جمال القرآن – تجوید مخارج وقف عربی

Download Original PDF
jamal-ul-quran-ashraf-ali-thanvi-tajwid-makhraj-waqf-arabic-pdf
Download Original PDF

کتاب کا نام: جمال القرآن - تجوید مخارج وقف عربی

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

ابتدائیہ

جَمالُ القُرآن مکمل

مع حاشیہ

زِینتُ الفُرقَان‘

مصنفہ
حکیم الامّت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانویؒ

ابتدائیہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

بعد الحمد والصلوٰۃ یہ چند اوراق ہیں ضروریاتِ تجوید میں مسمٰی بہ جمال القرآن اور اس کے مضامین کوملقب بہ لمعات کیاجاوے گا محبی مکرمی مولوی حکیم محمد یوسف صاحب مہتمم مدرسہئ قدوسیہ گنگوہ کی فرمائش پر کتبِ معتبرہ سے خصوص رسالہ ہدےۃ الوحید مؤلفہ قاری مولوی عبدالوحید صاحب مدرس اوّل درجہ قرأت مدرسہ عالیہ دیوبند سے ملتقط کرکے بہت آسان عبارت میں جس کومبتدی بھی سمجھ لیں لکھا گیا ہے اور کہیں کہیں قرأت کے دوسرے رسالوں سے بھی کچھ لکھا گیا ہے وہاں ان رسالوں کا نام لکھ دیا ہے اور کہیں اپنی یاداشت سے کچھ لکھا ہے وہاں کوئی نشان بنانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ بس جہاں کسی کتاب کا نام نہ ہو وہ یا توہدےۃ الوحید کا مضمون ہے اگر اس میں موجود ہو ورنہ احقر کا مضمون ہے۔ وباللہ التوفیق وھوخیر عون وخیررفیق۔

کتبہ‘ اشرف علی تھانوی ادہمی حنفی چشتی عفی عنہ

مشورہ مفید: اول اس رسالہ کو خوب سمجھا کرپڑھا دیں۔ اور ہرشے کی تعریف اور مخارج وصفات وغیرہ خوب یادکرادیں۔ اس کے بعدرسالہئ تجوید القرآن نظم حفظ کرادیا جائے اور اگر فرصت کم ہو تو رسالہ حق القرآن یادکرادیاجاوے۔

فقط۔

کتبہ حکیم الامّت مولانا محمد اشرف علی صاحب تھانویؒ

تمہید جمال القرآن

تمہید جمال القرآن

بعد الحمد والصلوٰۃ عرض ہے کہ اگرچہ رسالہ جمال القرآن اس سے پیشتر مطبع بلال ساڈھورہ ومطبع احمدی لکھنؤومطبع انتظامی کانپور وغیرہ میں طبع ہوکرشائع ہوچکا ہے مگر بوجہ عدم تکمیل بعض مضامین وعدم اہتمام تصحیح اس کے لئے حواشی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ احقر نے اس کے مضامین کی توضیح وتکمیل اور اغلاط کی تصحیح کے لئے حواشی لکھے تھے لیکن چونکہ عموماً حواشی کی طرف التفات کم ہوتا ہے اور اس صورت میں معتدبہ نفع کی توقع بہت کم تھی اس لئے حسب ایماء وارشاد  حضرت مؤلف علام مدّ فیوضہم  اس نااہل نے ان حواشی میں سے جو مضامین نہایت ضروری ادا کے متعلق تھے ان کو رسالہ کا جزو بنادیا۔ ا ور جو مضامین بطور دلائل وتوضیح کے تھے ان کو حواشی میں رکھ کر حضرت موصوف کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کردیا۔ حضرت ممدوح نے تصدیق و تحسین فرماکرطبع واشاعت کی اجازت عطافرمادی اور تکمیل مضامین کی مناسبت سے اب اس رسالہ کا لقب جمال القرآن مکمل تجویز فرpدیا۔ اگر ناظرین باقتضائے بشریت کسی غلطی پر مطلع ہوں تو اس نااہل کی کم فہمی پر محمول فرماکر متنبہ فرمادیں۔ بعد تحقیق اس سے رجوع کرکے انشاء اللہ تعالیٰ اصلاح کردی جاوے گی۔ اور اگر کسی کواصل عبارت (جوکہ تغیر وتبدل و اضافہ سے پہلے تھی) دیکھنے کی ضرورت ہو تووہ مطابع مذکور کے مطبوعہ میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔  والسلام ہر کہ خواند دعاء طمع دارم زانکہ من بندہئ گنہ گارم

کتبہ‘ احقرمحمد یامین عفی عنہ
تجوید کی تعریف

تجوید کی تعریف

پہلا لمحہ: تجوید کہتے ہیں ہر حرف کو اس کے مخرج سے نکالنا اور اس کی صفات کو اداکرنا، اور اس علم کی حقیقت اسی قدر ہے اور مخارج اور صفات آگے آویں گے چوتھے اور پانچویں لمحہ میں۔

تجوید کی ضرورت

تجوید کی ضرورت

دوسرا لمحہ: تجوید کے خلاف قرآن پڑھنا یا غلط پڑھانا یا بے قاعدہ پڑھنا لحن کہلاتا ہے اوریہ دوقسم پر ہے۔ ایک یہ کہ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھ دیا جیسے الحمدُ کی جگہ الھمدُ پڑھ دیا۔ ثؔ کی جگہ س پڑھ دیا یا حَ کی جگہ ہَ پڑھ دی یاذَ کی جگہ زَ پڑھ دی یاصَ کی جگہ سَ پڑھ دیا، یاضَ کی جگہ دَ یاظ پڑھ دی یاظَ کی جگہ زَ پڑھ دی یا عَ کی جگہ ہمزہ پڑھ دیا‘ اور ایسی غلطیوں میں اچھے خاصے لکھے پڑھے لوگ بھی مبتلا ہیں۔ یا کسی حرف کوبڑھادیا جیسے اَلحَمدُ لِلہِ میں دال کے پیش کو اور ۃ کے زیر کو اس طرح کھینچ کر پڑھا اَلحَمدُو للّھِی یا کسی حرف کو گھٹا دیا جیسے لَم ےُولَد میں واؤ کو ظاہر نہ کیا اس طرح پڑھا لَم ےُلَد یازبر زیر پیش جزم میں ایک کو دوسرے کی جگہ پڑھ دیا جیسے اَےّاَکَ کے کاف کازیر پڑھ دیا یا اِھدِنَا َ میں ہَ سے پہلے اس طرح زبر پڑھ دیا: اِھدِنَا یا اَنعَمتَ کی میم پر اس طرح حرکت پڑھ دی اَنعمَتَ یا اور اسی طرح سے کچھ پڑھ دیا۔ ان غلطیوں کو لحن جلی کہتے ہیں اور یہ حرام ہے (حقیقۃ التجوید) اور بعض جگہ اس سے معنی بگڑ کر نمازجاتی رہتی ہے۔ اور دوسری قسم یہ کہ ایسی غلطی تو نہیں کی لیکن حرفوں کے حسین ہونے کے جوقاعدے مقرر ہیں ان کے خلاف پڑھا جیسے رؔ پرجب زبر یا پیش ہوتا ہے اس کوپُر یعنی منہ بھر کرپڑھاجاتا ہے جیسے اَلصِرَاط کی راء جیسا آٹھویں لمحہ میں آوے گا مگر اس نے باریک پڑ ھ دیا اس کو لحن خفی کہتے ہیں۔ یہ غلطی پہلی غلطی سے ہلکی ہے یعنی مکروہ ہے (حقیقۃ التجوید) لیکن بچنا اس سے بھی ضروری ہے۔

آداب تلاوت

آداب تلاوت

تیسرا لمحہ: قرآن مجید شروع کرنے سے پہلے اَعُوذُبَاللہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم ط پڑھنا ضروری ہے۔ ۱؎ (۱؎ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اعوذباللہ پڑھنا مستحب ہے کمافی بعض شروح الشاطبیبۃ ۲۱ زینۃ الفرقان) اور بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ط میں یہ تفصیل ہے کہ اگر سورت سے شروع کرے تو بسم اللہ ضروری ہے۔ اسی طرح اگر پڑھتے پڑھتے کوئی سورت بیچ میں شروع ہوگئی تب بھی بسم اللہ ضروری ہے۔ مگر اس دوسری صورت میں سورۃ برأۃ کے شروع میں نہ پڑھے۔اور بعضے عالموں نے کہا ہے کہ پہلی صورت میں بھی سورۃ برأۃ پر بسم اللہ نہ پڑھے۔ اور اگر کسی سورت کے بیچ میں سے پڑھنا شروع کیا تو بسم اللہ پڑھ لینا بہتر ہے۔ ضروری نہیں لیکن اعوذ اس حالت میں بھی ضروری ہے۔

مخارجِ حروف

مخارجِ حروف

تیسرا لمحہ:  جن موقعوں سے حروف  ۲؎  (۲؎ جمع حرف ویرید بہ حرف الہجاء لا حرف المعنی، وہو صوت معتمد علی مقطع محقق او مقدر، ویختص باللسان وضعاً  کمافی شرح الجزریتہ زینۃ الفرقان     ؎  چنانچہ کتاب النشر صفحہ ۳۶۴ میں ہے لاخلاف فی حذف البسملۃ بین الانفال وبرآۃ عن کل من بسمل بین السورتین وکذلک فی ابتداء برأۃ علی الصحیح عند اہل الاداء ۲۱ ابن ضیاء محب الدین احمد مدرس مدرسہ سبحانیہ الہ آباد)؎   ادا ہوتے ہیں  ان کو مخارج کہتے ہیں اوریہ مخارج سترہ (۷۱)ہیں۔

(مخرج ۱) جوفِ دہن یعنی منہ کے اندرکا خلا اس سے یہ حروف نکلتے ہیں۔ واؤؔ جبکہ ساکن ہو اور اس سے پہلے حرف پر پیش ہو جیسے اَلمَغضُوبِ یا جب کہ ساکن ہو اور اس سے پہلے زیر ہوجیسے نستعینُ الفؔ جب کہ ساکن بے جھٹکے ہو اور اس سے پہلے زبر ہو جیسے صِرَاطَ اور ساکن بے جھٹکے اس لئے کہا کہ زبر زیر پیش والا اور اسی طرح ساکن جھٹکے والا ہمزہ ہوتا ہے۔ اگرچہ  ۱؎  (۱؎  متقدمین کی اصطلاح میں ہمزہ کو الف بھی کہتے ہیں کمانی فتح الباری لہذا ہمزہ کو الف کہنا غلط نہیں گو متاخرین کی اصطلاح کے خلاف ہے۔) عام لوگ اس کوبھی الف کہتے ہیں جیسے الحمدُ کے شروع میں جو الف ہے یا بَاس’‘ کے بیچ میں جو الف ہے یہ واقع میں ہمزہ ہے اور اس تمام کتاب میں ایسے دونوں الفوں کو ہمزہ ہی کہاجاوے گا یاد رکھنا۔ اور جس الف اور جس واؤ اور جس یاکا ابھی اوپر ذکر ہوا ہے انکو حرف مدّہ اور حروف ہوائیہ بھی کہتے ہیں پہلا نام اس لئے ہے کہ ان پر کبھی مد بھی ہوتا ہے۔ گیارہویں لمحہ کے بیان میں اس کا پوراحال معلوم ہوگا۔ اور دوسرانام اس لئے ہے کہ یہ حروف ہوا۲؎  ( ۲؎ ہواسے ہونٹوں سے حلق تک کا خلاوجوف مراد ہے،) پر تمام ہوتے ہیں اور جس واؤ ساکن سے پہلے زبر ہو اسکو واؤلین کہتے ہیں جیسے مِن خَوفٍ اور جس یا ساکن سے پہلے زبر ہواس کو یالین کہتے ہیں جیسے والصَّیفِ پس واؤلین اور واو متحرک کا مخرج آگے سولہویں مخرج کے بیان میں آوے گا اور یاء متحرک کا مخرج آگے ساتویں مخرج کے بیان میں آوے گا۔

(مخرج ۲) اقصیٰ حلق یعنی حلق کا پچھلا حصہ سینہ کی طرف والا۔ اس سے یہ حروف نکلتے ہیں۔ ہمزہ اور ہَ۔

(مخرج ۳)  وسطِ حلق یعنی حلق کا درمیان والا حصہ، اس سے یہ حروف نکلتے ہیں ع اور ح بے نقطہ والے۔

(مخرج ۴)  ادنیٰ حلق یعنی حلق کا وہ حصہ جو منہ کی طرف والا ہے۔ اس سے یہ حروف اداہوتے ہیں۔ غ اور خ نقطہ والے اور ان چھ حرفوں کو حروف حلقی کہتے ہیں۔

(مخرج ۵)  لہات  ۱؎  (۱؎ بفتح اللام دہائے ہوزوآخر فوقانی گوشت پارہ کہ شبیہ بزبان باشد واؤ درانتہائے کام آویختہ است کمافی حاشیہ منتخب النفاس ۲۱) یعنی کوے کے متصل زبان کی جڑ جب کہ اوپر کے تالو سے ٹکر کھاوے اس سے قاف اداہوتا ہے۔

(مخرج ۶) قاف کے مخرج کے متصل ہی منہ کی جانب ذرا نیچے ہٹ کر اور اس سے کاف اداہوتا ہے۔ اوران دونوں حرفوں کو لہائیہ کہتے ہیں۔

(مخرج ۷)  وسطِ زبان اور اس کے مقابل اوپر کا تالوہے، اور اس سے یہ حرف اداہوتے ہیں۔ ج۔ ش  ۲؎ (۲؎ ان کامجموعہ جیش ہے ۲۱ زینتہ الفرقان)  ی جبکہ مدّہ نہ ہو۔ یعنی یائے متحرک اور یائے لین اور مدّہ اور لین کے معنی مخرج (۱) کے ذیل میں بیان کیے گئے ہیں اور ان کو حروف شجریہ ۳؎  (۳؎ لخروجھا من شجر الفوسبکون الجیم وھو منفتح مابین الحسین ۲۱ حقیقتہ التجوید) کہتے ہیں۔

