مسئلہ: رمضان المبارک کے علاوہ بھی کسی بھی مہینے میں زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔ جس وقت مال پر سال پورا ہو اسی
وقت ادا کر دیں۔ (شامی)
مسئلہ: ہاں رمضان المبارک چونکہ مبارک مہینہ ہے اسلئے اس میں ترتیب بنا کر زکوٰۃ ادا کرنا افضل ہے (چونکہ اس میں
صدقات کی ادائیگی افضل ہے)۔ (شامی)
مسئلہ: اگر ایک سال غفلت کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو پچھلے سال کے ساتھ اس سال کی بھی ادا کرئے۔ (شامی)
مسئلہ: جو شخص ایک مرتبہ مالک نصاب ہو جائے تو جب اس نصاب پر ایک سال گزر جائے تو سال کے دوران حاصل ہوئے والے کل سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ ہر رقم پر الگ الگ سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ (علم الفقہ)
مسئلہ: امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک زیورات پر بہرحال زکوٰۃ واجب ہے۔ خواہ مردوں کے ہوں (مردوں کے لئے سونا
استعمال کرنا حرام ہے) یا عورتوں کے، برتن ہوں یا کچھ اور جیسے بسکٹ، استعمال میں آتے ہوں یا نہیں (بشرطیکہ نصاب کو پہنچے ہوں) تو زکوٰۃ واجب ہے۔ (کتاب الفقہ ص ۸۷۹ ج ۱)
مسئلہ: بیوی اگر صاحب نصاب ہے، زیورات کی وجہ سے اور شوہر صاحب نصاب نہیں ہے تو بیوی اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی
کا خود انتظام کرئے۔ (ہدایہ کتاب الزکوٰۃ) ہاں اگر شوہر اس کی طرف سے اس کو اطلاع دیکر ادا کرے تو ادا ہو جائے گی۔
مسئلہ: سونے چاندی کے زیورات میں جو جواہر جڑے ہوئے ہوتے ہیں اس میں جواہرات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سونے چاندی
کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کریں۔ (کفایت المفتی بحوالہ شامی)
مسئلہ: جواہرات مثلاً ہیرا، زمرد، لعل، یاقوت وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں مگر جب کہ تجارت کے لئے نہ ہوں۔
(فتاویٰ دارالعلوم ص ۳۳۱ ج ۲)
مسئلہ: کسی شخص نے مثلاً زید نے عمر کو قرض دیا ہے تو اگر زید صاحب نصاب ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت زید اس رقم کو بھی شمار کر کے زکوٰۃ نکالے گا جو اس نے عمر کو بطور قرض دے رکھی ہے۔
مسئلہ: جس قرض کے ملنے کی امید نہ ہو یعنی مقروض انکار کر رہا ہے اور قرض دہندہ کے پاس گواہ بھی نہیں ہے تو وصول ہونے سے پہلے اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہے اور وصول ہونے کے بعد بھی گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ (احسن الفتاویٰ ص ۶۶۲)
مسئلہ: صاحب مال کی اجازت کے بغیر اگر کسی دوسرے شخص نے زکوٰۃ ادا کی تو ادا نہیں ہوگی۔ (احسن الفتاویٰ بحوالہ شامی)
مسئلہ: کسی نے کسی غریب (جو زکوٰۃ لے سکتا ہے) کو قرض دیا۔ اب مثلاً پانچ ہزار قرض دیا تھا تو قرض معاف کرنے
سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ اسکی صحیح صورت یہ ہے کہ اسکو پانچ ہزار روپے زکوٰۃ کے دے کر قرض کی واپسی میں لے لے، اگر وہ واپس نہ کرئے تو جبراً بھی واپس لے سکتا ہے۔ (مخلضا احسن الفتاویٰ)
مسئلہ: حج بیت اللہ جانے کے لئے جو رقم جمع کروائی ہے اس میں جو رقم آمد و رفت کے کرایہ اور معلم وغیرہ کی فیس کے لئے پیشگی جمع کرائی ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے زائد رقم جو کرنسی کی صورت میں وہاں سے واپس ملنا ہے اس میں سے سال پورا ہونے تک جو رقم بچے گی اس پر زکوٰۃ ہے جو خرچ ہو گئی اس پر نہیں۔ (احسن الفتاویٰ بحوالہ شامی)
مسئلہ: شیئرز (حصص) اگر تجارت کی نیت سے خریدے ہوں تو اس کی کل قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے۔ (احسن الفتاویٰ)
مسئلہ: پراویڈینٹ فنڈ کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے حکومت کچھ رقم کاٹتی ہے تو اس پر جو مزید رقم دیتی ہے یہ سب حکومتی انعام ہے۔ اس پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ وہ رقم مل جائے اور اس پر قبضہ ہو جائے۔ رقم ملنے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ البتہ جو رقم ماہانہ تنخواہ میں سے حکومتی ملازم خود اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کٹوائی ہوئی رقم کو بھی ہمارے نقد اور سامان میں شمار کیا جائے گا (چاہے وہ رقم فی الحال ہمارے قبضہ میں نہیں ہے)۔ اور نصاب پورا ہونے کی صورت میں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (مخلضا فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۵۱ ج ۷)
مسئلہ: اگر کوئی شخص کسی مصلحت کی وجہ سے زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو ہدیہ کہ کر دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا
ہو جائے گی۔ (عالمگیری)
مسئلہ: سید کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔ (شامی)
مسئلہ: ماں، بااپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہم کو زکوٰۃ دینا
جائز نہیں ہے۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: بھائی، بہن، اور دیگر رشتہ داروں کو (جنکا ذکر اوپر کیا کہ جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کے علاوہ کو)
زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: زکوٰۃ کے مال سے مساجد بنانا، پل بنانا، سقایہ بنانا، راستے بنانا، نہریں کھودنا جائز نہیں۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: مدّ زکوٰۃ میں سے کسی سفیر مدرسہ کو تنخواہ دینا جائز نہیں۔ (عمدۃ الفقہ)
نوٹ: زکوٰۃ سے متعلق اور بہت سے مسائل ہیں۔ اختصار کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