چالیس ۰۴ عقیدے
اب ان مسائل کے لئے کتب شیعہ کاحوالہ اوران کی کتب کی اصلی عبارتیں پیش کی جاتی ہیں۔حق تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو ذریعہ ہدایت بنائے خداکرے کہ شیعہ اس رسالے کو دیکھ کر اپنے مذہب کی اصلی حقیقت سے واقف ہوجائیں اوراس بات کوسمجھ لیں کہ ایسے بے بنیادمذہب کا نتیجہ سوائے دنیا کی رسوائی اورآخرت کے عذاب کے کچھ نہیں ہے۔ واللہ الموفق والمعین۔
۱۔ پہلا عقیدہ:۔
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ خداکوبدا ہوتا ہے۔یعنی معاذاللہ وہ جاہل ہے۔ اس کو سب باتوں کاعلم نہیں۔اسی وجہ سے اس کی اکثر پیشین گوئیاں غلط ہوجاتی ہیں اوراس کواپنی رائے بدلناپڑتی ہے۔
یہ عقیدہ مذہب شیعہ میں اس قدرضروری ہے کہ آئمہ معصومین کاارشادہے کہ جب تک اس عقیدہ کا اقرار نہیں لے لیاگیا کسی نبی کونبوت نہیں دی گئی اورخداکی عبادت اس عقیدہ کی برابر کسی عقیدہ میں نہیں ہے۔
اصول کافی ص ۴۷ پر ایک مستقل باب بداکا ہے۔اس باب کی چند حدیثیں ملاحظہ ہوں۔
عن زرارہ بن اعین عن احدھما قال ماعبداللہ بشئی مثل البداء۔
زرارہ ابن اعین سے روایت ہے انہوں نے امام باقر یا صادق سے روایت کی ہے کہ اللہ کی بندگی بداکے برابر کسی چیز میں نہیں ہے۔
عن مالک الجھنی قال سمعت اباعبداللہ یقول لوعلم الناس مافی القول بالبداء من الاجر ماافترداعن الکلام منہ۔
مالک جہنی سے روایت ہے۔وہ کہتے ہیں میں امام جعفر صادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ اگر لوگ جان لیں کہ بداء کے قائل ہونے میں کس قدرثواب ہے کبھی اس کے قائل ہونے سے باز نہ رہیں۔
عن مرازم بن حکیم قال سمعت ابا عبداللہ علیہ السلام یقول ماتنھا نبی قط حتی یقراللہ بخمس خصال البداء والمشیتہ والسجود والعبودیتہ والطاعتہ۔
مرازم بن حکیم سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے میں نے امام جعفرصادق سے سنا وہ فرماتے تھے کہ کوئی نبی نہیں بنایاگیا یہاں تک کہ وہ پانچ چیزوں کا اقرارنہ کرے۔بداء کا اورمشیت کا اورسجدہ کا اورعبودیت کا اوراطاعت کا۔
ان روایات سے معلوم ہوا کہ عقیدہ بداء کیسی ضروری چیز ہے۔ اب رہی بات کہ بداکیا چیز ہے۔اس کے لئے لغت عربی دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد کچھ واقعات بداکے کتب شیعہ سے پیش کروں گا۔ پھر علمائے شیعہ کا اقرار کہ بے شک بداء کے معنی یہی ہیں کہ خداجاہل ہے۔
لغت عرب:
بداء عربی زبان کالفظ ہے تمام لغت کی کتابوں میں لکھا ہے۔بدالہ ای ظھر لہ مالم یظھر یعنی بداء کے معنی ہیں نامعلوم چیز کا معلوم ہوجانا۔ یہ لفظ اسی معنی میں قرآن شریف میں بکثرت مستعمل ہے۔
رسالہ ”ازالتہ الغرور“ امروہبہ کے مصنف کودیکھئے عقیدہ بداکاجواب دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہاں دولغتیں ہیں۔ بدابالالف اوربدابہمزہ ہے۔ حالانکہ یہ محض جہل ہے۔ بدابہمزہ کے معنی شروع ہونا، اس میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی لغت دانی اوراس پر یہ لن ترانی لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
