موضوع:۔ قاتلین حضرت امام حسینؓ کون تھے؟ کربلا میں حسینؓ کاقاتل کون؟ شیعہ یا غیر شیعہ۔
ORIGINAL Download PDF##
ORIGINAL-Hazrat Hussain-Qatil-Khud-Shia-The
ORIGINAL Download PDF##
موضوع:۔ قاتلین حضرت امام حسینؓ کون تھے؟ کربلا میں حسینؓ کاقاتل کون؟ شیعہ یا غیر شیعہ۔
ORIGINAL Download PDF##
ORIGINAL Download PDF##
حضرت امام حسین ؓ نے وطن سے دُور جس بے نوائی کی حالت میں اپنی جان جان آفریں کے سُپرد کی اور جس عظیم قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے کنبہ کو شہید کرایا اس کی مثال تاریخ انسانی میں ڈھونڈے نہیں ملے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کے اس عظیم فرزند پر یہ مصائب کس جانب سے آئے، کون سے ہاتھ ان کے لئے آگے بڑھے اور کیوں؟
اس واقعہ کے عینی شاہد یا تو قاتل ہیں یامقتولین کے گروہ میں سے جوبچ گئے۔ اس لئے سادہ طریق تحقیق تو یہ ہے کہ بچے کھچے مظلومین سے پوچھا جائے کہ تمہاراقاتل کون ہے اور قاتل گروہ سے پوچھا جائے کہ تمہار اجواب دعویٰ کیا ہے۔ اگر مدعی کے بیان کے بعد ملزم اپنے جرم کااقرارکرلے توکسی شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی اوراقرارجرم کے بعد ملزم‘ ملزم نہیں رہتا بلکہ مجرم قرارپاتا ہے۔
موضوع:۔قاتلین حسینؓ کون تھے؟ شیعہ یا غیر شیعہ۔
جواب کے لئے مقدمات:
(۱)مدعی کون تھے؟
(۲)مدعا علیہ کون ہے یعنی مدعی کا دعویٰ کس کے خلاف ہے؟
(۳)گواہ کون ہیں؟
(۴)کیا وہ عینی شاہد ہیں یا ان کی شہادت سماعی ہے؟
(۵) اگر یہ شہادت مدعی کے بیان کے موافق ہے تودعویٰ ثابت اگر خلاف ہے تومردود ان امُورکی روشنی میں واقعہ کا جائزہ لینا چاہیے۔
مقدمہ اول: مدعی امام حسین ؓ، آپؓ کے اہل بیت اور آپؓ کے ہمراہی ہیں۔ ان پر ظلم ہوا۔ یہ خیال رہے کی شیعہ کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے یعنی گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے پاک ہوتا ہے اور مفترض الطاعتہ ہے۔
مقدمہ دوم: مدعا علیہ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے امام کو بلایا اور ظلم سے قتل کیا۔
مقدمہ سوم:قائدہ کی روسے گواہ، مدعی اور مدعا علیہ سے جداکوئی اور ہوناچاہیے۔
مقدمہ چہارم:کوئی عینی شاہد نہیں جو چشم دید واقعہ بیان کرسکے کیونکہ کربلا چٹیل میدان تھا۔ اس کے گرد کوئی آبادی نہ تھی اسلئے جوگواہ پیش ہوگا اس کی شہادت سماعی ہوگی۔
مقدمہ پنجم:چونکہ شہادت سماعی ہے اس لئے یہ دیکھنا ہوگا کہ گواہ نے یہ واقعہ قاتلین کی زبانی سُنا یا مقتولین کی زبان سے، جو صورت بھی ہو یہ دیکھنا ہوگا کہ شہادت مدعی کے دعویٰ کے مطابق ہے تو قبول ورنہ مردود۔اگر شہادت مدعی کے بیان کے خلاف ہے تو لازم آئے گا کہ گواہ نے مدعی کوجھوٹا قراردیا اور امام معصوم کو جھوٹا قراردینے والے کی شہادت کیونکر قبول ہوسکتی ہے۔لہذاکوئی ایسی روایت یا خبر خواہ کسی راوی کی اور خواہ کسی کتاب سے لی گئی ہو لازماً مردود ہوگی۔
اس تحقیق کے بعد جو مجرم ثابت ہو ہرمسلمان کا فرض ہے کہ اسے مجرم سمجھے ورنہ وہ اس آیت کامصداق ہوگا۔ من یکسب خطیئتہ اواثما ثم یوم بہ برب فقد احتمل بھتانا واثمابینا۔ پ ۵ اٰیت ۲۱۱۔ دعویٰ کا تفصیل:۔ بیانات مدعیان
۱۔ بیان مدعی نمبر۱۔ حضرت امام حسینؓ نے میدان کربلا میں دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
ویلکم یااھل الکوفۃ انسیتم کتبکم وعھود کم التی اعطیتموھا واشھدتم اللہ علیھا ویلکم ادعوتم ذرےۃ اھل بیت نبیکم وزعمتم انکم تقتلون انفسکم دونھم حتی اذااتوکم سلمتموھم الی ابن زیادمنقسوھم من ماء الفرات بئس ماخلفتم نبیکم فی ذریتہ مالکم لاسقاکم اللہ یوم القیامۃ۔
اے اہل کوفہ! حیف ہے تم پر، کیا تم اپنے خظوط اور وعدوں کو بھول گئے جو تم نے خدا تعالیٰ کو اپنے اور ہمارے درمیان دے کرلکھے تھے کہ اہل بیت آئیں ہم ان کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں گے حیف ہے تم پر۔ تمہارے بلاوے پر ہم آئے اور تم نے ہمیں ابن زیاد کے حوالے کردیا اور ہمارے لئے فرات کا پانی بندکردیا۔ واقعی تم لوگ رسولؐ کے بڑے خلاف ہو کہ حضورؐ کی اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ اللہ تمہیں قیامت کے دن سیراب نہ کرے۔
(ذبح عظیم بحوالہ ناسخ التواریخ صفحہ نمبر ۵۳۳)
۱۔ اہل کوفہ نے امام کو خطوط لکھ کر کوفہ بلایا اور عہد دیا کہ امام کی مددکے لئے مرنے مارنے پر تیارہوں گے۔
۲۔جنہوں نے خطوط لکھ کرکوفہ بلایا انہوں نے امام پر پانی بندکردیا اور امام کو قتل کے لئے ابن زیاد کے حوالے کیا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بلانے والے شیعہ تھے یا کوئی اورگروہ تھا۔
قاضی نوراللہ شوستری نے مجالس المومنین صفحہ ۵۲ مجلس اول میں تصریح کردی۔
تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل نداردوسنی بودن کوفی الاصل خلاف اصل ومحتاج دلیل است اگرچہ ابوحنیفہ کوفی است۔
اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کے لئے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنی ہونا خلاف اصل ہے جو محتاج دلیل ہے اگرچہ ابوحنیفہ کوفی تھے۔
شیعہ عالم شوستری کی شہادت کے مطابق اہل کوفہ کا شیعہ ہونا اظہرمن الشمس ہے۔ پھر بھی مزید دوشہادتیں پیش کی جاتی ہیں۔
ا۔ جب مقام زیالہ پر امام حسین کو امام مسلم کی شہادت کی خبر ملی تو امام نے فرمایا۔ تدنذلنا شیعتنا یعنی ہمارے شیعہ نے ہمیں ذلیل کیا ہے۔ (خلاصتہ المصائب صفحہ ۹۴)
ب۔ جلاء العیون اُردو۔ امام نے معرکہ کربلا میں شیعہ کو مخاطب کرکے فرمایا:۔