(ف) آگے جو مخارج آتے ہیں ان میں بعضے دانتوں کے نام عربی میں آویں گے اس واسطے پہلے ان کے معنی بتلائے دیتا ہوں ان کو خوب یادکرلیں۔ تاکہ آگے سمجھنے میں دقت نہ ہو۔

جاننا چاہیے کہ بتیس میں سے سامنے کے چاردانتوں کو ثنا یا کہتے ہیں۔ دو اوپر والوں کو ثنایا علیا اور دونیچے والوں کو ثنایا سفلیٰ اور ان ثنایا کے پہلومیں چار دانت جوان سے ملے ہوئے ہیں ان کو رباعیات  ۱؎ (۱؎ یعنی اوپرکی جانب ایک دانت داہنی جانب اور دوسرابائیں جانب ہے اور اسی طرح نیچے کی جانب دودانت ہیں زینتہ الفرقان)  اور قواطع کہتے ہیں۔ پھر ان رباعیات سے ملے ہوئے چار دانت نوکدار ہیں، ان کو انیاب ۲؎ (۲؎  انیاب وضواحک میں بھی وہی تفصیل ہے جو حاشیہ۱ میں گزری ہے۔۲۱ زینتہ الفرقان) اورکو اسرؔ کہتے ہیں پھر ان ا نیاب کے پاس چاردانت ہوتے ہیں ان کو ضواحک کہتے ہیں۔پھر ان ضواحک کے پہلو   میں بارہ دانت اور ہیں۔ یعنی تین اوپر داہنی طرف اور تین اوپر بائیں طرف اور تین نیچے داہنی طرف اور تین نیچے بائیں طرف۔ ان کو طواحنؔ کہتے ہیں۔ پھر ان طواحن کے بغل میں بالکل اخیر میں ہرجانب ایک ایک دانت اور ہوتا ہے جن کو نواجذ ۳؎  (۳؎  پس کل نواجذ چارہوئے ۲۱ زینتہ الفرقان) کہتے ہیں اور ان سب ضواحک اور طواحن اور نواجذ کو اضراس کہتے ہیں جن کو اردو میں ڈاڑھ کہتے  ہیں۔ یاد کی آسانی کے لئے کسی نے ان سب ناموں کو نظم کردیا ہے وہ نظم یہ ہے۔

ہے تعداد دانتوں کی کل تیس اور دو   ||||||||||||    ثنایا ہیں چار اوررباعی ہیں دودو

ہیں انیاب چار اور باقی رہے بیس  ||||||||||||    کہ کہتے ہیں ان کے بازو میں دودو

ضواحک ہیں چار اورطواحن ہیں بارہ  ||||||||||||    نواجذ بھی ہیں ان کے بازو میں دودو

(مخرج ۸)  ض کاہے اور وہ حافہئ لسان یعنی زبان کی کروٹ داہنی یا بائیں سے نکلتا ہے۔ جب کہ اضراس علیا یعنی اوپر کی ڈاڑھ کی جڑھ سے لگادیں اور بائیں طرف سے آسان ہے اوردونوں طرف سے ایک دفعہ میں نکالنا بھی صحیح ہے۔ مگر بہت مشکل ہے اور اس حرف کو حافیہ کہتے ہیں اور اس حرف میں اکثر لوگ بہت غلطی کرتے ہیں اس لئے کسی مشاق قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے۔ اس حرف کو دال پرُ یا باریک یادال کے مشابہ جیسا کہ آجکل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے۔ ایسا ہرگز نہیں پڑھنا چاہیے یہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح خالی ظاء پڑھنا بھی غلط ہے۔ البتہ اگر ضاد کو اس کے صحیح مخرج سے صحیح طور پرنرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ کرکے اداکیا جائے تو اس کی آواز سننے میں ظاء کی آواز کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی۔ علم تجوید وقرأت کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔  ۱؎ (۱؎  علم تجوید وقرأت کی کتابوں میں بتصریح مذکور ہے کہ ظاء معجمہ کی طرح ضاء معجمہ حروف رخوہ میں سے ہے جن کے ادا کرنے میں آواز کا سلسلہ بند نہیں ہوتا بلکہ آواز برابر جاری رہتی ہے اور دال مہملہ حروف شدیدہ میں داخل ہے جن کے اداکرنے میں آواز بند  ہوجاتی ہے۔پس اگرضاد کودال یا مشابہ دال پڑھاجاوے گا تو ضاد رخوہ نہ رہے گا بلکہ دال کی طرح شدیدہ ہوکر آواز کا سلسلہ بند ہوجاوے گا حالانکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ ضاد شدیدہ ہر گز نہیں بلکہ ظاء کی طرح رخوہ ہے۔ پس جس طرح کہ ظاء کے اداکرنے میں آواز کا سلسلہ برابرجاری رہتا ہے۔ اسی طرح ضاد کے اداکرنے میں بھی آواز برابر جاری رہنا چاہیے۔ نیز صفت رخوت کے علاوہ ضادمعجمہ دیگر صفات میں ظاء کے ساتھ شریک ہے۔صرف ایک صفت استطالت میں ظاء سے ممتاز ہے۔ اگر ضاد میں استطالت نہ ہوتی تو ضاد اور ظاء میں کوئی فرق نہ ہوتا اور دال سے تمام صفات میں متمایز ہے بجز ایک صفت جہر کے پس عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ جن دوحرفوں میں وجوہ اشتراک زیادہ ہوں وہ متشابہ فی الصوت ہوں گے یا جن میں وجوہِ امتیاز زیادہ ہوں وہ باہم متشابہ ہوں گے اور انقلاً یہ کہ تجوید وقرأت وفقہ وتفسیر وغیرہ کی اکثر معتبر کتابوں سے ضاد کا مشابہ ظاء ہوناثابت ہوتا ہے اس جگہ سب روایات کو نقل کرنے سے خوفِ تطویل مانع ہے اور جو لوگ ضادکو دال یامشابہ دال پڑھتے ہیں ان کے پاس کسی معتبر کتاب کی ایک روایت بھی ہے اور باقی جو لچر بیان کرتے ہیں مثلاً کسی بڑے عالم کاپڑھنا یا فقہاء کاضاد کی جگہ ظاء پڑھنے سے منع کرنا یا عموم بلویٰ اور اسی طرح کے دوسرے تمام شبہات کا جواب مع دلائل: اثبات المشابہۃ بین الضاد والظاء  رسالہ الاقتصادفی الضاد مصنفہ جناب مولانا حکیم رحیم اللہ صاحب بجنوری سلمہ‘ تلمیذ رشید حضرت مولانا محمد قاسم صاحب میں مفصل مذکور ہے جس کو مطلوب ہو اس کو دیکھ لے یہاں پر اس کے نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔۲۱ محمد یامین عفی عنہ

(مخرج ۹)لامؔ کاہے کہ زبان کا کنارہ مع کچھ حصہ حافہ۔ جب ثنایاؔ اور رباعیؔ اور نابؔ اورضاحک کے مسوڑھوں سے کسی قدر مائل تالو کی طرف ہوکرٹکرکھاوے۔ خواہ داہنی طرف سے یابائیں طرف سے اور داہنی طرف سے آسان ہے اور دونوں طرف سے ایک دفعہ میں نکالنا بھی صحیح ہے۔

(مخرج ۰۱) نونؔ کاہے اور وہ بھی زبان کا کنارہ ہے۔ مگر لامؔ کے مخرج سے کم ہو کر یعنی ضاحک کو اس میں دخل نہیں۔

(مخرج ۱۱) راؔ ء کاہے اور و ہ نون کے قریب ہے مگر اس میں پشت زبان کو بھی دخل ہے۔ ان تینوں حرفوں کو یعنی لام اور نون اور راء کو طرفیہ اور ذلقیہ  ۱؎  ( ۱؎  الخروجہا من ذلق اللسان بفتحتین طرف زبان  اے طرفہ (حقیقتہ التجوید) ۲۱ منہ)  بھی کہتے ہیں۔

(مخرج۲۱) طا اوردال اورتاء کاہے یعنی زبان کی نوک اور ثنایا علیا کی جڑ۔ اور ان تینوں حرفوں کونطعیہ  ۲؎ (۲؎نطع بالکسروفتح الطاء کام شکنہائے کام وفادرون دہن کذافی المنتخب وقولہ من الحنک الاعلیٰ بیان لقولہ من نطع الغار۲۱ زینتہ) کہتے ہیں۔

(مخرج۳۱) ظاء اورذال اورثاء کاہے اور وہ زبان کی نوک اور ثنایا علیا کا سراہے۔ اور ان تینوں حرفوں کو لثویہ  ۳؎ (۳؎  بالکسروفتح ثانی وداؤکسورویائے مشددہ مفتوعہ زینتہ الفرقان) کہتے ہیں۔

(مخرج۴۱) صاد اورزاء اور سین کاہے اوریہ زبان کا سرا اور ثنایاسفلیٰ کاکنارہ مع کچھ اتصال ثنایا علیا کے ہے۔ اور انکو حروف صغیر ۴؎ (۴؎  صغیر مرغ یعنی چڑیا کی آواز کو کہتے ہیں۔ چونکہ ان حروف کی آواز مشابہ اس آواز کے ہوتی ہے۔ اس لئے ان کو حروف صغیر کہتے ہیں کمانی نوادر الوصول۲۱ زینتہ) کہتے ہیں۔

(مخرج۵۱) فاء کاہے اوریہ نیچے کے ہونٹ کا شکم اور ثنایا علیا کاکنارہ ہے۔

(مخرج۶۱) دونوں ہونٹ ہیں۔ اور ان سے یہ دونوں حروف اداہوتے ہیں۔باء اور میم اور واؤ جبکہ مدّہ نہ ہوں۔ یعنی واؤ متحرک اور واؤلین اور مدّہ اور لین کے مخرج نمبرا کے ذیل میں بیان کئے گئے ہیں۔ مگر ان تینوں میں اتنا فرق ہے کہ باء ہونٹوں کی تری سے نکلتی ہے اس لئے اس کو بحری کہتے ہیں اور میم ہونٹوں کی خشکی سے نکلتی ہے۔ اس لئے اس کو بری کہتے ہیں اور واؤ دونوں ہونٹوں کے ناتمام ملنے سے نکلتا ہے۔ فاء کو اور ان تینوں حرفوں کو شفویہ  ۱؎  (۱؎  بفتحتین وکسر سوم دبائے مشددہ مفتوحہ وقال فی الصراح والحروف الشفیہتہ الباء والفاء والمیم ولاتقل شفویہ وفی الرضی شرح الشافیہ شفویہ اورشفیہتہ فقط وہوا تصحیح عندی فان لام الشفتہ ہاء کمافی الصراح والقاموس ۲۱ زینتۃ) کہتے ہیں۔

(مخرج۷۱) خیشوم یعنی ناک کا بانسہ ہے۔ اس سے غنہ نکلتا ہے۔ غنہ کابیان آگے نویں دسویں لمعہ میں نون اور میم کے قاعدوں میں انشاء اللہ آوے گا۔  اور جاننا چاہیے کہ ہر حرف کے مخرج معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس حرف  ۲؎ (۲؎  اس میں یہ شرط ہے کہ یہ حرف صحیح طورسے اداکیا جاوے۔ سو  جب اس طریق سے مخرج معلوم ہوگا کمافی شرح الجزریتہ ۲۱ زینتہ) کوساکن کرکے اس سے پہلے ہمزہ متحرک لے آوے جس جگہ آواز ختم ہو وہی اس کا مخرج ہے۔

صفاتِ حروف

صفاتِ حروف

پانچواں لمحہ: جن کیفیتوں سے حروف اداہوتے ہیں ان کیفیتوں کو صفات کہتے ہیں اور وہ دوطرح کی ہیں۔ ایک وہ کہ اگر وہ صفت ادا نہ ہو تو وہ حروف ہی نہ رہے ایسی صفت کو ذاتیہ اور لازمہ اور ممیزہ اور مقومہ کہتے ہیں۔ اور ایک وہ کہ اگر وہ صفت ادا نہ ہو تو حرف تو وہی رہے مگر اس کا حسن وزینت نہ رہے۔ اور ایسی صفت کو محسنہ مزینہ  محلیہ  ۳؎  (۳؎ وجہ التسمےۃ بہ ان ھذہ الصفات فی الحروف تکون لخصوص المحل دون محل اٰخر ۲۱ منہ)عارضیہ کہتے ہیں۔ پہلی قسم کی صفات سترہ ہیں۔ (۱) ھمس‘ ۴؎ (۴؎  بالفتح نرم کدن آواز وآواز نرم ۲۱ زینتہ   ؎  یعنی وہ صفت لازمہ جو مشتبہ الصوت یا متحد فی المخرج حرفوں میں امتیاز دینے والی ہو او جن صفات لازمہ سے امتیاز نہ ہوان کو صفت لازمہ غیر ممیزہ کہتے ہیں ۲۱ ابن ضیاء) اور جن حرفوں میں یہ صفت پائی جاوے ان کو مہموسہ کہتے ہیں۔ مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حرفوں کے ادا کرنے کے وقت آواز مخرج میں ایسے ضعف کے ساتھ ٹھہرے کہ سانس جاری رہ سکے اورآواز میں ایک قسم کی پستی ہو اور ایسے حروف دس ہیں۔ جن کا مجموعہ یہ ہے فحثہ‘ ۱؎  (۱؎ ترجمہ اش این است پس ترغیب داواراشخصیکہ ساکت ۲۱ منہ) شَخصٌ سَکَتَ۔

(۲) جہر۔ اورجن حرفوں میں یہ صفت پائی جاوے ان کو مجہورہ کہتے ہیں۔ مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حروف کے اداکرنے کے وقت آواز مخرج میں ایسی قوت کے ساتھ ٹھہرے کہ سانس کا جاری رہنا بند ہوجاوے۔ اور آواز میں ایک قسم کی بلندی ہو اور مہموسہ کے سوا باقی سب حروف مجہورہ ہیں اور جہراور ہمس دونوں صفتیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔

