مسجد کو بیچنے کا حکم
اگر امریکہ اور یورپ کے کسی علاقے کے مسلمان اپنے علاقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوجائیں اور پہلے علاقے میں جومسجد ہو، اس کے ویران ہوجانے یا اس پر غیرمسلموں کا تسلط اور قبضہ ہوجانے کا خطرہ ہو تو کیا اس صورت میں اس مسجد کو بیچنا جائز ہے؟ اس لئے کہ عام طور پر مسلمان مسجد کے لئے کوئی مکان خرید کر اس کو مسجد بنالیتے ہیں اور پھر حالات کے پیش نظر اکثر مسلمان جب اس علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اور مسجد کو یونہی اور بیکار چھوڑدیتے ہیں تو دوسرے غیرمسلم اس مسجد پر قبضہ کرکے اس کو اپنے تصرف میں لے آتے ہیں جب کہ یہ ممکن ہے کہ اس مسجد کو بیچ کر دوسرے علاقے میں جہاں مسلمان آباد ہوں اسی رقم سے کوئی مکان خرید کر مسجد بنائی جائے، کیا اس طرح مسجد کو دوسری مسجد میں تبدیل کرنا شرعاً جائزہے؟
الجواب: مغربی ممالک میں جن جگہوں پر مسلمان نمازاداکرتے ہیں۔ وہ دوقسم کی ہوتی ہیں۔
۱:۔ بعض جگہیں تو ایسی ہوتی ہیں جن کو مسلمان نماز پڑھنے اور دینی اجتماعات کے لئے مخصوص کردیتے ہیں۔لیکن ان جگہوں کو شرعی طور پر دوسری مساجد کی طرح وقف کرکے شرعی مسجد نہیں بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان جگہوں کا نام بھی مسجد کی بجائے دوسرے نام مثلاً ”اسلامی
مرکز“ یا ”دارالصلوۃ“ یا ”دارالجماعت“ رکھ دیتے ہیں۔
اس قسم کے مکانات کا معاملہ تو بہت آسان ہے، اس لئے کہ ان مکانات کواگرچہ نماز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کے مالکوں نے ان کو مسجد نہیں بنایا اور نہ ان کو وقف کیا ہے تو وہ شرعاً مسجد ہی نہیں۔ لہذا ان مکانات کے مالک مسلمانوں کے مصالح کے پیش نظر ان کو بیچنا چاہیں تو شرعاً بالکل اجازت ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
۲:۔دوسرے بعض مکانات ایسے ہوتے ہیں جن کو مسلمان عام مساجد کی طرح وقف کرکے شرعی مسجد بنالیتے ہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کی جگہوں کا حکم یہ ہے کہ وہ مکان اب قیامت تک کے لئے مسجد بن گیا۔ اس کو کسی صورت میں بھی بیچنا جائز نہیں اور نہ وہ مکان اب وقف کرنے والے کی ملکیت میں داخل ہوسکتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اورامام ابو یوسف رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔
چنانچہ مسلک شافعی کے امام خطیب شربینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولو انھدم مسجد، وتعذرت اعادتہ، اوتعطل بخراب البلد مثلاً، لم یعد ملکا ولم یبع بحال، کالبعد اذاعتق، ثم زمن ولم ینقض ان لم بخف علیہ لامکان الصلاۃ فیہ، ولا مکان عودہ کاکان……فان خیف علیہ نقض، وفی الحاکم بنقضہ مسجدا آخران رای ذالک والا حفظہ، وبنا بقربہ اولی،
”اگر مسجد منہدم ہوجائے، اور اس کو دوبارہ درست کرنا ممکن نہ ہو، یا اس بستی کے اجڑجانے سے وہ مسجد بھی ویران ہوجائے تب بھی وہ مسجد مالک کی ملکیت میں نہیں آئے گی اور نہ اس کو بیچناجائز ہوگا۔جیسا کہ غلام کو آزادکردینے کے بعد اس کی بیع حرام ہوجاتی ہے پھر اگر اس مسجد پر غیر مسلموں کے قبضے کا خوف نہ ہوتو اس کو منہدم نہ کیاجائے،بلکہ اس کو اپنی حالت پربرقرار رکھا جائے، اس لئے کی اس بات کاامکان موجود ہے کہ مسلمان دوبارہ یہاں آکر آباد ہوجائیں، اور اس مسجد کو دوبارہ زندہ کردیں …… البتہ اگر غیرمسلموں کے تسلط اور قبضہ کا خوف ہو تو اس صورت میں حاکم وقت مناسب سمجھے تو اس مسجد کو ختم کردے اور اس کے بدلے میں دوسری جگہ مسجد بنادے، اور یہ دوسری مسجد پہلی مسجد کے قریب ہونا زیادہ بہتر ہے اور اگر حاکم وقت اس مسجد کو توڑنا اور مسمارکرنا مناسب نہ سمجھے تو پھر اس کی حفاظت کرے۔ (مغنی المحتاج: ص ۲۹۳ ج۲)