”تم پر اورتمہارے ارادہ پر لعنت ہو۔ اے بے وفایانِ جفاکار! تم نے ہنگامہ اضطراب واضطرار میں ہمیں اپنی مدد کے لئے بلایا۔جب میں نے تمہارا کہنا مانا اور تمہاری نصرت اور ہدایت کرنے کو آیا اس وقت تم نے شمشیر کینہ مجھ پر کھینچی۔ اپنے دشمنوں کی تم نے یاوری اورمددگاری کی اور اپنے دوستوں سے دست بردار ہوئے۔“
ان بیانات سے ثابت ہوگیا کہ امام کو شیعوں نے بلایا۔ انہوں نے پانی بند کیا اور انہوں نے ہی قتل کے لئے ابن زیاد کے حوالے کیا۔
جلاء العیون میں امام کے بیان کے دوران ”شمشیرکینہ“ کا لفظ قابلِ توجہ ہے یعنی کوفی شیعہ کے دلوں میں کوئی پرانا بغض تھا اس لئے انتقام لینے کی غرض سے یہ ناٹک کھیلا۔ تاریخی اعتبار سے اس دیرینہ عداوت کی وجہ اس کے بغیر کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام کے شیدائیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانوں نے اہل کوفہ سے اپناآبائی مذہب چھڑاکراسلام کی دولت عطاکی اور صدیوں کی پرانی سلطنت عرب مسلمانوں کے زیرنگین آگئی۔ آخرقومی اورمذہبی تعصب بروئے کارآکے رہا۔
نتیجہ:۔ مدعی نمبر۱ کے بیان کے مطابق امام کے قاتل اہل کوفہ شیعہ تھے کوئی اور نہیں تھا۔ بیان مدعی نمبر۲ امام زین
العابدین۔
یاایھاالناس ناشد کم باللہ ھل تعلصون انکم کتبتم الی ابی رحدمتمرہ واعطیتموہ من انفسکم العھد والمیثاق والبیعۃ وقاتلتموہ وخذلتموہ فتبالکم ماقدمتم لانفسکم وسؤۃ رایکم باےۃ عین تنظرون الی رسول اللہ اذتقول لکم قتلتم عترتی وانتھکتم حرمتی فلتم من امتی قال نارتغت اصوات الناس بالبکاء ویدعوابعضھم بعضا ھلکتم وماتعلمون۔
(احتجاج طبرسی طبع ایران صفحہ ۹۵۱)
اے لوگو! میں تمہیں خداکی قسم دلاتاہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ تم نے میرے والد کو خطوط لکھے اور انہیں دھوکہ دیا۔ تم نے پختہ وعدہ اور بیعت کا عہددیا اورتم نے انہیں قتل کیا ذلیل کیا۔ خرابی ہرتمہارے لیے جوکچھ تم نے اپنے لئے آگے بھیجا ہے اور خرابی ہو تمہاری بری رائے کی۔ تم کس آنکھ سے رسول کریمؐ کو دیکھوگے۔ جب وہ فرمائیں گے تم نے میری اولاد کو قتل کیا۔ میری بے حرمتی کی۔ تم میری امت سے نہیں ہو۔پس رونے کی آواز بلند ہوئی اورایک دوسرے کو بددعا دینے لگے کہ تم ہلاک ہوگئے جس کا تمہیں علم ہے۔
اس بیان سے ثابت ہے کہ بُلانے والوں سے مخاطب ہیں اوروہی قاتل ہیں۔ ردعمل میں ان کا اعتراف بھی موجود ہے۔ بیان دیگر:۔
لمااتی علی بن الحسین زین العابدین بالنسوہئ من کربلاوکان مریضاً واذانساء اھل الکوفۃ ینتدین متفقات الجیوب والرجل معھن یبکون فقال زین العابدین بصوت فئیل وقدتھکتم العلۃ ان ھولاء یبکون ومن قتلنا غیرھم۔احتجاج طبرسی صفحہ ۸۵۱۔
جب زین العابدین مرض کی حالت میں عورتوں کے ساتھ کربلا سے آرہے تھے تو اہل کوفہ کی عورتیں گریبان چاک کئے بین کرنے لگیں اور مرد بھی رورہے تھے پس زین العابدین نے پست آواز میں فرمایا کیونکہ بیماری کی وجہ سے کمزورہوچکے تھے کوفہ والے روئے ہیں مگر یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا؟
ملاباقر مجلسی نے جلاء العیون صفحہ ۳۰۵ پر امام کا بیان انہی الفاظ میں نقل کیا ہے۔
”امام زین العابدین نے باآواز ضعیف فرمایا کہ تم ہم پر گریہ اور نوحہ کرتے ہو لیکن یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟“
امام کے اس سوال اور اس لہجے کے اندراس کاجواب پوشیدہ ہے۔
مدعی نمبر۲ کے بیان سے یہ نتیجہ نکلا کہ:
(۱) اہل کوفہ نے خط لکھے (۲) اہل کوفہ نے امام کودھوکہ دیا (۳) اہل کوفہ نے امام کوقتل کیا (۴) اہل کوفہ شیعہ تھے (۵) قاتلین حسینؓ کو فی شیعہ امتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج ہیں (۶) قاتلین حسینؓ روئے اور ان کی عورتوں نے گریبان چاک کئے اور بین کئے بلکہ مستقل سُنت قائم کرگئے۔
یہ خیال رہے کہ دونوں مدعی معصوم ہیں اس لئے اپنے دعویٰ میں صادق ہیں۔
بیان مدعی نمبر۳ زینب بنت علیؓ، ہمشیرہ امام حسینؓ
جب اسیران کربلا، کربلا سے آئے کوفہ میں داخل ہوئے تو کوفہ کے مردوں اور عورتوں نے رونا پیٹنا شروع کردیا تو حضرت زینب نے فرمایا:
ثم قال بعد حمد اللہ والصلوٰۃ علی رسولہ امابعد یا اھل لکوفۃ یا اھل القتل والخدر والغذل الی ان قالت الابئس ماقد مت لکم انفسکم ان سخط اللہ علیکم وفی العذاب انتم خالدون تبکون لی اجل واللہ فابکوافانکم، حق بالبکاء فابکواکثیراواصحکواقلیلا…… ماذاتقولون ان قال النبی لکم ماذانعلتم وانتم اخبرالامم باھل بیتی واولادی بعد مفتتعد منھم اساری ومنھم ضرجوابدم
حمدوصلوٰۃ کے بعدفرمایا اے اہل کوفہ! اے ظالمو! اے غدارو! اے رسوا کرنے والو……بہت براہے جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجا ہے یہ کہ اللہ تم پر ناراض ہوااورتم ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہو۔ تم روتے ہو! ہاں روتے رہوکیونکہ تمہیں رونا ہی زیب دیتا ہے۔ خوب رؤو اور کم ہنسو۔ کل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوگے جب آپ پوچھیں گے تم آخری امت ہو تم نے میرے بعد میرے اہل بیت اور میری اولاد سے کیا سلوک کیا ان میں سے بعض کو قیدی بنایا بعض کو خاک وخون میں لوٹایا۔
اس خطبہ کاترجمہ باقرمجلسی نے جلاء العیون صفحہ نمبر ۳۰۵ پر یہ دیا ہے۔
”امابعد اے اہل کوفہ! اے اہل غدورمکروحیلہ! تم ہم پر گریہ ونالہ کرتے ہواور خودتم نے ہمیں قتل کیا ہے۔ ابھی تمھارے ظلم سے ہمارارونا بندنہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہماری فریادونالہ ساکن نہیں ہوا……تم نے اپنے لئے آخرت میں توشہ وذخیرہ بہت خراب بھیجا ہے اور اپنے آپ کو ابدالآباد جہنم کا سزاوار بنایا ہے تم ہم پر گریہ ونالہ کرتے ہوحالانکہ تم نے خود ہی ہم کو قتل کیا ہے……تمہارے یہ ہاتھ قطع کئے جائیں۔اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو تم نے جگر گوشہ رسولؐ کو قتل کیا اور پردہ داراہل بیت کو بے پردہ کیا۔ کس قدر فرزندان رسولؐ کی تم نے خونریزی کی اور حرمت کو ضائع کیا۔“
