چار کام  سرکار دو عالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں مسلمانوں کے کرنے کے لئے چار عمل ارشاد فرمائے ہیں۔

کتاب کا نام: رمضان المبارک کا آخری دن اور دوزخ کا تزکرہ

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

رمضان المبارک کا آخری دن

 اور دوزخ کا تذکرہ

حضرت مولانا مفتی عبد الرئوف سکھروی مدظلہم
میمن اسلامک پبلشرز
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں
خطاب :حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب سکھروی مدظلہم
ضبط و ترتیب :مولانا محمد عبد اللہ میمن صاحب
تاریخ:۰۳ رمضان  ۹۱۴۱  ؁ھ
مقام:جامع مسجد بیت المکرم، گلشن اقبال، کراچی
ناشر:میمن اسلامک پبلشرز
باہتمام:ولی اللہ میمن
قیمت : روپے
کمپوزنگ:فاروق اعظم کمپوزرز
٭میمن اسلامک پبلشرز ۸۸۱/ ۱۔ لیاقت آباد، کراچی ۹۱
٭دارالاشاعت، اردو بازار، کراچی
٭ادارہ اسلامیات، ۰۹۱۔ انارکلی، لاہور ۲
٭مکتبہ دارالعلوم، کراچی ۴۱
٭ادارہ المعارف، دارالعلوم، کراچی ۴۱
٭کتب خانہ مظہری، گلشن اقبال، کراچی
٭مولانا اقبال نعمانی صاحب، آفیسر کالونی گارڈن، کراچی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

رمضان  المبارک  کا  آخری  دن

 اور  دوزخ  کا  تذکرہ

الحمد اللّٰہ  نحمدہ  و  نستعینہ  و  نستغفرہ  و نؤمن  بہ  ونتوکل  علیہ

و  نعوذ  باللّٰہ  من  شرور  انفسنا  و  من  سیئات  اعمالنا  من  یھدہ  اللّٰہ

فلا   مضل   لہ   و من  یضللہ فلا   ھادی  لہ  و  نشھد  ان   لا   الہ   اللّٰہ

وحدہ   لا   شریک   لہ   و   نشھد  ان   سیدنا  و  مولانا   محمدا   عبدہ

و  رسولہ  صلی  اللّٰہ  تعالیٰ  علیہ  و  علی آلہ  و  اصحابہ و بارک وسلم

  تسلیماً  کثیرا  کثییرا۔

   اما بعد!

فا  اعوذ  با اللّٰہ  من  الشیطٰن  الرجیم۔  بسم  اللّٰہ  الرحمٰن  الرحیم۔

(یا یھا  الذین  آمنوا  قوا  انفسکم  و  اھلیکم  نارا  وقودھا  الناس

 والحجارۃ  علیھا ملئکۃ  غلاظ  شداد  لایعصون  اللّٰہ  ما  امرھم

 و یفعلون  ما  یؤمرون ہ )  (التحریم :  ۶)

”  ائے  ایمان  والو!   تم  اپنے  کو  اور   اپنے  گھر  والوں  کو  اس  آگ  سے  بچاؤ  جس  کا  ا یندھن  آدمی  اور  پتھر  ہیں،   جس  پر  تند خو  مضبوط  فرشتے  ہیں  جو  خدا  کی  نافرمانی  نہیں  کرتے،  کسی  بات  میں  جو  ان  کو  حکم  دیتا  ہے، اور  جو  کچھ  ان  کو  حکم  دیا  جاتا  ہے  اس  کو  بجا  لاتے  ہیں “۔

میرے قابلِ احترام بزرگو! یہ جمعہ اس ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہے اور اس کا بھی احتمال ہے کہ یہ اس کا آخری دن ہو، اس لئے ہم سب کو اس آخری دن کی بہت قدر کرنے کی ضرورت ہے، اس کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنے، اللہ کا ذکر کرنے اور اس کی عبادت کرنے اور خاص طور پر سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر گناہوں کو چھوڑنے کا عہد کرنے کا دن ہے۔ لہٰذا اس دن گڑگڑا کر آہ و زاری کرکے اللہ تعالیٰ کے گھر میں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں اور اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کرانے کی سرتوڑ کوشش کریں۔

چار کام  سرکار دو عالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں مسلمانوں کے کرنے کے لئے چار عمل ارشاد فرمائے ہیں۔

(۱)ایک کثرت سے لا الہ الا اللہ پڑھنا یعنی چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت زبان پر لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہکا ورد رکھنا۔

(۲) دوسرے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل سے توبہ استغفار کرتے رہنا۔

