی قادیانی جماعت کی طرح زندیق ومرتد ہے۔ چنانچہ قرونِ اولی سے لیکر آج تک کے تمام اہل علم ان کے کفروارتداد اور زندقہ والحاد پر متفق ہیں۔جولوگ جہالت وناواقفی کی وجہ سے آغاخانیوں کو بھی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھتے ہیں ان کی بے خبری ولاعلمی حددرجہ لائق افسوس او رلائق صدماتم ہے۔
۲۔ آغا خانیوں کی دعوت ہمیشہ خفیہ، پراسرار اور ایک خاص حلقے تک محدودرہی انہیں کھلے بندوں اپنے عقائد باطلہ کی نشرواشاعت کی کبھی جرأت نہیں ہوئی۔ لیکن موجودہ دورمیں مسلمانوں کی کمزوری وپسماندگی اورعوام وحکام کی غفلت شعاری نے ان باطنی قزاقوں کے حوصلے بلندکردئے ہیں اور انہوں نے ایسے منصوبے بنانے شروع کردئے ہیں جن کے ذریعے مسلمانوں کے بچے کھچے سرمایہ ایمان کو بھی لوٹ لیاجائے۔
۳۔ ان سازشی منصوبوں میں رفاہی اداروں کا جال سب سے زیادہ کامیاب شیطانی حربہ ہے۔ کیونکہ حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کی گردنیں ”بت زرکے آگے“ جھک جاتے ہیں۔ دین وایمان کے ڈاکووں کو مسلمانوں کی خدمت وپاسبانی کی سرکاری وعوامی سند مل جاتی ہے۔ اور انہیں مسلمانوں میں اپنے زندیقانہ نظریات وکافرانہ عقائد پھیلانے کا موقع بغیر کسی روک ٹوک کے میسر ہوتا ہے۔
۴۔ ان حالات میں ”آغاخانی فاؤنڈیشن“ کا قیام مسلمانوں کے وجودملی کے لئے سم قاتل ہے، اس کی رکنیت قبول کرنا، اس کی رکنیت قبول کرنا، اس سے تعاون کرنا اور اس سے کسی قسم کی مددلینا ایمانی غیرت کا جنازہ نکال دینے کے مترادف ہے اور یہ ایک ایسا اجتماعی جرم ہے جس کی سزا خداتعالیٰ کے قہر اور غضب کی شکل میں نازل ہوگی۔ ۵۔ مسلمانوں کو اس جال سے بچانے کے لئے حکومت کافرض ہے کہ وہ اس ادارے کے قیام کی اجازت منسوخ کرے، اورعام مسلمانوں کافرض ہے کہ وہ اس سازشی فاؤنڈیشن کا یکسر بائیکاٹ کریں اور اس علاقے کے علماوصلحاء کافرض ہے کہ وہ کھل کراس سازش کو بے نقاب کریں اور حکومت سے اس کے خلاف پرزوراحتجاج کریں۔ جوشخص اس فاؤنڈیشن کی مدح وستائش کرے گا۔ اس کی رکنیت قبول کرے گا یا اس سے کسی قسم کا تعاون کرے گا یا تعاون لے گا وہ کل فردائے قیامت میں خداورسول کے باغیوں کی صف میں اٹھایا جائے گا۔من کثر سواد قوم فھو منھم لعمری لقد نبتھت من کان نائما واسمعت من کانت لہ‘ اذنانٖ، وللہ الحمداولاً وآخراً
محمد یوسف لدھیانوی علامہ بنوری ٹاؤن
آغاخانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں کافر ہیں زندیق ہیں اورقرآنی نصوص کے مطابق کفار، مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں اور نیز کافروں کے ساتھ محبت کرنا اور دوستانہ تعلقات استوارکرنا ناجائز اور حرام ہے اور ہر وہ چیز جو سبب بنے حرام کام کا وہ چیز بھی حرام ہے۔سدًاللذرائع اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ کافروں نے مختلف سازشوں سے مال وزر اور متاع دنیا کا لالچ دے کر مسلمانوں کے ایمان کو لوٹنے کی ناپاک کوشش کی ہے اس لئے آغاخانیوں کا ترقیاتی کاموں کے نام پر مسلمانوں کو جھانسادے کر ان کو آہستہ آہستہ اپنے مسلک سے قریب ترکرنے کی ایک گہری سازش ہے۔مزیدبرآں اگران کے ساتھ قرض وغیرہ کے معاملات جائز رکھیں جائیں تو سادہ لوح مسلمان ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ سمجھنے لگیں گے چنانچہ بہت سارے مسلمانوں کو اب بھی ان کے کافر ہونے کا کوئی علم نہیں، اور اس کا ایمان واسلام کے خلاف ہونا ظاہر ہے۔ لہذاآغاخان فاؤنڈیشن کاممبر بننا قطعاً ناجائز اور حرام ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ کفر وزندقہ کے لئے کوئی نرم گوشہ اختیارنہ کریں اور علاقہ کے علماء صلحاء اور ذی اثر لوگوں پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت اور اپنی وجاہت کے ذریعہ سے اس کاممبر بننے سے منع کریں اور حکومت سے پرزور مطالبہ کریں کہ وہ آغاخانیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے اورجولوگ فاؤنڈیشن کے ممبر بننے کی لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں انہیں پہلے سمجھایا
جائے، اگر وہ ترغیب دینے سے ہی باز آجائیں تو بہتر ورنہ ان کے ساتھ مقاطعہ کیا جائے۔
دلائل ملاحظہ ہوں۔
قال اللہ تعالیٰ ان الکفرین کانو الکم عدوامبینا (سورۃ نساء آیت۔۰۱)
وقال تعالیٰ یاایھاالذین امنوالاتتخذوالذین اتتخذوادینکم ھزواولعبامن الذین اوتوالکتب من قبلکم والکفار اولیاء (سورۃ مائدہ آیت۔۷۵)
(وفی الشامیہ ج۳ صفحہ ۸۹۳ مطبوعہ یو۔پی)
وللعلامۃ المحقق عبدالراحمن العمادی فیھم فتوی مطولہ وذکرفیھا انھم ینتحلوں عقائد النصیرےۃ والاسماعیلیہ الذین یلقبون بالقرامطۃ والباطنےۃ الذین ذکرھم صاحب المواقف ونقل عن علماء المذھب الاربعۃ انہ لایحل اقرارھم فی دیارالاسلام بجزےۃ ولا غیرھا ولاتحل مناکحتھم ولاذبایحھم الخ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
محمد خالد – دارالافتاء دارالعوام کراچی نمبر۴۱۔
۶۱۔۵۔۴۰۴۱ھج
آغاخانی مرتد اور زندیق ہیں۔ آغاخانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لوگ بلاشبہ کافر اور مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں۔ لہذا ایسے لوگوں کا اس خطرناک منصوبہ میں کسی قسم کا تعاون کرنادرحقیقت چند ٹکوں کی خاطر ایمان کو فروخت کرنا ہے۔ حکومت اسلامیہ پر فرض ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو مرتدین کے پنجہئ کفر سے نجات دلائے اور اسلام کے ان دشمنوں کو عبرت ناک سزا دے، وہاں کے علماء صلحاء اور بااثر لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جلد ازجلداس بارے میں مؤثر اقدامات کریں، عوام پر ان لوگوں کا کفروزندقہ واضح کیا جائے تاکہ اس خطرناک حربہ سے دنیا وآخرت تباہ نہ کریں۔ وہاں کے مسلمانوں کو پھر باورکرایاجائے کہ آغاخانی ادارہ میں شرکت خواہ کسی درجہ میں، کسی قسم کا تعاون، ممبر وغیرہ بننا ناجائز اور حرام ہے، فقط واللہ تعالیٰ اعلم
عبدالرحیم عفااللہ عنہ
نائب مفتی دارالافتاء والارشاد
ناظم آباد، کراچی
۰۳/۴/۴۔۴۱ھ
فرقہ آغاخانیہ باجماع المسلمین کافر ہے اور زندیق کے احکام ان پرجاری ہونگے اسلئے کہ ہروقت وہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو نقصان پہنچے وہ کبھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہ اس سے پہلے رہے ہیں اور نہ اب وہ مسلمانوں کے خیرخواہ ہیں بلکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اوردھوکہ دینا ان کے نزدیک عین عبادت اور کارثواب ہے چنانچہ ابن کثیر نے البداےۃ والتھاےۃ میں لکھا ہے کہ تاتاریوں نے جب دمشق پر حملہ کیا تھا توان