نتیجہ:(۱)اہل کوفہ نے مکروحیلہ سے امام کو بلایا۔
(۲)امام سے غداری کی اور اہل بیت کو قتل کیا۔
(۳)یہ سب کچھ کرلینے کے بعد رونا پیٹنا شروع کردیا۔
(۴)ان کو ابدی جہنم کی خوشخبری سنائی گئی۔
(۵)قاتل وہی تھے جو بلانے والے تھے۔ شیعہ تھے تواس جرم کے مرتکب اورابدی جہنم کے مستحق وہی شیعہ ٹھہرے۔
بیان مدعی نمبر۴ حضرت فاطمہ دختر امام حسین احتجاج طبرسی صفحہ ۷۵۱
امابعد یااھل الکوفۃ یا اھل المکروالعذر والخیلاء۔۔فکذتبصرنا وکفرتموناوروایتم قتالنا حلالا وامولنا نھاکانا اولادالترک اوکابل کماقتلتم جدنا بالامس وسیرفکم یقطر من دمائنا اھل البیت لحقد متقدم قرت بذلک عیونکم وفرحت قلوبکم اجتراء منکم علی اللہ ومکرتم (اللہ خیر الماکرین)
امابعد اے اہل کوفہ! اے اہل مکروفریب۔۔۔تم نے ہمیں جھٹلایا اور ہمیں کافر سمجھا۔ ہمارے قتل کو حلال اور ہمارے مال کو غنیمت جاناجیسا کہ ہم ترکوں یا کابل کی نسل سے تھے۔ جیساکہ تم نے کل ہمارے جد (علی) کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہماراخون ٹپک رہا ہے۔ سابقہ کینہ کی وجہ سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں دل خوش ہوئے تم نے خدا کے مقابلے میں جرأت کی اور مکرکیا اوراللہ اس مکر کی خوب سزادینے والا ہے۔
دختر امام مظلوم کے بیان کا نتیجہ:
۱۔ کوفہ کے شیعوں نے اہل بیت کو کافر سمجھا اور ان کا خون حلال سمجھا۔
۲۔ شیعوں کو اہل بیت سے کوئی پرانی دشمنی تھی۔
۳۔ حضرت علیؓ کے قاتل شیعہ ہیں۔
۴۔ اہل بیت کو قتل کرکے یہ لوگ خوش ہوئے۔
وہ رونا پیٹنا محض ایکٹنگ تھی۔
بیان مدعی نمبر۵ ام کلثوم ہمشیرہ امام حسین
جب کوفی عورتوں نے اہل بیت کے بچوں کو صدقہ کی کھجوریں دینا شروع کیں تو مائی صاحبہ نے فرمایا۔ صدقہ ہم پرحرام ہے۔ یہ سن کر کوفی عورتیں رونے پیٹنے لگیں۔اس پرمائی صاحبہ نے فرمایا۔
”اے اہل کوفہ ہم پرتصدق حرام ہے۔۔۔اے زنانِ کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا۔ ہم اہل بیت کو اسیرکیا ہے پھر تم کیوں روتی ہو۔“(جلاء العیون صفحہ ۷۰۵)
نتیجہ ظاہر ہے۔ ان پانچ مدعیان کے بیانوں میں قدرمشترک یہ ہے۔
۱۔ اہل کوفہ نے امام حسین کو دعوت دی۔ خطوط لکھے۔
۲۔ دعوت دینے والے شیعہ تھے۔
۳۔ ان بلانے والے شیعہ نے امام کوقتل کیا۔ اہل بیت کو اسیر کیا۔ ان کامال لُوٹا۔
۴۔ قاتلین حسینؓ کی عورتوں نے گریبان چاک کئے،بین کئے۔
۵۔ قاتلین حسینؓشیعہ امتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خارج ہیں۔
ایک اور ہستی کا بیان ملاحظہ ہو جسے مدعی بھی کہہ سکتے ہیں اور گواہ بھی وہ ہیں امام باقر انہوں نے یہ واقعات لازماً اپنے والد امام زین العابدین سے سنے ہوں گے اوروہ خودبھی بقول شیعہ امام معصوم ہیں۔جلاء العیون صفحہ ۶۲۳
”جب امیرالمومنین سے بیعت کی پھر ان سے بیعت شکستہ کی اور ان پر شمشیر کھینچی اورامیرالمومنین ہمیشہ ان سے بمقام مجادلہ اور محاربہ تھے اور ان سے آزادومشقت پاتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کوشہید کیا اور ان کے فرزند امام حسنؓ سے بیعت کی اوربعد بیعت کرنے کے ان سے غدراورمکرکیا اورچاہا کہ ان کو دشمن کودے دیں۔ اہل عراق سامنے آئے اور خنجران کے پہلوپرلگایا اور خیمہ اُن کالوٹ لیا یہاں تک کہ ان کی کنیز کے پاؤں سے خلخال اتارلئے اور ان کو مضطرب اور پریشان کیا حتیٰ کہ انہوں نے معاویہ سے صلح کرلی اوراپنے اہل بیت کے خون کی حفاظت کی اور ان کے اہل بیت کم تھے۔ پس ہزارمردعراقی نے امام حسینؓ کی بیعت کی اور جنہوں نے بیعت کی تھی خود انہوں نے شمشیر امام حسین پر چلائی اور ہنوز بیعت امام حسینؓ ان کی گردنوں میں تھی کہ امام کوشہیدکیا۔“
اس بیان سے بات بالکل واضح ہوگئی۔
فاطمہ دختر امام حسین کے بیان میں سابقہ کینہ کے الفاظ ہیں ان کی تاریخی تعبیر یہ ہے۔
۱۔جلاء العیون صفحہ ۰۳۲ پر بیان ہے کہ عبدالرحمن ابن ملجم نے حضرت علی کی بیعت کی تھی اور بیعت کرکے جناب امیر کو شہیدکیا۔
کہاجاتا ہے کہ یہ خارجی تھا مگرتاریخ سے اس بات کا نشان تک نہیں ملتا کہ خارجیوں نے کبھی حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ہو۔ وہ توکھلم کھلا مخالف تھے اور تقیہ بھی نہیں کرتے تھے۔جب ابن ملجم نے جناب امیر کی بیعت کی تو شیعان علی میں شامل ہوگیا۔ یعنی حضرت علی کا قاتل بھی شیعہ تھا۔
۲۔احتجاج طبرسی طبع ایران صفحہ ۰۵۱ امام حسن کا بیان
فقال اری واللہ معاوےۃ خیرلی من ھولاء انھم یزعمون لی شیعۃ وابتغواقتلی وانتبھم ثقلی واخذوا مالی۔
خداکی قسم میں معاویہؓ کو ان اپنے شیعوں سے اچھا سمجھتا ہوں۔ وہ میرے شیعہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہوں نے مجھے قتل کرنا چاہا اور میرامال لوٹ لیا۔
ان اقتباسات سے ظاہر ہے شیعوں نے حضرت علی کو قتل کیا، امام حسن کو قتل کرنا چاہا اور ان کا مال لوٹا اور امام حسین کو قتل کرکے دم لیا۔ غالباً اسی بناپرحضرت علی نے اپنے دس شیعہ دے کرامیرمعاویہ سے ایک آدمی لے لینے کی آرزوکی تھی۔
نھج البلاغہ جلداول صفحہ ۹۸۱ حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔
فاخذ منی عشرۃ واعطانی رجلامنھم گویا امیر معاویہؓ کے ساتھی ایمان اور وفاداری میں اتنے قابل اعتمادتھے کہ حضرت علیؓ ان کا ایک آدمی لے کراس کے بدلے دس شیعہ دینے کو تیارتھے۔ قرآن مجید میں ایک اور دس کی نسبت کا ذکر ہے۔
