اسمٰعیلی مذہب/دعوت کو تقریباً بارہ سوسال گذرچکے ہیں۔ اس طویل مدت میں اُن کے یہاں کئی مذہبی اورسیاسی دورہوئے جس کی وجہ سے اسمٰعیلیوں میں مختلف فرقے پیداہوئے جن کاذکر ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں۔

###Dowload Original PDF###

Ismaili-Bohri-aur-Agha-Khanion-ka-Taaruf

###Dowload Original PDF###

کتاب کا نام: اِسمٰعیلیہَ بوہریوں اور آغاخانیوں کا تعارف (تاریخ کی روشنی میں)

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

بوہریوں اور آغاخانیوں کا تعارف

اِسمٰعیلیہَ
بوہریوں اور آغاخانیوں کا تعارف (تاریخ کی روشنی میں)

معہ تقریظ
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلّہ

مؤلفہ: سید تنظیم حسین

ناشر
ڈاکٹر محمد عبدالرحمٰن غضنفر
موسیس ومُدیر

اسمٰعیلی فرقوں کی موجودہ کیفیات

الرحیم اکیڈمی

اے  ۷/۷ اعظم نگر پوسٹ آفس، لیاقت آباد، کراچی ۰۰۹۵۷

باب پنجم

اسمٰعیلی فرقوں کی موجودہ کیفیات

اسمٰعیلی مذہب/دعوت کو تقریباً بارہ سوسال گذرچکے ہیں۔ اس طویل مدت میں اُن کے یہاں کئی مذہبی اورسیاسی دورہوئے جس کی وجہ سے اسمٰعیلیوں میں مختلف فرقے پیداہوئے جن کاذکر ہم گذشتہ صفحات میں کرچکے ہیں۔  تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی طورپر ائمہ کی شخصیتوں اور حیثیتوں سے متعلق اختلاف ہواجوآگے چل کرعقائد پر اثرانداز ہوااورعلیحدہ فرقے وجودمیں آتے گئے جن میں مرکز سے لاتعلقی کے بعد نئی نئی باتیں پیداہوتی چلی گئیں جنہوں نے رفتہ رفتہ عقائد کی شکل اختیارکرلی۔اگرچہ اسمٰعیلیہ کے ابتدائی دورعقائدکے بیان کے بعد اسمٰعیلیوں کے فرقوں کی موجودہ کیفیات کی اہمیت نہیں رہتی کیونکہ جیساکہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں:

خشتِ اول چوں نہد معمار کج                                  تاثر یامی رود دیوار کج  ۱ ؎

(۱ ؎  اگرمعمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے توثریا (آسمان) تک دیوارٹیڑھی رہتی ہے)

یعنی تفصیلات کو جانے بغیر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دیوارکی کجی میں اضافہ ہی ہواہوگا۔لیکن ناظرین کو ضروری معلومات فراہم کرنے کی غرض سے ہم اس باب میں اسمٰعیلیہ کے قابل ذکر فرقوں کے عقائدنے جو رخ اختیارکیااُس سے متعلق اہم اموربیان کریں گے۔

دروزیہ

دروزیہ

جیساکہ باب سوئم میں بیان کیاگیا ہے دروزیہ نے الحاکم بامراللہ (۶۸۳۔ ۱۱۴ھ ۶۹۹۔ ۰۲۰۱ء) کے بعد ایک علیحدہ فرقہ کی شکل اختیارکی۔ اُنکے مشہور داعی حسن بن حیدرہ فرغانی‘ حمزہ بن زوزنی اور محمد بن اسمٰعیل درازی ہیں۔ مصر سے نکالے جانے کے بعد اُن کو لبنان کے علاقہ میں فروغ ہوااوریہ تاحال اُسی علاقہ میں محدود ہیں۔

دروزیہ کا مذہب

دروزیہ کا مذہب

دروزیہ کے اکثر داعی ایرانی تھے لہذا دیگر اسمٰعیلی (باطنی) فرقوں کی طرح اُن کے عقائد بھی یونانی فلسفہ او ر قدیم ایرانی مذاہب کی تعلیم سے ماخوذ ہیں۔ مثلاً ’حلول‘ کے متعلق اُن کا عقیدہ ہے کہ خداکروڑوں برس کے بعد ’حاکم‘ کی شکل میں ظاہر ہوا۔رعیت سے ناراض ہوکرغائب

ہوگیا ہے۔قیامت کے روزپھر انسان کی شکل میں ظاہر ہوگا۔اورتمام دنیا پر حکومت کرے گا۔اُس کے حکم سے ایک آگ اترے گی جوکعبہ کو جلادے گی پھرمردے زمین سے اٹھیں گے ۱ ؎ (۱ ؎ تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم صفحہ ۵۶۱ بحوالہ (Spring ctt

دروزیوں کی کتابیں

دروزیوں کی کتابیں

داعی حمزہ بن زوزنی اوراُس کے چارمدگاروں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ کلام اللہ کے مانند مقدس مانی جاتی ہیں اور خلوتوں میں پڑھی جاتی ہیں اُن کو سوائے عقال کے کوئی چھونہیں سکتا۔ غالباً یہ وہی کتابیں ہیں جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ ان میں کلام مجید کی نقل اتارنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ اُس کی فصاحت وبلاغت کو نہیں پہنچیں۔ ۱ ؎ ( ۱ ؎ تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم صفحہ ۵۶۱ بحوالہ Springctt)

دروزیوں کے مذہبی اصول

دروزیوں کے مذہبی اصول

دروزیوں کے چاربڑے مذہبی اصول ہیں:

۱۔ خداکاعلم خاص کر شکل انسانی کے مظاہر ہیں۔

۲۔ عقل کا علم جوسب سے اعلیٰ موجود ہے اس کا نام حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں (Lazarus) لزارس ہے۔ حضرت رسولِ خداؐ کے زمانہ میں سلمانؐ فارسی اورحاکم کے زمانہ میں حمزہ بن زوزنی۔

۳۔ چارروحانی موجودات کا علم۔ یہ چار موجودات اسمٰعیلؒ‘ محمدؒ (بن اسمٰعیل) سلمانؓ  ۲ ؎(۲ ؎حضرت سلمان فارسیؓ سے خصوصی تعلق ایرانی اثرات کا ثبوت ہے) اورعلیؓ کی شکلیں ہیں۔

۴۔ سات اخلاقی احکام کا علم جن میں سے ایک تقیہ ہے

دروزیہ تناسخ کے بھی قائل ہیں اورمذہبی معاملات کو پوشیدہ رکھنے پر زوردیتے ہیں۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ لوگ اپنے خلوت خانوں میں شرمناک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں اور خفیہ طورپر گائے کے بچے کے سرکی پوجاکرتے ہیں اُن کے لٹریچر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ (دروزی) اعمال شریعت کے قائل نہیں۔اُن کا عقیدہ ہے کہ حاکم کو خدا ماننے کے بعد تمام اعمال بے کاروفضول ہیں۔ ان کے اصول کے مطابق ظاہری شریعت کے پابندمسلمان ہوتے ہیں اورصرف باطن کے پابندمومنین جبکہ ظاہر اور باطن دونوں نہ ماننے والے ’موحدین‘ جن کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔ ہمیشہ مسلح رہنا ان کامذہبی فریضہ ہے۔  ۳ ؎  ( ۳ ؎آجکل دروز ملیشیا ایک معروف فوجی تنظیم ہے۔ یہ غالباً اِسی تعلیم کانتیجہ ہے) ان لوگوں کی آبادی میں مسجدیں نہیں ہوتیں کیونکہ یہ نماز نہیں پڑھتے۔ مسجد کی بجائے ایک معمولی سامکان ہوتا ہے جس میں ہرجمعرات کو مجلس ہوتی ہے۔کیونکہ جمعرات کو ’حاکم‘ غائب ہواتھا۔ اس مجلس میں حمزہ زوزنی کی تصانیف پڑھی جاتی ہیں اور اس میں صرف عقال ہی شریک ہوتے ہیں

عقال اور جہال

عقال اور جہال

عقال کی جماعت میں شریک ہونے والے دروزیوں کو چند شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں۔ یہ شرائط کچھ ایسی نوعیت کی ہیں جیسی کہ فری

میسنوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں اور بہت سی باتیں فری میسنوں سے ملتی جلتی ہیں۔ دوسری جماعت جہال کی ہے جن پر مذہب کی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ کہاجاتا ہے کہ جہال ہر قسم کے فسق وفجور میں مبتلاپائے جاتے ہیں۔دروزیوں نے اپنے مذہب کا دروازہ بندکررکھا ہے۔

