کتاب کا نام: ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

کتاب کا سرورق

سلسلہ اصلاحی خطبات   ۵

ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟

شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی

If you see any errors in typing, please contact the admin team @

Email: [email protected]

میمن اسلامک پبلشرز

خطاب : شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی مد ظلہم۔

ضبط و ترتیب:مولانا محمد عبداللہ میمن

تاریخ و وقت:۸۲ فروری ۲۹۹۱ء بروز جمعہ، بعد نماز عصر

مقام:جامع مسجد بیت المکرّم، گلشن اقبال، کراچی۔

اشاعت اول:جنوری ۳۹۹۱ء

تعداد:دو ہزار

ناشر:میمن اسلامک پبلشرز،  ۸۸۱/۱۔  لیاقت آباد، کراچی ۹۱

با اہتمام:ولی اللہ میمن

قیمت:

کیسٹ نمبر:۳۴

ملنے کے پتے

٭میمن اسلامک پبلشرز، ۸۸۔۱۔ لیاقت آباد، کراچی ۹۱

٭دارالاشاعت، اردو بازار، کراچی۔

٭ادارہ اسلامیات۔ ۰۹۱۔ انار کلی، لاہور۔

٭مکتبہ دارالعلوم کراچی ۰۸۱۵۷

٭ادارۃالمعارف، دارالعلوم کراچی ۰۸۱۵۷

٭بیت القرآن۔ اردو بازار، کراچی۔

ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟

الحمد للہ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نومن بہ ونتوکل
علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا۔ من
یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضللہ فلا ھادی لہ۔ و اشھد ان
لا لہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، و اشھد ان سیدنا و نبینا و
مولا نا محمداً عبدہ و رسولہ، صلی اللہ تعالی علیہ و علی
آلہ و اصحابہ و بارک وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً، اما بعد:
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم،
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی لناس و بینات من
الھدی و الفرقان، من شھد منکم الشھرفلیصمہ۔
(سورۃ ابقرہ : ۵۸۱)

آمنت باللہ صدق اللہ مولانا العظیم، و صدق رسولہ النبی
الکریم، و نحن علی ذالک من الشاھدین و الشا کرین،
والحمد للہ رب العالمین۔

برکت والا مہینہ

برکت والا مہینہ

انشاء اللہ چند روز کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے والاہے، اور کون مسلمان ایسا ہو گا جو اس مہینے کی عظمت اور برکت سے واقف نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اپنی عبادت کے لئے بنایا ہے۔ اور نہ معلوم کیا کیا رحمتیں اللہ تعالیٰ اس مہینہ میں اپنے بندوں کی طرف مبذول فرماتے ہیں۔ ہم اور آپ ان رحمتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

اس مہینے کے اندر بعض اعمال ایسے ہیں۔ جن کو ہر مسلمان جانتا ہے۔ اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ مثلاََ اس ماہ میں روزے فرض ہیں۔ الحمدللہ۔ مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی توفیق ہو جاتی ہے۔ اور تراویح کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ سنت ہے، اور مسلمانوں کو اس میں شرکت کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے، لیکن اس وقت ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں۔ اور رات کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہے۔ اور بس، اس کے علاوہ اور کوئی خصوصیت نہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دونوں عبادتیں اس مہینے کی بڑی اہم عبادات میں سے ہیں۔ لیکن بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی، بلکہ در حقیقت رمضان المبارک ہم سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

وما خلقت الجن والا نس الا لیعبدون

(سورۃ  الذاریات:۶۵)

یعنی میں نے جنات اور انسانوں کو صرف ایک کام کے لئے پیدا کیا، وہ یہ کہ میری عبادت کریں، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہ بتایا کہ وہ اللہ کی عبادت کرئے۔

کیا فرشتے کافی نہیں تھے؟

کیا فرشتے کافی نہیں تھے؟

یہاں بعض لوگوں کو خاص کر نئی روشنی کے لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت تھا، تو اس کام کے لئے انسان کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو فرشتے پہلے سے بہت اچھی طرح انجام دے رہے تھے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت تسبیح اور تقدیس میں لگے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمانے کا ارادہ کیا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں اس طرح کا ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے بیساختہ یہ کہا کہ آپ ایک ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں۔ جو زمین میں فساد مچائے گا۔ اور خون ریزی کرے گا، اورعبادت،تسبیح و تقدیس ہم انجام دے رہے ہیں۔ اس طرح آج بھی اعتراض کرنے والے اعتراض کر رہے ہیں کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لئے انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ کام تو فرشتے پہلے ہی انجام دے رہے ہیں۔
فرشتوں کا کوئی کمال نہیں

فرشتوں کا کوئی کمال نہیں

بیشک اللہ تعالیٰ کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے تھے۔ لیکن ان کی عبادت بالکل مختلف نوعیت کی تھی۔ اور انسان کے سپرد جو عبادت کی گئی وہ بالکل مختلف نوعیت کی تھی۔ اس لئے کہ فرشتے جو عبادت کر رہے تھے۔ ان کے مزاج میں اس کے خلاف کرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔ وہ اگر چاہیں کہ عبادت نہ کریں تو ان کے اندر عبادت چھوڑنے کی صلاحیت نہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر سے گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرما دیا اور نہ انہیں بھوک لگتی ہے، نہ ان کو پیاس لگتی ہے، اور نہ ان کے اندر شہوانی تقاضا پیدا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے دل میں گناہ کا وسوسہ بھی نہیں گزرتا، گناہ کی خواہش اور گناہ پر اقدام تو دور کی بات ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادت پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں رکھا۔ کیونکہ اگر فرشتے گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں۔ اور جب کوئی کمال نہیں تو پھر جنت والا اجر و ثواب بھی مرتب نہیں ہوگا۔
نابینا کا بچنا کمال نہیں

