ضبط وترتیب
محمد عبداللہ میمن
۸۸۱/۱۔لیاقت آباد، کراچی۹۱
بزرگان محترم وبرادران عزیز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس روئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعث اجر و ثواب اتنا باعث خیر وبرکت نہیں ہوسکتا جتنا سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن تذکرہ کے ساتھ ساتھ ان سیرت طیبہ کی محفلوں میں ہم نے بہت سی ایسی غلط باتیں شروع کردی ہیں۔ جن کی وجہ سے ذکر مبارک کا صحیح فائدہ اور صحیح ثمرہ ہمیں حاصل نہیں ہورہا ہے۔
ان غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہے کہ ہم نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرمبارک صرف ایک مہینے یعنی ربیع الاول کے ساتھ خاص کردیا ہے، اور ربیع الاول کے بھی صرف ایک دن اور ایک دن میں بھی صرف چند گھنٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اداکردیاہے، یہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم سیرت طیبہ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری زندگی میں کہیں یہ بات آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اور نہ آپ کو اس کی ایک مثال ملے گی کہ انہوں نے ۲۱ ربیع اول کو خاص جشن منایا ہو۔ عید میلادالنبی کا اہتمام کیا ہو، یااس خاص مہینے کے اندر سیرت طیبہ کے محفلیں منعقد کی ہوں۔ اس کے بجائے صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جہاں دو صحابہ ملے انہوں نے آپ کی احادیث اور آپ کے ارشادات آپ کی دی ہوئی تعلیمات کا آپ کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کا تذکرہ شروع کردیا۔ اس لئے ان کی ہر محفل سیرت طیبہ کی محفل تھی۔ ان کی ہر نشست سیرت طیبہ کی نشست تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور تعلق کے اظہار کے لئے رسمی مظاہروں کی ضرورت نہ تھی کہ عید میلادالنبی منائی جارہی ہے اور جلوس نکالے جارہے ہیں۔ جلسے ہورہے ہیں۔ چراغاں کیا جارہا ہے۔ اس قسم کے کاموں کی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔
بات درحقیقت یہ تھی کہ رسمی مظاہرہ کرنا صحابہ کرام کی عادت نہیں تھی، وہ اس کی روح کو اپنائے ہوئے تھے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں کیوں تشریف لائے تھے؟ آپ کاکیا پیغام تھا؟ آپ کی کیا تعلیم تھی؟ آپ دنیا سے کیا چاہتے تھے؟ اس کام کے لئے انہوں نے اپنی ساری زندگی کو وقف کردیا۔لیکن اس قسم کے رسمی مظاہرے نہیں کئے۔ اور یہ طریقہ ہم نے غیرمسلموں سے لیا ہے۔ہم نے دیکھا کہ غیر مسلم اقوام اپنے بڑے بڑے لیڈروں کے دن منایاکرتی ہیں۔ اور ان دنوں میں خاص جشن اور خاص محفل منعقدکرتی ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہم نے سوچا کہ ہم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کے لئے عیدمیلادالنبی منائیں گے۔ اور یہ نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کے نام پر کوئی دن منایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کے تمام لمحات کوقابل اقتداء اور قابل تقلید نہیں سمجھاجاسکتا۔ بلکہ یا تو وہ سیاسی لیڈر ہوتا ہے۔ یاکسی اور دنیاوی معاملے میں لوگوں کا قائد ہوتا ہے، تو صرف اس کی یاد تازہ کرنے کے لئے اس کا دن منایاگیا لیکن اس قائد کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قابل تقلید ہے۔ اور اس نے دنیا میں جوکچھ کیا، وہ صحیح کیا ہے، وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک تھا لہذا اس کی ہر چیز کو اپنایا جائے۔ان میں سے کسی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا……
