سوال: کسی غیرمسلم ملک مثلاً امریکہ یایورپ کی شہریت اور نیشنلٹی اختیار کرنا کیسا ہے؟ اس لئے کہ جو مسلمان ان ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں یا حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں سے بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ انہیں ان کے مسلم ممالک میں بغیر کسی جرم کے سزائیں دی گئیں، انہیں ظلماً جیل میں قیدکردیا گیا،یا ان کی جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا وغیرہ جس کی بناء پر وہ اپنا مسلم ملک چھوڑ کر ایک غیر مسلم ملک کی شہریت اختیارکرنے پر مجبورہوئے۔

 

ORIGINAL PDF###

ORIGINAL-Maghribi-Mumalik-Kay-Jadeed-Fiqhi-Masail-Aur-Un-Ka-Hal-ShaykhMuftiTaqiUsmani

###ORIGINAL PDF###

کتاب کا نام: مغربی ممالک کے چند جدید فقہی مسائل اور ان کا حل

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

غیرمسلم ممالک میں رہائش اختیارکرنا

مغربی ممالک کے چند جدید فقہی مسائل اور ان کا حل

جسٹس مَولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

غیرمسلم ممالک میں رہائش اختیارکرنا:

سوال: کسی غیرمسلم ملک مثلاً امریکہ یایورپ کی شہریت اور نیشنلٹی اختیار کرنا کیسا ہے؟ اس لئے کہ جو مسلمان ان ممالک کی شہریت اختیار کرچکے ہیں یا حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان میں سے بعض حضرات کا تو یہ کہنا ہے کہ انہیں ان کے مسلم ممالک میں بغیر کسی جرم کے سزائیں دی گئیں، انہیں ظلماً جیل میں قیدکردیا گیا،یا ان کی جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا وغیرہ جس کی بناء پر وہ اپنا مسلم ملک چھوڑ کر ایک غیر مسلم ملک کی شہریت اختیارکرنے پر مجبورہوئے۔

اور دوسرے بعض مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ جب ہمارے اپنے اسلامی ملک میں اسلامی قانون اور اسلامی حدود نافذ نہیں ہیں تو پھر اس میں اور ایک غیر مسلم ریاست میں کیا فرق ہے؟

اسلامی احکام کے عدم نفاذ میں تو دونوں برابر ہیں۔ جبکہ جس غیر اسلامی ملک کی شہریت ہم نے اختیار کی ہے۔ اس میں ہمارے شخصی حقوق یعنی جان ومال، عزت وآبرو، اسلامی ملک کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں اور ان غیر مسلم ممالک میں ہمیں بلاجرم کے جیل کی قیدوبند اور سزا کاکوئی خوف نہیں ہے۔ جبکہ ایک اسلامی ملک میں قانون کی خلاف ورزی کئے بغیر بھی قید وبند کی سزا کا خوف سواررہتا ہے۔

جواب: کسی غیر مسلم ملک میں مستقل رہاش اختیارکرنا اور اس کی قومیت اختیارکرنا اور اس ملک کے ایک باشندے اور ایک شہری ہونے کی حیثیت سے اس کو اپنا مستقل مسکن بنا لینا، ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حکم زمانہ اور حالات کے اختلاف اور رہائش اختیار کرنے والوں کی اغراض ومقاصد کے اختلاف سے مختلف ہوجاتا ہے۔ مثلاً

(۱)اگر ایک مسلمان کو اس کے وطن میں کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچائی جارہی ہو یا اس کو جیل میں ظلماً قید کرلیاجائے یا اس کی جائیداد ضبط کرلی جائے اور کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیارکرنے کے سوا ان مظالم سے بچنے کی اس کے پاس کوئی صورت نہ ہو۔ ایسی صورت  میں اس شخص کے لئے کسی غیرمسلک ملک میں رہائش اختیارکرنا اور اس ملک کا باشندہ بن کروہاں رہنا بلاکراہت جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ اس بات کااطمینان کرلے کہ وہ وہاں جاکر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کاربند رہے گا اور وہاں رائج شدہ منکرات وفواحشات سے اپنے کومحفوظ رکھ سکے گا۔

(۲)اسی طرح اگر کوئی شخص معاشی مسئلہ سے دوچار ہوجائے اور تلاش بسیار کے باوجود اسے اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل حاصل نہ ہوں حتیٰ کہ وہ نان جویں کا بھی محتاج ہوجائے ان حالات میں اگر اس کو کسی غیرمسلک ملک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے، جس کی بناء پر وہ وہاں رہائش اختیارکرلے تومذکورہ بالا دوشرائط (جن کا بیان نمبر ایک میں گزرا) اس کے لئے وہاں رہائش اختیار کرناجائز ہے۔ اس لئے کہ حلال کمانا بھی دوسرے فرائض کے بعد ایک فرض ہے جس کے لئے شریعت نے کسی مکان اور جگہ کی قید نہیں لگائی بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو رزق حلال تلاش کرو چنانچہ قرآن کریم کی آیت ہے۔

ھُوَالَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الاَرضَ ذَلُولافئثُوافی مَناَکِبِھاَ وَکُلُوامِن رِزقِہٖ وَاِلَیہِ النِّشُورُO

وہ ایسی ذات ہے جس نے تمہارے لئے زمین کومسخر کردیا۔ اب تم اس کے راستوں میں چلو، اور خداکی روزی میں سے کھاؤ اور اسی کے پاس دوبارہ زندہ ہوکرجانا ہے۔ (سورہ ملک ۵۱)

(۳)اسی طرح اگر کوئی شخص کسی غیر مسلک ملک میں اس نیت سے رہاش اختیارکرے کہ وہ وہاں کے غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دے گا اور ان کو مسلمان بنائے گا، یا جو مسلمان وہاں مقیم ہیں ان کو شریعت کے صحیح احکام بتائے گا اور ان کو دین اسلام پر جمے رہنے اور احکام شریعہ پر عمل کرنے کی ترغیب دے گا اس نیت سے وہاں رہائش اختیار کرنا صرف یہ نہیں کہ جائز ہے بلکہ موجب اجر وثواب ہے۔ چنانچہ بہت سے صحابہ اور تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعٰین نے اسی نیک ارادے اور نیک مقصد کے تحت غیرمسلم ممالک میں رہائش اختیار کی۔ اور جو بعد میں ان کے فضائل و مناقب اور محاسن میں شمار ہونے لگی۔

(۴)اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزارسکتا ہے۔ لیکن صرف معیارزندگی بلند کرنے کی غرض سے اور خوشحالی اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے تو ایسی ہجرت کراہت سے خالی نہیں، اس لئے کہ اس صورت میں دینی یا دنیاوی ضروریات کے بغیر اپنے آپ کو وہاں رائج شدہ فواحشات ومنکرات کے طوفان میں ڈالنے کے مترادف ہے اور بلاضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کوخطرہ میں ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں اس لئے کہ تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جولوگ صرف عیش وعشرت اور خوش حالی کی زندگی بسرکرنے کے لئے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں ان میں دینی حمیت کمزور ہوجاتی ہے چنانچہ ایسے لوگ کافرانہ محرکات کے سامنے تیز رفتاری سے پگھل جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت اور تقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت آئی ہے۔

چنانچہ ابوداؤد میں حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

من جامع المشرکین ومسکن معہ، فانہ مثلہ

جوشخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیارکرے وہ اسی کے مثل ہے۔ (ابوداؤد کتاب الضحایا)

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انابریئی من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین، قالوا یارسول اللہ! لم؟ قال لاتری ای نا راعما۔

”میں ہراس مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیارکرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یارسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ”اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ تم یہ امتیاز نہیں کرسکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔“

امام حطابی رحمۃ اللہ علیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ کہ

”مختلف اہل علم نے اس قول کی شرح مختلف طریقوں سے کی ہے۔ چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اور مشرک حکم کے اعتبار سے برابر نہیں ہوسکتے، دونوں کے مختلف احکام ہیں اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دارالاسلام اور دارالکفر دونوں کو علیحدہ علیحدہ کردیا ہے، لہذا کسی مسلمان کے لئے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرناجائز نہیں، اس لئے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے اور یہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت اختیار کئے ہوئے ہوگا تو دیکھنے سے یہی خیال کریں گے یہ بھی انہیں میں سے ہے۔ علماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہورہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی دارالکفر جائے تو اس کے لئے وہاں پر ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے۔

(معالم السنن للخطابی ص۷۳۴ج۳)

اور مراسیل ابوداؤد عن المکحول میں روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

”اپنی اولاد کو مشرکین کے درمیان مت چھوڑو۔“

(تہذیب السنن لابن قیم ص۷۳۴ج۳)

اسی وجہ سے فقہاء فرماتے ہیں کہ صرف ملازمت کی غرض سے کسی مسلمانوں کا دارالحرب میں رہائش اختیارکرنا، اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بننا ایسا فعل ہے جس سے اس کی عدالت مجروح ہوجاتی ہے۔(دیکھئے تکملہ روالمختارج۱ص۱۰۱)

(۵)پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی شخص سوسائٹی میں معزز بننے کے لئے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے غیرمسلم ممالک میں رہائش اختیارکرتا ہے یا دارالکفر کی شہریت اور قومیت کو دارالاسلام کی قومیت پر فوقیت دیتے ہوئے اور اس کو افضل اور برتر سمجھتے ہوئے ان کی قومیت اختیار کرتا ہے یا اپنی پوری عملی زندگی میں بودوباش میں ان کا طرز اختیارکرکے ظاہری زندگی میں ان کی مشابہت اختیارکرنے کے لئے اور ان جیسابننے کے لئے رہائش اختیارکرتا ہے۔ ان تمام مقاصد کے لئے وہاں رہائش اختیارکرنامطلقاً حرام ہے۔ جس کی حرمت محتاج دلیل نہیں۔