اور فقہاء مالکیہ میں سے علامہ موافق رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
”ابن عرفۃ من المدونۃ وغیر ھا، یمنع بیع ماخرب من ربع الجس مطلقا۔۔۔۔وعبارۃالرسالۃ، ولایباع الحبس وان خرب۔۔۔۔وفی الطرعن ابن عبدالغفور: لا یجوزیع مواضع المساجد الخربۃ، لانھا وقف، ولاباس بیع تفضھا“
ابن عرفہ مدونہ وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ وقف مکان کی بیع مطلقاً جائز نہیں، اگرچہ وہ ویران ہو جائے…… اور رسالہ میں یہ عبارت درج ہے کہ وقف کی بیع جائز نہیں اگرچہ وہ ویران ہوجائے۔۔۔ طررمیں ابن عبدالغفور سے یہ عبارت منقول ہے کہ ویران مساجد کی جگہوں کو بیچنا وقف ہونے کی بناء پر جائز نہیں۔ البتہ ان کا ملبہ بیچنا جائز ہے۔“
(التاج والاکلیل للموافق، عاشیہ حطاب، ص۲۴ج۶)
اورفقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ہدایہ میں ہے:
”ومن اتخذا رضہ مسجد الم یکن لہ ان یرجع فیہ، ولا یبیعہ، ولا یورث عنہ، لانہ تجردعن حق العباد، وصار خالصاّ للہ وھذالان الاشیاء کلھاللہ تعالی، واذااسقط العدماثبت لہ من الحق رجع الی اصلہ فانقطع تصرف عنہ، کمافی الاعقاق، ولوخرب ماحول المسجد، واستغنی عنہ یبقی مسجد عندابی یوسف، لانہ اسقاط منہ، فلایعود الی ملکہ“
اگرکسی شخص نے اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی تو اب وہ شخص نہ تو اس وقف سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور نہ اس کو بیچ سکتا ہے۔ اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی اس لئے کہ وہ جگہ بندہ کی ملکیت سے نکل کر خالص اللہ کے لئے ہوگی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہرچیز حقیقتاً اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بندہ کو تصرف کا حق عطافرمایا ہے۔ جب بندہ نے اپنا حق تصرف ساقط کردیا تو وہ چیز ملکیت اصلی یعنی اللہ کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔ لہذا اب بندہ کا اس میں تصرف کرنے کا حق ختم ہوجائے گا۔ جیسا کہ آزادکردہ غلام میں (بندہ کا حق تصرف ختم ہوجاتا ہے)۔
اور اگر مسجد کے اطراف کا علاقہ ویران ہوجائے اور مسجد کی ضرورت باقی نہ رہے تب بھی امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد ہی رہے گی۔ اس لئے کہ اس کو مسجد بنانا اپناحق ساقط کرنا ہے۔ لہذا بندہ کا اپنا حق ساقط کرنے کے بعد دوبارہ وہ حق اس کی ملکیت میں واپس نہیں آئے گا۔
البتہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر مسجد کے اطراف کی آبادی ختم ہوجائے اورمسجد کی ضرورت بالکلیہ ختم ہوجائے تو اس صورت میں مسجد کو بیچنا جائز ہے، چنانچہ المغنی لابن قدامہ میں یہ عبارت منقول ہے:
ان الوقف اذاخرب، وتعطلت نافعہ، کدارانھدمت، اوارض خربت، وعادت مواتاً، ولم تکن عمارتھا، اومسجد انتقل اھل القربۃ عنہ، وصارفی موضع لایصلی فیہ، اوضاق باھلہ، ولم یمکن توسیعہ فی موضعہ، اوتشعب جمیعہ، فلم ممکن عمارتہ، ولاعمارۃ بعضہ الابیع بعضہ، جازبیع بعضہ لتعمر بہ بقےۃ، وان لم یمکن الانتقاع بشیئی منہ بیع جمیعہ۔
