سلسلہ اصلاحی خطبات ۵
شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی
If you see any errors in typing, please contact the admin team @
Email: [email protected]
میمن اسلامک پبلشرز
خطاب : شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی مد ظلہم۔
ضبط و ترتیب:مولانا محمد عبداللہ میمن
تاریخ و وقت:۸۲ فروری ۲۹۹۱ء بروز جمعہ، بعد نماز عصر
مقام:جامع مسجد بیت المکرّم، گلشن اقبال، کراچی۔
اشاعت اول:جنوری ۳۹۹۱ء
تعداد:دو ہزار
ناشر:میمن اسلامک پبلشرز، ۸۸۱/۱۔ لیاقت آباد، کراچی ۹۱
با اہتمام:ولی اللہ میمن
قیمت:
کیسٹ نمبر:۳۴
٭میمن اسلامک پبلشرز، ۸۸۔۱۔ لیاقت آباد، کراچی ۹۱
٭دارالاشاعت، اردو بازار، کراچی۔
٭ادارہ اسلامیات۔ ۰۹۱۔ انار کلی، لاہور۔
٭مکتبہ دارالعلوم کراچی ۰۸۱۵۷
٭ادارۃالمعارف، دارالعلوم کراچی ۰۸۱۵۷
٭بیت القرآن۔ اردو بازار، کراچی۔
الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ ونتوکل
علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا۔ من
یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ۔ و اشھد ان
لا لہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، و اشھد ان سیدنا و نبینا و
مولا نا محمداً عبدہ و رسولہ، صلی اللہ تعالی علیہ و علی
آلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً، اما بعد:
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی لناس و بینات من
الھدی و الفرقان، من شھد منکم الشھرفلیصمہ۔
(سورۃ ابقرہ : ۵۸۱)
آمنت باللہ صدق اللہ مولانا العظیم، و صدق رسولہ النبی
الکریم، و نحن علی ذالک من الشاھدین و الشا کرین،
والحمد للہ رب العالمین۔
انشاء اللہ چند روز کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والاہے، اور کون مسلمان ایسا ہو گا جو اس مہینے کی عظمت اور برکت سے واقف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے۔ اور نہ معلوم کیا کیا رحمتیں اللہ تعالیٰ اس مہینہ میں اپنے بندوں کی طرف مبذول فرماتے ہیں۔ ہم اور آپ ان رحمتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
اس مہینے کے اندر بعض اعمال ایسے ہیں۔ جن کو ہر مسلمان جانتا ہے۔ اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ مثلاََ اس ماہ میں روزے فرض ہیں۔ الحمدللہ۔ مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی توفیق ہو جاتی ہے۔ اور تراویح کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ سنت ہے، اور مسلمانوں کو اس میں شرکت کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے، لیکن اس وقت ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں۔ اور رات کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہے۔ اور بس، اس کے علاوہ اور کوئی خصوصیت نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دونوں عبادتیں اس مہینے کی بڑی اہم عبادات میں سے ہیں۔ لیکن بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی، بلکہ در حقیقت رمضان المبارک ہم سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
وما خلقت الجن والا نس الا لیعبدون
(سورۃ الذاریات:۶۵)
یعنی میں نے جنات اور انسانوں کو صرف ایک کام کے لئے پیدا کیا، وہ یہ کہ میری عبادت کریں، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہ بتایا کہ وہ اللہ کی عبادت کرئے۔
لہذا اگر ملائکہ صبح سے شام تک کھانا نہ کھائیں تو یہ کوئی کمال نہیں۔ اس لئے کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی۔ اور انہیں کھانے کی حاجت ہی نہیں۔ لہذا ان کے نہ کھانے پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں۔ لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے۔ لہذا کوئی انسان کتنے ہی بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ جائے۔ حتیٰ کے سب سے اعلیٰ مقام یعنی نبوت پر پہنچ جائے۔ تب بھی وہ کھانے پینے سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ کفار نے انبیاء پر یہی اعتراض کیا کہ:
یعنی یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا بھی کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں۔ تو کھانے کا تقاضہ انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے۔ اب اگر انسان کو بھوک لگ رہی ہے۔ لیکن اللہ کے حکم کی وجہ سے کھانا نہیں کھا رہا ہے تو یہ کمال کی بات ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہوں، جس کو بھوک بھی لگے گی،پیاس بھی لگے گی، اور اس کے اندر شہوانی تقاضے بھی پیدا ہوں گے اور گناہ کرنے کے داعے بھی انکے اندر پیدا ہوں گے، لیکن جب گناہ کا داعیہ پیدا ہو گا، اس وقت وہ مجھے یاد کر لے گا۔ اور مجھے یاد کر کے اپنے نفس کو اس گناہ سے بچا لے گا۔ اس کی یہ عبادت اور گناہ سے بچنا ہمارے یہاں قدر و قیمت رکھتا ہے۔ اور جس کا اجر و ثواب اور بدلہ دینے کے لئے ہم نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے۔ جس کی صفت عرضھا السمٰوت و الارض ہے۔ اس لئے کہ اس کے دل میں داعیہ اور تقاضہ ہو رہا ہے اور خواہشات پیدا ہو رہی ہیں اور گناہ کے محرکات سامنے آرہے ہیں۔ لیکن یہ انسان ہمارے خوف اور ہماری عظمت کے تصور سے اپنی آنکھ کو گناہ سے بچا لیتا ہے۔ اور گناہوں کی طرف اٹھتے ہوئے قدموں کو روک لیتا ہے۔ تاکہ میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں تھی۔ اس عبادت کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو جو فتنہ ’زلیخا کے مقابلے میں پیش آیا۔ کون مسلمان ایسا ہے جو اس کو نہیں جانتا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی دعوت دی۔ اس وقت زلیخا کے دل میں بھی گناہ کا خیال پیدا ہوا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں بھی گناہ کا خیال آگیا۔ عام لوگ تو اس سے حضرت یوسف علیہ السلام پر اعتراض اور ان کی تنقیص بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم یہ بتلانا چاہتا ہے کہ گناہ کا خیال آجانے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خوف اور ان کی عظمت کے استحضار سے اس گناہ کے خیال پر عمل نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا۔ لیکن اگر گناہ کا خیال بھی دل میں نہ آتا اور گناہ کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہوتی اور گناہ کا تقاضہ ہی پیدا نہ ہوتا تو پھر ہزار مرتبہ زلیخا گناہ کی دعوت دے اس سے بچنے میں کمال کی تو کوئی بات نہیں تھی۔ کمال تو یہی تھا کہ گناہ کی دعوت دی جا رہی ہے اور ماحول بھی موجود ہے، حالات بھی ساز گار ہیں، اور دل میں خیال بھی آرہا ہے لیکن ان سب چیزوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر کے فرمایا کہ “معاذاللہ” (سورۃ یوسف:۴۲) کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ یہ عبادت ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔
جب انسان کا مقصد تخلیق عبادت ہے تو اس کا تقاضہ یہ تھا کہ جب انسان دنیا میں آئے تو صبح سے لے کر شام تک عبادت کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرے، اور اس کو دوسرے کام کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہئے۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے فرمایا کہ:
ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنۃ
(سورۃ التوبہ: ۱۱۱)
یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خریدلئے۔ اور اس کا معاوضہ یہ مقرر فرمایا کہ آخرت میں ان کو جنت ملے گی۔ جب ہماری جانیں بک چکی ہیں۔ تو یہ جانیں جو ہم لئے بیٹھے ہیں۔ وہ ہماری نہیں ہیں۔ بلکہ بکا ہوا مال ہے۔ اس کی قیمت لگ چکی ہے۔ جب یہ جان اپنی نہیں ہے تو اس کا تقاضہ یہ تھا کہ اس جان اور جسم کو سوائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے کسی دوسرے کام میں نہ لگایا جائے۔ لہذا اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں صبح سے شام تک دوسرے کام کرنے کی اجازت نہیں۔ بس صرف سجدے میں پڑے رہا کرو۔ اور اللہ اللہ کیا کرو۔ دوسرے کاموں کی اجازت نہیں۔ نہ کمانے کی اجازت ہے، نہ کھانے کی اجازت ہے۔ تو یہ حکم انصاف کے خلاف نہ ہوتا۔ اس لئے کہ پیدا ہی عبادت کے لئے کیا گیا ہے۔
