بوقتِ ولادت نماز معاف نہیں
ذرا ایک اور مسئلے سے نماز کی اہمیت سمجھ لیں مسئلہ یہ ہے کہ کسی عورت کو بچہ پیدا ہورہا ہے تو ایسے نازک وقت میں جبکہ وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اگر آدھا بچہ باہر آچکا اور آدھا ابھی اندر ہے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو اسی حال میں نماز فرض ہے۔اگر نماز کا وقت نکلنے سے پہلے بچہ پیدا ہوگیا پھر تو نفاس کی وجہ سے یہ نماز فرض نہیں رہی،معاف ہوگئی مگر اسی حالت میں اگر نماز کا آخری وقت آپہنچا اور بچہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا تو اسی حال میں نماز پڑھنا فرض ہے، اگر نہیں پڑھی اور اسی حال میں یعنی ولادت سے پہلے وقت نکل گیا تو بعد میں اس کی قضاء پڑھیں،اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ کریں۔ اس پر اشکال ہوسکتا ہے اور ہمارے ہاں بعض ایسے استفتاء آئے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنا تو بہت مشکل ہے،خواتین تو یوں کہہ دیتی ہیں کہ مردوں کو معلوم ہی نہیں کہ بچہ کیسے جنا جاتا ہے، مرد جنیں تو پتہ چلے۔ یہ مسئلہ مردوں کا بنایا ہوا نہیں، مسئلہ تو شریعت کا ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم سے، مرد تو صرف مسئلہ بتا رہے ہیں بنا نہیں رہے،یہ قانون بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ہے اور انہیں معلوم ہے کہ بچہ جنتے وقت کیا کیفیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں:
الا یعلم من خلق (۷۶۔۴۱)
”بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟“
اگر یہ حکم مردوں کی طرف سے ہوتا تو یہ اعتراض صحیح تھا مگر یہ حکم تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ واقعۃً ظاہری نظر میں یہ معاملہ بہت ہی مشکل نظر آرہا ہے اور اعتراض بہت معقول معلوم ہوتا ہے مگر بات یہ ہے کہ اگر محبت ہو تو تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
؎
از محبت تلخہا شریں شود
”محبت سے تلخیاں میٹھی ہوجاتی ہیں“۔
اللہ تعالیٰ کی محبت بڑی بڑی مشکلات کو آسان کردیتی ہے، اہل ِ محبت حالت نزاع اور جاں کنی کی حالت میں بھی محبوب کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، صرف محبوب کی یاد ہی نہیں بلکہ جاں کنی کے عالم میں اس کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، محبت کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔میں محبت اور اہل محبت کے کچھ قصے بتاتا مگر محبت کا مضمون جب شروع ہوجاتا ہے تو پھر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا،سارا وقت اسی میں گزرجائے گا اور اصل مضمون رہ جائے گا اس لئے مختصر طور پر محبت کا صرف یہ قاعدہ بتانے پر اکتفاء کرتا ہوں کہ محبت بڑی بڑی مشکلات کو آسان کردیتی ہے پھر یہ مسئلہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا مشکل سمجھا جارہا ہے،سنیے! جو عبادت جتنی زیادہ اہم اور ضروری ہوا کرتی ہے شریعت اس کے ساتھ اتنی ہی آسانی بھی دیتی ہے۔ اب اس مسئلے میں رب کریم کی دی ہوئی سہولتیں بھی سنیے،وقت ولادت میں اگربیٹھ سکتی ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھے، رکوع سجدے کی طاقت ہے تو کرے ورنہ دونوں کے لیے صرف اشارہ کرے اور بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں تو لیٹ کر پڑھے، رکوع سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے۔ وضو نہیں کرسکتی تو تیمم کرلے۔ خون بہ رہا ہو، کپڑے نجس ہوں اور انہیں بدلنا مشکل ہو، بستر نجس ہو اور بدلنا مشکل ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھ لے،نماز صحیح ہوجائے گی۔ سبحان اللہ! مالک کی کیا کرم نوازی ہے،خون اور نجاست میں لت پت ہے پھر بھی نماز قبول ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھ لیں کہ ایسے حالات میں نماز کو کتنا مختصر کیا جاسکتا ہے، صرف فرض اور وتر پڑھنا ضروری ہے، سنتیں چھوڑ سکتے ہیں، پھر فرض اور وتر میں بھی یہ چیزیں چھوڑ سکتے ہیں۔
۱۔شروع میں ثناء یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ آخر تک۔
۲۔اعوذ باللہ۔
۳۔بسم اللہ۔
۴۔سورہ فاتحہ کے بعد بسم اللہ۔
۵۔رکوع میں جانے کی تکبیر۔
۶۔رکوع میں تسبیح۔
۷۔رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لمن حمدہ۔
۸۔ربنا لک الحمد۔
۹۔سجدے میں جانے کی تکبیر۔
۰۱۔سجدہ میں تسبیح۔
۱۱۔سجدے سے اٹھنے کی تکبیر۔
۲۱۔دوسرے سجدہ میں جانے کی تکبیر۔
۳۱۔دوسرے سجدہ میں تسبیح۔
۴۱۔دوسرے سجدہ سے اٹھنے کی تکبیر۔
صرف ایک رکعت میں چودہ چیزیں کم ہوگئیں، باقی کیارہ گیا،صرف فاتحہ اور قل ھو اللہ وہ بھی صرف لم یلد تک۔فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں یہ بھی ضروری نہیں،صرف تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کی مقدار ٹھہر کر رکوع کرلیں، پڑھنا کچھ بھی ضروری نہیں، تسبیح پڑھنا بھی ضروری نہیں، صرف تین تسبیح کی مقدار ٹھہرنا ضروری ہے۔التحیات میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر سکتے ہیں، درود شریف اور اس کے بعد کی دعاء ضروری نہیں۔ وتر میں دعاء قنوت پوری پڑھنا ضروری نہیں، صرف رب اغفرلی کہہ لینا کافی ہے۔یہی تفصیل ہر قسم کے مریض کے لئے ہے، قیام نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر پڑھے ورنہ لیٹ کر اشاروں سے پڑھے۔یہ اس قدر آسانیاں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے لئے دی ہیں یہ خود اس کی دلیل ہے کہ نماز کسی حال میں معاف نہیں حتیٰ کہ اگر دشمنوں سے لڑائی ہو رہی ہو تو عین معرکہ کا رزار میں بھی نماز اداء کرنا فرض ہے، ایسی کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی جس میں نماز معاف ہو، جب تک مسلمان کے ہوش و حواس قائم ہیں اس پر نماز اداء کرنا فرض ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نماز کا پورا وقت بے ہوشی گزرگیا تو بھی معاف نہیں، دوسری نماز کا وقت بے ہوشی میں گزرگیا وہ بھی معاف نہیں ہوئی، جب ہوش آئے توقضاء کرے،ہاں اگر پانچ نمازوں کا وقت بے ہوشی میں گزرگیا تو معاف ہیں اس لئے کہ اب ہوش میں آنے کے بعد اگر اس سب نمازوں کی قضاء فرض ہو تو تکلیف اور حرج میں پڑجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا۔ غرض جب تک پانچ نمازوں کا وقت مسلسل بے ہوشی میں نہیں گزرتا اس وقت تک بے ہوشی کی نمازیں بھی معاف نہیں ہوں گے۔
ولادت کی حالت میں نماز پڑھنے کی جو صورت بھی ممکن ہو اسی طرح نماز پڑھ لے،اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی کمی کی وجہ سے اتنا بھی نہیں کرسکتی تو کم سے کم اتنا تو کرلے کہ چونکہ وہ نماز ذمہ میں فرض ہوگئی ہے اس لئے بعد میں جب نماز پڑھنے کے قابل ہو اس کی قضاء کرلے۔ اب ان مسائل پر غور کیجئے اور اندازہ کیجئے کہ نماز کا کیا مقام ہے، اس کا کیا درجہ ہے۔