غیرمسلم ملک میں اولاد کی تربیت؟

غیرمسلم ملک میں اولاد کی تربیت؟

جو مسلمان امریکہ اوریورپ وغیرہ جیسے غیر اسلامی ممالک میں رہائش پذیر ہیں ان کی اولاد کا اس ماحول میں پرورش پانے میں اگرچہ کچھ فوائد بھی ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں بہت سی خرابیاں اور خطرات بھی ہیں خاص کر وہاں کے غیر مسلم یہودونصاریٰ کی اولاد کے ساتھ میل جول کے نتیجے میں ان کی عادات واخلاق اختیار کرنے کا قوی احتمال موجودہے اور یہ احتمال اس وقت اور زیادہ قوی ہوجاتا ہے جب ان بچوں کے والدین ان کی اخلاقی نگرانی سے بے اعتنائی اور لاپروائی برتیں یاان بچوں کے والدین میں کسی ایک کا یا دونوں کا انتقال ہوچکا ہو۔

اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالاخرابی کی وجہ سے ان غیرمسلم ممالک کی طرف ہجرت اور ان کی قومیت اختیارکرنے کے مسئلہ پر کچھ فرق واقع ہوگا؟ جبکہ دوسری طرف وہاں پر رہائش پذیر مسلمانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہماری اولاد کو ان مسلم ممالک میں رہائش باقی رکھنے میں وہاں پر موجود کمیونسٹ اور لادینی جماعتوں کے ساتھ میل جول سے ان کے کافر ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق ہے خاص کر اگر ان لادینی جماعتوں اور ان کے ملحدانہ افکار اور خیالات کی سرپرستی خود اسلامی حکومت کررہی ہو۔ اور ان خیالات وافکار کونصاب تعلیم میں داخل کرکے عوام کے ذہنوں کوخراب کررہی ہواور جوشخص ان خیالات کو قبول کرنے سے انکارکرے اس کو قیدوبند کی سزادے رہی ہو۔ ایسی صورت میں ایک اسلامی ملک میں رہائش اختیارکرنے سے ہماری اولادکے عقائد خراب ہونے اور دین اسلام سے گمراہ ہونے کا احتمال اور قوی ہوجاتا ہے، ان حالات کی وجہ سے مذکورہ بالامسئلہ میں کوئی فرق واقع ہوگا یا نہیں؟

جواب: ایک غیرمسلم ملک میں مسلمان اولاد کی اصلاح و تربیت کا مسئلہ بہرحال ایک سنگین اور نازک مسئلہ ہے جن صورتوں میں وہاں رہائش اختیارکرنا مکروہ یا حرام ہے، (جس کی تفصیل ہم نے سوال نمبر ایک کے جواب میں تفصیل سے بیان کی) ان صورتوں میں تو وہاں رہائش اختیار کرنے سے بالکل پرہیز کرناچاہیے۔

البتہ جن صورتوں میں وہاں رہائش اختیارکرنا بلاکراہت جائز ہے ان میں چونکہ وہاں رہائش اختیارکرنے پر ایک واقعی ضرورت داعی ہے۔ اس لئے اس صورت میں اس شخص کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دے اور جومسلمان وہاں پر مقیم ہیں ان کو چاہیے کہ وہ وہاں ایسی تربیت فضا او رایک پاکیزہ ماحول قائم کریں جس میں آنے والے نئے مسلمان اپنے اور اپنی اولاد کے عقائد اور اعمال و اخلاق کی بہتر طور پر نگہداشت اور حفاظت کر سکیں۔

مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح

مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح

کسی مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد سے نکاح کرنا کیسا ہے؟ اگر اس عورت کو یہ امید ہو کہ اس شادی کے نتیجے میں وہ مرد مسلمان ہوجائے گا تو کیا اس شخص کے مسلمان ہوجانے کی امید اور لالچ میں اس سے نکاح کرنا درست ہے؟ جبکہ دوسری طرف اس مسلمان عورت کو مسلمانوں میں کوئی برابری کا رشتہ نہ مل رہاہو اور معاشی تنگی کی وجہ سے خود اس عورت کے دین سے منحرف ہونے کا امکان بھی ہو تو کیا ایسی صورت میں نکاح کے جواز میں کچھ گنجائش نکل سکتی ہے؟

اگر کوئی عورت مسلمان ہوجائے اور اس کا شوہرکافر ہو تو کیا اس عورت کو اپنے شوہرسے علاقہ زوجیت برقرار رکھنے کی گنجائش ہے؟ جبکہ اس عورت کو یہ امید ہے کہ علاقہ زوجیت باقی رکھنے کی صورت میں وہ اپنے شوہر کو اسلام کی دعوت دے کر مسلمان کرلے گی جبکہ دوسری طرف اس عورت کی اپنے شوہر سے اولاد بھی ہے اورعلاقہ زوجیت ختم کرنے کی صورت میں ان کے خراب ہوجانے اور دین سے منحرف ہوجانے کا قوی احتمال موجود ہے کیا ان حالات میں اس عورت کے لئے اپنے شوہر سے رشتہ زوجیت برقرار رکھنے کی کچھ گنجائش ہے؟

الجواب: کسی مسلمان عورت کے لئے کسی غیر مسلم مرد سے نکاح کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں، قرآن کریم کا واضح ارشاد موجود ہے:

ولاتنکحواالمشرکین حتی یومنواولعبد مومنط خیر من مشرک ولواعجبکم۔ اور مشرکین سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور البتہ مسلمان غلام بہتر ہے مشرک سے، اگرچہ وہ تم کو بھلا لگے۔  (بقرہ: ۱۲۲)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن۔

نہ وہ عورتیں ان کافروں کے لئے حلال ہیں اور نہ وہ کافر ان عورتوں کے لئے حلال ہیں۔  (الممتحنتہ:۰۱)

اور کسی کافر کے مسلمان ہوجانے کی صرف امید اور لالچ کسی مسلمان عورت کے لئے اس سے نکاح کرنے کی وجہ جواز نہیں بن سکتی ہے اور نہ ہی اس قسم کی خیالی امید اور لالچ کسی حرام کام کو حلال کرسکتی ہے۔

اسی طرح اگر کوئی عورت مسلمان ہوجائے تو جمہور علماء کے نزدیک اس کے صرف اسلام لانے سے ہی نکاح ختم ہوجائے گا۔ البتہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک صرف اسلام لانے سے نکاح نہیں ٹوٹے گا۔ بلکہ عورت کے اسلام لانے کے بعد مرد کو اسلام کی دعوت دی جائے گی، اگر وہ بھی اسلام قبول کرلے تب تو نکاح باقی رہے گا۔ اور اگر اسلام لانے سے انکارکردے تو نکاح ٹوٹ جائے گا۔

اور اگر شوہر کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ اس عورت کی عدت گزرچکی ہے یا نہیں؟ اگر وہ عورت بھی عدت میں ہے تو شوہر کے اسلام لانے سے پہلا نکاح دوبارہ لوٹ آئے گا اور اگر اس کی عدت گزرچکی ہے تو اس صورت میں دونوں کے درمیان نکاح جدید کرنا ضروری ہوگا نکاح کے بعد وہ دونوں بحیثیت میاں بیوی کے رہ سکتے ہیں۔ اس مسئلہ میں تمام فقہاء متفق ہیں۔ لہذا شوہر کے اسلام لانے کی موہوم امید اور لالچ کی بنیاد پر شریعت کا قطعی حکم نہیں بدلہ جاسکتا۔

مسلمان میت کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنا

مسلمان میت کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنا

امریکہ اور یورپ کے تمام ممالک میں مسلمانوں کے لئے کوئی ایسا مخصوص قبرستان نہیں ہوتا۔ جس میں وہ اپنے مردوں کو دفن کرسکیں، اور جوعام قبرستان ہوتے ہیں ان میں عیسائی اور یہودی وغیرہ سب اپنے مردوں کودفن کرتے ہیں اور مسلمانوں کو ان قبرستان سے باہر کسی دوسری جگہ بھی دفن کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان حالات میں کیا مسلمان اپنے مردوں کو غیرمسلموں کے ساتھ ان کے قبرستان میں دفن کرسکتے ہیں؟

الجواب: عام حالات میں تو مسلمان میت کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، البتہ ان مخصوص حالات میں جو سوال میں مذکور ہیں کہ مسلمانوں کے لئے نہ تو مخصوص قبرستان ہے اور نہ ہی قبرستان سے باہر کسی اور جگہ دفن کرنے کی اجازت ہے۔ ان حالات میں ضرورت کے پیش نظر مسلمان میت کو غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز ہے۔

مسجد کو بیچنے کا حکم

مسجد کو بیچنے کا حکم

اگر امریکہ اور یورپ کے کسی علاقے کے مسلمان اپنے علاقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہوجائیں اور پہلے علاقے میں جومسجد ہو، اس کے ویران ہوجانے یا اس پر غیرمسلموں کا تسلط اور قبضہ ہوجانے کا خطرہ ہو تو کیا اس صورت میں اس مسجد کو بیچنا جائز ہے؟ اس لئے کہ عام طور پر مسلمان مسجد کے لئے کوئی مکان خرید کر اس کو مسجد بنالیتے ہیں اور پھر حالات کے پیش نظر اکثر مسلمان جب اس علاقے کو چھوڑ کر دوسرے علاقے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اور مسجد کو یونہی اور بیکار چھوڑدیتے ہیں تو دوسرے غیرمسلم اس مسجد پر قبضہ کرکے اس کو اپنے تصرف میں لے آتے ہیں جب کہ یہ ممکن ہے کہ اس مسجد کو بیچ کر دوسرے علاقے میں جہاں مسلمان آباد ہوں اسی رقم سے کوئی مکان خرید کر مسجد بنائی جائے، کیا اس طرح مسجد کو دوسری مسجد میں تبدیل کرنا شرعاً جائزہے؟

