”اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے واقعتہً شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔“

Original PDF HifazatEZaban

کتاب کا نام: حفاظت زبان

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

فہرست مضامین حفاظت زبان

وعظ

حفاظت
زبان

فقیہ العصرمفتی اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم

فہرست مضامین حفاظت زبان

میاں بیوی میں ناچاقی کا سبب     —-> ۵
اعضاء کی گواہی    —-> ۶
انگوٹھی پہننے کا مسئلہ    —-> ۰۱
حضرت ابوبکر ؓ کی کیفیت    —-> ۱۱
امہات المومنین کو ہدایت    —-> ۳۱
مومنین کی صفات    —-> ۶۱
معیاری مسلمان    —-> ۸۱
جھوٹوں کا بادشاہ    —-> ۹۱
نعمتِ گویائی    —-> ۱۲
فضول گوئی سے بچنے کے نسخے    —-> ۴۲
نہی عن المنکر کا فائدہ    —-> ۷۲

وعظ - حفاظت  زبان
وعظ

حفاظت زبان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عام گناہوں کی بنسبت زبان کے گناہوں سے بچنا زیادہ مشکل ہے اور اس کے فسادات بھی دوسرے گناہوں کی بنسبت بہت زیادہ ہیں۔  اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں زبان کی حفاظت کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے:

۱۔ میں نے ابھی خطبہ میں پہلے نمبر پر جو آیت پڑھی ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے زبان کی حفاظت نہ کرنے سے یوں ڈرایا ہے کہ اس کے ذریعہ شیطان تمہیں تباہ کرنا چاہتا ہے، شیطان کے شر سے ہوشیار رہو۔

۲۔ میں نے خطبہ میں جو دوسری آیت پڑھی ہے اس کے شروع میں ہے: یا یھا الذین امنوا۔

 اے ایمان والو! اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو اپنے عمل سے اس کی تصدیق پیش کرو، وہ کس طرح؟ اتقواللہ۔  اللہ سے ڈرو، اس کی نافرمانی چھوڑ دواور نافرمانی کا سب سے بڑا ہتھیار چونکہ زبان ہے اس لئے تقویٰ کا حکم دے کر اس کے بعد خصوصیت سے زبان کے متعلق تاکید فرمائی: وقولو ا قولا سدیدا ۔  زبان کو غلط طریقے سے استعمال نہ کرو بلکہ ہمیشہ سیدھی اور سچی بات کہو۔  بات زبان پر لانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لو کہ یہ بات آخرت کے حق میں مفید ہو گی یا مضر؟ اسی لئے عقلاء کا قول ہے کہ ”پہلے بات تولو پھر بولو“۔  جب آپ کی زبان قابو میں آگئی اور اس کی اصلاح ہو گئی تو اس کی برکت سے بقہ تمام اعضاء کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔  اس لئے آگے ارشاد فرمایا: یصلح لکم اعمالکم۔  اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دیں گے۔  گویا تمام اعمال کی اصلاح ایک زبان کی اصلاح پر موقوف ہے۔  زبان قابو میں آ گئی تو تمام اعمال درست ہو جائیں گے۔ اور پوری زندگی سنور جائے گی۔  مزید انعام یہ کہ ویغفر لکم ذنوبکم۔  اور اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی مغفرت فرما دیں گے۔  آگے ارشاد فرمایا:

(ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزاً عظیماً)

یہ تجربہ ہے اور قرآن بھی اس کی شہادت دے رہا ہے کہ زبان کی حفاظت کرنے سے انسان دوسرے بہت سے گناہوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ اس لئے آگے اور زیادہ تنبیہ فرما دی کہ جو بھی اللہ اور ا سکے رسول کی اطاعت کرے گا ان کی نافرمانیوں سے بچے گایہ اس کے لئے بہت بڑی کامیابی ہے اس کے لئے دنیامیں بھی سکون اور آخرت میں بھی چین۔

وعظ

حفاظت زبان

(۲۲۔۳۲ جمادی الاولیٰ ۹۱۴۱ ھ)

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیاٰت اعمالنا،وم یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ الہ و صحبہ اجمعین۔

اما بعد فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(و قل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطٰن ینزغ بینھم ان الشیطٰن کان للانسان عدوا مبینا)(۷۱-۳۵)

یاایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا۔یصلح لکم اعمالکم و یغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما)(۳۳-۰۷۔۱۷)

”اور آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ ایسی بات کہا کریں جو بہتر ہو شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے واقعتہً شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔“

”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کہو۔  اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا سو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔“

میاں بیوی میں ناچاقی کا سبب:

میاں بیوی میں ناچاقی کا سبب:

نکاح کے خطبے میں بھی یہ آیت پڑھی جاتی ہے بلکہ خطبہ نکاح میں پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ (احمد، دارمی، ابوداؤد، ترمذی)

اس کی حکمت بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات اگر اچھے رہیں ان کا آپس میں نباہ ہو تو اس کے اچھے اثر دونوں خاندانوں پر پڑتے ہیں۔  جانبین میں محبت بڑھتی ہے۔  سب سکون سے رہتے ہیں اور اگر دونوں میں منافرت اور ناچاقی ہو تو اس کے برے اثر بھی دونوں خاندانوں پر پڑتے ہیں۔  دونوں طرف سے غیبتوں، بدگمانیوں اور عداوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑتا ہے جو آخر کر طلاق پر جا کر منتج ہوتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ اس سارے فساد کر برپا کرنے میں سب سے بڑا دخل زبان کا ہوتا ہے۔  ساس یا بہو دونوں میں سے ایک کی طرف سے ابتداء ہوتی ہے پھردونوں کی زبانیں چل پڑتی ہیں اور قینچی کی طرح چلتی رہتی ہیں۔  آخر بات بڑھتے بڑھتے دونوں خاندانوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔  نتیجۃدنیا بھی تباہ آخرت بھی برباد۔  اسی فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لئے رسول اللہ ﷺ  خطبہ  نکاح میں یہ آیت پڑھا کرتے تھے جس میں حکم ہے: قولو اقولا سدیداً۔  زبان سے ہمیشہ درست اور اچھی بات کہو۔  زبان بگڑ گئی تو ساری زندگی بگڑ جائے گی۔  جس سے صرف میاں بیوی کی ازدواجی زندگی ہی نہیں بلکہ دونوں کے خاندان بھی متاثر ہوں گے اور اتنا بڑا فساد برپا ہو گا جو دونوں خاندانوں کی دنیا و آخرت لے ڈوبے گا۔  اس عظیم فتنہ کا واحد علاج یہ ہے کہ زبان کو قابو میں کر لو ہر بات پہلے تولو پھر بولو۔

۳۔ ولقد خلقناالانسان و نعلم ما توسوس بہ نفسہ و نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔اذ یتلقی المتلقین عن الیمین و عن الشمال قعید۔ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید)(۰۵-۶۱ تا۸۱)

اللہ تعالیٰ دل کی باتیں بھی جانتے ہیں مگر قانونی کاروائی کے مطابق لکھنے کے لئے دو فرشتے بھی متعین فرما دئیے۔

انسان جو لفظ بھی بولتا ہے اس لکھنے کے لئے اور اس کی ہر بات کو محفوظ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں متعین ہیں،  جیسے ہی کوئی اچھی یا بری بات زبان سے نکالتا ہے فرشتہ فوراً اسے لکھ کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیتا ہے۔  دائیں طرف والا فرشتہ اچھی باتیں لکھتا ہے اور بائیں طرف والا بری باتیں لکھتا ہے۔  اس پر تنبیہ فرما دی کہ انسان کہیں اس غلط فہمی میں نہ رہ جائے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے یہ باتیں یونہی ہوا میں اڑ جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان کا علم نہیں، ایسا نہیں بلکہ اس کی ہر بات اللہ تعالیٰ کے علم میں اور اس کے مقر ر کردہ فرشتے ساتھ ساتھ لکھتے جا رہے ہیں ہر بات کا آخرت میں حساب دینا ہو گااس پر جزاء و سزا مرتب ہو گی۔

زبان کے گناہ اور اس کے فسادات باقی تمام اعضاء کے گناہوں سے بڑھ کر ہیں پھر زبان کے گناہوں سے بچنا بھی مشکل کام،  موقع بے موقع انسان کی زبان چلتی رہتی ہے، بسا اوقات بڑی خطرناک اور تباہ کن باتیں زبان سے نکل جاتی ہیں۔  مسلمان کہلاتے ہوئے کفر تک بکنے لگتا ہے، مگر اسے محسوس تک نہیں ہوتا کہ زبان سے کیا کچھ نکال رہا ہے؟ اور اپنی بدزبانی کی وجہ سے کہا ں سے کہاں پہنچ چکا؟

اعضاء کی گواہی:

اعضاء کی گواہی:

زبان کے فسادات اور اس کی تباہ کاریاں چونکہ حد سے بڑھ کر ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان میں مبتلا ہے، اس لئے قرآن اور حدیث میں اس پر بار بار تنبیہ کی گئی اور سخت سے سخت وعیدیں سنائی گئیں۔

۴۔  یوم تشھد علیھم السنتھم و ایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون۔یومئذ یوفیھم اللہ دینھم الحق و یعلمون ان اللہ ھو الحق المبین)(۴۲-۴۲۔۵۲)

فرماتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کی زبانیں جو کچھ بولتی رہتی ہیں اور  ان کے ہاتھ جو کچھ کرتے ہیں اسی طرح پاؤں جو کچھ کرتے ہیں ان تمام اعضاء کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن قوت گویائی دیں گے پھر یہ اعضاء اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اپنی حرکات اور اپنے اپنے فسادات کی از خود شہادت دیں گے کہ ہمارے ذریعہ یہ یہ کام کئے گئے اور یہ یہ فسادات برپا کئے گئے پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے کئے کی پوری پوری سزا دیں گے۔  اس لئے قرآن اور احادیث میں بار بار تنیبہ کی جار ہی ہے کہ دنیامیں مہلت ہے ابھی سے سنبھل جاؤ ابھی سے سدھر جاؤ وہ وقت آنے والا ہے اس سے پہلے پہلے توبہ کر لو اور اپنی اصلاح کر لو ورنہ کل قیامت کے روز تمہارے اپنے اعضاء ہی تمہارے خلاف گواہ ہوں گے۔  یہ اعضاء خود اپنے بارے میں اعتراف کریں گے کہ ہم دنیا میں یہ کچھ کر کے آئے ہیں۔  اس سے بڑھ کر سچی گواہی کیا  ہو سکتی ہے کہ مجرم خود اپنی زبان سے جرم کی شہادت دے۔  یہی مضمون قرآن میں دوسری جگہ اس سے بھی واضح ترین الفاظ میں مذکور ہے، فرماتے ہیں:

۵۔یوم یحشر اعداء اللہ الی النار فھم یوزعون۔حتی اذا ماجآؤھا شھد علیھم سمعھم وابصارھم و جلودھم بما کانوا یعملون۔وقالوا لجلودھم لم شھدتم علینا قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شیء وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون۔)(۱۴-۹۱،۱۲)

فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہاں پیشی ہو گی اورحساب شروع ہو گا تو انسانوں کے کان، ان کی آنکھیں اور کھالیں خود شہادت دیں گی کہ اس شخص نے ہمارے ذریعہ سے یہ یہ گناہ کئے تھے یہ منظر دیکھ کر ان لوگوں کو بڑا تعجب ہو گا کہ یہ بے زبان اعضاء کیسے بول رہے ہیں؟ وہ اللہ جس نے ہر چیز کو قوت گویائی دی ہے کیا وہ اللہ اس پر قادر نہیں کہ ہمیں بھی قوت گویائی دے دے اسی نے ہمیں بھی قوت گویائی دی ہے اور ہم تمہارے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ تنبیہ فرماتے ہیں: وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون۔  وہ اللہ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا وہ اس پر بھی قادر ہے کہ پھر دوبارہ تمہیں پیدا کرے قبروں سے تمہیں نکال کر حساب لے، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں۔  اس وقت کے آنے سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لو، ایک اور آیت بھی سن لیجئے جس میں زبان کی حفاظت نہ کرنے پر سخت وعید ہے، فرمایا:

۶۔  تحسبونہ ھینا وھو عند اللہ عظیم۔(۴۲-۵۱)

یہ آیت کسی پر بہتان لگانے کے بارے میں ہے۔زبان کے بے شمار گناہوں میں سے ایک انتہائی خطرناک اور مہلک گناہ، بہتان تراشی ہے کہ کسی بے گناہ اور بے قصور انسان پر ناجائز تہمت لگا دی جائے کہ یہ اس گناہ میں مبتلا ہے، اس کے متعلق فرمایا: تحسبو نہ ھینا۔  کہ تم تو سمجھتے ہو کہ ایسے ہی معمولی سی بات ہے یونہی ذرا سی بات سمجھ کر زبان چلتی کر دی مگر تمہیں کیا معلوم؟ وھو عنداللہ عظیم۔  جسے تم لوگ خاطر میں نہیں لا رہے اور معمولی بات سمجھ کر یونہی اڑا رہے ہو وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے، بہت بھاری اور بڑی مہلک، اس کی حقیقت قیامت میں کھلے گی جب اس کا وبال سامنے آئے گا۔  انسان غفلت اور بے فکری میں کیا کیا کہہ جاتا ہے۔

یہ آیت سورہ نور کی ہے، میں نے اس مقام سے صرف ایک آیت پڑھی ہے ورنہ اس پورے رکوع میں کسی پر بہتان لگانے  پر سخت وعیدوں کا بیان ہے۔

۷۔ یائیھا الذین امنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم ولا نساء من نساء عسی ان یکون خیرا منھن ولا تلمزوا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون۔(۹۴-۱۱)

اس آیت میں زبان کے تین بہت بڑے گناہوں کا بیان ہے:

۱۔کسی کا مذاق اڑانا۔

۲۔کسی کو طعنہ دینا۔

۳۔کسی کو کوئی برا لقب دینا۔

آخر میں ان گناہوں سے توبہ نہ کرنے والوں کو سخت وعید سنائی:  فاولئک ھم الظلمون۔

۸۔یائیھا اللذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ فکرھتموہ واتقوااللہ ان اللہ تواب حکیم۔(۹۴-۲۱)

اس آیت میں بھی زبان کے تین بہت بڑے گناہ بتائے:

۱۔بدگمانی کرنا۔

۲۔تجسس کرنا۔

۳۔غیبت کرنا۔

پھر ایسے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔

۹۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کبھی انسان زبان سے ایک برا کلمہ نکالتا ہے اسے معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہے؟ اس کی نحوست سے قیامت تک کے لئے اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب لکھ دیا جاتا ہے۔  (موطاً مالک، احمد، ترمذی)

۰۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زبان سے ایک بات صادر ہوئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے ایسا کلمہ کہہ دیا کہ اگر وہ سمندر میں ڈال دیا جائے تو اس کا پورا پانی خراب کر دے۔ (احمد، ابو داؤد، ترمذی)

۱۱۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دین کے ارکان اور دوسرے بہت سے احکام بتانے کے بعد ارشاد فرمایا: کیا اب تمہیں ان احکام کا لب لباب اور ان کا اہم ترین جزء نہ بتا دوں؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ضرور ارشاد فرمائیں۔  آپ ﷺ نے ا پنی زبان پکڑ لی اور فرمایا:

(کف علیک ھذا)

”اسے اپنے قابو میں رکھو۔“

غلط جگہ استعمال نہ ہونے دو۔  حضرت معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ تعجب سے پوچھنے لگے: یا رسول اللہ ﷺ  کیا ان باتوں پر بھی ہم سے مواخذہ ہو گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاذ! تمہیں تمہاری ماں گم کرے (کلمہ تنبیہ ہے) قیامت کے دن زبانوں کی کھیتیوں کی وجہ سے لوگ اوندھے منہ جہنم میں پھینکے جائیں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

یہ زبان سے نکلی ہوئی باتیں جنہیں لوگ کوئی اہمیت نہیں دیتے بے سوچے سمجھے بولتے رہتے ہیں ان باتوں کو رسول اللہ ﷺ ص نے حصائد السنتھم سے تعبیر فرمایا کہ یہ زبانوں کی کھیتیاں ہیں جو وہ دنیا میں بو رہے ہیں اور آخرت میں جا کر ان کا پھل پائیں گے۔  پھر زبان کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کا انجام بھی کیا ہو گا کہ دوسرے عام جہنمیوں کے برعکس یہ اوندھے منہ جہنم رسید کئے جائیں گے۔

۲۱۔ رسول اللہ ﷺ  کا ارشاد ہے:  من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیقل خیرا او لیسکت (متفق علیہ)

جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بولے تو اچھی بات بولے اور اگر  کوئی اچھی بات ذہن میں نہیں آتی تو خاموش رہے بولے ہی نہیں۔

اس حدیث کی تعمیل کے لئے حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی انگوٹھی پر یہ جملہ کندہ کروا رکھا تھا:

(قل الخیر والافاسکت)

کہو تو اچھی بات کہو بھلائی کی بات زبان سے نکالو ورنہ خاموش رہو۔  کوئی اچھی بات نہیں سوجھتی تو رہنے دو تمہارے بولنے سے نہ بولنا ہی بہتر ہے۔

انگوٹھی پر کندہ کروانے میں حکمت یہ تھی کہ چونکہ انگوٹھی ہر وقت پہنے رہتے تھے اس لئے اس حقیقت کا استحضار رہتا تھا۔

انگوٹھی پہننے کا مسئلہ:

انگوٹھی پہننے کا مسئلہ:

مرد کے لئے انگوٹھی پہننا دو شرطوں سے جائز ہے ایک یہ کہ چاندی کی ہو سونے یا کسی دوسری دھات کی جائز نہیں۔  دوسری شرط یہ کہ پانچ ماشے سے کم وزن کی ہو۔  ان دو شرطوں کے ساتھ بھی بلا ضرورت نہ پہننا بہتر ہے، رسول اللہ ﷺ خلفاء مسلمین اور ائمہ دین مہر لگانے کی ضرورت سے پہنتے تھے۔

خواتین کے لئے نہ کسی دھات کی قید ہے نہ کسی وزن کی۔  جس دھات کی چاہیں اور جتنے وزن کی چاہیں پہن سکتی ہیں۔  عام طور پر مشہور ہے کہ خواتین کے لئے انگوٹھی سونے چاندی کے سوا کسی دوسری دھات کی جائز نہیں لیکن حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواز کا فتویٰ دیا ہے اور یہی راحج ہے۔  اسکی تفصیل احسن الفتادیٰ کی دسویں جلد میں ہے۔