(۳) شدت۔ اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو شدیدہؔ کہتے ہیں۔ اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حرفوں کے اداکرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسی قوت کے ساتھ ٹھہرے کہ آواز بند ہوجاوے اور آواز میں ایک قسم کی سختی ہو اور ایسے حروف آٹھ ہیں۔جن کا مجموعہ یہ ہے۔ : اَجِدْ قَطٍ بَکَتْ  َ۔ ۲؎  ۳؎  (۲؎ ترجمہ اش این ست می یابم ترا کہ ترش روئی کردی ۲۱ منہ  ۳؎ من ضرب ۲۱ زینتہ)

(۴) رخوت  ۴؎ (۴؎ بالکسر سست شدن کما فی ص ۲۱ زینتہ)؛ اورجن حرفوں میں یہ صفت پائی جاوے ان کو رخوہ  ۵؎ (۵؎سہلہ مسترسلہ کمافی ص۲۱ زینتہ) کہتے ہیں۔ اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حرفوں کے اداکرتے وقت آواز ان کے مخرج میں ایسے ضعف کے ساتھ ٹھہرے کہ آوازجاری رہے اور   آواز میں ایک قسم کی نرمی ہواور شدیدہؔ اور متوسطہ کے سوا باقی سب حروف رخوہ ہیں اور متوسط کا بیان ابھی آتا ہے۔ اور ہمسؔ اور جہرؔ کی طرح شدت اور رخوت بھی ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ اور ان دونوں صفتوں کے درمیان ایک اور ہے۔

توسط:۔ اور جن دو حرفوں میں یہ صفت پائی جاوے ان کو متوسطہ اور بینیہ کہتے ہیں مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ آواز ا س میں نہ تو پوری   طرح بند ہو اور نہ پوری جاری ہو (حقیقت التجوید) اور ایسے حروف پانچ ہیں جن کامجموعہ یہ ہے لِن عُمَرُ  ۱؎ (۱؎ ترجمہ اش این ست۔ نرم شوائے عمر ۲۱ منہ) اور اس توسط کو الگ صفت نہیں گنا جاتا۔ کیونکہ اس میں کچھ شدت کچھ رخوت ہے۔پس یہ ان دونوں سے الگ نہ ہوئی اور اس مقام پر ایک شبہ ہے وہ یہ کہ حرف تاء اور کاف کو مہموسہ میں سے بھی شمار کیا ہے حالانکہ ان میں آواز بند ہوجاتی ہے اور اسی واسطے ان کو شدیدہ میں شمار کیا گیا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ان دونوں حرفوں میں ہمسؔ ضعیف ہے اور شدت قوی ہے سو شدت ۲؎ (۲؎: فی جہد المقل: وأما الشدید المہموس فحرفان: الکاف والتاء، فینحصر صوتہما بالکلیۃ، بل ونفسہما أیضا…لان حقیقتہ الصوت ہی النفس ثم ینفتح مخرجہماویجری فیہما نفس کثیر مع صوت ضعیف لیحصل الہمس وفیہ المشدہ فی آن والہمس فی زمان آخروزادنیئ حقیقتہ التجوید فالہمس فی زمان بعد آن آہ وفیہما وہذاباب یتحیر فیہ الالباب آہ منہ) کے قوی ہونے سے توآواز بند ہوجاتی ہے لیکن کسی قدر ہمس ہونے سے بعد بند ہونے کے کچھ تھوڑا سا سانس بھی جاری ہوتا ہے مگر اس سانس کے جاری ہونے میں یہ احتیاط رکھنی چاہیے کہ آواز جاری نہ ہو کیونکہ اگر آواز جاری کی جاوے گی تو کاف وتاء شدیدہ نہ رہیں گے کیونکہ رخوہ ہوجاویں گے اور دوسرے اس میں ہاء کی آواز پیدا ہوکر غلط ہوجاوے گا۔ ۳؎ (۳؎ بعض لوگ کاف وتاء میں سانس کے جاری میں اس قدر مبالغہ وغلو کرتے ہیں کہ صفت شدت زائل ہو کر ہاء ہوز کی آواز پید اہوجاتی ہے اور کاف وتاء مخلوط بالہاء ہوجاتے ہیں۔ اَبتَرُ کو اِبتَھر اور ثَقُلَت کو ثَقُلَتہ اور کَاناَ کو کَھَاناَ اور ذِکرَکَ کوذکھرکھہ پڑھتے ہیں۔ اور یہ سراسر غلط اور بے اصل ہ اور تمام کتب تجوید و قرأت اور اداء  محقیقین قراء کے خلاف ہے ”بلکہ کتاب النشر“ علامہ جزری اور منح الفکریہ“ ملاعلی قاری اور ”تحفہ نذریہ“ حضرت قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی سے اس کی تردید وتغلیط ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کی مفصل تحقیق میں مع جواب شبہات وتوجیہ ومطلب عبارت جہد القل رسالہ ضیاء الشمس فی اول الہمس مؤلفہ احقر میں معہ تصدیق حضرت مولانا تھانوی مدفیوضہم ودیگر اساتذہئ فن مذکورہے فانظر فیہا ان شئت ۲۱محمد یامین عفی عنہ۔)

(۵) استعلاء اور جن حرفوں میں یہ صفت پائی جاوے ان کو مستعلیہ کہتے ہیں۔ اورمطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حروف کے اداکرتے وقت ہمیشہ جڑ زبان کی اوپر کے تالو کی طرف اٹھ جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ حرف موٹے ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے حروف سات ہیں جن کا مجموعہ یہ ہے۔ خُصّ ۱؎ (۱؎ ترجمہ اش این ست کہ درکاژہئ تنگ وقت حرارت مقیم باش ۲۱ منہ وخص بالضم وتشدید صادخانہ نے کمافی م۲۱ زینتہ الفرقان) ضغط ۲؎ (۲؎ بالفتح تنگ کردن کمافی م۔فہو مصدر بمعنی اسم مفعول ۲۱ منہ زینتہ الفرقان) قظ ۳؎ (۳؎ بالکسر قظ امرمن القیظ بگرمامقیم بودن بجائے من ضرب کمافی صراح ۲۱ منہ زینتہ الفرقان)

(۶) استفال ۴؎ (۴؎ نقیض اعتلا کمافی تاج المصادر و اعتلاء بلند شدن وجاء متعدیاایضاً کمافی ص وفی شرح الجزریتہ) اورجن حرفوں میں یہ صفات پائی جاویں ان کو مستفلہ کہتے ہیں اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حروف کے اداکرنے کے وقت زبان کی جڑ اوپر کے تالو کی طرف نہیں اٹھتی۔ جس کی وجہ سے یہ حروف باریک رہتے ہیں اور مستعیلہ کے سواباقی سب حروف مستفلہ ہیں اور یہ دونوں صفتیں استعلاء اور استفال بھی ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔

(۷) اطباق‘ اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو مطبقہ ۵؎ (۵؎ بکسر بادفتح آں کمافی نوادرالوصول وذکرنی الصراح الثانی فقط وملصق بفتح صادوبکسرآں لازم ومتعدی آمدہ کمافی الغتہ ۲۱ زینتہ) کہتے ہیں۔ اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حروف کے اداکرنے کے وقت زبان کا بیچ اوپر کے تالو سے  ملصق ہوجاتا ہے یعنی لپٹ جاتا ہے اور ایسے حروف چار ہیں۔ص۔ض۔ط۔ظ۔

(۸)  انفتاح‘ اور جن حروف میں یہ صفت ہو ان کومنفتحہ کہتے ہیں اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان حروف کے اداکرنے کے وقت زبان کا بیچ اوپر کے تالو سے جدارہتا ہے۔ خواہ زبان کی جڑ تالو سے لگ جاوے جیسے قاف میں لگ جاتی ہے۔ خواہ نہ لگے (جہد المقل مع الشرح) اور مطبقہ کے سواسب حروف منفتحہ ہیں اور یہ دونوں صفتیں اطباق وانفتاح بھی ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔

(۹) اذلاق۔‘ اور جن حروف میں یہ صفت پائی جائے ان کو مذلقہ ۲؎ (۲؎  مذلقہ اسم المفعول) کہتے ہیں اور مطلب ۳؎ (۳؎ ذلاقت لغت میں عبارت ہے فصاحت اور خفت کلام سے اورچونکہ یہ حروف سبکی اور سرعت سے اداہوتے ہیں اس لئے اس کو مذلقہ کہا جاتا ہے کمافی الصراح وغیرہ ۲۱ زینتہ)اس صفت کا یہ ہے کہ یہ حروف زبان اورہونٹ کے کنارہ سے بہت سہولت کے ساتھ جلدی سے اداہوتے ہیں اور ایسے حروف چھ ہیں۔جن کا مجموعہ یہ ہے فَرّمِن ۴؎ لُبِّ (۴؎ترجمہ این ست گریخت ازعقل۲۱منہ) یعنی ان میں جوحروف شفویہ ہیں وہ ہونٹ کے کنارہ سے اداہوتے ہیں اور شفویہ کا مطلب مخرج نمبر۶۱ میں گزرا ہے اورجوشفویہ نہیں وہ زبان کے کنارے سے ادا ہوتے ہیں (ورۃ الفرید للشیخ الدہلوی)

(۰۱)  اصمات ۵؎ (۵؎ فی حقیقتہ التجوید الاصمات لغتہ لمنع مطلقاً واصلاحاً امتناع الکلمتہ الرباعےۃوالخماسیتہ من غیر حرف من المذلقتہ فی العسجد عجمی اسم للذھب ولیس بعربی ۲۱ منہ)  اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو مصمتہ ۶؎ (۶؎بفتح میم ثانی کذانی نوادر الوصول ۲۱ زینتہ) کہتے ہیں اور مطلب اس صفت کا یہ ہے ۷؎ (۷؎  مصمتہ لغت میں بے خوف چیز کو کہتے ہیں پس لامحالہ وہ ثقیل ہوگی اور یہ حروف بہ نسبت ذلقیہ کے ثقیل ہیں۔ کمافی نوادرالوصول اور باعتبار مضاعت مذلقہ یہ قول مناسب ہے ۲۱ زینتہ۔ اللھم اغفر لاتبہٖ) کہ یہ حروف اپنے مخرج سے مضبوطی اور جماؤ کے ساتھ اداہوتے ہیں۔ آسانی اور جلدی سے ادانہیں ہوتے اور مذلقہ کے سوا سب حروف مصمتہ ہیں اور یہ دونوں صفتیں اذلاق واصمات بھی ایک دوسرے  کے مقابل ہیں ان دس صفات کو صفات متضادہ کہتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کی ضد یعنی مقابل ہے جیسا کہ اوپر بتلایاگیا ہے۔ آگے جو صفات آتی ہیں وہ غیر متضاد کہلاتی ہیں اور جاننا چاہیے کہ صفات متضادہ سے توکوئی حرف بچا ہوانہیں رہتا۔ بلکہ جتنے حروف ہیں ہر حرف پر مقابل صفتوں میں سے کوئی نہ کوئی صفت صادق آئے گی اور صفاتِ غیر متضادہ بعض حروف میں ہوں گی بعض میں نہ ہوں گی۔ اور وہ صفات غیر متضادہ یہ ہیں۔

(۱۱) صفیر اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو صفیریہ کہتے ہیں اورمطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان کے اداکے وقت ایک آواز تیزمثل سیٹی کے نکلتی ہے اور ایسے حروف تین ہیں۔ص۔ز۔س۔

(۲۱) قلقلہ ۱؎ (۱؎ درلغت عبارت سُست ازجنبش وحرکت کذافی نوادرالوصول ۲۱زینتہ) اور جن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو حروف قلقلہ کہتے ہیں۔ اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ حالت سکون میں اداکے وقت مخرج کو حرکت ہو جاتی ہے۔ اور ایسے حروف پانچ ہیں جن کا مجموعہ قُطُبُ ۲؎  (۲؎ مجموعہ ان کا اس شعر میں ہے   ؎ باءؔ وجیم

وتاوؔدالؔوقافؔ کو جب ہوساکن قلقلہ کرکے پڑھو ۲۱منہ)  جَدًّ ۳؎  (۳؎ یعنی مداربزرگی ۲۱منہ) ہے۔

(۳۱) لین ۴؎ (۴؎ بالکسر تری ضد خشونت ۲۱منہ) ہے۔ اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو حروف لین کہتے ہیں اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان کو مخرج سے ایسی نرمی کے ساتھ اداکیاجاتا ہے کہ اگر کوئی ان پرمدکرنا چاہے تو کرسکے او رایسے حروف دو ہیں واؤ ساکن‘ اور یائے ساکن جبکہ ان سے پہلے والے حرف پرفتحہ یعنی زبر ہو جیسے۔ خوف۔ صیف۔

(۴۱) انحراف۔ اورجن حروف میں یہ صفت پائی جاوے ان کو منحرفہ کہتے ہیں۔ اور وہ دوحروف ہیں۔ لامؔ اور راءؔ اور مطلب اس صفت کا یہ ہے کہ ان کے اداکے وقت لام میں تو زبان کے کنارہ کی طرف اور راءؔ میں کچھ زبان کی پشت کی طرف اور کچھ لام کے موقع کی طرف میلان پایاجاوے (ورۃ الفرید)

(۵۱) تکریر۔ اور یہ صفت صرف راءؔ میں پائی جاتی ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ چونکہ اس کے اداکرنے کے وقت زبان میں ایک رعشہ یعنی لرزہ ہوتا ہے اس لئے اسوقت آواز میں تکرار کی مشابہت ہوجاتی ہے اور یہ مطلب نہیں کہ اس میں تکرار ظاہر کیا جاوے۔ بلکہ اس سے بچنا چاہیے۔ اگرچہ اس پر تشدید بھی ہو۔ کیونکہ وہ پھر بھی ایک ہی حرف ہے۔ کئی حرف تو نہیں ہیں۔ (ورۃ الفرید ملخصاً)

(۶۱) تفشی ۱؎ (۱؎ ہو لغتہ الانتباب کذافی شرح الجزرےۃ۔۲۱ زینتہ) اور یہ صفت صرف شینؔ کی ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کے ادامیں آواز منہ کے اندر پھیل جاتی ہے (ورۃ الفرید)

