اللہ رب العالمین کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں تراویح میں ختم قرآن کی توفیق بخشی ہے۔ ختم قرآن کا موقع قبولیتِ دعا کا خاص وقت ہوتا ہے

کتاب کا نام: ماہ رمضان بخشش کا ذریعہ

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

ماہ رمضان بخشش کا ذریعہ

مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ
بیت   العلوم
۰۲۔ نابھہ روڈ، پرانی انارکلی، لاہور۔ فون ۳۸۴۲۵۳۷
(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

موضوع : ماہ رمضان بخشش کا ذریعہ

خطاب : حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ
ضبط و تحریر : مولانا اعجاز احمد صمدانی (فاضل جامع دارالعلوم کراچی)
مقام : جامع العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی
تاریخ : ۹۲ رمضان مبارک ۳۲۴۱ ھ
با ہتمام : محمد ناظم اشرف
ناشر : بیت العلوم ۰۲۔ نابھہ روڈ، پرانی انارکلی، لاہور۔
فون ۳۸۴۲۵۳۷

(ملنے کے پتے)

بیت العلوم:   ۰۲۔ نابھہ روڈ، پرانی انارکلی، لاہور۔بیت الکتب:   گلشن اقبال کراچی

ادارہ اسلامیات:   ۰۹۱  انار کلی، لاہورادارۃ المعارف:   ڈاک خانہ دارالعلوم کورنگی، کراچی نمبر ۴۱
ادارہ اسلامیات:   موہن روڈ چوک اردو بازار، کراچیمکتبہ دارالعلوم:   جامعہ  دارالعلوم کورنگی، کراچی نمبر ۴۱
دار الاشاعت:    اردو بازار، کراچی نمبر ۱مکتبہ سید احمد خان:   الکریم مارکیٹ،  اردو بازار، لاہور
بیت القرآن:    اردو بازار، کراچی نمبر۱مکتبہ رحمانیہ:   غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور

(ماہ رمضان بخشش کا ذریعہ)

  خطبہ مسنونہ

  قبولیتِ دعا کے خاص اوقات

  آج کی رات بہت اہم ہے

  رجب کا چاند دیکھنے پر دعا

  رمضان المبارک …….. بخشش کا بہانہ

  روزہ افطار کرانے کی فضیلت

  عشرہئ اخیرہ کے اعتکاف کی فضیلت

  لیلتہ القدر کیوں دی گئی؟

  قرآن مجید کی ایک غیر معمولی فضیلت

  ایک حرف کے بدلے سو نیکیاں

  کیسا بدبخت ہے وہ انسان جس کی رمضان المبارک میں بھی بخشش نہ ہوئی!

  چار قسم کے آدمی جن کی لیلتہ القدر میں بخشش نہیں ہوتی

  والدین رمضان المبارک سے بھی بڑا بخشش کا ذریعہ ہیں

  صلہ رحمی نہ کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی

  قطع رحمی کا مرض کینسر کی طرح پھیل چکا ہے

  میدانِ حساب میں سب تکبر نکل جائے گا

  قطع رحمی کی ایک شدید وعید

  مایوسی کی بات نہیں

  آسان راستہ

  معافی مانگنے سے عزت بڑھے گی

  کچھ نہ کچھ غلطی آپ کی بھی ہو گی

  کینہ رکھنے کی وعید

  وہ لوگ جنہیں روزے سے بھوکے رہنے کے سوا کچھ نہیں ملتا

  صدقِ دل سے توبہ کریں

خطبہئ مسنونہ

خطبہئ مسنونہ:

الحمد اللّٰہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ و نشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا و مولانا محمدا عبدہ و رسولہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم کثیراً کثیرا۔
اما بعد!
(فاعوذ با للّٰہ من الشیطان ا لرجیم۔ بسم ا للّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مثْقَال ذَرَّۃِ ِ خَیْرُا یَّرَہٰ۔ ومَنْ یَّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّۃِ ِ شَرَا یَّرَہ‘۔)
(سورۃ الزلزال)

بزرگانِ محترم، برادرانِ عزیز، محترم خواتین اور میری ماؤں، بہنو اور بیٹیو!