پہلے زمانے میں مہر پر نام لکھوانا ضروری نہ تھا بلکہ اپنی خاص علامت کے لئے جو چاہتے تھے لکھوا لیتے تھے، امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ نے مہر لگانے کی انگوٹھی پر یہ الفاظ لکھوائے تھے، آپ کی بصیرت دیکھئے کہ حدیث پر عمل کرنے کا کیسا انوکھا طریقہ اختیار فرمایا۔  زبان کی حفاظت کرنا اسے ہر وقت قابو میں رکھنا چونکہ بہت مشکل ہے اس لئے اس کی یہ تدبیر اختیار فرمائی کہ اپنی مہر کی خاص علامت کے طور پر انگوٹھی پر لکھنے کے لئے اس نصیحت کا انتخاب فرمایا، انگوٹھی ہاتھ میں ہے اور ہاتھ تو ہر وقت ساتھ ہی لگا ہوا ہے جیسے ہی ہاتھ پر نظر پڑی سبق تازہ ہو گیا کہ ارے! کہو تو اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو خاموش! گویا چھوٹی سی انگوٹھی جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر انگلی پکڑ پکڑ کہ کہہ رہی ہے کہ بولنا ہے تو صحیح بات بولو  ورنہ خاموش رہو۔

۳۱۔ ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ مجھ پر سب سے زیادہ خوف کس چیز کا محسوس فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ لی اور فرمایا: ھذا۔ (احمد، ترمذی، حاکم)

اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: ”اس کا“ یعنی سب سے خوفناک اور خطر ناک چیز زبان ہے اس کے فتنے سے بچو۔

۴۱۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ! نجات کا راستہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(املک علیک لسانک)(احمد، ترمذی)

”اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔“

زبان کا خطرہ سب سے زیادہ ہے اس کے فساد سے ہوشیار رہو۔

۵۱۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(من صمت نجا) (احمد، داری، ترمذی)

”جو خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔“

جو شخص خاموش رہنے کی عادت ڈال لے بلا ضرورت زبان نہ کھولے وہ دنیا کے تمام فسادات اور فتنوں سے بھی بچ جائے گا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائے گا۔  دنیا و آخرت کی تمام پریشانیوں سے اور ہر عذاب سے بچنے کا گر بتا دیا:

(من صمت نجا)

”جوخاموش رہا وہ نجات پا گیا۔“

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیفیت:

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیفیت:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گئے اور دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زبان کو پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟  فرمایا کہ زبان کو تنبیہ کر رہا ہوں اس کے فسادات بہت زیادہ ہیں یہ ہر فتنہ کی جڑ ہے۔

(ابن ابی الدنیا، ابو یعلی، علل الدارمی، شعب البیہقی)

ذرا سوچئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا کتنا اونچا مقام ہے کتنا بڑا مرتبہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پوری امت میں سب سے اونچا مرتبہ آپ کا ہے، اس کے باوجود آخرت کا خوف ایسا غالب تھا کہ زبان کو پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔  اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ زبان کا فتنہ اس کے فسادات اور خطرات کتنی اہمیت رکھتے ہیں؟  حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا انسان بھی ان فسادات سے اپنے آپ کو مامون نہیں سمجھتا بلکہ ان سے ڈر رہا ہے اور کانپ رہا ہے اور تنہائی میں زبان کو پکڑ کر کھینچ رہا ہے۔  جب ایسے حضرت بھی زبان کے فتنہ سے غافل نہیں تھے اور اس سے بچنے کی تدبیریں کیا کرتے تھے تو سوچئے! ہمارا کیا بنے گا۔

۶۱۔ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: من یضمن لی ما بین لحییہ وما بین رجلیہ اضمن لہ الجنۃ (بخاری)

جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں وہ ضرور جنت میں جائے گا دو چیزیں کیا ہیں؟ ایک تو وہ چھوٹا سا عضو جو دو جبڑوں کے درمیان ہے دوسرا جو دو رانوں کے درمیان ہے، ان دوچیزوں کی کوئی حفاظت کر لے تو میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔  ان دونوں کی تخصیص شاید اس وجہ سے فرمائی کہ ایک تو دونوں کے فساد بہت ہیں دوسرے یہ کہ زبان کی حفاظت نہ کرنے کا نتیجہ بسا اوقات یہ نکلتا ہے کہ زبان سے انسان ایک گناہ کی بات نکالتا ہے اور وہ تجاوز کرتے کرتے شرمگاہ تک پہنچ جاتی ہے۔  زبان سے ذرا سی ایک بات کہی تھی مگر نوبت بدکاری تک پہنچ گئی مثلاً بلا ضرورت کسی غیر محرم سے بات کی اور اس کا دل پر برا اثر ہو گیا، اس لئے بات بڑھا دی ایک سے دوسری بات دوسری سے تیسری بات اس طرح چلتے چلتے آخر نوبت بدکاری تک آگئی   ؎

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد

بسا کیں لعنت از گفتار خیزد

عشق ہمیشہ بد نظری سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ کبھی باتیں سننے سے بھی عشق پیدا ہو جاتا ہے، صرف آواز سننے سے ہی انسان کے اندرونی جذبات ابھرتے ہیں اور عشق پیدا ہو جاتا ہے۔  شاعر نے کہا ہے: بسا کیں دولت از گفتار خیزد۔  عشق کی دولت کبھی آواز سننے سے مل جاتی ہے۔  شاعر عشق کو دولت سے تعبیر کر رہا ہے، اس کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہئے کہ اس نے عشق سے مراد عشق حقیقی لیا ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ کا عشق اس کے رسول ﷺ کا عشق اور اللہ والوں کا عشق۔  ان حضرات کی باتیں سننے سے ہی عشق کی آگ پیدا ہو جاتی ہے۔  قرآن سننے سے اللہ تعالیٰ کا عشق دل میں پیدا ہوتا ہے۔  احادیث سننے سے رسول اللہ ﷺ کا عشق پیدا ہوتا ہے اور اللہ والوں کی باتیں سننے سے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا عشق پیدا ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ والوں کی باتیں ان کی جیب سے تو ہوتی نہیں وہ بھی حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول ہی کی باتیں ہوتی ہیں۔  اس لئے ان کی باتیں سننے سے بھی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ عشق پیدا ہوتا ہے پھر ان باتوں کے طفیل خود ان اللہ والوں سے بھی عشق پیدا ہو جاتا ہے۔  اللہ تعالیٰ سب کے لئے یہ دولت مقدر فرما دیں۔  مگر میں نے شعر میں دولت کو لعنت سے بدل دیا، اس لئے کہ اس وقت مضمون جو چل رہا ہے وہ اللہ کی محبت  کا نہیں بلکہ عشق خبیث کا موضوع چل رہا ہے۔  زبان کی خباثتیں اور اس کے فسادات بتا رہا ہوں اس لئے شعر میں ترمیم کر کے میں نے ”دولت“ کی بجائے ”لعنت“ لگا دیا۔  مخلوق کی محبت جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کر دے، محبوب حقیقی کو ناراض کر دے وہ لعنت نہیں تو اور کیا ہے یہ کوئی دولت نہیں بلکہ لعنت کا طوق ہے اس لئے میں نے شعر کو بدل کر یوں پڑھا   ؎

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد

بسا کیں لعنت از گفتار خیزد

فضول باتیں کرنے کا وبال میں بتا رہا تھا کہ اس کے مفاسد میں سے ایک بڑا مفسدہ یہ بھی ہے کہ اس سے معاشقہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا و آخرت دونوں کی تباہی و بربادی کے مشاہدات ہو رہے ہیں۔

امہات المومنین کو ہدایت:

امہات المومنین کو ہدایت:

چونکہ یہ آواز کا مسئلہ بڑے بڑے فتنوں کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو ہدایت فرماتے ہیں:

(فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا)

فرماتے ہیں کہ کبھی کوئی صحابی کسی دینی ضرورت سے آکر پس پردہ تم سے کوئی ضروری بات کرے یا دینی مسئلہ پوچھے تو جواب کس انداز سے دیں، فرمایا: فلا تخضعن بالقول۔ مسائل کے جواب میں کوئی ضروری بات کرنی پڑے تو آواز میں کسی قسم کی لچک نہ آنے دیں بلکہ کرخت لہجے میں بات کریں اگر آواز میں ذرا سی لچک یا نرمی اآ گئی تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا: فیطمع الذی فی قلبہ مرض۔ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرنے لگے گا یعنی کوئی بد نہاد منافق جس کے دل میں خباثت بھری ہے نفاق کا مرض ہے وہ عورت کی لچکدار آواز سن کر دل میں یہ لالچ کرنے لگے گا کہ شاید یہ عورت مجھے چاہتی ہے اور میری طرف مائل ہو رہی ہے۔ اس شیطانی خیال کی جڑ کاٹنے کے لئے ارشاد فرمایا: فلا تخضعن بالقول۔ آواز میں نرمی اور لچک نہ آنے دیں بلکہ کرخت لہجے میں بولیں جسے سننے والا سن کر ڈر جائے اگر وہ دو باتیں کرنا چاہتا تھا تو ایک بات کر کے ہی لوٹ جائے اور نفس و شیطان کو دخل انداز ہونے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ یہاں یہ سوچئے کہ یہ ہدایت کس کو دی جارہی ہے؟ دنیا کی عام عورتوں کو نہیں بلکہ رسول اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو جن کی کی پاک دامنی کی اللہ تعالیٰ خود شہادت دے رہے ہیں بلکہ جن کو پاک کرنے کا خود ذمہ لے رہے ہیں: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا۔(۳۳-۳۳)

بتائیے دنیا میں ان سے بڑھ کر پاک دامن کون ہو گا؟ دوسرا شرف یہ ہے کہ وہ پوری امت کی مائیں ہیں اس کی شہادت قرآن دے رہا ہے: النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم وازواجہ امھٰتھم۔(۳۳-۶)