الجواب: مغربی ممالک میں جن جگہوں پر مسلمان نمازاداکرتے ہیں۔ وہ دوقسم کی ہوتی ہیں۔

۱:۔ بعض جگہیں تو ایسی ہوتی ہیں جن کو مسلمان نماز پڑھنے اور دینی اجتماعات کے لئے مخصوص کردیتے ہیں۔لیکن ان جگہوں کو شرعی طور پر دوسری مساجد کی طرح وقف کرکے شرعی مسجد نہیں بناتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان جگہوں کا نام بھی مسجد کی بجائے دوسرے نام مثلاً ”اسلامی

مرکز“ یا ”دارالصلوۃ“ یا ”دارالجماعت“ رکھ دیتے ہیں۔

اس قسم کے مکانات کا معاملہ تو بہت آسان ہے، اس لئے کہ ان مکانات کواگرچہ نماز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ان کے مالکوں نے ان کو مسجد نہیں بنایا اور نہ ان کو وقف کیا ہے تو وہ شرعاً مسجد ہی نہیں۔ لہذا ان مکانات کے مالک مسلمانوں کے مصالح کے پیش نظر ان کو بیچنا چاہیں تو شرعاً بالکل اجازت ہے۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔

۲:۔دوسرے بعض مکانات ایسے ہوتے ہیں جن کو مسلمان عام مساجد کی طرح وقف کرکے شرعی مسجد بنالیتے ہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کی جگہوں کا حکم یہ ہے کہ وہ مکان اب قیامت تک کے لئے مسجد بن گیا۔ اس کو کسی صورت میں بھی بیچنا جائز نہیں اور نہ وہ مکان اب وقف کرنے والے کی ملکیت میں داخل ہوسکتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اورامام ابو یوسف رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔

چنانچہ مسلک شافعی کے امام خطیب شربینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ولو انھدم مسجد، وتعذرت اعادتہ، اوتعطل بخراب البلد مثلاً، لم یعد ملکا ولم یبع بحال، کالبعد اذاعتق، ثم زمن ولم ینقض ان لم بخف علیہ لامکان الصلاۃ فیہ، ولا مکان عودہ کاکان……فان خیف علیہ نقض، وفی الحاکم بنقضہ مسجدا آخران رای ذالک والا حفظہ، وبنا بقربہ اولی،

”اگر مسجد منہدم ہوجائے، اور اس کو دوبارہ درست کرنا ممکن نہ ہو، یا اس بستی کے اجڑجانے سے وہ مسجد بھی ویران ہوجائے تب بھی وہ مسجد مالک کی ملکیت میں نہیں آئے گی اور نہ اس کو بیچناجائز ہوگا۔جیسا کہ غلام کو آزادکردینے کے بعد اس کی بیع حرام ہوجاتی ہے پھر اگر اس مسجد پر غیر مسلموں کے قبضے کا خوف نہ ہوتو اس کو منہدم نہ کیاجائے،بلکہ اس کو اپنی حالت پربرقرار رکھا جائے، اس لئے کی اس بات کاامکان موجود ہے کہ مسلمان دوبارہ یہاں آکر آباد ہوجائیں، اور اس مسجد کو دوبارہ زندہ کردیں …… البتہ اگر غیرمسلموں کے تسلط اور قبضہ کا خوف ہو تو اس صورت میں حاکم وقت مناسب سمجھے تو اس مسجد کو ختم کردے اور اس کے بدلے میں دوسری جگہ مسجد بنادے، اور یہ دوسری مسجد پہلی مسجد کے قریب ہونا زیادہ بہتر ہے اور اگر حاکم وقت اس مسجد کو توڑنا اور مسمارکرنا مناسب نہ سمجھے تو پھر اس کی حفاظت کرے۔ (مغنی المحتاج: ص ۲۹۳ ج۲)

اور فقہاء مالکیہ میں سے علامہ موافق رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

”ابن عرفۃ من المدونۃ وغیر ھا، یمنع بیع ماخرب من ربع الجس مطلقا۔۔۔۔وعبارۃالرسالۃ، ولایباع الحبس وان خرب۔۔۔۔وفی الطرعن ابن عبدالغفور: لا یجوزیع مواضع المساجد الخربۃ، لانھا وقف، ولاباس بیع تفضھا“

ابن عرفہ مدونہ وغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ وقف مکان کی بیع مطلقاً جائز نہیں، اگرچہ وہ ویران ہو جائے…… اور رسالہ میں یہ عبارت درج ہے کہ وقف کی بیع جائز نہیں اگرچہ وہ ویران ہوجائے۔۔۔ طررمیں ابن عبدالغفور سے یہ عبارت منقول ہے کہ ویران مساجد کی جگہوں کو بیچنا وقف ہونے کی بناء پر جائز نہیں۔ البتہ ان کا ملبہ بیچنا جائز ہے۔“

(التاج والاکلیل للموافق، عاشیہ حطاب، ص۲۴ج۶)

اورفقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ہدایہ میں ہے:

”ومن اتخذا رضہ مسجد الم یکن لہ ان یرجع فیہ، ولا یبیعہ، ولا یورث عنہ، لانہ تجردعن حق العباد، وصار خالصاّ للہ وھذالان الاشیاء کلھاللہ تعالی، واذااسقط العدماثبت لہ من الحق رجع الی اصلہ فانقطع تصرف عنہ، کمافی الاعقاق، ولوخرب ماحول المسجد، واستغنی عنہ یبقی مسجد عندابی یوسف، لانہ اسقاط منہ، فلایعود الی ملکہ“

اگرکسی شخص نے اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی تو اب وہ شخص نہ تو اس وقف سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور نہ اس کو بیچ سکتا ہے۔ اور نہ اس میں وراثت جاری ہوگی اس لئے کہ وہ جگہ بندہ کی ملکیت سے نکل کر خالص اللہ کے لئے ہوگی وجہ اس کی یہ ہے کہ ہرچیز حقیقتاً اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بندہ کو تصرف کا حق عطافرمایا ہے۔ جب بندہ نے اپنا حق تصرف ساقط کردیا تو وہ چیز ملکیت اصلی یعنی اللہ کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔ لہذا اب بندہ کا اس میں تصرف کرنے کا حق ختم ہوجائے گا۔ جیسا کہ آزادکردہ غلام میں (بندہ کا حق تصرف ختم ہوجاتا ہے)۔

اور اگر مسجد کے اطراف کا علاقہ ویران ہوجائے اور مسجد کی ضرورت باقی نہ رہے تب بھی امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مسجد ہی رہے گی۔ اس لئے کہ اس کو مسجد بنانا اپناحق ساقط کرنا ہے۔ لہذا بندہ کا اپنا حق ساقط کرنے کے بعد دوبارہ وہ حق اس کی ملکیت میں واپس نہیں آئے گا۔

البتہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر مسجد کے اطراف کی آبادی ختم ہوجائے اورمسجد کی ضرورت بالکلیہ ختم ہوجائے تو اس صورت میں مسجد کو بیچنا جائز ہے، چنانچہ المغنی لابن قدامہ میں یہ عبارت منقول ہے:

ان الوقف اذاخرب، وتعطلت نافعہ، کدارانھدمت، اوارض خربت، وعادت مواتاً، ولم تکن عمارتھا، اومسجد انتقل اھل القربۃ عنہ، وصارفی موضع لایصلی فیہ، اوضاق باھلہ، ولم یمکن توسیعہ فی موضعہ، اوتشعب جمیعہ، فلم ممکن عمارتہ، ولاعمارۃ بعضہ الابیع بعضہ، جازبیع بعضہ لتعمر بہ بقےۃ، وان لم یمکن الانتقاع بشیئی منہ بیع جمیعہ۔

اگر وقف کی زمین ویران ہوجائے اور اس کے منافع ختم ہوجائیں۔ مثلاً کوئی مکان تھا وہ منہدم ہوگیا، یا کوئی زمین تھی جو ویران ہوکر ارض موات بن جائے۔ یا کسی مسجد کے اطراف میں جو آبادی تھی وہ کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور اب اس مسجد میں کوئی نماز پڑھنے والا بھی نہ رہے، یا وہ مسجد آبادی کی کثرت کی وجہ سے نمازیوں سے تنگ ہوجائے اور مسجد میں توسیع کی بھی گنجائش نہ ہو۔ یا اس مسجد کے اطراف میں رہنے والے لوگ منتشر ہوجائیں اور جو لوگ وہاں آباد ہوں وہ اتنی قلیل تعداد میں ہوں کہ ان کے لئے اس مسجد کی تعمیر اور درست کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اس مسجد کے کچھ حصے کو فروخت کرکے اس کی رقم سے دوسرے حصے کی تعمیر کرنا جائز ہے اور اگر مسجد کے کسی بھی حصے میں انتقاع کا کوئی راستہ نہ ہو تو اس صورت میں پوری مسجد کو بیچنا بھی جائز ہے۔

(المغنی لابن قدامہ مع الشرح الکبیرض ۵۲۲ج۶)

امام احمدؒ کے علاوہ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ بھی جواز بیع کے قائل ہیں۔ ان کامسلک یہ ہے کہ اگر وقف زمین کی ضرورت بالکلیہ ختم ہوجائے تو وہ زمین دوبارہ واقف کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔اوراگر واقف کا انتقال ہوچکا ہو تو پھر اس کے ورثاء کی طرف ہوجائے گی چنانچہ صاحب ہدایہ تحریر فرماتے ہیں:

