عرض ناشر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبب تالیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُؤیتِ ہلال کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رؤیت ہلال میں آلات جدیدہ کا استعمال۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کی ایجادات کے بارے میں شریعت کا نقطۂ نظر
عید یا بقر عید ہمارے تہوار نہیں عبادات ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ چاند کے وجود کا نہیں رؤیت و شہود کا ہے۔۔۔۔۔
عام اسلامی ممالک میں رؤیت ہلال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شبہہ کا جواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کے مسئلہ میں رؤیت کی شرط میں حکمت۔۔۔۔۔۔
اسلام میں شمسی کے بجائے قمری حساب اختیار کرنیکی حکمت
نماز کے اوقات میں جنتریوں اور گھڑیوں کا استعمال کیوں؟ ریاضی کے حسابات اور آلات رصدیہ کے نتائج بھی یقینی نہیں
ملک میں عید کی وحدت کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوری دنیا میں اوقاتِ عبادات میں یکسانیت ممکن نہیں۔۔
عید کی وحدت و یکسانیت کی فکر کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کی رؤیت میں اختلاف کا عہد صحابہ کا ایک واقعہ۔۔۔
عہد قدیم سے مسلمانوں کا طریقہئ عمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے مسلمانوں کے لئے عمل کی راہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو کے ذریعہ ملک میں عید کی وحدت کی ایک صورت۔۔
ضروری تنبیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رؤیت ہلال کے لئے شرعی ضابطہئ شہادت۔۔۔۔۔۔۔
خبر اور شہادت میں فرق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رؤیت ہلال کیلئے شہادت ضروری ہے یا خبر صادق کافی ہے
رؤیت ہلال کے لئے شرائط شہادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنبیہ ضروری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہادت ہلال کی ایک اور صورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصاب شہادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک استشنائی صورت استفاضہئ خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختلاف مطالع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلال کے معاملہ میں آلات جدیدہ کی خبروں کا درجہ۔۔۔۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب”رُؤیتِِ ہلال“ میں اسلامی قمری حساب کو سمجھنے کے لئے”چاند“کے بارے میں قرآن و سنت اور تعامل اُمّت سے نادر مباحث پر بحث اور پھر جدید سائنسی آلات کی ایجادات سے پیدا ہونے والے شبہات کے ازالہ کی مدلّل وضاحت کی گئی ہے۔
یہ کتاب حضرت مفتی صاحبؒ نے ۰۸۳۱ھ میں اس وقت تحریر فرمائی تھی جب ایک عید کے موقع پر چاند نظر آنے میں اشتباہ کے باعث مسلمانوں میں خلفشار و انتشار پیدا ہو گیا تھا، یہ کتاب تحریر فرما کر آپؒ نے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے اس مسئلہ میں انتشار و خلفشار سے بچاؤ کا راستہ بتا دیاہے۔
یہ رسالہ ادارۃ المعارف سے لیتھو پر شائع ہو کر ختم ہو گیا، اب ادارہ اسے دوبارہ آفسٹ پر کتابت کرا کے شائع کر رہا ہے اور اس میں نظر ثانی کے ساتھ بعض مقامات پر ذیلی عنوانات کا مزید اضافہ بھی کdivر دیا ہے۔ اسطرح ظاہری اور باطنی خوبیوں کے ساتھ کتاب ہدئیہ قارئین ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے رہنمائی کی توفیق بخشے، اور اس کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، آمین۔</>
اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔ہم سے رابطہ کریں۔ [email protected]
انسانی عزم و عمل کی رسوائی قدم قدم پر مشاہدہ میں آتی رہتی ہے۔مگر غافل انسان پھر بھی ہمہ دانی اور ہمہ گیری کے دعووں سے باز نہیں آتا۔ اب سے پورے بیس سال پہلے اس رسالہ کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ ۰۶۳۱ ھ میں دیوبند میں ہلال عید کے موقعہ پر ایک خلفشار سا عوام میں پیدا ہوا۔ میں اس وقت بحیثیت صدر مفتی دار العلوم دیو بند کی خدمت انجام دے رہا تھا۔ وقتی معاملہ تو وقت پر سلجھا دیا گیا مگر استاد محترم حضرت العلّامہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ صدر مدرس دار العلوم نے احقر سے فرمایا کہ مسائلِ ہلال میں عام نا وا قفیت کے سبب نیز آلاتِ جدیدہ کے عموم کے سبب اکثر لوگوں کو مغالطے پیش آتے ہیں۔ ان مسائل کو واضح انداز میں فقہ کی مستند کتابوں سے لکھ دیا جائے۔ ارادہ کر لیا، مگر ہجومِ مشاغل نے فرصت نہ دی۔ پھر حکیم الامّت سیدی حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی خدمت میں حاضری ہوئی تو اس کی ضرورت کو اور سب سے زیادہ محسوس فرما کر ایما فرمایا کہ اس کام کو کر لیا جائے۔ اور اس کام کے وجود میں آنے سے پہلے اس رسالہ کا نام بھی ’’اِحکام الا د لّۃ فی اَحکام الا ھِلّۃ‘‘ تجویز فرما دیا۔
بزرگوں کی تعمیل حکم سے چارۂ ہی کیا تھا، عزم کر کے لکھنا شروع کیا۔ تقریباََ دس بارہ صفحات لکھے بھی گئے جو مسودہ کی صورت میں اب تک موجود ہیں۔ لیکن پھر وقتی اور ہنگامی مشاغل نے اس کو ایسا طاق نسیان میں ڈال دیا کہ بیس برس گزر گئے اور اپنے یہ دونوں بزرگ اس جہان سے رخصت بھی ہوگئے۔
اس سال کراچی میں عید کے موقعہ پر عام مسلمانوں میں پھر ایک خلفشار اور انتشار نے بزرگوں کی پرانی وصیت یاد دلائی۔ پچھلا مسودہ چھوڑ کر از سرِ نو اس موضوع پر جو کچھ میسّر ہوا لکھ دیا۔ اپنی دانست میں ضروری مسائل سب لے لئے اور مقدور بھر کتبِ مذہب سے پوری تحقیق کرکے لئے۔ افسوس ہے کہ اس وقت وہ دونوں ہستیاں موجود نہیں جن کے ملاحظہ سے خطا و صواب کا اطمینان اور صلہ میں دعائیں ملتیں۔ بہر حال علمائے وقت کے ملاحظہ سے گذرے گا تو انشاء اللہ غلطیوں کی اصلاح ہو جائے گی۔ و اللہ الموفق و المعین۔
رَبَّنَا تَقَبَّل ْ مَنَّا اِنَّک اَنْتَ السَّمِیْع ُ الْعَلِیْم ُ ط
بِسْمِ اللہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ کَفیٰ وَ سَلا َمُ‘ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے
کئی سال سے یہ مسئلہ پاکستان اور خصوصاََ کراچی کے اخبارات میں زیرِبحث آکر عجیب قسم کے اختلاف و اختلال کا سبب بنتا رہا۔ اخباری بحثوں میں یہ دیکھ کر کہ کوئی کسی کے نقطہ نظر کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سُننے سوچنے کے لئے تیار نہیں خاموشی بہتر نظر آئی۔ لیکن مسئلہ فی نفسہ اہم اور اسلامی احکام سے عام نا واقفیت کے سبب تشریح طلب تھا خصوصاََ مواصلات کے جدید آلات ریڈیو، ٹیلیفون وغیرہ نے اس میں کچھ نئے سوالات بھی پیدا کر دئے تھے۔ اس لئے اپنے بزرگوں کے ارشاد کے مطابق یہ فکر عرصۂ دراز سے تھی کہ کچھ فرصت نکال کر اس موضوع پر ایک مفصّل رسالہ لکھا جائے۔
اتفاقاََ اس سال ۰۸۳۱ ھ کی عید الفطر کے موقع پر کراچی میں ایک ایسی صورت پیدا ہو گئی جس سے عام مسلمانوں میں سخت اضطراب اور بے چینی پائی گئی۔ اس وقت ضرورت کا احساس پھر تازہ ہوا اور با وجود ہجوم کار و افکار کے اس کے لئے کچھ وقت نکال کر سطورِ ذیل تحریر کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ عام مسلمانوں کے لئے مسئلہ کی حقیقت سے آگاہی اور باہمی اختلافات و اشتباہات کے ازالہ کا سبب ہے۔ واللہ الموفق و المعین۔
اس مسئلہ میں اختلاف کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ کچھ حضرات کا یہ خیال ہے کہ ہلال کا افق پر موجود ہونا آلاتِ رصدیہ اور حسابات ریاضیہ سے معلوم ہو سکتا ہے جس کو ترقی یافتہ سائنس نے بہت ہی واضح کر دیکھا یا ہے۔ تو ان سے کیوں کام نہ لیا جائے تاکہ رؤیت کے ہونے نہ ہونے کی شہادات کی ضرورت نہ رہے۔ نیز باہر سے آنے والی خبروں میں ریڈیو، ٹیلیفون، وائرلیس وغیرہ کی خبروں پر کیوں نہ اعتماد کیا جائے۔ جبکہ دنیا کے سب کاروبار ان خبروں پر چلتے ہیں۔
اس لئے پہلے تو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ سائنس جدید ہو یا قدیم اور اس کے ذریعہ بنائے ہوئے آلات نئے ہوں یا پرانے سب کے سب اللہ تعالٰ کی نعمتیں ہیں ان کو شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔ اُن سے وحشت یا بیزاری نہ کوئی دین کا کام ہے نہ عقل کا تقاضا۔ البتہ دین و عقل دونوں کا تقاضا یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو اس کی نافرمانی میں اور بے جگہ استعمال نہ کریں، جس استعمال میں کوئی دینی اصول مجروح نہ ہو تا ہو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
”یعنی جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے“
سائنس جدید ہو یا قدیم اس کا اتنا ہی کام ہو کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اشیاء کو صحیح طور سے استعمال کرے۔ سائنس کسی چیز کو پیدا نہیں کرتی بلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی چیزوں کا استعمال سکھاتی ہے۔
اللہ جل شانہ کی عادت یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے کسی چیز کی ضرورت دنیا میں پیدا ہو تی جاتی ہے اسی کے مناسب اس زمانہ کے لوگوں کو بمقدارِ ضرورت نئی نئی ترکیبیں استعمال اشیاء کی سکھا دیتے ہیں۔ پچھلے زمانہ میں جب مواصلات کی ایسی ضرورتیں نہ تھیں، ہر ملک، ہر خطہ اپنی اپنی ضروریات کے لئے خود کفیل تھا، خاندان کے افراد دوسرے ملکوں میں پھیلے ہوئے نہ تھے تو تیز رفتار سواریوں اور ریڈیو لا سلکی، ٹیلیفون، ٹیلیگرام کے ذریعہ باہمی رابطے پیدا کرنے کی چند اں ضرورت نہ تھی۔