نزاریہ

نزاریہ

جیسا کہ باب سوئم میں ذکرکیا گیا ہے۔اسمٰعیلیوں میں امام/خلیفہ المستنصرباللہ (۷۲۴۔۷۸۴ھ) (۵۳۰۱ء۔۵۹۰۱ء) کے جانشین پر اختلاف ہوا۔ اسمٰعیلیوں کے ایک گروہ نے المستنصر باللہ کے بڑے بیٹے نزار کو اس کا جانشین امام تسلیم کیا جبکہ دوسرے گروہ نے المستنصر کے دوسرے بیٹے احمد المستعلی باللہ کو امام/خلیفہ مانا۔ نزار کے پیرو نزاریہ کہلائے اور مستعلی کے مستعلویہ۔ نزاریوں کو مستحکم کرنے والا داعی حسن بن صباح تھا جس کا تعلق ایران سے تھا۔ حسن بن صباح جس کا ذکر ہم اگلے ابواب میں کریں گے۔ ۳۸۴ھ۔۰۹۰۱ء میں شمالی ایران میں قلعہ ’الموت‘ پر قابض ہوگیا۔ چونکہ مصر میں حکومت المستعلی کے حصہ میں آچکی تھی لہذا نزاریوں کا مرکز ’الموت‘ قرارپایا۔ اس طرح نزاریوں کا تعلق مصر سے کٹ گیا اور انہوں نے’مستعلویہ‘ کے مقابل اسمٰعیلیوں کی ایک اہم شاخ کی حیثیت اختیارکرلی۔اسی وجہ سے نزاریوں کو مشرقی اسمٰعیلی بھی کہاگیا۔نزاریوں کی زیادہ شہرت اُن کے داعیوں سے ہوئی جو خداوندِ ’الموت‘ کہلائے جاتے تھے ان میں حسن بن صباح کی حیثیت نمایاں ہے جوتاریخ میں ’شیخ الجبال‘ کے نام سے معروف ہے اور نزاریہ سلسلہ کا بانی مانا جاتا ہے۔

اعمال شریعت سے متعلق نزاریوں کے عقائد: 

اعمال شریعت سے متعلق نزاریوں کے عقائد:

نزاری ائمہ میں سب سے مشہور امام حسن علی ذکرہ السلام ہیں۔ان کا زمانہئ امامت ۷۵۵ھ۔۱۶۵ھ، ۲۶۱۱ء۔ ۶۶۱۱ء ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ۹۵۵ھ۔۳۶۱۱ء میں انہوں نے تمام اسمٰعیلیوں کو جمع کیا اور قلعہ الموت سے متصل منبر پر کھڑے ہوکر ایک خطبہ  ۱ ؎ (۱ ؎ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ جلد سوئم میں صرف خطبہ دینے کا ذکر ہے۔خطبہ کا متن نہیں دیاگیا جس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ان کو تاریخ میں خداوندئ الموت‘ کہاگیا ہے) دیا جس سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔

”قائم القیامہ میرے ذریعہ سے ہے۔ میں امامِ زماں ہوں اور امرونہی صرف شریعت کے رسم ورواج ہیں اور اُن کی تکلیف کو میں اہل دنیا سے بالکل اٹھالیتا ہوں چونکہ یہ زمانہ قیامت کا ہے“ اُس دن الموت کے تمام اسمٰعیلیوں نے بڑاجشن منایااوریہ دن تاریخ میں ”عید القیام“ کے طورپر مشہورہوا ہے۔ پھر حضرت امام نے قیامت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ”آج میں تم کو تمام شریعت کی تکلیفوں سے نجات دیتا ہوں۔آج تمہارے لئے رحمت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ میں نے تم سب کو شریعت اورقیامت کے اسرار سے مطلع کیا“۔  ۲؎ (۲ ؎ تاریخ فاطمین مصر صفحہ ۶۷۱)

یہ اقتباس نزاری فاضل علی محمد جان محمد چنارا کی کتاب ’نورمبین حبل اللہ متین‘ سے ہے۔چنارا صاحب اسی کتاب میں مزید لکھتے ہیں:

”حضرت امام حسن علی ذکرہ السلام نے ان لوگوں کو تاویلی علم سکھایا اوربتایا کہ دنیا قدیم ہے۔ زمانہ جاودانی ہے۔قیامت صرف روحانی ہے۔ بہشت ودوزخ معنوی (باطنی) ہیں۔ ہر ایک شخص کی قیامت اُس کی موت ہے۔ باطن میں خلقت کو خدائے تعالیٰ کی خدمت میں رہنا چاہیے

اورظاہر میں صوابی طورپر زندگی بسرکرنی چاہیے۔جس کے لئے شریعت کے اعمال کی ساری پابندی اور بندشیں مخلوق سے اٹھائی جاتی ہیں۔“  ۱ ؎  (۱ ؎؎ ؎ تاریخ فاطمین مصر صفحہ۷۷۱)

فان ہیمر نے بھی عید قیام اور امام حسن علی ذکرہ السلام کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جوقریب قریب وہی ہے جیسا کہ اوپر چناراصاحب نے بیان کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فان ہیمر نے عید قیام پر عام شراب نوشی کابھی ذکر کیا ہے۔    ۲ ؎  (۲ ؎؎Histry of the Acsxcious   صفحہ۱۴۱)

امام حسن علی ذکرہ السلام کی نسبی حیثیت

امام حسن علی ذکرہ السلام کی نسبی حیثیت

اسمٰعیلیہ کے یہاں نسب سب سے اہم ہے لیکن فان ہیمر نے امام حسن کے نسب کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ اسقدرشرمناک ہے کہ ہم اس کو نقل کرکے اپنی کتاب کی سنجیدگی مجروح کرنا پسند نہیں کرتے صرف اُس کے تاثرات پیش کرتے ہیں:

“The honour of the mother was sacrificed to the ambition of the son; and because adultery afforded grounds to his pre-tensious the scanctity of the harem was forced to give place to the merit of ambition”

ترجمہ: ماں کی ناموس کو بیٹے کی آرزویاحوصلہ مندی پرقربان کردیاگیا اورچونکہ خیانت عصمت سے اُس کے دعوے کو استحکام ملتا تھا لہذاذاتی خواہش کی تکمیل کے لئے حرم کے تقدس کو بھی پامال کردیاگیا۔“

صورتحال جوبھی رہی ہو یہ بات اسمٰعیلیوں کے یہاں نئی نہیں ہے خود پہلے فاطمی خلیفہ اور پہلے اسمٰعیلی امام (ظاہر) یعنی عبیداللہ المہدی کا نسب گیارہ سوسال سے موضوع بنا ہوا ہے جیسا کہ ہم آئندہ کسی باب میں ذکر کریں گے۔

اعمال شریعت کی طرف واپسی

اعمال شریعت کی طرف واپسی

اعمال شریعت چھوڑدینے کے مضر اثرات کا ذکر ہم نے گذشتہ باب میں کیا ہے۔ نزاریوں کے اعمالِ شریعت چھوڑدینے کے اثرات بھی حسب توقع بُرے ہوئے اور شورش ہوگئی۔ لہذا امام حسن علی ذکرہ السلام کے پوتے امام جلال الدین حسن نے(۷۰۶۔۸۱۶ھ) (۰۱۲۱ء۔۱۲۲۱ء) نے ظاہر شریعت کے طریقہ کوجاری کیا لیکن اس نوعیت کی کوششوں کا جونتیجہ

ہونا تھا وہ ظاہر ہے۔ علی محمد چناراصاحب اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”حضرت امام چونکہ اہل دنیا کے مالک ہیں۔ اسلئے زمانے کی موافقت کے لحاظ سے بندوبست اُن کی ذات سے تعلق رکھتا

ہے۔اکثر اماموں کے عہد میں ایسی حرکتیں ظہورمیں آئی ہیں اور پھر قرارپاگئی ہیں مگر بیرونی اسباب کو دیکھ کراکثر لوگ حضرت امام کے مخصوص مطلب کو نہ سمجھ کر من مانی باتیں کرتے رہتے ہیں۔“

نزاری فاضل کی مندرجہ بالاوضاحت کی حیثیت ضروراہم ہوتی لیکن ظاہری شریعت کی پابندی سے فراغت اور شراب نوشی تو اسمٰعیلیہ کے یہاں کوئی نئی بات نہیں۔اس سلسلہ میں ہم ایک دلچسپ تاویل پیش کرتے ہیں جو بہ یک وقت اسمٰعیلیہ کے یہاں اوامرونہی کی پابندی کی حیثیت اور تاویل کے ذریعہ ہر معاملہ اور ہرواقعہ کا جواز پیش کرنے کی بہترین مثال ہے، کہاجاتا ہے کہ اولاً حضرت امام جعفر الصادقؒ نے اپنے بڑے بیٹے اسمٰعیل پر اپنی جانشینی کے لئے نص کی تھی لیکن حضرت اسمٰعیل خلافِ شرع عمل (شراب نوشی) کے مرتکب ہوئے اور اُن کے والد بزرگوار نے اُن پر کی ہوئی نص اپنے دوسرے بیٹے حضرت موسیٰ الکاظمؒ کے حق میں بدل دی۔اس خلاف شرع عمل کی تاویل کے متعلق ایک محقق اس طرح لکھتا ہے:

”اور یہ تاویل کہ اسمٰعیل کا ایسا عمل کرنا (شراب نوشی) اُن کی اعلیٰ روحانیت کا ایک ثبوت ہے کیونکہ وہ ظاہر شریعت کے پابند نہ تھے بلکہ باطن کے قائل تھے۔ یہ شیعوں کے اُس رحجان کی ایک مثال ہے جو تاویل یعنی باطنِ شریعت کی طرف ہے“ ۱ ؎  (۱ ؎تاریخ فاطمین مصر حصہ اول صفحہ ۱۴)

(D.B. Macdonald, Devel: of Muslim    Theology etc. p.42)

اس صورتحال کے بعد کسی کو کسی بھی معاملہ میں کیا کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ اقبال نے کس قدر صحیح کہا ہے۔

قرآن کو بازیچہئ تاویل بناکر چاہے تو خود ایک تازہ شریعت کرے ایجاد

ایران میں نزاری اقتدارکاخاتمہ

ایران میں نزاری اقتدارکاخاتمہ

ایران میں نزاری اقتدار جس کی ابتداء ۳۸۴ھ۔ ۰۹۰۱ء میں ہوئی تھی۔ایک سو سترسال بعد ۴۵۶ھ۔ ۶۵۲۱ء میں تاتاریوں کے
ہاتھوں ختم ہوگیا مگر اسمٰعیلی مذہب ایران میں مقبول نہ ہوسکا۔ لہذا اسمٰعیلی دعوت کے مرکز بدلتے رہے۔ کبھی کہیں کبھی کہیں۔ اس درمیان میں نزاری دوحصوں میں بٹ گئے۔قاسم شاہی اورمحمد شاہی۔ قاسم شاہی سلسلہ کے امام آغا خاں اول ۸۵۲۱ھ۔ ۲۴۸۱ء میں ایران سے ہندوستان آئے یہ کیفیات ایران سے متعلق تھیں۔اب ہم آئندہ تسلسل کے لئے برصغیر میں نزاری داعیوں /پیروں کا کرداربیان کریں گے جس کی نوعیت خصوصی ہے۔

برصغیر میں نزاری داعیوں /پیروں کا کردار

برصغیر میں نزاری داعیوں /پیروں کا کردار

برصغیر پاک وہند میں اسمٰعیلی مذہب کے داعیوں کاذکر نویں صدی عیسوی میں ملتا ہے۔ یہ لوگ قاہرہ، عراق اور یمن سے سندھ اور پنجاب یعنی مغربی پاکستان میں آنے شروع ہوئے۔ اورآہستہ آہستہ سیاسی اقتدار حاصل کرلیا۔ یہ لوگ قرامطہ کہے جاتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ محمودغزنوی کی مہموں کا مقصد قرامطہ کی بیخ کنی بھی تھا چونکہ قرامطہ قتل وغارت کے لئے بدنام ہوچکے تھے۔ شہاب الدین غوری نے بھی اُن کے خلاف یورشیں کیں اورآخرکارقرامطہ کا غلبہ ختم ہوگیا۔ ۱ ؎ ( ۱ ؎ Shorter Incyclopaedia of Islam کے مطابق ان میں کچھ اپنے سابق مذہب پر لوٹ گئے اورکچھ اہل سنت والجماعت میں شامل ہوگئے۔ مقالہ ’اسماعیلیہ‘) اس میں اسلامی حکومت کے استحکام اور سنی خیالات کی اشاعت کوبھی دخل تھا۔ اگرچہ تیرہویں صدی عیسوی کے

بعد قرامطہ کا ذکر ہندوستانی تواریخ میں نہیں ملتا لیکن اُن کے جانشین وہ لوگ ہوئے جن کو شمالی ایران کی اسمٰعیلی (نزاری) ریاست ’الموت‘ سے بھیجے ہوئے داعیوں / پیروں نے اسمٰعیلی مذہب کی طرف راغب کیا۔ ان لوگوں کو ابتداً خواجہ کہاگیا جوبگڑکر خوجہ یاکھوجہ‘ ہوگیا اس طرح کشمیر، پنجاب وسندھ میں ’نزاری‘ خواجہ کہلائے اِن نزاری داعیوں / پیروں کے مختلف حالات پیش کئے جاتے ہیں۔

(۱) نورالدین یا نورشاہ

(۱) نورالدین یا نورشاہ

برصغیر میں نزاری داعیوں کا سلسلہ نورالدین یا نورشاہ ۱ ؎  (۱ ؎ نورالدین یا نورست گروکا تاریخ ائمہ اسماعیلیہ میں نہیں ملتا۔شیخ محمد اکرام نے ’آب کوثر‘ میں خاصی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے صفحات ۰۴۳۔۳۴۳۔ شیخ محمد اکرام نے آرنلڈ کی دعوات اسلام اور بمبئی گزیپٹر جلد نہم حصہ دوم کا حوالہ دیا ہے۔ تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم میں ڈاکٹر زاہد علی نے بھی نورالدین کاذکرکیا ہے) سے شروع ہوتا ہے انہیں ’الموت‘ سے بارہویں صدی میں بھیجا گیا تھا۔ ان کی دعوت کا علاقہ گجرات اور نوساری تھا۔ انہوں نے اپنانام ہندوانہ رکھا اور بہت سے افرادکو جن کا تعلق نیچ ذاتوں سے تھا اسمٰعیلی مذہب میں شامل کیا۔یہ ’نورست گرو‘ کہلائے جاتے تھے (انہوں نے۴۳۶ھ۔ ۷۳۲۱ء میں سلطانہ رضیہ کی حکومت کو غیرمستحکم دیکھ کر اسمٰعیلی جھنڈالہرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے) ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی طریقہ تبلیغ سے قطعی ہٹ کرہندوشعاراپنانے میں پہل کی۔

(۲) پیرشمس (شاہ شمس الدین)  ۲۴۶۔ ۷۵۷ھ، ۱۴۲۱ء۔۶۵۳۱ء

(۲) پیرشمس (شاہ شمس الدین)  ۲۴۶۔ ۷۵۷ھ، ۱۴۲۱ء۔۶۵۳۱ء

سید شمس الدین کو  ’الموت‘ میں نزاری سلسلہ کے امام قاسم شاہ(۰۱۷۔۱۷۷ھ، ۰۱۳۱۔۱۷۳۱ء) نے پیر کا لقب دے کرایران سے باہر تبلیغ کرنے کی ہدایت کی۔اس وجہ سے یہ پیر شمس کہلائے۔ انہوں نے کشمیر وپنجاب کے علاقہ میں اسمٰعیلی مذہب کی دعوت دی۔ ان کی پیدائش سبز وار میں ہوئی تھی اس لئے شمس سبزواری کہلاتے ہیں۔ ۲ ؎ (۲ ؎ پنجاب کی ایک جماعت جو بظاہر ہندؤوں میں شامل ہے اورخوجوں کے موجودہ امام آغاخاں کو اپنادیوتا تسلیم کرتی ہے۔ اپنے آپ کو شاہ شمس کے نام پر شمسی کہتی ہے (آب کوثر۔ صفحہ ۴۴۳) ان کا مزارملتان میں ہے۔ پیر شمس نے بہت سے ’گنان‘ لکھے۔

گنان کیا ہے؟

’گنان‘ کاذکرآئندہ بھی آئے گا لہذا اُس کی تعریف ضروری ہے۔ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ میں ’گنان‘ کے متعلق لکھا ہے:

’گنان‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی روحانی علم کے ہیں۔ یہ منظوم کلام تیرھویں اورچودھویں صدی کی مروج زبانوں میں پائے جاتے ہیں جن میں سندھی‘ پوربی‘ مرہٹی‘ سرائیکی‘ گجراتی‘ پنجابی‘ اورہندی سے ملتے جلتے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ کلام دین کی تعلیم دیتے ہیں جن میں خاص طورپر ذکر‘ فکر‘ عبادت‘ مرشد کامل‘ اہل بیت‘ امام کی شناخت وغیرہ کے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مروج ہندوشنو پنتھ کے عقائد اور مذہبی بیان اور واقعات کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے“۔ ۱ ؎  (۱ ؎  شائع کردہ شیعہ امامی اسماعیلیہ ایسوایشن برائے پاکستان۔ کراچی صفحہ ۶۲۱‘۷۲۱ حصہ سوئم)

پیر شمس نے متعدد گنان لکھے ہیں جن کے نام نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ اُن کی فکرونظر کے آئینہ دار ہیں۔ مثلاً ’من سمجھانی‘ گربی گنان‘