(۳)تیسرے اللہ جل شانہ سے جنت مانگنا اور تہہ دل سے گڑگڑا کر، محتاج بن کر جنت کی درخواست کرنا۔

(۴)چوتھے جہنم سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا اور رو رو کر یہ دعا کرنا کہ ائے اللہ اپنی رحمت سے ہمیں دوزخ سے

آزاد فرما۔

جہنم خوفناک ہے 

جہنم خوفناک ہے

یہ چوتھا عمل دوزخ سے پناہ مانگنے کا بہت ہی اہم اور بہت ہی قابلِ توجہ ہے اور اس وجہ سے اور زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ

ہماری اس کی طرف توجہ نہیں کہ جہنم کیا ہے؟ یہ بڑی خوفناک جگہ کا نام ہے۔ ہم لوگ دنیا میں کچھ ایسے ڈوبے ہوئے  یں کہ بخدا ہمیں نہ عذابِ قبر سے ڈر لگتا ہے اور نہ عذابِ جہنم سے۔ ہم پر ایک بے حسی ایسی چھائی ہوئی ہے کہ صبح سے شام تک گناہ کئے چلے جا رہے ہیں، نہ توبہ کرتے ہیں نہ معافی مانگتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آخرت سے غافل ہو کر ہم زبردستی اپنے آپ کو جہنم میں دھکیل رہے ہیں تو شاید مبالغہ نہ ہو۔ بہر حال، جہنم کی تھوڑی سی تفصیل عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس لئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ رمضان المبارک کا شاید آخری دن ہو، اگر یہ آخری دن ہوا تو آج کا دن وہ دن ہے جس میں ازروئے حدیث افطار کے وقت اللہ پاک تقریباً ایک کروڑ مسلمانوں کو دوزخ سے آزاد فرمائیں گے۔ اور یہ تعداد ہمارے سمجھنے سمجھانے کے لئے بتلائی ہے ورنہ اصل مقصود لا تعداد لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کرنا ہے ۔  لہٰذا ایسا نہ ہو کہ رمضان شریف گزر جائے اور ہماری بخشش نہ ہو اور ہم اپنی غفلت کی وجہ سے آزادی حاصل نہ کرسکیں۔ اس لئے میں چاہتا  ہوں کہ تھوڑا سا جہنم کا حال آپ کے سامنے رکھوں اور اس سے آزادی کو جو طریقہ بتلایا گیا ہے وہ عرض کر دوں، اس کے بعد  پھر ہم میں سے  ہر آدمی عاقل بالغ ہے اپنے کئے کا ہر ایک ذمہ دار ہے، جس کا جی چاہے اللہ پاک سے اس کی جنت مانگ لے اور دوزخ سے پناہ مانگ لے۔

جہنم کی آگ کی تیزی

جہنم کی آگ کی تیزی

ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین سے فرمایا، ائے جبرئیل! مجھے ذرا جہنم کی کیفیت بتاؤ! جبرئیل امین نے عرض کیا، ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جہنم کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا (اور یہاں تک اس کو جلایا کہ اس کی آگ سرخ رنگ کی ہو گئی، اس کے بعد پھر ایک ہزار سال تک اس کو تیز کیا یہاں تک کہ (اس کی آگ) زرد رنگ کی ہو گئی، پھر ایک ہزار سال تک جہنم کی آگ کو جلایا، بھڑکایا اور تیز کیا یہاں تک کہ اس کی آگ تاریک رات کی طرح سیاہ ہوگئی، اب اس کی حالت یہ ہے کہ نہ تو اس کی لپٹیں کم ہوتی ہیں نہ اس کے انگارے بجھتے ہیں

(یعنی تین ہزار سال تک جہنم کی آگ کو تیز کیا یہاں تک کہ انتہائی تیز ہوگئی)۔

جہنم کی آگ کی تیزی کا آپ اس بات سے بھی اندازہ کریں کہ ایک مرتبہ اللہ جل شانہ نے جبرئیل امین کو مالک جہنم

کے پاس بھیجا کہ جاؤ اور ان سے کچھ آگ ہمارے آدم کے لئے لے کر آؤ تاکہ وہ دنیا میں اس پر کچھ کھانا وغیرہ پکا سکیں۔ جبرئیل امین مالک جہنم کے پاس جہنم میں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: تھوڑی سی آگ چاہئے، انہوں نے پوچھا کہ حضرت کتنی آگ دے دوں؟