نبی کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں یہ تو مسئلہ کے دو پہلو ہوئے تیسرا پہلو یہ کہ ازواج مطہرات کو گفتگو کے متعلق جو اتنی سخت ہدایت دی جا رہی ہے ان کے مخاطب کون ہوتے تھے؟ کون لوگ پردہ کی اوٹ میں آکر ان سے ضروری گفتگو کرتے یا مسائل پوچھتے؟ حضرات صحابہ کرامؓ جن کے شرف و تقدس اور بزرگی کا یہ عالم ہے کہ ملائکہ بھی ان پر رشک کریں فرمایا: رضی اللہ عنہم و رضواعنہ۔ ان سے راضی ہونے کی اللہ نے شہادت دے دی۔ گویا دنیا میں ہی انہیں جنت کا ٹکٹ دے دیا: وکلا وعد اللہ الحسنی (۷۵-۰۱)

اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ کے ساتھ بہتری کا وعدہ کر لیا ہے تمام صحابہ کے ساتھ۔ کوئی یہ نا سمجھے کہ جنت کا وعدہ فقط عشرہ مبشرہ کے لئے ہے۔ ان دس صحابہ کو عشرہ مبشرہ کا لقب اس لئے دیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان حضرات کو ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دے دی تھی اس لئے ان کا نام عشرہ مبشرہ پڑ گیا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے تمام صحابہ جنتی ہیں سب کے سب مبشرہ ہیں مبشرہ، سب کے لئے جنت کی بشارت ہے: وکلا وعد اللہ الحسنی اللہ نے سب کے ساتھ بہتری کا وعدہ کر لیا ہے۔

ہاں تو بات زبان کی چل رہی تھی کہ ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو ہدایت دی گئی کہ غیر محرم سے بضرورت بات کرنی پڑے تو کرخت لہجہ اختیار کریں، میں نے اس کی تفصیل بتا دی کہ یہ حکم کن کو دیا جا رہا ہے؟ ازواج مطہرات کو جو نص قرآن کی رو سے امت کی مائیں ہیں اور بات کرنیوالے کون؟ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو سارے کے سارے مبشرہ ہیں پھر بات کس قسم کی؟ دینی مسائل یا کوئی اہم اور ضروری بات ان سب باتوں کے باوجود حکم دیا جا رہا ہے کہ جب بات کریں تو آمنے سامنے نہیں بلکہ پس پردہ کریں اور کریں بھی کس انداز سے؟: فلا تخضعن بالقول آواز میں کسی قسم کی لچک نہ پیدا ہونے دیں۔ ذرا سوچیں کہ امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن جن کا اتنا اونچا مقام ہے اس قدر فضائل و مناقب ہیں تو کیا وہ بھی لچکدار لہجے میں اور اس انداز سے چبا چبا کر بات کرتی ہوں گی جیسے آج کل کی بے دین اور بدمعاش عورتیں کرتی ہیں جو لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لئے انہیں پھنسانے کے لئے عجیب عجیب چالیں اختیار کرتی ہیں اپنے لباس اپنی چال ڈھال، اپنے انداز گفتگو، غرض ہر چیز سے گناہ کی دعوت دیتی ہیں تو کیا معاذ اللہ! ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی گفتگو میں دور دور کوئی احتمال اور اندیشہ نہ ہو اس سے ممانعت کا کیا فائدہ؟ آخر اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو ایسی چیز سے کیوں منع فرما رہے ہیں جس سے وہ یکسر پاک ہیں جس کے آیندہ پیدا ہونے کا بھی کوئی احتمال نہیں؟ اس اشکال کا جواب ذرا سمجھیں اور عبرت حاصل کریں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کی آواز میں فرق ہے، مرد کی آواز عموماً سخت اور کڑک ہوتی ہے لیکن عورت کی آواز میں قدرتی طور پر لچک اور نرمی ہوتی ہے، دوران گفتگو اس کے دل میں برائی کا کوئی خیال نہ ہو تو بھی اس کی آواز میں قدرتی لچک اور ایک کشش ہوتی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس کے دل پر اثر انداز ہوتی ہے اس لئے قرآن یہ ہدایت دے رہا ہے کہ آپ کا دل تو پاک ہی ہے اس میں گناہ کا کوئی خیال اور وسوسہ تک بھی نہیں لیکن جو قدرتی لچک اور زنانہ پن ہے دوران گفتگو اسے بھی ختم کر یں اور بتکلف کرخت لہجہ اختیار کریں۔

خلاصہ یہ نکلا کہ فضول گوئی یعنی بلا ضرورت کوئی بات زبان سے نکال دینا کوئی معمولی گناہ نہیں بلکہ ایسی خطرفناک چیز ہے کہ بسا اوقات یہ بدکاری کا پیش خیمہ بن جاتی ہے، کسی غیر محرم سے بلا ضرورت ایک بات کرنا زنا کا بیج ثابت ہوتا ہے اس سے معاشقہ پیدا ہوتا ہے اور نوبت بدکاری تک پہنچ جاتی ہے اس لئے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

مومنین کی صفات:

مومنین کی صفات:

(۸۱) قد افلح المؤمنون۔الذین ھم فی صلاتھم خشعون۔والذین ھم عن اللغو معرضون۔والذین ھم للزکوۃ فعلون۔(۳۲-۱تا۴)

فرمایا: قد افلح۔ بیشک کامیاب ہو گئے، کون کامیاب ہو گئے؟ ان کی صفات سننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو کامیاب قرار دیں وہ دونوں جہانوں میں کامیاب ہوتے ہیں ان کی دنیا بھی سنور جاتی ہے آخرت بھی۔یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کامیاب و کامران قرار دیں اور اس کی کامیابی ادھوری ہو۔ یہاں بھی یہی مراد ہے کہ بے شک دونوں جہانوں میں کامیاب ہو گئے، کامیابی سے مراد دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جن کو ناکام قرار دیں تو اس سے مراد بھی دونوں جہانوں کی ناکامی اور خسارہ ہے اگر اس پر کسی کو اشکال ہو تو اس پر مفصل جواب پھر کسی موقع پر دوں گا اس وقت تو زبان کے مفاسد اور اس کے فتنے بیان کر رہا ہوں۔ اب ان آیات کا مطلب سمجھ لیجئے فرمایا: قد افلح۔ لفظ قد عربی میں تاکید کے لئے آتا ہے مطلب یہ کہ جو بات بیان کی جا رہی ہے وہ یقینی ہے آگے: افلح بھی صیغہ ماضی ہے جو تحقیق و تاکید کے لئے آتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو بات بیان کی جا رہی ہے وہ یقینی ہے آگے: افلح بھی صیغہ ماضی ہے جو تحقیق و تاکید کے لئے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے بہا رحمت اور بندوں پر بے انتہاء شفقت دیکھیں کہ بندوں کو یقین دلانے اور انہیں قائل کرنے کے لئے تاکید در تاکید کے انداز میں فرما رہے ہیں کہ یقینی پھر یقینی بات ہے کہ ان آیات میں جو صفات گنوائی جا رہی ہیں ان صفات سے متصف بندے ہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہیں، وہ بندے کون ہیں؟: (الذین ھم فی صلاتھم خشعون)

وہ لوگ جو نماز خشوع سے پڑھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پورے یکسو اور متوجہ ہو کر تمام آداب ظاہر و باطنہ کی رعایت رکھتے ہوئے مکمل طور پر اللہ کے بندے بن کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ کامیاب بندوں کی ایک صفت تو یہ ہوئی آگے دوسری صفت سنئے:(والذین ھم عن اللغو معرضون)

یقیناً پھر وہی بندے کامیاب ہیں جو لغو یات سے بچتے ہیں۔ آگے تیسری صفت:(والذین ھم للزکوۃ فعلون)

اللہ کے وہ بندے جو زکوٰۃ ہمیشہ ادا کرتے ہیں۔ فعلون اسم فاعل کا صیغہ ہے کہ ہمیشہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں کبھی اس میں غفلت نہیں کرتے۔ قرآن و حدیث میں نماز اور زکوٰۃ کو جگہ جگہ ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ اردو میں یوں مشہور ہو گیا: نماز روزہ حج زکوٰۃ، زکوٰۃ کو روزہ اور حج کے بعد لاتے ہیں حالانکہ نماز کے ساتھ اس کا ذکر ہونا چاہئے مگر اسے سب سے آخر میں لاتے ہیں۔ ایسا کہنا اگرچہ جائز تو ہے مگراس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی قائم کردہ یہ ترتیب یونہی کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس میں بڑی حکمتیں ہیں اس وقت یہ حکمتیں بیان نہیں کرتا کہ موضوع دوسرا چل رہا ہے بہر حال اصل ترتیب یوں ہیں۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج۔ آپ لوگ بھی بولنے اور لکھنے میں یہ ترتیب ملحوظ رکھیں۔ عوام چونکہ زکوٰۃ دینے سے بہت ڈرتے ہیں مال خرچ کرتے ہوئے آج کے مسلمان کی جان نکلتی ہے شاید اس لئے یہ الٹی ترتیب مشہور کر دی، زکوٰۃ کو پیچھے کر دیا ورنہ اصل ترتیب تو یوں ہے: نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج۔ قرآن و حدیث میں یہی ترتیب بیان کی گئی ہے عموماًنماز اور زکوٰۃ کو یکجا ذکر کیا گیا ہے اس لئے انہیں ”قرینتان“ بھی کہا جاتا ہے، قرینتان کے معنی ہیں دو ساتھی۔ چونکہ دونوں کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے اس لئے ان کا نام قرینتان پڑ گیا۔ اب آگے اصل نکتہ سنئے کہ یوں تو عموماً نماز اور زکوٰۃ کو ایک ساتھ ذکر کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس کے خلاف کیا گیا۔ اٹھارھویں پارے کے شروع میں سورہ مومنون کی ابتدائی آیتیں جو میں نے پڑھی ہیں ان میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان ایک تیسری چیز ذکر کی گئی ہے وہ یہ کہ کامیاب ہونے والے اللہ کے بندے وہ ہیں جو لغویات سے بچنے والے ہیں۔