واقعات:۔
بداکے واقعات کتب شیعہ میں بہت ہیں مگر ہم یہاں صرف دوواقعوں کا ذکر کافی سمجھتے ہیں۔ اول یہ کہ امام جعفرصادق نے خبردی کہ اللہ تعالی نے میرے بعد میرے بیٹے اسمٰعیل کو امامت کے لئے نامزدکیا ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ امام کی علامات جو کتب شیعہ میں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امام ران سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیشانی پر آیت تمت کلمتہ ربک صدقاوغدلا لکھی ہوتی ہے۔ نیزرسول خداحضرت علی کی بارہ لفافے سربمہر دے گئے تھے جو خداکی طرف سے اترے تھے۔جبرئیل لائے تھے پس ضروری ہے کہ اسمٰعیل بھی ران سے پیداہوئے ہوں گے ان کی پیشانی پر آیت بھی لکھی ہوگی۔ایک لفافہ بھی ان کے نام ہوگا مگرافسوس خداکو یہ معلوم نہ تھا کہ اسمٰعیل میں یہ قابلیت نہیں ہے۔ چنانچہ پھر خداکو اعلان کرناپڑا کہ اسمٰعیل امام نہ ہوں گے بلکہ موسیٰ کاظم امام ہوں گے۔ علامہ مجلسی بحارالانوار میں روایت فرماتے ہیں اوراس روایت کو محقق طوسی بھی فقد المحصل میں لکھتے ہیں۔
عن جعفر الصادق انہ جعل اسمٰعیل القائمہ مقامہ بعد فظھر من اسمٰعیل مالم یرتضہ فجعل القائمہ مقامہ موسی فسئل عن ذالک فقال بداللہ فی اسمٰعیل۔
امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ انہوں نے اسمٰعیل کو قائم مقام اپنے بعدکے لئے مقررکیا مگراسمٰعیل سے کوئی بات ایسی ظاہر ہوئی جس کو انہوں نے پسند نہ کیا لہذا انہوں نے موسیٰ کا اپنا قائم مقام بنایا اس کی بابت پوچھا گیا توفرمایا کہ اللہ کو اسمٰعیل کے بارہ میں بداہوگیا۔
ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔ جس کو شیخ صدوق نے رسالہ اعتقادیہ میں لکھا ہے۔ کہ
مابداللہ فی شیئی کمابدالہ فی اسمعیل ابنی
اللہ کوایسابداکبھی نہیں ہوا جیسابدا میرے بیٹے اسمٰعیل کے بارہ میں ہوا۔
دوسراواقعہ یہ ہے کہ امام علی تقی نے خبردی کہ میرے بعد میرے بیٹے محمد امام ہوں گے۔ مگرخداکویہ معلوم نہ تھا کہ محمد اپنے والد کے سامنے مرجائیں گے۔جب یہ واقعہ پیش آیا توخداکواپنی رائے بدلنی پڑی اورخلاف قاعدہ مقررہ کہ بڑے بیٹے کو امامت ملتی ہے حسن عسکری کو امام بنایا۔
اصول کافی ص ۴۰۲ میں ہے۔
عن ابی الھاشم الجعفری قال کنت عندابی الحسن علیہ السلام بعدمامعنی ابنہ ابوجعفر وابی لافکر فی نفسی اربدان اقول کانھما اعتی ابا جعفر وابامحمد فی ھذاالوقت کاہی الحسن موسی واسمٰعیل وان قصتہ کقصتھما اذاکان ابومحمد الموجابعدابی جعفر فاقبل علی ابوالحسن علیہ السلام قبل ان انطق فقال نعم یا ابا ھاشم بداء اللہ فی ابی محمد بعد ابی جعفر مالم تکن تعرف لہ کمابدالہ فی موسی بعد مضی اسمٰعیل ماکشف بہ عن حالہ وھوکما حدشتک نفسک وان کرہ المبطلون وابومحمد ابنی الخلف بعدی عندہ علم مایحتاج الیہ ومعہ الہ الامامہ۔