قبولیتِ دعا کے خاص اوقات

قبولیتِ دعا کے خاص اوقات:

اللہ رب العالمین کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں تراویح میں ختم قرآن کی توفیق بخشی ہے۔ ختم قرآن کا موقع قبولیتِ دعا کا خاص وقت ہوتا ہے بلکہ رمضان المبارک کی ہر رات دعاؤں کی قبولیت کے لئے خاص ہے۔ رمضان کی ہر رات میں مغرب سے لے کر سحری کا وقت ختم ہونے تک اللہ رب العالمین کا ایک منادی پکار پکار کر اعلان کرتا ہے۔

“ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اُسے معاف کردوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اُسے رزق عطا کردوں،

ہے کوئی مصیبت اور پریشانیوں میں گرفتار عافیت مانگنے والا کہ میں اُسے عافیت عطا کردوں “۔

(کنز العمال رقم الحدیث: ۵۰۷۳۲)

-یہ ندا اس مالک کی طرف سے ہوتی ہے جو مالک الملک ہے۔ کائنات کا خالق ہے۔ جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں

آج کی رات بہت اہم ہے

آج کی رات بہت اہم ہے:

ہر رات یہ اعلان ہوتا ہے۔ پھر عشرہئ اخیرہ کی طاق راتوں میں اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر رکھی۔ اس عشرہ کی ہر طاق رات میں یہ امکان ہو تا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہو۔ آج کی رات بھی طاق رات ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ختم قرآن کی توفیق بخشی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لیلۃ القدر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کی بھی آخری رات ہو کہ کل شام کو عید کا چاند نظر آ جائے(۱)۔

کچھ معلوم نہیں کہ اگلا رمضان ہم میں سے کس کے مقدر میں ہے اور کس کے مقدر میں نہیں۔ پچھلے رمضان میں ہمارے کتنے ساتھی، رشتہ دار، دوست، عزیز احباب روزوں اور تراویح میں ہمارے ساتھ تھے لیکن آج وہ ہم سے رخصت ہو کر اپنی منزل پر جا چکے ہیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ اگلے سال ہم میں سے کون وہاں جا چکا ہوگا۔ اس لئے آج کی رات ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ اللہ رب العزت سے خوب مانگنے اور ان کے آگے گڑگڑانے کی رات ہے۔

رجب کا چاند دیکھنے پر دعا

رجب کا چاند دیکھنے پر دعا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجب کا چاند دیکھ کر یہ دعا فرماتے تھے:

(اللّٰھم  بَارِکْ  لَنَا  فِی  رَجَبَ  وَ  شَعْبَانَ  وَ  بَلِّغنا  اِلٰی  رَمَضَان)   (مشکوٰۃ)

    ” ائے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرمائیے

اور ہمیں رمضان تک پہنچا دیجئے۔”

”  رمضان تک پہنچا دیجئے” کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں رمضان المبارک تک زندہ رکھیئے۔

یہ دعا  مانگتے تھے سید الاولین و الآخرینﷺ جو سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولیں گے۔ جن کو خبر دے دی گئی کہ آپﷺ کی شفاعت کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جائے گا۔ شافع محشر اور صاحب مقام محمود۔ وہ بھی اپنے آپ کو رمضان کی لیل و نہار کا محتاج سمجھتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے کہ یا اللہ!

جب آپ نے ہمیں رجب تک پہنچا دیا تو ہماری یہ دعا ہے کہ ہمیں رمضان تک بھی پہنچا دیجئے۔ توکچھ تو بات ہوئی رمضان میں!

رمضان المبارک......  بخشش کا بہانہ

رمضان المبارک……  بخشش کا بہانہ:

آیاتِ قرآنیہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی بخشش کے لئے بہانہ بنایا گیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ وعدہ کر دیا تھا کہ:

(وَ لَسَوْفَ  یُعْطیْکَ  رَبُّکَ  فَتَرْضٰی)  (سورۃ الضحیٰ)

” ضرور دے گا آپ کو آپ کا رب کہ آپ خوش ہو جائیں گے”۔

اور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم جب سراپا رحمت بن کر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کے لئے ایسی رحمت تھے کہ راتوں کو جاگ کر رو رو کر اور بلک بلک کر امت کے لئے اللہ رب العالمین سے دعائیں مانگتے تھے۔ تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس حال میں راضی ہو جائیں گے جبکہ آپ ﷺ کا ایک امتی بھی جہنم میں ہو گا، بلکہ جب تک آخری امتی کو بھی جہنم سے نہیں نکلوالیں گے، اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے۔