”وعندمحمد یعود دالی ملک البانی‘ اوالی وارثہ بعد موتہ، لانہ عینہ لنوع قربۃ، وقد انقطعت، فصار کحصید المسجد و حشیشہ اذااستغنی عنہ“

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ زمین دوبارہ مالک کی ملکیت میں چلی جائے گی اور اگر اس کا انتقال ہوچکا ہے تو اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجائے گی، اس لئے کہ اس کے مالک نے اس زمین کو ایک مخصوص عبادت کے لئے معین کردیا تھا اب جب کہ اس جگہ پر وہ مخصوص عبادت کی ادائیگی منقطع ہوگئی تو پھر اس کی ضرورت باقی نہ رہنے کی وجہ سے وہ مالک کی ملکیت میں داخل ہوجائے گی۔ جیسے کہ مسجد کی دری، چٹائی یاگھاس وغیرہ کی ضرورت ختم ہونے کے بعد وہ مالک کی ملکیت میں لوٹ آتی ہے۔ (ہدایہ مع فتح القدیر: ص۶۴۴ج۵)

لہذا جب وہ مالک کی ملکیت میں واپس آگئی تو اس کے لئے اس کو بیچنا بھی جائز ہو گا۔ جمہور فقہاء نے وقف مسجد کی زمین کو بیع ناجائز ہونے اور مالک کی ملکیت میں دوبارہ نہ لوٹنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقف کے واقعہ سے استدلال کیا ہے وہ یہ کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب   حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کی زمین وقف کی تو وقف نامہ میں یہ شرائط درج کیں کہ:

”انہ لابباع اصلھا، ولا تبتاع، ولا تورث ولا توھب“

آئندہ وہ زمین نہ تو بیچی جائی گی، نہ خریدی جائے گی نہ اس میں وراثت جاری ہوگی، اور نہ کسی کو ہبہ کی جاسکے گی۔“

یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے البتہ مندرجہ بالا الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بیت اللہ کو دلیل میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فترۃ (یعنی عیسٰی علیہ السلام اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کا عرصہ) کے زمانے میں بیت اللہ کے اندر اور اس کی اطراف میں بت ہی بت تھے اور بیت اللہ کے اطراف میں ان کفار اورمشرکین کا صرف شورمچانے چیخنے اور سیٹیاں بجانے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا اس کے باوجود بیت اللہ مقام قربت اور مقام طاعت وعبادت ہونے سے خارج نہیں ہوا۔ لہذا یہی حکم تمام مساجد کا ہوگا۔ (کہ اگر کسی مسجد کے قریب ایک مسلمان بھی باقی نہ رہے۔ جو اس میں عبادت کرے تب بھی وہ مسجد محل عبادت ہونے سے خارج نہیں ہوگی)

امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا استدلال پر علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ فترۃ کے زمانے میں بیت اللہ کا طواف تو کفارومشرکین بھی کرتے تھے۔ لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ اس زمانے میں عبادت مقصودہ بالکلیہ ختم ہوگئی تھیں۔

اس اعتراض کے جواب میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کے قیام کا مقصد صرف اس کا طواف کرنا نہیں ہے بلکہ بیت اللہ کے قیام کا بڑامقصد اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کے جوار میں اپنی اولاد کے قیام کا ذکر فرمایا تو اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ   ”ربنا لیقیمواالصلاۃ“   (اے میرے رب! میں نے ان کو یہاں اس لئے ٹھہرایا ہے) کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں۔“

یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نماز کا توذکرفرمایا۔ طواف کا ذکر نہیں فرمایا۔ اس کے علاوہ خود اللہ جل شانہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:

”طھر بیتی للطائفین والعاکفین“

”میرے گھر کو مسافروں اور مقیمین کے لئے پاک کردو“

یہ استدلال اس وقت درست ہے جب ”طائفین“ اور ”عاکفین“ کی تفسیر مسافر اور مقیم سے کی جائے، جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیت: سواء العاکف فیہ والباد“ میں لفظ ”عاکف“ مقیم کے معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔(اعلاء السنن ص ۲۱۲ض۳۱)

اس کے علاوہ جمہور کی سب سے مضبوط دلیل قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے:

”وان المساجدلللہ فلاتدعوامع اللہ احداً“

اور تمام مسجدیں اللہ کا حق ہیں، سو اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت مت کرو۔(سورہئ جن:۸۱)

چنانچہ اس آیت کے تحت علامہ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ احکام القرآن میں تحریر فرماتے ہیں:

”اذا تعینت لللہ اصلاً وعینت لہ عقد، فصارت عتیقہ عن التملک، مشترکۃ بین الخلیفۃ فی العبادۃ“

کہ جب وہ مسجدیں خالص اللہ کے لئے ہوگئیں، تو بندہ کی ملکیت سے آزاد ہوگئیں، اور صرف عبادت اداکرنے کی حد تک تمام مخلوق کے درمیان مشترکہ ہوگئیں۔

(احکام القرآن لابن عربی ص ۹۶۸، ج۴)

اور علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عکرمہ کا قول نقل کرتے ہیں:

”وان المساجد لللہ، قال: المساجد کلھا“

بے شک مسجدیں اللہ کے لئے ہیں حضرت عکرمہ فرماتے ہیں: کہ تمام مسجدیں اس میں داخل ہیں، کسی کی تفریق نہیں ہے۔ (تفسیر ابن جریر:ص ۳۷۔ پارہ ۹۲)

علامہ ابن قدامہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تائید میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ مکتوب پیش کرتے ہیں، جوانہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو لکھاتھا واقعہ یہ ہوا کہ کوفہ کے بیت المال میں چوری ہوگئی، جب اس کی اطلاع حضرت عمرؓ کو ہوئی تو آپ نے لکھا کہ موضوع تمارین کی مسجد منتقل کرکے بیت المال کے قریب اس طرح بناؤ کہ بیت المال مسجد کے قبلہ کی سمت میں ہوجائے، اس لئے کہ مسجد میں ہروقت کوئی نہ کوئی نمازی موجودہی ہوتا ہے۔ (اس طرح بیت المال کی بھی حفاظت ہوجائے گی)(المغنی لابن قدامہ، ۶:۶۲۲)

اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کا مقصد مسجد کو منتقل کرنا نہ ہو۔ بلکہ بیت المال کو منتقل کرکے مسجد کے سامنے بنانے کا حکم دیا ہو۔(فتح القدیر، ج۵أ۶۴۴)

بہرحال! مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس سلسلے میں جمہور کا مسلک راجح ہے۔ لہذا کسی مسجد کے شرعی مسجد بن جانے کے بعد اس کو بیچنا جائز نہیں اگر مسجد کو بیچنے کی اجازت دے دی جائے تو پھر لوگ مسجدوں کو بھی گرجاگھر کی طرح جب چاہیں گے بیچ دیں گے اور مسجدیں ایک تجارتی سامان کی حیثیت اختیار کرلیں گی۔

لیکن فقہاء کے مندرجہ بالا اختلاف کی وجہ سے چونکہ یہ مسئلہ مجتہدفیہ ہے اور دونوں طرف قرآن وسنت کے دلائل موجود ہیں؟ لہذا اگر کسی غیر مسلم ملک میں مسجد کے اطراف سے تمام مسلمان ہجرت کرکے جاچکے ہوں اور اس مسجد پر کفار کے قبضہ اور تسلط کے بعد اس کے ساتھ بے حرمتی کا معاملہ کرنے کا اندیشہ ہو اور مسلمانوں کے دوبارہ وہاں آکر آباد ہونے کا کوئی امکان نہ ہو تو اس ضرورت شدیدہ کے وقت امام احمد یا امام محمد بن حسن رحمھمااللہ کے مسلک کو اختیارکرتے ہوئے اس مسجد کو بیچنے اور اس کی قیمت سے کسی دوسری جگہ مسجد بنانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ البتہ اس کو مسجد کے سوا کسی اور مصرف میں خرچ کرنا جائز نہیں اس پر فقہاء حنابلہ کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

ولو جاز جعل اسفل المسجہ سقاےۃ وحوانیت لھذہ الحاجۃ، لجاز تخریب المسجد وجعلہ سقاےۃ وحوانیت، ویجعل بدلہ مسجدً افی موضع آخر۔ (المغنی لابن قدامہ ص ۸۶۲ج۶)

بہرحال! امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے جہاں مسجد کی بیع کی اجازت دی گئی ہے وہ اس وقت ہے جب تمام مسلمان اس مسجد کے پاس سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں اور دوبارہ ان کے واپس آنے کا بھی کوئی امکان نہ ہو۔ لیکن اگر تمام مسلمان تو وہاں سے منتقل نہ ہوئے ہوں بلکہ مسلمانوں کی اکثیریت وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہو، لیکن بعض مسلمان اب بھی وہاں رہائش پذیر ہوں اس  صورت میں اس مسجد کی بیع کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ حتیٰ کہ فقہاء حنابلہ بھی عدم جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں۔

”وان لم تتعطل مصلحتہ الوقف بالکےۃ، لکن قلت، وکان غیر انفع منہ، واکثر رداعلی اھل الوقف لم یجزبیعہ، لان الاصل تحریم البیع، وانما ابیع الضرورۃ سیانۃ لمقصود الوقف عن الضیاع مع امکان تحصیلہ ومع الانتقاع وان قل ما یضیع المقصود“