(۷۱) استطالت ۲؎ (۲؎ درازشدن کمافی م۲۱ منہ) اور یہ صفت صرف ضادؔ کی ہے۔مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کے ادامیں شروع مخرج سے آخر تک یعنی حافہ زبان کے شروع سے حافہ زبان کے آخر تک آواز کو امتداد رہتا ہے یعنی اس کا مخرج جتنا طویل ہے پورے مخرج میں آواز جاری رہنے سے آواز بھی طویل ہوجاتی ہے۔ (جہدالمقل)

(فائدہ نمبرا) اگر کسی کو شبہ ہو کہ یہ سات صفت جو اخیر کی ہیں جن حروف میں یہ صفات نہ ہوں ان میں ان کی ضدضرور ہوگی۔ مثلاً ض میں استطالت ہے تو باقی سب حروف میں عدم استطالت ہوگی۔ تو یہ دونوں ضد مل کر بھی سب کو شامل ہوگئیں۔ پھر صفاتِ متضاد وغیرمتضادہ میں کیا فرق رہا۔ جواب: اس کا یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے مگر صفات متضاد میں ہر صفت کی ضد کا کچھ نہ کچھ نام بھی تھا۔ اور ان دونوں ناموں میں سے ہر حرف پر کوئی نہ کوئی صادق آتا تھا اور چونکہ یہاں ضد کا نام نہیں۔ اس لئے اس ضد کے صادق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ دونوں صفات میں یہ فرق ہوا۔

(فائدہ نمبر۲) محض مخارج وصفات حروف کے دیکھ کر اپنے اداکے صحیح ہونے کا یقین نہ کربیٹھے۔ اس میں ماہر مشاق استاد کی ضرورت ہے۔ البتہ جب تک ایسا استاد میسر نہ ہو بالکل کوراہونے سے کتابوں ہی سے کام چلاناغنیمت ہے۔

(فائدہ نمبر۳) اس لمعہ کے شروع میں صفت لازمہ ذاتیہ کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ اگر وہ صفت ادانہ ہو تو وہ حرف ہی نہ رہے۔ یہ حرف نہ رہنا کئی طرح ہے ایک یہ کہ دوسرا حرف ہوجاوے۔ ایک یہ کہ رہے تو وہی مگر اس میں کچھ کمی اورنقصان آجاوے۔ ایک۳؎ یہ کہ وہ کوئی عربی حرف نہ رہے۔ کوئی حرف مخترع ہوجاوے اور یہی حال ہے صحیح مخارج سے نہ نکالنے کا کہ کبھی دوسراحرف ہوجاتا ہے کبھی اس حرف میں کچھ کمی ہوجاتی ہے کبھی بالکل ہی حرف مخترع بن جاتا ہے چونکہ ایسی غلطی سے بعض دفعہ نماز جاتی رہتی ہے اس لئے اگر ایسی غلطی ہوجاوے تو خاص اس موقع سے اطلاع دے کر کسی معتبر عالم سے مسئلہ پوچھ لینا ضروری ہے۔ اسی طرح زبر زیر یا گھٹاؤ بڑھاؤ کی غلطیوں کا یہی حکم ہے۔ جس کی مثالیں دوسرے لمعہ میں مذکور ہیں ان کو بھی کسی عالم سے پوچھ لیاکریں۔

(فائدہ نمبر۴) حروف کے مخارج اور صفات لازمہ میں کوتاہی ہونے سے جو غلطیاں ہوتی ہیں۔ فن تجوید کا اصلی مقصد ان ہی غلطیوں سے بچنا ہے۔ اسی واسطے مخارج اور صفات کا بیان سب قاعدوں سے مقدم کیا گیا ہے۔اب آگے جو صفاتِ محسنہ کے متعلق قاعدے آویں گے وہ اس مقصود مذکور سے دوسرے درجہ پرہیں۔لیکن اب عام طور سے ان دوسرے درجہ کے قاعدوں کی رعایت اس اصلی مقصود سے زیادہ کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان قاعدوں سے نغمہ خوشنما ہوجاتا ہے اور لوگ نغمہ ہی کا زیادہ خیال کرتے ہیں اور مخارج وصفاتِ لازمہ کو نغمہ میں کوئی دخل نہیں اس لئے اس کی طرف توجہ کم کرتے ہیں۔

(فائدہ نمبر۵) جس طرح یہ بے پرواہی کی بات ہے کہ تجوید میں کوشش نہ کرے اسی طرح یہ بھی زیادتی ہے کہ تھوڑے سے قاعدے یاد کرکے اپنے کو کامل سمجھنے لگے اور دوسروں کو حقیر اور ان کی نماز کو فاسدجاننے لگے یا کسی کے پیچھے نماز ہی نہ پڑھے۔محقق عالموں نے عام مسلمانوں کے گنہگار ۱؎ (۱؎ گنہگار نہ ہونا اور نماز کا درست ہونا اس صورت میں ہے جب کہ لحن جلی نہ ہو جیسا کہ دوسرے لمعہ کے مضمون سے مستفاد نہ ہو۔ ۲۱ زینتہ) ہونے کا اور ان کی نمازوں کے درست نہ ہونے کا حکم نہیں کیا۔ اس میں اعتدال کا درجہ قائم کرنا ان علماء کا کام ہے جو قرأت کو ضروری قرار دینے کے ساتھ فقہ اور حدیث پر نظر رکھتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تحقیق دوسرے لمعہ میں دیکھ لو۔

صفاتِ محسنہ محلیہ کے بیان میں

صفاتِ محسنہ محلیہ کے بیان میں

چھٹا لمعہ۔ جاننا چاہیے کہ یہ صفات سب حرفوں میں نہیں ہوتیں۔ صرف آٹھ حرف ہیں جن میں مختلف حالتوں میں مختلف صفات کی رعایت ہوتی ہے۔ وہ حروف یہ ہیں۔ ل۔ر۔م ساکن ومشددو نون ساکن میں تنوین بھی داخل ہے۔ کیونکہ وہ اگرچہ لکھنے میں نون نہیں ہے مگر پڑھنے میں نون ہے جیسے بًؔ پر اگر دو زبر پڑھو تو ایسا ہوگا جیسے بَن پڑھو۔ اَ جس سے پہلے ہمیشہ زبر ہی ہوتا ہے۔ ؤ ساکن جب کہ اس سے پہلے پیش یا زبر ہو یؔ ساکن جبکہ اس سے پہلے زیر یا زبر ہو۔ دیکھو لمعہ ۴ مخرج نمبرا ہمزہ اور ہمزہ کی حقیقت مخرج اول میں بیان کی گئی ہے۔پھر دیکھ لو اوران حرفوں میں جوایسی صفات ہوتی ہیں ان میں بعضی صفات تو خود استاد کے پڑھانے ہی سے اداہوجاتی ہیں۔ اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں مثلاً الف اور واؤ اور یاؔ اور ہمزہ کا کہیں ثابت رہنا اور کہیں حذف ہوجانا صرف ان صفات کو بیان کیا جاتا ہے۔ جوپڑھانے سے سمجھ میں نہیں آئیں خود ارادہ کرنا پڑتا ہے۔جیسے پُر پڑھنا اور باریک پڑھنا۔ اور غنّہ کرنا یا نہ کرنا اور مد کرنا یا نہ کرنا۔ اب ان آٹھوں حرفوں کے قاعدے الگ الگ مذکور ہوتے ہیں۔

لام کے قاعدوں میں

لام کے قاعدوں میں

ساتواں لمعہ۔ لفظ اللہ کا جولام ہے اس سے پہلے اگر زبر والا یا پیش والا حرف ہوتو اس لام کو پُر کرکے پڑھیں گے۔جیسے اَرَاداللہُ، رَفَعَہُ اللہُ۔ اور اس پُر کرنے کوتفخیم کہتے ہیں۔ اور اگر اس سے پہلے زیروالا حرف ہو تو اس لام کو باریک پڑھیں گے۔ جیسے بِسمِ اللہ اور اس باریک پڑھنے کو ترقیق کہتے ہیں اور لفظ اللہ کے سوا جتنے لام ہیں سب باریک پڑھے جاویں گے جیسے ماوَالَّھم اور کُلِّہ‘۔

(تنبیہ) اَللَّھُمَّ میں بھی یہی قاعدہ ہے جو اَللّہُ ُ میں ہے کیونکہ اس کے اول میں بھی لفظ اَللّہُ ہے۔

راء کے قاعدوں میں

راء کے قاعدوں میں

آٹھواں لمعہ (قاعدہ) اگر راء پر زبر یا پیش ہو تو اس راء کو تفخیم سے یعنی پُر پڑھیں گے جیسے رَبَکَ رُبَماَ اگر راء پر زیر ہو تو اس کو ترفیق سے یعنی باریک پڑھیں گے جیسے رِجَال’‘۔

(تنبیہ) رَاء مشدوہ بھی ایک راء ہے پس خود اس کی حرکت کا اعتبار کرکے اس کو پُر یا باریک پڑھیں گے جیسے سِرّا کی راءؔ کو پُر پڑھیں گے اور دُرِّیٌ کی راء کو باریک اور اس کو اگلے قاعدہ نمبر۲ میں داخل نہ کہیں گے جیسے بعضے ناواقف اس کو دوراء سمجھتے ہیں۔ پہلی ساکن اور دوسری متحرک یہ غلطی ہے۔

قاعدہ ۲: اور اگر راء ۱؎ (۱؎ خواہ را کا سکون اصلی ہو یا عارضی جیسے رُسُر پر وقف کریں تو راء کا سکون عارضی ہوگا اور راءؔ پُرپڑھی جاوے گی۔کیونکہ اس کے ماقبل ضمہ ہے ۲۱ قاری سید محمد یامین صاحب) ساکن ہو تو اس سے پہلے والے حرف کو دیکھو کہ اس پر کیا حرکت ہے۔ اگر زبر یا پیش ہو تو اس راء کو پُر پڑھیں گے جیسے بَرقٌ ےُرزَقُونَ اور اگرزیر ہے تو اس راء کو باریک پڑھیں گے۔جیسے اَنذِرھُم لیکن ایسی راء کے باریک ہونے کی تین شرطیں ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ یہ کسرہ اصلی ہو عارضی نہ ہو کیونکہ اگر عارضی ہوگا تو پھر یہ راء باریک نہ ہوگی جیسے اِرجِعُوا دیکھوراء ساکن بھی ہے اور اس سے پہلے حرف یعنی ہمزہ پر زیر بھی ہے مگر چونکہ یہ زیر عارضی ۲؎ (۲؎ لدفع تعذرالابتداء بالسکون ۲۱ منہ) اس لئے اس راء کو پُر پڑھیں گے ۳؎ (۳؎لان الاصل   ؎ ( ؎ والدلیل علیہ تاوےۃ اہل اللسان لہذہ الحروف کذلک قالہ المؤلف العلام ۲۱زینتہ) فی الراء تفحیم کماان الاصل فی اللام الرقیق ۲۱ منہ) ہے لیکن بدول عربی پڑھے ہوئے اس کی پہچان نہیں ہوسکتی کہ کسرہ یعنی زیر اصلی کہاں ہے اور عارضی کہاں ہے جہاں جہاں شبہ ہو کسی عربی پڑھے ہوئے سے پوچھ کر اس قاعدے    ر عمل کرے۔ دوسری شرط۱؎ (۱؎وبعضہم عبر عن ہذا الشرط بان تکون الکسرۃ متصلۃ بالراء وبعضہم کجہد المقل بان تکون الکسرۃ متصلہئ بالراء فی کلمتہ واحدۃ وبعضہم اکتفی بکون الکسرۃ غیر عارضہ والکل عبارات عن المعنون ۲۱منہ) یہ ہے کہ یہ کسرہ اور یہ راء دونوں ایک کلمہ میں ہوں اگر دوکلمے میں ہوں گے تو بھی راء باریک نہ ہوگی جیسے رَبِّ ارجِعُونِ اَمِ اَرتَابُوا (درۃ الفرید) اور اس شرط کا پہچاننا بہ نسبت پہلی شرط کے آسان ہے کیونکہ کلموں کا ایک یادوہونا اکثر ہر شخص کو معلوم ہوجاتا ہے۔تیسری شرط یہ ہے کہ اس راء کے بعد اسی کلمہ میں حروف مستعلیہ میں سے کوئی حرف نہ ہو۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر راء کو پڑھیں گے اورایسے حرف سات ہیں جن کا بیان پانچویں لمعہ کے نمبر۵ میں آچکا ہے جیسے قرطاس اِرصَاد۔فرقہ۔لَبِالمِرصَاد۔ ان سب میں راء کوپُرپڑھیں گے اور تمام قرآن میں اس قاعدے کے یہی چارلفظ پائے جاتے ہیں۔ اور ویسے بھی اس کا پہچاننا آسان ہے۔

(تنبیہ۲) تیسری شرط کے موافق لفظ کُلُ فِرقٍ کی راء میں بھی تفخیم ہوگی لیکن چونکہ قاف پر بھی زیر ہے ۳؎ (۳؎   اور اس وجہ سے راء دو کسروں کے درمیان ہوکر   ضعیف ہوگئی۔پس ترقیق جائز رکھی گئی کمافی شرح الجزریتہ ۲۱منہ) اسلئے بعضے قاریوں کے نزدیک اس میں ترقیق ہے۔ اور دونوں امر جائز ہیں۔

(تنبیہ۳) تیسری شرط میں جو یہ لکھا ہے کہ اگر ایسی راء کے بعد اسی کلمہ میں حروف مستعلیہ میں سے کوئی حرف ہوگا تو اُس کو پُر پڑھیں گے تو اسی کلمہ کی قید اس لئے لگائی کہ دوسرے کلمہ میں حروف مستعلیہ کے ہونے کا اعتبار نہ کریں گے جیسے اَنذِر قَومَکَ فَاصبِرصَبراً اس میں راء باریک ہی پڑھیں گے۔