لیکن یہاں تو سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بھیجا ہی اس مقصد کے لئے تھا کہ آپ انسانیت کے سامنے ایک مکمل اور بہترین نمونہ پیش کریں، ایسا نمونہ بن جائیں، جس کو دیکھ کر لوگ نقل اتاریں۔ اس کی تقلید کریں، اس پر عمل پیراہوں، اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس غرض کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجاگیا تھا۔ آپ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ ہمارے لئے ایک مثال ہے، ایک نمونہ ہے۔ اور ایک قابل تقلید عمل ہے۔ اور ہمیں آپ کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی نقل اتارنی ہے۔ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یہ فریضہ ہے، لہذا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے دوسرے لیڈروں پر قیاس نہیں کرسکتے۔ کہ ان کا ایک دن منالیا اور بات ختم ہوگئی بلکہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ہماری زندگی کے ایک ایک شعبے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نمونہ بنادیا ہے۔ اور سب چیزوں میں ہمیں ان کی اقتدا کرنی ہے، ہمارا زندگی کا ہردن ان کی یاد منانے کا دن ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیرت کی محفلیں اور جلسے جگہ جگہ منعقد ہوتے ہیں، اور ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو بیان کیا جاتا ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ کام کتنا ہی اچھے سے اچھا کیوں نہ ہو۔ مگر جب تک کام کرنے والے کی نیت صحیح نہیں ہوگی۔ جب تک اس کے دل میں داعیہ اور جذبہ صحیح نہیں ہوگا۔ اس وقت تک وہ کام بے کار، بے فائدہ، بے مصرف، بلکہ بعض اوقات مضر، نقصان دہ اور باعث گناہ بن جاتا ہے، دیکھئے، نماز کتنا اچھا عمل ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور قرآن حدیث نماز کے فضائل سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص نماز اس لئے پڑھ رہا ہے تاکہ لوگ مجھے نیک متقی اور پارسا سمجھیں، ظاہر ہے کہ وہ ساری نماز اکارت ہے، بے فائدہ ہے، بلکہ ایسی نماز پڑھنے سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ ہوگا، حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
من صلی یرائی فقد اشرک باللہ
(مسند احمد، ج۴ص۶۲۱)
”جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے تو گویا کہ اس نے اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہرایا ہے “۔
اس لئے کہ وہ نماز اللہ کو راضی کرنے کے لئے نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ مخلوق کوراضی کرنے کے لئے اور مخلوق میں اپنے تقوی اور نیکی کارعب جمانے کے لئے پڑھ رہا ہے، اس لئے وہ ایسا ہے جیسے اس نے اللہ کے ساتھ مخلوق کو شریک ٹھیرایا، اتنااچھا کام تھا، لیکن صرف نیت کی خرابی کی وجہ سے بیکار ہوگیا، اور الٹا باعث گناہ بن گیا۔
یہی معاملہ سیرت طیبہ کے سننے اورسنانے کا ہے، اگر کوئی شخص سیرت طیبہ کو صحیح مقصد، صحیح نیت اور صحیح جذبے سے سنتا اور سناتا ہے تویہ کام بلاشبہ عظیم الشان ثواب کا کام ہے اور باعث خیروبرکت ہے۔ اور زندگی میں انقلاب لانے کا موجب ہے، لیکن اگر کوئی شخص سیرت طیبہ کو صحیح نیت سے نہیں سنتا، اور صحیح نیت سے نہیں سناتا ہے، بلکہ اس کے ذریعہ کچھ اور اغراض ومقاصد دل میں چھپے ہوئے ہیں۔ اور جن کے تحت سیرت طیبہ کے جلسے اور محفلیں منعقد کی جارہی ہیں۔ توبھائیو! یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے، اس لئے کہ ظاہر میں تو نظر آرہا ہے کہ آپ بہت نیک کام کررہے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ الٹا گناہ کا سبب بن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب اور عتاب کا سبب بن رہا ہے۔