نابینا کا بچنا کمال نہیں

مثلاً ایک شخص بینائی سے محروم ہے، جس کی وجہ سے ساری عمر اس نے نہ کبھی فلم دیکھی، نہ کبھی ٹی وی دیکھا۔ اور نہ کبھی غیر محرم پر نگاہ ڈالی۔ بتائیے کہ ان گناہوں کے نہ کرنے میں اس کا کیا کمال ظاہر ہوا؟ اس لئے کہ اس کے اندر ان گناہوں کے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ لیکن ایک دوسرا شخص جس کی بینائی بالکل ٹھیک ہے۔ جو چیز چاہے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن دیکھنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود جب کسی غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ فوراً صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے نگاہ نیچی کر لیتا ہے۔ اب بظاہر دونوں گناہوں سے بچ رہے ہیں۔ لیکن دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے۔ اور دوسرا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے۔ لیکن پہلے شخص کا گناہ سے بچنا کوئی کمال نہیں۔ اور دوسرے شخص کا گناہ سے بچنا کمال ہے۔
یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں ہے

یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں ہے

لہذا اگر ملائکہ صبح سے شام تک کھانا نہ کھائیں تو یہ کوئی کمال نہیں۔ اس لئے کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی۔ اور انہیں کھانے کی حاجت ہی نہیں۔ لہذا ان کے نہ کھانے پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں۔ لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے۔ لہذا کوئی انسان کتنے ہی  بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ جائے۔ حتیٰ کے سب سے اعلیٰ مقام یعنی نبوت پر پہنچ جائے۔ تب بھی وہ کھانے پینے سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ کفار نے انبیاء پر یہی اعتراض کیا کہ:

ما لہذا الرسول یا کل الطعام و یمشی فی الا سواق۔
(سورۃ  الفرقان :  ۷)

یعنی یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا بھی کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں۔ تو کھانے کا تقاضہ انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے۔ اب اگر انسان کو بھوک لگ رہی ہے۔ لیکن اللہ کے حکم کی وجہ سے کھانا نہیں کھا رہا ہے تو یہ کمال کی بات ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہوں، جس کو بھوک بھی لگے گی،پیاس بھی لگے گی، اور اس کے اندر شہوانی تقاضے بھی پیدا ہوں گے اور گناہ کرنے کے داعے بھی انکے اندر پیدا ہوں گے، لیکن جب گناہ کا داعیہ پیدا ہو گا، اس وقت وہ مجھے یاد کر لے گا۔ اور مجھے یاد کر کے اپنے نفس کو اس گناہ سے بچا لے گا۔ اس کی یہ عبادت اور گناہ سے بچنا ہمارے یہاں قدر و قیمت رکھتا ہے۔ اور جس کا اجر و ثواب اور بدلہ دینے کے لئے ہم نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے۔ جس کی صفت  عرضھا  السمٰوت و الارض  ہے۔  اس  لئے  کہ  اس  کے  دل  میں  داعیہ  اور  تقاضہ  ہو  رہا  ہے  اور  خواہشات  پیدا  ہو  رہی  ہیں  اور  گناہ  کے  محرکات سامنے آرہے ہیں۔ لیکن یہ انسان ہمارے خوف اور ہماری عظمت کے تصور سے اپنی آنکھ کو گناہ سے بچا لیتا ہے۔ اور گناہوں کی طرف اٹھتے ہوئے قدموں کو روک لیتا ہے۔ تاکہ میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں تھی۔ اس عبادت کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا کمال

حضرت یوسف علیہ السلام کا کمال

حضرت یوسف علیہ السلام کو جو فتنہ ’زلیخا کے مقابلے میں پیش آیا۔ کون مسلمان ایسا ہے جو اس کو نہیں جانتا۔ قرآن کریم  کہتا ہے کہ زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی دعوت دی۔ اس وقت زلیخا کے دل میں بھی گناہ کا خیال پیدا ہوا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے دل میں بھی گناہ کا خیال آگیا۔ عام لوگ تو اس سے حضرت یوسف علیہ السلام پر اعتراض اور ان کی تنقیص بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم یہ بتلانا چاہتا ہے کہ گناہ کا خیال آجانے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے خوف اور ان کی عظمت کے استحضار سے اس گناہ کے خیال پر عمل نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا۔ لیکن اگر گناہ کا خیال بھی دل میں نہ آتا اور گناہ کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہوتی اور گناہ کا تقاضہ ہی پیدا نہ ہوتا تو پھر ہزار مرتبہ زلیخا گناہ کی دعوت دے اس سے بچنے میں کمال کی تو کوئی بات نہیں تھی۔ کمال تو یہی تھا کہ گناہ کی دعوت دی جا رہی ہے اور ماحول بھی موجود ہے، حالات بھی ساز گار ہیں، اور دل میں خیال بھی آرہا ہے لیکن ان سب چیزوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر کے فرمایا کہ “معاذاللہ” (سورۃ یوسف:۴۲) کہ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ یہ عبادت ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔

ہماری جانوں کا سودا ہوچکا ہے

ہماری جانوں کا سودا ہوچکا ہے

جب انسان کا مقصد تخلیق عبادت ہے تو اس کا تقاضہ یہ تھا کہ جب انسان دنیا میں آئے تو صبح سے لے کر شام تک عبادت کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرے، اور اس کو دوسرے کام کرنے کی اجازت نہ ہونی چاہئے۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے فرمایا کہ:

ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم و اموالہم بان لھم الجنۃ

(سورۃ  التوبہ: ۱۱۱)

یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خریدلئے۔ اور اس کا معاوضہ یہ مقرر فرمایا کہ آخرت میں ان کو جنت ملے گی۔ جب ہماری جانیں بک چکی ہیں۔ تو یہ جانیں جو ہم لئے بیٹھے ہیں۔ وہ ہماری نہیں ہیں۔ بلکہ بکا ہوا مال ہے۔ اس کی قیمت لگ چکی ہے۔ جب یہ جان اپنی نہیں ہے تو اس کا تقاضہ یہ تھا کہ اس جان اور جسم کو سوائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے کسی دوسرے کام میں نہ لگایا جائے۔ لہذا اگر ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ تمہیں صبح سے شام تک دوسرے کام کرنے کی اجازت نہیں۔ بس صرف سجدے میں پڑے رہا کرو۔ اور اللہ اللہ کیا کرو۔ دوسرے کاموں کی اجازت نہیں۔ نہ کمانے کی اجازت ہے، نہ کھانے کی اجازت ہے۔ تو یہ حکم انصاف کے خلاف نہ ہوتا۔ اس لئے کہ پیدا ہی عبادت کے لئے کیا گیا ہے۔

