اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ مرکوز رکھنے کے یہ طریقے ہیں کہ جوالفاظ پڑھ رہے ہیں ان کی طرف توجہ رکھنے کی کوشش کریں اور حالتِ قیام وحالت رکوع میں مخصوص جگہ پر نظر رکھیں اس سے مقصد یہ ہے کہ توجہ مرکوز رہے مگر توجہ رکھنا لوگوں کا مقصد ہی نہیں اس لیے ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں۔ایک دعاء طوطے کی طرح رٹادی جاتی ہے،نماز شروع کرنے سے پہلے بلاسوچے سمجھے اسے پڑھتے رہتے ہیں۔

 

###Download Orginal PDF###

Original-Namaz-Mayn-Khawateen-Ki-Ghaflatein

###Download Orginal PDF###

کتاب کا نام: نماز میں خواتین کی غفلتیں

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

نماز میں خواتین کی غفلتیں

نماز میں خواتین کی غفلتیں

وعظ

ذرا غور کریں: کیا آپ کے اندر ان میں سے کوئی غفلت ہے؟ اگر ہے تو فوراً دُور کریں۔

کتاب گھر : ناظم آباد ۴۔کراچی ۰۰۶۵۷

وعظ
فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہُ اللہ تعالیٰ
پہلی  غفلت: اذان کا احترام نہ کرنا
دوسری غفلت:نماز پڑھنے میں دیر کرنا
تیسری غفلت:پاکی کے فوراً بعد نماز شروع نہ کرنا
چوتھی غفلت:چلّہ پورا ہونے کا انتظار کرنا
  پانچویں غفلت: باریک لباس میں نماز پڑھنا
  چھٹی غفلت: نماز میں ہاتھ اوربال کھُلے ہونا
ساتویں غفلت: نماز میں ہاتھ ہلانا
ذرا غور کریں: کیا آپ کے اندر ان میں سے
کوئی غفلت ہے؟ اگر ہے تو فوراً دُور کریں۔
ناشر
کتاب گھر
ناظم آباد ۴۔ کراچی  ۰۰۶۵۷
وعظ:فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ
نام:نماز میں خواتین کی غفلتیں
بتاریخ: ۷۱ ربیع الاول ۴۰۴۱ہج
بمقام: جامع مسجد دار الافتاء والارشاد ناظم آباد کراچی
بوقت:بعد نمازعصر
تاریخ طبع:محرم ۶۲۴۱؁ھ
مطبع:حسان پرنٹنگ پریس،فون:۹۱۰۱۴۶۶۔۱۲۰
ناشر:کتاب گھر،ناظم آباد نمبر ۴ کراچی ۰۰۶۵۷
فون: ۱۶۳۲۰۲۲۔۱۲۰فیکس:۴۱۸۳۶۶۔۱۲۰
ملنے کے پتے
۱پورے پاکستان میں  ”ضرب مؤمن“ کے تمام دفاتر میں دستیاب۔
۲دارالاشاعت، اُردو بازار، کراچی
۳ادارہ اسلامیات،انار کلی، لاہور۔
۴ادارۃ المعارف، دارالعلوم، کراچی۔
۵مظہر ی کتب خانہ،گلشن اقبال،کراچی۔
۶اقبال بک ڈپو، صدر، کراچی۔
۷میمن اسلامک پبلشرز،لیاقت آباد  ۸۸۱/ا، کراچی۔

فہرست
فہرست

”نماز میں خواتین کی غفلتیں“

عنوان

صفحہ

نماز میں خواتین کی ایک بڑی غفلت – ۶
اذان کی اہمیت – ۶
اذان کے احترام میں لوگوں کی غفلت – ۶
بشارت عظمیٰ – ۷
نماز میں جلد بازی – ۸
فکر آخرت کا اثر – ۸
نماز میں سستی علامتِ نفاق – ۹
خواتین کی دوسری بڑی غفلت – ۹
ایک غلط مشہور مسئلے کی اصلاح – ۹
بوقت ولادت نماز معاف نہیں – ۰۱
نماز چھوڑنے کی سزا – ۲۱
نماز چھوڑنے پر آخرت کی سزا – ۲۱
بروز قیامت ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا – ۳۱
لباس سے متعلق مسئلہ – ۴۱
مرض سیلان ناقض وضوء – ۴۱
نماز میں ہاتھ ہلانا – ۵۱
توجہ سے نماز پڑھنے کا طریقہ – ۵۱

نماز میں خواتین کی غفلتیں 
بِسْمِ اللہ ِ الرّحْمٰنِ الرَّاحِیْمَ
وعظ
نماز میں خواتین کی غفلتیں
(۷۱ ربیع الاول ۴۰۴۱ھ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ وَنُؤمِنُ بِہٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذُ بِاللہ ِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّآ تِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللہ ُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَ نَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلَہٗ اِلَّا اللہ ُ وَحْدَہٗ لا شَرِیْکَ لَہٗ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہ ُ تَعَالی عَلَیْہِ وَعَلیٰ اٰلِہٖ وَصَحْبِہٖٓ أَجْمَعِیْنَ۔

اَمَّا بَعْدُ فَقَدْ کَتَبَ اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللہ ُ عَنْہٗ اِلٰی عُمَّالِہٖ اِنَّ اَھَمَّ اُمُوْرِکُمْ عِنْدِیْ الصَّلٰوۃ مَنْ حَفِظَھَاوَ حَافَظَ عَلَیْھَا حَفِظَ دِیْنَہٗ وَمَنْ ضَیَّعَھا فَھُوَ لِمَا سِوَاھَا اَضْیَعُ۔

(رَوَاہٗ مَالِک رَحِمَہٗ اللہ ُ تعالٰی)

ترجمہ:
”امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تمام عمّال کو یہ پیغام بھیجا کہ میرے نزدیک تمہارے کاموں میں  سب سے اہم کام
نماز ہے، جس شخص نے اس کی حفاظت کی اور اس پر مداومت کی، اس نے اپنا دین محفوظ کر لیا، اور جس شخص نے اس کو ضائع کیا
تو وہ دوسرے کاموں کو زیادہ ضائع کرنے والا ہو گا۔“
نماز میں خواتین کی ایک بڑی غفلت:

نماز میں خواتین کی ایک بڑی غفلت:

خواتین میں عام طور پر نما زپڑھنے میں بہت سستی پائی جاتی ہے آج اس پر کچھ بیان کرنے کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں، جو خواتین سن رہی ہیں وہ بھی اس پر توجہ دیں اور اصلاح کی کوشش کریں اور جو حضرات یہاں موجود ہیں وہ اپنے گھروں میں جا کر اصلاح کی کوشش کریں۔ اس معاملے میں عموماً جو غفلت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جو خواتین نماز پڑھتی ہیں وہ عموماً وقت پر نہیں پڑھتیں، دیر سے پڑھتی ہیں، جو نہیں پڑھتیں ان کی بات نہیں ہو رہی، نماز کی پابند خواتین کی بات کر رہا ہوں کہ پابندی سے تو پڑھتی ہیں مگر بے وقت پڑھتی ہیں۔ ذرا سوچیے اتنی محنت کی، وضو کیا، وقت فارغ کیا، نماز کے لیے کھڑی ہوئیں، ادا بھی کی مگر بے وقت پڑھنے کی وجہ سے ساری کی کرائی محنت ضائع ہو جائے تو کتنی محرومی کی بات ہے اس لیے اس کا خاص اہتمما کیجیے کہ جیسے ہی محلے کی مسجد کی اذان سنائی دے فوراً نماز کی طرف متوجہ ہوں۔ مردوں کے لیے تو اذان کا یہ فائدہ ہے کہ ان کے لیے یہ نماز با جماعت کا اعلان ہے، اللہ کی بارگاہ کی طرف بلاوا ہے کہ وقت ہو گیا پہنچ جاؤ، خواتین پر جماعت تو فرض نہیں مگر ان کے حق میں اذان کم از کم اس کا اعلان تو ہے کہ وقت ہو چکا ہے اب دیر نہ کرو۔ مؤذن جو پکار رہا ہے اس پکار کے دو مطلب ہیں، ایک تو یہ کہ پکارنے والا یعنی مؤذن جہاں پکار رہا ہے وہاں جمع ہو جاؤ اور مل کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو، یہ تو صرف مردوں کے لیے ہے۔ خواتین کے لیے اس پکار کا مقصد یہ ہے کہ نماز کا وقت ہو گیاہے، نماز پڑھ لو۔ پکار سننے کے باوجود بیٹھے رہنا بڑی غفلت کی بات ہے۔

اذان کی اہمیت:

اذان کی اہمیت:

اذان کے بارے میں ایک مسئلہ بھی سمجھ لیجئے، وہ یہ کہ جیسے اذان شروع ہو فوراً خاموش ہو جائیے حتیٰ کہ اگر آپ تلاوت میں مشغول ہیں تو تلاوت بھی چھوڑ دیجیے، اس حالت میں کسی کو سلام کہنا مکروہ ہے، اگر کسی نے سلام کہا تو اس کا جواب دینا واجب نہیں، سب تعلقات چھوڑ کر ہمہ تن متوجہ ہو جائیے کہ یہ کس کی طرف سے اعلان ہو رہا ہے اور کتنا اہم اور ضروری اعلان ہو رہا ہے، سنتے جائیے اور ایک ایک لفظ پر غور کرتے جائیے، یہ تو توحید و رسالت کا اعلان ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اعلان ہو رہا ہے، کیسے پیارے اور پر شوکت الفاظ ہیں۔ اذان کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر کسی گاؤں میں اذان نہیں ہوتی تو مسلمان بادشاہ پر فرض ہے کہ انہیں اذان پر مجبور کرے،(ردالمختار: ۱/۴۸۳) اگر پھر بھی وہ اذان نہیں دیتے تو ان سے قتال کرے، اگر پوری بستی نماز کی پابند ہے مگر اس میں اذان نہیں دی جاتی تو سلطانِ وقت کو ان کے ساتھ جہاد کا حکم ہے اس لیے کہ اذان شعائرِ اسلام میں سے ہے توبہ کریں، اس شعار اسلام کو قائم کریں ورنہ قتل کر دیے جائیں۔ اذان کی اتنی اہمیت ہے کہ کفار اور شیاطین نماز سے نہیں چڑتے مگر اذان سے بہت چڑتے ہیں۔کافروں کی بستی میں دو چار مسلمان پہنچ جائیں اور وہاں اذان دے کر نماز پڑھنا چاہیں تو وہ قطعاً برداشت نہیں کریں گے، مارنے مرنے پر تل جائیں گے، مگر کسی حال میں بھی اذان نہیں دینے دیں گے اور صرف نماز پڑھیں تو کوئی کچھ نہیں کہے گا، خوشی سے نماز پڑھتے رہو مگر اذان نہ دو، کفار کو اگر چڑ ہے تو صرف اذان سے۔ شیطان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب مؤذن اذان شروع کرتا ہے تو شیطان بھاگ جاتا ہے، بھاگتا کس کیفیت سے ہے، حدیث کے الفاظ ہیں، ولہ ضراط ”پادتا ہوا بھاگتا ہے“(متفق علیہ) اتنا ڈرتا ہے اذان سے کہ بلند آواز سے ریح خارک کرتا ہوا بھاگ جاتا ہے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے اور مسلمان نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر آکر مسلط ہو جاتا ہے اور کہتا ہے فلاں فلاں کام یاد کرو، فلاں کام یاد کرو۔

اذان کے احترام میں لوگوں کی غفلت:

اذان کے احترام میں لوگوں کی غفلت:

اذان اتنا بڑا اعلان ہے، اتنی عظمت کی چیز ہے کہ شیاطین اور کفار اس کی آواز برداشت نہیں کر سکتے مگر افسوس کہ آج مسلمان کے قلب میں اذان کی عظمت نہیں رہی، حکم تو یہ ہے کہ جیسے ہی اذان شروع ہو سب دھندے چھوڑ کر، تمام کاموں سے خود کو فارغ کر کے ہمہ تن متوجہ ہو جائیں مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ اذان کی آواز سن کر کان پر جوں تک نہیں رینگتی، اذان کا پہلا لفظ سنتے ہی ایک جملہ کہنے کی مجھے عادت ہے، یہ تو یاد نہیں کہ حدیث ہے یاویسے ہی اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈال دیا، مدتوں سے عادت ہے، جیسے ہی اذان کا پہلا لفظ کان میں پڑتا ہے بے اختیار زبان سے یہ جملہ نکلتا ہے۔اللھم ھٰذَا صَوْتُ دُعَا تِکَ، ”یا اللہ یہ تیرے پکارنے والوں کی آواز ہے۔“

یہ تیرے دربار کی طرف بلانے والوں کی آواز ہے جو میرے کان میں پڑی، ان الفاظ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ غفلت دور ہو جاتی ہے، پورے طور پر متوجہ ہونے کی توفیق ہو جاتی ہے کہ سبحان اللہ! کس کی آواز ہے، کس کا اعلان ہے۔ اپنے بچپن میں ہم نے دیکھا کہ کوئی بڑھیا چکی پیش رہی ہے، جیسے ہی اذان کی آواز آئی فوراً چکی روک لی، جب تک اذان ہوتی رہی اس نے کام چھوڑے رکھا اور کاشت کاروں کو دیکھا کہ بوجھ کا گٹھا اٹھائے جا رہے ہیں، راستے میں اذان شروع ہو گئی تو وہیں ٹھہر گئے، سر پر بوجھ لدا ہے، آگے بھی واللہ اعلم کتنی دور جانا ہے مگر کیا مجال کہ حرکت کریں، وہی بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں، جب تک اذان ختم نہیں ہو جاتی کھڑے ہی رہیں گے، آگے قدم نہیں بڑھائیں گے، اذان کی ایسی عظمت اور ہیبت دل میں بیٹھی ہوئی تھی۔ دوسرے لوگوں کی بھی یہی کیفیت دیکھی کہ کوئی کتنا ہی مشغول ہو، کیسی ہی جلدی میں ہو مگر سب کام چھوڑ کر اذان کی طرف متوجہ ہو جاتا۔ بچپن میں خواتین کو دیکھا کہ اگر کسی خاتون کے سرسے دوپٹہ سرک گیا تو اذان کی آواز سنتے ہی فوراً سر ڈھانپ لیتیں، اذان کے دوران اگر کوئی بچہ بولا یا کسی نے بات شروع کی تو ہر طرف سے آوازیں شروع ہو جاتیں۔”خاموش! خاموش! اذان ہو رہی ہے“کوئی ایک آدھ غلطی کرنے والا اور سب ٹوکنے والے۔ یہ اپنے بچپن کے حالات سنا رہا ہوں مگر آج کیا حالت ہے کہ عوام تو عوام مولویوں کی یہ حالت ہو گئی کہ جب اذان ہو رہی ہوتی ہے تو یہ آپس میں باتوں میں مشغول ہوتے ہیں، جہاں حکم یہ ہے کہ تلاوت بھی بند کر دو، اذان کی طرف متوجہ ہو جاؤ، اس وقت اگر یہ کسی دینی کام میں مشغول ہوتے تو بھی حکم یہ تھا کہ اسے چھوڑ کر اذان سنتے مگر دینی کام تو الگ رہا یہ دنیوی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں، کچھ معلوم نہیں کہ اذان کب شروع ہوئی، کب ختم ہوئی جو اذان سُن ہی نہیں رہا وہ جواب کیا دے گا، جواب سے متعلق اگرچہ صحیح مذہب یہی ہے کہ مستحب ہے، نہ دے تو گناہ نہیں ہو گامگر ایک مذہب یہ بھی ہے کہ جواب دینا واجب ہے، نہیں دیا تو گناہ گار ہو گا، جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ جو الفاظ مؤذن کہے اس کے ساتھ ساتھ وہی الفاظ آپ بھی دہراتے جائیں البتہ حی علی الصلوٰۃ اور حی الی الفلاح کے جواب لا حول ولاقوۃ الا باللہ کہیں۔اذان کی اس قدر اہمیت اور عظمت کے باوجود مسلمان کے قلب سے اس کی عظمت نکل گئی، جب عظمت نکل گئی، توجہ نہ رہی تو پھر اذان کو یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز ہے، ان کی طرف سے بلاوا ہے، کس کا ذہن اس طرف جائے گا؟کس کو اس کا خیال آئے گا؟ یہ تو اسی وقت ہو سکتا ہے کہ اسے سنے بھی،اسکی طرف دھیان بھی دے، وہ تو اپنی باتوں میں مست ہے۔

پھر اذان کے بعد دعاء مانگنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی تو اذان کا قلب پر کیا اثر ہو گا؟جو چیز قلب کو متوجہ کرنے والی تھی، نماز کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کی طرف متوجہ ہونے کی دعوت دینے والی تھی اسے دل سے نکال دیا، جب بنیاد ہی گرادی تو آگے کیا توفیق ہو؟

اذان کی بات درمیان میں اللہ تعالیٰ نے کہلوادی، اصل مسئلہ یہ چل رہا تھا کہ اذان سنتے ہی مرد یہ سمجھیں کہ ہمیں مسجد میں بلایا جا رہا ہے اور خواتین یہ سمجھیں کہ ہمیں نماز پڑھنے کی تاکید کی جارہی ہے، وقت ہو گیا اب سارے کام چھوڑ کر سب سے پہلے نماز ادا کرو۔

بشارت عظمیٰ:

بشارت عظمیٰ:

ہر وقت نماز کی طرف متوجہ رہنے والے کے لیے ایک عظیم بشارت ہے، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب کہیں کوئی سایہ نہیں ہو گا، بہت سخت تمازت ہو گی، شدید گرمی ہو گی، لوگ پسینوں میں شرابور ہوں گے حتیٰ کہ بہت سے لوگ اپنے پسینوں میں ڈوب جائیں گے، اس دن سات قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطاء فرمائیں گے۔(بخاری، مسلم، مالک، نسائی، ترمذی) ان میں سے ایک قسم ہے رَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلّقٌ بِالْمَسْجِدِ”وہ شخص جس کا قلب مسجد میں لٹکا رہتا ہے، معلق کے معنی غور کیجیے، شاید دل پر کچھ اثر ہو جائے، اس کے معنی ہیں ”لٹکایا ہوا“ لٹکائی ہوئی چیز کو معلق کہتے ہیں یعنی اس شخص کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جیسے مسجد سے نکلتے وقت وہ اپنا دل مسجد میں ہی لٹکا کر آجائے تو ایسا شخص جسے نماز کا اتنا خیال ہو، اس کی طرف اتنی توجہ ہو کہ مسجد سے باہر نکل جائے تو بھی یہی خیال دل پر سوار ہے کہ پھر کب اذان ہو گی، پھر کب نماز کے لیے مسجد جاؤں گا، توجہ ادھر ہی رہے۔ مردوں کے لیے فضیلت تو یہی ہے کہ ہر وقت قلب مسجد کی طرف متوجہ رہے، مسجد میں لٹکا رہے اور خواتین کے لیے یہ ہے کہ ان کا دل ہر وقت گھر کی مسجد میں لٹکا رہے، ہر وقت یہ خیال رہے کہ کب اذان سنائی دیتی ہے تا کہ اپنی جائے نماز پر پہنچیں، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جا کر دست بستہ کھڑے ہوں، ایسا مسلمان قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے تلے ہو گا۔

نماز میں جلد بازی:

نماز میں جلد بازی:

نماز سے اس قدر بے اعتنائی عام ہو گئی ہے کہ نماز پڑھتے بھی ہیں تو جلدی سے جلدی نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے بڑا تعجب ہوتا ہے اور کبھی خیال بھی آتا ہے کہ ایسے لوگوں سے پوچھوں کہ نماز میں پڑھتے کیا ہو؟ جو نماز آہستہ قرائت سے پڑھ کر اتنی جلدی نمٹا لیتے ہو، ذرا بلند آواز سے مجھے پڑھ کر سناؤ، کچھ تو پتا چلے۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ میری ایک رکعت ہوئی اور کسی کی پانچ رکعتیں ہو گئیں، دو رکعتیں عشاء کے بعد کی سنتوں کی، نفل تو شاید چھوڑ ہی دیتے ہوں گے، سنتوں کے بعد تین رکعتیں وتر کی، پھر وتر کی آخری رکعت میں دعاء قنوت بھی ہے، اس سے رکعت اور لمبی ہو جاتی ہے، میں نے فرض سے فارغ ہو کر جب سنتیں شروع کیں تو میں ابھی ایک رکعت سے فارغ ہو کر دوسری کے لیے کھڑا ہوا تھاکہ دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ساری نماز نمٹا کر چلا جا رہا ہے، میری ایک رکعت ہوئی، اس کی پانچوں رکعتیں ہو گئیں، جیٹ طیاروں کا زمانہ ہے، تیز رفتار ی کے مقابلے ہو رہے ہیں، دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کہ ہم بڑے ہی تیز رفتار ہیں۔

سبحان اللہ!میں تو حیران ہوں کہ ابھی میری ایک ہی رکعت ہوئی اور وہ دوسری رکعت پڑھ کر پھر پوری التحیات پڑھ کر تین رکعتیں وتر بھی پڑھ کر جس میں لمبی دعاء بھی ہے اور دو تشہد بھی ہیں، سب کچھ نمٹا کر جا بھی رہا ہے اس طرح سے پوری ترتیب اگر نماز کی دیکھی جائے تو ایک کے مقابلے میں پانچ رکعتیں بلکہ نو رکعتیں ہوتی ہیں پوری التحیات تقریباً ایک رکعت کے برابر ہے، سنتوں کی التحیات ایک ہو گئی، پھر وتر کی بیچ والی التحیات، اس کے بعد وتر کی آخری التحیات، تین رکعتیں تو یہ ہو گئیں، پھر وتر کی قنوت بھی ملا لیں تو چار ہو گئیں، پان چرکعتیں ایسے پڑھ لیں اور چار رکعتوں کی مقدار یہ ملا کر کل نو رکعتیں بنیں، میری ایک ہوئی اور اس کی نو، یہ ایک اور نو کی نسبت دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ ان سے ذرا پوچھوں تو سہی کہ میرے سامنے بلند آواز سے پڑھ کر سنائیں کیسے پڑھتے ہیں۔ نماز اطمینان سے پڑھیں، نماز کا وقت ہو جائے تو دیر نہ کیجیے، جیسے ہی وقت ہو اور اذان سنائی دے تو مرد مسجد پہنچ جائیں اور خواتین اپنے گھروں میں نماز شروع کر دیں، اب دیر کرنے کی اجازت نہیں۔ ذرا مسلمان سوچے تو سہی کہ یہ اعلان کس کا ہو رہا ہے، اگر کہیں دنیا کا نفع مل رہا ہو اور اس کا اعلان ہو جائے تو پھر دیکھیے کیسے ایک دوسرے سے آگے بھاگتے ہیں اور یہاں جنت ملنے کا اعلان ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اعلان ہو رہا ہے، ان کا دربار کھلنے کا اعلان ہو رہا ہے مگر پھر بھی سستی اور غفلت۔

فکر آخرت کا اثر:

فکر آخرت کا اثر:

ایک بار میں مدینہ الرسول ﷺ کے ایئر پورٹ پر بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے سوار ہونا تھا، میرے پیچھے جو کر سیوں کی قطار تھی ان پر یاک مرد اور اس کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں،وہ خاتون بار بار بہت افسوس سے یہ کہہ رہی تھیں: مَاصَلَّیْنَا الْعَصْرَ اِلَی الاٰن ”ہم نے اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی“ یہ سن کر میرے دل پر ایک چوٹ لگی کہ یا اللہ! تمام خواتین کو ایسا دل عطاء فرما دے، یہاں مردوں میں بھی یہ بات نہیں، وہاں خواتین میں یہ جذبہ، عصر کا وقت جس میں ہم نماز پڑھتے ہیں۔ یعنی مثلین کا وقت ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا مگر وہ اللہ کی بندی بڑے افسوس کے ساتھ اپنے ساتھ والے مردے سے کہہ رہی ہیں کہ اتنا وقت گزر گیا مگر ہم نے اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، حالانکہ آفتاب ابھی بہت اونچا تھا مگر جسے فکر لاحق ہو، یہ دھیان لگا ہوا ہو کہ ہمیں کہیں پہنچنا ہے، جواب دینا ہے، نماز کا حساب دینا ہے کہ بتاؤ کیسی پڑھی تھی، اس شخص کی یہ کیفیت ہو سکتی ہے۔ قیامت میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہو گا، جسے موت کا دھیان ہو، مرنے کے بعد پیشی کی فکر ہو تو یہ فکر سب کچھ کرواتی ہے۔ اگر آپ نے نماز دیر سے ادا کی تو اس میں صرف یہ قباحت نہیں کہ دیر سے نماز پڑھنے کا گناہ کیا بلکہ اور بھی کئی قباحتیں ہیں، مثلاً یہاں کے نقشوں میں جو عصر کا وقت لکھا ہے اس میں دوسرے ائمہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا اختلاف ہے، آپ تو یہی سمجھتے ہوں گے کہ نقشے کے مطابق جب تک عصر کا وقت شروع نہیں ہو جاتا اس سے پہلے ظہر کا وقت ہی چل رہا ہے مگر دوسرے ائمہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اور خود ہمارے مذہب حنفیہ کے ایک قول کے مطابق بھی ظہر کا وقت اس سے بہت پہلے ختم ہو چکا ہے جس مثل اول کہتے ہیں تو اگر کسی نے ظہر کی نماز اتنی تأخیر سے پڑھی کہ مثل اول گزر گیا تو یوں سمجھیں کہ اپنی عبادت کو اس نے اختلاف کے خطرے میں ڈال دیا، بعض ائمہ کے نزدیک تو نماز ہو گئی مگر بعض کے نزدیک نہیں ہوئی، پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہو گیا اور عصر میں اتنی تاخیر کر دی کہ دھوب پھیکی پڑ گئی تو مکروہ وقت شروع ہو گیا، نماز مکروہ ہو گئی۔ مغرب کی نماز میں اتنی تأخیر کہ اذان کے بعد دو رکعت نفل پڑھے جا سکیں جائز ہے اس سے زیادہ دیر کرنا مکروہ تنز یہی ہے، اور اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے نظر آنے لگیں مکروہ تحریمی ہے۔ فجر کی نماز کا مسئلہ یہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے درمیان میں آفتاب نکل آیا تو نماز نہیں ہوئی، صبح صادق کے بعد اتنی دیر سے نماز پڑھنا کہ اچھی طرح روشنی پھیل جائے مستحب ہے مگر اتنی تاخیر جائز نہیں کہ درمیان میں سورج نکل آنے کا اندیشہ ہو، مستحب کی خاطر کہیں فرض ہی ضائع نہ ہو جائے۔ عشاء کے وقت میں ذرا گنجائش ہے مگر عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے، اسی طرح آدھی رات کے بعد، مکروہ ہے، آدھی رات تک تأخیر جائز ہے مگر بلاوجہ زیادہ تأخیر کرنا سستی و غفلت کی علامت ہے، انسان نماز جیسی اہم عبادت میں کیوں سستی دکھائے۔ یہ باتیں زیادہ تر خواتین کے لیے کر رہا ہوں، اللہ کرے ان کی اصلاح کا ذریعہ بن جائیں۔