اگر وقف کی زمین ویران ہوجائے اور اس کے منافع ختم ہوجائیں۔ مثلاً کوئی مکان تھا وہ منہدم ہوگیا، یا کوئی زمین تھی جو ویران ہوکر ارض موات بن جائے۔ یا کسی مسجد کے اطراف میں جو آبادی تھی وہ کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور اب اس مسجد میں کوئی نماز پڑھنے والا بھی نہ رہے، یا وہ مسجد آبادی کی کثرت کی وجہ سے نمازیوں سے تنگ ہوجائے اور مسجد میں توسیع کی بھی گنجائش نہ ہو۔ یا اس مسجد کے اطراف میں رہنے والے لوگ منتشر ہوجائیں اور جو لوگ وہاں آباد ہوں وہ اتنی قلیل تعداد میں ہوں کہ ان کے لئے اس مسجد کی تعمیر اور درست کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اس مسجد کے کچھ حصے کو فروخت کرکے اس کی رقم سے دوسرے حصے کی تعمیر کرنا جائز ہے اور اگر مسجد کے کسی بھی حصے میں انتقاع کا کوئی راستہ نہ ہو تو اس صورت میں پوری مسجد کو بیچنا بھی جائز ہے۔
(المغنی لابن قدامہ مع الشرح الکبیرض ۵۲۲ج۶)
امام احمدؒ کے علاوہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ بھی جواز بیع کے قائل ہیں۔ ان کامسلک یہ ہے کہ اگر وقف زمین کی ضرورت بالکلیہ ختم ہوجائے تو وہ زمین دوبارہ واقف کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔اوراگر واقف کا انتقال ہوچکا ہو تو پھر اس کے ورثاء کی طرف ہوجائے گی چنانچہ صاحب ہدایہ تحریر فرماتے ہیں:
”وعندمحمد یعود دالی ملک البانی‘ اوالی وارثہ بعد موتہ، لانہ عینہ لنوع قربۃ، وقد انقطعت، فصار کحصید المسجد و حشیشہ اذااستغنی عنہ“
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ زمین دوبارہ مالک کی ملکیت میں چلی جائے گی اور اگر اس کا انتقال ہوچکا ہے تو اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گی، اس لئے کہ اس کے مالک نے اس زمین کو ایک مخصوص عبادت کے لئے معین کردیا تھا اب جب کہ اس جگہ پر وہ مخصوص عبادت کی ادائیگی منقطع ہوگئی تو پھر اس کی ضرورت باقی نہ رہنے کی وجہ سے وہ مالک کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔ جیسے کہ مسجد کی دری، چٹائی یاگھاس وغیرہ کی ضرورت ختم ہونے کے بعد وہ مالک کی ملکیت میں لوٹ آتی ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر: ص۶۴۴ج۵)
لہذا جب وہ مالک کی ملکیت میں واپس آگئی تو اس کے لئے اس کو بیچنا بھی جائز ہو گا۔ جمہور فقہاء نے وقف مسجد کی زمین کو بیع ناجائز ہونے اور مالک کی ملکیت میں دوبارہ نہ لوٹنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقف کے واقعہ سے استدلال کیا ہے وہ یہ کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کی زمین وقف کی تو وقف نامہ میں یہ شرائط درج کیں کہ:
”انہ لابباع اصلھا، ولا تبتاع، ولا تورث ولا توھب“
آئندہ وہ زمین نہ تو بیچی جائی گی، نہ خریدی جائے گی نہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اور نہ کسی کو ہبہ کی جاسکے گی۔“
یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے البتہ مندرجہ بالا الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بیت اللہ کو دلیل میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فترۃ (یعنی عیسٰی علیہ السلام اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کا عرصہ) کے زمانے میں بیت اللہ کے اندر اور اس کی اطراف میں بت ہی بت تھے اور بیت اللہ کے اطراف میں ان کفار اورمشرکین کا صرف شورمچانے چیخنے اور سیٹیاں بجانے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا اس کے باوجود بیت اللہ مقام قربت اور مقام طاعت وعبادت ہونے سے خارج نہیں ہوا۔ لہذا یہی حکم تمام مساجد کا ہوگا۔ (کہ اگر کسی مسجد کے قریب ایک مسلمان بھی باقی نہ رہے۔ جو اس میں عبادت کرے تب بھی وہ مسجد محل عبادت ہونے سے خارج نہیں ہوگی)