اسماعیلیوں نے ان کاساتھ دیکر مسلمانوں کو تباہ وبربادکرنے کی ناکام کوشش کی تھی چنانچہ یہ فرقہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا ہے اور خدااور رسول کا دشمن ہے تو اب ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کے لئے کس طرح اُن سے دوستی یا ان کے فاؤنڈیشن یاان کے کسی انجمن میں شرکت جائز ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے بنص قطعی یہ حرام کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے، لاتجدقوماً یومنون باللہ والیوم الاخر یؤادون من حاداللہ ورسولہ ولوکانوااباء ھم اوابناء ھم اواخوانھم اوعشیرتھم اولئک کتب فی قلوبھم الایمان الخ (سورۃ المجادلہ آیت ۲۱۔ پارہ ۸۲) وقال اللہ تعالیٰ الم ترالی الذین توتواقوماً غضب اللہ علیھم ماھم منکم ولامتھم ویحلفون علی الکذب وھم یعلمون، اعداللہ لھم عذاباً شدیدًا انھم ساء ماکانوایعملون (سورہ مجادلہ آیت ۴۱تا۵۱ پارہ۸۲) یاایھاالذین امنوالاتتخذواعدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمؤدۃ وتدکفروابما جاء کم من الحق (ممتحنہ آیت ۱ پارہ ۸۲) ان آیتوں سے صراحتاً معلوم ہوا کہ مشرکین اور دین دشمن طبقہ سے دوستی رکھنا جائز نہیں اور نہ ان سے مالی امداد ہدیہ سمجھ کر قبول کرنا جائز ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے مشرکین کے ہدیہ کوقبول نہیں فرمایا۔ فلمأ جأسلیمان قال اتمدونن بمال فمااتانی اللہ خیرممااتاکم بل انتم بھدیتکم تفرحون (سورۃ النمل آیت ۶۲) بعض مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب اور مصلحت کے لئے مشرکین کو ہدایا دئیے بھی اور ان سے قبول بھی کئے لیکن بقول علامہ الوسیؒ تحقیق یہی ہے کہ اگر دینی مصالح اور امور دینیہ میں خلل پڑتا ہو تو ان کے ہدیہ کو قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ روح المعانی۔ عمدۃ القاری میں علامہ عینی نے صفحہ نمبر ۷۶۱ ج۳۱ اور سنن ابوداؤد میں امام ابوداؤد نے کعب بن مالک اورعیاض بن حمار وغیرہ کی روایات نقل کی ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ انی لااقبل ھدےۃ مشرک اور انی غیبت عن زیدالمشرکین۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دوستی بھی جائز نہیں ہے اور ان کی مالی امداد کو قبول کرنابھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ درحقیقت نہ ہدیہ ہے اور نہ امداد بلکہ مسلمانوں کو گمراہ اور بے دین بنانے کی ایک سازش ہے جو عیسائی مشنریوں کی طرز پر چلائی جارہی ہے۔
علامہ انورشاہ کشمیری نے ابوبکر رازی کے احکام القرآن کے حوالے سے لکھا ہے کہ وقولھم فی ترک قبول توبۃ الزندیق یوجب ان لایستاب الاسماعیلیہ وسائیر المحلدین۔الذین قد علم منھم اعتصٰاد الکفر کائرالزنادقہ وأن یقتلوامع اظھار ھم التوبۃ احکام القرآن صفحہ ۴۵ ج۱ بحوالہ اکفارالملحدین صفحہ ۷۳ جب اسلام کی نظر میں ان کا توبہ اور اسلام بھی قبول نہیں تو ظاہر ہے کہ نہ ان سے مالی فوائد بصورت امدادوھدیہ لینا جائز ہے اور نہ ان کی فاؤنڈیشن اور انجمن میں شرکت جائز ہے۔ دیگر کفارکی امداد پربھی اس کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ امداد حکومتی سطع پر ملتی ہے اس سے عام مسلمانوں کی زندگی اور دین کے متاثرہونے کا خطرہ نہیں ہے جبکہ مذکورہ امداد سے عام مسلمانوں کی انفرادی زندگی کے متاثر ہونے کا شدید خطرہ ہے اور مسلمانوں کے مرتد اور زندیق بننے کا قوی احتمال ہے لہذاان کے ساتھ شرکت اور ان کی امداد کا قبول کرناحرام ہے من کثر سوادقوم فھو منھم علماء اور عام دیندار مسلمانوں پر اس کا تدارک فرض ہے ورنہ وہ خداکے ہاں جوابدہ ہوں گے۔