چندربان‘ برہم پرکاش‘ وغیرہ وغیرہ۔پیر شمس نے ایک چھوٹا دس ’اوتار‘ بھی لکھا۔ ان گنانوں سے متعلق عالیجاہ شیخ دیدارعلی مرتب تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ  ۲ ؎ (۲ ؎  شائع کردہ شیعہ امامی اسماعیلیہ ایسوایشن برائے پاکستان۔ کراچی صفحہ ۰۳۱ حصہ سوئم)لکھتے ہیں۔

پیر کا کلام زیادہ ترصوفیانہ ہے جس میں دین کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دعوت کے نادر نمونے بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہندومت کو اسلامی رنگ میں پیش کیا ہے۔“

(۳) پیروداعی صدرالدین(۰۰۷۔۹۱۸ھ، ۰۰۳۱۔۶۱۴۱ء)

(۳) پیروداعی صدرالدین(۰۰۷۔۹۱۸ھ، ۰۰۳۱۔۶۱۴۱ء)

آپ کا اصل نام محمد تھا اور لقب ’بارگر‘ ’سودیو‘ ہریشچندر‘ ’حاجی صدرشاہ اور صدرالدین تھے۔ ہندو انہیں مچھرناتھ کہتے تھے۔ پیر شمس آپ کے پرداداتھے۔الموتی امام اسلام شاہ (۱۷۷۔۷۲۸ھ، ۰۷۳۱۔۳۲۴۱ء) نے آپکو پیر کا لقب دے کرہندوستان روانہ کیا۔ انہوں نے بہت سے گنان لکھے۔جن کے نام یہ ہیں۔ ’آرادبوجھ‘ نرنجن‘ ونود‘ اتھروید‘ باون گھاٹی‘ دعا گٹ پاٹ‘ کھٹ درشن‘ کھٹ نرنجن وغیرہ ان کے گنانوں کی تعداد ۰۵۲ بتلائی جاتی ہے۔ ۱ ؎  (۱ ؎  شائع کردہ شیعہ امامیہ ایسوایشن برائے پاکستان۔ کراچی صفحہ ۶۴۱ حصہ سوئم) گنان لکھنے کے علاوہ پیرصدرالدین نے ہندوستان میں اسمٰعیلیوں کی تین جماعتیں منظم کیں۔ جن کے منظم پنجاب میں مکھی سیٹھ شام داس لاہوری‘ کشمیر میں مکھی سیٹھ تلسی داس اور سندھ میں مکھی تریکم تھے  ۲ ؎ (۲ ؎  آب کوثر صفحہ ۵۴۳ بحوالہ اسمٰعیلیوں کی تاریخ ازمسٹر اے۔ایس۔پکلے) پیر صدرالدین نے ایک دس اوتار بھی لکھا۔ یہ بھی پیر شمس کی طرح ہندوؤں میں رہتے تھے۔ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

”انہوں نے ہندومذہب کے بعض عقائد کو صحیح تسلیم کیا تاکہ اسمٰعیلیہ مذہب کی اشاعت میں آسانی ہو۔ انہوں نے ایک کتاب دس اوتارکے نام سے لکھی یارائج کی جس میں رسول اکرمؐ کو برہما، حضرت علیؓ کو وشنو اور حضرت آدم ؑ کو شیو سے تعبیرکیا ہے۔ یہ کتاب خوجہ قوم کی مقدس کتاب سمجھی جاتی ہے اور مذہبی تقریبوں پر اورنزع کے وقت مریض کے بستر کے قریب پڑھی جاتی ہے۔۳ ؎ (۳ ؎  آب کوثر صفحات۶۴۳۔۷۴۳ شیخ محمد اکرام سندھ گزیٹیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ کتاب ’دس اوتار‘ کی تصنیف میں پیر صدرالدین نے ایک عالم برہمن سے مددلی)

(۴) پیرکبیر الدیں (۲۴۷۔۳۵۸ھ، ۱۴۳۱۔۹۴۴۱ء)

(۴) پیرکبیر الدیں (۲۴۷۔۳۵۸ھ، ۱۴۳۱۔۹۴۴۱ء)

کبیرالدین‘ پیرصدرالدین کے بیٹے تھے اُن کو بھی الموتی امام اسلام شاہ (۱۷۷۔۷۲۸ھ،۰۷۳۱۔۳۲۴۱ء) نے پیر کا لقب دیا اورہندوستان میں دعوت کے کام کی نگرانی پر مامورکیا۔پیر کبیرالدین یاپیر حسن کبیرالدین نے بھی متعدد گنان لکھے۔ ان کے نام ملاحظہ ہوں۔ اننت اکھاڑو‘ برہم گاونستری‘ اننت کے نوچھگے‘ اننت کا دیوا‘ ستگرنورکا دیوا‘ وغیرہ وغیرہ۔

(۵) سیدامام شاہ (۴۳۸۔۶۲۹ھ، ۰۳۴۱۔۰۲۵۱ء)

(۵) سیدامام شاہ (۴۳۸۔۶۲۹ھ، ۰۳۴۱۔۰۲۵۱ء)

پیرکبیرالدین کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے انہوں نے بھی متعددگنان لکھے جن کے حسب دستور عجیب عجیب نام ہیں۔ مثلاً گھوگھری گنان‘ بھائی بڈائی گنان‘ مول گاتیری‘ جنکار وغیرہ۔ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ کے اعتبار سے ان میں ”ہندومت کا زیادہ ذکر ملتا ہے۔“
نزاری پیروں کی خصوصیات

نزاری پیروں کی خصوصیات

ہم نے اسمٰعیلی (نزاری) پیروں کاذکر بہت مختصر کیا ہے۔جوچیز ان سب میں مشترک ہے وہ اُن کی فکرونظر پر ہندومت کا غلبہ ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہندومت کے بعض عقائد کو صحیح تسلیم کیا۔ ہندوانہ نام رکھے حتیٰ کہ اپنی دعوت کے ارکان کے نام بھی ہندوانہ رکھے مثلاً مکھی‘ کامڑیا وغیرہ۔مقامی تہذیب وتمدن کی برتری تسلیم کرنے میں بھی تامل نہیں کیا۔اور اس طرح ایک نادان دوست کا کرداراداکیا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پیر کبیرالدین کے بعداُن کے بیٹے کو الموتیٰ امام کی جانب سے پیر کالقب نہیں ملا۔بلکہ الموتی امام کے نمائندوں کو وکیل کہاجانے لگا۔  ۱ ؎  (۱ ؎ سندھ گزیٹیر میں ایک پیر یا نائب پیر خواجہ داؤد (یادادو) کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ میں اس کو وکیل کہاگیا ہے۔ اس کے پیرو بھی ہندوانہ نام رکھتے تھے۔ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ جلد سوم صفحات ۲۰۲، ۵۱۲) یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسمٰعیلی داعی ہندومت کے مقامی دباؤ کا مقابلہ نہ کرسکے حتیٰ کہ تاریخ ائمہ اسمٰعیلیہ کے مطابق امام شاہ یا امام الدین کی وفات کے بعد اس کے بیٹے سید نرمحمد شاہ نے جن کو نورمحمد شاہ بھی کہتے ہیں اپنا تعلق الموتی امام سے توڑلیااور ایک ست پنتھی یا امام شاہی فرقہ وجودمیں آیا جو اسمٰعیلی خوجوں کی نسبت کبیر پنتھی اور نانک پنتھی طریقوں سے زیادہ ملتاجلتا ہے۔ ۱ ؎  (۱ ؎ آب کوثر صفحہ ۰۵۳) اس کا ذکر ہم گذشتہ باب میں کرآئے ہیں یوں کہاجاتا ہے کہ اسمٰعیلی دعوت کا باقاعدہ سلسلہ بہت کمزورپڑگیا۔اپنا اقتدارقائم رکھنے کے لئے الموتی امام عبدالسلام (۰۸۸۔۹۹۸ھ، ۵۷۴۱۔۳۹۴۱ء) نے ایک کتاب ’پندبات جوانمردی‘ تصنیف کی جسے ’پیر‘ کادرجہ دیاگیا ۲ ؎  (۲ ؎ ؎ آب کوثر صفحہ۱۵۳) بہرحال اسمٰعیلیوں میں سے کچھ نے اپنے آپ کو شیعوں (اثناعشریہ) میں شامل کرلیا۔ کچھ سنی ہوگئے اور کچھ ہندومت پر واپس ہوگئے یہ نتیجہ نکلا تین سو سالہ اسمٰعیلی (نزاری) تبلیغ کا۔