(قاعدہ ۳) اور اگر راء ساکن سے پہلے والے حرف پر حرکت نہ ہو وہ بھی ساکن ہو۔ اور ایسا حالت وقف ۴؎  (۴؎  جبکہ وقف بالاسکان یا بالاشمام ہو ۲۱ قاری سید محمد یامین صاحب سلمہ‘ اللہ تعالیٰ) میں ہوتا ہے۔ جیسا ابھی مثالوں میں دیکھو گے۔ تو پھر اس حرف سے پہلے والے حرف کو دیکھو اگر اس پر زبر یا پیش ہو تو راء کو پُر پڑھو جیسے لَیلَۃُ القَدرِط بِکُمُ العُسرَ کہ ان میں راء بھی ساکن اور دال اور سین بھی ساکن اورقاف پر زبر اور عین پر پیش ہے اسلئے ان دونوں کلموں کی راء کوپُر پڑھیں گے اور اگر اس پر زیر ہے۔ تو راء کو باریک پڑھو۔جیسے ذِی الذِّکرِ کہ راء کوبھی ساکن اور کاف بھی ساکن اور ذال پر زیر ہے اس لئے اس راء کو باریک پڑھیں گے۔ (تنبیہ ۱) لیکن اس راء ساکن سے پہلے جو حرف ساکن ہے اگر یہ حرف ساکن یئ  ہوتو پھر یئ سے پہلے والے حرف کو مت دیکھو بس راء کو ہر حال میں باریک پڑھو خواہ یئ سے پہلے کچھ ہی حرکت ہو جیسے خیرط قَدِیرط کہ ان دونوں راء کو باریک ہی پڑھیں گے۔

(تنبیہ۲) اس قاعدہ نمبر۲ کے موافق لفظ مصر اور عَینَ القَطرِ پر جب وقف کیا جائے تو راء کو باریک ہونا چاہیے مگر قاریوں نے ان دونوں لفظوں کی راء کو باریک اور پُر دونوں طرح پڑھاہے اور اسی لیے دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔لیکن بہتر یہ ہے کہ خود راء پر جو حرکت ہو اس کا اعتبار کیاجاوے پس مصر میں تفخیم اولیٰ ہے کہ راء پر زبر ہے اور القِطر میں ترقیق اولیٰ ہے کہ راء پر زیر ہے۔

(تنبیہ ۳) اس قاعدے نمبر۳ کی بناء پر سورہئ والفجر میں اِذَا ےَسرٍط پر جب وقف ہو اس کی راء مفخم ہونا چاہیے لیکن بعضے قاریوں نے اس کے باریک پڑھنے کو اولیٰ ۱؎ (۱؎ لان اصلہ لیسری فرفقواالراء لیدل علی الیاء المحذوفتہ) لکھا ہے مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ اسلئے اس راء کو قاعدہ مذکورہ کے موافق ہی پڑھنا چاہیے۔ ۲؎ (۲؎ کیونکہ قراء محقیقین مثل علامہ جزری اور شاطبی اور شرح مقدمۃ الجزرےۃ والشاطبیہ وجہد المقل وغیرہ سے اس کی ترقیق ثابت نہیں ہے بلکہ غیث النفع میں اس کے پُر ہی پڑھے جانے کی تصریح ہے۔  حیث قال ومن وقف بغیر یاء فخم الراء الخ اور یہی قاعدہ علامہ شاطبی وغیرہ کے موافق ہے ۲۱ محمد یامین عفی عنہ)

(قاعدہ ۴) راء کے بعد ایک جگہ ۳؎ (۳؎ عند حفص ۲۱منہ) قرآن مجید میں امالہ ہے توراء کی اس حرکت کو زیر سمجھ کر راء کو باریک پڑھیں اور وہ جگہ یہ ہے بِسمِ اللہِ مَجرٖیھا ۴؎ (۴؎ ھوفی الاصل مجراھا بالالف فاملیت ۲۱منہ) اس راء کو ایسا پڑھیں گے جیسا لفظ قطرے کی راء کو پڑھتے ہیں امالہ اسی کو کہتے ہیں جس کو فارسی والے یائے مجہول کہتے ہیں۔پس مجرٖھا کی راء کو باریک پڑھیں ۱؎ (۱؎ ولا ینظر الی انہ فی الاصل الف والراء مفتوحۃ وحکم ھذہ الراء التفخیم ۲۱منہ) گے۔

(قاعدہ ۵) جو راء وقف کے سبب ساکن ہو تو ظاہر بات ہے کہ اس میں قاعدہ نمبر۲ و نمبر ۳ کے موافق اس سے پہلے والے حرف کو اور کبھی اس سے پہلے والے حرف کو دیکھ کر اس راء کو باریک یا پُر پڑھنا چاہیے تو اس میں اتنی بات اور سمجھو کہ یہ پہلے والے حرفوں کودیکھنا اس وقت ہے جب کہ وقف میں اس راء کو بالکل ساکن پڑھاجاوے جیسا وقف کرنے کا عام طریقہ یہی ہے۔ لیکن وقف کا ایک اور طریقہ بھی ہے جس میں وہ حرف جس پر وقف کیا ہے بالکل ساکن نہیں کیاجاتا بلکہ اس پر جوحرکت ہو اس کو بھی بہت خفیف سا اداکیاجاتا ہے اور اس کو رَوم کہتے ہیں اور یہ صرف زیر اور پیش میں ہوتا ہے اس کا مفصل بیان لمعہ تیرہ میں انشاء اللہ تعالیٰ آوے گا۔ سو یہاں یہ بتلانا منظور ہے کہ ایسی راء پر روم کے ساتھ وقف کیا جاوے تو پھر پہلے والے حرف کو نہ دیکھیں گے بلکہ خود اس راء پر جو حرکت ہوگی اس کے موافق پُر یا باریک پڑھیں گے جیسے وَالفَجرِ پر اگر اس طرح سے وقف کریں تو راء کو باریک پڑھیں اورمُنتصَرٌ پر اگر اس طرح وقف کریں تو راء کو پُر پڑھیں ۲؎ (۲؎ کیونکہ راء موقوفہ میں جب رَوم کیا جاوے گا تو اس کی حرکت میں اتنا ضعف ہوگا کہ صرف قریب والا سنے گا۔ لہذا جیسی حرکت ظاہر ہوگی ویسی ہی راء پڑھی جاوے گی ۲۱۔ ابن ضیاعفی عنہ)

میم ساکن اور مشدّد کے قاعدوں میں

میم ساکن اور مشدّد کے قاعدوں میں

نواں لمعہ (قاعدہ ۱) میم اگر مشدد ہو اس میں غنہ ضروری ہے، اور غنہ کہتے ناک میں آواز لے جانے کو جیسے لَمّاَ اور اس حالت میں اس کو حرف غنہ کہتے ہیں۔

(فائدہ) غنہ کی مقدار ایک الف ہے۔ اور الف کی مقدار دریافت کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کھلی ہوئی انگلی کو بندکرلے یابندانگلی کوکھول لے اور یہ محض ایک انداز ہے۔ باقی اصل دارومدار استادمشاق سے سننے پر ہے۔

(قاعدہ۲) میم اگر ساکن ہو تو اس کے بعد دیکھنا چاہیے کیا حرف ہے اگر اس کے بعد بھی میم ہے تو وہاں ادغام ہوگا یعنی دونوں میمیں ایک ہوجاویں گی اور مثل ایک میم مشدد کے اس میں غنہ ہوگا(حقیقتہ التجوید) جیسے اِلَیکُم مُرّسَلُونَ اور اس کو ادغام صغیر مثلین کہتے ہیں اور اگر میم ساکن کے بعدباء ہے تو وہاں غنہ کے ساتھ اخفاء ہوگا اور اس اخفاء کا مطلب یہ ہے کہ اس میم کو اداکرنے کے وقت دونوں ہونٹوں کے خشکی کے حصہ کو بہت نرمی کے ساتھ ملاکر غنہ کی صفت کو بقدر ایک الف بڑھا کرخیشوم سے اداکیاجاوے اور پھر اس کے بعد ہونٹوں کے کھلنے سے پہلے ہی دونوں ہونٹوں کے تری کے حصہ کو سختی کے ساتھ ملاکرباء کو اداکیا جاوے (جہد المقل) جیسے مَن ےَّعتَصِم باللہِ اور اس کو اخفاء شفوی کہتے ہیں اور اگر میم ساکن کے بعد میم اور باء کے سوا اورکوئی حرف ہو تو وہاں میم کا اظہار ہوگا۔ یعنی اپنے مخرج سے بلاغنہ ظاہر کی جاوے گی، جیسے اَنعمَتَ اور اس کو اظہار شفوی کہتے ہیں۔

(تنبیہ) بعضے حفاظ اس اخفاء واظہار میں بأء اور داوؔ اور فاؔ کا ایک ہی قاعدہ سمجھتے ہیں۔ اور اس قاعدہ کا نام بوف کا قاعدہ رکھا ہے۔یعنی بعضے تو تینوں میں اخفا کرتے ہیں۔ اور بعضے تینوں میں اظہارکرتے ہیں اور بعضے ان حرفوں کے پاس میم ساکن کو ایک گونہ حرکت دیتے ہیں۔جیسے عَلَیھِم وَلاَالضّآلِّینَ ےَمُدُّ ھُم فِی یہ سب خلافِ قاعدہ ہے۔ پہلا اور تیسرا قول تو بالکل ہی غلط ہے اور دوسرا قول ضعیف ہے۔ (درۃ الفرید)

نون ساکن اور مشدد کے قاعدوں میں

نون ساکن اور مشدد کے قاعدوں میں

دسواں لمعہ۔ اور چھٹے لمعہ کے شروع میں لکھ چکا ہوں کہ تنوین بھی نون ساکن میں داخل ہے۔ وہاں پھر دیکھ لو مگر ان قاعدوں میں نون ساکن کے ساتھ تنوین کا نام بھی آسانی کے لیے دیا جاوے گا۔

(قاعدہ نمبر۱) نون اگر مشدد ہو تو اس میں غنہ ضروری ہے اور مثل میم مشدد کے اس کو بھی اس حالت میں حرف غنہ کہیں گے۔ نویں لمعہ کا پہلا قاعدہ پھر دیکھو۔

(قاعدہ ۲) نون ساکن اور تنوین کے بعداگر حروف حلقی میں سے کوئی حرف آوے تو وہاں نون کا اظہار کریں گے یعنی ناک میں آواز نہ لے جاویں گے اور غنہ بھی نہ کریں گے جیسے اَنعَمتَ سَوٓاء’‘ عَلَیھِم وغیرہ اور اس اظہارکو اظہار حلقی کہتے ہیں اور حروف حلقیہ چھ ہیں جو اس شعر میں جمع ہیں:

حرف حلقی چھ سمجھ اے نورعینہمزہ ہاؤ حاؤ خاؤ عین وغین چوتھے لمعہ میں مخرج نمبر۲، نمبر۳،نمبر۴ کو پھر دیکھ لو۔ اور اظہار کا مطلب نویں لمعہ کے دوسرے قاعدہ میں پھر دیکھ لو۔

(قاعدہ ۳)  نون ساکن اور تنوین کے بعد اگر ان چھ حرفوں میں سے کوئی حرف آوے جس کا مجموعہ ےَرمَلُونَ  ۱؎  (۱ ؎  ترجمہ اش ایں است خرامش می کنندآں چندمردن۔۲۱ منہ) ہے تو وہاں ادغام ہوگا یعنی نون اسکے بعد والے حروف سے بدل کر دونوں ایک ہوجاویں گے جیسے مِن لَّدُنہُ دیکھو نون کو لام بناکر دونوں لام کوایک کردیا۔ چنانچہ پڑھنے میں صرف لام آتا ہے۔ اگرچہ لکھنے میں نون باقی ہے مگر ان چھ حرفوں میں اتنا فرق ہے کہ ان میں سے چارحرفوں میں تو غنہ بھی رہتا ہے اور یہ غنہ مثل نون مشدد کے بڑھا کر پڑھا جاتا ہے کہ ان چاروں کا مجموعہ ہے۔ ےَنمُُو ۱؎  (۱ ؎ ترجمہ اش این است نمومی یابدآں یک مرد۲۱منہ) جیسے مَن ےُّؤمِنُ۔بَرقٌ ےَّجعَلُونَ وغیرذٰلک اور اس کو ادغام مع الغنہ کہتے ہیں اور دوجو رہ گئے یعنی رؔ۔ل۔ان میں غنہ نہیں ہوتا۔جیسیمِن لَّدُنہُ مثال اوپر گزری ہے۔ اس میں ناک میں ذرا بھی آوازنہیں جاتی، خالص لام کی طرح پڑھتے ہیں اور اس کو ادغام بلاغنہ کہتے ہیں اور نویں لمعہ کے قاعدہ نمبر۱ونمبر۲ میں غنہ وادغام کے معنی پھر دیکھ لو۔مگر اس ادغام کی ایک شرط یہ ہے کہ یہ نون اور یہ حرف ایک کلمہ میں نہ ہوں ورنہ ادغام نہ کریں گے بلکہ اظہارکریں گے جیسے قِنوَان’‘ صِنوَان’‘ بُنےَان’‘ اور تمام قرآن میں اس قاعدہ کے یہی چار لفظ پائے گئے ہیں اور ان میں جو اظہار ہوتا ہے اس کو اظہار مطلق کہتے ہیں۔

(قاعدہ ۴)  نون ساکن اور تنوین کے بعد اگر حرف باءؔ آوے تو اس نون ساکن اور تنوین کو میم سے بدل کر غنہ اور اخفا کے ساتھ پڑھیں گے جیسے مِن بَعدِ سَمِیعٌ بَصَیرٌ اور بعضے قرآنوں میں آسانی کے لئے ایسے نون وتنوین کے بعد ننھی سی میم بھی لکھ دیتے ہیں اس طرح مَن م بَعداور اس بدلنے کو اقلاب اور قلب کہتے ہیں۔ اور اس میم کے اخفاء کا مطلب اور اداکرنے کا طریقہ بھی وہی ہے جو کہ اخفاء شفوی کا تھا۔