ان یکن منکم عشرون صابرون یغبرماتین۔ اے مسلمانو! تمہارے بیس صابر آدمی کفار کے ۰۰۲ پر غالب آسکتے ہیں۔
ممکن ہے حضرت علیؓ نے بھی تقابل میں اسی کی رعایت ملحوظ رکھی ہو۔
امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو امیر معاویہؓ پر اعتماد تھا اور انہوں نے ان دونوں کی حفاظت بھی کی۔ دونوں حضرات نے امیر معاویہ ؓ کی بیعت بھی کرلی اوران سے وظیفہ بھی لیتے رہے۔اس کے برعکس شیعہ نے ایک بھائی کوقتل کرنا چاہا دوسرے کوقتل کردیا۔
اب مدعاعلیہ کے جواب دعویٰ کو دیکھنا ہے۔ اگر اس میں اقرارجرم موجود ہے تو شہادت کی ضرورت نہیں۔ اگر انکارکرے توگواہ ضروری ہیں۔
بیان مدعاعلیہ:۔
مجالس المومنین میں قاضی نوراللہ شوستری بیان فرماتے ہیں۔
اکنول ازعمال سےۂ خویش نادم گشتہ می خواہیم کہ دست دردامن توبہ وانابت زویم شاید خداوند عزوجل وعلاتوبہئ مارأ قبول کردہ برما رحمت کندوہرکس ازاں جماعت کہ کربلا رفتہ بودندعذرے می گفتند۔سلیمان بن صرد گفت ہیچ چارہ نمیدانیم جزآنکہ خودراور عرصہئ تیغ آوریم چنانچہ بسیارے بنی اسرائیل تیغ دریکدیگر نہاوند قال تعالے انکم ظلمتم انفسکم الایہ ومجموعہ شیعہ زانویئ استغفاردرآمدہ۔ صفحہ ۱۴۲
اب ہم اپنی بداعمالیوں پر نادم ہیں چاہتے ہیں توبہ کریں شاید اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت فرماکر ہماری توبہ قبول کرلے اور اس جماعت سے جتنے لوگ (ابن زیاد کی فوج میں امام کو قتل کرنے) کربلا میں گئے تھے سب عذرکرنے لگے۔ سلیمان بن صرد نے کہا اس کے سواچارہ نہیں کہ ہم اپنے آپ کوتیغ بدست میدان میں لائیں جیسے بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم نے اپن جانوں پر ظلم کیا الخ یہ کہہ کر تمام شیعہ استغفارکے لئے زانو کے بل گرپڑے۔
نوٹ: یہ سلیمان بن صردوہی شخص ہے جس کے مکان میں جمع ہوکر شیعہ نے امام کو کوفہ آنے کا دعوت نامہ تیارکے تھا
مدعا علیہ نے اقرارجرم کرلیا اور توبہ بھی کرلی مگرفائدہ؟
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا
مدعا علیہ نے اقرارجرم کرلیا اورثابت ہوگیا کہ امام حسینؓ کے قاتل کوفی شیعہ ہیں جنہوں نے امام کوگھر بلاکر بے دردی سے قتل کیا۔ مگر احتیاطاًمزیدچھان بین کرلینی چاہیے۔ ممکن ہے کیس اورکا ہاتھ بھی ہو۔
خلاصتہ المصائب صفحہ ۱۰۲۔
لیس فیھم شامی ولاحجازی بل جمیعھم من اھل الکوفہ۔
امام حسینؓ کے قاتلوں میں کوئی ایک بھی شامی یا حجازی نہیں تھا بلکہ سب کے سب کوفی تھے۔
ظاہر ہے وہ اہل کوفہ وہی تو تھے جوشیعہ تھے اور امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مگر حیرت ہے کہ اماموں کو قتل کرنے والوں کے متعلق شیعہ کے ہاں ایک عجیب فتویٰ ہے۔ جلاء العیون صفحہ ۳۱۴
”احادیث کثیرہ میں ائمہ اطہارعلیہم السلام سے منقول ہے کہ پیغمبروں اور ان کے اوصیاء کو اوران کی ذریت کو قتل نہیں کرتا مگر ولدالزناء اوران کے قتل کاارادہ نہیں کرتا مگر فرزند زنا فامنتہ اللہ علیھم اجمعین الی یوم الدین۔
مدعیان نے ان کوفی شیعوں کو جہنم کی بشارت تودے دی تھی اب ائمہ اطہار کے اس فتویٰ سے ان کی دنیوی حیثیت بھی متعین ہوگئی۔ ممکن ہے کوفہ کے شیعوں کو یہ فتویٰ نہ پہنچا ہو مگر علم نہ ہونے سے حکم تو نہیں بدل جاتا۔ آخر یہ ائمہ اطہار کا فتویٰ ہے کسی عام آدمی کا نہیں۔
ایک امر غورطلب باقی رہ گیا ہے کہ چلوامام کے قاتل اہل کوفہ شیعہ ثابت ہوگئے مگریزید کا حصہ اس میں ضرور ہو گا کیونکہ وہ حاکم وقت تھا۔ مدعا علہیم سے ہی اس کے متعلق پوچھتے ہیں۔ شاید وہ اسے بھی اپنے ساتھ شامل کریں۔
۱۔احتجاج طبرسی صفحہ ۲۶۱ امام زین العابدین نے یزید سے سوال کیا میں نے سنا ہے تو میرے والدکو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یزید نے جواب دیا۔
قال یزید لعن اللہ ابن مرجانہ فواللہ ماامرتہ بقتل ابیک ولوکنت متولیا لقتالہ ماقلتہ۔
یزید نے کہا اللہ ابن زیاد پر لعنت کرے۔ بخدامیں نے اسے تیرے والد کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اگر میں خودمعرکہ کربلا میں ہوتا تو انہیں ہرگز قتل نہ کرتا۔
مدعاعلیہ نے یزید کی صفائی پیش کردی مگر صرف اس کا بیان کافی نہیں۔ حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔
۲۔ خلاصتہ المصائب صفحہ ۴۰۳ جب شمر نے امام کا سریزید کے سامنے پیش کیا اور انعام کا مطالبہ کیا تو
فغضب یزید ونظر الیہ نظراًشدید اوقال ملاء اللہ رکابک ناراویل لک افاعلعت انہ خیرالخلق فھم قتلتہ اخرج من بین یدی لاجائزۃ لک عندی۔
پس یزید نے غضب ناک ہوکر شمر کی طرف دیکھا اور کہا اللہ تیری رکاب کو آگ سے بھر دے۔تیرے لئے ہلاکت ہو۔جب تجھے یہ علم تھا کہ یہ ساری مخلوق سے افضل ہیں تو تونے انہیں کیون قتل کیا۔ دُورہوجا میری آنکھوں سے تیرے لئے کوئی انعام نہیں۔
۳۔ اورجلاء العیون صفحہ ۹۲۵ پر ہے کہ انعام کے طالب کو قتل کردیا۔
اگر یزید نے قتل کا حکم دیا تھا تو شمر کہہ دیتا کہ آپ نے حکم دیا تھا میں نے تعمیل کی اور یہ بات روایت میں مذکور ہوتی مگر ان میں سے کوئی صورت بھی موجود نہیں۔
۴۔ نہج الاحزان طبع ایران صفحہ ۱۲۳
کسے وارد شد خبرآوردوگفت دیدہئ تو
روشن کہ سرِ حسین واردشدآں نظرغضبناک
کردوگفت دیدہ ات روشن مباد
کسی نے یزید کو اطلاع دی تیری آنکھیں روشن ہوں حسین کا سَر آگیا۔یزید نے نگاہِ غضب سے دیکھا اور کہا تیری آنکھیں بے نورہوں۔
ان روایات سے ظاہر ہے کہ مجرموں نے یزید کوبری قراردیا ہے۔غالباً اسی بناپرامام زین العابدین کو تسلی ہوگئی اور یقین آگیا۔امام حسینؓ کے قتل میں یزید کاہاتھ نہیں۔اسلئے انہوں نے یزید کی بیعت کرلی بلکہ یہاں تک کہہ دیا