اس نقطہ نظر سے اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں، اور سچے دل سے نیک نیتی کے ساتھ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان تمام محفلوں میں جو کراچی سے پشاور تک منعقد ہورہی ہیں، کیا ان کے منتظمین اس بناء پرمحفل منعقد کررہے ہیں کہ ہمارامقصد اللہ تعالیٰ کوراضی کرنا ہے؟اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی مقصود ہے؟ کیا اس لئے محفل منعقد کررہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتعلیمات ان محفلوں میں سنیں گے اس کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے؟ بعض اللہ کے نیک بندے ایسے بھی ہوں گے جن کی یہ نیت ہوگی۔ لیکن ایک عام طرز عمل دیکھئے تو یہ نظر آئے گا محفل منعقد کرنے کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔ نیتیں ہی کچھ اور ہیں، یہ نیت نہیں ہے کہ اس جلسے میں شرکت کے بعد ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے، بلکہ نیت یہ ہے کہ محلے کی کوئی انجمن ہے،جو اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لئے جلسہ منعقد کررہی ہے، اور یہ خیال ہے کہ جلسہ سیرت النبی کرنے سے ہماری انجمن کی شہرت ہوجائے گی، کوئی جماعت اس لئے جلسہ سیرت النبی منعقد کررہی ہے کہ اس جلسہ کے ذریعہ ہماری تعریف ہوگی کہ بڑا شاندار جلسہ کیا، بڑے اعلیٰ درجے کے مقریرین بلائے، اور بڑے مجمع نے اس میں شرکت کی اور مجمع نے ان کی بڑی تحسین کی……کہیں جلسے اس لئے منعقد ہورہے ہیں کہ اپنی بات کہنے کا کوئی اور موقع تو ملتا نہیں ہے، کوئی سیاسی بات ہے یا کوئی فرقہ وارانہ بات ہے جس کو کسی اور پلیٹ فارم پر ظاہر نہیں کیا جاسکتا، اس لئے سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کرلیں، اور اس میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں، چنانچہ اس جلسے میں پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اورتوصیف کے دوچار جملے بیان ہوگئے اور اس کے بعد پوری تقریر میں اپنے مقاصد بیان ہورہے ہیں، اور فریق مخالف پر بمباری ہورہی ہے۔ اس غرض کے لئے جلسے منعقد ہورہے ہیں۔
پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر واقعتہً سچے دل سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی نیت سے ہم نے یہ محفلیں منعقد کی ہوتیں تو پھر ہمارا طرز عمل کچھ اور ہوتا، ایک گھر میں ایک محفل میلاد منعقد ہورہی ہے، اب اگراس محفل میں اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار شریک نہیں ہوا تو اس کو مطعون کیا جارہا ہے اور اس پر ملامت کی جارہی ہے۔ اور اس سے شکایتیں ہورہی ہیں، اس محفل میں شرکت کرنے والوں کی نیت یہ نہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سننی ہے اور اس پر عمل کرنا ہے بلکہ نیت یہ ہے کہ کہیں محفل منعقد کرنے والے ہم سے ناراض نہ ہوجائیں۔ اور ان کے دل میں شکایت پیدا نہ ہوجائے، اللہ کو راضی کرنے کی فکر نہیں ہے، محفل منعقد کرنے والوں کوراضی کرنے کی فکر ہے۔
کوئی شخص اس لئے جلسے میں شرکت کررہا ہے کہ اس میں فلاں مقرر صاحب تقریر کریں گے۔ ذراجاکر دیکھیں کہ وہ کیسی تقریرکرتے ہیں، سنا ہے کہ بڑے جوشیلے اور شاندار مقرر ہیں۔بڑی دھواں دھارتقریرکرتے ہیں ……گویا کہ تقریر کا مزہ لینے کے لئے جارہے ہیں، تقریر کے جوش وخروش کا اندازہ کرنے کے لئے جارہے ہیں۔ اور یہ دیکھنے کے لئے جارہے ہیں کہ فلاں مقرر کیسے گاگاکر شعر پڑھتا ہے کتنے واقعات سناتاہے۔