اسی طرح دوسری جگہ قرآن مجید میں مشورے کی آیت کو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان میں لایا گیا ہے یہ آیت سورۃ شوریٰ میں ان دونوں مقامات میں نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فاصلہ ڈالنے میں حکمت لغویات سے بچنے اور مشورہ کی اہمیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا ہے کہ یہ دونوں چیزیں اس قدر مہتم بالشان اور لائق اعتناء ہیں کہ نماز کے بعد زکوٰۃ کا ذکر روک کر درمیان میں انہیں جگہ دی گئی پھر ان کے بعد زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ورنہ آپ جہاں بھی دیکھیں نماز و زکوٰۃ کو ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔

مشورہ کی اہمیت وعظ ”استخارہ و استشارہ“ میں دیکھ لیجئے۔ لغو اور فضول گوئی سے بچنا اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اس پر موقوف ہے۔ یہاں لغو کا مطلب بھی سمجھتے جائے کہ ہر وہ کام اور کلام جس کا نہ کوئی دینوی فائدہ ہو نہ اخروی، عقلمند انسان تو اپنی آخرت کو مد نظر رکھتا ہے اگر کسی کام میں آخرت کا فائدہ نہ ہو تو کم از کم دنیا کا فائدہ ہی سوچ لے لیکن جس میں کسی قسم کا فائدہ نہ ہو دنیا کا نہ آخرت کا تو یہ فضول اور لغو ہے۔ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس سے اعراض کرے اور دور رہے یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کی اہمیت جتانے کے لئے اللہ نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان اسے بیان فرمایا:

معیاری مسلمان:

معیاری مسلمان:

لغو اور لایعنی سے بچنے کے کی تاکید کے بارے میں یہ تو قرآن کا بیان تھا آگے حدیث بھی سن لیجئے:

۹۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ)(احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

اسلام کا دعویٰ تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ اس مدعی کا اسلام اللہ کی نظر میں پسندیدہ بھی ہے یا نہیں؟ اس حدیث میں اس کا معیار بیان فرمادیا کسوٹی بتا دی کہ پرکھ کر ہرشخص خود فیصلہ کر لے کہ اس کا اسلام اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ ورنہ اسلام کا دعویٰ تو ہر شخص کرتا ہے   ؎

وکل یدعی وصلاً بلیلی
ولیلی لا تقر لھم بذاکا

لیلیٰ سے عشق کے دعوے تو سب ہی کرتے ہیں مگر ذرا لیلیٰ سے بھی تو پوچھو کہ وہ بھی ان دعووں کو مانتی ہے یا نہیں؟  ایسے گھر بیٹھے دعوے کرنا تو آسان ہے یہی حال عشق مولیٰ کا ہے کہ اللہ سے عشق و محبت کے دعوے تو ہر شخص کرتا ہے جو شخص بھی کلمہ گو اور مسلمان ہے اسے اللہ سے عشق کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کا عاشق ہے مگر ذرا مولیٰ سے بھی تو پوچھیں کہ وہ کیا کہتا ہے؟ سورۃ العنکبوت کے شروع کی آیات باربار بتاتا رہتا ہوں ان میں معیار بیان کیا گیا ہے کہ کس کا ایمان اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے اس کی تفصیل وعظ ”ایمان کی کسوٹی“ میں دیکھ لیں۔

حدیث میں معیار بتا دیا گیا کہ انسان کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ لا یعنی کام و کلام چھوڑ دے، بس یہ ہے معیار جس مسلمان کو دیکھیں کہ اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے ایسی فضول باتوں سے احتراز کرتا ہے جن میں اسے دین و دنیا کا کوئی فائدہ نہیں تو سمجھ لیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے اور یہ اپنے دعوائے اسلام میں سچا ہے مگر ایسے مسلمان تو کہیں خال خال ہی ملتے ہیں۔  عام لوگوں کی حالت کیا ہے؟ بیکار باتوں کے بغیر ان کا وقت ہی نہیں گزرتا، یہ گناہ گویا ان کی غذاء بن چکا ہے، جس کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔
جھوٹوں کا بادشاہ:

جھوٹوں کا بادشاہ:

یہ اپریل فول نہ جانے کیا لعنت ہے؟ سنا ہے یہ انگریزوں کے جھوٹ بولنے کا دن ہے یوں تو جھوٹ بولتے ہی ہیں ان کا مذہب ہی جھوٹ کا مجموعہ ہے مگر یہ اپریل فول سنا ہے جھوٹ ہی کے لئے مخصوص ہے۔  اس میں جھوٹ بولنے کا مقابلہ کرتے ہیں کہ جس قدر جھوٹ بول سکتے ہو بول لو۔  کہتے ہیں اس دن جھوٹ بولنے کا مقابلہ ہوا ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاکسی نے کہا میں نے ہاتھی کو لوٹے میں بند کر دیا کسی نے اس سے بھی بڑھ کر جھوٹ بولا مگر تمام جھوٹوں میں اول نمبروہ شخص آیااور تمام جھوٹوں کا بادشاہ قرار پایا جس نے کہا کہ میں نے ایک جگہ دو عورتیں دیکھیں اکٹھی بیٹھی تھیں مگر تھیں خاموش یہ اول نمبر قرار پایا اس کو انعام بھی ملا ہو گا کہ اس نے اتنا بڑا جھوٹ بول دیا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔  عورتیں کہیں مل کر بیٹھیں اور خاموش رہیں؟ یہ تو ناممکن ہے۔  تو یہ پہلے زمانہ کی بات ہے آج کل کے مردوں کا بھی یہی حال ہے۔  کہیں مرد مل بیٹھیں اور خاموش رہیں یہ ناممکن ہے اور ایسی بات کہنے والا بھی اول نمبر کا جھوٹا ہو گا۔  آج کل کے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔  مردوں نے خصلتیں تو عورتوں والی اختیار کر ہی لی تھیں، شکل و صورت کا جو قدرتی فرق تھا وہ بھی انہوں نے ڈاڑھی منڈا کر ختم کر دیا۔  اب معاملہ صاف ہو گیا صورت بھی عورتوں کی سیرت بھی عورتوں کی دونوں میں کوئی فرق نہیں رہا، تو من شدی من توشدم۔  اس شخص کو کافی سوچ بچار کے بعد یہ جھوٹ سوجھا ہو گا مگر اب یہ امتحان آسان ہو گیا ہے اس میں کامیاب ہونا بلکہ اول آنا کوئی مشکل نہیں رہا اگر آپ بھی خدانخواستہ اپریل فول کے مقابلہ میں کبھی شریک ہوں اور یہ کہہ دیں کہ میں نے دو مردوں کو ایک جگہ خاموش بیٹھے دیکھا تو آپ بھی اول آجائیں گے۔

آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ لوگ خاموش بیٹھ سکیں جہاں کہیں بیٹھیں گے کچھ نہ کچھ بولتے ہی رہیں گے زبان چلتی ہی رہے گی۔  کان کھول کر سن لیجئے اگر آپ مسلمان ہیں اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کا اسلام اللہ کے ہاں قبول ہے یا نہیں؟ آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہیں یا نہیں؟ تو خود کو رسول اللہ صلیاللہ علیہ وسلم کے ارشاد فرمودہ معیار پر لا کر پرکھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ معیار ارشاد فرمایا ہے کہ لغو کلام اور کام سے مکمل احتراز کیجئے۔  اگر آپ کی زبان فضول اور لغو گوئی سے پاک ہو گئی تو آپ کا اسلام پسندیدہ ہے اس پر شکر ادا کیجئے ورنہ آپ اسلام کے ہزار دعوے کریں ان کا کوئی اعتبار نہیں۔  اسی طرح ایک دوسری روایات میں یہ پرکھنے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہیں یا ناراض؟ یہ معیار بیان کیا گیا: علامۃ اعراضہ تعالیٰ عن العبد اشتغالہ بما لا یعنیہ (مکتوبات امام ربانی)

۰۲۔ بندہ سے اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ ایسے کام یاکلام میں مشغول ہو جائے جس میں اس کا نہ دنیا کا فائدہ ہو نہ دین کا فائدہ۔  کسی کو اس طرح لا یعنی میں مشغول دیکھیں تو سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہیں اور یہ لا یعنی میں اشتغال اس پر اللہ کا عذاب ہے اگر اللہ تعالیٰ راضی ہوتے تو یہ اس قسم کا بے فائدہ کلام یا کام کبھی نہ کرتا۔  اتنی سخت وعید یں اس پروارد ہیں اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائیں۔

عقلمند لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تعریف کی ہے کہیں انہیں اولالنھی فرمایا ہے کہیں اولوالالباب اور کہیں اولوالابصار معنی سب کے ایک ہی ہیں:”عقل والے فہم و شعور والے“ عقلاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عقل کامل ہوتی جاتی ہے اس کا کلام کم ہوتا جاتا ہے۔  دونوں کا آپس میں مقابلہ ہے عقل جوں جوں بڑھے گی کلام گھٹتا جائے گا جس کا کلام زیادا ہو گا اس میں عقل کم ہو گی۔  تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔  بچوں میں چونکہ عقل کم ہوتی ہے اس لئے بولتے بہت زیادہ ہیں اور یہی حال عورتوں کا ہے ان کی کم عقلی تجربہ و مشاہدہ کے کے علاوہ حدیث سے بھی ثابت ہے۔  اسی لئے یہ باتیں بہت زیادہ کرتی ہیں۔  اسی طرح پاگلوں کو دیکھ لیجئے ان میں عقل کی ہی کمی نہیں بلکہ یہ عقل سے عاری ہیں اس لئے ان کی زبان سب سے زیادہ چلتی ہے، ہر وقت بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں کوئی سنے نہ سنے جواب دے نہ دے لیکن ان کا کام ہے بولتے چلے جانا اس لئے عقلاء کا یہ فیصلہ بالکل بجا اور درست ہے کہ جو ں جوں عقل کامل ہوتی ہے بولنا کم ہو جاتا ہے  ؎