نویں لمعہ کا دوسرا قاعدہ پھر دیکھ لو۔

(قاعدہ ۵) نون ساکن اور تنوین کے بعد اگران تیرہ حرفوں کے سوا جن کا ذکر قاعدہ نمبر۲ونمبر۳ونمبر۴ میں ہوچکا ہے اور کوئی حرف آوے تو وہاں نون اور تنوین کو اخفاء اور غنہ کے ساتھ پڑھیں گے۔ اور وہ پندرہ حرف ۲؎ (حروف اخفاان اشعارمیں جمع ہیں ان کو یادکرلو   ؎ پندرہ حرفوں میں تم اخفاء کرو: مجھ سے سن لو ان کی تفصیل کر۔تاؤثاؤجیم ودال وذال وزاء، سین وشین وصادوضاد وطاؤظاء، فاؤقاف ہیں ہے پندرا، اس کو اخفاء حقیقی ہے لکھا ۲۱ محمد عبداللہ۔) یہ ہیں۔ ت،ث،ج،د،ذ،رس،ش،ص،ض،ط،ظ،ف،ق،ک۔ اور الف کواس لئے شمار نہیں کیا کہ وہ نون ساکن کے بعد نہیں آسکتا (درۃ الفرید) اور اس  اخفا ۳؎ (۳؎ پس جو لوگ نون مخفی کے اداکرنے میں زبان کی نوک کو تالو سے لگاتے ہیں ان سے اخفاادانہیں ہوتا۔بلکہ وہ اخفاکی جگہ اظہار کو اس کی مقدار  معینہ سے بڑھاہوااداکرتے ہیں۔اسی طرح جو لوگ اس کے بعد والے حرف کے مخرج سے نکالتے ہیں ان سے بھی اخفاء ادانہیں ہوتا بلکہ وہ اخفاء کی ادغام مع الغنہ یعنی ادغام ناقص کرتے ہیں فافہم وتامل ۲۱۔ محمد یامین غفرلہ) کامطلب یہ ہے کہ نون ساکن اور تنوین کو اس کے مخرج اصلی (کنارہئ زبان اور تالو) سے علیحدہ رکھ کر اس کی آواز کو خیشوم میں چھپا کر اس طرح پڑھیں کہ نہ ادغام ہو نہ اظہار بلکہ دونوں کے درمیانی حالت ہو۔ یعنی نہ تو اظہار کی طرح اس کے ادامیں سرِزبان تالو سے لگے اور نہ ادغام کی طرح بعد والے حرف کے مخرج سے نکلے بلکہ بدوں دخلِ زبان کے اور بدوں تشدید کے صرف خیشوم سے غنہ کی صفت کو بقدر ایک الف کے باقی رکھ کر اداکیا جائے ۱؎ (۱؎ فی حقیقتہ التجوید فالا خفاء حال بین الاظھار والادغام لاتشدید فیہ لانہ لیس فیہ ادغام کلی ولاجزیئ وانما ھون لاتظھر النون الساکنتہ عند ھذہ الحروف والفرق بین المخفی والمدغم ان المخفی مخفف فی الرسم والتلفظ ومخرجہ من الخیشوم ومخرج المدغم من المدغم فیہ الیٰ اٰخرماقال ۰۲۲ ۲۱منہ)  (۱) قولہ کلی ولاجزیئ اھ یعنی بھا الادغام التام والناقص۲۱محمد یامین) اور جب تک اخفاء کی مشق کسی ماہر استاد سے میسر نہ ہو اس وقت تک صرف غنہ ہی کے ساتھ پڑتا رہے کہ دونوں سننے میں ایک دوسرے کے مشابہ ہی ہیں۔اَنذَرتَھُم قَوماً ظَلَمُوا وغیرہ۔ مگر پھر بھی آسانی کے لئے اس اخفاء کی ایک دو مثالیں اپنی بول چال کے لفظوں میں بتلائے دیتا ہوں کہ کچھ تو سمجھ میں آجاوے۔ وہ مثالیں یہ ہیں کنواں۔کنول۔منہ۔ اونٹ۔بانس۔سینگ۔‘ دیکھو ان لفظوں میں نون نہ آئے تو اپنے مخرج سے نکلا۔ اور نہ بعد والے حرف میں ہوگیا۔ اور اس نون کے اخفاء کو اخفا حقیقی کہتے ہیں اور نون کے اظہار کو جس کا بیان قاعدہ نمبر۲ میں ہوا ہے۔ اظہار مطلق کہتے ہیں جسطرح میم کے اخفاء واظہار کو شغوی کہتے تھے۔جس کا بیان نویں لمعہ قاعدہ نمبر ۲ میں گزرا ہے۔

الف اور واؤ اور یاء کے قاعدوں میں

الف اور واؤ اور یاء کے قاعدوں میں

گیارہواں لمعہ۔ جب کہ یہ ساکن ہوں اور الف سے پہلے والے حرف پر زبر ہو اور واؤ ساکن سے پہلے پیش ہو اور یاء ساکن سے پہلے زیر ہو۔ اور اس حالت میں ان کا نام مدہ ہے دیکھو لمعہ ۴ مخرج نمبر۱ اور کھڑازبر اور کھڑی زیر اور الٹا پیش بھی حروف مدّہ میں داخل ہے کیونکہ کھڑا زبر الف مدّہ کی آواز دیتا ہے اور کھڑی زیر یائے مدّہ کی اورالٹا پیش واؤمدّہ کی۔ اب ان قواعد کے بیان میں ہم فقط لفظ مدّہ لکھیں گے ہر جگہ اتنے لمبے نام کون لکھے۔

 (قاعدہ۱) اگر حرف مدہ کے بعد ہمزہ ہو اور یہ حروف مدہ اور ہمزہ دونوں ایک کلمہ میں ہوں وہاں اس مدہ کو بڑھا کر پڑھیں گے اور بڑھا کر پڑھنے کومدّکہتے ہیں جیسے سَوَآء’‘ سُوٓء’‘۔سِےءَت اور اس کا نام متصل ہے اور اس کو مدواجب ۱؎ (۱؎  تسمی بالواجب لان کل الائمتہ یوجیہ ۲۱ محمد یامین عفی عنہ)بھی کہتے ہیں۔ اور مقدار اس کی تین الف یا چار الف ہے۔ اور الف کے انداز کرنے کا طریقہ نویں لمعہ کے فائدہ نمبر۱ کے قاعدہ میں لکھا گیا ہے۔ پس اس طریقہ کے موافق تین یا چار انگلیوں کو آگے پیچھے بندکرلینے سے یہ اندازہ حاصل ہوجاوے گا۔ مگر یہ مقدار اس مقدار کے علاوہ ہے جو حروفِ مدّہ کی اصلی مقدار ہے۔ مثلاً جَآءَ میں اگر مد نہ ہوتا تو آخر الفؔ کی بھی تو کچھ مقدار ۲؎ (۲؎  ایک زبر کودوناکرنے سے الف ہوجاتا ہے جیسے قتل سے قاتل پس الف کی مقدار ایک زبر کی دونی ہے ۲۱ابن ضیاء عفی عنہ الہ آبادی۔) ہے سو اس مقدار کے علاوہ مد کرنے کی مقدار۳؎  (۳؎مثلاً چار الف والی مقدار میں ایک الف اصلی اور تین فرعی ہے ۲۱ ابن ضیا) ہوگی۔

(قاعدہ ۲)  اگر حروف مدہ کے بعد ہمزہ ہو اور یہ حرف مدہ اور وہ ہمزہ ایک کلمہ میں نہ ہو ں۔ بلکہ ایک کلمہ کے اخیر میں تو حرف مدہ ہو اور دوسرے کلمہ کے شروع میں ہمزہ ہو۔ وہاں بھی اس مدہ کو بڑھا کر یعنی مد کے ساتھ پڑھیں گے۔ جیسے اِنَّآ اَعطَیناَ الِّذِیٓ اَطعَمَھُم۔ قَالُوآمَنَّا مگریہ مدؔ اس وقت ہوگا جب دونوں کلموں کو ملاکر پڑھیں۔اور اگر کسی وجہ سے پہلے کلمہ پر وقف کردیا تو پھر یہ مد نہ پڑھیں گے اور اس مد کومدمنفصل اور مد ۱؎ (۱؎ تسمیٰ بالجائزلان بعض الائمتہ لایوجبہ ۲۱ منہ) جائز بھی کہتے ہیں اور اسکی مقدار بھی تین یاچار الف ۲؎ (۲؎ یہ مقدار توسط کی ہے متصل اورمنفصل میں نہ طول ہے نہ قصر ۲۱ ان ضیا)ہے جیسے متصل کی تھی۔ان دونوں کی الگ الگ کسی کوپہچان ۳؎ (۳؎ مدمنفصل کی پہچان یہ ہے کہ حرف مد کے بعد ہمزہ ہر جگہ الف کی صورت میں مرسوم ہوگا بجز لھولاء کے ۲۱ ابن ضیاء)  نہ ہوتو فکر نہ کریں۔ کیونکہ دونوں ایک ہی طرح پڑھے جاتے ہیں۔

(قاعدہ ۳) اگر ایک کلمہ میں حرف مدہ کے بعد کوئی حرف ساکن ہو جس کا سکون اصلی ہو یعنی اس پر وقف کرنے کے سبب سے سکون نہ ہو۔ جیسے اٰلءٰنَ اس میں اول حرف ہمزہ ہے دوسرا حرف الف ہے اور وہ مدہ ہے اورتیسرا حرف لام ساکن ہے اور اس کاساکن ہونا ظاہر ہے کہ وقف کے سبب سے نہیں ہے۔ چنانچہ اس پر وقف نہ کریں تب بھی ساکن ہی پڑھیں گے تو ایسے مدہ پر بھی مدّ پر بھی مدہوتا ہے اور اس کا نام مدلازم ہے۔ اور اس کی مقدار تین الف ہے اور ایسے مد کوکلمی مخفف کہتے ہیں۔

(قاعدہ۴) اگر ایک کلمہ میں حرف مدہ کے بعد کوئی حرف مشددہو جیسے ضٓالِّینَ۔ اس میں الف تو مدہ ہے اور اس کے بعد لام پر تشدید ہے اس مدہ پر بھی مدہوتاہے اور اس کانام بھی مدلازم ہے اور اس کی مقدار بھی تین الف ہے اور ایسے مد کو کلمی مثقل کہتے ہیں۔

(قاعدہ ۵) بعضی سورتوں کے اول میں جو بعضے حروف الگ الگ پڑھے جاتے ہیں۔جیسے سورہئ بقرہ کے شروع میں الم یعنی الف لام میم۔ ان کو حروف مقطعہ کہتے ہیں۔ ان میں ایک تو خود الف ہے۔ اس کے متعلق تو یہاں کوئی قاعدہ نہیں اور اس کے سوا جو اورحروف رہ گئے وہ دوطرح کے ہیں۔ ایک تووہ جن میں تین حرف ہیں۔جیسے لامؔ۔میم۔قاف۔نون اور ایک وہ ہیں جن میں دو حرف ہیں۔ طٰ۔ہٰ۔ جن میں دوحرف ہیں ان کے متعلق بھی یہاں کوئی قاعدہ نہیں۔ اور جن میں تین حرف ہیں ان پرمد ہوتا ہے۔ اس کو بھی مدلازم کہتے ہیں۔ اور اسکی مقداربھی تین الف ہے اور ایسے مد کومدحرفی کہتے ہیں۔پھر ان میں سے جن حروف مقطعہ کے اخیر حرف پر پڑھنے کے وقت تشدید ہے ان کے مدکو مدحرفی مثقل کہتے ہیں۔ جیسے الم میں لام کو جب ۱؎ (۱؎ ایسے موقع پر قرآن مجید میں سب جگہ لام میم کے ساتھ ہی پڑھاجاتا ہے پس یہ قید واقعی ہے نہ احترازی ۲۱ محمد یامین) میم کے ساتھ پڑھتے ہیں تو اس کے اخیر میں تشدید پیدا ہوتی ہے اور جن میں تشدید نہیں ہے ان کے مدکو مدحر فی مخفف کہتے ہیں جیسے الٓم میں میم کے اخیر میں تشدید نہیں ہے۔

(تنبیہ۱)، تین حرفی مقطعات میں جن میں مَد پڑھنا بتلایا گیا ہے۔ اکثر میں تو بیچ کا حرف مدہ ہی ہے۔ جس کے بعد کہیں تو حرف ساکن  ہے۔ جیسے میمؔ میں یئ مدہ ہے اور اس کے بعد میم ساکن ہے اور کہیں حرف مشدد ہے جیسے لامؔ میں الف مدہ ہے۔ اور اس کے بعد میم مشدد ہے اور مدہ پر ایسے مواقع میں ہمیشہ مد ہوتا ہی ہے۔ تو ان میں تو مدہ ہوناعام قاعدہ کے موافق ہے۔ البتہ جن تین حرفی مقطعات میں بیچ کا حرف مد نہیں ہے۔جیسے کھیعص مے ع ہے وہاں مدہونا اس عام قاعدے کے موافق نہیں ہے۔ اور اسی واسطے اگر مد نہ کریں تب بھی درست ہے لیکن افضل یہی ہے کہ مدکریں اور اس کو مدلازم لین کہتے ہیں۔

(تنبیہ۲)  جو حروف مقطعات اخیر میں ہیں ان پرمد اس وقت ہے جب اس پر وقف کریں اور اگر مابعد سے ملاکر پڑھیں ۱؎ (۱؎ جب کہ سکون لازم کے بعد پھر کوئی ساکن حرف آنے سے پہلا حرف ساکن متحرک ہوجائے ورنہ مابعد حرکت ہوتے ہوئے وصل میں بھی مد کرناضروری ہے ۲۱ ابن ضیاء)  تو پھر مدکرنا نہ کرنا دونوں جائز ہیں۔ جیسے سورہئ آلِ عمران میں الٓم کے میم کو اگر اللہ سے ملاکرپڑھیں تو مدکرنے نہ کرنے کا اختیار ہے۔