اناعبد مکرہ اشئت فاسک وان شئت فبع۔
اے یزید! میں تمہاراغلام ہوں۔چاہے مجھے رکھ لے چاہے فروخت کردے۔ (روضہ کافی جلاء العیون)
یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ قاتلین حسینؓ کوفی شیعہ تھے جیسا کہ مدعیان کا دعویٰ ہے اور مدعا علیہم نے اقرارجرم کرلیا۔ البتہ ایک مسئلہ حل طلب ہے۔
اصول کافی طبع نولکشور صفحہ ۸۵۱ پر ایک اصول بیان ہواہے۔
ان الائمۃ یعلمون متی یموتون وانھم لایعرتون الاباختیار ھم
تحقیق ائمہ کرام کو اپنی موت کے وقت کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے اختیارسے مرتے ہیں۔ اس اصول کے پیش نظر چند سوالات پیداہوتے ہیں:۔
۱۔امام حسینؓ کو علم تھا کہ اہل کوفہ غدارہیں۔ مجھے بلاکر قتل کریں گے کیونکہ امام کو ماکان ومایکون کا علم ہوتا ہے اور امام کے پاس رجسٹر بھی ہوتا ہے پھر آپ کوفہ کیوں گئے؟ اگر یہ کہاجائے کہ ان کی اصلاح کے لئے گئے تھے تو خود جاتے۔ اپنے اہل بیت کو کیوں ساتھ لے گئے۔اپنی شہادت اور اہل بیت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا علم ہونے کے باوجود یہ اقدام کیوں کیا؟
۲۔ امام نے جب اپنے اختیار سے موت قبول کی اور اسے پسند کیا تو سالہا سال سے ان کی موت پر رونا پیٹنا کس وجہ سے ہے۔اگر محبت سے ہے تو محبت کا تقاضہ ہے کہ اپنی پسند محبوب کی پسند کے تحت ہو۔اگرامام کی پسند کے خلاف احتجاج ہے تو یہ بھی غیرمعقول۔ البتہ اپنے فعل پر ندامت ہے کہ امام کوقتل کیوں کیا تو یہ بات معقول نظر آتی ہے۔
۳۔بقول شیعہ حضرت علیؓ نے تقیہ کیا اصحاب ثلثہ ؓ کی بیعت کرکے تقیہ کرنے کا ثواب بھی حاصل کیا بلکہ نوحصہ دین بچالیا اور اپنی جان بھی بچالی۔ امام حسینؓ نے تقیہ کیوں نہ کیا۔ اپنے والد کی سُنت کی پیروی بھی ہوجاتی۔تقیہ کا ثواب بھی ملتا۔ جان بھی بچ جاتی اور اہل بیت بھی مصائب سے بچ جاتے۔
تقیہ کے فضائل کی بحث طویل ہے۔ البتہ چند ایک باتیں بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
۱۔ اصول کافی باب التقیہ صفحہ ۲۸۴ امام جعفر فرماتے ہیں
یااباعمران تسعتہ اعشار الدین فی التقیتہ لادین لمن لاتقیتہ لہ۔
اے ابوعمر۰۱/۹ حصہ دین تقیہ کرنے میں ہے جوتقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے۔
۲۔ تفسیر امام حسن عسکری طبع ایران صفحہ ۹۲۱
قال رسول اللہ مثل المومن لا تقیتہ لہ کمثل جسد لاراس لہ۔
رسولؐ خدا نے فرمایا تارک تقیہ مومن کی مثال ایسی ہے جیسے بدن بغیر سرکے۔
ظاہر ہے کہ جس طرح سرکے بغیر بدن بے کار ہے اسی طرح تقیہ کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں۔
۳۔ ایضاً
قال علی بن حسین یغفراللہ لمومنین من کل ذنب ویطہرہ فی الدنیا ماخلاذنبین ترک التقیتہ وتضیع حقوق الاخوان۔
امام زین العابدین نے فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کے تمام گناہ بخش دے گا اوردُنیا سے پاک کرکے نکالے گا۔۔۔۔۔۔ مگردوگناہ نہیں بخشے گا اول تقیہ کا ترک کرنادوم بھائیوں کے حقوق ضائع کرنا۔
”من کل ذنب“ سے ظاہر ہے کہ شرک اور ائمہ کو قتل کرنا بھی قابل معافی گناہ ہیں۔ ہاں تارک تقیہ کے لئے نجات نہیں۔ گویا اہل کوفہ امام کوقتل کرکے بھی گناہوں سے پاک ہوکردنیا سے رخصت ہوئے۔ اور امام نے جان دے کربھی کچھ نہ پایا۔ کیونکہ ترک تقیہ کا ناقابل معافی گناہ ان کی گردن پر رہا۔ ہائے امام مظلوم کی دُہری مظلومیت! لطف یہ کہ بات امام مظلوم کے بیٹے کی زبان سے کہلوائی گئی ہے۔
اسی وجہ سے عبدالجبار معتزلی نے اپنی کتاب مغنی میں شیعہ سے ایک سوال کیا کہ شیعہ کا عقیدہ ہے تقیہ ہر ضرورت کے وقت جائز ہے اور خوف جان ہو توتقیہ فرض ہے۔ ایسی حالت میں جوتقیہ نہ کرنے کی وجہ سے ماراگیا وہ ملعون موت مرا، اس نے خداکے حکم کی خلاف ورزی کی۔مگر کربلا میں امام حسین نے اپنی جان ہی نہیں دی اہل بیت کو شہیدکرایا۔ان پرمصائب آئے تواس کی اصل وجہ امام حسینؓ کا تقیہ نہ کرناہے۔ اگر وہ تقیہ کرکے یزید کی بیعت کرلیتے توخداکی نافرمانی بھی نہ ہوتی اور جان بھی بچ جاتی۔حالانکہ امام حسنؓ نے تقیہ کرکے امیرمعاویہؓ کی بیعت کرلی۔ حضرت علیؓ نے تقیہ کرکے خلفائے ثلثہ کی بیعت کرلی۔ اس لئے آپ حضرات شیعہ کیا کہتے ہیں کہ امام حسینؓ کی موت کس قسم کی تھی؟
ابوجعفرطوسی نے تلخیص شافی صفحہ ۱۷۴ پر اس سوال کویوں نقل کیا ہے۔
ثم لما عرض علیہ ابن زیاد الامان وان یبایع یزید کیف لم یستجب حقنالدمہ ودماء من معہ من اھلہ وشیعتہ وحوالیہ ولم القی بیدہ والی التھلکتہ ویدون ھذاالخوف مسلم اخوۃ الحسن الامرالی معاوےۃ فکیف یجمع بین فعلھما۔
جب ابن زیاد نے امام حسینؓ کو اس شرط پر امان دی کہ یزیدکی بیعت کرلیں توامام نے اسے کیوں قبول نہ کیا۔اپنی جان اور اپنے متعلقین کی جان بچالیتے۔ انہوں نے ترک تقیہ کرکے ان جانوں کو ہلاکت میں کیوں ڈالا حالانکہ ان کے بھائی امام حسن ؓ نے بلاخوف جان حکومت امیرمعاویہ کے سُپردکردی تھی۔دونوں بھائیوں کے فعل کو کیسے جمع کرسکتے ہو۔
شریف مرتضی اور ابوجعفر طوسی کی طرف سے جواب یہ دیاگیا:
لمارأی لاسبیل الی العردولا الی دخول الکوفۃ سلک طریق الشام سائر انحو یزید بن معاوےۃ لعلہ علیہ السلام بانہ علی مابہ ارغف من ابن زیاد واصحابہ انصار علیہ السلام حتی قدم علیہ عمروبن سعد من الشکر العظیم وکان من امرہ ماقد ذکروسطر فکیف یقال انہ الغی بیدہ الی التھلکۃ وقد روی انہ قال بعمرہ بن سعد اختاروامنی امالرجوع الی المکان الذی اقبلت منہ اوان اضع یدی علی ید یزید فھو ابن عمی لیریٰ فی رایہ واما ان یسیرو ابی الی ثغر من ثغور المسلمین ناکون رجلا من اھلہ لی مالہ وعلی ماعلیہ۔