جبرئیل امین نے فرمایا کہ ایک چھوہارے کے برابر دے دو، تو مالک جہنم نے عرض کیا کہ حضرت! اگر آپ ایک چھوہارے کے برابر جہنم کی آگ دنیا میں لے گئے تو اس کی گرمی سے ساتوں آسمان اور ساتوں زمین پگھل جائیں گے تو  جبرئیل امین نے فرمایا اچھا اگر اس میں اس قدر تیزی ہے تو تو ایسا کرو چھوہارے کی ایک گٹھلی کے برابر دے دو، تو مالک جہنم نے اس پر عرض کیا کہ حضرت اگر ایک چھوہارے کی گٹھلی کے برابر آپ جہنم کی آگ دنیا میں لے گئے تو اس دنیا میں کبھی بارش کا ایک قطرہ ٹپکے گا نہ کبھی زمین سے سبزہ اُگے گا، اس پر جبرئیل امین نے اللہ

رب العزت سے عرض کیا کہ یا اللہ! میں (دنیا کے لئے) کتنی آگ لے لوں؟ حق تعالیٰ نے فرمایا ایک ذرہ کے برابرلے لو۔ چنانچہ جبرئیل امین  نے جہنم کی آگ کا ایک ذرہ لے لیا اور اس کو ستر مرتبہ نہر میں غوطہ دیا، بجھایا اور ٹھنڈا کیا، اس کے بعد اس کو دنیا میں حضرت آدم علیہ السلام کے پاس لائے اور دنیا کے سب سے بلند اور مضبوط پہاڑ کی چوٹی پر اس کو رکھا، اس وقت بھی اس میں اتنی گرمی اور تیزی تھی کہ اس ایک ذرے کی گرمی اور تیزی سے وہ مضبوط پہاڑ پگھل گیااور اس ذرے کا دھواں پتھروں اور لوہے میں جذب ہو گیا، پھر وہ ذرہ واپس جہنم میں واپس کر دیا گیا۔

اب دنیا میں جو آگ ہے جس پر ہم ایک منٹ بھی ہاتھ نہیں رکھ سکتے، ایک منٹ بھی دنیا کی آگ ہم نہیں برداشت

نہیں کرسکتے، یہ ایک ذرے کا دھواں ہے۔ آج وہی آگ ہمارے گھروں میں زیر استعمال ہے جس سے لوہا بھی پگھل جاتا ہے، پتھر بھی چونا بن جاتا ہے تو جہنم کیسی ہولناک ہوگی؟ جس کا ایک ذرہ جس کو ستر مرتبہ پانی میں ٹھنڈا کیا گیا اور پھر واپس بھی کر دیا گیا تب بھی دنیا کی آگ کا یہ حال ہے کہ کوئی انسان اس کی تاب نہیں رکھتا تو غور کیجئے کہ جہنم کی آگ کیسے برداشت ہو گی۔ العیاذ باللہ، العیاذ باللہ۔

آپ ان باتوں کو توجہ سے سن لیجئے، یہ کھیل کی باتیں نہیں ہیں، یہ تماشے کی باتیں نہیں ہیں، یہ سچی باتیں ہیں، کیونکہ

ہمارا ایمان ہے کہ جہنم برحق ہے، اس کی آگ برحق ہے، قرآن و حدیث کی جہنم کے بارے میں اور جنت کے بارے میں جتنی باتیں ہیں، وہ بالکل سچ ہیں۔

جہنم کا سب سے ہلکا عذاب

جہنم کا سب سے ہلکا عذاب

ایک اور روایت میں سرکار دوعالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کا سب سے ہلکا عذاب یہ ہے کہ جہنمی کو (جہنم سے) دو جوتیاں (نکال کر) پہنا دی جائیں گی (وہ خود جہنم میں نہیں ہوگا، صرف اس کے پیروں میں جہنم کی دو جوتیاں ہوں گی) لیکن ان دو جوتیوں کی وجہ سے اس کے دل و دماغ کی یہ حالت ہو گی کہ وہ ہانڈی کی طرح پک رہا ہوگا اور اس کے پکنے اور اُبلنے کی آواز آس پاس  کے پڑوسیوں کو (صاف) سنائی دے گی۔ العیاذ باللہ۔ اس کی داڑھیں انگارہ بنی ہوئی ہوں گی، اس کے ہونٹ شعلہ بنے ہوئے ہوں گے،  اس کے پیٹ کی آنتوں اور قدموں سے آگ کی لپٹیں نکل رہی ہوں گی اور وہ اپنے بارے میں سمجھ رہا ہوگا کہ اسے جہنم کا سب سے زیادہ ہولناک عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ اس کو سب سے ہلکا عذاب ہو رہا ہوگا۔