لیکن جب ایک ملک کی ضروریات دوسرے ملک سے وابستہ ہوئیں اور ایک خاندان کے افراد مختلف ملکوں میں پھیلے تو باہمی روابط کی ضرورت پیش آئی۔ مواصلات کے مسائل سامنے آئے قدرت نے اس وقت کے لوگوں کے دل و دماغ اس کام کے پیچھے لگا دیئے، اور ان کو اسی پٹرول کے ذریعہ موٹر، ہوائی جہاز وغیرہ چلانے کے طریقے سمجھا دیئے۔ جس کی پیش گوئی قرآن کریم نے پہلے سے کر رکھی تھی کہ بہت سی مروّجہ انسانی سواریوں گھوڑا، اونٹ، خچر وغیرہ کا ذکر کر کے فرمایا:
یعنی آئندہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایسی سواریاں پیدا فرمائیں گے جن کو تم نہیں جانتے۔ اس وقت اگر موٹر اور ریل کے نام اس جگہ لکھ دیئے جاتے تو اس وقت کی مخلوق ان کو نہ سمجھتی پریشانی میں پڑ جاتی اس لئے نام لینے کے بجائے اتنا بتلا دیا کہ اور بھی طرح طرح کی سواریاں پیدا ہوں گی۔ اب چاند تک پہچانے والی سواریاں نئی ایجاد ہو جائیں تو وہ بھی اس میں داخل ہیں۔ معلوم ہوا کہ سائنس جدید کی پیداوار بھی اللہ کی نعمتیں ہیں۔ شکر کے ساتھ ان کو استعمال کرنا چاہئے۔
البتہ دینِ الٰہی ان سب کے ساتھ یہ پابندی لگاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور ناجائز کاموں میں استعمال نہ کرو جس سے اصولِ دین مجروح ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ بندوق، توپ، ٹینک، اور طرح طرح کے بم ایجاد ہوئے کبھی کسی عالم یا غیر عالم کے دل میں یہ وسوسہ بھی نہیں آیا کہ موجودہ جنگوں میں ان کا استعمال کرنا کوئی گناہ ہے۔ ہوائی جہاز چلے تو بغیر کسی رکاوٹ کے مسلمانوں نے ان کو نہ صرف اپنے دنیاوی کاموں میں بلکہ دینی امور میں بھی استعمال کیا۔ اسی طرح لا سلکی پیغام، ٹیلیفون، ٹیلیگرام، ریڈیو، آلہ مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) ایجاد ہوئے تو بغیر کسی مزاحمت کے دینی اور دنیاوی کاموں میں مسلمانوں نے علماء کی ہدایات اور فتوے کے مطابق استعمال کیا۔ البتہ ان چیزوں میں علماء نے اس کا لحاظ ہر قدم پر رکھا ہے کہ ان چیزوں کا استعمال اسی حد تک رہے جہاں تک قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصول مجروح نہ ہوں۔ مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) پر اذان، خطبہ، تقریر، وعظ کو کسی عالم نے نہیں روکا۔
صرف نماز کے معاملے میں ایک اصول پر زَد پڑنے کا امکان تھا اس کے ماتحت سائنس دانوں کے مختلف اقوال کے بناء پر علماء کی رائیں مختلف ہوئیں کیونکہ سائنس دانوں میں سے بعض نے اس کی آواز کو متکلم کی اصلی آواز بتلایا بعض نے نقلی آواز قرار دیا اور یہ اختلاف اسی طرح آج بھی جاری ہے۔ اس میں جدید چیزوں سے ناواقفیت یا نفرت و محبت کا کوئی دخل نہیں۔ اصول کی موافقت اور مخالفت کا معاملہ ہے۔ خبر رسانی کے جدید آلات کی خبروں کو خبر کی حد تک بلا ٓختلاف سب علماء نے قبول کیا مگر جہاں ضرورت شہادت اور شاہد کے سامنے آکر بیان دینے کی تھی اس میں نہ دنیا کی کسی عدالت نے ان کو کافی سمجھانہ علماء نے اس پر شہادت لینے کی اجازت دی۔
اس لئے صحیح حالات کا جائزہ لئے بغیر علماء کی طرف سے یہ منسوب کر دینا بالکل خلافِ انصاف اور خلاف واقعہ ہے کہ وہ جدید چیزوں کو اپنی ناواقفیت کی وجہ سے رد کر دیتے ہیں اور پھر وہ جب حقیقت بن کر سامنے آجاتی ہیں تو تسلیم کرنے پر مجبور ہو تے ہیں۔ ہاں یہ بہت ممکن ہے کہ کسی نئی ایجاد کی پوری حقیقت سامنے آنے سے پہلے اس کے متعلق کچھ شبہات ہوں اور اس کے واضح ہو جانے کے بعد رفع ہو جائیں۔ اور یہ ثابت ہو جائے کہ وہ اصولِ دین سے متصادم نہیں ہے ایسی صورت میں ابتدائی دور میں توقف کرنا اور پھر اجازت دینا کوئی قصور و الزام کی چیز نہیں کہ اس سے ان کو بیوقوف بنایا جائے بلکہ علماء کی حقیقت شناسی اور اتباع حق اور حق پرستی کا کھلا ثبوت ہے۔
مسئلہ ہلال میں بھی اگر نئی ایجادات سے اس حد تک کوئی مدد لی جائے جہاں تک اسلامی اصول مجروح نہ ہوں اس کا کس کو انکار ہے اس لئے اس معاملہ میں کوئی گفتگو کرنے سے پہلے ضروری یہ ہے کہ اسلامی اصول کو بالکل خالی الذہن ہو کر دیکھا اور سمجھا جائے۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ رؤیت کے مسئلہ میں آلاتِ جدیدہ کا استعمال ان اصولوں کو مجروح کرتا ہے یا نہیں۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ ہمارا روزہ ہو یا عید یا کوئی دوسری تقریب۔ یہ عام دنیا کے تہواروں کی طرح تہوار نہیں۔ بلکہ سب کی سب عبادات ہیں۔ اور عبادات کا حاصل اطاعت و فرمانبرداری ہے کہ جو حکم ملا اس کی تعمیل کی جائے، اس میں کسی کی عقل و رائے پر مدار نہیں۔ عبادات میں جس قدر قیود و شرائط ہوتے ہیں وہ سب اس تعمیلِ حکم کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ مثلاََ نماز پانچ کیوں ہوں، کم و بیش میں کیا حرج ہے۔ نماز کے اوقات وہی کیوں ہوں جن میں ازروئے شرع ان کو رکھا گیا ہے۔ دوسرے اوقات میں کوئی نماز کے ارکان، تلاوت تسبیح رکوع سجود پورے خشوع و خضوع سے ادا کرے تو اس کا اعتبار کیوں نہ ہو۔ نماز فجر کی دو اور ظہر کی چار، مغرب کی تین رکعت کیوں ہوں، پانچ اور چھ رکعات کوئی پڑھ لے تو کیا گناہ ہے۔
ان سب سوالوں کا جواب اس کے سوا نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم اسی طرح ہے، اس کی تعمیل ہی کا نام عبادت ہے۔ اپنی رائے سے اس میں کمی بیشی یا اوقات کا تغیر کوئی معقول بات نہیں۔ ٹھیک اسی طرح روزہ ہے۔ صبح صادق سے غروب تک کیوں ہو، عشاء تک کوئی رکھے تو کیا گناہ ہے۔ ۹۲ یا ۰۳ دن کے بجائے کوئی اکتیس۱۳ رکھے تو کیا حرج ہے۔ رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں روزے رکھ لیا کریں تو کیوں صحیح نہیں، انتیس۹۲کو چاند ہو یا نہ ہو ہم تیس روزے پورے کر لیں تو کیوں گناہ ہے یا چاند کا انتظار کئے بغیر انتیس۹۲ ہی کو ختم کر لیں تو کیا حرج ہے۔ ان سوالوں کا جواب بھی اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی ہی سے کوئی عبادت، عبادت کہلانے کی مستحق ہے، اس میں انسانی رائے کا دخل ہوا تو پھر وہ عبادت نہیں رہی۔
اسی طرح اس پر غور کیجئے کہ انتیس تاریخ کو چاند ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ سامنے آئے اور آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ بھی محض انسانی رائے یا ووٹوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا طریقہئ فیصلہ بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیمات میں تلاش کرناہے کیونکہ چاند سورج کے کرات یا ان کا طلوع و غروب در حقیقت ہماری عبادت کا محور نہیں بلکہ عبادات کا مدار صرف حکم الٰہی کی اتباع پر ہے۔ ورنہ اگر محض عقلی طور پر دیکھا جائے تو صبح صادق ہونے کے پانچ ۵منٹ بعد سحری کھانے کا اسی طرح غروب آفتاب سے ۵ منٹ پہلے افطار کر دینے کا روزہ کے مجاہدے اور محنت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا جس کی بنیاد پر اس کی دن بھر کی محنت کو کالعدم قرار دیا جا سکے۔ ہاں غروب سے ۵ منٹ پہلے افطار کرنے والا اس جرمِ عظیم کا مرتکب ہوا کہ اس نے حکم کی خلاف ورزی کی اسی جرم کی پاداش میں اس کے روزے کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
”روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لئے افطار
اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے
تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تین دن پورے کر لو)
اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
اَلشَّھْرُ تِسْعُ وَّ عِشْرُوْنَ لَیْلَۃََ فَلا َ تَصُوْ مُوْ ا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ
فَا َکْمِلُو ا الْعِدَۃَ ثَلا َ ثِیْنَ (صحیح بخاری جلد اول ۶۵۲)
”مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کا ہے اس لئے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک
(رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہو جائے تو(شعبان) کی تعداد
تیس دن پورے کر کے رمضان سمجھو۔“
اس جگہ یہ شبہ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کے معاملہ میں جو اصولِ رؤیت کو قرار دیا’وجود کا اعتبار نہیں کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بغیر آنکھوں سے دیکھنے کے چاند کے وجود کا پتہ چلانے کے طریقے رائج نہ تھے، ایسے آلات موجود نہ تھے جن سے چاند کا افق پر موجود ہونا دریافت کیا جا سکے۔
لیکن دنیا کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ ریاضی کے یہ فنون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے بہت پہلے دنیا میں رائج تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مصر و شام اور ہندوستان میں رصد گاہیں قائم تھیں ان چیزوں کے معاملے میں نہایت صحیح پیمانے پر پیشن گوئیاں کی جا سکتی تھیں۔ اور خلافت راشدہ کے دوسرے دور یعنی حضرت فاروقِ اعظم کے زمانہ میں تو مصر و شام اسلام کے زیر نگین آچکے تھے۔ ہر فن کے ماہرین موجود تھے۔ اگر بالفرض عہدِ رسالت میں ایسے آلات کی کمیابی اس حکم کا سبب ہوتی تو
فاروق ؓ جیسا دانش مند امام کب اس کو گوارا کرتا کہ مجبوری اور نایابی کہ سبب جو حکم دیا گیا تھا اس کو آج بھی باقی رکھے۔ مگر تاریخ اسلام شاہد ہے کہ پورے خلافتِ راشدہ اور اس کے مابعد تمام عالمِ اسلامی میں یہی اصول مانا گیا اور اسی پر امّت کا عمل پیہم رہا۔