ایسے خریدار پر قربان جائیے

ایسے خریدار پر قربان جائیے

لیکن قربان جائیے ایسے خریدار پر کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جان و مال کو خرید بھی لیا، اور اس کی قیمت بھی پوری لگا دی۔ یعنی جنت، پھر وہ جان و مال ہمیں واپس بھی لوٹا دیا کہ یہ جان و مال تم اپنے پاس رکھ لو۔ اور ہمیں اس بات کی اجازت دے دی کہ کھاؤ، پیو، کماؤ، اور دنیا کے کاروبار کرو۔بس پانچ وقت کی نماز پڑھ لیا کرو۔ اور فلاں فلاں چیزوں سے پرہیز کرو۔ باقی جس طرح چاہو، کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت اور عنایت ہے۔
اس ماہ میں اصل مقصد کی طرف آجاؤ

اس ماہ میں اصل مقصد کی طرف آجاؤ

لیکن جائز کرنے کا نتیجہ کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ بھی جانتے تھے کہ جب یہ انسان دنیا کے کاروبار اور کام دھندوں میں لگے گا تو رفتہ رفتہ اس کے دل پر غفلت کے پردے پڑ جایا کریں گے۔ اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھو جائے گا تو اس غفلت کو دور کرنے کے لئے وقتاََ فوقتاََ کچھ اوقات مقرر  فرما دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اس لئے کہ سال کے گیارہ مہینے تو آپ تجارت میں، زراعت میں، مزدوری میں اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں، کھانے کمانے اور ہنسنے بولنے میں لگے رہے اور اس کے نتیجہ میں دلوں پر غفلت کا پردہ پڑنے لگتا ہے۔ اس لئے ایک مہینہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے مقرر فرما دیا کہ اس مہینے میں تم اپنے اصل مقصد تخلیق یعنی عبادت کی طرف لوٹ کر آؤ۔ جس کے لئے تمہیں دنیا میں بھیجا گیا، اور جس کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا، اس ماہ میں اللہ کی عبادت میں لگو، اور گیارہ مہینے تک تم سے جو گناہ سرزد ہوئے ہیں، ان کو بخشواؤ، اور دل کی صلاحیتوں پر جو میل آچکا ہے۔ اس کو دھلواؤ اور دل میں جو غفلت کے پردے پڑ چکے ہیں، ان کو اٹھواؤ۔ اس کام کے لئے ہم نے یہ مہینہ مقرر کیا ہے۔
رمضان کے معنی

رمضان کے معنی

لفظ “رَمْضان” میم کے سکون کے ساتھ ہم غلط استعمال کرتے ہیں۔ صحیح لفظ “رَمَضان” میم کے زبر کے ساتھ ہے۔ اور  رمضان کے لوگوں نے بہت سے معنی بیان کئے ہیں۔ لیکن اصل عربی زبان میں رمضان کے معنی ہیں۔  جھلسا دینے والا اور جلا دینے والا اور اس ماہ کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے ہ سب سے پہلے جب اس ماہ کا نام رکھا جا رہا تھا اس سال یہ مہینہ شدید جھلسا دینے والی گرمی میں آیا تھا۔ اس لئے لوگوں نے اس کا نام رمضان رکھ دیا۔
اپنے گناہوں کو بخشوا لو

اپنے گناہوں کو بخشوا لو

لیکن علماء نے فرمایا کہ اس ماہ کو “رمضان” اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اپنے فضل و کرم سے بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں۔ اور جلا دیتے ہیں۔ اس مقصدکے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ مقرر فرمایا۔ گیارہ مہینے دنیاوی کاروبار، دنیاوی دھندوں میں لگے رہنے کے نتیجے میں غفلتیں دل پر چھا گیئں، اور اس عرصہ میں جن گناہوں اور خطاؤں کاارتکاب ہوا، ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر انہیں بخشوا لو۔ اور غفلت کے پردوں کو دل سے اٹھا دو، تاکہ زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے فرمایا کہ:

یاأیھاالذین آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔

(سورۃ  البقرہ: ۳۸۱)

یعنی یہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔ تو رمضان کے مہینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ سال بھر کے گناہوں کو بخشوانا، اور غفلت کے حجاب دل سے اٹھانا اور دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا۔ جیسے کسی مشین کو جب کچھ عرصہ استعمال کیا جائے تو اس کے بعد اس کی سروس کرانی پڑتی ہے۔ اس کی صفائی کرانی ہوتی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی سروس اور اوور ہالنگ کے لئے یہ رمضان المبارک کا مہینہ مقرر فرمایا ہے۔ تاکہ اس مہینے میں اپنی صفائی کراؤ، اور اپنی زندگی کو ایک نئی شکل دو۔

اس ماہ کو فارغ کرلیں

اس ماہ کو فارغ کرلیں

لہذا صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس مہینے کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس  مہینے میں دوسرے کاموں سے فارغ کرلے۔ اس لئے کہ گیارہ مہینے تک زندگی کے دوسرے کام دھندوں میں لگے رہے۔ لیکن یہ مہینہ انسان کے لئے اس کی اصل مقصد تخلیق کی طرف لوٹنے کا مہینہ ہے۔ اس لئے اس مہینے کے تمام اوقات، ورنہ کم از کم اکثر اوقات یا جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کرے۔ اور اس کے لئے انسان کو پہلے سے تیار ہونا چاہئے۔ اور اس کا پہلے سے پروگرام بنانا چاہئے۔