(۱) حضرت مدظلہم نے یہ بیان ۹۲ رمضان المبارک کو فرمایا تھا۔

چونکہ اللہ رب العالمین کو اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنا ہے اور آپ ﷺ اس وقت راضی ہوں گے جب آپ ﷺ کی ساری امت جنت میں چلی جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کو اللہ رب العزت نے مغفرت اور بخشش کا بہانہ بنایا ہے۔  اس میں بخشش کے کیسے کیسے وعدے کیے گئے! فرمایا کہ جس شخص نے رمضان کے روزے رکھ لئے، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف، جس نے رمضان کی تراویح پوری پڑھ لیں، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف(۱)۔ جس نے لیلۃ القدر میں عبادت کر لی، اس کے پچھلے سارے گناہ معاف، اور اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ہے۔ ایک ہزار مہینوں کے تقریباً تراسی سال بنتے ہیں اور آج کل کے لوگوں کی عمریں شاذ و نادر ہی ۳۸ سال ہوتی ہیں۔ عام طور پر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان رخصت ہو جاتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شخص کو لیلۃ القدر میں عبادت کرنے کا موقع مل جائے تو گویا اس نے پوری عمر بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ عبادت کر لی۔ یہ سب انعامات دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ اللہ کی طرف سے بخشش کا بہانہ ہی ہے۔ چناچہ رمضان المبارک میں اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے فضائل رکھے گئے۔

روزہ افطار کرانے کی فضیلت

روزہ افطار کرانے کی فضیلت:

سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی کا روزہ افطار کرادے تو اس کے سارے گناہ معاف۔ اور پھر یہ بھی کہ افطار کرنے والے کو تو اس کے روزے کا ثواب ملے گا ہی، افطار کرانے والے کو بھی ایک روزے کا ثواب دیا جائے گا۔ اور رمضان میں ایک روزے کا ثواب ستر روزوں کے برابر ہوتا ہے۔ ایک روپے کے صدقے کا ثواب ستر روپے صدقہ کے برابر ہوتا ہے۔ فجر کی ایک نماز پڑھی تو فجر کی ستر نمازیں پڑھنے کا ثواب۔ غرض یہ کہ ہر عمل کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔

روزہ افطار کرانے کی اتنی بڑی فضیلت سن کر صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا کہ شاید اتنا بڑا ثواب اس صورت میں ملے گا جب پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے۔ اس لئے انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سے ہر ایک کے اندر تو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ تو یہ ثواب اس کو بھی دیتے ہیں جو پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرا دے۔

عشرہئ اخیرہ کے اعتکاف کی فضیلت

عشرہئ اخیرہ کے اعتکاف کی فضیلت:

ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ جس نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کر لیا، اُسے دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملے گا۔ سال بھر میں آدمی صرف ایک ہی حج کر سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں اور یہاں دس دن میں دو حج کا ثواب مل جاتا ہے اور مزید دو عمرے بھی ساتھ ہیں۔ یہ سب کچھ مغفرت کا بہانہ نہیں تو اور کیا ہے؟
لیلۃ القدر کیوں دی گئی؟

لیلۃ القدر کیوں دی گئی؟

لیلۃ القدر بھی اسی طرح کا ایک بہانہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کے سامنے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر فرمایا کہ وہ دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو عبادت کرتا تھا۔ اسی حال میں ہزار مہینے گزارے۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ کے دل میں حسرت ہوئی کہ پچھلی امتوں کے لوگ تو آگے نکل

(۱)  پوری  حدیث  کے  الفاظ  یہ  ہیں :  عن  ابی  ھریرہ  قال،  قال  رسول  اللّٰہ  صلی  اللّٰہ  علیہ  وسلم  من  صام  رمضان  ایماناً  و  احتساباً   غُفرلہ‘  ما  تقدّم  من   ذنبہ  و  من  قام  لیلۃ  القدر  ایماناً  و  احتساباً   غُفرلہ‘  ما  تقدّم  من  ذنبہ  (متفق علیہ)  یہاں  پر ” رمضان  میں  کھڑا  ہونے” سے  مراد  یہ  ہے  کہ  رمضان  کی  راتوں  میں  تراویح  پڑھے   (کذافی مظاہر حق ۲/۵۹۲)

گئے، ہم اگر پوری عمر بھی عبادت میں لگا دیں تو ان کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ دو عالم سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے

” سورۃ القدر” نازل فرما دی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اپنی امت کے بارے میں کوئی حسرت نہ رہے اور امت کا دل بھی یہ سن کر خوش ہو کہ لیلۃ القدر تو  ایک ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے۔

اس لئے اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں رمضان المبارک عطا فرمایا، روزے رکھنے کی توفیق دی اور تراویح کے اندر قرآن مجید سننے اور پڑھنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائی۔

قرآن مجید کی ایک غیر معمولی فضیلت

قرآن مجید کی ایک غیر معمولی فضیلت:

قرآن مجید کا حال یہ ہے کہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ شریعت کا عام قانون تو یہ ہے کہ جو شخص نیکی کرے گا اس کا ثواب دس گنا لکھا جاتا ہے۔

مثلاً ایک روپیہ صدقہ کیا تو لکھے جائیں گے دس روپے، ایک ہزار صدقہ کیا تو لکھے جائیں گے دس ہزار، دو رکعتیں پڑھی تو لکھی جائیں گی بیس رکعتیں۔

قرآن مجید میں ہے:

(مَن  جَاءَ  بِالْحَسنَۃِ  فَلَہ‘  عَشْرُ  اَمْثَالِھَا)   (اعراف: ۰۶۱)

” جو کوئی (خدا کے حضور نیکی لے کر آئے گا، اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی”۔

ظاہر ہے یہ قانون اس صورت میں ہے کہ جب کوئی نیکی پوری ہو جائے مثلاً دو رکعتیں پوری ہو گئیں تو وہ بیس رکعت کے برابر ہوں گی، اگر درمیان میں سے نماز توڑ دی تو ظاہر ہے کہ اس پر یہ ثواب نہیں ملے گا۔ لیکن قرآن مجید کے معاملے میں حیرت انگیز آسانی فرمادی۔ وہ یہ کہ قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ قران مجید کی تلاوت میں عمل اس وقت پورا ہو گا جب ایک آیت پوری ہو گی یا کم از کم ایک لفظ پورا ہو جائے گا۔ مثلاً کوئی شخص کہتا ہے ” قُل یا ایھا الکافرون” تو  یہ  عمل  اس  وقت  مکمل  ہوتا  جب  پوری  آیت  پڑھ  لیتا  یا  کم از کم ”  قل” کہنے  پر  عمل  مکمل  ہوتا۔  لیکن  فرمایا  گیا  کہ  نہیں، قرآن  مجید  اس  قانون  میں  اور  زیادہ  آگے  ہے،  وہ   یہ  کہ  ابھی  عمل  پورا  نہیں  ہوا،  قل  کا  صرف  ” ق”  پڑھا  تو  بھی  دس  نیکیاں  ہو گئیں۔  اس  کے  بعد  جب”لام” پڑھا تو دس نیکیاں اور مل گئیں۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

(لَا اَقُوْلُ الٓمْ حَرْفُٗ، لٰکِنْ، اَلِفُٗ حَرْفُٗ وَ لَامُٗ حَرْفُٗ وَ مِیْمُٗ حَرْفُٗ) (مشکوٰۃ)

” میں یہ نہیں کہتا کہ پورا “الم”ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے”۔

ایک حرف کے بدلے سو نیکیاں.......

ایک حرف کے بدلے سو نیکیاں…….!

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ایک حرف پر دس نیکیاں تو اس صورت میں ملتی ہیں کہ جب آدمی قرآن شریف بغیر وضو کے پڑھے۔ (بغیر وضو کے قرآن شریف کو چھونا تو جائز نہیں لیکن پڑھنا جائز ہے) لیکن اگر وضو کی حالت میں قرآن مجید پڑھے گا تو ایک ایک حرف پر پچیس نیکیاں اور اگر نفل نماز میں بیٹھ کر پڑھے گا تو ایک ایک حرف پر پچاس نیکیاں اور اگر کھڑے ہو کر پڑھے گا تو سو نیکیاں۔ جب نفلوں کا یہ حال تو فرض نمازوں کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔
کیسا بدبخت ہے وہ انسان جس کی رمضان المبارک میں بھی بخشش نہ ہوئی

کیسا بدبخت ہے وہ انسان جس کی رمضان المبارک میں بھی بخشش نہ ہوئی!