جب امام نے دیکھا کہ مدینہ کولوٹنے کا کوئی راستہ نہیں نہ کوفہ میں داخل ہونے کی کوئی صورت ہے توشام کو روانہ ہوئے کہ یزید کے پاس جائیں شاید اس مصیبت سے نجات ملے جو ابن زیاداوراس کے ساتھیوں سے ہورہی تھی۔آپ روانہ ہوئے تو عمروسعد لشکرعظیم لے کرسامنے آگیا جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اسلئے یہ کیسے کہاجاسکتا ہے کہ امام نے اپنی اوراپنے ساتھیوں کی جان ہلاکت میں ڈالی۔ حالانکہ یہ روایت موجود ہے کہ امام نے ابن سعد سے فرمایا تین میں سے ایک صورت اختیارکرلو یاتومجھے واپس مدینہ جانے دو یا یزید کے پاس جانے دو کہ میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا۔ وہ میرے چچا کا بیٹا ہے۔وہ میرے حق میں جو رائے قائم کرے سو کرے یا اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو۔میں مسلمانوں میں مل کرجہادکروں گا۔ان کے ساتھ نفع نقصان میں شریک ہوں گا۔
اس بیان سے معلوم ہوا کہ امام حسین یزید سے بیعت کرنے پر راضی تھے مگر فوج نے اس پیش کش کو ٹھکرادیا۔معلوم ہوتا ہے ابن زیاد وغیرہ ذمہ دارلوگ امام کو گرفتارکرکے لے جانا چاہتے تھے تاکہ انعام کے حقدارہوسکیں۔
دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شیعان کوفہ کی فوج بھی تقیہ کرکے امام کے خلاف لڑرہی تھی۔گویا دوتقیوں میں تصادم ہوگیا۔ فرق اتنا ہے کہ امام تقیہ کرنے پر آمادہ ہوگئے اورفوج عملاً تقیہ کررہی تھی۔
تلخیص شافی صفحہ ۱۷۴ پر اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے۔
واجتمع کل من کان فی قلبہ نصرتہ وظاھرہ مع اعدانہ:
امام کے مقابل جو فوج جمع ہوئی ان کے دلوں میں امام کی محبت اور اس کی نصرت کی آرزو تھی۔ظاہراً وہ دشمن کے ساتھ تھے۔
شریف مرتضیٰ اورطوسی نے عبدالجبار معتزلی کا جواب تودے دیا مگرایک اور پیچ پڑگیا۔مختصر بصائر الدرجات صفحہ ۷
قال ابوعبداللہ ای الامام لایعلم مابصیبہ ولاالی مایصیر امر فلیس بحجۃ اللہ علی خلقہ۔
جو امام آنے والے مصیبت کا علم نہیں رکھتا اور یہ نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا وہ امام ہی نہیں نہ مخلوق پر خداکی حجت ہے۔
یعنی امام کو آنے والے مصائب کا علم تھا۔ انہوں نے اپنے اختیار اور پسند سے موت قبول کی۔جب اس کا علم تھا توکربلا گئے کیوں؟ عبدالجبارکا اعتراض ”کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالا“ بدستورقائم ہے کیونکہ تقیہ کا فائدہ تو جب ہوتا کہ کربلاروانہ ہونے سے پہلے کرتے۔اس موقع پرتقیہ کے ارادہ کا اظہاربے موقع ہے اوربناوٹ معلوم ہوتی ہے۔
شیعہ حضرات کبھی یہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ روایت مناظرہ کی کتابوں میں ہے حدیث کی کتابوں میں نہیں لہذاحجت نہیں “ بات درست سہی مگر ان کے بڑوں کو کیوں نہ سوجھی۔سید شریف مرتضیٰ نے شافی میں اور ابوجعفرطوسی نے تلخیص میں اس روایت کو کیوں جگہ دی۔جب تحریفِ قرآن کامسئلہ چلے توطوسی کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔یہاں طوسی کیوں ناقابل اعتماد قرارپایا۔ معلوم ہوا کہ امام حسینؓ کے دامن سے ترک تقیہ کاداغ دھویا نہیں جاسکتا اور سوال کا یہ حصہ بدستورقائم ہے کہ بتاؤ تمہارے اصول کے مطابق امام حسینؓ کی موت کس قسم کی تھی؟
ائمہ کی موت اپنے اختیارمیں ہونے کا اصول تقاضاکرتا ہے کہ امام حسینؓ نے یہ موت اپنے اختیارسے پسند کی محبان حسین بھی محبوب کی پسند کو محبوب رکھیں اور ان کی یاد میں اپنی جان دے دیں۔ رونا پیٹنا جوانمردی نہیں۔
اس موقع پر ایک دوباتیں مزیدضمناً بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
۱۔ شیعہ کہتے ہیں امام معہ رفقاء پیاسے مرے مگرجلاء العیون صفحہ ۴۵۴
”جب پانی نہ ملا تو امام نے خیمہ کے پیچھے بیلچہ مارا شیریں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔امام نے خوب پیا اور رفقاء کوبھی پلایا۔“
۲۔ شیعہ کہتے ہیں کہ امام کی نعش کو گھوڑوں کے نیچے رونداگیا مگر اصول کافی اورجلاء العیون صفحہ ۳۰۵ پر لکھا ہے۔
”امام کی نعش پر ایک شیرآکے بیٹھ گیااوراس نے کسی کو امام کی نعش کے قریب نہ آنے دیا۔“
ان متضادباتوں میں سچائی کی تلاش کیجئے۔
۳۔ ملاباقرمجلسی کا بیان ہے کہ امام کاجسم ان کی موت کے بعد آسمان پر اٹھالیاگیا اورفرشتے اس کاطواف کرتے رہتے ہیں۔
”جسم تو آسمان پر گیا زمین پر کس کو رونداگیا۔کربلامیں روضہ کس کا بنایاگیا؟ روضہ میں دفن کون ہے؟ کربلا میں جاکرزیارت کس کی ہوتی ہے؟ اگرمیت کے بغیر کربلامیں روضہ بنایاجاسکتا ہے تو ہرجگہ روضہ بنالینے میں کیاقباحت ہے؟
واقعی شیعہ کے بیانات سے تضاد رفع کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک اورسوال ضمناً غورطلب ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ امام کو ہم نے قتل کیا۔یزید کا اس میں ہاتھ نہیں۔پھرحیرت ہوتی ہے کہ امام جب شیعہ تھے توشیعوں نے قتل کیوں کیا۔معلوم ہوتا ہے معاملہ برعکس ہے۔امام اہل سنت تھے۔ ان کا مذہب وہی تھا جوباقی عرب کاتھا۔اسی وجہ سے کوفہ کے شیعوں نے دھوکادیکر امام کو بلایا اورقتل کیا۔ امام کومعلوم تھا کہ وہ شیعہ ہیں مگر انکی اصلاح کی خاطر چلے گئے۔ ائمہ سے شیعوں کی پرانی دشمنی کا ذکرتفصیل سے ہوچکا ہے۔
ائمہ کے علم کی وسعت کا جوعقیدہ شیعہ کے ہاں مسلم ہے کہ ماکان ومایکون کا علم امام کو ہوتا ہے اس کے پیش نظر یہ سوچناپڑتا ہے کہ جب حضرت علیؓ کو علم تھا کہ امام حسن ؓ نے معاویہؓ کے حق میں حکومت سے دستبردارہونا ہے۔امیر معاویہؓ نے یزید کو حکومت دینی ہے اور یزید کی فوج نے امام حسینؓ کوقتل کرنا ہے تواصل مجرم کون ہوا۔حضرت علیؓ یا امام حسن یا یزید؟