کچھ لوگ اس لئے سیرت النبی کے جلسے میں شرکت کررہے ہیں کہ چلو آج کوئی اور کام نہیں ہے، اور وقت گزاری کرنی ہے، چلو، کسی جلسے میں جاکر بیٹھ جاؤ تو وقت گزرجائے گا……اور بے شمار افراد اس لئے شریک ہورہے ہیں کہ گھر میں تو دل نہیں لگ رہا ہے اور محلے میں ایک جلسہ ہورہا ہے، چلو اس میں تھوڑی دیر جاکر بیٹھ جائیں، اور جتنی دیر دل لگے گا، وہاں بیٹھے رہیں گے، اور جب دل گھبرائے گا، اٹھ کرچلے جائیں گے۔ لہذا مقصد یہ نہیں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو حاصل کیاجائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ کچھ وقت گزاری کا سامان ہوجائے، اگرچہ بعض اوقات اس طرح وقت گزاری کے لئے جانا بھی فائدہ مند ہوجاتا ہے، اللہ رسول کی کوئی بات کان میں پڑجاتی ہے۔ اور اس سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے، ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں ……لیکن میں نیت کی بات کررہا ہوں کہ جاتے وقت نیت درست نہیں ہوتی۔ یہ نیت نہیں ہوتی کہ میں جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سن کر اس پر عمل پیراہوں گا۔
قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنتہ
تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، اور آپ کی حیات طیبہ مشعل راہ ہے، یہ ایک پیغام ہدایت ہے، اور یہ ایک اسوہ حسنہ ہے، ایک مکمل نمونہ ہے، لیکن ہر شخص کے لئے نمونہ نہیں ہے، بلکہ اس شخص کے لئے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرناچاہتاہو۔ اور اس شخص کے لئے جو یوم آخرت کو سنوارنا چاہتا ہو۔ اور یوم آخرت پر اس کا پورا ایمان اور یقین اور بھروسہ ہو۔ اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو کثرت سے یادکرتا ہو۔ لہذا جس شخص میں یہ اوصاف پائے جائیں گے اس کے لئے سیرت طیبہ ایک پیغام ہدایت ہے۔
لیکن جس شخص کے اندر یہ اوصاف موجود نہیں اور جو اللہ کو راضی کرنا نہیں چاہتا۔ اور جویوم آخرت پر بھروسہ نہیں رکھتا، اور یوم آخرت کو سنوارنے کے لئے یہ کام نہیں کرتا۔ اور وہ اللہ کو کثرت سے یاد نہیں کرتا، اس کے لئے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اسکے لئے ہدایت کا پیغام بن جائے گی۔ سیرت طیبہ تو ابوجہل کے سامنے بھی تھی، اور ابولہب کے سامنے بھی تھی، امیہ بن خلف کے سامنے بھی تھی۔ لیکن وہ سیرت طیبہ سے فائدہ نہیں اٹھاسکے ؎
باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید ودرشورہ بوم خس
یعنی وہ زمین ہی بنجر تھی۔ اور اس بنجر زمین میں ہدایت کا بیج ڈالا نہیں جاسکتا تھا۔ وہ بارآور نہیں ہوسکتا تھا۔ لہذا اگر کسی شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر نہیں، اور آخرت کو سنوارنے کی فکر نہیں، اور اللہ کی یاد اس کے دل میں نہیں ہے تو پھر کسی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے وہ شخص اپنی زندگی میں فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ لہذا یہ سارے مناظر جو ہم دیکھ رہے ہیں اس میں بسااوقات ہماری نیتیں درست نہیں ہوتیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں تقریریں سن لیں، اور ہزاروں محفلوں میں شرکت کرلی۔ لیکن زندگی جیسے پہلے تھی ویسی آج بھی ہے، جس طرح پہلے ہمارے دلوں میں گناہوں کا شوق اور گناہوں کی طرف رغبت تھی وہ آج بھی موجود ہے اس کے اندر کوئی فرق نہیں آیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ انہی سیرت طیبہ کے نام پرمنعقد ہونے والی محفلوں میں عین محفل کے دوران ہم ایسے کام کرتے ہیں جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے قطعی خلاف ہیں۔ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کانام لیاجارہا ہے۔ آپ کی تعلیمات، آپ کی سنتوں کا ذکر کیاجارہا ہے، لیکن عملاً ہم ان تعلیمات کا، ان سنتوں کا، ان ہدایات کا مذاق اڑارہے ہیں جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔
چنانچہ ہمارے معاشرے میں اب ایسی محفلیں کثرت سے ہونے لگی ہیں جن میں مخلوط اجتماع ہے اور عورتیں اور مرد ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، اورسیرت طیبہ کا بیان ہورہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عورتوں کو فرمایا کہ اگر تمہیں نمازبھی پڑھنی ہو تومسجد کے بجائے گھر میں پڑھو، اور گھر میں صحن کے بجائے کمرے میں پڑھو، اور کمرے میں بہتر یہ ہے کہ کوٹھری میں پڑھو، عورت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حکم دے رہے ہیں۔ لیکن انہی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر مبارک ہورہا ہے۔جس میں عورتیں اور مرد مخلوط اجتماعات میں شریک ہیں، اور کسی اللہ کے بندے کو یہ خیال نہیں آتا کہ سیرت طیبہ کے ساتھ کیا مذاق ہورہا ہے، پوری آرائش اور زیبائش کے ساتھ سج دھج کر بے پردہ ہوکر خواتین شریک ہورہی ہیں، اور مرد بھی ساتھ موجود ہیں۔
نبی کریم سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے جس کام کے لئے بھیجاگیا ہے۔ اس میں سے ایک اہم کام یہ ہے کہ میں ان باجوں بانسریوں کو اور سازوسرور کواور آلات موسیقی کو اس دنیا سے مٹادوں۔ لیکن آج انہی سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پرمحفل منعقد ہورہی ہے۔جلسہ ہورہا ہے اور اس میں سازوسرور کے ساتھ لفظ ”شریف“ بھی لگ گیا ہے۔ اور اس میں پورے آب وتاب کے ساتھ ہارمونیم بج رہا ہے، سازوسرور ہورہا ہے، عام گانوں میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت میں کوئی فرق نہیں رکھا جارہاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے
ساتھ اس سے بڑامذاق اورکیا ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر عورتیں اور مرد مل کر نعتیں پڑھ رہے ہیں۔ ٹیلیویژن دیکھنے والوں نے بتایا کہ عورتیں پورے آرائش اور زیبائش کے ساتھ ٹیلیویژن پرآرہی ہیں۔ یہ کیا مذاق ہے جو آپ کی سیرت طیبہ اور آپ کی تعلیمات کے ساتھ ہورہا ہے۔ عورت جس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا کہ:ولا تبرجن تبرج
الجاہلےۃ الاولی(سورۃ الاحزاب:۳۳)
یعنی زمانہ جاہلیت کی طرح تم بناؤ سنگھار کر کے مردوں کے سامنے مت آؤ، آج وہی عورت پورے میک اپ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ مردوں کے سامنے آرہی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعت پڑھ رہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اورسیرت کے ساتھ اس سے بڑاظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوگی تو پھر آپ سے زیادہ دھوکے میں کوئی اور نہیں ہے۔ نبی کریم سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو مٹاکر، آپ کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے، آپ کی سیرت طیبہ کی مخالفت کرکے اور اس کا مذاق اڑاکر بھی اگر آپ اس کے متمنی ہیں کہ اللہ کی رحمتیں آپ پر نچھاور ہوں تو اس سے بڑا مغالطہ اور اس سے بڑا دھوکہ اس روئے زمین پر کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ معاذاللہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عتاب کو دعوت دینے والی باتیں ہیں، وہ کام جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے کام ہیں، وہ ہم عین سیرت طیبہ کو بیان کرتے وقت کرتے ہیں۔
پہلے بات صرف جلسوں کی حد تک محدود تھی کہ سیرت طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے، اس میں شریعت کی چاہے جتنی خلاف ورزی ہورہی ہو، کسی کو پرواہ نہیں، لیکن اب تو بات اور آگے بڑھ گئی ہے چنانچہ دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے جلسے کے انتظامات ہورہے ہیں۔ اور ان انتظامات میں نمازیں قضاہورہی ہیں، کسی شخص کو نماز کا ہوش نہیں، پھر رات کے دودوبجے تک تقریریں ہورہی ہیں۔ اور صبح فجر کی نماز جارہی ہے۔ جب کہ نبی کریم سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد تو یہ تھا کہ جس شخص کی ایک عصر کی نماز فوت ہوجائے تو وہ شخص ایسا ہے جیسے اس کے تمام مال اور تمام اہل وعیال کو کوئی شخص لوٹ کرلے گیا۔ اتنا عظیم نقصان ہے……لیکن سیرت طیبہ کے جلسے کے انتظامات میں نمازیں قضاہورہی ہیں اور کوئی فکر نہیں، اس لئے کہ ہم تو ایک مقدس کام میں لگے ہوئے ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکی جوتاکید بیان فرمائی تھی وہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔
اور سنئے: سیرت طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے۔جس میں کل پچیس تیس سامعین بیٹھے ہیں۔ لیکن لاؤڈاسپیکر اتنا بڑا لگاناضروری ہے کہ اس کی آواز پورے محلے میں گونجے، جس کا مطلب یہ ہے۔ کہ جب تک جلسہ ختم نہ ہوجائے اس وقت تک محلے کا کوئی بیمار، کوئی ضعیف، کوئی بوڑھا اور معذورآدمی سونہ سکے۔ حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو یہ تھا کہ آپ تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہورہے ہیں، لیکن کس طرح بیدارہورہے ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا)بیان فرماتی ہیں کہ”فقام رویداًآپ دھیرے سے اٹھے کہیں ایسا نہ ہوکہ عائشہ (رضی اللہ عنھا) کی آنکھ کھل جائے۔ ”فتح الباب رویدا“ آہستہ سے دروازہ کھولا۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ عائشہ (رضی اللہ عنھا) کی آنکھ کھل جائے اور نماز جیسے فریضے کے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کایہ عمل تھا کہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں نماز کے اندر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بچے کی آواز سن کر اس کی ماں کسی مشقت میں مبتلا ہوجائے……لیکن یہاں بلاضرورت، بغیر کسی وجہ کے، صرف۵۲،۰۳ سامعین کوسنانے کے لئے اتنا بڑا لاؤڈ اسپیکر نصب ہے کہ کوئی ضعیف، بیمار آدمی اپنے گھر میں سونہیں سکتا، اور انتظام کرنے والے اس سے بے خبر ہیں کہ کتنے بڑے کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے۔ اس لئے (نسائی، کتاب عشرۃ النساء، باب لغیرۃ، حدیث نمبر۳۶۹۳) کہ ایذاء مسلم کبیرہ گناہ ہے، اس کا کسی کو احساس نہیں۔
ہمارا یہ ساراطرز عمل اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ درحقیقت نیت درست نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی نیت نہیں ہے بلکہ مقاصد کچھ اور ہیں ……اورجیسا کہ میں نے عرض کیا پہلے صرف جلسوں کی حد تک بات تھی، اب تو جلسوں سے آگے بڑھ کر جلوس نکلنا شروع ہوگئے۔اور اس کے لئے استدلال یہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فرقہ فلاں مہینے میں اپنے امام کی یاد میں جلوس نکالتا ہے تو پھر ہم اپنے نبی کے نام پر ربیع الاول میں جلوس کیوں نہ نکالیں، گویا کہ اب ان کی نقل اتاری جارہی ہے کہ جب محرم کا جلوس نکلتا ہے تو ربیع الاول کا بھی نکلنا چاہیے، بزعم خود یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق عمل
کررہے ہیں، اور آپ کی عظمت اور محبت کا حق اداکررہے ہیں۔
لیکن اس پر ذراغورکریں کہ اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس جلوس کو دیکھ لیں جو آپ کے نام پر نکالا جارہا ہے تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو گوارا اور پسند فرمائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیشہ اس امت کو ان رسمی مظاہروں سے اجتناب کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظاہری اور رسمی چیزوں کی طرف جانے کے بجائے میری تعلیمات کی روح کو دیکھو، اور میری تعلیمات کو اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری حیات طیبہ میں کوئی شخص ایک نظیر یا ایک مثال اس بات پر پیش کرسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے نام پر ربیع الاول میں یا کسی مہینے میں کوئی جلوس نکالا گیا ہو؟ بلکہ پورے تیرہ سو سال کی تاریخ میں کوئی ایک مثال کم ازکم مجھے تو نہیں ملی کہ کسی نے آپ کے نام پر جلوس نکالا ہو۔ ہاں! شیعہ حضٰرت محرم میں اپنے امام کے نام پرجلوس نکالاکرتے تھے، ہم نے سوچا کہ ان کی نقالی میں ہم بھی جلوس نکالیں گے۔ حالاں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من تشبہ لیوم فیومنھم (ابوداؤد، کتاب اللبلاس، باب فی لیس الشھرۃ، حدیث نمبر ۱۳۰۴)
جوشخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیارکرتا ہے وہ ان میں سے ہوجاتا ہے اور صرف جلوس نکالنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہورہا ہے کہ کعبہ شریف کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں۔گنبد خضراء کی شبیہیں بنائی جا رہی ہیں۔ پورالالوکھیت ان چیزوں سے بھراہوا ہے۔اور دنیا بھر کی عورتیں،بچے، بوڑھے اس کو متبرک سمجھ کر برکت حاصل کرنے کے لئے اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہاں جاکر دعائیں مانگی جارہی ہیں، منتیں مانی جارہی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نام پر یہ کیاہورہا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شرک کو، بدعات کو، اور جاہلیت کو مٹانے کے لئے دنیا میں تشریف لائے اور آج آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام یہ ساری بدعات شروع کردیں، روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اس گنبد سے کوئی مناسبت نہیں، جو آپ نے اپنے ہاتھوں بناکر کھڑاکردیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مقدس سمجھ کر تبرک کے لئے کوئی اس کو چوم رہا ہے، کوئی اس کو ہاتھ لگارہا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ توحجر اسود کو چومتے وقت فرماتے ہیں کہ اے حجر اسود! میں جانتا ہوں تو ایک پتھر کے سوا کچھ نہیں ہے، خداکی قسم! اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے تجھے چومتا ہوانہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوچومتے ہوئے دیکھا ہے، اور ان کی یہ سنت ہے اس
وہاں تو حجر الاسود کو یہ کہاجارہا ہے۔ اور یہاں اپنے ہاتھ سے ایک گنبد بناکر کھڑاکردیا، اپنے ہاتھ سے ایک کعبہ بنا کر کھڑاکردیا، اور اس کو متبرک سمجھاجارہا ہے اور اس کو چوما جارہا ہے، یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو مٹانے کے لئے تشریف لائے تھے، اسی کو زندہ کیا جارہا ہے، چراغاں ہورہا ہے، ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ گانے بجانے ہورہے ہیں، تفریح بازی ہورہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر میلہ منعقد کیا ہوا ہے۔ یہ دین کو کھیل کود بنانے کا ایک بہانہ ہے، جو شیطان نے ہمیں سکھادیا ہے۔ خدا کے لئے ہم اپنی جانوں پر رحم کریں اورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی عظمت اور محبت کا حق اداکریں اور اس کی عظمت اور محبت کا حق یہ ہے کہ اپنی زندگی کو ان کے راستے پر ڈھالنے کی کوشش کریں۔
سیرت طیبہ کے جلسے میں کوئی آدمی اس نیت سے نہیں آتا کہ ہم اس محفل میں اس بات کا عہد کریں گے کہ اگر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف پہلے پچاس کام کیا کرتے تھے تو اب کم ازکم اس میں سے دس چھوڑدیں گے، کسی نے اس طرح عہد کیا؟ کسی شخص نے اس طرح عیدمیلادالنبی منائی؟ کوئی ایک شخص بھی اس کام کے لئے تیارنہیں، لیکن جلوس نکالنے کے لئے، میلے سجانے کے لئے، محرابیں کھڑی کرنے کے لئے، چراغاں کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں، ان کاموں پر جتنا چاہو، روپیہ خرچ کروالو، اور جتنا چاہو، وقت لگوالو، اس لئے کہ ان کاموں میں نفس کو خط ملتا ہے، لذت آتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جو اصل راستہ ہے اس میں نفس وشیطان کو لذت نہیں ملتی۔ خداکے لئے ہم اپنے اس طرز عمل کو ختم کریں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ومحبت کا حق پہچانیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