نزاری پیر اور تقیہ

نزاری پیر اور تقیہ

ان نزاری داعیوں /پیروں کاایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ کبھی اپنے آپ کوسنی ظاہر کرتے تھے کبھی شیعی کبھی صوفی سلسلہ سے وابستہ ظاہر کرتے تھے۔ کبھی برسوں ہندومندروں میں پوجاپاٹ کرتے تھے۔ تاریخ اوچ میں مولوی حفیظ الرحمٰن خوجوں کے متعلق لکھتے ہیں:

”اوچ کے اسمٰعیلی خوجے بالعموم اب اثناعشری ہوگئے ہیں۔اس سلسلہ کے بزرگ بطور تقیہ اپنے آپ کو سہروردی سلسلہ سے منسوب ہونے کے مدعی ہیں۔“ ۳ ؎  (۳ ؎ آب کوثر صفحہ ۹۴۳)

ایک حیرت انگیز تقیہ (جوچارسوسال تک رازرہا)

ایک حیرت انگیز تقیہ (جوچارسوسال تک رازرہا)

اس سلسلہ میں آغاخاں اول کا انکشاف ناظرین کے لئے حیرت کاباعث ہوگا۔ شیخ محمد اکرام آب کوثر میں لکھتے ہیں:

”اسلامی حکومت کے دوران میں نزاری عام مسلمانوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے تھے۔اُن کی تجہیزوتکفین اور بیاہ شادی کی رسمیں سُنی علماء

اداکرتے (اگرچہ وہ اپنے دیوانی جھگڑے اپنی پنچائیت سے طے کراتے) مغربی پنجاب میں کئی اسمٰعیلی سنی پیروں کے مرید تھے۔ بلکہ صدرالدین کی نسبت کہاجاتا ہے کہ وہ سنی مسلمان تھے لیکن جب انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں آغاخان ہندوستان آگئے تو جماعت کو زیادہ منظم اورجداگانہ طریقے پر ترتیب دیاگیا۔ایک تووہ لوگ جوخوجوں سے باہر ہیں (مثلاً پنجاب کے شمسی اورگجرات کے ست پنتھی) انہیں بھی آغاخاں کی قیادت میں منسلک کرنے کی کوشش کی گئی اور ہورہی ہے اوردوسرے آغاخاں اول نے حکم دیا کہ اُن کے پیروبیاہ شادی‘ تجہیزوتکفین اور وضو طہارت میں اپنی جماعت کی پیروی کریں۔بعض لوگوں نے اس کی مخالفت کی بلکہ بمبئی ہائی کورٹ میں اس مسئلے پر۴۸۸۱؁ء میں ایک اہم مقدمہ لڑاگیا۔ جس میں ان لوگوں کی طرف سے کہاگیا کہ پیرصدرالدین سنی تھے اور شروع سے اُن کے پیروبیاہ شادی وغیرہ میں سنی علماء کو بلاتے رہے ہیں۔آغاخاں اول کی طرف سے کہاگیا کہ یہ سب باتیں تقیہ میں شامل تھیں اور پیر صدرالدین کو اسمٰعیلی (نزاری) امام وقت شاہ اسلام شاہ نے اس لئے داعی بناکر بھیجاتھا کہ وہ اسمٰعیلی عقائد پھیلائیں۔عدالت نے آغاخاں اول کا یہ دعویٰ قبول کرلیا۔جس پر بعضے خوجے اُن سے علیحدہ اوراعلانیہ طورپرسنی ہوگئے۔“ ۱ ؎ ( ۱ ؎ آب کوثر صفحات ۱۵۳، ۲۵۳)

اسمٰعیلی مذہب کی مندرجہ بالا اندازمیں تبلیغ اور اُس کے اثرات وہی ہوئے جو ہونے چاہییں تھے۔ یعنی ہندوستانی نزاریوں کے اعتقادات تضادات کا مجموعہ ہوکررہ گئے۔جن کو کسی بھی ایک مذہب سے وابستہ نہیں کیاجا سکتا۔ آغاخاں اول کی ہندوستان میں آمد کے بعد رفتہ رفتہ نزاری آغاخانی کہلائے جانے لگے۔ان میں وہ چند خاندان بھی شامل ہیں جو ایران سے آغاخاں اول کے ساتھ آئے اورہندوستان میں سکونت پذیر ہوگئے۔

آغاخانیوں /نزاریوں کی مذہبی کتابیں 

آغاخانیوں /نزاریوں کی مذہبی کتابیں

۱۔جوگنان پیروں نے (جن کاذکراوپرکیاگیا ہے) لکھے ان گنانوں کے مختلف مجموعے بمبئی میں اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن برائے بھارت/انڈیا نے شائع کئے ہیں۔

۲۔پندیات جوانمردی۔ اس کتاب کا ذکراوپرکیاگیا ہے۔اس کتاب میں نصیحتیں اور عالی ہمتی کے اصول درج ہیں۔

۳۔ دس اوتار: یہ ایک نقشہ (Chart) سا ہے جس میں اوتارگنائے گئے ہیں۔

۴۔ حاضر امام (آغاخاں) کے فرامین: آغاخاں یعنی حاضرامام جو فرمان جاری کرتے ہیں۔اُن کا مجموعہ

ان کتابوں سے نمونے پیش کئے جاتے ہیں:

۱۔گنان کا نمونہ   ۱ ؎  ( ۱ ؎ دیکھئے آغاخانیت کیا ہے؟ شائع کردہ سواد اعظم اہل سنت پاکستان)

۱۔گنان کا نمونہ   ۱ ؎  ( ۱ ؎ دیکھئے آغاخانیت کیا ہے؟ شائع کردہ سواد اعظم اہل سنت پاکستان)

۱۔ ”شاہ (یعنی امام) رامچندر کے روپ میں آیا۔کرشن کے روپ میں آیا۔۔۔۔“ (گنان نمبر ۳۷۱ مجموعہ از پیر صدرالدین۔ شائع کردہ اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن برائے بھارت بمبئی)

۲۔ ”اس کلجگ میں خداوندعالم کا مظہر ظہور انسانی جسم میں ہے اوروہ ساری روحوں کا شہنشاہ ہے یعنی حاضر امام“

(گنان برہم پرکاش ازپیرشمس الدین۔ مقدس گنان کامجموعہ۔ شائع کردہ اسمٰعیلیہ ایسوسی ایشن برائے بھارت بمبئی)

۳۔ جولوگ علی کودل سے اللہ مانیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(نعوذباللہ)

(گنان مومن چینامنی۔ ازامام شاہ۔ مقدس گنانوں کا مجموعہ)

۲۔ پندیات جوانمردی

۲۔ پندیات جوانمردی

امام نے فرمایا:

”مومن وہ ہے کہ جس کا قول ایک ہو“

”مومن وہ ہے جو حق اورناحق کو پہچانتا ہو“

۳۔ دس اوتار(اول تاپنجم نقل کے لائق بھی نہیں)

۳۔ دس اوتار(اول تاپنجم نقل کے لائق بھی نہیں)

۶۔چھٹااوتارشاہ نے ”رام“ کے روپ میں لیا اوردس سروالے راون کو ہلاک کیا۔۔۔۔“

۸۔آٹھواں اوتارشاہ نے ”کرشن“ کے روپ میں لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

۹۔نوواں اوتارشاہ نے ”بدھ“ کے روپ میں لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

۰۱۔آجکل دسویں اوتار میں ’علی‘ کے روپ میں شاہ ظہور میں ہیں“

۴۔ فرامین

۴۔ فرامین

”اسمٰعیلیوں کے پاس رہبری کے لئے کوئی مخصوص کتاب نہیں مگرزندہ امام ہے۔“

ہم نے نمونے محض تعارف کے لئے دئیے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اسمٰعیلیہ کے بنیادی عقائد معلوم ہونے کے بعد نہ ان ذیلی تحریروں کی کوئی حیثیت باقی رہتی ہے اورنہ ان کے کسی بھی عمل کی۔

اسلامی شعاراورآغاخانی

اسلامی شعاراورآغاخانی

آغاخانیوں کے دواصول ہیں:

۱۔ ”جومعاملات خداکے ہیں انہیں خداسے اورجوقیصر کے ہیں انہیں قیصر سے متعلق رکھو۔“ ۱ ؎ (۱ ؎ اسلام میرے مورثوں کا مذہب صفحہ ۱۴)
Bible – Mark – 12:17))

۲۔ ”جہاں رہو یعنی جس ملک وملت میں رہو اس کاشعاراختیارکرو۔“

ہم اس سلسلہ میں آغاخاں سوم کی خودنوشت سوانح عمری سے اقتباسات پیش کریں گے:

۱۔ ”میں نے عورتوں کی آزادی اورتعلیم کی ہمیشہ ہمت افزائی کی ہے۔ میرے دادا اوروالد کے زمانہ میں پردہ ترک کرنے کے سلسلے میں اسماعیلی دوسرے فرقوں سے بہت آگے تھے حتیٰ کہ ان ممالک میں بھی جوبہت زیادہ رجعت پسند تھے میں نے پردہ بالکل ختم کردیا ہے۔ اب آپ کسی اسماعیلی عورت کو نقاب ڈالے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ ۲ ؎ (۲ ؎ اسلام میرے مورثوں کا مذہب صفحہ ۱۴)