نماز میں سستی علامتِ نفاق:

نماز میں سستی علامتِ نفاق:

نماز جیسی اہم عبادت میں سستی کرنا مسلمان کا کام نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز دیر سے پڑھنے کو منافق کی علامت قرار دیا ہے، فرمایا:
”یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا آفتاب غروب ہونے کا انتظار کرتا رہے حتیٰ کہ جب وہ زرد پڑ جائے تو اٹھ کر چا رٹھونگے لگا لے۔“(مسلم) نماز کو وقت پر ادا کرنا ایسا مؤکد اور اہم حکم ہے کہ تاخیر کو منافقین کا شعار قرار دیا۔ غرض جیسے ہی اذان ہو، خواتین کو چاہیے کہ فوراًنماز شروع کر دیں، اگر اس وقت نماز نہیں پڑھی تو تاخیر تو ہو ہی گئی علاوہ ازیں یہ بھی خطرہ ہے کہ کام میں لگ گئیں، نماز یاد ہی نہیں رہی اور ادھر وقت نکل گیا، جو چیز یاد دلا رہی ہے، نماز کی
دعوت دے رہی ہے اس پر کان نہیں دھرا، اس سے کوئی سبق نہ لیا تو نتیجہ یہی نکلے گا اس لیے اسی کو معیار بنا لیا جائے کہ جیسے ہی محلے کی مسجد میں اذان ہو فوراً نماز کی تیاری میں لگ  جائیں۔
خواتین کی دوسری بڑی غفلت:

خواتین کی دوسری بڑی غفلت:

ایک مسئلہ تو یہ ہو گیا، دوسرا مسئلہ خواتین کا یہ ہے کہ ماہواری ختم ہونے کے بعد کب نماز فرض ہوتی ہے اس بارے میں بھی بڑی غفلت پائی جاتی ہے، یہ ساری باتیں ان خواتین کے لیے ہو رہی ہیں جو نماز کی پابند ہیں اور جو سرے سے نماز پڑھتی ہی نہیں انہیں ماہواری کے بعد نہانے کی کیا ضرورت؟ یونہی قصہ چلتا رہے، کیا فرق پڑتا ہے؟ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام تو وہی مسلمان کرتا ہے جسے نماز پڑھنا ہو، اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچنا ہو۔

ایک غلط مشہور مسئلے کی اصلاح:

ایک غلط مشہور مسئلے کی اصلاح:

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ عورتوں نے مشہور کر رکھا ہے کہ ولادت کے بعد چالیس دن تک نماز معاف ہے، یہ بالکل غلط ہے، اللہ جانے کہاں سے یہ مسئلہ گھڑ لیا، دراصل اس میں انہیں سہولت ہے اس لیے خود ہی یہ مسئلہ گھر بیٹھے بنا لیا۔ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ ولادت کے بعد زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک کون آسکتا ہے، اگر چالیس دن کے بعد بھی خون آتا رہا تو اس کا اعتبار نہیں، یہ بیماری کی وجہ سے ہے جسے استحاضہ کہتے ہیں، اس دوران نماز پڑھنا فرض ہے اور اگر چالیس روز سے پہلے ہی خون بند ہو گیا تو بند ہوتے ہی فوراً نماز فرض ہو گئی یعنی زیادتی کی مدت تو مقرر ہے کہ چالیس دن سے زیادہ نہیں ہو گا مگر کمی کی کوئی مدت نہیں، ایک مہینہ بھی ہو سکتا ہے، ایک ہفتہ بھی ہو سکتا ہے، ایک دن بھی ہو سکتا ہے، ایک گھنٹہ بلکہ ایک منٹ بھی ہو سکتا ہے، غرض یہ کہ کمی کی کوئی مدت مقرر نہیں، یہ جہالت عوام میں بہت پھیل گئی ہے اس لیے اس مسئلہ کو خوب سمجھا جائے اور اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے کہ جیسے ہی خون بند ہو نماز فرض ہو جائے گی اور اگر چالیس دن گزرنے پر بھی خون بند نہیں ہوا تو اسی حالت میں نماز فرض ہے، خوب سمجھ لیجیے، خون نفاس کی آخری مدت چالیس روز ہے، اگر چالیس روز سے پہلے مثلاً ولادت کے ایک لمحہ بعد ہی خون بند ہو گیا تو نماز فرض ہو گئی۔بظاہر اچھی اچھی دین دار عورتیں بھی اس کو تاہی کا شکار ہیں، خود کو نماز کا پابند سمجھتی ہیں مگر ایسے مواقع پر کئی کئی نمازیں ضائع کر دیتی ہیں۔

بوقتِ ولادت نماز معاف نہیں

بوقتِ ولادت نماز معاف نہیں

ذرا ایک اور مسئلے سے نماز کی اہمیت سمجھ لیں مسئلہ یہ ہے کہ کسی عورت کو بچہ پیدا ہورہا ہے تو ایسے نازک وقت میں جبکہ وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اگر آدھا بچہ باہر آچکا اور آدھا ابھی اندر ہے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو اسی حال میں نماز فرض ہے۔اگر نماز کا وقت نکلنے سے پہلے بچہ پیدا ہوگیا پھر تو نفاس کی وجہ سے یہ نماز فرض نہیں رہی،معاف ہوگئی مگر اسی حالت میں اگر نماز کا آخری وقت آپہنچا اور بچہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا تو اسی حال میں نماز پڑھنا فرض ہے، اگر نہیں پڑھی اور اسی حال میں یعنی ولادت سے پہلے وقت نکل گیا تو بعد میں اس کی قضاء پڑھیں،اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ کریں۔ اس پر اشکال ہوسکتا ہے اور ہمارے ہاں بعض ایسے استفتاء آئے ہیں کہ ایسی حالت میں نماز پڑھنا تو بہت مشکل ہے،خواتین تو یوں کہہ دیتی ہیں کہ مردوں کو معلوم ہی نہیں کہ بچہ کیسے جنا جاتا ہے، مرد جنیں تو پتہ چلے۔ یہ مسئلہ مردوں کا بنایا ہوا نہیں، مسئلہ تو شریعت کا ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم سے، مرد تو صرف مسئلہ بتا رہے ہیں بنا نہیں رہے،یہ قانون بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ہے اور انہیں معلوم ہے کہ بچہ جنتے وقت کیا کیفیت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں:

الا یعلم من خلق (۷۶۔۴۱)