ٹخنوں سے نیچے شلوار کرنے کا عذاب 

ٹخنوں سے نیچے شلوار کرنے کا عذاب

صرف دو جوتیاں پہنانے کا یہ حال ہوگا اور خدانخواستہ جس کے پیر اور ٹخنے ہی جہنم کے اندر ہوں تو اس کی کیا حالت ہوگی؟ اور کس کے دونوں ٹخنے جہنم کے اندر ہوں گے؟ تو سنئے! وہ مسلمان مرد جو نماز کے اندر بھی اور نماز  ے باہر بھی، گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی، دکان میں بھی آفس میں بھی، فیکٹری میں بھی، کارخانے میں بھی، شہر میں بھی اور شہر کے باہر بھی ہر جگہ اپنی شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے، اس کے دونوں پیر مع ٹخنوں کے جہنم کے اندر ہوں گے۔ یہ بخاری شریف کی حدیث سے ثابت ہے جس کی احادیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ باتیں بالکل برحق ہیں، کب تک ہم اس دنیا کی خاطر اپنے آپ کو جہنم کے اندر داخل کرنے والے کام کرتے رہیں گے۔ سوچ لینا چاہئے! اور جو شخص سارا ہی جہنم میں داخل ہوگا اس کا کیا حال ہوگا؟

ہماری بے حسی

ہماری بے حسی

سرکار دوجہاں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بھی سیر فرمائی ہے، جہنم کی بھی سیر فرمائی ہے اسی  لئے آپ ﷺسے بڑھ کر جہنم سے ڈرانے والا کوئی نہیں ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے اپنی امت کو جہنم سے بہت ڈرایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ میری مثال ایسی ہے کہ میں تمہیں زبردستی کھینچ کھینچ کر جہنم سے بچاتا ہوں اور تم ہو کہ ہاتھ چھڑا چھڑا کر زبر دستی جہنم میں داخل ہو رہے ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہنم سے بچانے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے ہیں کہ دیکھو فلاں فلاں کام گناہ ہیں، یہ بھی گناہ ہے یہ بھی گناہ ہے اور یہ گناہ بھی دوزخ میں لے جانے والا ہے اور یہ گناہ بھی دوزخ میں لے جانے والاہے، یہ حرام کام ہے یہ ناجائز ہے یہ کبیرہ گناہ ہے اس سے بچو اس سے بچو، یہ سب جہنم میں اور دوزخ میں لے جانے والے کام ہیں۔اور باوجود سننے کے اور باوجود جاننے کے، ہمارے کانوں پر جوں نہیں رینگتی اور پھر دیدہ دانستہ کبائر کا ارتکاب کئے چلے جا رہے ہیں۔ معلوم ہے کہ یہ فعل حرام ہے، معلوم ہے کہ یہ ناجائز ہے، معلوم ہے کہ یہ خلاف شرع ہے، گناہ کبیرہ ہے، جہنم کا عذاب خوفناک ہے لیکن ماحول کی خاطر دوستوں کی خاطر بیوی کی خاطر بہن بھائیوں کی خاطر احباب کی خاطر اپنے آپ کو جہنم میں داخل کرنے والے کام گوارہ ہیں۔

جہنم کے سات دروازے

جہنم کے سات دروازے

ایک مرتبہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نبی اکرم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ائے جبرئیل! جہنم کے جو دروازے ہیں وہ اسی طرح (ایک سطح پر کھلتے) ہیں جس طرح ہمارے مکانات کے دروازے (ایک سطح پر کھلتے) ہیں یا اوپر نیچے کھلتے ہیں؟ توحضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے جواب دیا کہ دوزخ کے دروازے اوپر نیچے کھلتے ہیں اور جہنم سات منزلہ ہے اور ہر دو منزل کے درمیان سات ہزار سال کی مسافت ہے، ہر نچلی منزل بہ نسبت اوپر والی منزل کے زیادہ شدید گرم ہے (اسی طرح سب سے زیادہ ہولناک عذاب سب سے نچلی منزل میں ہے اس سے کم دوسری اس سے کم تیسری سب سے کم ساتویں منزل میں ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ائے جبرئیل! یہ ان سات منزلوں میں کون کون سے دوزخی داخل کئے جائیں گے اور رکھے جائیں گے؟ تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ جہنم کی سب سے نیچی والی منزل میں منافقین کو ڈالا جائے گا، اس کے بعد دوسری منزل میں مشرکین کو ڈالا جائے گا تیسری منزل میں صابیوں کو ڈا لا جائے گا، قرآن کریم میں ہے:

 والصبئین  والنصاری یہ  بھی  ایک  کافر  فرقہ  گزرا  ہے۔  غر ض  کہ اس  میں  صابی  ڈالے  جائیں گے،  چوتھی  منزل  میں مجوسیوں  کو  ڈالا جائے گا یعنی آتش پرستوں کو۔ اور مجوسیوں کا شعار ہے ڈاڑھی منڈانا، مجوسیوں کا شعار ہے موٹی موٹی مونچھیں رکھنا، اس کو بھی یاد رکھنا  چاہئے کہ ہم بھی ایسا کرکے کن کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اور پانچویں منزل کے اندر یہودیوں کو ڈالا جائے گااور چھٹی منزل میں  عیسائیوں کو داخل کیا جائے گا۔ یہاں تک بیان کرکے حضرت جبرئیل علیہ السلام خاموش ہو گئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ائے جبرئیل علیہ السلام ساتویں منزل کے بارے میں آپ نے کچھ نہیں بتلایا کہ اس میں کون داخل ہوگا؟ جبرئیل امین علیہ السلام چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس سے واقف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمّت پر بے انتہا شفقت ہے اور ان کی ادنیٰ سی تکلیف

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ناقابل برداشت ہے اس لئے آگے بیان کرنے سے خاموش ہو گئے۔ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ائے جبرئیل! ساتویں منزل کے رہنے والوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ تو حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھنا ہی چاہتے ہیں تو بتلا دیتا ہوں کہ اس درجے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ مسلمان جو دنیا میں گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے رہے اور پھر بغیر توبہ کئے ہی مرگئے، ان کو اس ساتویں منزل میں داخل کیا جائے گا۔ العیاذ باللہ، العیاذباللہ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنتے ہی بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو فرمایا کہ ائے جبرئیل! تم نے تو میری مصیبت

بڑھا دی اور میرے غم کو زیادہ کر دیا، کیا واقعی میری امت کے گناہ کبیرہ کرنے والے اس میں داخل کئے جائیں گے؟ حضرت جبرئیل امین نے عرض کیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ لوگ جو کبیرہ گناہوں سے توبہ نہیں کریں گے، کبائر سے نہیں بچیں گے اور توبہ نہیں کریں گے اور توبہ کئے بغیر مر جائیں گے وہ اس ساتویں منزل میں جہنم کے اندر داخل کئے جائیں گے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جبرئیل امین بھی رونے لگے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ائے جبرئیل! تم کیوں روتے ہو تم تو روح الامین ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ میں کسی آزمائش میں اس طرح مبتلا نہ ہوں جاؤں جس طرح ہاروت

اور ماروت مبتلا ہوئے تھے، مجھے اس آزمائش کے خوف نے رلایا ہے۔ پھر اللہ پاک نے وحی بھیجی ائے جبرئیل اور ائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یں نے تم کو جہنم سے دور کر دیا ہے لیکن پھر بھی بے خوف نہ رہنا۔

رحمتہ العالمین سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے جہنم میں جانے کے غم سے رو رہے ہیں اور ہم کبیرہ گناہ کرنے کے عادی ہو رہے ہیں۔ اب رمضان شریف دیکھئے بالکل کنارے آ لگا ہے، ہائے افسوس! ہم نے اب بھی خالص توبہ نہ کی، لہٰذا جلدی توبہ کریں۔

جہنم کے سانپ اور بچھو

جہنم کے سانپ اور بچھو

جہنم کے بارے میں ایک روایت میں ہے کہ جہنم کے اندر سانپ اونٹ کی گردن کی طرح لمبے اور موٹے موٹے ہیں  اور بچھو خچر کی طرح ہیں یعنی خچر کے برابر بچھو ہیں اور اونٹ کی گردن کے برابر سانپ ہیں اور وہ اہل جہنم کا تعاقب کریں گے اور ان کا پیچھا کریں گے، آگے آگے جہنمی دوڑ رہے ہوں گے پیچھے پیچھے سانپ اور بچھو اور آخر یہ ان کو پکڑ لیں گے۔ العیاذ باللہ، العیاذ باللہ۔ اور پیشانی کے  بالوں سے دوزخیوں کو ڈسنا شروع کریں گے اور پیر کے انگوٹھے تک ڈستے چلے جائیں گے۔ العیاذ باللہ۔ اور یہ جب کسی کے ایک مرتبہ ڈسیں گے تو چالیس سال تک اس کی تکلیف محسوس ہو گی۔