اذا تم عقل المر ء قل کلامہ
فایقن بحمق المرء ان کان مکثرا

جس انسان کو زیادہ بولتے دیکھو اس کے احمق ہونے کا یقین کر لو۔  عقل مند ہوتا تو زیادہ بک بک نہ کرتا صرف ضرورت کی حد تک گفتگو کرتا مگر حماقت سر پر سوار ہے جو اسے چپ نہیں بیٹھنے دیتی بولنے پر مجبور کر رہی ہے۔   ؎

النطق زین والسکوت سلامۃ
فاذا نطقت فلاتکن مکثارا
ما ان ندمت علی سکوتی مرۃ
ولقد ندمت علی الکلام مرارا
نعمت گویائی:

نعمت گویائی:

قوت گویائی گو ایک نعمت ہے مگر عافیت اور سلامتی خاموش رہنے میں ہے۔  لہٰذا جب گفتگو کرو تو ضرورت کی حد تک بولو، بہت باتونی مت بنو۔  قوت گویائی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، نعمت کا حق یہ ہے کہ اس پر شکر ادا کیا جائے اور اسے صحیح طریقے سے خرچ کیا جائے۔  یہاں تین چیزیں ہیں ایک ہے شکر نعمت دوسری ہے اسراف اور تیسری چیز ہے تبذیر۔

۱۔ شکر نعمت تو یہ ہے کہ جہاں استعمال کا موقع ہو وہاں نعمت کو استعمال کیا جائے اگر موقع پر بھی نعمت کو استعمال نہ کرے گا تو یہ ناشکری ہو گی۔  ضرورت کے وقت بھی خاموش رہنا غلط ہے بوقت ضرورت بقدر ضرورت بولنا چاہئے۔  ہر شخص کی ضرورت اس کے حالات کے اعتبار سے مختلف ہے مثلاً اگر کوئی ٹھیلے پر پھل وغیرہ بیچتا ہے تو اگر وہ پورا دن بھی پھل فروخت کرنے کے لئے آواز لگاتا رہے تو یہ اس کی ضرورت میں داخل ہے لیکن ایسے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہئے:

دست بکار و دل بیار

یعنی ہاتھ تو کام میں مصروف ہیں اور دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہے۔

۲۔ ضرورت کے موقع پر بولتا تو ہے مگر ضرورت پر اکتفاء نہیں کرتا ضرورت سے زیادہ بولتا ہے۔  ضرورت دو باتوں کی تھی مگر اس نے چار کہہ دیں تو یہ اسراف ہے۔  ضرورت سے زائد گفتگو اگرچہ جائز قسم کی ہو کوئی گناہ کی بات نہ ہو تو بھی اسراف میں داخل ہے۔  یہ بات تو یونہی سمجھانے کے لئے میں نے کہہ دی ورنہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مسرف اور باتونی گناہ کی بات کرنے سے بچ جائے اور اس کی ساری باتیں جائز ہی ہوں۔  جب زبان چلتی رہے گی تو جائز ناجائز ہر قسم کی باتیں کرتا ہی چلا جائے گا، کبھی غیبت، کبھی چغلی، کبھی بے جا الزام تراشی غرض جو کچھ ذہن میں آئے گا بکتا ہی چلا جائے گا، زیادہ بولنے کی وجہ سے اس کو سوچنے کا موقع نہ ملے گا بلکہ پتا بھی نہ چلے گا کہ کیا کچھ بولتا جا رہا ہے۔  اسراف کی حد میں داخل ہونے کے بعد یہ ناممکن ہے کہ اس کی ساری گفتگو جائز باتوں تک محدود رہے اور ناجائز سے بچ جائے۔

۳۔ تبذیر ایسی گفتگو کو کہتے ہیں جس کا کوئی موقع اور جواز نہ ہو، گناہ کی بات کرنا تبذیر ہے۔  تبذیر کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس وعید سے کیجئے:  (ان المبذرین کانوا اخوان الشیطین وکان الشیطن لربہ کفورا)(۷۱-۷۲)

تبذیر اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے مرتکب شیطانوں کے بھائی ہیں۔  یہ نہیں فرمایا کہ شیطان کے بھائی ہے بلکہ: اخوان الشےٰطین۔ فرمایا کہ یہ لوگ شیاطین کے بھائی ہیں صرف ایک شیطان نہیں بلکہ جتنے یہ ہیں اتنے ہی ان کے ساتھ شیطان لگے ہوئے ہیں۔  شیطان کے بھائی انہیں کیوں فرمایا؟ اس لئے کہ شیطان نے بھی عقل میں تبذیر سے کام لیا تھا۔  اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کروہ یہ سن کر تمام فرشتے تو سجدہ میں گر گئے لیکن شیطان نے اپنی عقل دوڑائی حالانکہ عقل ہر جگہ کام نہیں دیتی۔  اس میں اعتدال بھی ہوتا ہے، افراط بھی اور تفریط بھی اس کی تفصیل پہلے سورہ فاتحہ میں:  اھدناالصراط المستقیم۔  کی تفسیر کے تحت بیان کر چکا ہوں۔  اللہ تعالیٰ کے پہچاننے میں اللہ تعالیٰ کے وجود میں اور اللہ تعالیٰ کی توحید میں عقل کا استعمال کرنا اعتدال ہے ایسے موقع پر عقل کا استعمال کرنا ضروری ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر  اللہ تعالیٰ کے احکام میں عقل کا استعمال کرنا جائز نہیں۔  یہ عقل کا بے موقع استعمال اور تبذیر ہے۔  شیطان کو اللہ تعالیٰ کے وجود کا بلکہ اس کے احکم الحاکمین ہونے کا بھی پورا یقین تھا مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی عقل کی دوڑ شروع کر دی کہ میں تو آدم سے افضل ہوں اسے آپ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا۔  آگ کا مرتبہ تو مٹی سے زیادہ ہے آگ بھڑکتی ہے شعلہ زن ہو کر اوپر کو جاتی ہے مٹی میں یہ خاصیت نہیں وہ تو اوپر سے نیچے کو آتی ہے میں اعلیٰ ہوں اور آدم مجھ سے ادنیٰ ہے آپ نے اعلیٰ کو حکم دے دیا کہ ادنیٰ کے سامنے جھک جائے یہ بات عقل کے خلاف ہے۔  دیکھئے عقل کی تبذیر کا وبال کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بحث کر رہا ہے کہ ان کے حکم کے مقابلہ میں اپنی حکمت اور فلسفہ بگھار رہا ہے۔  یہی حال آج کل کے بے دین لوگوں کا ہے۔  یہ جواسکول، کالج کا مسموم طبقہ ہے یہ بھی ہر جگہ عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور شرعی مسائل میں حکمتیں تلاش کرتا ہے کہ یہ چیز جائز کیوں ہے اور یہ ناجائز کیوں ہے؟ شیطان کے انجام سے عبرت حاصل کیجئے اس نے عقل میں تبذیر سے کام لیا تو نتیجہ یہ کہ قیامت تک کے لئے مردود ہو گیا۔  اسی طرح جو لوگ دوسری نعمتوں میں تبذیر کرتے ہیں کسی نعمت کا بے موقع استعمال کرتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یہ شیطانوں کے بھائی ہیں جو کام شیطان نے کیا وہی کام یہ بھی کر رہے ہیں۔  قوت گویائی نعمت ہے اور زینت ہے۔  اس نعمت کی ناقدری نہ کریں بے موقع نہ بولا کریں۔  موقع پر بولیں اور سوچ سمجھ کر بولیں کام کی بات کریں۔  یہ گویائی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر اس میں تبذیر کی بے موقع بولنے لگے تو سوچیں اللہ تعالیٰ کو اگر غصہ آ گیا ناراض ہو کر انہوں نے اپنی نعمت چھین لینے کا فیصلہ کر لیا مثلاً گونگا کر دیا  یا  زبان میں کینسر کی بیماری لگا دی تو کیا بنے گا؟  اس بات کو سوچیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوشش کریں اتنی بڑی نعمت کو ضائع کر رہے ہیں۔

بسیار گوئی کا نقصان:

آگے سمجھانے کے لئے شاعر نے اپنا تجربہ بھی بتایا ہے اور یہ حالت ہر شخص پر گزرتی ہے     ؎

ما ان ندمت علی سکوتی مرۃ

ولقد ندمت علی الکلام مرارا

اپنے حالات کو سوچیں اور نصیحت پکڑیں۔  شاعر اپنا تجربہ بتا رہا ہے کہ میں خاموش رہنے پر تو کبھی بھی نادم نہیں کہیں خاموش رہا ہوں اور پھر بعد میں ندامت محسوس کی ہو کہ کیوں خاموش رہا؟ ایسا تو کبھی نہیں ہوا ہاں اس کا الٹ ضرور ہوا اور کئی بار ہوا وہ کیسے؟