اگر وقف کی مصلحت اور منفعت بالکیہ ختم نہ ہوئی ہو، لیکن اس میں کمی آگئی ہو، اور دوسری صورت میں اہل وقف کے لئے زیادہ نفع بخش اور بہتر ہے، تب بھی اس وقف کی بیع جائز نہیں، اس لئے کہ وقف میں اصل بیع کی حرمت ہی ہے لیکن وقف کی مصلحت کے لئے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ضرورت کے تحت بیع اس وقت جائز ہے جب کہ بیع کا مقصد بھی تحصیل مقصود ہو، لیکن اگر موجودہ حالت میں وقف کی بیع کے بغیر ہی اس سے نفع اٹھانا ممکن ہو اگرچہ وہ نفع قلیل مقدار میں ہو، تو اس صورت میں مقصود وقف بالکلیہ ختم ہونے کی وجہ سے اس وقف کی بیع جائز نہیں ہوگی۔“

(المغنی لابن قدامہ ص ۷۲۲ج۶)

شرعی محرم کے بغیر سفرکرنا

شرعی محرم کے بغیر سفرکرنا

سوال: بہت سی مسلمان عورتیں کب معاش کے لئے یا تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے تنہا دوردراز کے ممالک کا سفرکرتی ہیں۔ سفر میں نہ تو شرعی محرم ان کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ان کے ساتھ جان پہچان والی عورتیں ہوتی ہیں۔ اس صورت میں ان کے لئے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لئے اس طرح تنہاسفر کرنا جائز ہے؟

جواب: صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا۔

”کوئی عورت تین روز (یعنی شرعی مسافت ۸۴ میل) سے زیادہ سفر نہ کرے الایہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا اس کا محرم ہو۔“

مندرجہ بالا حدیث میں صراحت کے ساتھ عورت کو تنہا سفر کرنے سے ممانعت فرمادی گئی ہے۔ اور جمہور فقہاء نے اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرض حج کے لئے بھی شرعی محرم کے بغیر سفرکرنے کو ناجائز کہا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں تعلیم اور کسب معاش تو بہت کم درجہ کی چیزیں ہیں۔ جن کی مسلمان عورتوں کو ضرورت ہی نہیں ہے اس لئے کہ خود شریعت اسلامیہ نے اس کی کفالت کی ذمہ داری شادی سے پہلے اس کے باپ پر اور شادی کے بعد شوہر پر ڈالی ہے اور عورت کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلے۔ لہذا کسب معاش اور حصول تعلیم کے لئے اس طرح بغیر محرم کے سفرکرنا جائز نہیں۔

ہاں: اگر کوئی عورت ایسی ہے جس کا نہ تو شوہر ہے، اور نہ باپ ہے۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا ایسا رشتہ دار ہے جو اس کی معاشی کفالت کرسکے اور نہ خود اس عورت کے پاس اتنا مال ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ اس صورت میں اس عورت کے لئے بقدر ضرورت کسب معاش کے لئے شرعی پردہ کی پابندی کے ساتھ گھر سے نکلنا جائز ہے اور جب یہ مقصد اپنے وطن اور اپنے شہر میں رہ کربھی بآسانی پورا ہوسکتا ہے۔ تو اس کے لئے کسی غیر مسلم ملک کی طرف سفر کرنے کی ضرورت نہیں۔

(دیکھئے: مغنی لابن قدامہ،ص۰۹۱ج۳)

غیر مسلم ملک میں عورت کا تنہا قیام کرنا

غیر مسلم ملک میں عورت کا تنہا قیام کرنا

سوال: بعض مسلمان عورتیں اور نوجوان لڑکیاں جدید تعلیم کے حصول کے لئے یا کسب معاش کے لئے غیرمسلم ممالک میں بعض اوقات تنہا اور بعض اوقات غیرمسلم عورتوں کے ساتھ رہائش اختیارکرلیتی ہیں ان عورتوں کا اس طرح تنہاء یا غیر مسلم عورتوں کے ساتھ رہائش اختیارکرنا کیسا ہے؟ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب: جیسا کہ ہم نے اوپر ساتویں سوال کے جواب میں عرض کیا کہ ایک مسلمان عورت کے لئے حصول معاش کے لئے یا حصول تعلیم کے لئے محرم کے بغیر تنہاء غیر مسلم ممالک کاسفرکرناجائز نہیں۔ اسی طرح قیام کرنا بھی جائز نہیں۔ ہاں: اگر کسی عورت نے محرم کے ساتھ کسی غیرمسلم ملک کا سفر کیاتھا اور وہاں رہائش پذیر ہوکراس کو اپنا وطن بنا لیا تھا پھر یا تو اس عورت کے محرم کا وہاں انتقال ہوگیا۔ یاکسی وجہ سے وہ محرم وہاں سے سفرکرکے کسی اور جگہ چلاگیا۔ اور وہ عورت وہاں تنہا رہ گئی۔ اس صورت میں اس عورت کیلئے وہاں تنہا قیام کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ وہ عورت وہاں رہ کر شرعی پردہ کی پابندی کرے۔

جن ہوٹلوں میں شراب اورخنزیر کی خریدوفروخت ہوتی ہو۔ ان میں ملازمت کرنے کا حکم

جن ہوٹلوں میں شراب اورخنزیر کی خریدوفروخت ہوتی ہو۔ ان میں ملازمت کرنے کا حکم

سوال: وہ مسلمان طلبہ جو حصول تعلیم کے لئے غیر مسلم ممالک کاسفرکرکے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے معاشی اخراجات اور تعلیمی اخراجات کے لئے وہ رقوم ناکافی ہوتی ہیں۔ جو ان کے والدین وغیرہ کی طرف سے ان کو بھیجی جاتی ہیں۔ چنانچہ وہ طلبہ مجبوراً معاشی اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ وہاں ملازمت بھی اختیارکرلیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ان طلبہ کو وہاں پر ایسے ہوٹلوں میں ملازمت ملتی ہے جن میں شراب اور خنزیر کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ کیا ان طلبہ کے لئے ایسے ہوٹلوں میں ملازمت اختیارکرنا جائز ہے؟

سوال: بعض مسلمان غیر مسلم ممالک میں شراب بنا کر بیچنے کا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں۔ کیا اس طرح غیر مسلموں کے لئے شراب بنا کر بیچنا یا خنزیر بیچنا جائز ہے؟

جواب: ایک مسلمان کے لئے غیر مسلم کے ہوٹل میں ملازمت اختیارکرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ مسلمان شراب پلانے یا خنزیر یا دوسرے محرمات کو غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنے کا عمل نہ کرے۔ اسلئے کہ شراب پلانا یا اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا حرام ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لعن اللہ الخمر وشاربھا وساقیھا وبائعھا ومبتاعھا وعاصر ھاومعتصرھا وحاملھا والمعمولۃ الیہ۔

اللہ جل شانہ نے شراب پر اس کے پینے والے اس کے پلانے والے، اس کے بیچنے والے، اس کے خریدنے والے، اس کو نچوڑنے والے اور جس کے لئے وہ نچوڑی جائے اور اس کے اٹھانے والے اور جس کیطرف اٹھاکر لیجائے، ان سب پر لعنت فرمائی ہے۔

(ابوداؤد، کتب الاشریہ، باب العتب یعصر للخمر، حدیث نمبر ۴۷۶۳،ص ۶۲۳،ج۳)

ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الخمر عشرۃ: عاصرھا و معتصر ھاوشا ربھا وحاملھا والمحمولۃ الیہ وساقیھا وبایعھاواکل ثمنھاوالشتری لھا والشترۃ لہ۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلق دس اشخاص پر لعنت فرمائی ہے۔ شراب نچوڑنے والا، جس کے لئے نچوڑی جائے، اس کو پینے والا، اٹھانے والا، جس کے لئے اٹھائی جائے، پلانے والا، بیچنے والا، شراب بیچ کر اس کی قیمت کھانے والا، خریدنے والا، جس کے لیے خریدی جائے۔

(ترمذی شریف، کتاب البیوع۔باب ماجاء فی بیع الخمر۔ حدیث نمبر ۳۱۳۱ ص۰۸۳ج۲)

ابن ماجہ میں بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ اسی طرح ہیں:

عاصرھا، ومعتصر ھا والمعصورۃ لہ وحاملھا والمحولہ لہ وبائعھا والمبیوعۃ لہ و ساقیھا والمستقاۃ لہ۔ شراب نچوڑنے والا، نچڑوانے والا، جس کے لئے نچوڑی جائے، اس کو اٹھانے والا، جس کے لئے اٹھائی جائے، اس کو فروخت کرنے والا، جس کو فروخت کی جائے، پلانے والا، جس کو پلائی جائے۔

(ابن ماجہ، ص۲۲۱۱ج۲، کتاب الشرےۃ، باب لعنت الخمر علی عشرۃ لوجہ، حدیث نمبر ۱۸۳۳)

امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث روایت کی ہے۔

قالت: لمانزلت الایات من آخر سورۃ البقرۃ خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأقر أھن علی الناس، ثم نھی عن التجارۃ فی الخمر۔

”فرماتی ہیں کہ جب سورہ بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور وہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنائیں، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی تجارت اور خرید وفروخت کی ممانعت فرمادی“

(بخاری شریف، کتاب البیوع، کتاب المساجد وکتاب التفسیر، تفسیرسورۃ البقرہ، مسلم شریف کتاب البیوع، باب تحریم بیع الخمر)

امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول مرفوعا نقل کیا ہے کہ:

ان الذی حرم شربھا حرم بیعھا

جس ذات نے شراب پینے کو حرام قرار دیا ہے، اسی ذات نے اس کی خریدوفروخت بھی حرام قرار دی ہے۔

اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں یہ روایت نقل کی ہے کہ:

عن عبدالرحمن بن وعلۃ، قال: سالت ابن عباس فقلت: انا بارض لنا بھا الکروم، وان اکثر غلانھا الخمر، تذکر ابن عباس ان رجلا اھدی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم رواےۃ خمر، فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ان الذی حرم شربھا حرم بیعھا

”عبدالرحمن بن وعلۃ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں ہمارے پاس انگور کے باغات ہیں۔ اور ہماری آمدنی کا بڑا ذریعہ شراب ہی ہے اس کے جواب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شراب کی ایک مشک بطور ہدیہ کے پیش کی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: جس ذات نے اسکے پینے کو حرام قراردیا ہے۔ اس کی خرید وفروخت کو بھی حرام قراردیا ہے۔“

(مسند احمدؒ۔ج۱ص۴۴۲)

مندرجہ بالا احادیث سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ شراب کی تجارت بھی حرام ہے اور اجرت پر اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر لے جانا،، یا پلانا سب حرام ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتویٰ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کسی علاقے میں شراب بنانے اور اس کی خرید وفروخت کا عام رواج ہو۔ وہاں بھی کسی مسلمان کے لیے حصول معاش کے طور پرشراب کا پیشہ اختیار کرنا حلال نہیں۔

اور میرے علم کے مطابق فقہاء میں سے کسی فقیہ نے بھی اس کی اجازت نہیں دی۔

”الکحل“ ملی ہوئی دواؤں کا حکم

”الکحل“ ملی ہوئی دواؤں کا حکم

سوال: یہاں مغربی ممالک میں اکثر دواؤں میں ایک فیصد سے لے کر ۵۲فیصد تک ”الکحل“ شامل ہوتا ہے۔ اس قسم کی دوائیاں عموماً نزلہ، کھانسی، گلے کی خراش جیسی معمولی بیماریوں میں استعمال ہوتی ہے اور تقریباً ۵۹ فیصد دواؤں میں ”الکحل“ ضرور شامل ہوتا ہے اب موجودہ دور میں ”الکحل“ سے پاک دواؤں کو تلاش کرنا مشکل، بلکہ ناممکن ہوچکا ہے، ان حالات میں ایسی دواؤں کے استعمال کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب:الکحل ملی ہوئی دواؤں کا مسئلہ اب صرف مغربی ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ اسلامی ممالک سمیت دنیا کے تمام ممالک میں آج یہ مسئلہ پیش آرہا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک تو اس مسئلہ کا حل آسان ہے۔ اس لئے کہ امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک انگور اور کھجور کے علاوہ دوسری اشیاء سے بنائی ہوئی شراب کو بطور دواء کے یا حصول طاقت کے لئے اتنی مقدار میں استعمال کرنا جائز ہے۔ جس مقدار سے نشہ پیدا نہ ہوتا ہو۔

(فتح القدیرج۸ص۰۶۱)

دوسری طرف دواؤں میں جو ”الکحل“ ملایاجاتا ہے۔ اس کی بڑی مقدار انگور اور کھجور کے علاوہ دوسری اشیاء مثلاً چمڑا، گندھک، شہد، شیرہ، دانہ، جو وغیرہ سے حاصل کی جاتی ہے۔

(انسائیکلو پیڈیا آف برنانیکا،ج۱ص۴۴۵)

لہذا دواؤں میں استعمال ہونے والا  ”الکحل“ اگر انگور اور کھجور کے علاوہ دوسری اشیاء سے حاصل کیا گیا ہے، تو امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک اس دواء کا استعمال جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ حد سکر تک نہ پہنچے اورعلاج کی ضرورت کے لئے ان دونوں اماموں کے مسلک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

اور اگر وہ ”الکحل“ انگور اور کھجور ہی سے حاصل کیا گیا ہے تو پھر اس دواء کا استعمال ناجائز ہے۔ البتہ اگر ماہر ڈاکٹر یہ کہے کی اس مرض کی اس کے علاوہ کوئی اور دوا نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے استعمال کی گنجائش ہے۔ اس لئے کہ اس حالت میں حنفیہ کے نزدیک تداوی بالمحرم جائز ہے۔

(البحرالرائقج۱ص۶۱۱)

امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک خالص ا شریہ محرمہ کو بطور دوااستعمال کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں۔ لیکن اگر شراب کو کسی دوا میں اس طرح حل کردیا جائے کہ اس کے ذریعے شراب کا ذاتی وجود ختم ہوجائے اور اس دوا سے ایسا نفع حاصل کرنا مقصود ہو جو دوسری پاک دوا سے حاصل نہ ہوسکتا ہو تو اس صورت میں بطور علاج ایسی دوا کا استعمال جائز ہے۔ جیسا کہ علامہ رملی رحمتہ اللہ علیہ ”نہاےۃ المحتاج“ میں فرماتے ہیں۔

امامستھلکۃ مع دواء آخر فیجوذ التداوی بھا‘ کصرف بقےۃ النجاسات ان عرف اواخبرہ طبیب عدل بنفعھا وتعینیھا بان لا یغنی عنھا طاہر۔

ایسی شراب جو دوسری دوا میں حل ہوکر اس کا ذاتی وجود ختم ہو جائے، اس کے ذریعے علاج کرناجائز ہے، جیسا کہ دوسری نجس اشیاء کا بھی یہی حکم ہے۔ بشرطیکہ کہ علم طب کے ذریعہ اس کا مفید ہونا ثابت ہو، یا کوئی عادل طبیب اس کے نافع اور مفید ہونے کی خبر دے اور اس کے مقابلے میں کوئی ایسی پاک چیز بھی موجود نہ ہو جو اس سے بے نیاز کردے۔

(نہاےۃ المحتاج للرملی ج۸ص۲۱)

اورخالص ”الکحل“ کا استعمال بطور دواکے نہیں کیاجاتا، بلکہ ہمیشہ دوسری دواؤں کے ساتھ ملاکر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی ”الکحل“ ملی ہوئی دواؤں کو بطور علاج استعمال کرنا جائز ہے۔

مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک میرے علم کے مطابق تداوی بالمحرم حالت اضطرار کے علاوہ کسی حال میں بھی جائز نہیں۔

بہرحال موجود دور میں چونکہ ان دواؤں کا استعمال بہت عام ہوچکا ہے اس لئے اس مسئلہ میں احناف یاشوافع کے مسلک کو اختیار کرتے ہوئے ان کے مسلک کے مطابق گنجائش دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

پھراس مسئلہ کے حل کی ایک صورت اور بھی ہے جس کے بارے میں دواؤں کے ماہرین سے پوچھ کر اس کو حل کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ”الکحل“ کو دواؤں میں ملایاجاتا ہے تو کیا اس عمل کے بعد”الکحل“ کی حقیقت اور ماہیت باقی رہتی ہے؟یااس کیمیاوی عمل کے بعد اس کی ذاتی حقیقت اور ماہیت ختم ہوجاتی ہے؟ اگر ”الکحل“ کی حقیقت اور ماہیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کیمیاوی عمل کے بعد وہ”الکحل“ نہیں رہتا بلکہ دوسری شے میں تبدیل ہوجاتا ہے تو اس صورت میں تمام ائمہ کے نزدیک بالاتفاق اس کا استعمال جائز ہے، اس لئے کہ شراب جب سرکہ میں تبدیل ہوجائے، اس وقت تمام ائمہ کے نزدیک حقیقت اور ماہیت کی تبدیلی کی وجہ سے اس کا استعمال جائز ہے۔ واللہ اعلم

مسجد میں شادی بیاہ کی تقریبات

مسجد میں شادی بیاہ کی تقریبات

سوال: مغربی ممالک میں مسلمانوں کو کشادہ اور وسیع ہال مہیانہ ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کی تقریبات مساجد ہی میں منعقد کرتے ہیں، جب کہ ان تقریبات میں رقص وسرود اور گانے بجانے کا اہتمام بھی ہوتا ہے، کیا اس قسم کی تقریبات مساجد میں منعقد کرنا جائز ہے؟

الجواب: جہاں تک عقد نکاح کا تعلق ہے۔ احادیث نبویہ کی رو سے مساجد میں منعقد کرنا مستحب اور مندوب ہے، لیکن رقص وسرود اور گانا بجانا کسی حال میں جائز نہیں۔ لہذا شادی کی وہ تقریبات جن میں ایسے منکرات اور فواحش شامل ہوں، مساجد میں منعقد کرنا جائز نہیں۔ واللہ اعلم

عیسائیوں کے نام رکھنا

عیسائیوں کے نام رکھنا

سوال: بعض عیسائی حکومتوں نے خصوصاً جنوبی امریکہ کی حکومت نے عوام پر لازم قراردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے عیسائی نام کے علاوہ دوسرے نام نہ رکھیں اس کے لئے حکومت نے ناموں کی لسٹیں تیار کی ہیں اور یہ لازم قراردیا ہے کہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کے نام اسی لسٹ سے منتخب کرکے رکھیں اور کوئی شخص بھی اس لسٹ کے علاوہ کوئی دوسرا نام حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں کراسکتا۔ کیامسلمانوں کو ایسے نام رکھنا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں تو پھر اس مشکل کے حل کی کیاصورت ہے؟

الجواب: اگر حکومت کی طرف سے عیسائی نام رکھنا لازم اور ضروری ہو تو اس صورت میں ایسے نام رکھے جاسکتے ہیں۔ جومسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مشترک ہیں مثلاً اسحاق، داؤد، سلیمان مریم، لبنیٰ، راحیل، صفورا وغیرہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سرکاری محکمے میں بچے کانام حکومت کی طرف سے لازم کردہ لسٹ میں منتخب کرکے درج کرایاجائے اور گھر پر اس کودوسرے اسلامی نام ہی سے پکاراجائے۔ واللہ اعلم۔