جہنم سے حق تعالیٰ کی پناہ کا طریقہ

جہنم سے حق تعالیٰ کی پناہ کا طریقہ

اس جہنم سے ماہ رمضان میں نبی اکرم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگنے کی تاکید فرمائی ہے کہ رمضان شریف  میں تم اللہ پاک سے جہنم سے پناہ مانگو، جہنم سے آزادی مانگو، جہنم سے اپنی گردن آزاد کراؤ، اپنے گھر والوں، دوست احباب، عزیز و اقارب کے  لئے گڑگڑا کر جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرو۔ یہ پورا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے جس کا آج یہ آخری دن اور آخری دن کا آدھا دن باقی ہے۔ لہٰذا جلدی جلدی توبہ کریں۔ اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہ پر دل میں شرمندہ ہو، دل میں اپنے کئے پر پچھتائے، نادم ہو جائے اس کا دل دکھے کہ ہائے میں نے کیسے یہ گناہ کیا، ہائے  یہ گناہ مجھ سے کیوں ہو گیا۔ پھر ندامت میں ڈوب کر رونے والے کی سی صورت بنا کر اللہ تعالیٰ سے گڑگڑائے اور اس گناہ کی معافی مانگے اور اس گناہ کو فوراً چھوڑ دے۔ یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ توبہ کے  اندر فی الحال گناہ چھوڑنا بھی ضروری ہے۔ پھر یہ عرض کرئے کہ میرے اللہ! میں عہد کرتا ہوں کہ میں یہ گناہ نہیں کروں گا، ائے اللہ مجھے معاف کر  دیجئے یا اللہ مجھ سے درگزر کر دیجئے، اگر آپ نے مجھے نہ بخشا تو میں کہیں کا نہ رہوں گا۔ توبہ کی اس حقیقت پر اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے  اپنے کبائر سے مکمل توبہ کی ہی نہیں، رمضان شریف کا رحمت والا عشرہ کنارے لگنے والا ہے لیکن ہم اب تک اپنے گناہوں سے پوری طرح باز  نہیں آئے، جو جس گناہ میں مبتلا ہے وہ زبان سے تو استغفر اللہ، استغفر اللہ کہتا ہے لیکن دل میں کوئی تہیّہ نہیں ہے اس گناہ کو چھوڑنے کا۔  مثلاً ڈاڑھی مونڈنے کا فعل حرام اور کبیرہ گناہ ہو رہا ہے تو پورا رمضان جاری ہے، رمضان کے بعد بھی ہوتا رہتا ہے تو پھر ہم نے کہاں  توبہ کی؟  مونچھیں موٹی موٹی رکھنے کا اگر طریقہ اپنایا ہے تو رمضان گزرنے والا ہے لیکن ہم نے ابی تک اس سے توبہ نہیں کی، شلوار اگر ٹخنے سے نیچے رکھنے  کا فیشن اپنایا ہے تو رمضان شریف گزر رہا ہے لیکن ہماری شلواریں بدستور ٹخنوں سے نیچے چل رہی ہیں، اگر ٹی وی دیکھنے کا گناہ اپنا لیا ہے  اور ننگی فلمیں دیکھنے کا اپنے آپ کو عادی بنا لیا ہے اور رمضان شریف کے لمحات میں بھی اپنے آپ کو اس لعنت سے نہیں بچایا تو پھر ہم نے توبہ  کہاں کی؟ اور آخر ہم کب توبہ کریں گے اگر رمضان شریف بغیر توبہ کے گزر گیا تو جہنم تو سامنے ہے ہی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کا خطرہ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا کا خطرہ

دوسری طرف یہ خطرہ بھی ہے کہ کہیں سرکار دو عالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدعا نہ لگ جائے کہ جس شخص نے رمضان شریف کا مہینہ پایا اور رمضان شریف میں اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر اور توبہ کر کے اور فرائض و واجبات ادا کر کے اپنی بخشش نہ کرا سکا اور اللہ تعالیٰ کو راضی نہ کرسکا تو ایسا شخص تباہ ہو جائے برباد ہو جائے اور ہلاک ہو جائے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بہت سے روزے رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کے روزہ کے بدلے میں فاقہ کے سوا کچھ نہیں اور بعض (تراویح میں) رات کو جاگنے والے ایسے ہیں کہ ان کے لئے جاگنے کی مشقت کے سوا (اجر و ثواب) کچھ نہیں، اس لئے کہ انہوں نے گناہوں کو نہیں چھوڑا، کبائر سے توبہ نہیں کی، رمضان شریف آیا مگر وہ بدستور کبائر میں مبتلا رہے، رمضان شریف گزرتا رہا لیکن وہ گناہوں کے چھوڑنے کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بعض نے تسبیح تو پڑھ لی استغفر اللہ، استغفر اللہ کی اور جھوٹ موٹ کچھ توبہ بھی کرلی لیکن روح نے توبہ حاصل نہ کی۔