اس ممکنہ سوال کاجواب اصول کافی صفحہ ۸۷۲ پر ملتا ہے امام تقی سے روایت ہے۔
فھم یحلون مایشاؤن ویحومون مایشاؤن
ائمہ جس چیز کو چاہیں حلال کرلیں جسے چاہیں حرام کرلیں۔
یعنی امام حسینؓ نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا قتل حلال کرلیا، امام حسنؓ نے اپنے بھائی کا قتل حلال کرلیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس قتل کا مرتکب مجرم نہیں۔کیونکہ فعل حلال کرنے والا ثواب کا مستحق ہے مجرم نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اوربات کہی جاتی ہے کہ صحابہؓ نے کئی باررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے نرغے میں چھوڑا اور بھاگ گئے پھر بھی اہل سنت انہیں کامل الایمان سمجھتے ہیں۔اگر شیعہ نے ایک بارامام سے یہ سلوک کیاتوکافر کیوں ہوگئے۔
بات بڑی اونچی ہے مگر اس میں کئی سقم ہیں۔
۱۔تاریخ سے کوئی ایک واقعہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہؓ نے حضورؐ کوکفار کے نرغہ میں چھوڑکربھاگ جانے کی غلطی کی ہو۔ اس لئے یہ دعویٰ ہی جھوٹا ہے۔
۲۔ صحابہؓ کو کامل الایمان توخودخداکہتا ہے۔ اس لئے جو خدااوررسولؐ کو قابل اعتماد نہ سمجھے وہ آزادہے جو چاہے کہتا پھرے۔
۳۔اہل سنت کو کوئی حق نہیں کہ کسی کافر کوکہیں بلکہ وہ توروٹھنے والوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس کا کیا علاج کہ
(ا)امام حسینؓ فرماگئے ہیں۔ قد خذ لنا شیعتنا
(ب)امام زین العابدین کہہ گئے ہیں۔ نتبالکم ماقدمتم لانفسکم۔ نعتم من امتی
(ج)زینب بنت علیؓ کہتی ہیں۔وفی العذاب انتم خالدون۔
(د)امام باقر کہہ گئے کہ جنہوں نے بیعت کی تھی خودانہوں نے شمشیر امام حسینؓ پر کھینچی اور ہنوز بیعت امام حسینؓ ان کی گردنوں میں تھی کہ امام کو شہید کیا۔
(ر) نوراللہ شوستری شیعوں کی طرف سے کہہ گئے بیچ چارہ نمیدانیم جزانیکہ خودرادرعرصہئ تیغ آوریم۔
اہل علم ودانش خود ہی فیصلہ کریں کہ جوامام کودھوکہ دے۔جو حضورؐ کی اُمت سے خارج ہو جس کے لئے ابدی جہنم ہو۔جو واجب القتل سمجھاجائے اسے کامل الایمان ہی کہیں گے؟
۴۔صحابہؓ پر بہتان ہے کہ حضورؐ کو کفار کے نرغہ میں چھوڑ کربھاگ جایاکرتے تھے مگر یہاں تو بات دورتک پہنچتی ہے۔ امام کودھوکہ دیا۔گھربُلایا۔امام کے ساتھ ہوکریزید کے خلاف لڑنے کاحلفیہ عہد دیا۔امام آئے توآنکھیں بدل لیں۔یزید کی فوج میں شامل ہوگئے۔پانی بند کیا۔امام کونہایت بے دردی سے شہید کیا۔ اہل بیعت کورسواکیا۔ان کامال لوٹا۔اس لئے کہاں وہ بہتان اور کہاں یہ تلخ حقائق۔ اورلطف یہ کہ اتنا کچھ کرچکنے کے بعد محبان اہل بیت بن کرسینہ کوبی کرنا اورجلوس نکالنا۔ حالانکہ جلاء العیون صفحہ ۹۱۵ اور صفحہ ۷۲۵ پر موجود ہے کہ رونا پیٹنا یزید اوراس کے گھر سے شروع ہوا۔ اس لئے اگر یزید کی سنت سمجھ کرکیا جاتا ہے تودرست ہے ورنہ ظاہر ہے کہ جو غم مرنے والے کے پسماندگان کوہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں ہوسکتااور اس کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اہل بیت پسماندگان نے تعزیہ دلدل، عَلم،پنجہ وغیرہ کے جلوس نکال کراوراجتماعی طورپر سینہ کوبی کرکے اظہارغم کیا ہو۔ اور اگر یہ عبادت ہے تو ظاہر ہے کہ ائمہ اور اہل بیت سے بڑھ کر عبادت گزاریہ ماتمی تو نہیں ہوسکتے۔ان سے یہ عبادت کیوں چھوٹ گئی؟
ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ
۱۔ قتل امام حسینؓ میں مدعی ائمہ معصومین اور اہل بیت ہیں۔ان کادعویٰ یہ ہے کہ ہمیں شیعوں نے قتل کیا۔
۲۔ قاتلین کوفی شیعہ اقرارجرم کرتے ہیں۔
۳۔ گواہ امام باقر ہیں۔
اگر اس کے خلاف کوئی شخص دعویٰ کرے تو
٭ ائمہ اوراہل بیت کادعویٰ پیش کرے۔ مدعا علیہ کا اقرارِجرم پیش کرے۔
٭ امام جعفریاامام باقر کی شہادت پیش کرے۔ اس کے بغیر بے تکی بات کوئی وزن نہیں رکھتی۔
شیعہ حضرات کے ہاں اس عبادت (ماتم حسین) کا سراغ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد ہی ملتا ہے اس لئے ہم شیعہ کتب سے اس شہادت کے متعلق چند حقائق پیش کرتے ہیں۔الطراز المذھب مظفری طبع جدید طہران
اسی کتاب کے ۱:۱۸۲ پر حضرت زینب کے طولانی خطبہ میں اس کی کچھ اوروضاحت ہوئی ہے۔
امابعد یااھل الکوفۃ یا اھل الختل والغدر والخذل والمکرابتکون فلارقادۃ الہ معۃ۔۔۔الاساء ماقدمتم لانفسکم وساء تذرون یوم بعثکم وبعد الکم وسعقا وتعسا ونبت الایاری وخسرۃ الصفقۃ ولوتم بغضب من اللہ وضربت علیکم الذلۃ والمسکنۃ۔
اے دھوکہ باز مکاراہل کوفہ کیاتم روتے ہو۔۔۔۔تم نے اپنے لئے بہت براتوشہ آخرت بھیجا ہے۔لعنت اور پھٹکار ہوتم پر۔
حضرت زینب کے اس خطاب سے ایک بات مزید معلوم ہوئی کہ اہل کوفہ نے مکر وغداری سے قتل بھی کیا اور پھر رونا پیٹنا بھی شروع کردیا مگر اس کے باوجود لعنت اور پھٹکار کے مستحق ہی ٹھہرے۔
ناسخ التواریخ ۱: ۱۰۳
حضرت ام کلثومؓ دختر علی اور زوجہئ فاروق اعظم کا خطبہ
وبالجمعہ ام کلثوم فرمود یا اھل کوفۃ سوء ۃ لکم مالکم خذلقم حسبنا وقلتسووانتھبتم اموالہ دورشغودہ وبیتم نساۂ وبکیقوہ فتبا لکم وسعقا۔وویلکم اتدرون ای دماء دھتکم وای ونررعلی ظہورکم۔۔۔۔وای اموال انتھبتموھا قتلتم خیررجالات بعد النبی ونزعت الرحمۃ من قدومکم الان حزب اللہ ھم الضانزون وحزب الشیطان ھم الخاسرون۔