ان انعامات اور خوشخبریوں کے ساتھ ساتھ ایک چیز ایسی بھی ہے جو بہت فکر میں ڈالنے والی ہے۔ دانشمندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بھی نظر کی جائے۔ وہ یہ کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(رَغِمَ  اَنْفُ  رَجُلً  أَ تیٰ  عَلَیْہِ  رَمَضَانُ  ثُمَّ  انْسَلَخَ  قَبْلَ  اَنْ  یُغْفَر لَہ‘)  (ترمذی رقم الحدیث ۵۴۵۳، مسند احمد بن حنبل: ۲/۴۵۲)

“ذلیل و رسوا ہو جائے وہ شخص جس پر رمضان آیا اور چلا گیا، اس نے اپنی مغفرت نہ کرائی”۔

اس حدیث میں اس ذات نے بدعا فرمائی ہے جس نے دشمنوں کی گالیاں سن کر بھی کبھی انہیں بد دعا نہیں دی تھی، خود رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کے لئے بددعا فرمائی، اندازہ کیجئے وہ کیسا بدبخت انسان ہوگا۔

اس کا جرم یہ ہے کہ اس پر پورا رمضان المبارک گزر گیا لیکن اس نے اپنی مغفرت نہ کرائی۔ اس کے لئے اتنی سخت وعید کیوں؟ اس لئے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کے اتنے راستے کھول رکھے تھے کہ وہ اگر ذرا سی کوشش اور ہمت کر لیتا تو اس کی مغفرت ہو جاتی لیکن یہ اس کی بدبختی کہ رمضان کے دن اور رات گزر گئے لیکن اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا جس سے اس کی بخشش ہوتی۔

چار قسم کے آدمی جن کی لیلۃ القدر میں بخشش نہیں ہوتی

چار قسم کے آدمی جن کی لیلۃ القدر میں بخشش نہیں ہوتی:

اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا کہ لیلۃ القدر میں جبرئیل امین فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں اور جو شخص بھی عبادت کر رہا ہوتا ہے، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر، اس کے لئے دعا فرماتے ہیں۔ جب واپس جانے لگتے ہیں تو ملائکہ جبرئیل امین سے پوچھتے ہیں کہ یہ بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا دیا؟ جبرئیل امین فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ انعام کیا کہ انہیں بخش دیا، سوائے چار آدمیوں کے۔

گویا یہ چار قسم کے بدبخت آدمی وہ ہیں کہ لیلۃ القدر میں بھی ان کی بخشش نہیں ہوئی۔ یہ سن کر صحابہ کرامؓ ڈر گئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلا وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ جو اپنے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا ہو، (بدسلوکی میں یہ بھی داخل ہے کہ ماں باپ کے سامنے بلند آواز سے بولے)۔

والدین رمضان المبارک سے بھی بڑا بخشش کا ذریعہ ہیں

والدین رمضان المبارک سے بھی بڑا بخشش کا ذریعہ ہیں:

والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ سے بھی یہ بددعا فرمائی کہ ذلیل و رسوا ہوا وہ شخص جس کو ماں باپ کا بڑھاپا ملا، پھر بھی اُس نے بخشش نہ کروائی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو بخشش کا ایسا ذریعہ بنایا تھا کہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک سے بھی زیادہ بخشش کا ذریعہ ماں باپ ہیں کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ ماں باپ کو ایک مرتبہ محبت کی نظر سے دیکھنے پر حج کا ثواب  ملتا ہے۔ اعتکاف میں تو دس دن میں بیٹھنے سے دو حج کا ثواب ملتا ہے جبکہ یہاں ایک نظر پر ایک حج کا ثواب مل رہا ہے۔ دن میں سو مرتبہ دیکھے تو سو حج کا ثواب ملے گا۔

ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے “ماں باپ تمھارے لئے جنت کا دروازہ ہیں “۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ “ماں باپ تمہارے لئے جنت بھی ہیں، دوزخ بھی ہیں “۔ مراد یہ کہ اگر ان کی خدمت کرکے انہیں بخشش کا ذریعہ بنا لو گے تو جنت مل جائے گی۔ اگر نہیں بناؤ گے تو جہنم ٹھکانہ ہو گا۔

صلہ رحمی نہ کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی

صلہ رحمی نہ کرنے والے کی بھی بخشش نہیں ہوتی:

pdiv>تیسرا شخص جس کی اس رات میں بخشش نہیں ہوگی وہ یہ کہ جو رشتے داروں کے ساتھ تعلقات کو کاٹتاہے۔