اگر ذرا انصاف سے غور کیا جائے تو رؤیت کے اصول کو اختیار کرنے میں بسبب ”عصمت بی بی از بے چار گی“ نہیں، بلکہ قوم و ملّت کی فلاح و بہبود پر گہری نظر ہے۔ کیونکہ اسلام وطنی اور لسانی یا جغرافیائی قومیتوں کا تو قائل نہیں اس کے نزدیک مشرق و مغرب کے مسلمان ایک قوم ہیں، اس کا حکم صرف دنیا کے معددے چند شہروں کے لئے نہیں بلکہ پورے عالم کے بسنے والے انسانوں کے لئے عام ہے جس میں شہروں سے کہیں زیادہ قصبات اور دیہات اور ایسے پہاڑی مقامات اور جزیرے ہیں جہاں سائنس کی اس ترقی کے دور میں بھی ان علوم و فنون کی اور آلات ِ رصدیہ کی رسائی نہیں۔ اگر رحمتُ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر صرف لکھے پڑھے معددے چند شہریوں پر مرکوز ہو کر مسلمانوں پر یہ لازم کر دیتی کہ جب چاند نظر نہ آئے تو تم پر لازم ہے کہ دوسرے ذرائع یعنی حساباتِ ریاضی یا آلاتِ رصدیہ کے ذریعہ چاند کا وجود معلوم کرو یا کسی طرح فضاء میں اُڑ کر بادلوں سے اوپر پہنچو اور چاند دیکھو۔ تو انصاف کیجئے کہ اس حکم سے امّت کس قدر مصیبت میں مبتلا ہوجاتی۔ پچھلے چودہ سو برس کو چھوڑیئے۔ آج بیسویں صدی کی روشنی ہی میں دیکھ لیجئے کہ یہ حکم تمام عالم اسلام کے لئے کس قدر مشکلات میں مبتلا کر دینے والا ہوتا اور اگر واجب کے بجائے مستحسن اور افضل ہی قرار دیا جاتا تو افضلیت صرف سرمایہ دار شہری ہی حاصل کرتا جس کے پاس دوربین، آلاتِ رصدیہ اور ہوائی جہاز ہیں، غریب مسلمان نماز روزہ میں افضلیت حاصل کرنے سے مجبور ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ غریب و امیر کا یہ تفرقہ اسلامی روح کے بالکل منافی ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ احکام اسلامیہ رمضان، عید، حج وغیرہ میں قمری مہینوں اور تاریخوں کا اعتبار کیا گیا ہے۔ شمسی مہینوں اور تاریخوں کو نظر انداز کیا گیا۔ کیونکہ شمسی مہینے اور تاریخیں بغیرامداد آلات رصدیہ معلوم نہیں ہو سکتے کہ جنوری کب ختم ہوا اور فروری کب شروع ہوا۔ اور یہ کہ جنوری کے ۱۳ دن ہوں گے اور اور فروری کے کبھی اٹھائیس کبھی اس سے زائد۔ یہ سب چیزیں آج بہت عام ہو جانے کے سبب شہروں سے گذر کر دیہات تک پھیل گئی ہیں اس لئے اس کی دشواری کا احساس نہ رہا۔ جنگل اور پہاڑوں اور جزائر کے رہنے والوں سے پوچھو تو انہیں آج بھی یہ حساب رکھنا مشکل نظر آئے گا۔
شریعت اسلام کی سہولت اور یکسانیت پسندی کا مقتضاء یہی تھا کہ حساب وہ رکھا جائے جو ہر جگہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکے۔ وہ ظاہر ہے کہ چاند ہی کا حساب ہے۔ جو ہر مہینے گھٹتا بڑھتا۔ اور بالآخر ایک دو روز غائب رہ کر پھر طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جس طرح نماز کے اوقات میں اصل مدار آفتاب کے طلوع و غروب یا سایہ کی پیمائش پر تھا، مگر فنی ترقیات اور گھڑیوں کی ایجاد کے بعد سب بلا اختلاف جنتریوں اور گھڑیوں کے حساب سے نماز ادا کرنے لگے، بلکہ خود روزہ کے سحر و افطار میں بھی کوئی نہ صبح صادق کو دیکھتا ہے نہ غروب کو۔ بلکہ جنتریوں اور گھڑیوں کے اعتماد پر سحر و افطار کے کام انجام دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس سائنس کی ترقی کے زمانہ میں اگر آنکھوں سے رؤیت کو نظر انداز کر کے ریاضی حسابات کے ذریعہ چاند ہو نے کا فیصلہ کر لیا جایا کرئے تو کیا حرج ہے۔ لیکن ذرا غور کیا جائے تو ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا کیونکہ طلوع و غروب وغیرہ میں جنتریوں اور گھڑیوں پر اعتمادکرنے سے کوئی اصول نہیں بدلتا صرف ایک سہولت حاصل ہو جاتی ہے اور چاند کے معاملہ میں ایسا کرنے سے شرعی اصول بدل جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ طلوع و غروب اور صبح صادق کا نور آنکھوں سے دیکھنے کی چیزیں ہیں۔ ہر شخص ہر وقت ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔ اس میں گھڑیوں جنتریوں پر اعتماد اس لئے روا رکھا گیا ہے کہ جس وقت ذرا بھی شبہ گھڑی یا جنتری میں ہو ہر شخص ہر جگہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرنے پر قادر ہے اور جن جنگلات، دیہات میں گھڑیاں اور جنتریاں نہیں ہیں وہاں اب بھی ہر شخص اسی اصول طلوع و غروب کو دیکھ کر نماز وغیرہ ادا کرتا ہے۔ اس لئے جس اصول پر اوقات مقرر تھے یعنی عام آنکھوں سے طلوع و غروب یا سایہ وغیرہ کو دیکھ لینا وہ اصول اب بھی قائم اور کار فرما ہے۔
بخلاف چاند کے معاملہ کے کہ اس میں اگر عام رؤیت کو چھوڑ کر دور بینوں یا آلات ِ رصدیہ کے اعتماد پر یہ کام کیا گیا تو مدار کار چاند کے وجود پر ہو گیا رؤیت پر نہ رہا اور اس وجود کے معلوم کرنے کے لئے نہ عام مسلمانوں کے پاس اس کی تصدیق یا تکذیب کا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہر جگہ ہر شخص اس دریافت پر قادر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھڑیوں اور اوقات کی جنتریوں نے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے استعمال میں سہولت پیدا کی اس لئے قبول کر لیا گیا اور آلاتِ رصدیہ اور حساباتِ ریاضیہ سے حصولِ رؤیت کو ترک کرنا اور چاند کے وجود فوق الافوق کو اصول بنانا لازم آتا ہے جو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔
یہاں تک تو کلام اس پر تھا کہ ریاضی کے حسابات کے نتائج اور آلات رصدیہ سے حاصل شدہ معلومات کو اگر بالکل یقینی سمجھا جائے تب بھی احکام شرعیہ میں ان کی مداخلت بجائے مفید ہونے کے مضر اور مسلمانوں کے لئے سخت مشکلات پیدا کرنے والی ہے۔ اس کے بعد خود ان فنی معلومات کی حقیقت پر نظر کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اگرچہ حساب بحیثیت حساب کے قطعی ہو کہ دو اور دو چار ہی ہو سکتے ہیں تین یا پانچ نہیں ہو سکتے۔لیکن ان دو کا دو ہونا یہ ہماری نظر اور اندازے تخمینہ ہی کا حکم ہو سکتا ہے کتنے ہی باریک سے باریک پیمانوں سے تولا اور پرکھا جائے یہ احتمال ختم کرنا ہماری قدرت میں نہیں کہ ہم نے جس کو دو سمجھا ہے وہ دو سے کسی قدر کم یا زیادہ ہو۔ خواہ یہ کمی زیادتی ایک بال کے ہزارویں حصہ کے برابر ہو۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ زمین کے فرش پر کسی زاویہ میں ایک بال کے ہزارویں حصہ کی
کمی یا زیادتی اگرچہ بالکل غیر محسوس زیادتی ہے مگر اوپر کی فضاء اور سیاروں تک جب اس زاویہ کے خطوط ملائے جائیں گے تو میلوں کا فرق ہو جائے گا۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کیمرہ کی طرح ترقی یا فتہ آلات جھوٹ نہیں بولتے مگر ان آلات کو واقعات پر منطبق کرنا تو بہر حال انسانی نظر اور انسانی عمل ہے اس میں غیر محسوس فرق ہو جانا کسی وقت بھی مستبعد نہیں۔ بلکہ واقع ہے جس کا مشاہدہ ہمیشہ اہل ِ فن کے باہمی اختلافات سے ہو تا رہتا ہے۔ دنیا میں جتنی جدید و قدیم تقویمیں اور جنتریاں اور کیلنڈر وجود میں آئے ہیں، ان میں سے صرف ان کو لیا جائے جو مسلم ماہرین فن نے تیار کئے ہیں تو ان میں بھی باہمی
اختلافات نظر آتا ہے۔
اگر ان حسابات اور آلات کے نتائج قطعی اور یقینی ہو تے تو ماہرین فن کے اختلاف رائے کا کوئی احتمال نہ رہتا۔
سائنس کی نئی ترقیات اور فن ریاضی و فلکیات کی جدید ترقیات کا آج کی دنیا میں بڑا ہنگامہ ہے، اور اس میں شُبہ نہیں کہ بہت سی نئی تحقیقات نے پرانے فلسفے اور ریاضی کے اصول کی دھجیاں بکھیر دیں اور اس کے خلاف مشاہدہ کرا دیا۔ لیکن اس کے با وجودیہ نہیں کہا جا سکتا کہ آج ایک محقق ماہر نے جو کچھ کہ دیا وہ حرف آخر ہے اس کی تغلیط آئندہ کوئی نہیں کر سکے گا۔ آئندہ کو چھوڑ کر اسی موجودہ دور میں اسی درجہ کے دوسرے ماہرین
اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
اس عید کے ہنگامہ میں جو کراچی اور پاکستان میں پیش آیا ہماری اس بات کی تصدیق اسی فن کے ماہرین کی طرف سے ہو گئی۔ کراچی میں محکمہ مو سمیات ایک ہفتہ پہلے سے یہ اعلان کر رہا تھا کہ ۹۲ رمضان جمعہ کے روز غروب آفتاب کے بعد چاند تقریباََ اکیس منٹ افق پر رہے گا اور دیکھا جا سکے گا۔ جو کراچی کے تمام اخبارات میں شائع ہوا۔
دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی کی رصدگاہ کے ذمہ دار افسر بھٹی صاحب کا مندرجہ ذیل اعلان ۹۲ تاریخ شام کو کراچی کے اخبار ایوننگ اسٹار میں شائع ہوا جس کا متن یہ ہے:
”گذشتہ شام کو مسٹربھٹی نے پریس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیشن گوئی (یعنی محکمہئ موسمیات کی پیشن گوئی) غلط ہے اور مزید کہا کہ جمعہ کے دن ہلال عید نظر آنے کے غالباََ بہت کم امکانات ہیں، مسٹر بھٹی نے اپنے دعوے کی تائید میں دو دلیلیں پیش کیں، اول یہ کہ ہلال کا سائز اور اس کی روشنی اس قدر کم ہو گی کہ معمولی نگاہیں دیکھ نہ سکیں گی۔
یونیورسٹی پنجاب کے ماہر نجوم نے دوسری بات یہ بتلائی کہ غروبِ آفتاب کے نصف گھنٹہ کے اندر ہی ہلال غروب ہو جائے گا اور آسمان پر اس قدر تاریکی نہیں چھا سکتی جس میں منحنی اور باریک چاند نظر آسکے۔ مسٹر بھٹی نے یہ بھی کہا کہ محکمہ موسمیات کی رؤیتِ ہلال کی پیش گوئی سے بڑی گڑبڑ ہوجانے کا اندیشہ ہے اور عید الفطر کے انتظامات کرنے والوں کے لئے بڑی دشواری کا باعث ہوگا۔“
پھر ۱۲ مارچ کو پی پی آئی کے نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ رصدگاہ کے حکام نے کہا کہ:
”عید کے چاند کے مسئلہ پر جو خلفشار پیدا ہوا ہے اس سلسلے میں محکمہ موسمیات اور دوسرے افراد کے بیانات سے متعلق لوگ مسلسل یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان بیانات میں کہاں تک صداقت ہے۔ ان حکام نے کہا کہ پنجاب یو نیورسٹی کی رصد گاہ نے اس سلسلے میں پہلے ہی ایک واضح موقف اختیار کیا تھا کہ جمعہ کی شام کو عام حالات میں دوربین کی مدد کے بغیر چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان حکام نے کہا کہ چاند دکھائی دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی مدت ایک دن یا اس سے زیادہ ہو۔ جبکہ محکمہ موسمیات نے جو مدت بتائی ہے وہ اعشاریہ ۷ یا آٹھ دن تھی۔ مزید براں کراچی چاند نظر آنے کا جو وقفہ بتایا گیا ہے وہ ۸۱ منٹ ہے۔ اس وقفہ میں چاند کا ارتقاع ۵ء۳ ڈگری تھا۔ ان حکام نے کہا کہ اس ارتقاع پر تو معمولی حالات میں پورا چاند بھی نہیں آسکتا جبکہ ہلال کی روشنی چاند کی روشنی کا ہزارواں حصہ تھی۔“