ولقد ندمت علی الکلام مرارا

بولنے پر کئی بار ندامت اور خفت اٹھانی پڑی۔  ایک بار نہیں بلکہ کئی بار، کئی بار، مثلاً بیوی سے جھگڑ کر اسے طلاق دے دی اب پریشان اور پشیمان کہ ہائے! یہ کیا کر بیٹھا۔  طلاقیں بھی کم از کم تین دیتے ہیں تاکہ ندامت پر ندامت ہوتی رہے مگر رجوع کی کوئی صورت نہ رہے۔  اسی طرح کسی نے کوئی بات خلاف طبع کہہ دی تو اس کو گالی دے دی۔  جواباً اس نے ٹھکائی لگا دی تو اب پھر شرمسار اور پریشان۔  یہ تو دنیوی پریشانیاں ہیں جبکہ زبان کی وجہ سے آخرت کا عذاب تو بہت زیادہ ہے۔  اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائیں۔  غرض بولنے پر تو پریشانیاں ہیں ہر شخص خود اپنا تجزیہ کر لے اپنے حالات میں غور کرے لیکن خاموش رہنے پر کبھی کسی کو ندامت نہیں ہوئی کبھی آپ کی زبان سے یہ نہیں نکلا ہو گا نہ کسی اور کو یہ کہتے سنا ہو گا کہ میں فلاں موقع پر خاموش رہا اس لئے میرا اتنا نقصان ہو گیا اس لئے اپنی خاموشی پر پچھتا رہا ہوں۔  ایسا کبھی نہیں ہو گا اس کے برعکس آپ نے بولنے پر بارہا نقصان اٹھایا ہو گا، شرمندگی اٹھائی ہو گی۔  دنیا کے اکثر نقصان اور لڑائی جھگڑے بولنے پر ہو رہے ہیں۔  خاموشی میں کوئی نقصان نہیں بلکہ اس میں سلامتی ہے ہاں اگر آپ کو بولنا ہی ہے خاموش نہیں رہا جاتا بولنے کے لئے بے تاب ہیں تو دین کی بات کیجئے اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچائیے۔  اس کے نتیجے میں اگر بظاہر نقصان ہو گیا کسی نے پٹائی بھی کر دی تو یہ ندامت کی بات نہیں بلکہ فخر کا مقام ہے۔  اس ظاہری نقصان اور ذرا سی سبکی پر بہت بڑا اجر ہے۔  بولنا ہی ہے تو ایسے موقع پر بولئے لیکن یہ کیا کہ مسلمان دنیا کی لغو اور بے کار باتیں کر کے تو بار بار ندامت اٹھائے کہ کاش میں نے یہ بات نہ کہی ہوتی، کاش میں نے یہ کام نہ کیا ہوتا مگر دین کے معاملے میں بالخصوص اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں دیکھ دیکھ کر خاموش رہے۔  شریعت کے احکام ٹوٹتے رہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں سر عام کی جائیں مگر یہ ٹس سے مس نہ ہو اور گونگا شیطان بن کر دیکھتا رہے۔  زبان کو فضول گوئی سے بچانے کے لئے کچھ نسخے بتاتا ہوں انہیں یاد کر لیں اور بار سوچا کریں۔

فضول گوئی سے بچنے کے نسخے: پہلا نسخہ:

فضول گوئی سے بچنے کے نسخے:

پہلا نسخہ:

دنیا بھر کے حکماء فلاسفہ، سائنسدانوں، دانشوروں اور دماغی ڈاکٹروں کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ زیاد ہ بولنے والا احمق اور بے وقوف ہے۔ خود بھی زیادہ باتوں سے بچیں خاموشی کی عادت ڈالیں اور کوئی دوسرا شخص آپ کے سامنے زیادہ باتیں کرنے لگے تو اسے بھی بتا دیں کہ بھائی! دنیا بھر کے عقلاء کا یہ اجماعی فیصلہ ہے کہ زیادہ بولنا اور زبان چلانا کوئی عقلمندی نہیں بلکہ فتور عقل اور حماقت کی علامت ہے لہٰذا آپ ایسی حماقت نہ کریں۔ وہ پھر بھی باتوں سے باز نہ آئے تو اسے خیر خواہانہ مشورہ دیجئے کہ آپ مریض ہیں دماغ کے کسی اسپیشلسٹ ڈاکٹر سے اپنا علاج کروائیے۔ بیچارہ مریض ہے مریض سے اظہار ہمدردی تو کرنا ہی چاہئیے۔

دوسرا نسخہ:

دوسرا نسخہ:

اس حقیقت کو بار بار سوچا کریں کہ دنیا میں کبھی بھی کسی انسان کو خاموش رہنے پر کسی قسم کی ندامت نہیں ہوئی۔ اس بارے میں اپنے حالات کو بھی سوچا کریں۔ دوسروں کے حالات بھی دیکھیں۔

ایک بار میں اپنے بیٹے کے ساتھ بازار کسی کام سے گیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں اپنی گاڑی بیچنا چاہتا ہوں یہاں دلال رہتے ہیں ذرا ان سے بات کرتے جائیں۔ دلالوں کے سامنے جا کر گاڑی روک دی وہ آ گئے اور کچھ دام بتائے مگر یہ دام ان کے اس اندازہ سے کم تھے جتنے میں یہ فروخت کرنا چاہتے تھے، ذہن میں ایک اندازہ لگا کر گئے تھے کہ اتنے میں گاڑی بک جائے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس آ جائیں گے۔ انہوں نے کم دام بتائے اس کے بعد بولنا شروع ہو گئے کہ ہاں بولیں آپ کتنے میں دیں گے؟مگر یہ خاموش وہ پھر بولے ارے کچھ تو بتاؤ کچھ بولو تو سہی مگر یہ بالکل خاموش گویا سن ہی نہیں رہے بس ایک دو منٹ ٹھہرے۔ پھر گاڑی سٹارٹ کی اور واپس چلے آئے اگر یہ بھی بولنے لگتے کہ اتنے دام دو وہ کہتے نہیں اتنے لے لو۔ یہ کہتے نہیں اتنے دو خواہ مخواہ ایک دوسرے کا دماغ کھاتے رہتے اور وقت بھی ضائع ہوتا لیکن ان لوگوں کی زبان سے پہلی بات سن کر ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ سودا بنتا نظر نہیں آتا۔ اس لئے بس ایک دو منٹ ہی ٹھہرے اور وقت ضائع کئے بغیر وہاں سے چل دئیے اس قصہ کو کئی سال گزر گئے مگر جیسے میں نے پہلے بتایا کہ عبرت کی بابت خواہ کسی شخص سے مل جائے وہ دیندار ہو یا بے دین بلکہ احمق ہی کیوں نہ ہو اس کی بات مجھے یاد رہتی ہے۔ اپنے بیٹے کا یہ انداز مجھے بہت پسند آیا اب بھی کبھی کبھی میں انہیں شاباش دے دیتا ہوں کہ اس دن بہت اچھا کیا آپ نے، کچھ بولتے تو اپنا دماغ بھی کھپاتے میرا وقت بھی ضائع کرتے۔ اچھا کیا کہ خاموشی سے چل دئیے۔

انسان بول کر بار ہا شرمندہ ہوتا ہے مگر خاموش رہنے پر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی بلکہ خوشی ہی ہوتی ہے کہ اچھا ہو ا میں اس موقع پر خاموش رہا ورنہ اتنا نقصان ہوتا ایسی شرمندگی ہوتی۔

تیسرا نسخہ:

تیسرا نسخہ:

تیسرے نمبر پر ایک قصہ یاد کر لیجئے اس میں بھی غور کریں اور نسخہ کے طور پر اسے استعمال کریں۔ کہتے ہیں کسی شہزادہ نے کہیں خاموشی کے فوائد اور بولنے کے نقصان پڑھ لئے لہٰذا اس نے تہیہ کر لیا کہ ہمیشہ خاموش رہوں گا اور کبھی نہیں بولوں گا۔ بادشاہ کو جب پتا چلا کہ شہزادہ کی بول چال بند ہو گئی چوبیس گھنٹے سکوت ہی سکوت طاری ہے تو بہت فکر مند ہوا اور علاج کاحکم دیا، بڑے بڑے نامور اطباء بلائے گئے۔ انہوں نے علاج کیا مگر بے سود، پھر سوچا شاید کسی نے جادو کر دیا یا چڑیل لگ گئی، کوئی بھوت سوار ہو گیا۔ لہٰذا عامل بلائے گئے انہوں نے ہر قسم کے تعویذ گنڈے ٹونے ٹوٹکے کر کے دیکھ لئے مگر شہزادہ اب بھی بول کر نہ دیا۔ بادشاہ کی تشویش اور بڑھی جب سارے علاج ناکام ہو گئے اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو آخری علاج یہ سوچھا کہ اپنے ماحول سے دور کہیں پہاڑوں، جنگلوں کی طرف اسے لے جاؤ اور تفریح کراؤ شاید آب و ہوا کی تبدیل سے اس کی زبان کھل جائے یا شکار کھیلنے سے اس کی طبیعت کھل جائے اور خوش ہو کر کوئی بات کر لے جیسے آج کل لوگوں نے عورتوں کا بھی یہی علاج شروع کر دیا ہے، عجیب زمانہ آ گیا ہے، بے دینی کی نحوست سے عقلوں پر پردے پڑ گئے ہیں۔ عورتیں تو ہیں ہی پاگل مگر خاوند ان سے بڑھ کر پاگل۔ عورت کو ذرا سی تکلیف ہو جائے یا یونہی مکر کرنے لگے تو اس کی صحیح تشخیص اور علاج کی بجائے عورتوں کو تفریح کرواتے ہیں گھر سے نکالو دور دراز تفریح کرواؤ، سیر سپاٹے سے طبیعت بحال ہو جائے گی یہ کون سا علاج ہوا؟ اس بے پردگی اور بے حیائی سے تو اس کا دماغ اور خراب ہو گا۔ وہ تو بار بار یہی کہے گی میں بیمار ہوں مجھے اور تفریح کرواؤ۔