استقبال رمضان کا صحیح طریقہ

استقبال رمضان کا صحیح طریقہ

آج کل عالم اسلام میں ایک بات چل پڑی ہے۔ جس کی ابتداء عرب ممالک خاص کر مصر اور شام سے ہوئی اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی رائج ہو گئی۔ اور ہمارے یہاں بھی آگئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے کچھ محفلیں منعقد ہوتی ہیں جس کا نام محفل استقبال رمضان رکھا جاتا ہے۔ جس میں رمضان سے ایک دو دن پہلے ایک اجتماع منعقد کیا جاتا ہے اور اس میں قرآن کریم اور تقریر اور وعظ رکھا جاتا ہے۔ جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتلانا ہوتا ہے کہ ہم رمضان المبارک کا استقبال کر رہے ہیں اور اس کو خوش آمدید کہ رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے استقبال کا یہ جذبہ بہت اچھا ہے، لیکن یہی اچھا جذبہ جب آگے بڑھتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد بدعت کی شکل اختیار کرلیتاہے، چنانچہ بعض جگہوں پر اس استقبال کی محفل نے بدعت کی شکل اختیار کرلی۔ رمضان المبارک کا اصل استقبال یہ ہے کہ رمضان آنے سے پہلے اپنے نظام الاوقات بدل کر ایسا بنانے کی کوشش کرو کہ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت اللہ جل شانہ کی عبادت میں صرف ہو، رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے یہ سوچو کہ یہ مہینہ آرہا ہے، کس طرح میں اپنی مصروفیات کم کر سکتا ہوں۔ اس مہینے میں اگر کوئی شخص اپنے آپ کو بالکلیہ عبادت کے لئے فارغ کر لے تو سبحان اللہ، اور اگر کوئی شخص بالکلیہ اپنے آپ کوفارغ نہیں کر سکتا تو پھر یہ دیکھے کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لئے چھوڑ سکتا ہوں،ان کو چھوڑے۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہوں، ان کو کم کرے، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک مؤخر کر سکتا ہے۔ ان مؤخر کرے۔اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کرے۔ میرے نزدیک استقبال رمضان کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ اگر یہ کام کر لیا تو انشاء اللہ رمضان المبارک کی صحیح روح اور اس کے انوار و برکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئے گا اور چلا جائے گا اور اس سے صحیح طور پر فائدہ ہم نہیں اٹھا سکیں گے۔

روزہ اور تراویح سے ایک قدم آگے

روزہ اور تراویح سے ایک قدم آگے

جب رمضان المبارک کو دوسرے مشاغل سے فارغ کر لیا، تواب اس فارغ وقت کو کس کام میں صرف کرے؟ جہاں تک روزوں کا تعلق ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ روزہ رکھنا فرض ہے۔ اور جہاں تک تراویح کا معاملہ ہے۔ اس سے بھی ہر شخص واقف ہے۔ لیکن ایک پہلو کی طرف خاص طور پر متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ الحمد اللہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے، اس کے دل میں رمضان المبارک کا  ایک احترام اور اس کا تقدس ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کچھ زیادہ کرے اور کچھ نوافل زیادہ پڑھے۔ جو لوگ عام دنوں میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں۔ وہ لوگ بھی تراویح جیسی لمبی نماز میں بھی روزانہ شریک ہوتے ہیں۔ یہ سب الحمد اللہ اس ماہ کی برکت ہے کہ لوگ عبادت میں، نماز میں، ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں۔
ایک مہینہ اس طرح گزار لو

ایک مہینہ اس طرح گزار لو

لیکن ان سب نفلی نمازوں، نفلی عبادات، نفلی ذکر و اذکار، اور نفلی تلاوت قرآن کریم سے زیادہ مقدم ایک اور چیز ہے۔ جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس مہینے کو گناہوں سے پاک کرکے گزارنا کہ اس ماہ میں ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ اس مبارک مہینے میں آنکھ نہ بہکے، نظر غلط جگہ پر نہ پڑے، کان غلط چیز نہ سنیں۔ زبان سے کوئی غلط کلمہ نہ نکلے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی معصیت سے مکمل اجتناب ہو، یہ مبارک مہینہ اگر اس طرح گزار لیا۔پھر چاہے ایک نفلی رکعت نہ پڑھی ہو اور تلاوت زیادہ نہ کی ہو اور نہ ذکر و اذکار کیا ہو لیکن گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچتے ہوئے یہ مہینہ گزار دیا تو آپ قابل مبارک باد ہیں۔ اور یہ مہینہ آپ کے لئے مبارک ہے۔ گیارہ مہینے تک ہر قسم کے کام میں مبتلا رہتے ہیں یہ اللہ تبارک تعالیٰ کا ایک مہینہ آرہا ہے کم از کم اس کو تو گناہوں سے پاک کر لو۔ اس میں تو اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔ اس میں تو کم از کم جھوٹ نہ بولو۔ اس میں تو غیبت نہ کرو۔ اس میں تو بد نگاہی کے اندر مبتلا نہ ہو۔ اس مبارک مہینہ میں تو کانوں کو غلط جگہ پر استعمال نہ کرو۔ اس میں تو رشوت نہ کھاؤ، اس میں تو سود نہ کھاؤ، کم از کم یہ ایک مہینہ اس طرح گزار لو۔
یہ کیسا روزہ ہوا؟

یہ کیسا روزہ ہوا؟

اس لئے کہ آپ روزے تو ماشا اللہ بڑے ذوق و شوق سے رکھ رہے ہیں، لیکن روزے کے کیا معنی ہیں؟ روزے کہ معنی یہ ہیں کہ کھانے سے اجتناب کرنا، پینے سے اجتناب اور نفسانی خواہشات کی تکمیل سے اجتناب کرنا، روزے میں ان تینوں چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو فی نفسہ حلال ہیں، کھانا حلال، پینا حلال اور جائزطریقے سے زوجین کا نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنا حلال، اب روزے کے دوران آپ ان حلال چیزوں سے تو پرہیز کر رہے ہیں۔ نہ کھا رہے ہیں اور نہ پی رہے ہیں۔ لیکن جو چیزیں پہلے سے حرام تھیں، مثلاََ جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، بد نگاہی کرنا، جو ہر حال میں حرام تھیں، روزے میں یہ سب چیزیں ہو رہی ہیں۔ اب روزہ رکھا ہوا ہے اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے اور غیبت کر رہے ہیں۔ روزہ رکھا ہوا ہے اور بد نگاہی کر رہے ہیں۔روزہ رکھا ہوا ہے لیکن وقت پاس کرنے کے لئے گندی فلمیں دیکھ رہے ہیں، یہ کیا روزہ ہوا؟ کہ حلال چیز تو چھوڑ دی اور حرام چیز نہیں چھوڑی۔ اس لئے حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہ چھوڑے تو مجھے اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اس لئے جب جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا جو پہلے سے حرام تھا تو کھانا چھوڑ کر اس نے کون سا بڑا عمل کیا۔
روزہ کا ثواب ملیامیٹ ہو گیا

