روزہ تقوے کی سیڑھی ہے
بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ اور قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے، جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانی تقاضے کچلے جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا۔
لیکن ہمارے حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین، نے فرمایا کہ صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزہ رکھے گا تو یہ روزہ خود تقویٰ کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے۔ اس لئے کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں؟ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا، یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو نا ہے۔ اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہے تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
واما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوٰی
(سورۃ النازعات:۰۴)
یعنی جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ اور کھڑا ہونا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے، یہی تقویٰ ہے۔