۲۔ ”جہاں تک میرے پیروؤں کے طرززندگی کا تعلق ہے تومیری یہ کوشش رہی ہے کہ میں اُن کوجونصیحتیں کرتا ہوں جومشورے دیتا ہوں انہیں اس ملک اور حکومت کے مطابق بدلتا رہتا ہوں جس میں وہ زندگی گزارتے ہیں۔ چنانچہ مشرقی افریقہ کی برطانوی نوآبادی میں انہیں میری یہ تاکید ہے کہ وہ انگریزی کو اپنی اولین زبان بنائیں اپنے خاندان اور اپنی گھریلوزندگی کی بنیادانگریزی طریقوں پر رکھیں اورشراب وتمباکو نوشی کو مستثنیٰ کرکے عام طورپر برطانوی اورمغربی رسم ورواج اختیارکریں۔“۱ ؎ (۱ ؎ اسلام میرے مورثوں کا مذہب صفحہ۶۴)

نزاریوں (آغاخانیوں) کے دیگر اعمال

نزاریوں (آغاخانیوں) کے دیگر اعمال

کافی عرصہ سے آغاخانیوں کی مذہبی کمیٹی ایک اشتہار بعنوان ”آغاخانی مذہبی عبادات کا پیغام“ کے ذریعہ اپنی مذہبی عبادات سے روشناس کرارہی ہے۔اس اشتہارکے مندرجات بڑے دلچسپ ہیں۔اس پیغام میں بعض اعمالِ شریعت کی تاویلات بتلاکر اُن پر عمل نہ کرنے کا جواز پیش کیاگیا ہے۔ اورکس طرح حاضر امام کو رقومات کی ادائیگی سے عبادات معاف کرائی جاسکتی ہیں۔ ناظرین اس اشتہارکوضمیمہ میں ملاحظہ کرلیں۔ہم اس کے متعلق کچھ عرض کرنا کارِعبث سمجھتے ہیں۔

حاضر امام کورقومات کی ادائیگی

حاضر امام کورقومات کی ادائیگی

آغاخانیوں کے لئے مقررہ رقومات کی ادائیگی کے لئے باقاعدہ جماعتی نظام ہے۔ ان ادائیگیوں کے کئی نام ہیں۔جن میں زیادہ معروف دسوند (آمدنی کا آٹھواں حصہ) اور ’ناندی‘ ہیں۔ اس نوعیت کی ادائیگیوں کی کُل رقم لاکھوں روپیہ تک ہوجاتی ہے۔جس کو حاضر امام کا حق سمجھا جاتا ہے۔اس قسم کی ادائیگیوں کے خلاف آغاخانیوں میں کبھی کبھی آواز بھی اٹھائی جاتی ہے مگربے سود۔ اسی طرح کا ایک واقعہ سید امام الدین کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔سید امام الدین نے(جن کاذکرگذشتہ صفحات میں آچکا ہے) امام وقت کے لئے دسوند لینے کی مزمت کی۔ اس پر امام وقت (الموتی) آغا عبدالسلام نے انہیں جماعت سے خارج کردیا۔اورہندوستان کے لئے پیر یا نائب پیر نامزد کرنے کا سلسلہ بندکردیا۔ بہرحال موجودہ دورمیں اس نوعیت کی ادائیگیاں باعث حیرت ہیں۔

آغاخانیوں کاحکومت برطانیہ سے خصوصی تعلق

آغاخانیوں کاحکومت برطانیہ سے خصوصی تعلق

۸۵۲۱ھ۔۲۴۸۱ء میں نزاریوں کے امام حسن علی شاہ‘ آغاخاں اول نے ہندوستان منتقل ہونے کے بعد برطانوی حکومت کو سندھ میں اقتدارحاصل کرنے میں بہت مدددی۔حکومت برطانیہ نے اس وفاداری کے صلہ میں اُن کو ہزہائنس(His Highness) کا اعزاز عطاکیا۔ حکومت برطانیہ سے وفاداری کا یہ سلسلہ قائم رہا اورآغاخاں سوم سلطان محمد شاہ کو حکومت نے سرکاخطاب عطاکیا۔ ان ائمہ نے حکومت سے وفاداری کایہ فائدہ اٹھایا کہ وہ ہندوستان اوربرطانیہ کے زیراثرعلاقوں میں اپنی جماعت کو اطمینان سے منظم کرنے میں کامیاب ہوگئے اوریہی نہیں بلکہ مصر سے بھی تعلق قائم کرنے میں کامیابی ہوئی کیونکہ نزاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مصر میں فاطمی خلافت کے جائز وارث ہیں۔ حکومت برطانیہ کی وساطت سے وہ مصر میں خود کو دوبارہ روشناس کراسکے وہ اس لئے کہ مصر بھی کچھ عرصہ قبل تک حکومت برطانیہ کے زیراثررہا ہے۔اس کے نتیجے میں سرسلطان محمد شاہ ’آغاخاں سوئم کو۹۵۹۱؁ء میں حکومت برطانیہ کے توصل سے اسوان (مصر) میں دفن کیاگیا۔

مستعلویہ (بوہرے) یا اسمٰعیلی (طیبی)

مستعلویہ (بوہرے) یا اسمٰعیلی (طیبی)

جیساکہ باب سوئم میں ذکرکیاگیا ہے۔ امام المستنصرباللہ (۷۲۴۔۷۸۴ھ،  ۵۲۰۱۔۵۹۰۱ء) کے انتقال پر فاطمیوں میں اُن کے جانشین پر اختلاف ہوا اورالمستنصر کے بڑے بیٹے نزارکوجائز جانشین ماننے والے نزاریہ اورالمستنصر کے دوسرے بیٹے المستعلی کو امام/خلیفہ تسلیم کرنے والے مستعلویہ کہلائے۔اس اختلاف کی وہی نوعیت وصورت تھی جوحضرت جعفرالصادقؒ کے جانشین کے سلسلہ میں اُن کے بڑے بیٹے اسمٰعیل اورایک دوسرے بیٹے موسیٰ الکاظم کے متعلق پیداہوئی تھی جس کے نتیجہ میں اسمٰعیلیہ فرقہ وجود میں آیاتھا۔ بہرحال مستعلویہ (موسویوں /اثناعشریوں کی طرح) خود کو ’اصل‘ کہتے ہیں اور اسمٰعیلی مذہب کے صحیح عقائد کے مدعی ہیں۔اُن کے آخری امام طیب تھے جنہوں نے کمسنی میں ۴۲۵ھ۔۰۳۱۱ء میں غیبت اختیارکرلی اُس وقت سے اُن کے یہاں دورِستر کا آغازہوا یعنی امام مستورہے مگردعوت کا سلسلہ داعیوں کے ذریعہ جاری ہے۔

فاطمی مستعلویہ اورظاہری شریعت

فاطمی مستعلویہ اورظاہری شریعت

ظاہری شریعت کی پابندی کا مسئلہ اسمٰعیلیوں میں ابتداء سے ہی بہت دلچسپ بلکہ مختلف رہا ہے۔ڈاکٹر زاہد علی ۱ ؎  (۱ ؎ تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم صفحات ۴۵۲۔۴۶۲) نے اس بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے جس کا لُبِ لباب انہیں

کے الفاظ میں پیش کیاجاتا ہے:

بہرحال امام معز (۱۴۳۔۵۶۳ھ، ۲۵۹۔۵۷۹ء) کی دعاؤں اوراُن کے باب الابواب جعفر بن منصور الیمن کی کتابوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگلے اور قدیم اسمٰعیلیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ امام محمد بن اسمٰعیل کے عہد سے ظاہری اعمال اٹھ گئے اورعلم باطن کا دورشروع ہوا چنانچہ بعض قدیم اسمٰعیلی فرقے مثلاً قرامطہ اور نزاری (خوجے) یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ امام مہدی (عبیداللہ المہدی) اور اس کے جانشینوں (فاطمی خلفاء/وائمہ) نے اس قسم کے عقیدے ظاہر نہیں کئے۔ اس کی وجہ مستشرق ’اویری‘ نے یہ بتائی ہے کہ اِن حکمرانوں کو بلادِ مغرب۔مصر اورشام وغیرہ پر مستقل حکومت کرنے کا موقع ملا اوران ممالک میں اکثریت اہل سنت کی تھی اسلئے انہوں نے صرف ایسے عقیدے ظاہر کئے جو ان کی رعایا سے ملتے تھے۔“  ۱ ؎ (۱ ؎ تاریخ فاطمین مصر حصہ دوم صفحہ ۳۶۲)