ابوالہاشم جعفری سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے میں ابوالحسن (یعنی امام تقی) علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہواتھا جب کہ ان کے بیٹے ابوجعفر یعنی محمد کی وفات ہوئی۔میں اپنے دل میں سوچ رہاتھا اوریہ کہناچاہتا تھا کہ محمد اورحسن عسکری کا اس وقت وہی حال ہوا جو امام موسیٰ کاظم اوراسمٰعیل فرزندان امام جعفرصادق کا ہواتھا۔ان دونوں کے واقعہ کے مثل ہے کیوں کہ ابومحمد (یعنی حسن عسکری) کی امامت بعدابوجعفر (یعنی محمد) کے مرنے کے ہوئی توامام تقی میری طرف متوجہ ہوئے اورانہوں نے قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں (روشن ضمیری دیکھئے) فرمایا اے ابوہاشم اللہ کو ابوجعفر کے مرجانے کے بعد ابومحمد کے بارے میں بداء ہوا جوبات معلوم نہ تھی وہ معلوم ہوگئی جیسا کہ اللہ کو اسمٰعیل کے بعد موسیٰ کے بارہ میں بداء ہواتھا۔جس نے اصل حقیقت ظاہر کردی اور یہ بات ویسی ہی ہے جیسی تم نے خیال کی اگرچہ بدکارلوگ اس کو ناپسند کریں اورابومحمد (یعنی حسن عسکری) میرے بعد میراخلیفہ ہے اس کے پاس تمام ضرورت کی چیزوں کا علم ہے اوراس کے پاس آلہ امامت بھی ہے۔
اقرار:۔
اگرچہ ایسی صاف بات کے لئے اقرارکی ضرورت نہ تھی مگر خداکی قدرت ہے کہ علمائے شیعہ نے اگرچہ اہل سنت کے مقابلہ میں تو ہمیشہ تاویلات سے کام لیا لیکن آپس کی تحریروں میں انہوں نے صاف اقرار کرلیا ہے کہ بدا سے خداکاجاہل ہونا لازم آتا ہے۔ شیعوں کے مجتہد اعظم مولوی دلدارعلی اساس الاصول مطبوعہ لکھنؤ کے ص ۹۱۲ پر لکھتے ہیں۔
اعلم ان البدالا ینبغی ان یقول بہ لانہ یلزم منہ ان یتصف الباری تعالی بالجبل کمالایخفی
جاننا چاہیے کہ بدااس قابل نہیں کہ کوئی اس کا قائل ہو کیوں کہ اس سے باری تعالیٰ کا جاہل ہونالازمی آتا ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے۔
اس کے ساتھ اساس الاصول میں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ شیعوں میں سوائے محقق طوسی کے اورکوئی بداکامنکر نہیں ہوا۔
اب ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ شیعوں کو کیا ضرورت اس عقیدہ کے تصنیف کی پیش آئی۔اصل واقعہ یہ ہے کہ جب اسلام کے چالاک دشمنوں نے مذہب شیعہ کوتصنیف کیا تووہ خودبھی جانتے تھے کہ کوئی انسان اس مذہب کو قبول نہیں کرسکتا لہذا انہوں طرح طرح کی تدبیریں اس مذہب کے رواج دینے کے لئے اختیارکیں۔ازاں جملہ یہ کہ فسق وفجور کے راستے خوب وسیع کردئیے۔ متعہ، لواطت، شراب خوری کا بازار گرم کیا۔چنانچہ اس قسم کی روایتیں بکثرت آج بھی کتب شیعہ میں موجود ہیں۔