محکمہ موسمیات کراچی اور رصد گاہ پنجاب کے ان دو مختلف بیانوں میں یہ ظاہر ہے کہ ایک صحیح اور دوسرا غلط ہے۔ میں نے اگرچہ اس فن کو قدیم اصول کے تحت پڑھا اور پڑھایا ہے مگر اس فن میں میرا اشتغال نہیں رہا اور میں اسکا ماہر نہیں۔ اس لئے اس کا فیصلہ تو ماہرین ہی کے سپرد ہے کہ ان میں کونسا صحیح اور کونسا غلط ہو۔
لیکن اتنی بات اس اختلاف میں سب کے لئے واضح ہو گئی کہ ان قواعد و آلات سے حاصل ہونے والے نتائج کو قطعی اور یقینی کہنا محض خوش گمانی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔
چوتھی صدی ہجری کا مشہور اسلامی فلاسفر اور ماہر نجوم و فلکیات ابوریحان البیرونی جو شہاب الدین غوری کے زمانہ میں ایک مدتِ دراز تک ہندوستان میں بھی رہا ہے اور ان فنون کا بے نظیر امام مانا جاتا ہے۔ اس نئی روشنی اور نئی تحقیقات کے دور میں بھی اس کی امامت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ روسی ماہرین نے اس کی تحقیقات سے راکٹ وغیرہ کے مسائل میں بڑا کام لیا ہے۔
ان کی مشہور کتاب ”الآثار الباقیہ عن القرون الخالیہ“ ایک جرمن ڈاکٹر سی ایڈ ور ڈ سخاؤ کے حاشیہ کے ساتھ لیزک میں چھپ کر شائع ہوتی ہے اس میں آلات رصدیہ کے نتائج کے غیر یقینی ہونے کے مسئلہ کو تمام ماہرین فن کا اجتماعی اور اتفاقی نظریہ بتلایا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
اَنَّ عُلَماَء الْھَیْءَۃِ مُجْمَعُوْنَ عَلیٰ اَنَّ الْمَقَادِیْرَالْمَفْرُوْضَۃَ فِیْ اَوَاخِرِ اَعْمَالِ رُؤ ْ یَۃِ الْھِلاَلِ ھِی
اَبْعَا دُ لَم ْ یُوْ قَفْ عَلَیْھاَ اِلاَّ بالتَّجْرِبَۃِ وَ لِلْمَنَاظِرِ احْوَالُ ھِنْدَ سِیَّۃِِ یَتَفَا وَتُ لِا َجَلِھَا
الْمَحْسُوْس ُ بِا لْیَصَرِفِی الْعَظْمِ وَالصِّغرِوَفِی مَا اِذْ تَاءَ مَّلَھَا مُتَاءَ مِّل ُ مُنْصِف ُ لم یَسْتَطِع ُ بَتَّ
الْحُکْمِ عَلیٰ وُجُوبِ رُؤ ْیَۃِ الْھِلَالِ اَوِامْتِنَا عِھَا۔ (آثار باقیہ ۸۹۱، طبع ۳۲۹۱ء، لیزک)
”علماء ریاضی و ہیئت اس پر متفق ہیں کہ رؤیتِ ہلال کے عمل میں آنے کے لئے جو مقداریں فرض کی جاتی ہیں وہ سب ایسی ہیں جن کو صرف تجربہ ہی سے معلوم کیا جا سکتاہے۔ اور مناظر کے احوال مختلف ہوتے ہیں جن کی وجہ سے آنکھوں سے نظر آنے والی چیز کے سائز میں چھوٹے بڑے ہونے کا فرق ہو سکتا ہے۔ اور فضائی و فلکی حالات ایسے ہیں کہ ان میں جو بھی ذرا غور کرے گا تو رؤیت ہلال کے ہونے یا نہ ہو نے کا کوئی قطعی فیصلہ ہر گز نہ کر سکے گا۔“
اور کشف الظنون میں بحوالہء زریچ شمس الدین محمد بن علی خواجہ کاچالیس سالہ تجربہ یہی لکھا ہے کہ ان معاملات میں کوئی صحیح اور یقینی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ (کشف الظنون صف ۹۶۹ ج ۲)
اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ رصد گاہوں اور آلات ِ رصدیہ کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات بھی رؤیت ہلال کے مسئلہ میں کوئی یقینی فیصلہ نہیں کہلاسکتی بلکہ وہ بھی تجرباتی اور تخمینی معاملہ ہے تو اس اصول کے حکیمانہ اصول ہونے کی اور بھی تائید ہو گئی جو رسولِ اُمّی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں اختیار فرمایا کہ ان کاوشوں اور باریکیوں میں امّت کو الجھائے بغیر بالکل سادگی کے ساتھ رؤیت ہونے یا نہ ہو نے پر احکام شرعیہ کا مدار رکھ دیاجس پر ہر شخص ہر جگہ ہر حال میں آسانی سے عمل کر سکے۔
رؤیت ہلال کے مسئلہ پر بہت سے لوگوں کی توجہ صرف اس لئے ہے کہ انہوں نے اپنے نزدیک یہ طے کر رکھا ہے کہ پورے ملک میں عید کا ایک ہی دن ہونا ضروری ہے اسی کی وحدت کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ قواعدِ ریاضی اور محکمہئ موسمیات سے مدد لیکر چاند رات پہلے سے تعین کرلی جائے اور پورا ملک اس کے تابع ایک ہی دن عید منایا کرے۔
لیکن یہ بات جیسی دیکھنے میں اور سننے میں خوشگوار معلوم ہوتی ہے۔ اگر حقیقت پر غور کیا جائے تو اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔
وحدت عید کا مسئلہ اصل میں اس بنیاد سے پیدا ہوتا ہے کہ عید کو ایک تہوار یا ملکی تقریب یا قومی ڈے قرار دیا جائے۔ مگر میں اسی تحریر کے شروع میں واضح کرچکا ہوں کہ ہماری عیدیں اور رمضان و محروم کوئی تہوار نہیں بلکہ سب کی سب عبادات ہیں جن کے اوقات ہر ملک ہر خطہ میں وہاں کے افق کے اعتبار سے مختلف ہونا لازمی ہے۔ ہم کراچی میں جس وقت عصر کی نماز پڑھتے ہوتے ہیں بعض موسموں میں اس وقت مشرقی پاکستان میں عشاء کا وقت ہوتا ہے اور مغرب تو ہمیشہ ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح جس وقت مشرقی پاکستان میں عید ہوتی ہے کراچی میں اس وقت رات ہو سکتی ہے۔ اگر ایک ہی تاریخ کسی طرح متعین بھی کر لیں جب بھی یکسانیت پیدا ہونا ممکن نہیں خصوصاََ جب اس پر نظر کی جائے کے اسلامی قلمرو جیسا پہلے زمانہ میں مشرق سے مغرب تک رہ چکی ہے اگر آج بھی اللہ تعالیٰ وہ وسعت پھر عطا فرما دیں تو لازمی طور پر ایک دن کا فرق پڑ جائے گا۔ غرض ہمارا رمضان اور عید کوئی تہوار یا تقریب نہیں جس کی یکسانیت کی فکر کی جائے۔ اور اگر بالفرض ان کو کوئی تقریب بھی کہا جائے تو وہ صرف ملکی تقریب نہیں بلکہ مسلمانوں کی ایک عالمی تقریب ہے۔ جس میں وطنی جغرافیائی اور لسانی فاصلے حائل نہیں۔ اگر عید کا ایک ہی دن بنانا کوئی امر مستحسن ہے تو پھر سارے عالم کے مسلمانوں کو ایک ہی دن عید منانی چاہئے۔
مگر ہر لکھا پڑھا آدمی جانتا ہے کہ مشرق و مغرب کے فاصلوں میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ پہلے زمانہ میں تو بعید ملکوں کا حال دوسروں سے مخفی رہتا تھا اس لئے پتہ نہیں چلتا تھا۔ اب تو تیز رفتار ہوائی جہازوں نے ساری دنیا کو ایک طشت کی طرح ہتھیلی پر رکھ چھوڑا ہے جس کو دیکھ کر ایک ہی وقت میں انسان یہ معلوم کر سکتا ہے کہ اس وقت ایک ملک میں جمعہ ہو رہا ہے دوسرے میں ابھی جمعرات ہے اور تیسرے میں ہفتہ کا دن شروع ہو چکا ہے۔ ان حالات میں کسی مؤقّت عبادت میں پوری دنیا کی یکسانیت کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتاہے اور اگر کوئی ایک حکومت وسیع ہو تو اس کے دو مختلف حصوں میں بھی وحدت اور یکسانیت نا ممکن ہے۔
اس معاملہ میں عقل و انصاف کی بات یہ ہے کہ عید کی وحدت و یکسانیت کی فکر کرنے سے پہلے اس پر غور کیا جائے کہ یہ وحدت کیوں مقصود ہے۔ اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں فضیلت اور ثواب ہے تو یہ کسی کی رائے کی چیز نہیں جب تک اللہ تعالیٰ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خبر نہ دیں۔ مگر قرآن و سنت میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں بلکہ تعامل عہد نبوی اور خلافت راشدہ اور مابعد کے تمام مسلمانوں کا ہمیشہ اس سے مختلف رہا ہے۔ کبھی اس کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا کہ مکہ اور مدینہ میں ایک دن عید ہو۔ اور ایسے واقعات تو بہت ہیں کہ ملک شام میں کسی دن رمضان اور عید ہوئے اور مدینہ طیبہ میں کسی اور دن، حالانکہ مدینہ طیبہ سے ملک شام کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔
مدینہ اور ملک شام میں اختلاف کا واقعہ ایک تو صحیح مسلم میں روایت کریب بسند صحیح مذکور ہے کہ ملک شام میں جمعہ کی شام کو چاند دیکھا گیا، اور مدینہ میں اس روز چاند نظر نہیں آیا۔ امیرِشام حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمام اہل شام نے ہفتہ کے روز روزہ رکھا اور امیر مدینہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو اگرچہ رمضان ختم ہو نے سے پہلے حضرت کریب کی شہادت سے اس کا علم ہو گیا تھا کہ ملک شام میں جمعہ کو چاند دیکھا گیا ہے مگر صرف ایک گواہ کی شہادت موجود تھی، لیکن اگر عید و رمضان کی وحدت و یکسانیت کوئی شرعی پسندیدہ چیز ہو تی تو یہ کچھ مشکل نہ تھا کہ ملک شام سے دوسری شہادت طلب کر کے یہ وحدت قائم کر لی جاتی۔ مگر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت کریب کے اصرار کے باوجود اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ (صحیح مسلم ۲۱۱ج ا)
اسلام کی سلطنت و حکومت دنیا کے کسی خطہ پر آج نہیں ہوئی ایک ہزار سال تو اسلام نے تقریباََ پوری دنیا پر حکومت کی ہے مگر یہ عید کی وحدت و یکسانیت کا سوال کبھی کسی حکومت یا ملت کے ذہن پر سوار نہیں تھا۔ اپنی اپنی رؤیت کے مطابق ہر جگہ عید منائی جاتی تھی نہ کوئی اختلاف نہ جھگڑا نہ دوسری جگہ کی شہادتیں حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ۔ کتنا سیدھا سچا صاف طریقہ ہے، جس کو محض ایک خیالی اور مہوم وحدت کے خیال سے چھوڑ کر طرح طرح کے فتنوں، جھگڑوں اور دشواریوں کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اگر کہا جائے کہ ایک ملک میں ایک ہی دن عید منانے میں گو ثواب زیادہ نہ ہو مگر ملک کے باشندوں کی سہولت پیش نظر ہے کہ عید کی تعطیل سب جگہ ایک دن ہو۔ ایک شہر کا باشندہ جو کسی دوسرے شہر میں بسلسلہئ ملازمت رہتا ہے وہ اگر اپنے اہل و عیال میں جاکر عید منائے تو اس کو کوئی دشواری پیش نہ آئے تو یہ صحیح ہے مگر اس کا ایک بہت آسان علاج ہے۔ وہ یہ کہ عید الاضحی کے چاند کا مسئلہ تو عید سے دس دن پہلے سامنے آچکا ہوتا ہے اور سب مقامات کے چاند کی اطلاعات اور اگر ضرورت ہو تو شہادت بھی ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لئے دس دن کی مدت ہوتی ہے اس درمیان میں اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