روزہ کا ثواب ملیامیٹ ہو گیا

اگرچہ فقہی اعتبار سے روزہ درست ہو گیا۔ اگر کسی مفتی سے پوچھو گے کہ میں نے روزہ بھی رکھا تھا اور جھوٹ بھی بولا تھا تو وہ مفتی یہی جواب دے گا کہ روزہ درست ہو گیا اس کی قضا واجب نہیں۔ لیکن اس کی قضا نہ ہونے کے باوجود اس روزے کا ثواب اور برکات ملیا میٹ ہوگیئں، اس واسطے کہ تم نے اس روزے کی روح حاصل نہیں کی۔
روزہ کا مقصد تقویٰ کی شمع روشن کرنا

روزہ کا مقصد تقویٰ کی شمع روشن کرنا

میں نے آپ کے سامنے جویہ آیت تلاوت کی کہ:

یا ایھا الذین آمنو کتب  علیکم  الصیام  کما  کتب علی  الذین  من  قبلکم  لعلکم  تتقون

ائے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے۔ کیوں روزے فرض کئے گئے؟ تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو، یعنی روزہ اصل میں اس لئے تمہارے ذمہ فرض کیا گیا، تاکہ اس کے ذریعہ تمہارے دل میں تقویٰ کی شمع روشن ہو۔ روزے سے تقویٰ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟

روزہ تقوے کی سیڑھی ہے

روزہ تقوے کی سیڑھی ہے

بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ اور قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے، جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانی تقاضے کچلے جائیں گے۔ جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا۔

لیکن ہمارے حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی قدس اللہ سرہ‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین، نے فرمایا کہ صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے۔ بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزہ رکھے گا تو یہ روزہ خود تقویٰ کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے۔ اس لئے کہ تقویٰ کے کیا معنی ہیں؟ تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا، یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو نا ہے۔ اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہے تو اسی کا نام تقویٰ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

واما من خاف مقام ربہ و نھی النفس عن الھوٰی
(سورۃ النازعات:۰۴)

یعنی جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے۔ اور کھڑا ہونا ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے، یہی تقویٰ ہے۔

میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے

میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے

لہٰذا روزہ حصول تقویٰ کے لئے بہترین ٹریننگ اور بہترین تربیت ہے، جب روزہ رکھ لیا تو آدمی پھر کیسا ہی گنہگار، خطاکار اور فاسق و فاجر ہو، جیسا بھی ہو، لیکن روزہ رکھنے کے بعد اس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ سخت گرمی کا دن ہے اور سخت پیاس لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں اکیلا ہے، کوئی دوسرا پاس موجود نہیں، اور دروازے پر کنڈی لگی ہوئی ہے اور کمرہ میں فرج موجود ہے، اور اس فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے۔ اس وقت انسان کا نفس یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس شدید گرمی کے عالم میں ٹھنڈا پانی پی لوں، لیکن کیا وہ شخص فرج سے ٹھنڈا پانی نکال کر پی لے گا؟ ہر گز نہیں پیئے گا۔ حالانکہ اگر وہ پانی پی لے تو کسی بھی انسان کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔ کوئی لعنت و ملامت کرنے والا نہیں ہوگا۔ اور دنیا والوں کے سامنے وہ روزہ دار ہی رہے گا، اور شام کو باہر نکل کر آرام سے لوگوں کے ساتھ افطاری کھالے تو کسی شخص کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس نے روزہ توڑ دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ پانی نہیں پیتا ہے، کیوں نہیں پیتا؟ پانی نہ پینے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگرچہ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا ہے، لیکن میرا مالک جس کے لئے میں نے روزہ رکھا ہے، وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔

میں ہی اس کا بدلہ دوں گا

میں ہی اس کا بدلہ دوں گا

اسی لئے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ:
الصوم لی وانا اجزی بہ

(ترمذی،  کتاب الصوم باب ماجاء فی فضل الصوم حدیث نمبر ۴۶۷)

یعنی روزہ میرے لئے ہے لہذا میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اور اعمال کے بارے میں تو یہ فرمایا کہ کسی عمل کا دس گناہ اجر، کسی عمل کا ستر گناہ اجر، اور کسی عمل کا سو گناہ اجر ہے۔ حتیٰ کہ صدقہ کا اجر سات سو گناہے، لیکن روزے کے بارے میں فرمایا کہ روزے کا اجر میں دوں گا۔ کیونکہ روزہ اس نے صرف میرے لئے رکھا تھا۔ اس لئے کہ شدید گرمی کی وجہ سے جب حلق میں کانٹے لگ رہے ہیں، اور زبان پیاس سے خشک ہے اور فرج میں ٹھنڈا پانی موجود ہے اور تنہائی ہے  کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود میرا بندہ صرف اس لئے پانی نہیں پی رہا ہے کہ اس کے دل میں میرے سامنے کھڑا ہونے اور جواب دہی کا ڈر اور احساس ہے۔ اس احساس کا نام تقویٰ ہے۔ اگر یہ احساس پیدا ہو گیا تو تقویٰ بھی پیدا ہو گیا۔ لہذا تقویٰ روزے کی ایک شکل بھی ہے۔ اور اس کے حصول کی ایک سیڑھی بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے روزے اس لئے فرض کئے تاکہ تقویٰ کی عملی تربیت دیں۔