”بھلا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟“
اگر یہ حکم مردوں کی طرف سے ہوتا تو یہ اعتراض صحیح تھا مگر یہ حکم تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ واقعۃً ظاہری نظر میں یہ معاملہ بہت ہی مشکل نظر آرہا ہے اور اعتراض بہت معقول معلوم ہوتا ہے مگر بات یہ ہے کہ اگر محبت ہو تو تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
؎
از  محبت  تلخہا  شریں  شود
          ”محبت سے تلخیاں میٹھی ہوجاتی ہیں“۔
اللہ تعالیٰ کی محبت بڑی بڑی مشکلات کو آسان کردیتی ہے، اہل ِ محبت حالت نزاع اور جاں کنی کی حالت میں بھی محبوب کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، صرف محبوب کی یاد ہی نہیں بلکہ جاں کنی کے عالم میں اس کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، محبت کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔میں محبت اور اہل محبت کے کچھ قصے بتاتا مگر محبت کا مضمون جب شروع ہوجاتا ہے تو پھر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا،سارا وقت اسی میں گزرجائے گا اور اصل مضمون رہ جائے گا اس لئے مختصر طور پر محبت کا صرف یہ قاعدہ بتانے پر اکتفاء کرتا ہوں کہ محبت بڑی بڑی مشکلات کو آسان کردیتی ہے پھر یہ مسئلہ اتنا مشکل بھی نہیں جتنا مشکل سمجھا جارہا ہے،سنیے! جو عبادت جتنی زیادہ اہم اور ضروری ہوا کرتی ہے شریعت اس کے ساتھ اتنی ہی آسانی بھی دیتی ہے۔ اب اس مسئلے میں رب کریم کی دی ہوئی سہولتیں بھی سنیے،وقت ولادت میں اگربیٹھ سکتی ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھے، رکوع سجدے کی طاقت ہے تو کرے ورنہ دونوں کے لیے صرف اشارہ کرے اور بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں تو لیٹ کر پڑھے، رکوع سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے۔ وضو نہیں کرسکتی تو تیمم کرلے۔ خون بہ رہا ہو، کپڑے نجس ہوں اور انہیں بدلنا مشکل ہو، بستر نجس ہو اور بدلنا مشکل ہو تو اسی حالت میں نماز پڑھ لے،نماز صحیح ہوجائے گی۔ سبحان اللہ! مالک کی کیا کرم نوازی ہے،خون اور نجاست میں لت پت ہے پھر بھی نماز قبول ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھ لیں کہ ایسے حالات میں نماز کو کتنا مختصر کیا جاسکتا ہے، صرف فرض اور وتر پڑھنا ضروری ہے، سنتیں چھوڑ سکتے ہیں، پھر فرض اور وتر میں بھی یہ چیزیں چھوڑ سکتے ہیں۔
۱۔شروع میں ثناء یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ  آخر تک۔
۲۔اعوذ باللہ۔
۳۔بسم اللہ۔
۴۔سورہ فاتحہ کے بعد بسم اللہ۔
۵۔رکوع میں جانے کی تکبیر۔
۶۔رکوع میں تسبیح۔
۷۔رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لمن حمدہ۔
۸۔ربنا لک الحمد۔
۹۔سجدے میں جانے کی تکبیر۔
۰۱۔سجدہ میں تسبیح۔
۱۱۔سجدے سے اٹھنے کی تکبیر۔
۲۱۔دوسرے سجدہ میں جانے کی تکبیر۔
۳۱۔دوسرے سجدہ میں تسبیح۔
۴۱۔دوسرے سجدہ سے اٹھنے کی تکبیر۔
صرف ایک رکعت میں چودہ چیزیں کم ہوگئیں، باقی کیارہ گیا،صرف فاتحہ اور قل ھو اللہ وہ بھی صرف لم یلد تک۔فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں یہ بھی ضروری نہیں،صرف تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کی مقدار ٹھہر کر رکوع کرلیں، پڑھنا کچھ بھی ضروری نہیں، تسبیح پڑھنا بھی ضروری نہیں، صرف تین تسبیح کی مقدار ٹھہرنا ضروری ہے۔التحیات میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر سکتے ہیں، درود شریف اور اس کے بعد کی دعاء ضروری نہیں۔ وتر میں دعاء قنوت پوری پڑھنا ضروری نہیں، صرف رب اغفرلی  کہہ لینا کافی ہے۔یہی تفصیل ہر قسم کے مریض کے لئے ہے، قیام نہیں کرسکتا تو بیٹھ کر پڑھے ورنہ لیٹ کر اشاروں سے پڑھے۔یہ اس قدر آسانیاں جو اللہ تعالیٰ نے نماز کے لئے دی ہیں یہ خود اس کی دلیل ہے کہ نماز کسی حال میں معاف نہیں حتیٰ کہ اگر دشمنوں سے لڑائی ہو رہی ہو تو عین معرکہ کا رزار میں بھی نماز اداء کرنا فرض ہے، ایسی کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی جس میں نماز معاف ہو، جب تک مسلمان کے ہوش و حواس قائم ہیں اس پر نماز اداء کرنا فرض ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ نماز کا پورا وقت بے ہوشی گزرگیا تو بھی معاف نہیں، دوسری نماز کا وقت بے ہوشی میں گزرگیا وہ بھی معاف نہیں ہوئی، جب ہوش آئے توقضاء کرے،ہاں اگر پانچ نمازوں کا وقت بے ہوشی میں گزرگیا تو معاف ہیں اس لئے کہ اب ہوش میں آنے کے بعد اگر اس سب نمازوں کی قضاء فرض ہو تو تکلیف اور حرج میں پڑجائے گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا۔ غرض جب تک پانچ نمازوں کا وقت مسلسل بے ہوشی میں نہیں گزرتا اس وقت تک بے ہوشی کی نمازیں بھی معاف نہیں ہوں گے۔
ولادت کی حالت میں نماز پڑھنے کی جو صورت بھی ممکن ہو اسی طرح نماز پڑھ لے،اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی کمی کی وجہ سے اتنا بھی نہیں کرسکتی تو کم سے کم اتنا تو کرلے کہ چونکہ وہ نماز ذمہ میں فرض ہوگئی ہے اس لئے بعد میں جب نماز پڑھنے کے قابل ہو اس کی قضاء کرلے۔ اب ان مسائل پر غور کیجئے اور اندازہ کیجئے کہ نماز کا کیا مقام ہے، اس کا کیا درجہ ہے۔
نماز چھوڑ نے کی سزا:

نماز چھوڑ نے کی سزا:

حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے سوا باقی تینوں ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑ دے اسے قتل کیا جائے گا۔ ذرا سوچیے کہ ایک نماز چھوڑنے پر شریعت میں اس کی سزا قتل ہے، یہ تو ایک نماز چھوڑنے کی سزا ہوگئی، جو مسلمان سالہا سال نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ان کی سزا کیا ہو؟ ظاہر ہے کہ جتنی نمازیں چھوڑیں اتنی ہی بار قتل کیا جائے، دنیا میں تو ایک ہی بار قتل ممکن ہے، کوئی شخص پانچ افراد کو قتل کردے تو حکومت اسے سزائے موت سناتی ہے وہ پانچ افراد کے قتل کی ہوتی ہے۔دنیا میں تو یہی ہے کہ بس ایک بار مرگیا پھر دوبارہ جینا ممکن نہیں تو موت کی دوسری سزا الگ سے کیسے دیں لیکن آخرت میں موت نہیں آئے گی، وہاں سب نمازوں کی سزا ہوگی اور ایک نماز چھوڑنے کی سزا قتل سے بھی کہیں زیادہ،تو کئی سالوں کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی کیا سزا ہوگی،اس شخص کا کیا حشر ہوگا۔ تین ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ بے نمازی کو قتل کیا جائے۔ ان میں سے امام رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ وہ شخص نماز چھوڑ نے سے مرتد ہوگیا، اسلام سے نکل گیا، مرتد ہونے کی وجہ سے اسے قتل کیا جارہا ہے اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے، نہ ہی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔امام مالک وامام شافعی رحمہما اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑنے سے کافر تو نہیں ہوا مگر اس کی سزا یہی ہے کہ ایک نماز بھی بلا عذر چھوڑ دی تو قتل کیا جائے۔حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فوراً قتل نہ کیاجائے بلکہ قید رکھا جائے، ایک نماز جان بوجھ کر چھوڑدی تو قید کردیا جائے اور اسے روزانہ مارا جائے، اتنا مارا جائے کہ خون بہنے لگے، روزانہ یہی سزادی جاتی رہے،مارو اور خون بہاؤ، ماروخون بہاؤ،حتی یتوب اویموت حتی کہ توبہ کرے یا مرجائے۔ اب تک جو نمازیں چھوڑ دیں اس گناہ سے توبہ کرے اور ان کی قضاء شروع کردے اوروقتی نمازیں پابندی سے پڑھنے لگے یہ دوکام کرے ورنہ مارکھاتے کھاتے اور خون بہتے بہتے مرجائے۔ نتیجے کے لحاظ سے امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کی سزا دوسرے ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ کی سزا سے بھی زیادہ سخت ہے،دوسرے ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے تو گردن اڑا کر ایک ہی بار قصہ ختم کردیا مگر حضرت امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں روزانہ کی موت ہے،روزانہ مارتے رہو، خون بہاتے رہو ایک ہی بار سارا خون نہ بہادو بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے بہاتے رہو، یہ سزا قتل کی سزا سے بھی سخت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں حکمت ومصلحت اور اُمت پر رحمت بھی ہے کہ اس طریقے سے شاید اس کی اصلاح ہوجائے، توبہ کرلے۔

نماز چھوڑنے پر آخرت کی سزا:

نماز چھوڑنے پر آخرت کی سزا:

یہ تو دنیا کی سزا ہوئی، آخرت میں ایک نماز چھوڑنے پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں رہنا پڑے گا۔

رُوِی اَنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ حَتّٰی مَضی وقتھا ثُمَّ قَضٰی عُذِّبَ فِیْ الناَّرِ حُقَباً وَالْحُقَبُ ثَمَانُوْنَ سَنَۃً وَالسَّنَۃُ ثَلٰثُ مِاءَۃٍ وَسِتونَ یَوْماً کُلُّ یَوْمٍ کَانَ مِقْدارُاَلْفُ سَنَۃٍ (فضائل اعمال)

ترجمہ: ”رسول اللہ ﷺ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص نماز کو قضاء کردے گو وہ بعد میں پڑھ بھی لے پھر بھی اپنے وقت پر نہ پڑھنے کی وجہ سے ایک حقب جہنم میں جلے گا اور حقب کی مقدار اسی برس کی ہوتی ہے اور ایک برس تین سو ساٹھ دن کا اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار برس کے برابر ہوگا اس حساب سے ایک حقب کی مقدار دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس ہوئی۔“

اس روایت کو فضائل اعمال میں مجالس الابرار سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ یہ روایت دوسری کتاب میں نہیں ملی البتہ حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی تعریف فرمائی ہے۔