کچھ عرصے کے لئے نکاح کرنا

کچھ عرصے کے لئے نکاح کرنا

سوال: جو مسلمان طلباء وطالبات حصول تعلیم کے لئے مغربی ممالک میں آتے ہیں وہ یہاں آکر شادی کرلیتے ہیں اور شادی کرتے وقت یہ نیت ہوتی ہے کہ جب تک ہمیں یہاں تعلیم حاصل کرنی ہے۔ بس اس وقت تک اس نکاح کوبرقراررکھیں گے اور پھر جب حصول تعلیم کے بعداپنے ملک اور اپنے وطن واپس جائیں گے تو اس نکاح کو ختم کردیں گے اور مستقل یہاں رہنے کی کوئی نیت نہیں ہوتی البتہ یہ نکاح بھی عام نکاح طریقہ کے پر اور انہیں الفاظ سے کیا جاتا ہے، ایسے نکاح کا شرعاً کیا حکم ہے؟ الجواب: اگر انعقاد نکاح کی تمام شرائط موجود ہوں، اور عقد نکاح میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو جس سے وہ نکاح موقت سمجھا جائے۔ اس صورت میں وہ نکاح منعقد ہوجائے گا اور اس نکاح کے بعد تمتع جائز ہے اور نکاح کرنے والے مرد یا عورت کا یہ نیت کرنا کہ تعلیم کی مدت کے بعد ہم اس نکاح کو ختم کردیں گے اس نیت سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر واقع نہیں ہوگا۔ البتہ نکاح شریعت کے نزدیک چونکہ ایک دائمی عقد ہے۔ اس لئے زوجین سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس عقد کو ہمیشہ باقی رکھیں اور شدید ضرورت کے علاوہ کبھی اس کو ختم نہ کریں اور عقد کرتے وقت ہی زوجین کا جدائی اور فرقت کی نیت کرنانکاح کے اس مقصد کے خلاف ہے۔ اس لئے ایسی نیت رکھنا دیانۃ کراہت سے خالی نہیں۔ واللہ اعلم۔

اس سوال وجواب کے بارے میں بعض حضرات نے متوجہ کیا ہے کہ اس سے متعدد غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں، لہذا اس کی وضاحت ضروری ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ فقہاء کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق یہاں تین چیزیں علیحدہ علیحدہ ہیں، جن کو وضاحت کے ساتھ الگ الگ سمجھنا ضروری ہے۔

(۱)متعہ: اس کی حقیقت یہ ہے دو مردوعورت ایک معین مدت تک ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے سے نفع اٹھانے کا معاہدہ کرتے ہیں اس میں عموماً نہ تونکاح کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور نہ معاہدہ کے وقت دوگواہوں کی موجودگی شرط ہے، یہ صورت بالکل حرام ہے اور حرمت کے لحاظ سے زنا کے حکم میں ہے، اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔

(۲) نکاح موقت: اس میں مرد وعورت باقاعدہ دوگواہوں کے سامنے نکاح کے لفظ کے ساتھ ایجاب وقبول کرتے ہیں لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی صراحت کردیتے ہیں کہ یہ نکاح ایک مخصوص مدت کے لئے ہے اس کے بعد یہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔ یہ صورت بھی شرعاً بالکل حرام ہے اور اس طرح نہ نکاح منعقدہوتا ہے اور نہ وظائف زوجیت کی ادائیگی جائز ہوتی ہے۔

(۳)تیسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت باقاعدہ دوگواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کے ذریعے نکاح کریں اور نکاح میں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوتا کہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لئے کیا جارہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یادونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعے ہم نکاح ختم کردیں گے۔ فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہوجاتا ہے اور مردوعورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں۔ اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طور پر قائم ہوجاتا ہے اور ان پر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق ضروردیں، بلکہ ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں اورچونکہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس لئے ان کا یہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دے دیں گے۔ شرعاً ایک مکروہ ارادہ ہے، لہذا اس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔

مذکورہ صورت میں نکاح کے صحت کی تصریح تمام فقہاء حنفیہ نے فرمائی ہے چند عبارتیں مندرجہ ذیل ہیں۔ ولوتزوجھا مطلقاً، وفی نیتہ ان یعقد معھامدۃ نواھا، فالنکاح صحیح  (عالمگیریہ ص۳۸۱ج۱)

ولیس منہ (ای منہ المتعۃ والنکاح الموقت) مالونکحھا علی ان یطلقھا بعدشھر اونوی مکثا معھا مدۃ معینۃ (الدرالمختار مع رداالمحتار ص۹۱۳ج۲)

امالوتزوج وفی نیتہ ان یطلقھا بعد مدۃ  نواھا صح   (فتح القدیر ص۲۵۱ج۳)

واللہ اعلم بالصواب

عورت کا بناؤ سنگھار کے ساتھ ملازمت پر جانا

عورت کا بناؤ سنگھار کے ساتھ ملازمت پر جانا

سوال: ایک مسلمان خاتون کے لئے کاجل لگاکر اور بہوؤں کے بال صاف کرکے تعلیم گاہ یا دفتر میں حصول معاش کے لیے جانا کیسا ہے؟

الجواب: جیساکہ ہم نے اوپر ایک سوال کے جواب میں عرض کیا تھا کہ ایک مسلمان خاتون کے لئے کسب معاش کے لئے نکلنا جائز نہیں۔ البتہ جس ضرورت کے موقع پر شریعت نے مسلمان خاتون کے لئے گھر سے باہر نکلنے کوجائز قراردیا ہے۔ اس موقع پر بھی خاتون پر یہ لازم ہے کہ وہ زیب وزینت کے بغیر حجاب کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے گھر سے نکلے۔

عورت کا اجنبی مردوں سے مصافحہ کرنا

عورت کا اجنبی مردوں سے مصافحہ کرنا

سوال: مغربی ممالک کی مسلمان عورتوں کو بعض اوقات ان کے دفاتر یا تعلیم گاہ میں آنے والے اجنبی مردوں سے مصافحہ کرنا پڑتا ہے، اسی طرح مسلمان مردوں کو بعض اوقات اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کی نوبت آجاتی ہے اورمصافحہ سے انکار کی صورت میں ان سے ضرر اورنقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کیا شرعاً اس صورت میں اس طرح مصافحہ کرنا جائز ہے؟

جواب: عورتوں کے لئے اجنبی مردوں سے مصافحہ کرنا اور مردوں کے لئے اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں، اس بارے میں احادیث مبارکہ میں واضح ارشادات موجود ہیں اور تمام فقہاء بھی اس کے عدم جواز پر متفق ہیں۔

نماز کی ادائیگی کے لئے گرجوں کو کرایہ پر حاصل کرنا

نماز کی ادائیگی کے لئے گرجوں کو کرایہ پر حاصل کرنا

سوال: مغربی ممالک کے مسلمان بعض اوقات پنج وقتہ نماز اور نمازجمعہ اور نمازعیدین کی ادائیگی کے لئے عیسائیوں کے گرجے کرایہ پرحاصل کرلیتے ہیں۔ جب کہ ان میں مجسمے، تصاویر اور دوسری واہیات چیزیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ گرجے دوسرے ہالوں کے بنسبت کم کرایہ پر حاصل ہوجاتے ہیں۔ اور بعض اوقات تعلیمی اور خیراتی ادارے اپنا گرجا مسلمانوں کو مفت بھی فراہم کردیتے ہیں۔ کیا اس قسم کے گرجوں کو کرایہ پر حاصل کرکے اس میں نماز اداکرنا جائز ہے؟ جواب: نماز کی ادائیگی کے لئے گرجوں کو کرایہ پر لیناجائز ہے اس لئے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:

جعلت لی الارض کلھا مسجداً

میرے لئے پوری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔

البتہ نماز کی ادائیگی کے وقت بتوں اور مجسموں کو وہاں سے ہٹادینا چاہیے اس لئے کہ جس گھر میں مجسمے ہوں اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مجسموں ہی کی وجہ سے گرجوں میں داخل ہونے سے منع فرما یا ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عمرؓ کا یہ قول کتاب ”الصلاۃ، باب الصلاۃ فی البیعتہ“ میں تعلیقاً ذکر کیا ہے اور اس کے بعد امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”ان ابن عباس کان یصلی فی البیعتہ الابیعتہ فیھاتماثیل“

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ گرجے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے، البتہ جس گرجے میں مجسمے ہوں (اس میں نماز نہیں پڑھتے تھے)

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کومسنداً ذکرکیا ہے۔ اور مزید یہ بھی لکھا ہے۔

”فان کان فیھا تماثیل خرج، فصلی فی المطر“

”اگر اس گرجے میں مجسمے ہوتے تو آپ باہر نکل آتے اور بارش میں ہی نماز پڑھ لیتے۔“ (فتح الباری ص۲۳۵ج۱۔نمبر۵۳۴)

اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم

اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم

سوال: اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کے ذبائح اور ان کے ہوٹلوں میں جو کھانا پیش کیاجاتا ہے، ان کی حلت اور حرمت کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟ اس لئے کہ اس بات کا یقینی علم حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی کہ انہوں نے ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی تھی یا نہیں؟