واضح رہے کہ اسمٰعیلیوں کے یہاں امام/خلیفہ ابوتمیم معدالمعزلدین اللہ (۱۴۳۔۵۶۳ھ،، ۲۵۹۔۵۷۹ء) جملہ فاطمی ائمہ میں ایک خصوصی حیثیت کے مالک سمجھے جاتے ہیں وہ زیادہ تر مولانا معز کہتے جاتے ہیں اُن کی دعائیں اسمٰعیلیوں کے یہاں بہت معتبر اورمتبرک مانی جاتی ہیں۔ ۲ ؎  ( ۲ ؎ یہ دعائیں سات ہیں جو اتوار سے شروع ہوتی ہیں۔ آخری دعاشنبہ (سینچر) کی ہے۔اتوار سے دعاؤں کا شروع ہونا نصرانی اثرات کا ثبوت ہے۔ (ایضاً صفحہ ۵۵۲) ڈاکٹر زاہد علی نے اُن کی دعاؤں سے وہ عربی متن بھی دیا ہے جس کی روسے ظاہری اعمال کی پابندی اٹھ گئی ہے۔ مگر اس صریح بیان کے بعد بھی ایک دلچسپ تاویل پیش کی گئی جس پرمستشرق ایوانو سے ضبط نہ ہوسکا اُس کے تاثرات ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے:

Sayyidna Idris obvously tries here, as on many other occasions, to avoid falling between two stools, without any convincing result. This is one of the examples of that mystic vision, in which two contradictory statements are both admitted as true at one and the same time. In such cases the student is required to possess strong confidence in the honesty of the author to treat his statements seriously, and not to take it for ordinary forbishness. (The Rise of the Fatimids. P.244)

ترجمہ: حسب سابق اِس مرتبہ بھی سیدنا ادریس نے تذبذب کا شکارہوکر غلط راستہ اختیارکرنے سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن نتیجہ غیراطمینان بخش رہا۔ یہ عارفانہ تصورات کی بہت سی مثالوں میں ایک ہے جن میں دومتضاد بیانات کو ایک ہی وقت میں درست قراردیاجاتا ہے۔ ایسے حال میں حقیقت کے متلاشی کو مصنف کی امانت پر اعتماد کامل کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اُس کے بیانات کوسراسر حماقت سمجھنے کے بجائے درخورِاعتناء سمجھ سکے۔“

متذکرہ بالابیانات سے ظاہر ہے کہ فاطمیوں نے اگر ظاہری شریعت کی پابندی تو اس وجہ سے کی کہ اُن کی حکومت میں اہل سنت والجماعت کی کثرت تھی اوراُن کے لئے اپنااقتدار قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اُن کویعنی اہل سنت کو مطمئن رکھنے کے لئے ظاہری شریعت کی پابندی کریں۔ یہ پابندی مصر میں فاطمی اقتدارکے دوران مصلحت وقت کے تحت برقراررہی اوراسمٰعیلی مرکزِدعوت کے ۷۶۵ھ۔۲۷۱۱ء میں یمن منتقل ہونے پرمستعلویہ نے اس کو قائم رکھا کیونکہ یمن میں اُن کے اردگرد اثناعشری اورزیدیہ تھے جن کے یہاں اعمالِ شریعت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔مستعلویہ میں یمن سے ۶۴۹ھ۔۰۴۵۱ء میں ہندوستان منتقل ہونے کے بعد بھی ظاہری شریعت کی پابندی برقراررہی۔کیونکہ مصرکی طرح ہندوستان میں اہل سنت کی اکثریت ہے اوراثناعشری بھی ہیں۔

ہندوستان مرکزِدعوت منتقل ہونے کے بعد مستعلویہ بوہرے کہلائے جیساکہ گذشتہ باب میں بیان کیا گیا ہے۔ ۹۹۹ھ۔۰۶۵۱ء میں بوہرے دوحصوں میں بٹ گئے‘ ایک ’داؤدی‘ دوسرے ’سلیمانی‘ رفتہ رفتہ ان میں مزیدفرقے پیداہوگئے جو ’مہدی باغ والے‘ اور ’علّیہ‘ کے نام سے معروف ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ سلیمانیہ میں جوزیادہ تر یمن میں ہیں اور مہدی باغ والوں میں قائم القیامتہ‘ کاظہورہوچکا ہے لہذا خیال کیاجاتا ہے کہ جیسا کہ اسمٰعیلیہ میں ہوتارہا ہے وہ بھی ظاہری شریعت کی پابندی سے آزاد ہوگئے ہوں گے۔ البتہ داؤدی بوہرے مصلحت وقت کے تحت اعمال شریعت کے بدستورپابندنظر آتے ہیں۔

مستعلویہ کی مقدس کتابیں 

مستعلویہ کی مقدس کتابیں

مستعلویہ کے یہاں چارکتابیں بہت مقدس سمجھی جاتی ہیں۔

۱۔ رسائل اخوان الصفا جن کو قران الائمہ کہاجاتا ہے۔ان رسائل کا ذکر گذشتہ باب میں آچکا ہے۔

۲۔ قاضی نعمان بن محمد متوفی ۳۶۳ھ۔ ۴۷۹ء کی کتاب دعائم الاسلام جو فقہ سے متعلق ہے۔

۳۔ ہبتہ اللہ بن موسیٰ الشیرازی (المؤید فی الدین) متوفی ۰۷۴ھ۔۷۷۰۱ء کی مجالس المؤیدیہ جس میں قرآنی آیات اور پند فقہی احکام کی تاویلات بیان کی گئی ہیں۔

۴۔ احمد حمید الدین الکرمانی متوفی ۸۰۴ھ۔۸۱۰۱ء کی راحتہ العقل جس میں توحید‘ عقل‘ نفس‘ رسالت‘ وصایت وغیرہ کا بیان ہے۔

موجودہ اسمٰعیلی فرقوں کے مجموعی اعتقادات

موجودہ اسمٰعیلی فرقوں کے مجموعی اعتقادات

موجودہ اسمٰعیلی فرقوں کی کیفیات بیان کرنے کے بعدہم ان فرقوں کے مجموعی اعتقادات بیان کرتے ہیں تاکہ مکمل صورت سامنے آجائے۔
بنیادی عقائد ۱ ؎ (۱ ؎ دیکھئے باب چہارم)

بنیادی عقائد ۱ ؎ (۱ ؎ دیکھئے باب چہارم)

توحید: اللہ تعالیٰ ایک ہے مگروہ کسی صفت سے موصوف یا کسی نعت سے منعوت نہیں کیا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ کی ذات پر لفظ واحد کا اطلاق درست نہیں۔ تمام صفات حقیقت میں اُس مبدع اول پر واقع ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیداکیا۔جس کا دوسرانام عقل اول یا امر یاکلمہ ہے۔ عالم جسمانی میں یہ صفات امام پر صادق آتی ہیں کیونکہ وہ عقل کے مقابل قائم ہے۔ اللہ تعالےٰ کو ہست بھی نہیں کہاجاسکتا۔

رسالت: انبیاء ومرسلین کو اولاً مستقر امام کا نائب یا مستودع کہاگیا ہے۔اس کے بعد اس نبی کو ناطق بتلایا ہے جو خدا کی طرف سے شریعت لاتا ہے۔اس حیثیت سے اس کافرض صرف شریعت کا اظہارہے جبکہ باطن کی ذمہ داری ’صامت‘کی ہے اورباطن ہی مقصودِ اصلی ہے اورآگے چل کرکہاگیا ہے کہ ایک ناطق اپنے سابق کی شریعت کومنسوخ کرتاچلاآیا ہے اور یہ سلسلہ امام محمد بن اسمٰعیل بن جعفر صادقؒ تک پہنچا جو ساتویں ناطق اور ساتویں رسول ہیں جنہوں نے رسول اللہؐ کی شریعت ظاہر کو معطل کیا اورباطن کو کشف کیا عالم الطبائع کو ختم کیا یہی یوم آخر میں قائم القیامہ ہیں۔

قرآن پاک: نبی یارسول کا کام یہ ہے کہ وہ جوبات اُ س کے دل میں آتی ہے اور بہتر معلوم ہوتی ہے وہ لوگوں کو بتادیتا ہے اوراُس کا نام کلام الہی رکھتا ہے تاکہ لوگوں میں یہ قول اثر کرجائے اوروہ اسے مان لیں۔ نبی کریمؐ نے اس کا ظاہر بیان کیا جب کہ حضرت علیؓ نے بہ حیثیت ’صامت‘ کے اس کا باطن بیان کیا جومقصود اصلی ہے۔

نبی اور امام

نبی اور امام

نبی کے مقابلہ میں امام کے اوصاف بھی پیش کئے جاتے ہیں:

۱۔ امام علم خداکا خازن اور علم نبوت کا وارث ہے۔

۲۔ اُس کاجوہر سماوی اوراس کاعلم علوی ہوتا ہے۔

۳۔ اُس کے نفس پر افلاک کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ اُس کاتعلق اُس عالم سے ہے جوخارج ازافلاک ہے۔

۴۔ اُس میں اوردوسرے بندگان خدا میں وہی فرق ہے جو حیوان ناطق اور غیر حیوان ناطق میں ہے۔

۵۔ ہرزمانے میں ایک امام کا وجود ضروری ہے۔

۶۔ امام ہی کو دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔

۷۔ ہر مومن پرامام کی معرفت واجب ہے۔

۸۔ امام معصوم ہوتا ہے اس سے خطا نہیں ہوسکتی۔

۹۔ امام کی معرفت کے بغیرنجات ناممکن ہے۔

۰۱۔ باری تعالیٰ کے جو اوصاف قرآن مجید میں وارد ہیں اُن سے حقیقت میں ائمہ موصوف ہیں۔

۱۱۔ ائمہ کو شریعت میں ترمیم وتنسیخ کااختیار ہے۔

بنیادی اعتقادات کے بعد ھم معروف اسمٰعیلی فرقوں سے متعلق دیگر اموربیان کرتے ہیں:

۱۔ اسمٰعیلیہ (قرامطہ)

اب دنیا میں موجود نہیں۔ (بنیادی اسمٰعیلی عقائد سے منحرف ہوگئے تھے)

۲۔ اسمٰعیلیہ (فاطمی)(دروزیہ)

۱۔امام/خلیفہ کو (نعوذباللہ) خدامانتے ہیں۔

۲۔حلول اورتناسخ کے قائل ہیں۔

۳۔اعمال شریعت کے قطعی پابند نہیں۔

۴۔مسجد کی جگہ جماعت خانہ ہے۔

گویا۔۔۔۔۔۔بنیادی اسمٰعیلی عقائد سے بھی منحرف ہیں۔

۲۔ اسمٰعیلیہ (فاطمی)(مستعلویہ)

۱۔ اُن کا ایمان ہے کہ امام طیب کی نسل سے برابر امام ہورہے ہیں۔ اگرچہ وہ پوشیدہ ہیں لیکن داعیوں کو اُن سے برابر ہدایات ملتی رہتی ہیں۔مہدی آخرالزمان جو قیامت کے دن ظاہر ہوں گے وہ امام طیب کی نسل سے ہوں گے۔ ۲۔ ۱ ؎ (۱ ؎(۲) سے (۵) تک کے لئے دیکھئے ’مذاہب الاسلام‘ ازمحمد نجم الغنی صفحات ۲۹۲ تا۵۹۲ اورآب کوثر صفحات سے ۳۵۳۔۵۵۳)  اعمال شریعت کے پابند ہیں مگر جمعہ کی نماز باجماعت نہیں پڑھتے۔

(۱) اعلانیہ سودلیتے ہیں۔

(ب) دیوالی کے موقع پر روشنی کرتے ہیں اور حساب وکتاب کی نئی کتابیں تبدیل کرتے ہیں۔ہندی مہینوں کے اعتبارسے حساب رکھتے ہیں۔

(ج) عیدین ودیگر مبارک ایام کے لئے ان کاکیلنڈر اپنا ہے۔

(د) مسجد‘ جماعت خانہ اورقبرستان وغیرہ سب علیحدہ ہیں۔

(ہ) کچھ عرصہ سے اُن کی خواتین نے پردہ اختیارکرلیا ہے۔

۳۔وضع قطع اور لباس میں اگرچہ مسلمانوں سے قریب تر ہیں مگر ان سب کا انداز امتیازی ہے جس سے وہ آسانی سے پہچانے جاتے ہیں۔اپنے اسلاف کی تقلید میں سفید لباس پہنتے ہیں۔

۴۔اُن کا کلمہ یہ ہے۔ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ مولانا علی ولی اللہ وصی رسول اللہ

۵۔اذان میں اشھدان محمد رسول اللہ کے بعد اشھدان مولانا علیا ولی اللہ اور حی علی الفلاح کے بعد حی علی خیرالعمل محمد وعلی خیر البشر وعترتھا ماخیرا العتر۔ اضافہ کرتے ہیں۔

(۴) اسمٰعیلیہ (فاطمی) (نزاریہ) یاآغاخانی

(۱) حاضر امام سب کچھ ہے۔

(۲) اعمالِ شریعت سے مکمل طورپر آزاد ہیں (مصلحت وقت کے اعتبارسے حاضر امام کے فرمان خصوصی کے تحت عمل کرلیتے ہیں)

(۳) مسجد کی جگہ جماعت خانہ  ۱ ؎ ( ۱؎جس میں خواجہ حسن نظامی کے مطابق ہنود کا ’اوم‘ اس طرح لکھا جاتا ہے کہ خط کوفی میں ’علی‘ پڑھاجائے) ہے

۴۔ کلمہ حسب ذیل ہے۔

اشھدان لاالہ واشھد ان محمد رسول اللہ واشھد ان علی اللہ (تیسراحصہ غورطلب ہے)

۵۔ شعاراسلامی کے قطعی پابند نہیں (صرف نام اسلامی ہوتے ہیں)

۶۔ حاضر امام‘ مغربی تہذیب کا نمونہ ہیں۔

۷۔ ہرعبادت کا بدل روپیہ پیسہ ہے جو حاضر امام کا حق ہے۔

۸۔ حاضر امام کا دیدارسب سے بڑی عبادت ہے۔

ہم نے اسمٰعیلیوں کے بنیادی اعتقادات اورمختلف فرقوں کی موجودہ کیفیات حتی المقدورخالی الذہن ہوکربیان کردی ہیں۔ اُمید ہے کہ ان معلومات کی بناپر ناظرین خود اُن کے متعلق رائے قائم کرسکیں گے۔

حضرت علیؓ کے متعلق نزاریوں کا عقیدہ

حضرت علیؓ کے متعلق نزاریوں کا عقیدہ

اسمٰعیلی عقائد میں امام کے اوصاف کے متعلق گذشتہ باب میں کافی ذکر کیا جاچکا ہے اب حضرت علیؓ کے متعلق نزاریوں کاعقیدہ پیش کیاجاتا ہے۔ جس کا علم اس باب کی تکمیل کے بعد ہوا۔

”ہم مرتضٰی علیؓ کا نورجماعت کے پاس حاضر وناظر بیٹھے ہیں۔ تمہیں صدقِ دل سے اس حقیقت پر ایمان رکھنا چاہیے کہ ہم (ائمہ) اس دنیا میں وجود عنصری کو لباس کی طرح پہنتے اور اتارتے ہیں۔ مگرہمارانورازلی اورمنزل ہے اوروہ ہمیشہ زندہ اورقائم ہے۔ اسلئے تمہیں اس ازلی اورمنزل نورہی کو مدنظر رکھناچاہیے کہ ہم (ائمہ) اس دنیا میں وجود عنصری کو لباس کی طرح پہنتے اوراتارتے ہیں مگر ہمارا نورازلی اورمنزل ہے اوروہ ہمیشہ زندہ اورقائم ہے۔ اسلئے تمہیں اس ازلی اورمنزل نور ہی کومدنظر رکھنا چاہیے جوازلی اورمنزل نورآغاعلی شاہ یا ہمارے دادا یااُن کے بزرگوں اورحضرت علیؓ میں تھا وہی نوراب ہم میں ہے ہم اُن کے جانشین ہیں۔نورامامت ہمیشہ حاضروناظر اورایک ہے صرف (ان عنصری اجسام جن کے ذریعہ وہ ظاہر ہوتا ہے) نام علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ مولامرتضیٰ علیؓ کا تخت امامت ہمیشہ سے قائم ہے اورتاقیامت قائم رہے گا۔ ۱ ؎  ( ۱ ؎ ارشاد آغا علی شاہ مورخہ ۵۸۸۱۔۹۔۸۔بمبئی (اسماعیلیوں کے تاریخی مکتوبات اورقراردادیں صفحہ ۷۴)

آغاخانیوں کے کلمہ کے آخری ٹکڑے’اشھدان علی اللہ (نعوذ باللہ) اورمندرجہ بالاوضاحت سے حضرت علیؓ کی جوحیثیت سامنے آتی ہے وہ اُس سے مختلف ہے جو قدیم اسمٰعیلی عقائد میں نظرآتی ہے۔یہ غالباً ایران میں اثناعشری اثرات کانتیجہ ہے اورشاید اسی وجہ سے ایران  ۲ ؎  ( ۲ ؎ ایران میں اسمٰعیلیوں کو ملایا‘ ملائی اوروسط ایشیا میں ملائی یا مولائی کہاجاتا ہے) میں نزاری علی اللّہی کہلاتے ہیں۔

Leave A Reply