ذرا تجربہ کیجئے، ماچس کی سلائی جلائیں اور اس پر انگلی رکھ کر دیکھیں، عجیب بات ہے کہ مسلمان دنیا میں تو ماچس کی سلائی پر انگلی رکھنے کو تیار نہیں اور وہاں کروڑوں سال جہنم میں جلنے پر آمادہ ہے، یا توجہنم پر ایمان نہیں، اگر ایمان ہے تو اس پر اتنی جرأت کیسے ہو رہی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

”بندے کو اور کفر کو ملانے والی چیز صرف نماز ہے۔“ (احمد و مسلم)

اور فرمایا

(فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ) (احمد،نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)

”جس نے نماز چھوڑدی وہ کافر ہوگیا۔“

اسی حدیث کی بناء پر حضرت امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے نماز اسلا م سے خارج ہوگیا، مرتد ہوگیا۔دوسرت ائمہ رحمہم اللہ تعالیٰ فقد کفر کے معنی یہ لیتے ہیں کہ اس نے کافروں والا کام کیا ہے،اس کی سزا کفار کی طرح جہنم ہے۔اگرنماز کا انکار نہیں کرتا بلکہ غفلت کی وجہ سے چھوڑتا ہے تو کافرنہیں ہوتا،فاسق بن جاتا ہے،مستحق سزا ہوجاتا ہے اور سزا بھی کتنی سخت! یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرمسلمان کا جہنم اور جنت پر ایمان ہے، مرنے کے بعد زندہ ہونے پر اور حساب و کتاب پر ایمان ہے تو پھر دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ جہنم سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟ کہیں وہی یہود والا معاملہ تو نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہود کہتے ہیں:

(نحن ابناء اللہ واحباء ہ) (۵۔۸۱)

”ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے دوست ہیں۔“

ان کا خیال یہ تھا کہ اپنے بیٹوں کوکون عذاب دیتا ہے اس لئے اللہ ہمیں عذاب نہیں دے گا،جوچاہو کرتے رہو، کہیں مسلمان نے تو ایسا خیال دل میں نہیں بٹھالیا؟ آخر اتنی جرأت کہاں سے آگئی کہ فرض نماز چھوڑ دیتا ہے،ایسی عبادت جو کمزوری اور سخت سے سخت بیماری کی حالت میں بھی معاف نہیں، آج کا مسلمان اتنی اہم عبادت بلا عذر چھوڑ دیتا ہے۔ ایک مثال سے ذرا سمجھیے،آپ سے کوئی کہے کہ اس بل میں ذراانگلی ڈال دیجیے تو کیا آپ تیار ہوں گے؟کوئی کتنا ہی سمجھائے کہ ڈرو نہیں، یہ سانپ کابل نہیں،چوہے کا بل ہے مگر آپ کو یہی خیال ہوگا کہ شاید سانپ کا ہو اور اگر چوہے کا تسلیم کرلیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ سانپ اس میں گھس گیا ہوکوئی آپ کو کتنا ہی سمجھائے کہ مانا یہ سانپ کا ہی بل ہے یا اس میں سانپ گھس گیا ہے مگر کیا ضروری ہے کہ سانپ آپ کے انتظار میں بیٹھا ہو، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ کہیں باہر نکل گیا ہو یا یہ کہ اندر ہی ہو مگر سورہا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جاگ رہا ہو مگر آپ کو نہ کاٹے،پھر آخری بات یہ کہ اگر سانپ نے کاٹ بھی لیا تو کیا ضروری ہے کہ آپ کے لئے نقصان دہ ہو اور آپ مرجائیں، بعض کے لئے زہر بہت مفید ہوتا ہے،ہوسکتا ہے کہ آپ کے لئے بھی نافع ہو مگر آپ کسی صورت میں بھی آمادہ نہیں ہوں گے۔ دیکھیے اس میں کتنے احتمالات ہیں، پہلا یہ کہ وہ بل سانپ کا نہ ہو کسی اور جانور کا ہو، دوسرا یہ کہ سانپ کا ہو مگر وہ اس میں موجود نہ ہو، تیسرا یہ کہ سانپ اندر موجود ہو مگر سورہا ہو،چوتھا یہ کہ جاگ رہا ہو مگرنہ کاٹے،پانچواں یہ کہ کاٹ بھی لیا تو شاید مرنے کی بجائے اور زیادہ صحت مند ہوجائیں مگر اتنے احتمالات ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص بل میں انگلی ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس لیے کہ ان سب احتمالات کے ساتھ ایک بعید ذرا سا احتمال یہ بھی ہے کہ شاید سانپ اندر موجود ہو، وہ کاٹ لے اور مرجائیں۔دنیوی زندگی کے ساتھ اتنی محبت،اس کی ایسی فکر کہ اتنے احتمالات ہوتے ہوئے ایک ذرا سے احتمال پر اس کام کے قریب بھی نہیں جاتے اور آخرت کی کوئی فکر نہیں،جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہاں کے خطرات کا کوئی خوف نہیں،جہنم سے کیوں ڈر نہیں لگتا،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کتنی جگہ جہنم سے ڈرایا ہے، رسول اللہ ﷺ نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ اگر ایک نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی تو دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال جہنم کی سزا ہے،اس کے باوجود جو جہنم سے نہیں ڈرتا تو اس کے سوا اس کی اور کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ جہنم پر ایمان نہیں، ذرا سوچ کر فیصلہ کیجیے کہ کسی شخص کو رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر یقین ہو کہ آپ ﷺ کے رسول ہیں، آپ ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں وہ برحق ہے، سچ ہے، موت پر یقین ہو، جہنم پر بھی یقین ہو اور اس کا بھی یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام حالات سے باخبر ہیں، ان تمام باتوں پر یقین کے باوجود نماز چھوڑ دیتا ہو تو خود بتائیے کہ اس کا ایمان کا دعویٰ صحیح ہے؟ ایمان ہوتا تو ایسا کام کیوں کرتا۔

ان مسائل کی اپنے گھروں میں جاکر خوب اشاعت کریں۔

بروز قیامت ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا:

بروز قیامت ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا:

یہ بات یاد رکھیں کہ جن لوگوں کے گھروں میں خواتین یا بچے نماز میں غفلت کرتے ہیں یا دین کے دوسرے کاموں میں غفلت اور سستی کرتے ہیں اور گھر کا سربراہ خاموش رہتا ہے، انہیں کچھ نہیں کہتا تو ان کے گناہ میں برابر کا شریک ہے۔  اگر یہ ان کی اصلاح نہیں کرتا تو ادرکھیے! قیامت میں جیسے اس سے اپنے اعمال سے متعلق سوال ہوگا ایسے ہی بیوی بچوں اوردوسرے ماتحتوں سے متعلق بھی سوال ہوگا،ان کا بھی یہ ذمہ دار ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ اصلاح کی کوشش کیسے کریں، اس بارت میں تین کام یاد رکھیں۔

۱۔کوشش سوچ سمجھ کرکریں، کہیں سختی سے، کہیں نرمی سے، ہر انسان کے ماتحتوں کے لیے کوشش کا کوئی ایک معیار مقرر نہیں کیا جاسکتا، بس معیار یہی ہے کہ آپ کا دل یہ گواہی دے کہ آپ نے اپنا فرض اداء کردیا، دل مطمئن ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے، ماتحتوں سے متعلق جواب دینا ہے، میں ان کی اصلاح میں سستی نہیں کررہا، اپنا فرض اداء کررہاہوں۔

۲۔دعاء بھی جاری رکھیں،دعاء کا تو ہمیشہ کے لیے معمول بنالیں کہ یا اللہ! میری کوشش میں کچھ نہیں رکھا، جب تک تیری مدد شامل حال نہ ہوگی اس وقت تک میری کوشش سے کچھ نہیں ہوگا، میں تو اس لیے کوشش کررہا ہوں کہ تیرا حکم ہے ورنہ جو کچھ ہوگا تیری ہی طرف سے ہوگا، یہ دعاء جاری رہے۔

۳۔کوشش کے ساتھ استغفار بھی کرتا رہے کہ یا اللہ! جیسی کوشش کرنی چاہیے تھی معلوم نہیں مجھ سے ویسی کوشش ہوئی یا نہیں، یا اللہ! اس میں جو کوتاہی ہوئی معاف فرما اور تیری طرف سے جیسی کوشش کا حکم ہے ویسی کوشش کرنے کی توفیق عطاء فرما۔

لباس سے متعلق مسئلہ:

لباس سے متعلق مسئلہ:

ایک بہت اہم مسئلہ لباس سے متعلق بھی سن لیجیے اس بارے میں بھی عورتوں میں بہت غفلت پائی جاتی ہے۔ایسا لباس جس میں سے جسم کا رنگ نظر آتا ہو یا ایسی چادر جس میں سے بالوں کا رنگ نظر آتا ہو اسے پہن کر نماز نہیں ہوتی۔اس کا بھی اہتمام کریں کہ پوری نماز میں بازو گٹوں سمیت مکمل طور پر چھپے رہیں، کسی حالت میں بھی گٹوں کا کوئی ذرا سا حصہ بھی نظر نہ آئے، اگر کسی نے اس میں غفلت کی تو وہ اپنی نماز لوٹائے۔

اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر دورانِ نماز چوتھائی عضو کھل گیا اور تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار تک کھلا رہا تو نماز نہیں ہوگی، دوبارہ پڑھے اور اگر عضو کھلتے ہی جلدی سے ڈھک لیا تو نماز ہوگئی لیکن اگر کسی نے جان بوجھ کر چوتھائی عضو سے کم کھلا رکھا تو چونکہ یہ عمداً کیا ہے اس لیے نماز لوٹائے۔

کتنی عورتیں ایسی ہیں جو نماز کی پابند ہیں لیکن انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ کس لباس میں ان کی نماز ہوگی اور کس میں نہیں ہوگی۔ایک لڑکی کا یہاں دارلافتاء سے اصلاحی تعلق ہے،اس نے اپنے حالات میں بتایا کہ اس کی والدہ نماز کی پابند ہیں لیکن جارجٹ کا باریک دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھتی تھیں اس نے انہیں بتایا کہ اس دوپٹے سے آپ کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ دوپٹے میں سے بالوں کا رنگ صاف نظر آتا ہے کافی دن تک سمجھانے کے بعد اس کی والدہ نے موٹے کپڑے کا دوپٹہ بنالیا لیکن اس میں ہاتھ گٹوں تک نہیں ڈھکتے تھے اس نے والدہ سے کہا کہ اس میں بھی آپ کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ جتنا جسم نماز میں ڈھکنے کا حکم ہے وہ نہیں ڈھک رہا تو اس کی امی نے کہا کہ مجھ سے اتنی بڑی چادر اوڑھ کر نماز نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ مجھے گرمی لگتی ہے والدہ کی یہ بات سن کر اس نے ان سے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نماز پڑھتی ہیں تو اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھیں اور اگر اپنے نفس کے لیے پڑھتی ہیں تو پھر ٹوپی اوڑھ کر پڑھا کریں اس میں بالکل گرمی نہیں لگے گی۔اس بات کا والدہ پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے نماز کے لیے موٹے کپڑے کی بڑی چادر بنالی۔ یہ قصہ تو بہت ہورہا ہے کہ عورتیں ایسے باریک لباس میں نماز پڑھ لیتی ہیں جس میں سے جلد کا رنگ یا بالوں کا رنگ نظر آتا ہوجبکہ ایسے لباس میں نماز ہوتی ہی نہیں جتنی نمازیں اس طرح پڑھی ہیں سب لوٹائیں۔

مرض سیلان ناقض وضوء:

مرض سیلان ناقض وضوء:

اور سنیے!کتنے لوگ بتاتے ہیں کتنے کتنے ایک دو نہیں، کتنی خبریں ہیں سینکڑوں، وہ یہ کہتے ہیں کہ خواتین میں جو مرض ہے سَیَلان الرَّحِم(یہ لفظ ”سَیَلان“ ہے ”سَیْلان“ نہیں سَیَلان، جَرَیان)عورتیں بوڑھی ہوگئیں اور اس مرض کے بارے میں یہی سمجھتی رہیں کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، واہ مسلمان واہ! یہ ایک دو خبریں نہیں،کتنی بتاؤں کتنی مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ جو پانی بہتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے جاری کردیا تو اس سے وضوء کیوں ٹوٹے گا، سمجھتی ہیں کہ اس میں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں دخل اندازی ہے، پانی آرہا ہے آنے دو ہم کیوں وضوء کریں۔ خوب سمجھ لیں دوسروں کو بھی بتائیں کہ یہ پانی نجس ہے۔ بہشتی زیور میں رطوبتِ فرج کی طہارت کے بارے میں جو اختلاف لکھا ہے وہ فرج کی مقامی رطوبت کے بارے میں ہے جبکہ سیلان الرحم کا پانی مقامی رطوبت نہیں بلکہ اوپر سے رحم سے اترتا ہے وہ بالاتفاق نجس ہے اس کی نجاست میں کوئی اختلاف نہیں۔خواتین بہشتی زیور کے مسئلے کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے، اپنی نمازیں ضائع کررہی ہیں اس لیے اس مسئلہ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں۔

اگرچہ یہ بیان زیادہ تر عورتوں کی اصلاح کے بارے میں ہے مگر چونکہ نماز سے متعلق ہے اس لیے آخر میں ایک مہلک متعدی مرض اور اس کے علاج کے بارے میں بھی بتادوں جس میں عورتوں سے زیادہ مرد مبتلا ہیں۔

نماز میں ہاتھ ہلانا:

نماز میں ہاتھ ہلانا:

آج کا مسلمان بڈھا ہوجاتا ہے مگر نماز میں ہاتھ ہلانا نہیں چھوڑتا۔مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ہلانا بہت سخت گناہ ہے اور اگر تین بار جلدی جلدی ہاتھ ہلادیا تو نماز ٹوٹ جائے گی،نئے سرے سے نیت باندھے۔جلدی کا مطلب یہ ہے کہ دوحرکتوں کے درمیان تین بار سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کی مقدار توقف نہ کیا جائے، اس سے جلدی ہاتھ ہلادیا جائے۔ اردو کی کتابوں میں تین تسبیح یا تین بار سبحان اللہ لکھا ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ سمجھ لیں کہ نماز کے مسائل میں جہاں بھی تسبیح ہوگا اس سے مراد سبحان اللہ نہیں بلکہ سبحان ربی العظیم یا سبحان ربی الاعلیٰ ہے یعنی وہ تسبیح مراد ہے جو نماز میں رکوع یا سجدے میں پڑھی جاتی ہے اور اگر بلا ضرورت ایک بار ہاتھ ہلادیا تو وہ مکروہ تحریمی ہے، فقہ کے قاعدے کی رو سے اس کا حکم یہ ہونا چاہیے کہ نماز لوٹائے کیونکہ ہر وہ نماز جو کراہت تحریمیہ کے ساتھ اداء کی جائے واجب الاعادہ ہوتی ہے۔ یہ مرض بہت عام ہے اور کتنے لوگ مدت العمر تک ایسے نمازیں پڑھتے رہے ہیں۔چونکہ لوگوں میں غلبہ جہالت ہے اس لیے شاید اللہ تعالیٰ قبول فرمالیں، شاید گزشتہ غلطیوں کو معاف فرمادیں۔میرے اللہ کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ جماعت کی نماز میں کوئی ہاتھ ہلاتا ہے تو مجھے نظر آجاتا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد جب کسی ہاتھ ہلانے والے سے پوچھتا ہوں کہ آپ نے نماز میں ہاتھ کیوں ہلایا ہے؟تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو پتا ہی نہیں چلا۔ ایسی عادت ہوگئی ہے کہ پتابھی نہیں چلتا۔ یہ سوچا کریں کہ کس کے دربار میں کھڑے ہیں، کتنا بڑا دربار ہے،احکم الحاکمین کا دربار، اس کے دربار کی کتنی عظمت ہے کتنی عظمت، دنیا میں کسی چھوٹے سے چھوٹے دربار میں پہنچ جائیں توہمہ تن ایسے متوجہ ہوتے ہیں کہ کیا مجال ہے کہ ذرا بھی حرکت ہوجائے۔ اگر اللہ کی عظمت، اللہ کے دربار کی عظمت مسلمان کے دل میں ہوتی تو یہ کیسے باربار ہاتھ ہلاتا، اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں، یا اللہ! اپنی اور اپنے دربار کی ایسی عظمت عطاء فرماجس پر تو راضی ہوجائے۔

پہلی بات تو یہ کہ یہ عادت پڑتی کیسے ہے، پھر پکی کیسے ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بچوں کو نماز سکھائی جاتی ہے تواس وقت نہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ نماز میں حرکت نہ کریں۔ بچے جب نماز میں ہاتھ ہلاتے ہیں تو انہیں روکا نہیں جاتا۔دوسرے یہ کہ بچے بڑوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ ہی سمجھتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ ہلانے سے کوئی حرج نہیں۔ پچھلے جو حالات گزرگئے،توبہ کیجئے اور آیندہ کے لیے اسی مجلس میں بیٹھے بیٹھے عزم کرلیں کہ بچوں کونماز سکھاتے وقت انہیں بتائیں گے کہ نماز میں کھڑے ہونے کا طریقہ کیا ہے، پوری توجہ اللہ کی طرف رہے، کسی عضو میں کسی قسم کی حرکت نہ ہونے پائے۔

توجہ سے نماز پڑھنے کا طریقہ:

توجہ سے نماز پڑھنے کا طریقہ:

اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ مرکوز رکھنے کے یہ طریقے ہیں کہ جوالفاظ پڑھ رہے ہیں ان کی طرف توجہ رکھنے کی کوشش کریں اور حالتِ قیام وحالت رکوع میں مخصوص جگہ پر نظر رکھیں اس سے مقصد یہ ہے کہ توجہ مرکوز رہے مگر توجہ رکھنا لوگوں کا مقصد ہی نہیں اس لیے ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں۔ایک دعاء طوطے کی طرح رٹادی جاتی ہے،نماز شروع کرنے سے پہلے بلاسوچے سمجھے اسے پڑھتے رہتے ہیں۔

اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیفًا وَّماَاَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ

ترجمہ: ”میں نے اپنا چہرہ سب سے یک سو ہوکر اس ذات کی طرف پھردیاجس نے آسمان وزمین بنائے ہیں۔اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں“۔ (انعام: ۹۷)

یہ دعاء نمازوں سے پہلے پڑھا کرتے ہیں، عام طور پر فرض نمازوں سے پہلے بہت لوگ پڑھتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ کیوں پڑھی جاتی ہے،اس دعاء کا مقصد یہ ہے کہ نمازی کی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجائے، جب اس کا مفہوم سمجھ کر پڑھیں گے تو متوجہ ہوجائیں گے،اس دعاء کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے اپنا رخ صرف رب العالمین کی طرف کرلیا، اپنے قلب کی توجہ،اپنے قلب کا رخ بھی رب العالمین کی طرف کیا،اس طرح نماز شروع کرنے سے پہلے توجہ کو مرکوز کردیا مگر یہ دعاء طوطے کی طرح رٹ لیتے ہیں توجہ نہیں کرتے۔ جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے ہیں،لمبی چوڑی نیت کرتے ہیں جس کی ضرورت بھی نہیں اتنی لمبی نیت،اتنی لمبی نیت کہ اسے پڑھتے پڑھتے درمیان میں لوگ بھول بھی جاتے ہیں توپھر نئے سرے سے کہتے ہیں : چار رکعت نماز فرض،فرض اللہ کے،وقت عصر کا،پیچھے اس امام کے،پھر بیچ میں بھول جاتے ہیں تونئے سرے سے شروع کرتے ہیں فرض ……فرض……فرض اللہ کے،پیچھے اس امام کے۔ایک وہمی کا قصہ مشہور ہے کہ جب ”پیچھے اس امام کے“ کہتا تو اسے خیال ہوتا کہ ”اس امام کہنے سے پوری تعیین نہیں ہوئی اس لیے ساتھ امام کی طرف انگلی کا اشارہ بھی کرتا، پھر خیال ہوتا کہ اشارہ صحیح نہیں ہوا تو امام کے پاس جاکر اس کی کمر زور سے انگلی چبھو کر بہت زور سے کہتا: ”پیچھے اس امام کے“۔اتنی لمبی نیت کی ضرورت نہیں، زبان سے نیت کچھ ضروری نہیں،دل میں نیت کافی ہے۔اس کا معیار سمجھ لیجئے،معیار یہ ہے کہ نماز کی طرف پوری طرح متوجہ ہوں۔ مثال کے طور پر جب آپ عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو اچانک کسی نے پوچھ لیا کہ آپ کیا کرنے لگے ہیں تو آپ بلا سوچے سمجھے فوراً جواب دے سکیں کہ عصر کی نماز پڑھنے لگا ہوں، بس یہ ہے نیت،اس کا خیال رکھیں، اتنا تو ہوتا ہی ہے،آپ گھر سے چلے مسجد میں پہنچے، جماعت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کیا جب کھڑے ہوں گے،اقامت ہوگی تو آپ اتنا نہیں بتاسکیں گے کہ آپ کیا کرنے لگے ہیں؟ دل میں اتنا سا استحضار کافی ہے اور پھر یہ حماقت دیکھیے کہ قبلہ کی طرف منہ کرنا شرط قولی نہیں عملی ہے،زبان سے آپ نے کہہ دیا کہ منہ میرا قبلہ شریف کی طرف اور کرلیا مشرق کی طرف تو آپ ہزار بار زبان سے کہتے رہیں نماز نہیں ہوگی اور اگر آپ نے قبلہ کی طرف رخ کرلیا مگر زبان سے ایک بار بھی نہیں کہا تو نماز ہوجائے گی۔یہ کام کہنے کے نہیں کرنے کے ہیں اور اگر کوئی یہ ضروری سمجھتا ہے کہ کرنے کے کاموں کو زبان سے بھی کہا جائے تو پھر جواور دوسری شرائط ہیں انہیں بھی زبان سے اداء کیا کرے جیسے میں نے غسل کرلیا ہے،اس بعد وضوء ٹوٹ گیا تھا وہ بھی کرلیا ہے،کپڑے پاک پہنے ہیں،جس زمین پر کھڑا ہوں وہ بھی پاک ہے اور منہ طرف قبلہ شریف کے، اس طرح تمام شرائط کو زبان سے اداء کیا کریں، یہ کیا کہ بعض جملے کہتے ہیں اور بعض نہیں کہتے۔یہ سوچیں کہ کس کے دربار میں کھڑ ے ہیں،جتنی دیر لمبی چوڑی نیتوں میں وقت ضائع کرتے ہیں کام کیا کریں کام۔

نفس کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسے ایک ہفتہ مہلت دی جائے،ہر نماز سے پہلے سوچا کریں کہ کس کے دربار میں کھڑے ہیں، پھر نماز کے دوران خوب توجہ رکھیں کہ کہیں اللہ کی جانب سے توجہ ہٹی تو نہیں،ہاتھ وغیرہ تو ہلانے نہیں شروع کردے،ایک ہفتہ تک سب نمازیں اسی طرح پڑھیں پھر دیکھیں فائدہ ہوا یا نہیں مگر مشکل یہ ہے کہ جب آپ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ہاتھ ہلائے ہیں یا نہیں ہلائے تو فائدے کا کیسے پتا چلے، لیکن انسان جب محنت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے،تجربہ کرکے دیکھیں ان شاء اللہ تعالیٰ پتا چلے گا اور اگر کسی کو پتا ہی نہیں چلتا یا پتا تو چل جاتا ہے مگر اس کے باوجود ہاتھ ہلتے رہتے ہیں تو اس کے لیے دوسرا نسخہ لیجیے،جیسے نماز شروع کریں تو کسی دوسرے شخص سے کہہ دیں کہ پاس بیٹھے رہو اور میری طرف دیکھتے رہو کہ میں نے نماز ہاتھ ہلائے یا نہیں، جب میں سلام پھیر لوں تو مجھے بتاؤ،ایک ہفتہ یہ نسخہ استعمال کریں۔ مرض بہت کہنہ ہے، بہت کہنہ، بہت کہنہ، بہت موذی مرض ہے اس لیے میں درجہ بدرجہ اصلاح کے نسخے بتارہاہوں، بہت پرانا مرض ہے اور وبا کی طرح لوگوں میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر دوسرے نسخے سے بھی فائدہ نہ ہو تو تیسرا نسخہ بتاتا ہوں تیر بہدف،وہ کبھی خطاء نہیں جاتا، بلکہ اگر یہ تیسری گولی پہلی مرتبہ نگل لیں تو درمیان میں آپ کے دوہفتے ضائع ہونے سے بچ جائیں گے اور اتنی محنت اور مشقت بھی نہیں اٹھانی پڑے گی، ذرا سی ہمت کرکے تیسرے نمبر پر جو گولی ہے اسے پہلی مرتبہ میں نگل لیں پھر دیکھیں کتنا فائدہ ہوتا ہے۔انسان جسمانی صحت کے لیے انجکشن لگواتا ہے،آپریش کرواتا ہے، اگر اللہ کی عظمت دل میں بٹھانے کے لیے تھوڑی سی کڑوی دواء استعمال کرلی جائے تو فائدہ ہی ہے، تھوڑی سے کڑوی دواء بتاتا ہوں،ذرا سی،زیادہ نہیں، وہ یہ کہ کسی کو پاس بٹھالیں اور اس سے کہیں کہ جیسے ہی میں نماز میں ہاتھ ہلاؤں تو آپ میرا کان پکڑ کر کھینچیں۔ مہربانی کیجئے!میری خاطر اپنا تھوڑا سا وقت صرف کر دیجیے۔ آپ میرے رشتہ دار ہیں، دوست ہیں، محبت کا تعلق ہے،حق محبت اداء کیجیے، مجھے جہنم سے بچانے کے لیے، میرا جوڑ میرے اللہ سے لگانے کے لیے، میری خاطر ذرا سی قربانی دے دیں، میرے پاس بیٹھ جائیں، جب میں نماز میں ہاتھ ہلاؤں تو آپ میرا کان پکڑ کر کھینچ دیں۔ وہ جتنی زور سے کھینچے گا اتنی ہی جلدی فائدہ ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ نسخہ استعمال کرنے کے بعد مجھے اطلاع دیں کہ مرض میں کچھ افاقہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ آیندہ اس بارے میں اطلاع ضرور دیں کہ جتنی بار آپ کاکان کھینچا گیا حرکت میں اتنی کمی ہوئی یا نہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور اپنی محبت عطاء فرمائیں،اپنے دربار کا احترام و اکرام کرنے کے توفیق عطاء فرمائیں، فکرآخرت عطاء فرمائیں۔

وصل اللّٰھم وبارک وسلم علیٰ عبدک ورسولک

محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین والحمدللہ رب العٰلمین

Book Options

Author: Shaykh Rasheed Ahmad Ludhyanvi

Leave A Reply