ضروری تنبیہ
اس موقعہ پر یہ علمی نکتہ پیش نظر رہے کہ یہ چالیس ہزار متون حدیث کا ذکر نہیں بلکہ اسانید کا ذکر ہے پھر ا س تعداد میں صحابہ و اکابر تابعین کے آثار و اقوال بھی داخل ہیں کیونکہ سلف کی اصطلاح میں ان سب کے لیے حدیث و اثر کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔
امام صاحب کے زمانہ میں احادیث کے طرق و اسانید کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ نہیں تھی بعد کو امام بخاری‘ امام مسلم وغیرہ کے زمانہ میں سندوں کی یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی کیونکہ ایکشیخ نے کسی حدیث کو مثلاً دس تلامذہ سے بیان کیا تو اب محدثین کی اصطلاح کے مطابق یہ دس سندیں شمار ہونگی اگر اب کتاب الآثار اور مؤطا امام مالک کی احادیث کی تخریج دیگر کتب حدیث کی احادیث سے کریں تو ایک ایک متن کی دسیوں بیسیوں سندیں مل جائیں۔
حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مسند ابی حنیفہ میں بسند متصل یحییٰ بن نصر صاحب کی زبانی نقل کیا ہے کہ:
دخلت علی أبی حنیفۃ فی بیت مملوء کتبأ فقلت: ماھٰذہ ؟
(۱) مناقب الامام الاعظم ۱/۵۹
قال ھذہ أحادیث کلھا وما حدثت بہ الالیسیر الذی ینتفع بہ(۱)
”میں امام ابو حنیفہ کے یہاں ایسے مکان میں داخل ہوا جو کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا یہ سب کتابیں حدیث کی ہیں اور میں نے ان سے تھوڑی سی حدیثیں بیان کی ہیں جن سے نفع اٹھایا جائے“۔
مشہور محدث ابو مقاتل حفص بن سلم امام ابو حنیفہؒ کی فقہ وحدیث میں امامت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
وکان أبو حنیفۃ إمام الدنیا فی زمانہ فقھا و علما وورعاً قال: وکان أبو حنیفۃ محنۃ یعرف بہ أھل البدع من الجماعۃ ولقد
ضرب بالسیاط علی الدخول فی الدنیا لھم فابی(۲)
امام ابو حنیفہ ؒ اپنیزمانہ میں فقہ و حدیث اور پرہیز گاری میں امام الدنیا تھے۔ ان کی ذات آزمائش تھی جس سے اہل سنت و الجماعت اور اہل بدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا انہیں کوڑوں سے مارا گیا تا کہ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہو جائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کر لی) مگر دخول دنیا کو قبول نہیں کیا۔
حفص بن مسلم کے قول ”وکان أبو حنیفۃ محنۃ یعرف بہ أھل البدع من الجماعۃ“ (امام ابوحنیفہ آزمائش تھے ان کے ذریعہ اہل سنت اور اہل بدعت میں تمیز ہوتی تھی) کی وضاحت امام عبدالعزیز ابن ابی رواد کے اس قول سے ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں: أبو حنیفۃ المحنۃ من أحب أباحنیفۃ فھو سنیی ومن أبغض فھو مبتدع (۳) ”امام ابو حنیفہ آزمائش میں ہیں جو امام صاحب سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے“۔
مؤرخ کبیر شیخ محمد بن یوسف صالحی اپنی معتبر، مقبول اور جامع کتاب عقو د الجمان
(۱) الانتفاء از حافظ عبدالبرص ۹۱۳ مطبوعہ دالرالبشائر الاسلامیہ بیروت ۷۱۴۱۵
(۲) اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ از امام صمیری ص ۹۷(۳) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ازامام صمیری ص ۹۷
فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان۔ میں امام صاحب کی عظیم محدثانہ حیثیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اعلم رحمک اللہ أن الامام أبا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی من کبار حفاظ الحدیث وقد تقدم انہ اخذ عن أربعۃ آلاف شیخ من التابعین وغیر ھم وذکرہ الحافظ الفاقد ابو عبداللہ الذھبی فی کتابہ الممتع طبقات الحفاظ من المحدثین منھم ولقد اصاب وأجاد، ولو لاکثرۃ اعتناۂ بالحدیث ماتھیّا لہ استنباط مسائل الفقہ فانہ أوّل من استنبطہ من الأدلۃ ۱۵(۱)
”معلوم ہونا چاہیے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں اور اگلے صفحات میں یہ بات گزر چکی ہے کہ امام صاحب چار ہزار شیوخ تابعین وغیرہ سے تحصیل علم کیا ہے اور حافظ ناقد امام ذہبی نے اپنی مفید ترین کتاب تذکرۃ الحفاظ میں حفاظ محدثین میں امام صاحب کا بھی ذکر کیا ہے(جو امام صاحب کے حافظ حدیث ہونے کی بڑی پختہ دلیل ہے ان کا یہ انتخاب بہت خوب اور نہایت درست ہے اگر امام صاحب تکثیر حدیث کا مکمل اہتمام نہ کرتے تو مسائل فقہیہ کے استنباط کی استعداد ان میں نہ ہوتی جبکہ دلائل سے مسائل کا استنباط سب سے پہلے انہوں نے ہی کیا ہے“۔
علم حدیث میں امام صاحب کے اسی بلند مقام و مرتبہ کی بناء پر اکابر محدثین اور ائمہ حفاظ کی جماعت میں عام طور پر امام اعظم کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے:۔ چنانچہ امام المحدثین ابو عبداللہ الحاکم اپنی مفید و مشہور کتاب ”معرفۃ علوم الحدیث“ کی انچاسویں ۹۴ نوع کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ھٰذا النوع من ھذہ العلوم معرفۃ الائمۃ الثقات المشھور ین من التابعین وأتباعھم ممن یجمع حدیثھم للحفظ والمذاکرۃ والتبرک بذکرھم من الشرق الی الغرب۔
”علوم حدیث کی یہ نوع مشرق و مغرب کے تابعین اور اتباع تابعین میں سے مشہور ائمہ ثقات کی معرفت اور ان کے ذکر میں ہے جن کی بیان کردہ احادیث حفظ و مذاکرہ اور تبرک کی غرض سے جمع کی جاتی ہیں“۔
پھر اس نوع کے تحت بلاد اسلامیہ کے گیارہ علمی مراکز مدینہ، مکہ،مصر، شام یمن، یمامہ، کوفہ، جزیرہ، بصرہ، واسط، خراسان کے مشاہیر ائمہ حدیث کا ذکر کیا ہے۔
۱۔ محدثین مدینہ میں سے امام محمد بن مسلم زہری، محمد بن المنکدر قرشی، ربیعۃبن ابی عبدالرحمٰن الرائی، امام مالک بن انس، عبد اللہ بن دینار، عبید اللہ بن عمر بن حفص عمری، عمر بن عبدالعزیز، سلمہ بن دینار، جعفر بن محمد الصادق وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۲۔ محدثین مکہ میں سے ابراہیم بن میسرہ، اسماعیل بن امیہ، مجاہدبن جبیر، عمر و بن دینار، عبدالملک بن جریج، فضیل بن عیاض وغیرہ کے اسماء ذکر کئے ہیں۔
۳۔ محدثین مصر میں سے عمرو بن الحارث، یزید بن ابی حبیب، عیاش بن عباس القتبانی عبدالرحمٰن بن خالد بن مسافر، حیوۃ بن شریح التحبیبی، رزیق بن حکیم الایلی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
۴۔ محدثین شام میں سے عبدالرحمٰن بن عمرو الاوزاعی، شعیب بن ابی حمزہ الحمصی، رجاء بن حیوۃ الکندی، امام ملحول (الفقیہ) وغیرہ کے اسماء بیان کئے گئے ہیں۔
۵۔ اہل یمن میں سے ہمام بن منبہ، طاؤس بن کیسان، ضحاک بن فیروز ویلمی، شرجیل بن کلیب صنعانی وغیرہ کے نام لیے ہیں۔