خالص توبہ اور چند گناہ

خالص توبہ اور چند گناہ

یاد رکھئے! اللہ پاک کے ہاں حقیقت معتبر ہوتی ہے، اللہ پاک اس کو دیکھتے ہیں کہ کس کے دل میں اپنے گناہوں کو چھوڑنے کی نیت ہے، کس کے دل میں جذبہ ہے، کون سچے دل سے اپنے کئے پر نادم ہے، کم تولنا، کم ناپنا، جھوٹ بولنا،  غیبت کرنا، بد نظری کرنا، نا محرم عورتوں کو شہوت کے ساتھ قصداً دیکھنا، عید کارڈ بھیجنا یہ سب گناہ ہیں۔ یاد رکھئے کہ عید کارڈ بھیجنا بھی ناجائز ہے اور خصوصاً وہ عید کارڈ جس کے اندر کسی جاندار کی تصویر بنی ہوئی ہو جیسے کسی عورت یا مرد یا کسی اداکار یا کھلاڑی کی اس میں تصویر ہو، ایسے عید کارڈ خریدنا اور بھیجنا سب ناجائز ہیں، سادہ اور بغیر تصویر کا عید کارڈ بھیجنا بھی ناجائز ہے اور تصویر والے میں دوہرا گناہ ہے۔ آپ دیکھئے کہ جس نے تراویح نہیں پڑھی، روزے نہیں رکھے وہ عید کارڈ بھیجنے کے لئے تیار ہے بلکہ بھیج بھی چکا ہوگا۔ خواتین کو دیکھئے! رمضان شریف آئے لیکن انہوں نے بے پردگی سے کوئی توبہ نہیں کی، نہ ان کے باپ نے منع کیا، نہ ان کے بھائی نے، نہ ان کے شوہر نے کہا اور نہ ان کے بیٹوں نے کہا کہ پردہ کر لیجئے، ہاں تراویح پڑھ لیں، روزے رکھ لئے لیکن گناہوں کو نہ چھوڑا۔ برا نہ مانئے گا، بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ رمضان میں تو انہوں نے گناہوں کو چھوڑ دیا ہے اور تھوڑی سی ڈاڑھی بھی بڑھا لی اور دوسرے گناہوں سے بھی کچھ تھوڑا سا اپنے کو فی الحال بچا لیا لیکن دل میں یہی ہے کہ جیسے ہی رمضان گزرے گا عید کی رات ہی ڈاڑھی کٹانی ہے اور عید کی رات میں ہی وہ سارے گناہ کرنے ہیں جو رمضان المبارک  سے پہلے جاری تھے۔ یہ تو بھائی اللہ پاک کو دھوکا دینے والی بات ہے، توبہ تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوتی ہے مخلوق کے سامنے نہیں ہوتی اور سچی توبہ  کی علامت یہ ہے کہ انسان اس گناہ کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ دے۔ تو رمضان شریف گزرنے والا ہے اگر اب تک بھی ہم نے غفلت سے کام  لیا ہے تو عرض یہ ہے کہ اب بھی کچھ وقت باقی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں، گڑگڑا لیں اور سچی توبہ کر لیں تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بد دعا سے بھی بچ جائیں اور اس ہولناک جہنم سے بھی بچ جائیں اور اپنے ظاہر کو بھی شریعت کے مطابق بنالیں، اپنے اخلاق شریعت کے  مطابق اپنالیں، اپنے اعمال کو سنوار لیں اور جن کبائر میں آج دنیا ڈوبی ہوئی ہے اور ہم بھی ان میں مبتلا ہیں، ان سے بچیں اور اپنی جانوں پر  رحم کھائیں۔ توبہ سے انسان جہنم سے بچتا ہے اور فرائض و واجبات ادا کرنے سے جنت کا مستحق بنتا ہے۔

گناہوں سے بچنا ضروری ہے

گناہوں سے بچنا ضروری ہے

اگر ہم نے روزے رکھ لئے ہیں، تراویح پڑھ لی ہیں، زکوٰۃ دے دی ہے، عمرہ کرلیا ہے، حج کرلیا ہے تو ایک پہلو ہم نے پورا کر لیا ہے لیکن دوسرا پہلو جو اس سے بھی اہم ہے وہ ابھی باقی ہے جس سے نہ بچنے کی صورت میں جہنم میں جانے کا شدید خطرہ ہے۔