شہزادے کو لے گئے تفریح کے لئے جنگل میں چلتے ہوئے کسی طرف سے تیتر کی آواز آئی۔ شکاری نے فوراً نشانہ لگایا اور اسے مار گرایا۔ اب شہزادہ بولا: ”اور بول“ مطلب یہ کہ چکھ لیا بولنے کا مزا اور بول۔ بس پھر خاموش وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ تو مکار ہے جان بوجھ کر نہیں بولتا بادشاہ کو بھی غصہ آ گیا اور اس نے حکم دے دیا کہ اس کی پٹائی لگاؤ اسے کوئی عذر نہیں بلکہ یہ مکار ہے سب کو خواہ مخواہ پریشان کر رکھا ہے لگاؤ اس کی پٹائی دیکھیں کیسے نہیں بولتا۔ یہ سنتے ہی کارندوں نے اسے مارنا شروع کر دیا جب کافی مار لگ چکی تو پھر بولا: ”ایک بار بولنے پر تو اتنی مار کھا لی دوبارہ کبھی بولا تو تیرا کیا بنے گا“ بس یہی کہتے ہی پھر خاموش، مار پڑتی رہی لیکن وہ دوبارہ کبھی بول کر نہ دیا۔

خاموشی اختیار کرنے کا یہ تیسرا نسخہ ہے اور بڑا عجیب نسخہ ہے اسے سوچا کریں ہو نا تو یہ چاہئیے کہ جو بسیار گوئی کے مریض ہیں کسی طرح خاموش نہیں ہوتے، ان کی بھی کوئی ٹھکائی لگانے والا ہو ہر وقت درہ لے کر کھڑا رہے جیسے ہی بک بک شروع کریں درہ سب پر برسانا شروع کر دے مگر یہاں کوئی ٹھکائی لگانے والا تو ہے نہیں اس لئے یہ مریض ٹھیک نہیں ہوتے اور بولتے چلے جاتے ہیں۔

چوتھا نسخہ:

چوتھا نسخہ:

یہ بات خوب سمجھ لیں کہ انسان کے قلب میں جس چیز کی محبت ہوتی ہے اسی کا ذکر زبان پر ہوتا ہے اور جس کا ذکر زبان پر ہوتا ہے اس کی محبت قلب میں بڑھتی جاتی ہے۔ جب دنیا کی باتیں ضرورت سے زیادہ کریں گے تو اس سے دنیا کی محبت دل میں بڑھے گی۔ ایک بار حضرت رابعہ بصریہ رحمہا اللہ تعالیٰ کی خانقاہ میں کچھ لوگ دنیا کی برائی کی باتیں کر رہے تھے آپ نے انہیں ڈانٹ کر فرمایا کہ اے دنیا کے عاشقو! یہاں سے نکل جاؤ۔ کسی نے کہا کہ یہ تو دنیا کی برائی کر رہے تھے تو فرمایا کہ دل میں دنیا کی محبت ہے جبھی تو اس کا ذکر زبان پر آیا۔ جس کی محبت دل میں ہو موقع بے موقع اس کا ذکر زبان پر آجاتا ہے خواہ بصورت ذم ہی کیوں نہ ہو۔ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے اس لئے جب بھی زبان فضول گوئی کا تقاضا کرے تو یہ سوچا کریں کہ اس میں آپ کا کتنا نقصان ہے۔

نہی عن المنکر کا فائدہ:

نہی عن المنکر کا فائدہ:

آپ خود بھی ان نسخوں پر عمل کریں اور انہیں آگے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچانے کا اہتمام کریں آگے پہنچانے کے بہت سے فائدے ہیں مثلاً:

۱۔ آپ نے اپنا فرض ادا کیا۔

۲۔ جب آپ بات آگے پہنچائیں گے تو دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا اس میں آپ کا بھی دینی فائدہ ہے کہ آپ کو ثواب ملے گا۔

۳۔ جیسے جیسے دین کی باتیں آگے پہنچیں گی اور معاشرہ سدھر تا جائے گا سب کے لئے دین پر قائم رہنا آسان ہو جائے گا، مثلاً دین کی یہی بات لے لیں کہ آپ نے اپنے ماحول میں سب لوگوں کی یہ ذہن سازی کر دی کہ فضول گوئی کے اتنے اتنے نقصان ہیں خاموشی کے یہ یہ فوائد ہیں۔  جب سب کا ذہن بنا دیا اور سب نے طے کر لیا کہ ہم اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کریں گے تو آپ کے لئے اور دوسرے تمام ملنے والوں کے لئے شریعت کا یہ حکم آسان ہو گیا۔جب بھی کوئی ملے سلام کے بعد مختصر سے الفاظ میں خیریت پوچھی اور تسبیح نکال کر ہاتھ میں پکڑ لی چونکہ دوسرے کا بھی ذہن بنا ہوا ہے وہ بھی یہی کرے گا غرض تمام اہل مجلس اس گناہ سے بآسانی بچ جائیں گے۔  سب کے لئے دین پر چلنا آسان ہو گیا۔

۴۔ جتنی بار آپ یہ بات کریں گے آپ میں زیادہ مضبوطی پیدا ہو گی۔  ایک بار بات سن لی کان میں پڑ گئی تو یہ سبق کا پہلا مرحلہ ہے پھر جب اسے زبان پر لائے اور دوسروں تک پہنچائی تو سبق پختہ ہو گیا۔  پھر آگے جتنی بار دھراتے جائیں گے اتنی ہی پختگی اور مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔

آگے پہنچانے کے اتنے فائدے ہیں اس لئے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک یہ باتیں پہنچائیں اگر عین وقت پر پہنچا دیا کریں تو زیادہ فائدہ ہو گا کسی کو بیکار باتوں میں مشغول دیکھیں اور مناسب طریقے سے  ٹوک دیں تو اس کا فائدہ زیادہ ہو گا، سننے والے کو بھی کہ بروقت انجکشن لگ گیا اور مرض کا علاج ہو گیا۔  ٹوکنے والے کو بھی فائدہ کے بروقت اس نے نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا۔  اس کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہو گا۔  حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت فرما رہے ہیں:(یابنی اقم الصلوۃ وامر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور)(۱۳-۷۱)

بیٹے کو پیار کے انداز میں نصیحت فرما رہے ہیں کہ میرے برخوردار! میرے پیارے بچے! نماز پابندی سے پڑھو، لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے رہو، برائیوں سے روکتے رہو۔جہاں تک نماز قائم کرنے اور بھلائی کا حکم کرنے کا معاملہ ہے یہ دونوں کام نسبتہً آسان ہیں اس لئے ان کے ساتھ مزید کوئی ہدایت نہیں دی لیکن تیسرے نمبر پر جو نصیحت فرمائی: وانہ عن المنکر۔ یہ بہت مشکل کام ہے، جب کوئی نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گا تو خطرات میں گھر جائے گا لوگ اس کے دشمن بن جائیں گے۔  اس لئے تیسری نصیحت کے بعد متصل چوتھی نصیحت بھی فرما دی: واصبر علی ما اصابک۔کہ نہی عن المنکر کے نتیجے میں جو تکلیف اور مصیبت پہنچے اس پر صبر کیجئے۔  جیسے ہی آپ لوگوں کو گناہوں پر ٹوکیں گے انہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم سے بچانے کی کوشش کریں گے وہ آپ کے مخالف اور دشمن بن جائیں گے آپ کتنی ہی خیر خواہی اور دوستی کا ثبوت دیں مگر وہ نادان اپنے دوست کو دشمن ہی تصور کریں گے اسے  طرح طرح کی ایذائیں دیں گے بلکہ جان کے درپے ہوں گے، اس لئے فرمایا: واصبر علی ما اصابک۔کہ ان کی تمام ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل کیجئے، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیجئے اور اپنا فرض ادا کرتے چلے جائیے۔  یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اللہ کا بندہ نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے اور لوگوں کی ایذاء رسانی سے محفوظ رہے۔

بہرحال جہاں کہیں منکر دیکھیں حسب موقع بات کہہ دیا کریں اور اگر آپ ڈرتے ہیں تو زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں ایک بار کہہ دیا کریں کہ یہ گناہ ہے اپنا فرض ادا کر دیں ایک بار بات تو چلا دیں آگے بحث نہ کریں بس ایک بار کہہ کر فرض سے سبکدوش ہو گئے آگے مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں مگر قصہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان حق کی بات کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہے یہ سوچ سوچ کر حق بات کہنے سے رک جاتا ہے کہ فلاں عزیز یا دوست کو حق بات کہہ دی تو وہ ناراض ہو جائے گا، بیگم کو پردے کا کہہ دیا تو وہ بگڑ جائے گی اگر دوست ناراض ہو گئے رشتہ داروں نے رخ پھیر لیا تو اس کا کیا بنے گا؟ اگر خدانخواستہ بیگم بگڑ گئی تو زندہ کیسے رہے گا۔  بس یہ سوچ سوچ کر گھلتا رہتا ہے اور حق بات کہنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی یا اللہ! ہمارے دلوں میں اپنی اتنی محبت بھر دے جو دنیا بھر کی محبتوں پر، دنیا بھر کے تعلقات پر غالب آ جائے، اپنی محبت کی ایسی چاشنی عطاء فرما جس کے سامنے پوری دنیا کا خوف، دنیا بھر کی طمع اور لالچ فناء ہو جائے، یا اللہ! اپنی رحمت سے ایسی محبت عطاء فرما دے۔

وصل اللھم و بارک وسلم علی عبدک ورسولک  محمد

وعلی الہ وصحبہ اجمعین

والحمداللہ رب العالمین

Book Options

Author: فقیہ العصرمفتی اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم

Leave A Reply