(قاعدہ ۶) اگر حرف مدہ کے بعد کوئی حرف ساکن ہو جس کا سکون اصلی نہ ہو یعنی اس پر وقف کرنے کے سبب سکون ہوگیا ہو (اور یہ ساکن مقابل ہے اس ساکن کا جو قاعدہ نمبر۳ کے شروع میں مذکورہوا ہے) تو اس مدہ پر مدکرنا جائز ہے اور نہ کرنابھی درست ہے لیکن کرنابہتر ہے۔ جیسے اَلحَمدُلِلّہِ رَبِّ العَالَمِینَ لا پر اور اس کومد وقفی اور مدعارض بھی کہتے ہیں۔ اور یہ مدتین الف کے برابر ہے اور اس کو طول بھی کہتے ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ دو الف کے برابر مدکریں اور  اس کو توسط کہتے ہیں۔اور یہ بھی جائز ہے کہ بالکل مد نہ کریں۔ یعنی ایک ہی الف کے برابر پڑھیں کہ اس سے کم میں حرف ہی نہ رہے گا (آگے تنبیہ سوم دیکھو) اس کو قصر کہتے ہیں اور اس میں افضل طول ہے پھر توسط پھر قصر۔ اور یہ بھی یادرکھو کہ ان تینوں میں سے جو طریقہ اختیارکرو ختم تلاوت تک اسی کے موافق کرتے چلے جاؤ۔ ایسا نہ کرو کہ کہیں طول کہیں قصر کہ یہ بدنما ہے۔ اور یہ مدبھی جائز کی ایک قسم ہے اور جہاں خود مدہ پر وقف ہو وہاں یہ مدنہیں ہوتا جیسے لوگ غَفُورًاط شَکُورًا پر وقف کرکے مدکرتے ہیں جوبالکل غلط ہے۔

(تنبیہ۱) مدِ عارض جس طرح مدہ پر جائز ہے اسی طرح لین پر بھی جائز ہے یعنی واؤ ساکن جس سے پہلے زبر ہو اوریاء ساکن جس سے پہلے زیر ہو (دیکھو لمعہ ۵ نمبر۳۱) جیسے وَالصَّیف پر یامِنّ خَوفٍ پر وقف کریں اور جس طرح مدیعنی طول جائز ہے اسی طرح توسط اور قصر بھی۔ مگر اس میں افضل قصر ہے۔پھرتوسط پھر طول اور اس مدکومدّعارض لین کہتے ہیں۔

(تنبیہ۲) حرف لین کے متعلق ایک قاعدہ لمعہ ااقاعدہ نمبر۵ تنبیہ نمبر۱ میں بھی گزرا ہے دیکھ لو۔کیونکہ وہاں حروف مقطعہ میں سے جوعین ۱؎ (۱؎ مثل حم عسق کا عین اس کو مدلازم لین کہتے ہیں اس میں طول اولیٰ اور قصر ضعیف ہے

۲۱ ابن ضیاء زاروی الہ آبادی) ہے اسکی یاء حرف لین ہے۔

(تنبیہ۳) یہاں تک جتنی قسمیں مد کی مذکور ہوئیں۔ یہ سب مد فرعی کہلاتی ہیں۔ یعنی چونکہ اصل حرف سے زائد ہیں اور ایک مد اصلی ہے اور اس کو ذاتی اور طبعی بھی کہتے ہیں۔یعنی الف اور واؤ اور یاء کی اتنی مقدار کہ اگر اس سے کم پڑھیں تو وہ حرف ہی نہ رہے بلکہ زبر یا پیش یا زیر رہ جائے اور اس کے متعلق کوئی قاعدہ نہیں ہے۔

(قاعدہ ۷) یہ قاعدہ حرف مدہ میں سے صرف الف کے متعلق ہے وہ یہ کہ الف خود باریک پڑھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے اگر کوئی حرف پُر ہو یعنی یا تو حروف مستعلیہ میں سے کوئی حرف ہو جن کا بیان لمعہ۵ صفت نمبر ۵ میں گزرچکا ہے یا حرف راء ہو جوکہ مفتوح ہونے سے پُر ہوجاوے گی۔ یاپُرلام ہو جیسے لفظ اللہ کا لام ہے جب کہ اس سے پہلے زبر یا پیش ہو‘ تو ان صورتوں میں الف ۲؎ (۲؎ جاننا چاہیے کہ واؤ مدّہ کابھی یہی حکم ہے جو یہاں پر الف کا بیان کیا گیاہے۔عند صاحب جھد المقل اور یہ بھی معمول بہ قراء کا ہے جیسے وَالطُّور میں واؤ عثمانی پُر پڑھی جاتی ہے ۲۱قاری محمد یامین) کو بھی موٹا پڑھیں گے۔  اور جاننا چاہیے کہ ان حرفوں کے پُر ہونے میں بھی تفاوت ہے۔تو ویسا ہی تفاوت اس الف کے پُر ہونے میں بھی ہوگا جوان حرفوں کے بعد آیا ہے۔سو سب سے زیادہ تو اسم اَللہ کالام ہے۔اس کے بعد طاءؔ اس کے بعد صادؔ اور ضادؔ ان کے بعدظاء اس کے بعد قاف اس کے بعد غینؔ اور خاءؔ ان کے بعد راءؔ (حقیقتہ التجویدنمبر۳۲   ۳؎  (۳؎  وفیھا ناذاوقع بعد ھارای الحروف المفخمتہ الف فخم الالف لانہ تابع اماقبلھا بخلاف اخیتھا فانہ اذاوقع بعدھاواؤیاء فلایوشر تفخیماالخ ۲۱منہ۔صفحہ نمبر ۹۲)

ہمزہ کے قاعدوں میں

ہمزہ کے قاعدوں میں

ارھواں لمعہ۔ اس کے بعضے قاعدے توبدوں عربی پڑھے سمجھ میں نہیں آسکتے۔ اسلئے صرف دو موقع کے قاعدے لکھ دیتا ہوں کہ سب قرآن پڑھنے والوں کو اس کی ضرورت ہے۔ (قاعدہ نمبر۱) چوبیسویں سپارے کے ختم کے قریب ایک آیت میں یہ آیا ہے۔ ءَ اَئجَمِیٌٌّ سو اس کا دوسرا حمزہ ذرا نرم کرکے پڑھو اس کو تسہیل کہتے ہیں۔

(قاعدہ ۲) سورہئ حجرات کے دوسرے رکوع میں یہ آیا ہے۔ بِئسَ الاِسمُ الفُسُوقُ سو اس کو اس طرح پڑھو کہ بئس کے سین پرتو زبر پڑھو اور اس کے بعد کے کسی حرف سے نہ ملاؤ پھر لام جو اس کے بعد لکھا ہے اس کو زبر دے کر بعد کے سین سے ملادو پھر میم کو اگلے لام سے ملادو۔ خلاصہ یہ ہے کہ الاسم کے لام سے آگے پیچھے جو دو ہمزہ بشکل الف لکھے ہیں ان کو بالکل مت پڑھو۔
وقف کرنے یعنی کسی کلمہ پر ٹھہرنے کے قواعد میں

وقف کرنے یعنی کسی کلمہ پر ٹھہرنے کے قواعد میں

تیرواں لمعہ۔ اصل فنِ تجوید تو مخارج اور صفات کی بحث ہے جو بفضلہ تعالیٰ بقدرضرورت اوپر لکھی گئی۔ باقی اور تین علم اس فن کی تکمیل ہیں۔ علم اوقاف، علم قرأت، علمِ رسم خط، چنانچہ علم اوقاف کی ایک بحث ۱؎  (۱؎ والبحث الاخر اقسام الوقف من الحسن والبقیع والتام وغیرہ (جھد المقل) لم اذکرہ کالباقیین لانھالاتتعلق بالتجوید ۲۱ منہ) وقف کرنے کے قواعد ہیں۔

(قاعدہ ۱) جو شخص معنی نہ سمجھتا ہو اس کو چاہیے کہ انہیں مواقع پر وقف کرے جہاں قرآن میں نشان بنا ہوا ہے۔بلاضرورت بیچ میں نہ ٹھہرے، البتہ اگر بیچ میں سانس ٹوٹ جاوے تو مجبوری ہے پھر اگرمجبوری سے ایسا ہو تو چاہیے کہ جس کلمہ پر ٹھہر گیا تھا اس سے یا اوپر سے پھر لوٹاکر اور مابعد سے ملاکرپڑھے اور اس کا سمجھنا کہ اسی کلمہ سے پڑھوں یا اوپر سے بدوں معنی سمجھے ہوئے مشکل ہے۔ جب تک معنی سمجھنے کی لیاقت نہ ہو شبہ کے موقع میں کسی عالم سے پوچھ لے۔ اور ایسی مجبوری کے وقف میں ایک اس کا خیال رہے کہ کلمہ کے بیچ میں وقف نہ کرے۔بلکہ کلمہ کے ختم پر ٹھہرے اور یہ بھی جان لو کہ وقف کرنا حرکت پرغلط ہے۔ جیسا اکثر لوگ کرتے ہیں۔ مثلاًکسی شخص کا سانس سورہئ بقرہ کے شروع میں بِمَأ اُنزِلَ اِلَیکَ کے کاف پر ٹوٹ گیا تو اس وقت کاف کوساکن کردینا چاہیے۔زبر کے ساتھ وقف نہ کریں۔ اسی طرح بے سانس توڑے وقف نہیں ہوتا۔ جیسا بعض لوگ آیت کے ختم پر ساکن حرف پڑھتے ہیں۔اور بے سانس توڑے دوسری آیت شروع کردیتے ہیں۔یہ بھی بے قاعدہ ہے اور یہ بھی یادرکھو کہ ایسی مجبوری میں جو کسی کلمہ پر وقف کرو تو وہ کلمہ جسطرح لکھا ہے اسی کے موافق وقف کرو۔ اگرچہ وہ دوسری طرح پڑھاجاتا ہو۔ پڑھنے کے موافق نہ کریں گے مثلاً اَناَ میں جوالف نون کے بعد ہے وہ ویسے پڑھنے میں تو نہیں آتا لیکن اگر اس کلمہ پر وقف کیا جاوے گا توپھر اس الف کو بھی پڑھیں گے اور پھر جب اس کلمہ کو لوٹاویں گے تو اس وقت چونکہ مابعد سے ملاکر پڑھیں گے۔اسلیے یہ الف نہ پڑھاجاوے گا۔ ان باتوں کو خوب سمجھ لو اور یادرکھو‘ اس میں بڑے بڑے حافظ غلطی کرتے ہیں۔

(تنبیہ) قاعدہ مذکورہ کے اخیر میں جو لکھا گیا ہے کہ وہ کلمہ جس طرح لکھا ہے اس کے موافق ٹھہرو۔ اس قاعدہ سے یہ الفاظ مستثنیٰ ہیں اَوےَعفُوا سورۃ بقرہ کے اکتیسویں رکوع میں اور اَن تَبُوءَ سورۃ مائدہ کے پانچویں رکوع میں اور لِتَتلُوَا سورہ رعد کے چوتھے رکوع میں اور لَن نَّدعُوَا سورہئ کہف کے دوسرے رکوع میں اور لِےَربُوا سورہئ روم کے چوتھے رکوع میں اور لِےَبلُوا سورہ محمدؐ کے اول رکوع میں اور نَبلُوا سورہئ محمدؐ کے چوتھے رکوع میں اور ثَمُودَا چارجگہ سورہئ ہود‘ سورئ فرقان اور سورہئ عنکبوت اور سورہئ نجم میں۔ اور دوسرا قَوَارَیرَا سورہئ دہر کے پہلے رکوع میں۔ ان سب الفاظ میں الف کسی حال میں نہیں پڑھا جاتا۔ نہ وصل میں نہ وقف میں اور لفظ لٰکِنَّا خاص سورہ کہف میں اور اَلظُّنُوناَ اور اَلرَّسُولاَ اور اَلسَّبِیلاَ یہ تینوں سورہ احزاب میں سَلاَ سِلاَ اور پہلا قَوَارِیرَا یہ دونوں سورہ دہر میں اور لفظ اَناَ جہاں کہیں آوے تمام قرآن میں ان تمام لفظوں میں بحالتِ وصل الف نہیں پڑھاجاتا اور حالتِ وقف میں الف پڑھاجاتا ہے۔ مگر خاص لفظ  سَلاَ سِلاَ کو حالتَ وقف میں بدون الف پڑھنا بھی مروی ہے یعنی سِلاَ لَ۔

(قاعدہ ۲) جس کلمہ پر وقف کیا ہے اگر وہ ساکن ہے تب تو اس میں کوئی بات بتلانے کی نہیں اور اگر وہ متحرک ۱؎ (۱؎یعنی متحرک بحرکت اصلیہ کیونکہ جہاں حرکت عارضی ہو اس کا یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ عنقریب قاعدہ نمبر۵ میں آتا ہے ۲۱ محمد یامین۔) ہے تو اس پر وقف کرنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک تو یہی جو سب جانتے ہیں کہ اس کو ساکن کردیاجائے۔ دوسراطریقہ یہ ہے کہ اس پر جو حرکت ہے اس کو بہت خفیف سا ظاہرکیا جاوے اس کو رومؔ کہاجاتا ہے۔ اور اندازہ اس حرکت کا تہائی حصہ ہے اور یہ زبر میں نہیں ہوتا ہے۔ صرف زیر اور پیش میں ہوتا ہے جیسے بِسم اللہ کے ختم پر میم پر بہت ذرا سازیر پڑھ دیاجاوے کہ جس کو بہت پاس والا سن سکے یا نَستَعِینُ کے نون پر ایسا ہی ذرا سا پڑھ دیا جاوے اور رَبِّ العٰلَمِینَ کے نون پر چونکہ زبر ہے یہاں ایسا نہ کریں گے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اس حرکت کا اشارہ صرف ہونٹوں سے کردیا جاوے یعنی پڑھا بالکل نہ جاوے‘ بلکہ اس حرکت کے ظاہر پڑھنے کے وقت  ہونٹ جس طرح بن جاتے ہیں اسی طرح ہونٹوں کو بنایا جاوے اور اس حرف کو بالکل ساکن ہی پڑھا جاوے۔اور یہ اشمام کہلاتا ہے اور اس کو پاس والا بھی نہیں سن سکتا۔ کیونکہ اس میں حرکت زبان سے تو اداہوئی نہیں البتہ آنکھوں والا پڑھنے والے کے ہونٹ دیکھ کر پہچان سکتا ہے کہ اس نے اشمام کیا ہے اور اشمام صرف پیش میں ہوتا ہے اور زبر زیر میں نہیں ہوتا۔ مثلاً نَستَعِینُ کے نون پر پیش ہے اس پیش کو پڑھا تو بالکل نہیں نون کو بالکل ساکن پڑھا مگر ہونٹوں کو نون اداکرنے کے وقت ایسا بنا دیا جیسا پیش پڑھنے کے وقت بن جاتے ہیں یعنی ذرا چونچ سی بنادی۔