لیکن علماء نے فرمایا کہ اس ماہ کو “رمضان” اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے فضل و کرم سے بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں۔ اور جلا دیتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ مقرر فرمایا۔ گیارہ مہینے دنیاوی کاروبار، دنیاوی دھندوں میں لگے رہنے کے نتیجے میں غفلتیں دل پر چھا گیئں، اور اس عرصہ میں جن گناہوں اور خطاؤں کاارتکاب ہوا، ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انہیں بخشوا لو۔ اور غفلت کے پردوں کو دل سے اٹھا دو، تاکہ زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے فرمایا کہ:
(سورۃ البقرہ: ۳۸۱)
یعنی یہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔ تو رمضان کے مہینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ سال بھر کے گناہوں کو بخشوانا، اور غفلت کے حجاب دل سے اٹھانا اور دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا۔ جیسے کسی مشین کو جب کچھ عرصہ استعمال کیا جائے تو اس کے بعد اس کی سروس کرانی پڑتی ہے۔ اس کی صفائی کرانی ہوتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی سروس اور اوور ہالنگ کے لئے یہ رمضان المبارک کا مہینہ مقرر فرمایا ہے۔ تاکہ اس مہینے میں اپنی صفائی کراؤ، اور اپنی زندگی کو ایک نئی شکل دو۔
لہذا صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس مہینے کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس مہینے میں دوسرے کاموں سے فارغ کرلے۔ اس لئے کہ گیارہ مہینے تک زندگی کے دوسرے کام دھندوں میں لگے رہے۔ لیکن یہ مہینہ انسان کے لئے اس کی اصل مقصد تخلیق کی طرف لوٹنے کا مہینہ ہے۔ اس لئے اس مہینے کے تمام اوقات، ورنہ کم از کم اکثر اوقات یا جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کرے۔ اور اس کے لئے انسان کو پہلے سے تیار ہونا چاہئے۔ اور اس کا پہلے سے پروگرام بنانا چاہئے۔
آج کل عالم اسلام میں ایک بات چل پڑی ہے۔ جس کی ابتداء عرب ممالک خاص کر مصر اور شام سے ہوئی اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی رائج ہو گئی۔ اور ہمارے یہاں بھی آگئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے کچھ محفلیں منعقد ہوتی ہیں جس کا نام محفل استقبال رمضان رکھا جاتا ہے۔ جس میں رمضان سے ایک دو دن پہلے ایک اجتماع منعقد کیا جاتا ہے اور اس میں قرآن کریم اور تقریر اور وعظ رکھا جاتا ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کا استقبال کر رہے ہیں اور اس کو خوش آمدید کہ رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے استقبال کا یہ جذبہ بہت اچھا ہے، لیکن یہی اچھا جذبہ جب آگے بڑھتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد بدعت کی شکل اختیار کرلیتاہے، چنانچہ بعض جگہوں پر اس استقبال کی محفل نے بدعت کی شکل اختیار کرلی۔ رمضان المبارک کا اصل استقبال یہ ہے کہ رمضان آنے سے پہلے اپنے نظام الاوقات بدل کر ایسا بنانے کی کوشش کرو کہ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ جل شانہ کی عبادت میں صرف ہو، رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے یہ سوچو کہ یہ مہینہ آرہا ہے، کس طرح میں اپنی مصروفیات کم کر سکتا ہوں۔ اس مہینے میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکلیہ عبادت کے لئے فارغ کر لے تو سبحان اللہ، اور اگر کوئی شخص بالکلیہ اپنے آپ کوفارغ نہیں کر سکتا تو پھر یہ دیکھے کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لئے چھوڑ سکتا ہوں،ان کو چھوڑے۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہوں، ان کو کم کرے، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک مؤخر کر سکتا ہے۔ ان مؤخر کرے۔اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کرے۔ میرے نزدیک استقبال رمضان کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ اگر یہ کام کر لیا تو انشاء اللہ رمضان المبارک کی صحیح روح اور اس کے انوار و برکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر فائدہ ہم نہیں اٹھا سکیں گے۔
میں نے آپ کے سامنے جویہ آیت تلاوت کی کہ:
ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے۔ کیوں روزے فرض کئے گئے؟ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو، یعنی روزہ اصل میں اس لئے تمہارے ذمہ فرض کیا گیا، تاکہ اس کے ذریعہ تمہارے دل میں تقویٰ کی شمع روشن ہو۔ روزے سے تقویٰ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟
بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ اور قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے، جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانی تقاضے کچلے جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا۔
لیکن ہمارے حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین، نے فرمایا کہ صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزہ رکھے گا تو یہ روزہ خود تقویٰ کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے۔ اس لئے کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں؟ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا، یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو نا ہے۔ اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہے تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
یعنی جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ اور کھڑا ہونا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے، یہی تقویٰ ہے۔
لہٰذا روزہ حصول تقویٰ کے لئے بہترین ٹریننگ اور بہترین تربیت ہے، جب روزہ رکھ لیا تو آدمی پھر کیسا ہی گنہگار، خطاکار اور فاسق و فاجر ہو، جیسا بھی ہو، لیکن روزہ رکھنے کے بعد اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ سخت گرمی کا دن ہے اور سخت پیاس لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا پاس موجود نہیں، اور دروازے پر کنڈی لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں فرج موجود ہے، اور اس فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے۔ اس وقت انسان کا نفس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس شدید گرمی کے عالم میں ٹھنڈا پانی پی لوں، لیکن کیا وہ شخص فرج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پی لے گا؟ ہر گز نہیں پیئے گا۔ حالانکہ اگر وہ پانی پی لے تو کسی بھی انسان کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ کوئی لعنت و ملامت کرنے والا نہیں ہوگا۔ اور دنیا والوں کے سامنے وہ روزہ دار ہی رہے گا، اور شام کو باہر نکل کر آرام سے لوگوں کے ساتھ افطاری کھالے تو کسی شخص کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس نے روزہ توڑ دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ پانی نہیں پیتا ہے، کیوں نہیں پیتا؟ پانی نہ پینے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگرچہ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا ہے، لیکن میرا مالک جس کے لئے میں نے روزہ رکھا ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔
(ترمذی، کتاب الصوم باب ماجاء فی فضل الصوم حدیث نمبر ۴۶۷)
یعنی روزہ میرے لئے ہے لہذا میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور اعمال کے بارے میں تو یہ فرمایا کہ کسی عمل کا دس گناہ اجر، کسی عمل کا ستر گناہ اجر، اور کسی عمل کا سو گناہ اجر ہے۔ حتیٰ کہ صدقہ کا اجر سات سو گناہے، لیکن روزے کے بارے میں فرمایا کہ روزے کا اجر میں دوں گا۔ کیونکہ روزہ اس نے صرف میرے لئے رکھا تھا۔ اس لئے کہ شدید گرمی کی وجہ سے جب حلق میں کانٹے لگ رہے ہیں، اور زبان پیاس سے خشک ہے اور فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے اور تنہائی ہے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود میرا بندہ صرف اس لئے پانی نہیں پی رہا ہے کہ اس کے دل میں میرے سامنے کھڑا ہونے اور جواب دہی کا ڈر اور احساس ہے۔ اس احساس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہو گیا تو تقویٰ بھی پیدا ہو گیا۔ لہذا تقویٰ روزے کی ایک شکل بھی ہے۔ اور اس کے حصول کی ایک سیڑھی بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے روزے اس لئے فرض کئے تاکہ تقویٰ کی عملی تربیت دیں۔