اس طرح محرم کے عاشورہ کا معاملہ ہے کہ وہ چاند دیکھنے سے دس دن کے بعد ہوتا ہے۔ اور رمضان کی عموماََ سرکاری حلقوں اور کاروباری فرموں میں تعطیل نہیں ہوتی کہ اس کا سوال پیدا ہو۔ صرف ایک موقعہ عید الفطر کا ہے جس میں یہ سارا جھگڑا سامنے آتا ہے اس کا سیدھا صاف علاج یہ ہے کہ تعطیل دو دن کر دی جائے ایک وہ دن جو تیس رمضان یا یکم شوال ہونے کا احتمال رکھتا ہے اور ایک اس کے بعد کا دن۔
اور ایک اسلامی مملکت کے شایان شان بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی خوشی و مسرت کی عید، عید الفطر ہوتی ہے اس کی تعطیل دو دن ہو جائے۔ اگر تعطیل زیادہ کرنے میں ضروری کاموں کے حرج کا شبہ کیا جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک کی تعطیلات پر غور کر کے کوئی ایک دن جو زیادہ اہم نہ ہو اس کی تعطیل ختم کر دی جائے۔
اور اگر خاص ضرورت کے باعث عید میں وحدت و یکسانیت کرنا ہی ٹھہرا تو اس کے لئے بھی پاکستان کے مو جودہ رقبہ میں اس کی ایک جائز صورت اختیار کی جا سکتی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ (نجیبؔ)
اگر پورے ملک میں ایک ہی دن منانے کا فیصلہ کرنا ہی ہے تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ پہلے تو ماہرین فلکیات و موسمیات اور محقق علماء کی کوئی جماعت اس کی تحقیق کرے کہ پاکستان میں کراچی سے پشاور تک اور دوسری جانب ڈھاکہ اور سلہٹ تک ازروئے قواعدِ ریاضی ایسا اختلاف مطالع کہیں ہو سکتا ہے یا نہیں، جس کی بنا پر ایک جگہ کی شہادت کا اعتبار کرنے سے دوسری جگہ مہینہ صرف اٹھائیس دن کا رہ جائے یا اکتیس دن کا بن جائے۔ اگر ایسا اختلاف مطالع نہیں ہے تو پورے مغربی اور مشرقی پاکستان میں ایک ہی دن عید منائی جاسکتی ہے (۱)۔ جس کی شرائط بعد میں ذکر کی جائیں گی۔ اور اگر ایسا اختلاف ہے تو جس حصہئ ملک میں ایسا اختلاف ہے تو اس کو علیحدہ کر کے باقی ملک میں ایک دن عید منائی جائے اور اس دوسرے حصہئ کو وہاں کی رؤیت کے تابع چھوڑا جائے۔
پورے ملک یا اس کے اکثر حصہ میں جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اختلاف مطالع کا مذکورۃ الصدر اثر نہیں پڑتا۔ ایک ہی دن عید منانے کی جائز صورت یہ ہے کہ چند چیزوں کا پوری احتیاط کے ساتھ التزام کیا جائے۔
۱۔پورے ملک میں ریڈیو اسٹیشنوں کو اس کا پابند کر دیا جائے کہ کسی جگہ چاند دیکھے جانے یا نہ دیکھنے کے متعلق کوئی خبر شائع نہ کریں بلکہ صرف وہ فیصلہ نشر کریں جو صدر مملکت یا ان کے قائم مقام کی طرف سے ان کو دیا جائے۔
۲۔ پورے ملک کے ہر قصبہ میں مقامی مستندعلماء کی ایک ہلال کمیٹی قائم کی جائے۔ جس میں انتظام درست رکھنے کے لئے ایک مقامی افسر بھی شامل ہو۔
اس کمیٹی میں کم از کم ایک ایسے عالم کا ہونا ضروری ہو گا جو شرعی ضابطہ شہادت سے پو را واقف ہو۔ یہ کمیٹی اپنے قصبہ یا دیہات سے آنے والی شہادتوں کی سماعت کرے اور شرعی ضابطہ شہادت کے مطابق اس کو معتبر سمجھے تو اس کے مطابق فیصلے کا اعلان خود نہ کرے بلکہ تحریر کر کے دو گواہوں کے ہاتھ ضلع میں بھیج دے۔
اور جس قصبہ میں کوئی ایسا عالم موجود نہ ہو جو شرعی ضابطہ شہادت کو بروئے کار لا سکے تو اس قصبہ کو کسی قریبی بستی کے تابع بنا دیا جائے جہاں ایسے عالم موجود ہوں۔
۳۔ہر ضلع میں بھی بصورت مذکورہ ایک ہلال کمیٹی بنائی جائے اور یہاں اس کمیٹی کے علاوہ کسی اعلیٰ افسر کو صدر مملکت کی طرف سے فیصلہ ہلال کے اعلان کرنے کا مجاز بنا کر اختیار دے دیا جائے کہ وہ ہلال کا فیصلہ نشر کر نے میں صدر مملکت کا قائم مقام متصور ہو کیونکہ صدر مملکت کے سوا کسی عالم یا افسر کافیصلہ پورے ملک کے لئے واجب التعمیل نہیں ہو سکتا۔ فتح الباری شرح بخاری کتاب الصوم میں ہے:
۴۔ضلع کمیٹی خواہ خود شہادت سن کر کوئی فیصلہ کرے یا قصبات سے آئے ہوئے کسی فیصلہ کو اختیار کرے مگر اعلان خود نہ کرے بلکہ اعلان کا مضمون لکھ کر اس اعلیٰ افسر کو دیدے جو قائم مقام صدر کی حیثیت سے اس کو نشر کرائے گا۔
۵۔ افسر مجاز اس فیصلے کو ریڈیو پر نشر کرنے والے کو اس کا پابند کرے کہ اس فیصلے کو عام خبروں کی طرح نہیں بلکہ ٹھیک ان الفاظ میں نشر کرے جو ہلال کمیٹی کی طرف سے افسر مجاز کے پاس بھیجے گئے ہیں اور اس کا اظہار بھی کر دے کہ یہ فیصلہ صدر مملکت کی طرف سے نشر کیا جا رہا ہے جس کی پابندی پورے ملک میں یا اس کے فلاں فلاں حصے میں واجب التعمیل ہوگی۔
(۱) اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اب مسئلہ صرف مغربی حصہ میں یکسانیت پیدا کرنے کا رہ گیا ہے۔ ان شرائط کی پابندی کے ساتھ انتظام کیا جائے تو پوری مملکت یا کم از کم اس کے بڑے حصہ میں عید کی وحدت پیدا کرنے کی شرعی صورت بن گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ریڈیو ٹیلیفون وغیرہ آلات جدیدہ سے بھی رؤیتِ ہلال میں کام لیا جا سکتا ہے۔ صرف شہادت اس پر نہیں لی جاسکتی اس لئے صدر مملکت کا فیصلہ جو اس پر نشر کیا جائے وہ سب کے لئے واجب التعمیل ہو گا۔ جیسے ہر شہر میں روزہ افتار کرنے یا سحری کا کھانا بند کرنے کے لئے نقارے، توپ یا سائرن وغیرہ آلات کو خبر رسانی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جس شہر میں ان آلات کے ذریعہ اعلان کیا جائے وہ اعلان فقہاء کی تصریحات کے مطابق اس شہر اور اس کے مضافات کے لئے شرعاََ معتبر اور کافی ہے۔ (شامی کتاب الصوم)
اس طرح جب صدر مملکت کی طرف سے اعلان ہو تو وہ پورے ملک کے لئے معتبر ہو سکتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ریڈیو کا اعلان توپ یا سائرن کی آواز سے زیادہ اچھا ذریعہ اعلان ہے۔ اس کو قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
ہلال کمیٹیوں میں ماہر علماء کی شرکت اس لئے ضروری ہے کہ وہ شہادت کو شرعی ضابطہئ شہادت کے مطابق جانچ کر فیصلہ کریں۔ کیونکہ اگر شرعی ضابطہئ کی رعایت کے بغیر کسی شہادت پر فیصلہ دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ فیصلہ شرعاََ قابلِ قبول نہ ہو اور لوگوں کے روزے نماز ضائع ہو جائیں جس کی ذمہ داری اعلان کرنے والوں پر ہوگی۔ اور اسی ضرورت کے ماتحت اس اعلان کے لئے مذکور الصدر شرائط کی رعایت ضروری قرار دی گئی ہے۔
چونکہ اس معاملہ میں شرعی ضابطہئ شہادت سے بہت سے حضرات واقف نہیں اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس کو بھی مختصراََ لکھدیا جائے۔ واللہ الموفق و المعین۔
شہادت ہلال کا ضابطہ بیان کر نے سے پہلے ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ شہادت اور خبر دو چیزیں الگ الگ ہیں، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ بعض کلام بحیثیت خبر کے معتبر اور قابل اعتماد ہوتے ہیں، مگر بحیثیت شہادت ناقابلِ قبول ہو تے ہیں۔ شریعت اسلام میں تو ان کا فرق بہت واضح اور صاف ہے ہی۔ آج تک تمام دنیا کی عدالتوں میں بھی ان دونوں چیزوں کا فرق قانونی حیثیت سے محفوظ ہے۔ ٹیلیگراف، ٹیلیفون، ریڈیو، اخبارات اور خطوط کے ذریعہ جو خبریں دنیا میں نشر ہوتی ہیں، ان کا نشر کرنے والا یا لکھنے والا اگر کوئی قابلِ اعتماد شخص ہے تو بحیثیت خبر کے وہ سارے جہان میں قبول کی جاتی ہے اس پر اعتماد کر کے لاکھوں کروڑوں کے کاروبار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کے معاملات ان خبروں پر چلتے ہیں۔ عدالتیں بھی بحیثیت خبر کے ان کو تسلیم کرتی ہیں۔
لیکن کسی مقدمہ اور معاملہ کی شہادت کی حیثیت سے ان خبروں کو کوئی دنیا کی عدالت قبول نہیں کرتی اور ایسی خبروں کی بنیاد پر کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں دیتی۔ بلکہ یہ ضروری قرار دیتی ہے کہ گواہ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہو کر گواہی دے تاکہ اس پر جرح کی جا سکے۔ اور چہرہ بشرہ وغیرہ کی کیفیات سے اس کو پر کھا جا سکے۔ یہی حکم شریعت اسلام کا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ خبر کوئی حجت ملزمہ نہیں جو دوسرے کو ماننے پر اور اپنا حق چھوڑنے پر مجبور کر دے۔ جس کو خبر دینے والے کی دیانت اور سچائی پر بھروسہ ہو وہ مانے گا۔ جس کو نہ ہو وہ ماننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ بخلاف شہادت کے کہ وہ حجت ملزمہ ہے۔ جب شرعی شہادت سے کسی معاملہ کا ثبوت قاضی یا جج نے تسلیم کر لیا۔ تو قاضی یا جج اس پر مجبور ہے کہ اس کے موافق فیصلہ دے۔ اور فریق مخالف اس پر مجبور ہے کہ اس کو تسلیم کر لے۔ یہ اجبار و الزام صرف خبر سے نہیں ہوتا۔ اس لئے صرف خبر کی تصدیق پر کوئی پابندی بخبر ثقہ اور قابلِ اعتماد ہونے کے نہ شرعاََ ہے نہ موجودہ عدالتوں کے قانون میں۔ اور شہادت کے لئے عام عدالتی قوانین میں بھی بہت سی پابندیاں دنیا میں رائج ہیں۔ اور اسلامی شریعت نے بھی اس کے لئے نصاب شہادت کا مکمل ہونا اور شاہد کے حالات کا جائزہ لے کر شرائط شہادت کا جانچنا ضروری قرار دیا ہے۔
اگر کوئی عدالت ٹیلیفون یا ریڈیو پر کسی شاہد کی شہادت قبول کرنے سے انکار کر دے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ عدالت نے اس شخص کو ناقابلِ اعتماد یا جھوٹا قرار دے دیا۔ بہت ممکن ہے کہ قاضی یا جج کا دل کسی ایک ہی کی شہادت سے یا دو کی خبر سے با لکل مطمئن ہو جائے اور وہ اس کو صحیح سمجھے۔ مگر ضابطہئ شہادت کی رُو سے قاضی یا جج کا ایسا اطمینان مقدمہ کا فیصلہ کر نے کے لئے کافی نہیں۔