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا استدلال پر علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ فترۃ کے زمانے میں بیت اللہ کا طواف تو کفارومشرکین بھی کرتے تھے۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس زمانے میں عبادت مقصودہ بالکلیہ ختم ہوگئی تھیں۔
اس اعتراض کے جواب میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کے قیام کا مقصد صرف اس کا طواف کرنا نہیں ہے بلکہ بیت اللہ کے قیام کا بڑامقصد اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کے جوار میں اپنی اولاد کے قیام کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ”ربنا لیقیمواالصلاۃ“ (اے میرے رب! میں نے ان کو یہاں اس لئے ٹھہرایا ہے) کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں۔“
یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نماز کا توذکرفرمایا۔ طواف کا ذکر نہیں فرمایا۔ اس کے علاوہ خود اللہ جل شانہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:
”طھر بیتی للطائفین والعاکفین“
”میرے گھر کو مسافروں اور مقیمین کے لئے پاک کردو“
یہ استدلال اس وقت درست ہے جب ”طائفین“ اور ”عاکفین“ کی تفسیر مسافر اور مقیم سے کی جائے، جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت: سواء العاکف فیہ والباد“ میں لفظ ”عاکف“ مقیم کے معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔(اعلاء السنن ص ۲۱۲ض۳۱)
اس کے علاوہ جمہور کی سب سے مضبوط دلیل قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے:
”وان المساجدلللہ فلاتدعوامع اللہ احداً“
اور تمام مسجدیں اللہ کا حق ہیں، سو اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت مت کرو۔(سورہئ جن:۸۱)
چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ احکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:
”اذا تعینت لللہ اصلاً وعینت لہ عقد، فصارت عتیقہ عن التملک، مشترکۃ بین الخلیفۃ فی العبادۃ“
کہ جب وہ مسجدیں خالص اللہ کے لئے ہوگئیں، تو بندہ کی ملکیت سے آزاد ہوگئیں، اور صرف عبادت اداکرنے کی حد تک تمام مخلوق کے درمیان مشترکہ ہوگئیں۔
(احکام القرآن لابن عربی ص ۹۶۸، ج۴)
اور علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عکرمہ کا قول نقل کرتے ہیں:
”وان المساجد لللہ، قال: المساجد کلھا“
بے شک مسجدیں اللہ کے لئے ہیں حضرت عکرمہ فرماتے ہیں: کہ تمام مسجدیں اس میں داخل ہیں، کسی کی تفریق نہیں ہے۔ (تفسیر ابن جریر:ص ۳۷۔ پارہ ۹۲)
علامہ ابن قدامہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تائید میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ مکتوب پیش کرتے ہیں، جوانہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو لکھاتھا واقعہ یہ ہوا کہ کوفہ کے بیت المال میں چوری ہوگئی، جب اس کی اطلاع حضرت عمرؓ کو ہوئی تو آپ نے لکھا کہ موضوع تمارین کی مسجد منتقل کرکے بیت المال کے قریب اس طرح بناؤ کہ بیت المال مسجد کے قبلہ کی سمت میں ہوجائے، اس لئے کہ مسجد میں ہروقت کوئی نہ کوئی نمازی موجودہی ہوتا ہے۔ (اس طرح بیت المال کی بھی حفاظت ہوجائے گی)(المغنی لابن قدامہ، ۶:۶۲۲)
اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کا مقصد مسجد کو منتقل کرنا نہ ہو۔ بلکہ بیت المال کو منتقل کرکے مسجد کے سامنے بنانے کا حکم دیا ہو۔(فتح القدیر، ج۵أ۶۴۴)
بہرحال! مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس سلسلے میں جمہور کا مسلک راجح ہے۔ لہذا کسی مسجد کے شرعی مسجد بن جانے کے بعد اس کو بیچنا جائز نہیں اگر مسجد کو بیچنے کی اجازت دے دی جائے تو پھر لوگ مسجدوں کو بھی گرجاگھر کی طرح جب چاہیں گے بیچ دیں گے اور مسجدیں ایک تجارتی سامان کی حیثیت اختیار کرلیں گی۔
لیکن فقہاء کے مندرجہ بالا اختلاف کی وجہ سے چونکہ یہ مسئلہ مجتہدفیہ ہے اور دونوں طرف قرآن وسنت کے دلائل موجود ہیں؟ لہذا اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسجد کے اطراف سے تمام مسلمان ہجرت کرکے جاچکے ہوں اور اس مسجد پر کفار کے قبضہ اور تسلط کے بعد اس کے ساتھ بے حرمتی کا معاملہ کرنے کا اندیشہ ہو اور مسلمانوں کے دوبارہ وہاں آکر آباد ہونے کا کوئی امکان نہ ہو تو اس ضرورت شدیدہ کے وقت امام احمد یا امام محمد بن حسن رحمھمااللہ کے مسلک کو اختیارکرتے ہوئے اس مسجد کو بیچنے اور اس کی قیمت سے کسی دوسری جگہ مسجد بنانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ البتہ اس کو مسجد کے سوا کسی اور مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں اس پر فقہاء حنابلہ کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
ولو جاز جعل اسفل المسجہ سقاےۃ وحوانیت لھذہ الحاجۃ، لجاز تخریب المسجد وجعلہ سقاےۃ وحوانیت، ویجعل بدلہ مسجدً افی موضع آخر۔ (المغنی لابن قدامہ ص ۸۶۲ج۶)
بہرحال! امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے جہاں مسجد کی بیع کی اجازت دی گئی ہے وہ اس وقت ہے جب تمام مسلمان اس مسجد کے پاس سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں اور دوبارہ ان کے واپس آنے کا بھی کوئی امکان نہ ہو۔ لیکن اگر تمام مسلمان تو وہاں سے منتقل نہ ہوئے ہوں بلکہ مسلمانوں کی اکثیریت وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہو، لیکن بعض مسلمان اب بھی وہاں رہائش پذیر ہوں اس صورت میں اس مسجد کی بیع کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ حتیٰ کہ فقہاء حنابلہ بھی عدم جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔
”وان لم تتعطل مصلحتہ الوقف بالکےۃ، لکن قلت، وکان غیر انفع منہ، واکثر رداعلی اھل الوقف لم یجزبیعہ، لان الاصل تحریم البیع، وانما ابیع الضرورۃ سیانۃ لمقصود الوقف عن الضیاع مع امکان تحصیلہ ومع الانتقاع وان قل ما یضیع المقصود“
اگر وقف کی مصلحت اور منفعت بالکیہ ختم نہ ہوئی ہو، لیکن اس میں کمی آگئی ہو، اور دوسری صورت میں اہل وقف کے لئے زیادہ نفع بخش اور بہتر ہے، تب بھی اس وقف کی بیع جائز نہیں، اس لئے کہ وقف میں اصل بیع کی حرمت ہی ہے لیکن وقف کی مصلحت کے لئے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ضرورت کے تحت بیع اس وقت جائز ہے جب کہ بیع کا مقصد بھی تحصیل مقصود ہو، لیکن اگر موجودہ حالت میں وقف کی بیع کے بغیر ہی اس سے نفع اٹھانا ممکن ہو اگرچہ وہ نفع قلیل مقدار میں ہو، تو اس صورت میں مقصود وقف بالکلیہ ختم ہونے کی وجہ سے اس وقف کی بیع جائز نہیں ہوگی۔“
(المغنی لابن قدامہ ص ۷۲۲ج۶)