ازاں جملہ یہ کہ انہوں نے دنیاوی طمع کاراستہ بھی خوب کشادہ کیا۔سینکڑوں روایتیں اس مضمون کی آئمہ کے نام سے تصنیف کردیں کہ فلاں سنہ میں جوبہت ہی قریب ہے دنیا میں انقلاب عظیم ہوجائے گا اوربڑی سلطنت وحکومت جاہ وحشمت شیعوں کو حاصل ہوگی پھر جب وہ سنہ آتا اوران پیشین گوئیوں کا ظہورنہ ہوتا توکہہ دیتے کہ خداکو بداہوگیا ہے۔ ایک روایت اس قسم کی حسب ذیل ہے۔ اصول کافی مطبوعہ لکھنؤ ص ۲۳۳ میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان اللہ تبارک وتعالیٰ قدکان وقت ھذاالامر فی السبعین فلما ان قتل الحسین صلوات اللہ علیہ اشتد غضب اللہ علی اھل الارض فاخرہ الی اربعین وماتہ فحد ثناکم فاذاعم الحدیث فکشفت تناع السرولم یجعل اللہ وقتا بعد ذلک عندنا قال حمزہ فحدثت بذلک بابی عبداللہ علیھم السلام فقال قدکان ذلک بہ تحقیق اللہ تبارک نے اس کام (یعنی امام مہدی کے ظہور) کا وقت سن ستر ہجری مقررکیا تھا مگرجب حسین صلوات اللہ علیہ شہیدہوگئے تواللہ کا غصہ زمین والوں پر سخت ہوگیا لہذااللہ نے اس کام کو ۰۴۱ھ تک پیچھے ہٹادیا ہم نے تم سے بیان کردیا تم نے رازکوفاش کردیا اوربات مشہورکردی اب اللہ نے کوئی وقت اس کے بعد ہم کو نہیں بتایا۔ابوحمزہ (راوی) کہتا ہے میں نے یہ حدیث امام جعفرصادق علیہ السلام سے بیان کی انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔
یہ تماشا بھی قابل دید ہے کہ جب اہل سنت کی طرف سے اعتراض ہواتو علمائے شیعہ کو جواب دینے کی فکر ہوئی اوراس پریشانی میں انہوں نے ایسی ایسی ناگفتہ بہ باتیں کہہ ڈالیں جو عقیدہ بدا سے بڑھ گئیں۔مولوی حامد حسین نے استقصاء الافحام جلد اول ص ۸۲۱ سے لے کر ص ۸۵۱ تک پورے ۰۳ صفحہ اسی بحث کے نام سے سیاہ کرڈالے مگرکوئی بات بنائے نہ بن پڑی۔بڑی کوشش انہوں نے اس بات کی کی ہے کہ بدا کے معنی میں تاویل کریں۔چنانچہ کھینچ تان کرانہوں نے بداکے وہ معنی بیان کئے ہیں جو نحو واثبات یا نسخ کے ہیں لیکن خودہی خیال پیداہوا کہ یہ تاویل چل ہی نہیں سکتی۔ لہذاعلامہ مجلسی سے ایک تاویل کرکے اس پر بہت نازکیا ہے۔ یہ عبارت استقضاء مجلد اول کے ص ۰۳ پر ملاحظہ ہو۔
ومنھا ان یکون ھذہ الاحبار تسلیتہ لقوم من المومنین المنتظرین نفرج اولیاء اللہ وغلبۃ اھل الحق واھلہ کماروی فی فرج اھل البیت علیھم السلام مروغلبتھم لانھم علیھم السلام لوکانوااخبر واالشیعۃ فی اول ابتلاء ھم باسلسلا، المخالفین ووشدھم فحقتھم انہ لیس فرجھم الا بعدالف سنتہ اوالفی سنتہ لئیسوا ولرجعواعن الدین ولکتھم اخبر وشیعتھم بتعجیل الفرج اورمن جملہ ان تاویلات کے ایک یہ کہ یہ پیشین گوئیاں ان مومنین کی تسلی کے لئے تھیں جودوستان خدا کی آسائش اوراہل حق کے غلبہ کے منتظر تھے جیسا کہ اہل بیت علیھم السلام کی آسائش اوران کے غلبہ کے متعلق روایت کیاگیا ہے۔اگرآئمہ علیھم السلام شیعوں کو شروع ہی میں بتادیتے کہ مخالفین کا غلبہ ابھی رہے گا اورشیعوں کو مصیبت سخت ہوگی اوران کوآسائش نہ ملے گی مگر ایک ہزارسال یا دوہزارسال کے بعد تووہ مایوس ہوجاتے اوردین سے پھر جاتے۔ لہذا انہوں نے اپنے شیعوں کو خبردی کہ آسائش کا زمانہ جلد آنے والا ہے۔