اس کا فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ شرعی اصول ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر رؤیت ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہئ کرام ؓ نے شہادت کا معاملہ قرار دیا ہے۔ البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو۔ ترمذی، ابود داؤد نَسائی وغیرہ میں ایک اعرابی کے اور ابو داؤد کی روایت میں حضرت ابنِ عمر ؓ کے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کر نے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرما دیا۔ نصاب شہادت کو ضروری نہیں سمجھا۔ رمضان کے علاوہ دوسرے ہر چاند کی شہادت کے لئے نصاب شہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قرار دیا گیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال عید کے لئے دو آدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔ (حاشیہ شرح وقایہ)
شہادت اور خبر کا یہ فرق سمجھ لینے کے بعد شرعی ضابطہئ شہادت کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
معاملات کی مختلف قسموں کے اعتبار سے شہادت کی شرائط بھی مختلف، کہیں سخت کہیں نرم ہوتی ہیں۔ اس رسالہ میں پورا ضابطہء شہادت لکھنا نہیں صرف رؤیت ہلال سے متعلق مسائل کا بیان کرنا ہے۔ اور رؤیت ہلال کا معاملہ ایک حیثیت سے عام معاملات کی طرح ہے جن سے دوسرے معاملات کی شرائط کے مقابل کچھ نرم ہیں۔ عام معاملات میں شہادت کے لئے دعویٰ شرط ہے کہ کوئی مدعی دعویٰ کرے، اس دعوے کے ثبوت میں شہادت پیش ہو۔ یہاں باتفاق جمہور فقہاء دعویٰ شرط نہیں۔
(شرط نمبر۱ تا نمبر۴) شہادت ہلال کی ابتدائی تین شرطیں تو وہی ہیں جو تمام معاملات کے لئے شرط ہیں۔ یعنی گواہ کا مسلمان، عاقل بالغ۔ بینا ہونا۔ غیر مسلم کی شہادت رؤیت ہلال میں قبول نہیں۔ دیوانے کی شہادت کسی چیز میں قابل قبول نہیں۔ نابالغ بچہ کی شہادت بھی معتبر نہیں۔ نا بینا قابل شہادت نہیں۔
پانچویں شرط شہادت کی سب سے اہم شرط ہے جو ہر قسم کی شہادت میں ضروری سمجھی جاتی ہے وہ شاہد کا عادل ہونا ہے۔ ج بنص قرآن ثابت ہے وَاَشْھِدُوْ اذَوَی ْ عَدْلِِ مِّنْکُم ْ۔ اور لفظ عدل ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کی تعریف یہ ہے : وہ مسلمان جو کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرے اور اس کے اعمالِ صالحہ اعمال فاسدہ پر اور راست کاری خطا کاری پر غالب ہو(ہدایہ۔ عالمگیری وغیرہ) اس کے مقابل جو شخص کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہے یا صغیرہ گناہوں کا عادی ہے اور اس کے برے اعمال اچھے اعمال پر غالب ہیں وہ اصطلاح شرع میں فاسق کہلاتا ہے۔
خلاصہ اس شرط کا یہ ہے کہ شاہد عادل ہونا چاہئے فاسق نہ ہو۔ مگر باتفاق فقہاء اس کا مطلب یہ ہے کہ فاسق کی شہادت کو قبول کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا قاضی کے ذمہ واجب نہیں۔ لیکن اگر قاضی کو قرائن کے ذریعہ معلوم ہو جائے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتا۔ اس بنا پر وہ فاسق کی شہادت پر کوئی فیصلہ کردے تو یہ فیصلہ صحیح اور نافذ ہے۔ (ہدایہ، شرح وقایہ، در مختار، شامی، عالمگیری وغیرہ)
اور جب سے دنیا میں فسق کی کثرت ہوئی اور عام معاملات کی شہادت میں ایسے ہی لوگ آنے لگے جو شرعی اصطلاح میں فاسق ہیں تو لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور مقدمات کے فیصلہ کے لئے حضرات فقہاء نے یہی صورت اختیار کی ہے کہ جس فاسق کے معاملہ میں قرائن اور حالات سے اس کا اطمینان ہو جائے کہ جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی شہادت قبول کر کے اس پر مقدمات کے فیصلے کریں۔ البتہ ایسے لوگوں میں سے اس کا انتخاب کریں جو دوسروں کی نسبت زیادہ صلاحیت رکھتا ہو۔ مثلاََ نماز روزہ کا پابند اور عام احکام شرعیہ کا احترام کرتا ہو۔
فقہ کی مستند اور مشہور کتاب ”معین الحکام“ میں اس بحث کو ایک مستقل باب میں واضح طور پر بیان کیا ہے(۱) اور اس کی بنیادی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حق تعالیٰ نے فاسق کی شہادت کو رد کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس کی تحقیق کر لو۔
جس کا مطلب یہی ہے کہ تحقیق سے اس کا سچا ہونا ثابت ہو جائے تو قبول کر لو ورنہ رد کردو۔ تو جب حالات کا جائزہ لے کر قاضی کو اس کے سچا ہونے کا گمان غالب ہو جائے تو وہ اس کی شہادت قبول کر سکتا اور اس زمانہ میں جبکہ فسق کی بہت سی صورتیں مثلاََ داڑھی منڈانا وغیرہ ایسی عام ہو گئیں کہ ان کی وجہ سے مطلقاََ شہادت کو رد کر دیا جائے تو بہت سے معاملات کا ثبوت کس طرح بہم نہ پہنچے گا۔ فقہاء کے اس مسلک کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسی لئے معین الحکام میں یہ تحقیق نقل کرنے کے بعد لکھا گیا ہے:
چھٹی شرط شرائط شہادت میں سے لفظ شہادت ہے کہ بدون اس لفظ کے کوئی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ لفظ شہادت میں حلف اور قسم کے معنی بھی ہیں۔ اور واقعہ کے خود مشاہدہ کرنے کا اقرار بھی ہے۔ اس لئے ہر گواہ پر لازم ہے کہ اپنا بیان پیش کرنے سے پہلے یہ کہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ فلاں واقعہ اس طرح ہوا ہے۔ ھدایہ، عالمگیری وغیرہ) جس کے معنی یہ ہوئے کہ میں حلفی بیان دیتا ہوں کہ فلاں واقعہ میں نے بچشم خود دیکھا ہے۔
ساتویں شرط یہ ہے کہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہے اس کو بچشم خود دیکھا ہو۔ محض سنی سنائی بات نہ ہو(عالمگیری) ہاں اگر کوئی شخص عذر کے سبب گواہی کے لئے حاضر نہیں ہو سکتا تو وہ اپنی گواہی پر دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں کو گواہ بنا کر مجلس قاضی میں بھیج سکتا ہے۔ مجلس قضا میں ان لوگوں کی گواہی اس ایک ہی شخص کے قائم مقام سمجھی جائے گی۔ یہ دونوں گواہ قاضی کے سامنے یہ بیان دیں گے کہ فلاں شخص نے اس واقعہ کو دیکھا اور خود حاضری سے معذور ہونے کے سبب ہم دونوں کو اپنی شہادت پر گواہ بنا کر بھیجا ہے ہم اس کی شہادت پر شہادت دیتے ہیں۔ (عالمگیری۔ روالمحتار وغیرہ) شہادت علی الشہادۃ کی مزید تفصیلات ضرورت کے وقت علماء سے دریافت کر لی جائیں۔
یعنی علامہ قرافی نے باب السیاست میں بیان کیا ہے کہ علماء نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ کسی جگہ شاہد عادل نہ ملیں تو ہم غیر عادل لوگوں میں جو دین کے اعتبار سے بہتر اور فسق میں کم ہو اس کو شہادت کے لئے قائم کریں گے۔ اور ایسا کرنا اس زمانہ کے قاضیوں کے لئے لازم ہے، تاکہ لوگوں کے حقوق اور مصالح ضائع نہ ہو جائیں۔ پھر فرمایا: میں نہیں جانتا کہ کوئی عالم و فقیہ اس بات سے اختلاف کرے گا کیونکہ وجوب بقدر استطاعت ہوتا ہے۔ اور یہ ضرورت کی بناء پر ہے تاکہ لوگوں کے مال ضائع اور حقوق تلف نہ ہو جائیں۔ ۲۱ منہ آٹھویں شرط مجلس قضاء ہے۔ یعنی شاہد کے لئے ضروری ہے کہ قاضی کی مجلس میں خود حاضر ہو کر شہادت دے۔ پسِ پردہ یا دور سے بذریعہ خط یا ٹیلیفون یا وائر لیس، ریڈیو وغیرہ جدید آلات کے ذریعہ کوئی شخص شہادت دے تو وہ شہادت نہیں، بلکہ محض ایک خبر کا درجہ رکھے گی۔ جن معاملات و مسائل میں خبر کافی ہے ان میں اس پر عمل جائز ہوگا اور جن معاملات میں ثبوت کے لئے شہادت ضروری ہے ان میں یہ خبر کافی نہ سمجھی جائے گی اگرچہ آواز پہچانی جائے اور بولنے والا ثقہ اور قابل شہادت ہو۔
شریعت اسلام کے علاوہ آج کی موجودہ سب عدالتوں میں بھی یہ شرط ضروری سمجھی گئی ہے۔ کوئی جج کسی گواہ کا بیان ٹیلیفون یا ریڈیو وغیرہ پر شہادت کے لئے کافی نہیں سمجھتا بلکہ سامنے آکر بیان دینے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اور حکمت اس میں یہ ہے کہ گواہ کے چہرہ بشرہ اور طرز گفتگو وغیرہ دیکھنے سے اس کے بیان کی صحت کا اندازہ لگانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ نیز اس پر جرح کر کے مخفی باتوں کو نکالا جا سکتا ہے اور یہ سب جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ گواہ قاضی یا جج کے سامنے ہو۔
جن ملکوں میں اسلامی حکومت نہیں ہے یا باقاعدہ شرعی قاضی مقرر نہیں وہاں شہر کے عام دیندار مسلمان جس عالم یا جماعت پر مسائلِ دینیہ میں اعتماد کرتے ہوں اس شخص یا جماعت کو قاضی کے قائم مقام سمجھا جائے گا۔ اور رؤیت ہلال میں اس کا فیصلہ واجب التعمیل ہوگا (کمانی حاشیہ شرح الوقایہ۔ مولانا لکھنوی:
کسی شہر میں ثبوت ہلال کے لئے شہادت کی دو صورتیں اوپر ذکر کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ گواہ بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے۔ دوسرے کہ کسی شہادت پر شہادت دے یعنی جس شخص نے چاند دیکھا وہ کسی معقول عذر کی وجہ سے مجلس قاضی میں حاضری سے معذور ہے تو وہ دو گواہ اس پر بنائے کہ میں نے چاند دیکھا ہے تم میری اس گواہی کے گواہ بن جاؤ اور قاضی کی مجلس میں میری شہادت پہنچا دو۔ جب قاضی کے سامنے یہ دو لوگ چاند دیکھنے والے کی شہادت پر شہادت دیں گے تو ان دونوں کی شہادت اس ایک شخص کی شہادت کے قائم مقام ہو جائے گی۔ شہادت علی الشہادت کی مزید تفصیلات ہیں۔ ضرورت پیش آئے تو کتب فقہ یا علماء کی طرف مراجعت کر کے معلوم کی جاسکتی ہیں۔ اس مختصر میں ان کی گنجائش نہیں۔