۶۔ محدثین یمامہ میں سے یحییٰ بن ابی کثیر، ابو کثیر یزید بن عبدالرحمٰن السحیمی، عبداللہ بن بدر یمانی وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۷۔ محدثین کوفہ میں سے عامر بن شراحیل الشعبی، ابراہیم نخعی، ابو اسحاق السبیعی، عون بن عبداللہ، موسی بن ابی عائشہ الہمدانی سعید بن مسروق الثوری، الحکم بن عتیبہ الکندی، حماد بن ابی سلیمان(شیخ امام ابو حنیفہ) منصور بن المعتمر السلمی، زکریا بن ابی زائدہ الہمدانی، معسر بن کدام الہلالی، امام ابو حنیفہ النعمان بن ثابت التیمی، سفیان بن سعد الثوری، الحسن بن صالح بن حی، حمزہ بن حبیب الزیات، زفر بن الہذیل (تلمیذ امام ابو حنیفہ) وغیرہ کا نام لیا ہے۔
۸۔ محدثین جزیرہ میں سے میمون بن مہران، کثیر بن مرۃ حضری، ثور بن یزید ابو خالد الرجی، زہیر بن معاویہ،خالد بن معدان العابد وغیرہ کے اسماء ذکر کیے ہیں۔
۹۔ اہل بصرہ کے محدثین میں سے ایوب بن ابی تیمیہ السختیانی معاویہ بن قرۃ مرنی، عبداللہ بن عون، داؤد بن ابی ہند شعبہ بن الحجاج(امام الجرح والتعدیل) ہشام بن حسان، قتادۃ بن دعامتہ سددسی، راشد بن یحیح حمانی وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
۰۱۔ اہل واسط میں سے یحییٰ بن دینار رمانی، ابو خالد یزید بن عبدالرحمٰن دالانی، عوام بن حوشب وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
۱۱۔ محدثین خراسان میں عبدالرحمٰن بن مسلم، عتیبہ بن مسلم، ابراہیم بن ادہم الزاہد، محمد بن زیاد وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے (۱)
اس نوع میں امام حاکم نے پانچ سو سے زائد ان ثقات ائمہ حدیث کو ذکر کیا ہے جن کی مرویات محدثین کی اہمیت کی حامل ہیں اور انہیں جمع کرنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور ان ائمہ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کیا اس کے بعد بھی امام صاحب کے حافظ حدیث بلکہ کبار حفاظ حدیث میں ہونے کے بارے میں کسی تر دد کی گنجائش رہ جاتی ہے۔
اسی طرح امام ذہبی جو بقول حافظ ابن حجر عسقلانی نقدر جال میں استقراء تام کے مالک تھے۔ اپنی اہم ترین و مفید ترین تصنیف سیر اعلام النبلاء میں امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے تذکرہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے قول ”العلم یدور علی ثلثۃ مالک، واللیث وابن عیینۃ“
(علم حدیث تین بزرگوں امام مالک، امام لیث بن سعد اور امام سفیان بن عیینہ پر دائر ہے) کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
(۱) معرفۃ علو الحدیث از امام حاکم نیساپوری ص۔ ۴۲۔ ۹۴۲
قلت بل وعلی سبعۃ معھم، وھم الاوزاعی، الثوری، وأبو حنیفۃ، وشعبۃ والحمادان(۱)
(۱) سیر اعلام النبلاء ۸/۴۹
میں کہتا ہوں کہ ان تینوں مذکورہ ائمہ حدیث کے ساتھ مزید سات بزرگوں یعنی امام اوزاعی، امام ثوری، امام معمر امام حنیفہ، امام شعبہ امام حماد اور امام حماد بن زید پر علم دائر ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں امام ذہبی ان اکابر ائمہ حدیث کے زمرہ میں جن پر علوم حدیث دائر ہے امام ابو حنیفہ کو بھی شمار کر رہے ہیں امام صاحب کے کبار محدثین کے صف میں ہونے کی یہ کتنی بڑی اور معتبر شہادت ہے اس کا اندازہ اہل علم کر سکتے ہیں۔