ام کلثومؓ نے فرمایا اے اہل کوفہ! تمہارابراہو۔تمہیں کیا ہوا۔ تم نے حسینؓ سے دھوکہ کیا۔اسے قتل کیا اس کا مال لوٹا۔ اس کی خواتین کو قیدی بنایا۔اب روتے ہو۔ تم بربادہوجاؤ۔ کیا تم جانتے ہو تم نے کون سا خون بہایا۔گناہ کا کتنابوجھ اپنی پیٹھوں پرلادا اورکس کا مال لوٹا۔تم نے نبی کریمؐ کے بہترین افرادکوقتل کیا۔ تمہارے دلوں سے رحم جاتا رہا۔خوب سن لو اللہ والے ہی کامیاب ہیں اورشیطان کا ٹولہ گھاٹے میں ہے۔
می فرمایداے مردم کوفہ بدبرحال شماچہ افتاد وشماراکہ حسین راخوارساختیدومخذول وبے یاروبے یاروگزاشتیدواورابکشتیدوامولش رابغارت بردیدوچوں میراث خویش قسمت ساختید۔
حضرت ام کلثومؓ کے بیان سے اہل کوفہ کے مکروفریب اور ظلم وجور کے علاوہ اہل کوفہ سے یہ شکایت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے قتل حسینؓ کے بعداہل بیت کا مال بھی لوٹا اورمیراث سمجھ کر آپس میں تقسیم کیا۔
ان اقتباسات سے یہ امرواضح ہوگیا کہ اہل کوفہ شیعوں نے امام حسینؓ کوخطوط لکھ کربلایا۔جب آئے تومکروفریب سے ساتھ چھوڑدیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ دشمن کے ساتھ مل کرامام کو قتل کیا۔ اسی پر بھی بس نہیں پھر اہل بیت کے اموال لوٹے۔ اور میراث سمجھ کرآپس میں تقسیم کئے۔
ایضاً صفحہ ۸۰۳ ام کلثوم کا ایک اوربیان
وبالجملہ زنان کوفیاں برایشاں زارزارمی گریستند جناب ام کلثوم سلام اللہ علیہما سرازمحمل بیروں کردوبآں جماعت فرمود۔
یااھل الکوفۃ تقتلنا رجالکم وتبکینا نساء کم فالحاکم بیننا وبینکم اللہ یوم فصلِ القضاء۔
اے اہل کوفہ! تمہارے مردوں نے ہمیں قتل کیا اورتمہاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔اچھا اللہ تعالی ہی ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلے کے دن فیصلہ کرے گا۔
اسی کتاب کے صفحہ ۱۱۳ پر
کوفہ کی عورتوں کو گریبان چاک کئے ہوئے روتے پیٹتے ہوئے دیکھ کر ابوجدیلہ اسدی کوتعجب ہوا کہ یہ عورتیں کیوں یہ منظر پیش کررہی ہیں۔اس کے وجہ پوچھنے پر بتایاگیا کہ انہیں حضرت حسینؓ کا سَر مبارک دیکھ کررونا آیا۔
مگرسوال یہ ہے کہ جب ان کے مردوں کو حسینؓ کا سرتن سے جداکرتے ہوئے ترس نہ آیا توان عورتوں کے دلوں میں غم کے جذبات کیسے اُبھرآئے۔بات تووہی ہوئی۔
؎ وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا۔
یہ بحث تفصیل سے گزرچکی ہے اورثابت کیاجاچکا ہے کہ:۔
٭ معصوم مدعیوں کے بیانات سے واضح ہوگیا کہ امام کو کوفہ بلانے والے، امام کے آنے کے بعد اس کی مخالفت کرنے والے، امام پر پانی بندکرنے والے، بیدردی سے گرم ریت پر لٹاکرذبح کرنے والے، خاندانِ نبوت کے خیموں کو لوٹنے والے،مال غنیمت آپس میں تقسیم کرنے والے اوراس کے بعد روپیٹ کرطمانچہ زنی اور خاک ربائی کرکے ڈرامائی انداز میں اظہارغم کرنے والے سب شیعہ تھے۔ان مدعیان کے بیانات کے بعد مدعاعلیہم کا اقرارِ جرم پیش کردیاگیا جونوراللہ شوستری شہید ثالث کی معتبر کتاب مجالس المومنین جلد دوم مجلس ہشتم میں موجود ہے۔
٭ سب سے بڑی بات ہے کہ ائمہ معصومین جب صاف اقرارکرتے ہیں کہ ہمارے قاتل شیعہ ہیں اورملزم خوداقراری ہیں تو کوئی تیسراشخص اس مسلمہ حقیقت کوکیونکر جھٹلاسکتا ہے۔
خلافت راشدہ وہ ہنیت حاکمہ تھی جس کے ذریعے احکام اسلامی اورحدودشرعی کا اجراء ہوتا تھا ابن سباکی سکیم یہ تھی کہ خلیفہئ ثالث کی سیرت کومجروح کرکے عوام کو ان کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیاجائے اور اسلام کے خلاف فکری انقلاب کے ساتھ ساتھ عملی انقلاب بھی لایاجائے اورخلافت راشدہ سے اعتماد اٹھ جائے۔ان باغیوں نے حضرت عثمانؓ کو نشانہ بنایا،اور خوارج نے حضرت علیؓ کو۔ مقصددونوں کا ایک تھا کہ خلافتِ راشدہ کی معیاری حیثیت مجروح ہوجائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد بھی اسلامی حکومتوں کے زوال کا سبب زیادہ ترروافض ہی بنتے رہے۔چنانچہ انورشاہ کاشمیریؒ لکھتے ہیں۔
”تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدین ہمیشہ اہل السنت میں سے ہوئے ہیں۔ان کے بغیر جہاد کی توفیق کسی کو نہیں ہوئی اور اکثر اسلامی سلطنتوں کی تباہی روافض کے ہاتھوں ہوئی۔“ (فیض الباری صفحہ ۲۷۸)
فتنہ تاتار کو طامتہ الکبریٰ کہاگیا ہے۔نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب الارای ماکان ومایکون بین یدی اساعہ صفحہ ۶۸ اور علامہ ابن قیم نے ااخاشتہ اللہفان ۲:۳۶۲ پر لکھا ہے کہ اس فتنے میں اکابر شیعہ میں سے نصیر الدین طوسی کا ہاتھ تھا۔ یہ ہلاکوخان کا وزیر تھا۔ اس نے اپنی وزارت کے زورسے مساجد برباردکرائیں۔ قرآن کی جگہ بوعلی سینا کی ”اشارات“ کی ترویج کی اور اس امر پر زوردیا کہ یہ قرآن عوام کے لیے تھا۔خواص کے لئے ”اشارات“ ہی قرآن ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام مٹ جائے اور فلسفہ نجوم جادو وغیرہ کی تعلیم رواج پائے۔ دوسری طرف عباسی خلیفہ کا وزیر ابن حلقمی شیعہ تھا جس نے اپنی حکمت عملی سے ہلاکوخان کی کامیابی کی راہ ہموارکی۔ سقوطِ بغداد تاریخ اسلام میں ایک عظیم المیہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے ساڑھے چھ سوسال کی اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیااور اس ”کارخیر“ میں عظیم ترین حصہ لینے والے دونوں حضرات شیعہ تھے۔
مختصر یہ کہ قتل عثمانؓ کا پس منظر ایک انسان کی زندگی ختم کرنے کی کوشش نہیں تھی بلکہ دین اسلام کی فکری اور عملی بنیادوں کو مسمار کرنے کا طویل المدت منصوبہ تھا اورچونکہ حضرت عثمانؓ دین اسلام کی فکری اور عملی صورت کی Symbol بن چکے تھے۔اس لئے انہیں نشانہ ستم بنایاگیا۔ہر انسان کو آخر مرنا ہے لیکن اس منصوبے سے دین اسلام کی عمارت میں جونقب لگائی گئی وہ آج تک ختم ہونے کو نہیں آئی۔