تیسری صورت ایک اور ہے اور وہ یہ کہ گواہ نہ خود چاند دیکھنا بیان کرے نہ کسی دیکھنے والے کی گواہی پر گواہی دیں۔ بلکہ اس کی شہادت دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی۔ قاضی نے اس کا اعتبار کر کے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کر دیا۔ تویہ شہادت علی القضاء کہلائے گی کہ قاضی کے فیصلہ پر گواہی دے رہے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لئے تین صورتیں شرعاََ معتبر اور دوسرے شہر میں رؤیت ہلال کے لئے کافی ہیں۔ شرائط شہادت جو اوپر ذکر کی گئی وہ تینوں کیلئے ضروری ہیں
۱۔ اگر مطلع صاف نہ ہو یعنی کوئی بادل یا غبار یا دھواں وغیرہ افق پر ایسا چھایا ہوا ہو جو چاند کو چھپا سکے تو رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کافی ہے۔ بشرطیکہ شاہد کے اوصاف مذکورہ ان میں موجود ہوں اور خود چاند دیکھنے کی شہادت دیں۔ یا اس بات کی شہادت دیں کہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی کے سامنے گواہ پیش ہوئے، قاضی نے گواہی کو قبول کر کے اعلان عام رمضان یا عید کا کر دیا۔
(۲) اور اگر مطلع صاف ہو یعنی ایسا گرد و غبار دھواں یا بادل وغیرہ افق پر چھایا ہوا نہیں ہے جو چاند کی رؤیت میں حائل ہو سکے اور اس کے باوجود کسی بستی یا شہر کے عام لوگوں کو چاند نظر نہیں آیا تو ایسی صورت میں ہلال عیدین کے لئے صرف دو چار گواہوں کے اس بیان کا اعتبار نہ ہو گا کہ ہم نے اس بستی یا شہر میں چاند دیکھا ہے بلکہ اس صورت میں ایک جم غفیر یعنی بڑی جماعت کی گواہی ضروری ہو گی جو مختلف اطراف سے آئے ہوں۔ اور اپنی اپنی جگہ چاند دیکھنا بیان کریں۔ کسی سازش کا احتمال نہ ہو۔ اور جماعت کی کثرت کے سبب عقلاََ یہ باور نہ کیا جا سکے کہ اتنی بڑی جماعت جھوٹ بول سکتی ہے۔ اس جماعت کی تعداد کے متعلق فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے پچاس کا عدد بیان کیا ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ کوئی خاص تعداد شرعاََ متعیّن نہیں، جتنی تعداد سے یہ یقین ہو جائے کہ یہ سب مل کر جھوٹ نہیں بول سکتے وہی تعداد کافی ہے۔ خواہ پچاس ہوں یا کم و بیش۔ البتہ ہلال رمضان و عیدین کے علاوہ باقی نو مہینوں کے چاند میں خواہ ابر ہو یا مطلع صاف ہو دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کی شہادت کافی ہے (شامی ۶۵۱ج۶) کیونکہ ان مہینوں کا چاند دیکھنے کا عام طور پر اہتمام نہیں کیا جاتا۔
(۳) صرف رمضان کے چاند کے لئے مطلع صاف نہ ہونے کی صورت میں ایک ثِقَہ مسلمان مرد یا عورت کی شہادت بھی کافی ہے۔ کیونکہ حدیث مذکور کی بنا پر اس معاملہ میں شہادت ضروری نہیں، بلکہ خبر کافی ہے۔ لیکن مطلع صاف ہونے کی صورت میں یہاں بھی جم غفیر یعنی بڑی جماعت کی شہادت ضروری ہوگی۔ ایسی صورت میں ایک دو شخص کی گواہی قابل اعتبار نہیں ہوگی۔
خبر کی ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں کسی چاند کے لئے باقاعدہ شہادت شرط نہیں رہتی خواہ رمضان کا چاند ہو یا عید وغیرہ کا۔ وہ صورت یہ ہے کہ کوئی خبر اتنی عام اور مشہور و متواتر ہو جائے کہ اس کے بیان کرنے والے کے مجموعہ پر یہ گمان نہ ہو سکے کہ ا نہوں نے کوئی سازش کی ہے یا سب کے سب جھوٹ بول رہے ہیں، ایسی خبر کو اصطلاح میں خبر مستفیض یعنی مشہور کہا جاتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ مختلف اطراف سے مختلف آدمی یہ بیان کریں کہ ہم نے خود چاند دیکھا ہے۔ یا یہ ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی نے چاند دیکھنے کی شہادت قبول کر کے چاند ہو جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یا موجود آلات مواصلات تار، ٹیلیفون، ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ مختلف جگہوں سے مختلف لوگوں کے یہ بیانات موصول ہوں کہ ہم نے خود چاند دیکھا ہے۔ یا ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی نے شہادت سن کر چاند ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب ایسا بیان دینے والوں کی تعداد اتنی کثیر ہو جائے کہ عقلاََ ان کے جھوٹ ہونے کا کوئی احتمال نہ رہے تو ایسی خبر مستفیض پر روزہ اور عید دونوں میں عمل جائز ہے۔ اس میں ریڈیو، تار، ٹیلیفون وغیرہ ہر قسم کی خبروں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ صرف کثرت تعداد اتنی ہونی چاہئے کہ جن کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاََ باور نہ کیا جا سکے۔ اس میں بھی بعض فقہاء نے پچاس اور بعض نے کم و بیش کا عدد متعین کیا ہے اور صحیح یہ ہے کہ تعداد کوئی متعین نہیں، قاضی یا ہلال کمیٹی کے اعتماد پر مدار ہے۔ بعض اوقات سو آدمیوں کی خبر بھی مشتبہ ہو سکتی ہے۔ ایک فقیہ نے فرمایا کہ بلخ میں تو پانچ سو آدمیوں کی خبر بھی کم ہے۔ اور بعض اوقات دس بیس کی خبر سے ایسا یقین کامل حاصل ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ کسی ایک ریڈیو سے بہت سے شہروں کی خبریں سن لینا استفاضۂ خبر کے لئے کافی نہیں بلکہ استفاضۂ خبر سمجھا جائے گا جب دس بیس جگہوں کے ریڈیو اپنے مقامات کے قاضیوں یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ نشر کریں۔ یا جن لوگوں نے چاند دیکھا ہے ان کا بیان نشر کریں۔ یا چار پانچ جگہ کے ریڈیو اور دس بیس جگہ کے ٹیلیفون اور خط ٹیلیگرام ایسے لوگوں کے پہنچیں جنھوں نے خود چاند دیکھا ہے یا اس جگہ کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ بیان کریں تو اس طرح یہ خبر، خبرِ مستفیض (مشہور) ہو جاتی ہے۔ اور جس شہر میں ایسی خبریں پہنچیں وہاں کے قاضی یا ہلال کمیٹی کو اس کا اعتبار کر کے رمضان یا عید کا اعلان کر دینا چاہئے۔
یاد رہے کہ استفاضۂ خبر وہی معتبر ہوگی جب کہ ایک بڑی جماعت خود چاند دیکھنے والوں سے سن کر یا کسی شہر کے قاضی کا فیصلہ خود سن کر بیان کریں۔میانہ شہرت کہ یہ پتہ نہ ہو کہ کس نے اس کو مشہور کیا ہے۔ کسی خبر کو مستفیض یا مشہور بنانے کے لئے کافی نہیں (شامی ۹۲۱ ج ۲)
رؤیت ہلال کے معاملہ میں ایک اہم سوال اختلاف مطالع کا بھی سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ سورج اور چاند یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں ہروقت موجود رہتے ہیں۔ آفتاب ایک جگہ طلوع ہوتا ہے دوسری جگہ غروب، ایک جگہ نصف النہار ہوتا ہے تو دوسری جگہ عشاء کا وقت، اسی طرح چاند ایک جگہ ہلال بن کر چمک رہا ہے ایک جگہ پورا چاند بن کر اور کسی جگہ بالکل غائب ہے۔
ان حالات میں اگر ایک جگہ لوگوں نے کسی مہینہ کا ہلال دیکھا ان کی شہادت ایسے ملکوں میں جہاں ابھی ہلال دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہوا۔ اگر پورے شرعی قواعد و ضوابط کے ساتھ پہنچ جائے تو کیا اس کا اعتبار ان ملکوں کے لئے بھی کیا جائے گا یا نہیں۔ اس میں ائمہ مجتہدین اور فقہا کے مختلف اقوال ہیں اور وجہ اختلاف کی یہ نہیں کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے والوں کے نزدیک دنیا میں ایسا اختلاف موجود نہیں بلکہ گفتگو اس میں ہے کہ موجود ہوتے ہوئے شرعی احکام میں اس کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں۔ کیونکہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسلامی معاملات میں چاند سورج اور ان کی گردش اور کیفیات کی حقائق مقصود ہی نہیں، مقصود صرف امرِ الہٰی کا اتباع ہے اور ان گردشوں کو ان احکام کے اوقات کی ایک علامت بطور اصطلاح قرار دیا گیا ہے۔ اس مسئلہ میں فقہاء امت صحابہ و تابعین اور بعد کے علماء کے تین مسلک ہوتے ہیں۔
اور عجب اتفاق ہے کہ یہ تینوں طرح کے اختلاف فقہاء امت حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی چاروں فقہ کے فقہاء میں موجود ہے۔ فرق صرف کثرت و قلت کا ہے۔ مذاہب کی پوری تفصیل استاذ محترم حضرت علامہ عثمانی ؒنے مسلم کی شرح میں تحریر فرمائی ہے۔ اہل علم اس میں دیکھ سکتے ہیں۔
جو حضرات مطلقاََ غیر معتبر قرار دیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جیسے آفتاب کے مطالع کا اختلاف سب کے نزدیک معتبر ہے کہ ایک ہی وقت میں کسی ملک میں صبح کی نماز ہوتی ہے، کسی جگہ مغرب یا عشاء کی ہوتی ہے ایک شہر کے تابع دوسرے شہروں کو نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح چاند کے معاملہ میں ہر افق کا الگ حکم ہونا چاہئے۔ ایک جگہ کی شہادت پورے شرعی قواعد کے ساتھ دوسری جگہ پہنچ جائے تب بھی دوسرے شہر کے لوگوں کے لئے وہ شہادت حجت نہیں ہونی چاہئے۔
اور جو حضرات اختلاف مطالع کو مطلقاََ غیر معتبر قرار دیتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ چاند کے معاملہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزہ رکھو، چاند دیکھ کر افطار کرو“۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ ہر فرد بشر کا دیکھنا ضروری نہیں۔ بعض کا دیکھ لینا کافی ہے۔ اس لئے ایک شہر کے مسلمانوں کا چاند دیکھ لینا دوسروں کے لئے کافی ہے۔ اسلئے جب شہادت شرعیہ کے ساتھ ایک شہر میں رؤیت ہونا ثابت ہو جائے تو جس جگہ یہ شہادت پہنچے ان پر بھی اس کا اتباع لازم ہوگا۔ خواہ ان کے درمیان کتنا ہی فاصلہ اور مشرق و مغرب کا بعد ہو۔
اور جن حضرات نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ بلاد بعیدہ میں اعتبار کیا جائے بلاد قریبہ میں نہ کیا جائے ان کا کہنا یہ ہے کہ بلاد قریبہ میں فرق بہت معمولی ہوتا ہے اور اس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ بلاد بعیدہ میں اختلاف بالکل واضح اور کھلا ہوا ہے اس کو نظر انداز کرنا صحیح نہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ سے ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کیا جائے۔ اسی کو عام فقہا ئے حنفیہ نے راجح قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب کے فاصلہ میں اختلاف مطالع کو غیر معتبر قرار دے کر ایک جگہ کی رؤیت کو دوسری جگہ کے لئے حجت قرار دیا۔ اور ایک جماعت حنفیہ نے آخری قول(۱) کو اختیار کیا کہ بلاد بعیدہ میں