نیز اسی سیر اعلام النبلاء، میں مشہور امام حدیث یحییٰ بن آدم کے تذکرہ میں محمود بن غیلان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ
”سمعت أباأسامۃ یقول کان عمرؓ فی زمانہ راس الناس وھو جامع وکان بعدہ ابن عباس فی زمانہ وبعدہ الشعبی فی زمانہ وکان بعدہ سفیان الثوری وکان بعد الثوری یحیٰ بن آدم“
محمودبن غیلان کہتے ہیں کہ میں نے ابو اسامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر فاروقؓ اپنے عہد میں علم واجتہاد کے اعتبار سے لوگوں کے سردار تھے اور وہ جامع فضائل تھے۔ اور انکے بعد حضرت ابن عباسؓ اپنے زمانہ میں، اور ان کے بعد امام شعبی اپنے زمانہ میں اور امام شعبی کے بعد سفیان ثوری اپنے زمانہ میں اور ان کے بعد یحییٰ بن آدم اپنے زمانے میں علم واجتہاد کے امام تھے۔
اس قول کو نقل کرنے کے بعد اس بارے میں اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
قلت: قد کان یحییٰ بن آدم من کبارائمۃ الاجتھاد، وقد کان عمر کما قال فی زمانہ ثم کان علی، وابن مسعود، ومعاذ، وابو الدر داء، ثم کان بعدھم فی زمانہ زید بن ثابت، وعائشہ وابو موسیٰ، وابو ھریرۃ، ثم کان ابن عباس وابن عمر، ثم علقمۃ، مسروق وابوادریس وابن المسیب، ثم عروۃ والشعبی والحسن وابراھیم النخعی ومجاھدوطاؤس وعدّہ ثم الزھری وعمر بن عبدالعزیز، وقتادۃ وأیوب ثم الأعمش وابن عون وابن جریج وعبیداللہ بن عمر ثم الأوزاعی وسفیان الثوری، ومعمر و ابو حنیفہ وشعبہ ثم مالک واللیث وحماد بن زید و ابن عیینۃ ثم ابن المبارک یحییٰ القطان ووکیع وعبدالرحمن وابن وھب، ثم یحییٰ بن آدم وعفان والشافعی وطائفۃ ثم أحمد واسحاق ابو عبید و علی المدینی وابن معین ثم ابو محمد الدارمی ومحمد بن اسماعیل البخاری وآخرون من ائمۃ العلم والاجتھاد۔ (۱)
وہ کہتا ہو یقینا یحییٰ بن آدم کبار ائمہ اجتہاد میں سے تھے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلاشبہ اپنے زمانہ میں علم و اجتہاد میں سرتاج مسلمین تھے پھر ان کے بعد حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل ابو درداء رضی اللہ عنہم کا مرتبہ ہے، ان حضرات کے بعد زید بن ثابت عائشہ صدیقہ ابو موسیٰ اشعری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم کا علم و اجتہاد میں مرتبہ تھا، ان حضرات کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا مقام تھا پھر ان حضرات صحابہ کے بعد علقمہ، مسروق، ابو ادریس خولانی اور سعید بن المسیب کا درجہ تھا پھر عروۃ بن زبیر، امام شعبی، حسن بصری، ابراہیم تخعی، مجاہد، طاؤس وغیرہ تھے پھر ابن شہاب زہری، عمر بن عبدالعزیز، قتادہ، ایوب سختیانی کامرتبہ تھا پھر امام اعمش، ابن عون، ابن جریج، عبیداللہ بن عمر کر درجہ تھا پھر امام اوزاعی، سفیان ثوری، معمر، امام ابو حنیفہ اور شعبہ بن حجاج کا مقام و مرتبہ تھا پھر امام مالک، لیث بن سعد، حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ تھے، پھر عبداللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید قطان، وکیع بن جراح، عبدالرحمٰن بن مہدی، عبداللہ بن وہب تھے پھر یحییٰ بن آدم، عفان بن مسلم، امام شافعی وغیرہ تھے پھر امام احمد بن حنبل اسحاق بن راہویہ، ابو عبید، علی بن المدینی اور یحییٰ بن معین تھے پھر ابو محمددارمی، امام بخاری اور دیگر ائمہ علم و اجتہاد اپنے زمانہ میں تھے۔