تو خدا کے لئے اب بھی کچھ وقت باقی ہے اور مین یہ عرض کروں گا کہ آج تو عصر کے بعد مسجد میں دھرنا دے کر بیٹھ جائیں کہ یا اللہ! آج ہم آپ کے گھر سے اپنی بخشش کا پروانہ لے کر اٹھیں گے، آج ہم اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کر کے اٹھیں گے۔ بندے کی ذرا سی ندامت اور دل میں  یہ تہیہ ہو کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا، کچھ بھی ہو جائے میں یہ گناہ نہیں کروں گا اور یہ بھی کہہ دیں کہ یا اللہ! اگر غلطی سے ہو بھی گیا تو پھر توبہ  کر لوں گا۔ اور یہ بھی عرض کردیں کہ یا اللہ! مجھے اتنی قوت دے دیجئے اور اتنا حوصلہ عطا فرما دیجئے کہ آج کی سچی توبہ پر مرتے دم تک قائم رہوں۔ یا اللہ! میرا ماحول اور میرے دوست اعزاہ اور اقرباء مجھے دوبارہ اس گناہ کی طرف مائل نہ کردیں، میں بہت کمزور ہوں، میں آپ سے مدد چاہتا ہوں۔ مگر کوئی دل سے چاہے تو سہی، دل میں ندامت ہو تو، شرمندگی ہو تو۔

گناہ کو گناہ نہ سمجھنا

گناہ کو گناہ نہ سمجھنا

اب تو ہماری یہ بدترین حالت ہے کہ گناہ در گناہ کر رہے ہیں لیکن گناہ کو گناہ نہیں سمجھ رہے، جتنے گناہ میں نے آپ کے سامنے بیان کئے ہیں آپ سو آدمیوں سے پوچھیں گے تو ننانوے لوگ غالباً ایسے ہی ملیں گے جو کہیں گے کہ یہ تو کوئی گناہ نہیں ہے، یہ سب  چلتا ہے۔ یہ ایمان شکن جملہ ہے، قیامت میں معلوم ہوگا کہ چلتا ہے کہ نہیں۔ اسی طرح یہ جملے کہ اس میں کیا حرج ہے یہ بھی بہت خطرناک ہے، اس میں یہی تو حرج ہے کہ دنیا کی خاطر ہم اتنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کریں اور رمضان بھی گزار دیں اور پھر بھی ہم تائب نہ ہوں حالانکہ اس کا انجام جہنم ہے۔ اس لئے آج عصر کے بعد دھرنا دے کر بیٹھ جائیں اور سچی توبہ کرکے اٹھیں، اور سچی توبہ کرتے ہی انشاء اللہ تعالیٰ جب ان سے مدد مانگیں گے تو وہ مدد بھی فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ اپنی مدد مانگنے والوں کی ضرور مدد فرماتے ہیں، جب مدد مانگیں گے تو ضرور ان کی نصرت آئے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ استقامت نصیب ہوگی اور گناہوں سے بچنا آسان ہوگا۔

گناہوں سے بچنا آسان ہے

گناہوں سے بچنا آسان ہے

حقیقت تو یہ ہے کہ بذات خود گناہوں سے بچنا کوئی مشکل نہیں ہے، یہ ہم نے خود مشکل بنا رکھا ہے  ؎

جو  آسان  سمجھو  تو  آسانیاں  ہیں
جو   دشوار  سمجھو   تو  دشواریاں  ہیں

آخر میں حضرت مجذوب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک رباعی یاد آئی ہے وہ سناتا ہوں  ؎

جو  کھیلوں  میں  تو  نے  لڑکپن  گنوایا
تو    بدمستیوں   میں    جوانی    گنوائی
جو   اب  غفلتوں   میں   بڑھاپا  گنوایا
تو   بس   یوں   سمجھ   زندگانی   گنوائی
توجہ الی اللہ
توجہ الی اللہ
بھائی! یہ زندگانی ختم ہونے والی ہے، نہ جانے کس وقت موت واقع ہو جائے، اس لئے ہوش میں آ جانا چاہئے اور اللہ پاک
 کو ناراض رکھنا بہت خطرناک چیز ہے، ہم میں سے کوئی بھی اللہ پاک کی ناراضگی برداشت نہیں کرسکتا اور ان کی ناراضگی گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے   آتی ہے اور ان کی رضامندی فرائض و واجبات ادا کرنے سے حاص ہوتی ہے۔ اس لئے ہم سب یہ تہیہ کر لیں اور عصر سے لے کر مغرب تک   اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں، روتے رہیں، گڑگڑاتے رہیں، معافی مانگتے رہیں۔ شاید ہمارا یہ آخری رمضان ہو اور جس وقت یہ رمضان رخصت   ہو رہا ہو تو شاید ہمیں بھی مغفرت کا، بخشش کا اور جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جائے۔ اللہ پاک ضرور ہم پر اپنا کرم فرمائیں اور اپنے فضل سے ہم کو  دوزخ سے آزاد فرمائیں اور جنت الفردوس عطا فرمائیں۔ آمین۔
و آخر  دعوانا  ان  الحمد  للّٰہ  رب  العالمین
٭٭٭٭٭

Book Options

Author: Mufti Abdur Rauf Surkarvi Hafizullah

Leave A Reply