عام حالات میں زندگی کی کسی چیز کی حرص اور ہوس بہت بری چیز ہے۔ لیکن جب وہ کہیں کہ حرص کرو، تو پھر حرص میں ہی لطف اور مزہ ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں
خاک بر فرق قناعت بعد ازیں
جب سلطان دین یہ چاہ رہے ہیں کہ میں حرص اور طمع کروں تو پھر قناعت کے سر پر خاک، پھر قناعت میں مزہ نہیں ہے۔ پھر تو طمع اور حرص میں مزہ ہے، یہ افطار میں جلدی کرنے کا حکم اسی وجہ سے ہے، غروب آفتاب سے پہلے تو یہ حکم تھا ایک ذرّہ بھی منہ میں چلا گیا تو گناہ بھی لازم اور کفارہ بھی لازم، مثلاََ سات بجے آفتاب غروب ہو رہا تھا۔ اب اگر کسی شخص نے چھ بج کر اُنسٹھ منٹ پر ایک چنے کا دانہ کھا لیا۔ اب بتایئے کہ روزہ میں کتنی کمی آئی؟ صرف ایک منٹ کی کمی آئی، ایک منٹ کا روزہ توڑا، لیکن اس ایک منٹ کے روزے کے کفارے میں ساٹھ دن کے روزے رکھنے واجب ہیں، اس لئے کہ بات صرف ایک چنے اور ایک منٹ کی نہیں ہے، بات دراصل یہ ہے کہ اس نے ہمارا حکم توڑا، ہمارا حکم یہ تھا کہ جب تک آفتاب غروب نہ ہو جائے اس وقت تک کھانا جائز نہیں، لیکن تم نے یہ حکم توڑ دیا، لہذا اس خلاف ورزی کی سزا میں ساٹھ دن کے روزے رکھو۔
بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر حرام ہے، مثلاََ وہ کسی سودی ادارہ میں ملازم ہیں، ایسے حضرات اس ماہ میں کیا کریں؟ ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ……اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین……ہر آدمی کے لئے راستہ بتا گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: میں ایسے آدمی کو جس کی مکمل آمدنی حرام ہے۔ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو رمضان میں چھٹی لے لے، اور کم از کم اس ماہ کے خرچ کے لئے جائز اور حلال ذریعہ سے انتظام کر لے۔ کوئی جائز آمدنی کا ذریعہ اختیار کر لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اس ماہ کے خرچ کے لئے کسی سے قرض لے لے۔ اور یہ سوچے کہ میں اس مہینہ میں حلال آمدنی سے کھاؤں گا۔ اور اپنے بچوں کو بھی حلال کھلاؤں گا، کم از کم اتنا تو کرلے۔
تیسری بات جس کا روزے سے خاص تعلق ہے، وہ ہے غصے سے اجتناب اور پرہیز، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مواسات کا مہینہ ہے۔ ایک دوسرے سے غمخواری کا مہینہ ہے۔ لہذا غصہ اور غصہ کی وجہ سے سر زد ہونے والے جرائم اور گناہ، مثلاً جھگڑا، مار پٹائی اور تو تکار، ان چیزوں سے پر ہیز کا اہتمام کریں۔ حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ:
یعنی اگر کوئی شخص تم سے جہالت اور لڑائی کی بات کرے تو تم کہہ دو کہ میرا روزہ ہے۔ میں لڑنے کے لئے تیار نہیں۔ نہ زبان سے لڑنے کے لئے تیار ہوں، اور نہ ہاتھ سے۔ اس سے پرہیز کریں۔ یہ سب بنیادی کام ہیں۔
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، تمام مسلمان ماشاء اللہ جانتے ہی ہیں کہ روزہ رکھنا، تراویح پڑھنا ضروری ہے، اور تلاوت قرآن کو چونکہ اس مہینے سے خاص مناسبت ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، اس مہینہ میں تلاوت کریں اور اس کے علاوہ چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے زبان سے اللہ کا ذکر کریں۔ اور تیسرا کلمہ: سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر اور درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے، اس کی کثرت کا اہتمام کریں اور نوافل کی جتنی کثرت ہو سکے کریں۔ اور عام دنوں میں رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن رمضان المبارک میں چونکہ انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے، تھوڑا پہلے اٹھ جائے اور سحری سے پہلے تہجد پڑھنے کا معمول بنا لے۔ اور اس ماہ میں نماز خشوع کے ساتھ اور مرد با جماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کر لیں۔ یہ سب کام تو اس ماہ میں کرنے ہی چاہئیں۔ یہ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں سے زیادہ اہم گناہوں سے بچنے کی فکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان المبارک کے انوار و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین۔