اس موقع پر بھی امام ذہبی نے اکابر ائمہ حدیث کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا بھی ذکر کیا ہے جس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ امام ذہبی کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث میں ان اکابر کے ہم پایہ ہیں۔
(۱) سیر اعلام النبلاء ۹/۵۲۵۔۶۲۵۔
یہ اکابر محدثین یعنی امام مسعر بن کدام، امام ابو سعد سمعانی، حافظ حدیث یزید بن ہارون، استاد امام بخاری مکی بن ابراہیم ابو مقاتل، امام عبدالعزیز بن رداد، مؤرخ کبیر المحدث محمد بن یوسف صالحی، امام المحدثین ابو عبداللہ حاکم نیشا پوری امام ذہبی وغیرہ بیک زبان شہادت دے رہے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ اپنے عہد کے حفاظ حدیث میں امتیازی شان کے مالک تھے ان اکابر متقد مین ومتأخرین علمائے حدیث کے علاوہ امام ابن تیمیہ، ان کے مشہور تلمیذ ابن القیم وغیرہ حفاظ حدیث بھی امام صاحب کو کثیر الحدیث ہی نہیں بلکہ اکابر حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہیں۔
اس موقع پر بغرض اختصار انہیں مذکورہ ائمہ حدیث وفقہ کی نقول پر اکتفا کیا گیا ہے امام اعظم ؒ کی مدح و توصیف کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ امام حافظ عبدالبر اندلسی مالکی اپنی انتہائی وقیع کتاب ”الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ الفقھاء“ میں سرسٹھ ۷۶ اکابر محدثین وفقہاء کے اسماء نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:وکل ھٰولاء أثنو ا علیہ و مدحوہ بألفاظ مختلفۃ (۱)
ان سارے بزرگوں نے مختلف الفاظ میں امام ابو حنیفہ ؒ کی مدح و ثناء کی ہے امام صاحب کے بارے میں تاریخ اسلام کی ان برگزیدہ شخصیتوں کے اقوال کو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس صحیح حدیث کی روشنی میں دیکھئے خادم رسول اللہﷺ بیان کرتے ہیں کہ:
مرّو ابجنازۃ فاثنوا علیھا خیراّفقال النبی ﷺ! وجبت فقال عمر ماوجبت؟ فقال ھذا اٗثنیتم علیہ خیرا، فوجیت لہ الجنۃ أنتم شھداء اللہ فی الأرض (متفق) علیہ)(۲)
حضرات صحابہ کا ایک جنازہ کے پاس سے گزر ہوا تو ان حضرات نے اس کی خوبیوں کی تعریف کی اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا واجب ہو گئی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا چیز واجب ہو گئی؟ تو رسول خداﷺ نے فرمایا تم نے اسکے خیرو بھلائی کو بیان کیا لہٰذا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (۱) الانتفاء ص ۹۲۲ مطبوعہ دارالبشائر بیروت ۷۱۴۱(۲) مشکوٰۃ المصابیح ص ۵۴ اباختصار اس حدیث پاک کے مطابق یہ اعیان علماء اسلام یعنی محدثین فقہاء، عباد زہاد اور اصحاب امانت و دیانت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی عظمت شان اور دینی امامت کے بارے میں شہداء اللہ فی الارض ہیں اور اللہ کے ان گواہوں کے شہادت کے بعد مزید کسی شہادت کی حاجت نہیں
یہ رتبہئ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر اک کا نصیب یہ بخت رساں کہاں