فقط
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
نظام الدین شامزی
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی۔۵۲- المفتی نظام الدین
الجامعےۃ الفاروقیہ، شاہ فیصل کالونی رقم، کراچی۔۵۲، پاکستان – تاریخ ۵۲/۴/۴۰۴۱ھ
الجواب:۔ فرقہئ آغاخانیہ ضروریاتِ دین سے انکار کی وجہ سے۔ بلاشک وشبہ کافر اورخارج از اسلام، اس سے موالات (دوستانہ تعلقات رکھنا) حرام منصوصی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ لایتخذ المومنون الکافرین اولےأ من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شئی الاان تتقوامنھم۔
یہ فرقے اقلیت ہونے کی وجہ سے اور مذہبی دلائل سے محروم ہونے کی وجہ سے نہ سیاسی تحریک کی ہمت رکھتے تھے اور نہ اپنے کفریات کی دعوت دینے کے ارادت رکھتے تھے۔
موجودہ دور میں یہ فرقہ اپنی کثرت زر کودیکھ کر تنظیموں کے داموں میں بے علم اور کم علم لوگوں کوپھنسانا چاہتے ہیں اوراسی مکروفریب سے سیاسی عروج اور دعوت میں کامیابی کا ارادہ رکھتے ہیں پس اس بناء پر ان کے تنظیموں میں کوئی حصہ لینا اسلام دشمنی اور مداہنت ہے۔وھو الموافق
محمد فرید عفی عنہ
دارالافتاء دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک، ضلع پشاور، مغربی پاکستان
آغاخانی خود بھی اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے ہیں۔ اور دنیا میں کہیں انہوں نے مسجد نہیں بنوائی۔ اس لئے کہ وہ نماز کو فرض ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ صرف جماعت خانے بنواتے ہیں جس میں شام کو سب عورت مرد جمع ہوکرکچھ تفریح کرلیتے ہیں وہ دنیاوی کاموں میں جوکچھ بھی حصہ لیں یہ اُن کا فعل ہے۔ مگر مال ودولت کا لالچ دے کر اگرمسلمانوں کو اسلام سے پھیرتے ہیں ا ور اپنی جماعت میں داخل کرتے ہیں جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس فتنہ ارتداد کو روکیں اور ان کے ان افعال سے جب اُن کی نیتوں اور ارادوں کا ظہور ہوگیا تو دنیاوی کاموں میں بھی اُن کو اپنے علاقوں میں نہ آنے دیں اور اجتماعی طورپر حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ اس فتنے کو روکے اور ان کی اس قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائے۔واللہ تعالیٰ اعلم
وقارالدین عفی
دارالافتاء دارالعلوم امجدیہ، کراچی
آغاخانی (اسماعیلیوں) کے عقائد کے متعلق جوکچھ کہاجاتا ہے اگر درست ہے تو ہر ایسے معاملہ میں جس سے اسلامی عقائد واعمال متاثرہوتے ہوں ان سے تعاون اور فائدہ حاصل کرنا قطعاً درست نہیں بلکہ گناہ ہے ارشادربانی ہے۔
وتعاونواعلی البر والتقویٰ ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان۔ جو مسلمان ان سے اس طرح کا تعاون کریں گے جو آغاخانیت کے فروغ کا سبب ہوگا وہ گنہگار ہوں گے اور آخرت میں ان سے مواخذہ بھی ہوگا۔
واللہ اعلم۔
دارالافتاء
دارالعلوم نعیمیہ فیڈرل بی ایریا۔۵۱،
کراچی۔