ورنہ یہ تربیتی کورس مکمل نہیں ہوگا

ورنہ یہ تربیتی کورس مکمل نہیں ہوگا

اور جب تم روزہ کے ذریعہ یہ عملی تربیت حاصل کر رہے ہو تو پھر اس کو اور ترقی دو، اور آگے بڑھاؤ، لہذا جس طرح روزے کی حالت میں شدت پیاس کے باوجود پانی پینے سے رک گئے تھے، اور اللہ کے خوف سے کھانا کھانے سے رک گئے تھے، اسی طرح جب کاروبار زندگی میں نکلو، اور وہاں پر اللہ کی معصیت اور نا فرمانی کا تقاضہ اور داعیہ پیدا ہو تو یہاں بھی اللہ کے خوف سے اس کی معصیت سے رک جاؤ، لہٰذا ایک مہینے کے لئے ہم تمہیں ایک تربیتی کورس سے گزار رہیں ہیں۔ اور یہ تربیتی کورس اس وقت مکمل ہو گا جب کاروبار زندگی میں ہر موقع پر اس پر عمل کرو، ورنہ اس طرح یہ تربیتی کورس مکمل نہیں ہو گا کہ اللہ کے خوف سے پانی پینے سے تو رک گئے، اور جب کاروبار زندگی میں نکلے تو پھر آنکھ غلط جگہ پر پڑ رہی ہے۔ کان بھی غلط باتیں سن رہے ہیں۔ زبان سے بھی غلط باتیں نکل رہی ہیں۔ اس طرح تو یہ کورس مکمل نہیں ہوگا۔
روزہ کا ایئر کنڈیشنر لگا دیا، لیکن؟

روزہ کا ایئر کنڈیشنر لگا دیا، لیکن؟

جس طرح علاج ضروری ہے اس طرح پرہیز بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزہ اس لئے رکھوایا، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو، لیکن تقویٰ اس وقت پیدا ہوگا، جب اللہ کی نافرمانیوں اور معصیتوں سے پرہیز کرو گے۔ مثلاََ کمرہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے آپ نے اس میں ایئر کنڈیشنر لگایا، اور ایئر کنڈیشنر کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ پورے کمرے کو ٹھنڈا کردے، اب آپ نے اس کو آن کر دیا لیکن ساتھ ہی اس کمرہ کی کھڑکیاں اور دروازے کھول دیئے۔ ادھر سے ٹھنڈک آرہی ہے، اور ادھر سے نکل رہی ہے۔ لہذا کمرہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ بالکل اس طرح یہ سوچئے کہ روزہ کا ایئر کنڈیشنر تو آپ نے لگا  دیا لیکن ساتھ ہی دوسری طرف اللہ کی نافرمانی اور معصیتوں کے دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں۔ اب بتایئے ایسے روزے سے کوئی فائدہ حاصل ہو گا؟
اصل مقصد" حکم کی اتباع"

اصل مقصد” حکم کی اتباع”

اس طرح روزے کے اندر یہ حکمت کہ اس کا مقصد قوت بہیمیہ توڑنا ہے۔ یہ بعد کی حکمت ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ ان کے حکم کی اتباع ہو اور سارے دین کا مدار اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی اتباع ہے۔ وہ جب کہیں کہ کھاؤ، اس وقت کھانا دین ہے۔ اور جب وہ کہیں کہ مت کھاؤ اس وقت نہ کھانا دین ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنی اتباع کا عجیب نظام بنایا ہے کہ سارا دن تو روزے رکھنے کا حکم دیا، اور اس پر بڑا اجر و ثواب رکھا۔ لیکن ادھر آفتاب غروب ہوا ادھر یہ حکم آگیا کہ اب جلدی افطار کرو، اور افطار میں جلدی کرنے کو مستحب قرار دیا۔ اور بلاوجہ افطار میں تاخیر کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔ کیوں نا پسند یدہ ہے؟ اس لئے کہ جب آفتاب غروب ہو گیا تو اب ہمارا یہ حکم آگیا کہ کھاؤ اب بھی اگر نہیں کھاؤ گے اور بھوکے رہو گے تو یہ بھوک کی حالت ہمیں پسند نہیں۔ اس لئے کہ اصل کام ہماری اتباع کرنا ہے۔ اپنا شوق پورا نہیں کرنا ہے۔
ہمارا حکم توڑ دیا

ہمارا حکم توڑ دیا

عام حالات میں زندگی کی کسی چیز کی حرص اور ہوس بہت بری چیز ہے۔ لیکن جب وہ کہیں کہ حرص کرو، تو پھر حرص میں ہی لطف اور مزہ ہے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

چوں  طمع  خواہد  زمن  سلطان  دیں

خاک  بر  فرق   قناعت  بعد  ازیں

جب سلطان دین یہ چاہ رہے ہیں کہ میں حرص اور طمع کروں تو پھر قناعت کے سر پر خاک، پھر قناعت میں مزہ نہیں ہے۔ پھر تو طمع اور حرص میں مزہ ہے، یہ افطار میں جلدی کرنے کا حکم اسی وجہ سے ہے، غروب آفتاب سے پہلے تو یہ حکم تھا ایک ذرّہ بھی منہ میں چلا گیا تو گناہ بھی لازم اور کفارہ بھی لازم، مثلاََ سات بجے آفتاب غروب ہو رہا تھا۔ اب اگر کسی شخص نے چھ بج کر اُنسٹھ منٹ پر ایک چنے کا دانہ کھا لیا۔ اب بتایئے کہ روزہ میں کتنی کمی آئی؟ صرف ایک منٹ کی کمی آئی، ایک منٹ کا روزہ توڑا، لیکن اس ایک منٹ کے روزے کے کفارے میں ساٹھ دن کے روزے رکھنے واجب ہیں، اس لئے کہ بات صرف ایک چنے اور ایک منٹ کی نہیں ہے، بات دراصل یہ ہے کہ اس نے ہمارا حکم توڑا، ہمارا حکم یہ تھا کہ جب تک آفتاب غروب نہ ہو جائے اس وقت تک کھانا جائز نہیں، لیکن تم نے یہ حکم توڑ دیا، لہذا اس خلاف ورزی کی سزا میں ساٹھ دن کے روزے رکھو۔

افطار میں جلدی کرو

افطار میں جلدی کرو

اور پھر جیسے ہی آفتاب غروب ہو گیا تو یہ حکم آگیا کہ اب جلدی کھاؤ، اگر بلاوجہ تاخیر کردی تو گناہ ہو گا، کیوں؟ اس واسطے کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ کھاؤ، اب کھانا ضروری۔
سحری میں تاخیر افضل ہے