ھٰذَا اِذَا کَانَتِ المَسَافَۃُ بَیْنَ الْبَلَدَتَیْنِ قَرِیْبَۃ’‘ لا تَخْتَلِفُ فِیْھَا الْمَطَالِعُ الْبِلَادِ عِنْدَ الْمَسَافَۃِ الْفَا حِشَۃِ تَخْتَلِفُ فَیُعْتَبَرُ فِیْ کُلِّ اَھْلِ بَلَدٍ مَطْلَعُ بِلَادِھِمْ دُوْنَ الآخَرِ۔ اور زیلعی کی عبارت یہ ہے: وَالْاَشْبَہُ اَنْ یُعْتَبَر لِاَنَّ کُلُّ قَوْمٍ مُخَاطَبُوْنَ بِمَا عِنْدَ ھُمْ وَ انْفِصَالُ الھِلَالِ عَنْ شُعَاعِ الشَّمْسِ یَخْتَلِفُ بِا خْتِلَف الْاَقْطَارِ وَ کُلَّمَا تَحَرَّکَتِ الشَّمْسُ دَرَجَۃَ فَتِلْکَ طُلُوْعُ فَجْرٍ لِقَوْمٍ وَ طُلُوْعُ شَمَسٍ لِاٰخ۔رَ وَ غُرُوْب’‘ لِبَعْضٍ وَ نِصْفُ اللَّیْلِ لِغَیْرَھُمْ۔ ۳۱ زیلعی ج ۱ ص ۱۲۳
اعتبار کرنا چاہئے۔ فقہائے حنفیہ میں سے زیلعی اور صاحب بدائع وغیرہ جن کی جلالتِ شان فقہاء حنفیہ میں مسلم ہے انہوں نے اسی آخری قول کو ترجیح دی ہے۔
(بدائع ۳۸ ج ۲)۔ (زیلعی ۱۲۳ ج ۱)
ہمارے استاذ محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس کی ترجیح کے قائل تھے۔ اور استاذ محترم حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الملہم شرح مسلم میں اسی آخری قول کی ترجیح کے لئے ایک ایسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس پر نظر کرنے کے بعد اس قول کی ترجیح واضح ہو جاتی ہے خصوصاََ اس زمانہ میں جبکہ مشرق و مغرب کے فاصلے چند گھنٹوں میں طے ہو رہے ہیں۔
وہ یہ کہ قرآن و سنت میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا بلادبعیدہ اور مشرق و مغرب کے فاصلوں میں اگر اختلاف مطالع مطلقاََ نظر انداز کر دیا جائے تو اس نص قطعی کے خلاف یہ الزام آجائے گا کہ کسی شہر میں اٹھائیس کو بعید ملک سے اسکی شہادت پہنچ جائے کہ آج وہاں چاند دیکھ لیا گیا ہے تو اگر اس شہر کو دوسرے کے تابع کیا جائے تو اس کا مہینہ اٹھائیس کا رہ جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شہر میں رمضان کی تیس تاریخ کو کسی بعید ملک کے متعلق بذریعہ شہادت یہ ثابت ہو جائے کہ آج وہاں ۹۲ تاریخ ہے اور اگر چاند نظر نہ آیا تو کل وہاں روزہ ہوگا اور اتفاقاََ چاند نظر نہ آیا تو ان کو اکتیس روزے رکھنے پڑیں گے اور مہینہ اکتیس کا قرار دینا پڑے گا۔ جو نصِ قطعی کے خلاف ہے۔ اس لئے نا گزیر ہے کہ بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے۔ اگر کہا جائے کہ ایسی صورت میں جہاں اٹھائیس تاریخ کو مہینہ ختم کرنا پڑا وہاں یہ کہا جائے گا کہ ان لوگوں نے ایک دن بعد مہینہ
شروع کیا ہے۔ لہذا ایک دن کا روزہ قضاکریں۔ اسی طرح جہاں تیس تاریخ پر بھی مہینہ ختم نہیں ہوا وہاں یہ قرار دیا جائے گا کہ ان لوگوں نے مہینہ ایک دن پہلے شروع کر لیا تھا تو مہینہ کا پہلا روزہ غلط ہوا۔ اس طرح مہینوں کے دنوں کا نص قطعی کے خلاف گھٹنا بڑھنا لازم نہیں آتا تو جواب یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے عام رؤیت یا ضابطہء شہادت کے مطابق مہینہ شروع کیا ہے تو دور کی شہادت کی بنا پر خود مقامی شہادت یا رؤیت کو غلط یا جھوٹا قرار دینا نہ عقلاََ معقول ہے نہ شرعاََ جائز۔ اس لئے یہ توجیہ غلط ہے۔
حضرت علامہ عثمانی کی اس تحقیق سے اس کا بھی فیصلہ ہو گیا کہ بلادقریبہ اور بعیدہ میں قرب و بعد کا معیار کیا اور کتنی مسافت ہوگی۔ وہ یہ کہ جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ اعتبار کرنے کے نتیجے میں مہینہ کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہو جائیں وہاں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو وہاں نظر انداز کیا جائے گا۔احقر کا گمان یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اور دوسرے ائمہ جنہوں نے اختلاف مطالع کو غیر معتبر قرار دیا ہے اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جن بلاد میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے وہاں ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا ان حضرات کے لئے محض ایک فرضی قضیہ اور تخیل سے زائد کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا اور ایسے فرضی قضا یا سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نادر کو بحکم معدوم قرار دینا فقہاء میں معروف ہے اس لئے اختلاف مطالع کو مطلقاََ غیر معتبر فرمایا۔
لیکن آج تو ہوائی جہازوں نے ساری دنیا کے مشرق و مغرب کو ایک کر ڈالا ہے۔ ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا قضیہ فرضیہ نہیں بلکہ روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اگر مشرق کی شہادت مغرب میں اور مغرب کی مشرق میں حجت مانی جائے تو کسی جگہ مہینہ اٹھائیس دن کا کسی جگہ اکتیس دن کا ہونا لازم آجائے گا۔ اس لئے ایسے بلاد بعیدہ میں جہاں مہینہ کے دنوں میں کمی بیشی کا امکان ہو اختلاف مطالع کا اعتبار کرنا ہی نا گزیر اور مسلک حنفیہ کے عین مطابق ہوگا۔
مسئلہ ہلال کے تمام ضروری پہلوؤں کی وضاحت کے ضمن میں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آلاتِ جدیدہ۔ ریڈیو، ٹیلیفون، ٹیلیویژن، لاسلکی، وائرلیس، ٹیلیگرام وغیرہ کے ذریعہ آنے والی خبروں کا درجہ اور مقام شرعی حیثیت کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ہلال رمضان کے علاوہ۔ عید، بقر عید۔ یا کسی دوسرے مہینہ کے لئے ثبوتِ ہلال باقاعدہ شہادت کے بغیر نہیں ہو سکتا اور شہادت کے لئے حاضر ہونا لازمی ہے۔ غائبانہ خبروں کے زریعے شہادت ادا نہیں ہوسکتی۔ خواہ وہ قدیم طرز کے آلات خبر رسانی خط وغیرہ ہوں، یا جدید طرز کے۔ ریڈیو، ٹیلیفون وغیرہ۔
۲۔ البتہ جس شہر میں باقاعدہ قاضی یا ہلال کمیٹی نے کسی شہادت پر اطمینان کر کے عید وغیرہ کا اعلان کر دیا ہو اس اعلان کو اگر ریڈیو پر نشر کیا جائے تو جس شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے اس شہر اور اس کے مضافات و دیہات کے لوگوں کو اس ریڈیو کے اعلان پر عید وغیرہ کرنا جائز ہے۔ شرط یہ ہے کہ ریڈیو کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ چاند کے متعلق مختلف خبریں نشر نہ کرے صرف وہ فیصلہ نشر کرے جو اس شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی نے اس کو دیا ہے۔ اور اس کے نشر کرنے میں پوری احتیاط سے کام لے جن الفاظ میں فیصلہ دیا گیا ہے وہ الفاظ بعینہ نشر کئے جائیں۔ جس ریڈیو میں ایسی احتیاط کی پابندی نہ ہو اس کے اعلان پر عید وغیرہ کرنا کسی کے لئے درست نہیں۔
اور جس طرح ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لئے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک کے لئے ہو تو اس کا فیصلہ اپنے اپنے حدودِ ولایت میں واجب العمل ہوگا۔ اس لئے جو فیصلہ پاکستان میں صدر مملکت کی طرف سے ریڈیو پر نشر کیا جائے اور اس میں مذکورہ الصدر احتیاط سے کام لیا گیا ہو وہ پورے ملک کے لئے نافذ العمل ہو سکتا ہے بشرطیکہ کوئی علاقہ ایسا نہ ہو جہاں اختلاف مطالع کا اعتبار کرنا مذکورہ تحقیق کے مطابق ضروری ہو۔
۳۔ اسی طرح استفاضۂ خبر جس کی تعریف اور تحقیق پہلے بیان ہو چکی ہے اس میں بھی ان آلات جدیدہ کی خبروں کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر ملک کے مختلف حصوں اور سمتوں سے دس بیس ریڈیو اور ٹیلیفون، ٹیلیویژن یا خط وغیرہ کے ذریعہ چاند خود دیکھنے والوں کی طرف سے اطمینان بخش، خبریں آجائیں تو ان پر اطمینان کیا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ خبر دینے والے کی شناخت پوری ہو جائے اور وہ یہ بیان کریں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے۔ یا یہ کے ہمارے سامنے فلاں شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کے سامنے شہادت پیش ہوئی اس نے شہادت کا اعتبار کرکے چاند ہونے کا فیصلہ کر دیا (شامی ۱۵۱ ج۲) محض ایسی مبہم خبر کہ فلاں جگہ چاند دیکھا گیا ہے استفاضہ خبر کے لئے کافی نہیں۔
۴۔ رمضان کے چاند میں چونکہ شہادت یا استفاضہ خبر دونوں شرط نہیں ہیں، ایک ثقہ مسلمان کی خبر بھی کافی ہے۔ اس لئے خط اور آلات جدیدہ کی خبروں پر اس شرط کے ساتھ عمل کرنا درست ہے کہ خبر دینے والے کا خط یا آواز پہچانی جائے اور وہ بچشم خود چاند دیکھتا بیان کرے۔ اور جس کے سامنے یہ خبر بیان کی جارہی ہے وہ اس کو پہچانتا ہو۔ اور اس کی شہادت کو قابل اعتماد سمجھتا ہو۔
ٹیلیگرام اور وائرلیس سے آئی ہوئی خبروں میں چونکہ خبر دینے والے کی شناخت نہیں ہو سکتی اس لئے محض ایسی خبروں سے ہلال ثابت نہیں ہوگا۔ البتہ ٹیلیفون، ٹیلیویژن، ریڈیو پر آواز کی شناخت ہو جاتی ہے اور یہ پہچانا جا سکتا ہے تو جب یہ معلوم ہو کہ خبر دینے والا کوئی ثقہ مسلمان عاقل و بالغ اور بینا ہے اور خود اپنے چاند دیکھنے کی خبر دے رہا ہے رمضان کا اعلان کرایا جا سکتا ہے۔ اور خبر دینے والے پر مکمل اعتماد نہ ہو تو رمضان کا اعلان کرانا درست نہیں۔ اور ثبوت رمضان کے لئے حکم حاکم یا فیصلہ قاضی بھی شرط نہیں۔ عام آدمی جب کسی معتمد ثقہ مسلمان عاقل، بالغ بینا سے یہ خبر سنیں کہ اس نے چاند دیکھا ہے تو ان پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتا ہے، خواہ کوئی قاضی یا عالم یا ہلال کمیٹی فیصلہ دے یا نہ دے۔ (عالمگیری ۷۲۱ج۱)