جواب: اس مسئلہ میں میری رائے جس کو میں فیمابینی وبین اللہ حق سمجھتا ہوں یہ ہے کہ صرف ذبح کرنے والے کا اہل کتاب میں سے ہونا ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے کافی نہیں جب تک وہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے اور شرعی طریقہ پر رگوں کو نہ کاٹ دے جیسا کہ ذبح کرنے والے کاصرف مسلمان ہونا بھی ذبیحہ جانور کے حلال ہونے کے لئے کافی نہیں ہوتا، جب تک کہ ذبیحہ حلال  ہونے کی تمام شرائط نہ پائی جائیں اور اسلام نے اہل کتاب کے ذبیحہ کو جو حلال قراردیا ہے اور دوسرے مشرکین کے ذبیحہ کو حرام قراردیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اہل کتاب ذبح کے وقت ان شرائط کا لحاظ رکھتے تھے، جو اسلام نے شرعی ذبح پر عائد کی ہیں۔

لہذا اس اصول کے پیش نظر اہل کتاب کا ذبیحہ اس وقت تک حلال نہیں ہوگا۔ جب تک وہ ان شرعی شرائط کو پورانہ کریں اورچونکہ آجکل یہودونصاریٰ کی بڑی تعداد ذبیحہ کی ان شرائط کا لحاظ نہیں رکھتی ہے جو ان کے اصلی مذہب میں ان پر واجب تھیں۔ اس لئے ان کاذبیحہ مسلمانوں کے لئے حلال نہ ہوگا۔ البتہ اگر وہ ان شرائط کو پوراکرلیں تو پھر وہ ذبیحہ حلال ہوجائے گا۔

شرعی منکرات پرمشتمل تقریبات میں شرکت

شرعی منکرات پرمشتمل تقریبات میں شرکت

سوال: مغربی ممالک میں ایسی عام تقریبات اور اجتماعات بھی منعقد ہوتے ہیں جن میں مسلمانوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے ان تقریبات میں مخلوط اجتماع ہوتا ہے۔اور شراب پینے پلانے کادور بھی چلتا ہے۔ اگر ان تقریبات میں مسلمان شرکت نہ کریں تو وہ ایک طرف پورے معاشرے سے کٹ کر تنہارہ جاتے ہیں۔ اور دوسری طرف بہت سے فوائد سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ کیا ان حالات میں مسلمانوں کے لئے ان تقریبات میں شرکت کرنا جائز ہے؟

جواب: جوتقریبات شراب اور خنزیر کے کھانے پینے اور مردوں اورعورتوں کے رقص وسرود پر مشتمل ہوں ان میں مسلمانوں کا شریک ہونا جائز نہیں جبکہ اس شرکت کے لئے شہرت اور جاہ کے حصول کے علاوہ کوئی اور چیز داعی بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لئے ان فسق وفجور کے اسباب اور محرمات دین کے سامنے جھکنا مناسب نہیں جو ان کو پیش آرہے ہیں بلکہ ایسے موقع پرتو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دین پر جمے رہیں۔ اور اگر غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر مسلمان–جن کی تعدادکم نہیں ہے۔ ان تقریبات میں شرکت نہ کرنے پر اتفاق کرلیں۔ تو غیر مسلم خود اس بات پر مجبورہوں گے کہ وہ ان تقریبات کو ان منکرات سے خالی کرلیں۔ واللہ اعلم

مسلمان کے لئے غیرمسلم حکومت کے اداروں میں ملازمت کرنا

مسلمان کے لئے غیرمسلم حکومت کے اداروں میں ملازمت کرنا

سوال: کسی مسلمان کے لئے امریکہ یا کسی بھی غیر مسلم حکومت کے سرکاری محکمے میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ جس میں ایٹمی توانائی کا محکمہ اور جنگی حکمت عملی کے تحقیقی ادارے بھی شامل ہیں؟

جواب: امریکی حکومت یا دوسری غیر مسلم حکومتوں کے سرکاری محکموں میں ملازمت اختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح ایٹمی توانائی کے محکمے میں اور جنگی حکمت عملی کے تحقیقی ادارے میں بھی کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر اس کے ذمہ کوئی ایسا عمل سپردکیا جائے جس میں کسی بھی ملک یا شہر کے عام مسلمانوں کو ضرر لاحق ہوتا ہو، تو اس عمل سے اجتناب کرنا اور اس معاملے میں ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا واجب ہے، چاہے اس اجتناب کے لئے اس کو اپنی ملازمت سے استعفاء ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ واللہ اعلم۔

مسلمان انجینئر کے لئے عیسائیوں کے عبادت خانے کا ڈیزائن اور نقشہ تیارکرنا:

مسلمان انجینئر کے لئے عیسائیوں کے عبادت خانے کا ڈیزائن اور نقشہ تیارکرنا:

سوال: اگرکوئی مسلمان انجینئر کسی کمپنی میں ملازم ہو، جہاں اس کومختلف عمارتوں کی تعمیر کے لئے نقشے تیارکرنے کا کام سپرد ہو جس میں نصاریٰ کے چرچ اور عبادت گاہ کے لئے نقشے تیارکرنے کا کام بھی شامل ہے۔ اور چرچ وغیرہ کے نقشے بنانے سے انکار کی صورت میں اسے ملازمت چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو کیا اس مسلمان انجینئر کے لئے نصاریٰ کی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لئے نقشے تیارکرناجائز ہے؟
جواب: مسلمان انجینئر کے لئے کافروں کی عبادتگاہوں کے نقشے اورڈیزائن تیارکرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
”وتعاونواعلی البروالتقویٰ ولاتعاونواعلی الاثم والعدوان“
”اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔“ (سورہ المائدہ: ۲)
چرچ کے لئے چندہ دینا:

چرچ کے لئے چندہ دینا:

سوال: کیاکسی مسلمان کے لئے یاکسی مسلم بورڈ کے لئے عیسائیوں کے تعلیمی ادارے مشنری ادارے یا چرچ میں چندہ دینا جائز ہے؟

جواب: کسی مسلمان کے لئے چاہے وہ کوئی فرد ہو یا جماعت، عیسائی اداروں یا چرچ میں چندہ دینا یا تعاون کرنا ہرگز جائز نہیں۔

شوہر کی حرام آمدنی کی صورت میں بیوی بچوں کے لئے حکم

شوہر کی حرام آمدنی کی صورت میں بیوی بچوں کے لئے حکم

سوال: بہت سے مسلمان خاندان ایسے ہیں جن کے مرد شراب اورخنزیر وغیرہ جیسی حرام چیزوں کا کاروبارکرتے ہیں، ان کے بیوی بچے اگرچہ ان کے اس کاروبار کو ناپسندکرتے ہیں، لیکن ان کی پرورش بھی اسی آمدنی سے ہورہی ہے۔ کیا اس صورت میں ان کے بیوی بچے گناہ گار ہونگے؟

جواب: ایسی صورت میں ان شوہروں کی بیویوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے شوہروں سے شراب اور خنزیر کے کاروبار کو چھڑانے کی پوری سعی اور کوشش کریں، لیکن اس کوشش کے باوجود اگر وہ اس کاروبار کو نہ چھوڑیں تو پھر اگر ان بیویوں کے لئے جائز طریقے سے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن ہو تو اس صورت میں ان کے لئے اپنے شوہروں کے مال میں سے کھانا جائز نہیں۔ لیکن اگر ان کے لئے اپنے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ان کے لئے اپنے شوہروں کے مال سے کھانا جائز ہے۔ اور حرام کھانے کا گناہ ان کے شوہروں پر ہوگا۔ نابالغ اورچھوٹے بچوں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ اور حرام کھلانے کا گناہ باپ پر ہوگا۔ البتہ بالغ اور بڑی اولاد خود کماکر کھائیں۔ باپ کے مال سے نہ کھائیں۔

اور ان حالات میں بیوی کے لئے حرام مال کھانے کے جواز کی بعض فقہاء نے تصریح بھی فرمائی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔

”اشتری الزوج طعاماً اوکسوۃ من مال خبیث جازللمراۃ اکلہ ولیسھا، والاثم علی الزوج“

”اگر شوہر کھانا یالباس مال حرام سے خرید کرلے آئے۔ تو عورت کے لئے اس کھانا اور پہنناجائز ہے اور اس فعل کا گناہ شوہر کو ہوگا۔“

(شامی: ج۶ص۱۹۱۔ایچ۔ایم سعید)

بینک کے توسط سے جائیداد وغیرہ خریدنا:

بینک کے توسط سے جائیداد وغیرہ خریدنا:

سوال: رہائشی مکان، گاڑی اور گھر کا دوسرا سازوسامان بینکوں اور مالیاتی اداروں کے توسط سے خریدنے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ بینک اور مالیاتی ادارے ان چیزوں کو رہن رکھ کر قرض دیتے ہیں۔ اور اس قرض پر معین شرح سے سود وصول کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ معاملے کے بدل کے طورپر جو صورت ممکن ہے۔ وہ یہ ہے کہ ماہانہ کرایوں پر ان چیزوں کو حاصل کرلیا جائے۔ لیکن ماہانہ کرایہ عموماً بیع کی ان قسطوں سے زیادہ ہوتا ہے جو مندرجہ بالا پہلی صورت میں بینک وصول کرتے ہیں:

جواب: مندرجہ بالامعاملہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔ البتہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سودی معاملہ کے مقابلے میں شریعت اسلامیہ کے موافق دوسرے جائز طریقے اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ مثلاً یہ کہ بینک اس معاملے میں بذات خود قسطوں پر فروخت کرے، یعنی بینک اصل بائع سے پہلے خود خریدلے۔ اور پھر مناسب نفع کا اضافہ کرکے گاہک کو فروخت کردے اور پھر قسطوں میں اس کی قیمت وصول کرے۔

(واللہ اعلم)

Book Options

Author: Shaykh al-Islam Mufti Muhammad Taqi Usmani Hafizullah

Leave A Reply