سحری میں تاخیر افضل ہے

سحری کہ بارے میں حکم یہ ہے کہ سحری تاخیر سے کھانا افضل ہے۔ جلدی کھانا خلاف سنت ہے، بعض لوگ رات کو بارہ بجے سحری کھا کر سو جاتے ہیں، یہ خلاف سنت ہے، چنانچہ صحابہ کرامؓ کا بھی یہی معمول تھا کہ بالکل آخری وقت تک کھاتے رہتے تھے۔ اس واسطے کہ یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف یہ کہ کھانے کی اجازت ہے بلکہ کھانے کا حکم ہے، اس لئے جب تک وہ باقی رہے گا، ہم کھاتے رہیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اتباع اور اطاعت اسی میں ہے، اب اگر کوئی شخص پہلے سحری کھالے تو گویا کہ اس نے روزے کے وقت میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیا، اس لئے پہلے سے سحری کھانے کو ممنوع قرار دیا۔ پورے دین میں سارا کھیل اتباع کا ہے، جب ہم نے کہا کہ کھاؤ تو کھانا ثواب ہے، اور جب ہم نے کہا کہ مت کھاؤ تو نہ کھانا ثواب ہے۔ اس لئے حضرت حکیم الامت قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ جب اللہ میاں کہہ رہے ہیں کہ کھاؤ، اور بندہ کہے کہ میں تو نہیں کھاتا۔ یا میں کم کھاتا ہوں۔ یہ تو بندگی اور اطاعت نہ ہوئی۔ ارے بھائی! نہ تو کھانے میں کچھ رکھا ہے اور نہ ہی نہ کھانے میں کچھ رکھا ہے۔ سب کچھ ان کی اطاعت میں ہے، اس لئے جب انہوں نے کہہ دیا کہ کھاؤ، تو پھر کھاؤ، اس میں اپنی طرف سے زیادہ پابندی کرنے کی ضرورت نہیں۔
ایک مہینہ بغیر گناہ کے گزار لو

ایک مہینہ بغیر گناہ کے گزار لو

البتہ اہتمام کرنے کی چیز یہ ہے کہ جب روزہ رکھ لیا تو اب اپنے آپ کو گناہوں سے بچاؤ۔ آنکھوں کو بچاؤ۔ کانوں کو بچاؤ،  زبانوں کو بچاؤ، ایک رمضان کے موقع پر ہمارے حضرت قدس اللہ سرہ نے یہاں تک فرمایا کہ میں ایک ایسی بات کہتا ہوں جو کوئی اور نہیں کہے گا۔ وہ یہ کہ اپنے نفس کو اس طرح بہلاؤ، اور اس سے عہد کر لو کہ ایک مہینہ بغیر گناہ کے گزار لو۔ جب یہ ایک مہینہ گزر جائے تو پھر تیرا جو جی چاہے کر چنانچہ حضرت والا فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جب یہ ایک مہینہ بغیر گناہ کے گزر جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ خود اس کے دل میں گناہ چھوڑنے کا داعیہ پیدا فرما دینگے۔ لیکن یہ عہد کرلو کہ یہ اللہ کا مہینہ آرہا ہے۔ یہ عبادت کا مہینہ ہے۔ یہ تقویٰ پیدا کرنے کا مہینہ ہے، ہم اس میں گناہ نہیں کریں گے، اور ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ وہ کن گناہوں میں مبتلا ہے۔ پھر ان سب کے بارے میں یہ عہد کرلے کہ میں ان میں مبتلا نہیں ہوں گا۔ مثلاََ یہ عہد کر لے کہ رمضان المبارک میں آنکھ غلط جگہ پر نہیں اٹھے گی۔ کان غلط بات نہیں سنیں گے۔ زبان سے غلط بات نہیں نکلے گی۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ روزہ بھی رکھا ہوا ہے اور فواحشات کو بھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، اور اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
اس ماہ میں رزق حلال

اس ماہ میں رزق حلال

دوسری اہم بات جو ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کم از کم اس ایک مہینے میں تو رزق حلال کا اہتمام کر لو، جو لقمہ آئے، وہ حلال کا آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ روزہ تو اللہ کے لئے رکھا، اور اس کو حرام چیز سے افطار کر رہے ہیں سود پر افطار ہو رہا ہے یا رشوت پر افطار ہو رہا ہے یا حرام آمدنی پر افطار ہو رہا ہے۔ یہ کیسا روزہ ہوا؟ کہ سحری بھی حرام اور افطاری بھی حرام، اور درمیان میں روزہ۔ اس لئے خاص طور پر اس مہینہ میں حرام روزی سے بچو۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے مانگو کہ یا اللہ! میں رزق حلال کھانا چاہتا ہوں۔ مجھے رزق حرام سے بچا لیجئے۔
حرام آمدنی سے بچیں

حرام آمدنی سے بچیں

بعض حضرات وہ ہیں، جن کا بنیادی ذریعہ معاش…..الحمداللہ……حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے، البتہ اہتمام نہ ہونے کی وجہ سے کچھ حرام آمدنی کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ایسے حضرات کے لئے حرام سے بچنا کوئی دشوار کام نہیں ہے، وہ کم از کم اس ماہ میں تھوڑاسا اہتمام کر لیں، اور حرام آمدنی سے بچیں……یہ عجیب قصہ ہے کہ اس ماہ کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ یہ مواسات اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ ایک دوسرے سے ہمدردی کا مہینہ ہے۔ لیکن اس ماہ میں مواسات کے بجائے لوگ الٹا کھال کھینچنے کی فکر کرتے ہیں۔ اِدھر رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور اُدھر چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ لہذا کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو ایسے حرام کاموں سے بچا لو۔
اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟

اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟

بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر حرام ہے، مثلاََ وہ کسی سودی ادارہ میں ملازم ہیں، ایسے حضرات اس ماہ میں کیا کریں؟ ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ……اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین……ہر آدمی کے لئے راستہ بتا گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: میں ایسے آدمی کو جس کی مکمل آمدنی حرام ہے۔ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو رمضان میں چھٹی لے لے، اور کم از کم اس ماہ کے خرچ کے لئے جائز اور حلال ذریعہ سے انتظام کر لے۔ کوئی جائز آمدنی کا ذریعہ اختیار کر لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اس ماہ کے خرچ کے لئے کسی سے قرض لے لے۔ اور یہ سوچے کہ میں اس مہینہ میں حلال آمدنی سے کھاؤں گا۔ اور اپنے بچوں کو بھی حلال کھلاؤں گا، کم از کم اتنا تو کرلے۔
اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟

اگر آمدنی مکمل حرام ہے تو پھر؟

بعض حضرات وہ ہیں جن کا ذریعہ آمدنی مکمل طور پر حرام ہے، مثلاََ وہ کسی سودی ادارہ میں ملازم ہیں، ایسے حضرات اس ماہ میں کیا کریں؟ ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ……اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین……ہر آدمی کے لئے راستہ بتا گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: میں ایسے آدمی کو جس کی مکمل آمدنی حرام ہے۔ یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو رمضان میں چھٹی لے لے، اور کم از کم اس ماہ کے خرچ کے لئے جائز اور حلال ذریعہ سے انتظام کر لے۔ کوئی جائز آمدنی کا ذریعہ اختیار کر لے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اس ماہ کے خرچ کے لئے کسی سے قرض لے لے۔ اور یہ سوچے کہ میں اس مہینہ میں حلال آمدنی سے کھاؤں گا۔ اور اپنے بچوں کو بھی حلال کھلاؤں گا، کم از کم اتنا تو کرلے۔

گناہوں سے بچنا آسان

گناہوں سے بچنا آسان

بہرحال! میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ لوگ اس مہینہ میں نوافل وغیرہ کا تو اہتمام بہت کرتے ہیں، لیکن گناہوں سے بچنے کا اتنا  اہتمام نہیں کرتے۔ حالانکہ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کو آسان فرما دیا ہے۔ چنانچہ اس ماہ میں شیطان کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور ان کو قید کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا شیطان کی طرف سے گناہ کرنے کے وسوسے اور تقاضے ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
روزے میں غصے سے پرہیز

روزے میں غصے سے پرہیز

تیسری بات جس کا روزے سے خاص تعلق ہے، وہ ہے غصے سے اجتناب اور پرہیز، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مواسات کا مہینہ ہے۔ ایک دوسرے سے غمخواری کا مہینہ ہے۔ لہذا غصہ اور غصہ کی وجہ سے سر زد ہونے والے جرائم اور گناہ، مثلاً جھگڑا، مار پٹائی اور تو تکار، ان چیزوں سے پر ہیز کا اہتمام کریں۔ حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا کہ:

وان جھل علی احد کم جاہل و ھو صائم۔ فلیقل انی صائم
(ترمذی، کتاب الصوم، باب ماجاء فی فضل الصوم، حدیث نمبر:۴۶۷)

یعنی اگر کوئی شخص تم سے جہالت اور لڑائی کی بات کرے تو تم کہہ دو کہ میرا روزہ ہے۔ میں لڑنے کے لئے تیار نہیں۔ نہ زبان سے لڑنے کے لئے تیار ہوں، اور نہ ہاتھ سے۔ اس سے پرہیز کریں۔ یہ سب بنیادی کام ہیں۔

رمضان میں نفلی عبادات زیادہ کریں

رمضان میں نفلی عبادات زیادہ کریں

جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، تمام مسلمان ماشاء اللہ جانتے ہی ہیں کہ روزہ رکھنا، تراویح پڑھنا ضروری ہے، اور تلاوت  قرآن کو چونکہ اس مہینے سے خاص مناسبت ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، اس مہینہ میں تلاوت کریں اور اس کے علاوہ چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے زبان سے اللہ کا ذکر کریں۔ اور تیسرا کلمہ: سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر اور درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے، اس کی کثرت کا اہتمام کریں اور نوافل کی جتنی کثرت ہو سکے کریں۔ اور عام دنوں میں رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن رمضان المبارک میں چونکہ انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے، تھوڑا پہلے اٹھ جائے اور سحری سے پہلے تہجد پڑھنے کا معمول بنا لے۔ اور اس ماہ میں نماز خشوع کے ساتھ اور مرد با جماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کر لیں۔ یہ سب کام تو اس ماہ میں کرنے ہی چاہئیں۔ یہ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں سے زیادہ اہم گناہوں سے بچنے کی فکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان المبارک کے انوار و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

رمضان میں نفلی عبادات زیادہ کریں

رمضان میں نفلی عبادات زیادہ کریں

جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، تمام مسلمان ماشاء اللہ جانتے ہی ہیں کہ روزہ رکھنا، تراویح پڑھنا ضروری ہے، اور تلاوت قرآن کو چونکہ اس مہینے سے خاص مناسبت ہے چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے، اس مہینہ میں تلاوت کریں اور اس کے علاوہ چلتے پھرتے،اٹھتے بیٹھتے زبان سے اللہ کا ذکر کریں۔ اور تیسرا کلمہ: سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الااللہ و اللہ اکبر اور درود شریف اور استغفار کا چلتے پھرتے، اس کی کثرت کا اہتمام کریں اور نوافل کی جتنی کثرت ہو سکے کریں۔ اور عام دنوں میں رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن رمضان المبارک میں چونکہ انسان سحری کے لئے اٹھتا ہے، تھوڑا پہلے اٹھ جائے اور سحری سے پہلے تہجد پڑھنے کا معمول بنا لے۔ اور اس ماہ میں نماز خشوع کے ساتھ اور مرد با جماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کر لیں۔ یہ سب کام تو اس ماہ میں کرنے ہی چاہئیں۔ یہ رمضان المبارک کی خصوصیات میں سے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں سے زیادہ اہم گناہوں سے بچنے کی فکر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور رمضان المبارک کے انوار و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین۔

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

Book Options

Author: Shaykh al-Islam Mufti Muhammad Taqi Usmani Hafizullah

Leave A Reply