(قاعدہ۳)  جس کلمہ کے آخر میں تنوین ہو وہاں بھی روم جائز ہے مگر حرکت ظاہر کرنے کے وقت تنوین کا کوئی حصہ ظاہر نہ کیا جاوے گا (تعلیم الوقف حضرت قاری عبداللہ صاحبؒ مکی۔)

(قاعدہ ۴) تاءؔ جو کہ ہ ؔ کی شکل میں گول لکھی جاتی ہے مگر اس پر نقطے بھی دیے جاتے ہیں اگر ایسی تاء پر وقف ہو تو وہاں دوباتوں کا خیال رکھو۔ ایک تو یہ کہ اس کوہ کے طور پر پڑھو دوسرے یہ کہ وہاں روم اور اشمام مت کرو (تعلیم الوقف)

(قاعدہ ۵) رومؔ اور اشمام حرکت عارضی پر نہیں ہوتا ہے جیسے وَلَقَدِاستُھزَیئَ میں کوئی شخص لَقَد پر وقف کرنے لگے تو دال کو ساکن پڑھنا چاہیے اس کے زیر میں روم نہ کریں کیونکہ عارضی ہے(تعلیم الوقف) اور اس کو بھی عربی والے جان سکتے ہیں۔ تم کو جہاں جہاں شبہ ہو کسی عالم سے پوچھ لو۔

(قاعدہ۶) جس کلمہ پر وقف کرو اگر اس کے اخیر حرف پر تشدید ہو تو رومؔ اور اشمام میں تشدید بدستور باقی رہے گی (تعلیم الوقف)

(قاعدہ۷)  جس کلمہ پر وقف کیا جاوے اگر اس کے اخیر حرف پر زبر کی تنوین ہو تو حالت وقف میں اس تنوین کو الف سے بدل دیں گے جیسے کسی نے فَاِن کُنَّ نِسئاءً پر وقف کیا تو اس طرح پڑھیں گے۔ نِسَآءَ

(قاعدہ ۸) جس مد وقفی کا بیان گیارہویں لمعہ کے قاعدہ نمبر۶ میں ہوا ہے۔ اگر روم کے ساتھ وقف کیا جاوے اس وقت وہ مد نہ ہوگا مثلاً  اَلرَّحِیمُ یا نَستَعِینُ میں اگر پیش یا زیر کا ذرا ساحصہ ظاہر کردیں تو پھر مد نہ کریں گے (تعلیم الوقف)

فوائدِ متفرقہ ضروریہ کے بیان میں

فوائدِ متفرقہ ضروریہ کے بیان میں

چودھواں لمعہ۔ اور گو ان میں سے بعض بعض فوائد پر بھی معلوم ہوگئے ہیں مگر چونکہ دوسرے مضامین کے ذیل میں بیان ہوئے تھے۔ شاید خیال نہ رہے اس لیے ان کو پھر لکھ دیا اور زیادہ تر نئے فائدے ہیں۔

(فائدہ ۱)، سورہ کہف کے پانچویں رکوع میں لکِنِّا ھُوَاللہ یعنی لٰکِنَّا میں الف لکھا ہے مگر یہ پڑھا نہیں جاتا البتہ اگر اس پر کوئی وقف کردے تو اس وقت پڑھا جاوے گا۔

(فائدہ۲) سورۃ دہر کے شروع میں سَلاَ سِلاَ یعنی دوسرے لام کے بعد بھی الف لکھا تو ہے مگر یہ پڑھا نہیں جاتا۔ البتہ وقف کی حالت میں الف کا پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں طرح درست ہے اور پہلے لام کے بعد جو الف لکھا ہے وہ ہر حال میں پڑھاجاتا ہے۔

(فائدہ۳) اسی سورہئ دہر میں وسط کے قریب قَوَارِیرَا قَوَارِیرَا دودفعہ ہے۔اور دونوں کے اخیر میں الف لکھا ہے سو ان کا قاعدہ یہ ہے کہ دوسری جگہ تو کسی حال میں الف نہیں پڑھا جاوے گا اور وقف نہ کرو تو الف نہیں پڑھا جاوے گا اورزیادہ عاد ت یہ ہے کہ پہلی جگہ کو وقف کرتے ہیں دوسری جگہ نہیں کرتے تو اس صورت میں پہلی جگہ الف پڑھو دوسری جگہ مت پڑھو۔

(فائدہ۴) قرآن میں ایک جگہ امالہ یعنی سورہئ ہود میں جو بِسمِ اللہِ مَجرٖھَا ہے اس کا بیان لمعہ نمبر۸ قاعدہ نمبر ۴ میں دیکھ لو۔

(فائدہ ۵) سورہئ حم سجدہ میں ایک جگہ تسہیل ہے ءَ اَعجِمیٌ اس کا بیان بارہویں لمعہ کے قاعدہ نمبر۱ میں گزرا ہے دیکھ لو۔

(فائدہ ۶) سورہئ حجرات میں بِئسَ الاِسمُ میں الاسم کا ہمزہ نہیں پڑھاجاتا بلکہ اس کے لام کو اس کے سین سے ملادیتے ہیں اس کا بیان بھی بارہویں لمعہ کے قاعدہ نمبر۲ میں گزراہے۔

(فائدہ ۷) لَئِن  بَسَطْتَّ اور اَحَطْتُّ اور مَافَرَّطتُّم اور مَافَرَّطتُ میں ادغام ناتمام ہوتا ہے۔ یعنی طاء کوتاء کے ساتھ ملاکرمشدد کرکے اس طرح پڑھا جاوے کہ طاءؔ اپنی صفت استعلاء واطباق کے ساتھ بدوں قلقلہ کے پُراداہوا ورتاءؔ باریک اداہو۔ اور اَلَم نَخلُقکُّم میں بہتر یہی ۱؎ (۱؎ ویجورز الناقص ایضاوھوان یبقی بعض صفات المدغم ۲۱ منہ) ہے کہ پوراادغام کیاجاوے۔ یعنی قاف بالکل نہ پڑھاجاوے بلکہ قاف کو کاف سے بدل کر اور دونوں کو ملاکرمشددکرکے پڑھا جاوے۔

(فائدہ ۸) ن والقلم اور ےٰسین والقران الحکیم میں نون اور سین کے بعد جوواؤ ہے یرملون کے قاعدہ کے موافق جس کا ذکر دسویں لمعہ کے قاعدہ نمبر ۳ میں آچکا ہے اس واؤ میں ادغام ہونا چاہیے۔مگر ادغام نہیں کیاجاتا۔ ۲؎ (۲؎ عند حفصؒ ۲۱ منہ)

(فائدہ۹) سورہئ یوسف کے دوسرے رکوع میں ہے لَا تَأ مَنَّااسمیں نون پر اشمام کیاکرو۔

(فائدہ۰۱) قرآن مجید میں کہیں کہیں سکتہ لکھا ہوا پاؤ گے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ذرا ٹھہرجاؤ مگر سانس مت توڑو اور باقی سب قاعدے اس میں وقف کے جاری ہونگے۔ ۳؎ (۳؎ اختیارہ لانہ سھل علی الاطفال ویجوز الروم ایضا لاتامننا ولایجوز الادغام المحض ۲۱ منہ) مثلاً سورہئ قیامہ میں ہے مَن سکتہ راق تویرملون کے موافق من کے نون کا ”ر“ میں ادغام ہوجاتا ہے مگر ادغام نہیں ہوا۔ کیونکہ جب سکتہ کوبجائے وقف کے سمجھا تو گویا نون اور راء میں اتصال نہیں رہا اس لئے ادغام نہیں ہوا۔ اسی طرح سورہ کہف میں ہے عِوَجاًط سکتہ قَےّماَط تو اگر عِوَجا پر وقف نہ کریں۔ اور مابعد سے ملاکر پڑھیں تو اخفاء نہیں ہوگا۔بلکہ زبر کی تنوین کو الف سے بدل کر سکتہ کیاجاوے گا اور تمام قرآن شریف میں حفصؔ کی روایت میں کل سکتے چار ہیں۔ ایک سورہ قیامہ میں دوسراسورہ کہف میں جوکہ مذکور ہوئے تیسرا سورہ ےٰسین میں مِن مَّرقَدِنَا کے الف پر جب کہ مابعد سے ملاکر پڑھا جائے۔ اور چوتھا سورہئ مطففین میں کَلَّا بَل کے لام ساکن پر بس ان کے سوا سورہئ فاتحہ وغیرہ میں کہیں سکتہ نہیں۔

(فائدہ ۱۱) قرآن میں جہاں پیش آوے اس کو واؤ معروف کی سی بودے کر پڑھو اور جہاں زیر آوے اس کو یائے معروف کی سی بودے کرپڑھو ہمارے ملک میں پیش کو ایسا پڑھتے ہیں کہ اگر اس کو بڑھادیا جائے تو واؤ مجہول پیدا ہوتی ہے اور زیر کو ایسا پڑھتے ہیں کہ اگراس کو بڑھادو تو یائے مجہول پیدا ہوتی ہے تو یہ بات عربی زبان کے خلاف ہے۔ایسا مت کرو بلکہ پیش کو ایسا پڑھو کہ اگر اس کوبڑھادیاجائے تو واؤ معروف پیدا ہوا اور زیر کو ایسا پڑھو کہ اگر اس کو بڑھادیا جائے تو یائے معروف پیدا ہو اور زیراور پیش کے اس طرح اداہونے کو ماہر استاد سے سن لو۔ لکھا ہوا دیکھنے سے سمجھ میں شاید نہ آیا ہو۔

(فائدہ۲۱) جب واؤ مشدد یا کہ یاء مشدد پر وقف ہو تو ذراسختی سے تشدید کو بڑھانا چاہیے تاکہ تشدید باقی رہے جیسے عَدُوَّط اورعَلَی النَّبِی ط فائدہ۳۱) سورہٰ یوسف میں ہے۔: لِیَکُونًا ّ مِّنَ الصَّاغِرِینَ ط اور سورہئ اقراء میں ہے: لَنَسْفَعًام بِالنَّاصِیَۃِِ اگر : لِیَکُونًا اور لَنَسفَعَا پر وقف کرو تو الف ۱؎ (۱؎ وان کان خلاف القیا س لانھا نو ن خفیفتہ لکن الوقف یکون تابعاً للرسم ۲۱ ۔ ھذا القاعدۃ اکثرےۃ لاکلےۃ فان ثمودا بالالف اذاوقف علیہ لایکون وقفۃ تابعاً للرسم ۲۱۔ قاری محمد یامین) سے پڑھو یعنی تنوین مت پڑھو۔

(فائدہ ۴۱) چار لفظ قرآن مجید میں ہیں کہ لکھے تو جاتے ہیں صاد سے اور اس صاد پر چھوٹا ساسَ بھی لکھ دیتے ہیں۔ اس کا قاعدہ سمجھ لو ایک تو سورہئ بقر ہ میں ہے ےَقبِضُ وَےَبصُطُ دوسرا سورہئ اعراف میں فی الخلق بصُطَتُہ ان دونوں جگہوں میں سؔ پڑھو۔ تیسرا سورہئ طور میں اَم ھُمُُ المُصَیطُِرُونَ اس میں چاہے س پڑھو چاہے صاد پڑھو۔ چوتھا سورہ غاشیہ میں بَمُصیطِرٍ اس میں صاد پڑھو۔

(فائدہ ۵۱) کئی مواقع قرآن مجید میں ایسے ہیں کہ لکھا ہوا تو ہے لَا ٓاور پڑھا جاتا ہے لَ پڑھتے وقت ان کا بہت خیال رکھو ایک سورہئ عمران میں لاَ اِلَی اللہِ تُحشَرُونَ دوسرا سورہ توبہ میں وَلاَ اَوضَعُوا تیسرا سورہ نمل میں اَولاَ اَذبَحنَّہ‘ چوتھا والصّٰفٰت میں لاَاِلَی الجَحِیم پانچواں سورہ حشر میں لاَاَنتُم اَشَدُّّ اسی طرح سورہ آل عمران کے پندرہویں رکوع میں لکھا ہوا ہے۔اَفَانِن اور پڑھاجاتا ہے اَفئنِ اور چند مقامات میں لکھا ہوا تو ہے مَلَا ءِہٖ اور پڑھا جاتا ہے۔مَلَءِہٖ اور سورہئ کہف کے چوتھے رکوع میں لکھا ہوا توہے لَشَایٍئ اور پڑھاجاتاہے لِشَءٍیٍٗ اور بعض جگہ لکھا ہوا ہے نَبَایِٗ اور پڑھاجاتا ہے نَبَیٍئ

(تنبیہ) مذکورہ قاعدے اکثر تو وہ ہیں جن میں کسی کا اختلاف نہیں اور جن میں اختلاف ہے ان میں سے امام حفص رحمتہ اللہ علیہ کے قواعد لکھے ہیں جن کی روایت کے موافق ہم لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور انہوں نے قرآن مجید حاصل کیا ہے۔ امام عاصمؒ تابعی سے اور انہوں نے زربن حبیش اسدیؓ ۱؎ (۱؎ زربالکسر وشدتِ راء وحبیش بالضم وفتح ثانی وسکون ثالث مصغر کمافی المعنی والتقریب ۲۱ منہ) اور عبداللہ بن حبیب سلمیؓ سے اور انہوں نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ اور حضرت زیدبن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت ابی کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اورا ن سب حضرات نے جناب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

خاتمہ:۔ چاند کا پورا لمعہ بھی چودہویں رات کوہوتا ہے اور یہاں بھی چودہویں کے ختم پر سب مضامین پورے ہوگئے۔ اس لئے یہاں پہنچ کر رسالہ کو ختم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کو نافع اور مقبول فرمادے۔ طالب علموں سے خصوص بچوں سے خصوص قدوسیوں سے رضائے مولیٰ کی دعا کا طالب ہوں۔

اشرف علی تھانوی عفی عنہ
۵، صفر ۴۳۳۱؁ء

Book Options

Author: Molana Ashraf Ali Thanvi Rahimullah

Leave A Reply