صلہ رحمی شریعت کا ایسا ہی فریضہ ہے جس طرح نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ صلہ رحمی کیا ہے؟ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اچھے سلوک میں یہ داخل ہے کہ ان سے ملنے کے لئے جائیں۔ اگر وہ تمہارے پاس آئیں تو ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا۔ اگر انہیں کوئی پریشانی ہو تو ان کی مدد کرو، بیمار ہوں تو عیادت کرو، ان کی کوئی خوشی ہے تو اس خوشی میں شریک ہو جاؤ۔ انہیں خوش کرنے کے لئے کبھی کبھی کوئی تحفہ دے دو یا کوئی ایسی بات کر دو جس سے وہ خوش ہو جائیں۔

جس طرح نماز چھوڑنا حرام ہے، اسی طرح رشتے داروں سے تعلق کو توڑنا بھی حرام ہے، گناہ کبیرہ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( لَا  یَدْخُلُ  الْجَنَّۃَ  قَاطِعُٗ )  (مشکوٰۃ)
“قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا”۔
قطع رحمی کا مرض کینسر کی طرح پھیل چکا ہے

قطع رحمی کا مرض کینسر کی طرح پھیل چکا ہے:

آج ہمارے معاشرے میں یہ بیماری کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ہمارے دین اور دنیا کو برباد کر رہی ہے۔ “میاں! میں تو اس سے بات بھی نہیں کرتا، فلاں میرا بھانجا ہے، فلاں بھتیجا ہے، فلاں میرا بھائی ہے، فلاں میری بہن ہے لیکن میں اُس کے گھر قدم بھی نہیں رکھوں گا”۔ قدم نہیں رکھے گا اور بات نہیں کرے گا تو اپنا ہی بگاڑے گا، کسی دوسرے کا کیا بگاڑے گا؟ جب تک اپنی “انا”کو نہیں توڑو گے، جنت کا راستہ نہیں کھلے گا۔ رشتے دار خواہ بدکار ہو، گنہگار ہو، فاسق و فاجر ہو پھر بھی اس کا حق ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے۔ رشتہ دار کے ساتھ زیادہ آنا جانا رکھنا بھی مناسب نہیں تاہم اس سے بائیکاٹ کرنا، بالکل بات چیت نہ کرنا، سلام و کلام چھوڑنا اور قدرت کے باوجود تکلیف کے وقت ان کی مدد نہ کرنا یہ سب قطع رحمی ہے جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔
میدانِ حساب میں سب تکبر نکل جائے گا

میدانِ حساب میں سب تکبر نکل جائے گا:

یہ سب انانیت اور غرور و تکبر اس وقت نکل جائے گا جب آخرت میں میدان حساب میں پہنچیں گے۔ ایک مرتبہ تاجدار ِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میدان حساب میں آپ ہمارا بھی خیال رکھیں گے؟ غور کیجئے کہ پوچھنے والی چہیتی بیوی، صدیق اکبر کی صاحبزادی اور خود صدیقیت کے مرتبے پر فائز اور جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ رحمتِ عالم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ آخرت کے میدانِ حساب میں تین موقع ایسے ہوں گے کہ وہاں کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہوگا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔

ایک وقت وہ جب اعمال کا وزن ہو رہا ہوگا۔ جب تک نیکیوں کا پلڑا نہ جھک جائے۔ اس وقت تک کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ دوسرا وقت وہ جب اعمالنامے اُڑ کر لوگوں کے پاس آئیں گے تو جب تک اعمالنامہ دائیں ہاتھ میں نہ مل جائے اس وقت تک کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا، اور تیسرا وہ وقت جب پل صراط سے گزر ہوگا، اس وقت بھی کسی کو کسی کا ہوش نہ ہوگا۔

قطع رحمی کی ایک شدید وعید

قطع رحمی کی ایک شدید وعید:

پل صراط جہنم پر بچھایا گیا ایسا پل ہے جس کی مسافت پانچ سو برس کے برابر ہے۔ اس پر سے بہت سے لوگ اس طرح گزر جائیں گے جس طرح بجلی کا کرنٹ گزرتا ہے۔ اور بہت سے لوگ اس طرح گزریں گے جس طرح پرندے اُڑ کر گزرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس طرح گزریں گے جس طرح تیز رفتار سواری گزرتی ہے۔ اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے ان کی رفتاریں ہوں گی۔ فرمایاکہ جہنم میں کلاہیب (آنکڑے) ہوں گے جو پل صراط کے ارد گرد کھڑے ہوں گے اور جس جس نے رشتہ داروں کا حق مارا ہو گا، وہ اُنہیں اُچک اُچک کر جہنم میں ڈال دیں گے۔ یہ کتنے خطرے کی بات ہے۔ رشتہ داروں کا کتنا حق ہے
مایوسی کی بات نہیں

مایوسی کی بات نہیں:

الحمد للہ، ہم نے بشارتوں کی بہت سی حدیثیں سنی اور پڑھی ہیں اور بلاشبہ وہ بالکل حق ہیں لیکن یہ حدیثیں بھی ہیں۔ ابھی توبہ کا موقع ہے۔

مایوسی کی بات نہیں اور ابھی رمضان المبارک کے ختم ہونے میں تقریباً چوبیس گھنٹے باقی ہیں، اور توبہ کے لئے ایک منٹ بھی کافی ہوتا ہے۔ ابھی وقت ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج کی رات رمضان المبارک کی آخری رات ہو بلکہ ممکن ہے کہ ہماری زندگی کے رمضان کی بھی آخری رات ہو۔

آسان راستہ

آسان راستہ:

اگر کسی رشتہ دار سے رنجش ہے، آنا جانا بند ہے، قطع تعلق کر رکھا ہے تو اس کے پاس چلے جائیں، نہیں جا سکتے تو ٹیلی فون کرلیں یا فیکس کر لیں یا موبائل سے فون کرلیں وغیرہ۔ اور میں آپ کو اس کام کے کرنے کا آسان راستہ بتاتا ہوں۔ اگر یہ بحث کرنا چاہو کہ غلطی کس کی تھی؟ تو یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ آسان معاملہ یہ ہے کہ آپ یوں کہیں کہ دیکھو بھئی، ہمارے اور تمہارے تعلقات خراب رہے۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیثیں معلوم ہوئی ہیں (اور پھر وہ حدیثیں سنا دو جو اُوپر بیان ہوئی) اپنے آپ کو آگ سے بچانے کے لئے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ مجھ سے جو غلطی ہوئی ہو، وہ معاف کر دو اور اگر تجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے  تو وہ میں نے معاف کردی۔ میں نے بھی اللہ کے لئے معاف کیا تم بھی اللہ کے لئے معاف کر دو۔تاکہ میری بھی بخشش ہو جائے اور آپ کی بھی بخشش ہو جائے اور اگر وہ کہے کہ میں معاف نہیں کرتا، تب بھی آپ کہہ دیں کہ میں نے معاف کردیا۔
معافی مانگنے سے عزت بڑھے گی

معافی مانگنے سے عزت بڑھے گی:

اور یاد رکھیئے، معافی مانگنے سے عزت خراب نہیں ہو گی بلکہ عزت بڑھے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( مَنْ  تَواضَعَ  لِلّٰہِ  رَفعہُ  اللّٰہ )   (مسند احمد بن حنبل :  ۳/۶۷)
“جو اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسے عزت دیتا ہے “۔

اس لئے اگر آپ اللہ کو راضی کرنے کے لئے اپنے رشتے داروں سے معافی مانگیں گے تو اس سے انشاء اللہ، آپ کی عزت

میں اضافہ ہوگا۔
کچھ نہ کچھ غلطی آپ کی بھی ضرور ہو گی

کچھ نہ کچھ غلطی آپ کی بھی ضرور ہو گی!

اور یاد رکھیئے کہ یہ ہرگز نہ سوچیں کہ ساری غلطی تو اس کی ہے، میں کیوں معافی مانگوں؟ کچھ نہ کچھ غلطی آپ کی بھی ضرور ہوگی، تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی غلطیاں زیادہ ہوں، تمہاری کم ہوں تو تمہاری ان تھوڑی سی غلطیوں کی وجہ سے تمہاری گردن پکڑی جا سکتی ہے۔
اس سے تو اپنے آپ کو بچاؤ۔
کینہ رکھنے کی وعید

کینہ رکھنے کی وعید:

چوتھا شخص جس کی لیلۃ القدر میں بخشش نہیں ہوتی وہ ہے جو کسی سے کینہ رکھتا ہو۔ بعض لوگوں کے دلوں میں کسی کے خلاف کینہ ہوتا ہے اور دل میں چاہتے ہیں کہ وہ ذلیل و رسوا ہو، اسے جوتے پڑیں تاکہ ہمارا دل خوش ہو جائے۔ ایسے شخص کی بھی لیلۃ القدر میں بخشش نہیں ہوتی۔ جب لیلۃ القدر میں بخشش نہیں  ہوتی تو باقی رمضان المبارک میں کیسے ہو گی!
وہ لوگ جنہیں روزے سے بھوکے رہنے کے سوا کچھ نہیں ملتا

وہ لوگ جنہیں روزے سے بھوکے رہنے کے سوا کچھ نہیں ملتا:

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

( رُبُّ  صَاءِمٍ  لَیْسَ  لَہ‘  مِنْ  صِیَامٍ  اِلَّا  الْجُوْعُ  وَ  رُبَّ  قَاءِمٍ  لَیْسَ  لہ‘  فِی  الْقِیَامِ  اِلَّا  السَّھْرُ )  (ابن ماجہ  و نسائی)

“بعض روزے دار ایسے ہیں کہ انہیں روزے سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بعض راتوں کو کھڑے

ہو کر عبادت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں سوائے جاگنے کے کچھ نہیں ملتا”۔

علماء نے لکھا ہے کہ جنہیں روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں  ملتا۔ وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں لیکن افطار حرام مال سے کرتے ہیں۔

رشوت کا مال ہے، چھینا ہوا مال ہے، ڈاکے کا مال ہے، بھتے کا وصول کیا ہوا ہے، سود کا پیسہ ہے، سودی کام کی تنخواہ کا پیسہ ہے۔ جو لوگ سود کے معاملات لکھتے ہیں ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

( لَعَنَ  اللّٰہُ  اٰکِلَ  الربوٰا  و مُو  کِلَہ‘  و کَاتِبَہ‘  وَ  شَاھِدَیْہِ )   (مسلم)

     “اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے، سود کا معاملہ رکھنے والے پر اور سود کے معاملے پر گواہ بننے والے پر بھی”۔

لہٰذا جو شخص بینکوں کے اندر سودی کام کر رہا ہے، وہ حرام کام کر رہا ہے اور اُسے جو تنخواہ مل رہی ہے، وہ بھی حرام مل رہی ہے۔ بعض لوگ  کہا کرتے ہیں کہ صاحب! ہم تو محنت کر کے تنخواہ لیتے ہیں، مفت میں تو نہیں لے رہے۔ میں ان کو جواب دیا کرتا ہوں کہ فاحشہ عورت جو پیسے کماتی ہے، وہ بھی تو محنت کرکے کماتی ہے۔

یاد رکھئے کہ ہر محنت کی کمائی حلال نہیں ہے۔ سود کی کمائی ایسی ہی حرام ہے جیسے سور کا گوشت حرام ہے۔

سود کے علاوہ ہمارے ہاں حرام کمائی کے اور بہت سے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ تجارت میں دو نمبر مال چل رہا ہے، ناپ تول میں کمی، دھوکہ بازی، جھوٹ بول کر چیزیں فروخت کرنا اور کام چوری (تنخواہ پوری لے لینا اور ڈیوٹی پوری نہ دینا) یہ سب حرام ہے۔

اور ایک تفسیر علماء نے یہ کی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان المبارک میں روزہ رکھتے ہیں اور غیبت نہیں چھوڑتے۔ تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ روزہ بھی رکھا، محنت بھی کی لیکن حصے میں کچھ نہ آیا، راتوں کو جاگے بھی لیکن حصے میں کچھ نہ آیا۔

صدقِ دل سے توبہ کریں

صدقِ دل سے توبہ کریں:

اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں میں نہ کریں۔ توبہ کا موقع ہے، خوب گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں۔ اگر کوئی شخص اِن میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہے تووہ صدقِ دل سے توبہ کرے، انشاء اللہ نوازا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ  ہمیں  ان  باتوں  پر  عمل  کرنے  کی  توفیق  عطا  فرمائیں۔

و آخر  دَعْوٰنَا  اَن  الحمد للّٰہ رب  العالمین
٭٭٭٭٭

Book Options

Author: مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ

Leave A Reply