کتاب کا نام: زکوٰۃ کے مختصر مسائل کتاب تحفہئ رمضان سے انتخاب

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

کتاب کا سرورق
(زکوٰۃ)
زکوٰۃ کے لغوی معنی ” طہارت اور برکت و بڑھنا”ہے۔ اور شریعت کی زبان میں زکوٰۃ کہتے ہیں “اپنے مال کی مقدار معین
کرکے شریعت کے مقررہ حصہ کو کسی (مستحق زکوٰۃ) کو مالک بنا دینا”۔ گویا شریعت کے مقررہ حصہ کی زکوٰۃ نکالنے پر باقی مال پاک  بھی ہو جاتا ہے  اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈال دیتے ہیں۔ نیز آخروی اجر کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اور گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جاتا ہے۔ وغیرہم  (مخلضا مظاہر حق جدید)

 

ترغیب و ترہیب دربابِ زکوٰۃ
٭حدیث پاک میں ہے جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی  اس نے اس کے (مال کے) شر کو دور کر دیا گیا۔  (کنز العمال، مجمع الزوائد) ٭ایک حدیث میں ہے کہ جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی اس سے تم سبکدوش ہو گئے۔ (ترمذی شریف) ٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک قوم پر گزر ہوا کہ ان کی شرمگاہ پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ مویشیوں کی طرح چر رہے تھے اور زقوم اور جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں ادا کرتے تھے۔ اور ان پر اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کیااور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔  (نشتر الطبیب ص ۵) ٭ایک حدیث پاک میں ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ کر لو، اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصائب کے طوفان کا دعا و تبرّع سے مقابلہ کرو۔  (ابو داؤد)
٭ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت میں اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا
اور اس کی گردن سے لپٹ کر گلے کا طوق بن جائے گا۔  (نسائی ص ۳۳۳)
نصاب کے متعلق چند امور
نوٹ نمبر ۱: مال کے علاوہ چرنے والے مویشیوں پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ اور بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ کے الگ الگ نصاب ہیں۔ (احسن الفتاویٰ و کتاب الفقہ و علم الفقہ) (اگر کسی کے پاس جانور ہوں تو اس کے نصاب کے متعلق مستند مفتی صاحب سے معلوم کرلیں۔ اختصار کی وجہ سے احقر نے ذکر نہیں کیا)
نوٹ نمبر۲: مذکور نصاب مکمل ہے مگر اس پر قرض ہے تو اس صورت میں اگر قرض کو وضع (باد) کرنے کے بعد بھی نصاب کے بقدر مالیت کا مالک ہے تو زکوٰۃ اس پر فرض ہو گی اور اگر قرض وضع (باد) کرنے کے بعد بقدر نصاب باقی نہیں رہتا تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
نوٹ نمبر ۳: مذکورہ نصاب ضرورت سے زائد ہو، ضرورت کی کچھ مثالیں سمجھ لیں۔ رہائشی مکان (چاہے دو تین ہی
کیوں نہ ہوں، شرط یہ ہے کہ رہنے کی نیت سے ہوں) بدن کے کپڑے، سواریاں (استعمال کے لئے جو ہوں) گھریلو سامان، کارخانوں میں کام کرنے والی مشینیں (اگر بیچنے کے لئے ہوں تو اس پر بھی زکوٰۃ ہے) استعمالی ہتھیار وغیرہ۔
معلوم ہوا کہ ضرورت کے سامان پر زکوٰۃ نہیں ہے چاہے وہ نصاب زکوٰۃ تک ہی کیوں نہ پہنچ گئی ہوں۔
نوٹ نمبر ۴:نیز  مذکورہ  نصاب  پر حولانِ حول  (سال  بھر  گذرنا ) بھی  شرط  ہے ۔ اگر  کوئی  شخص  آج  ہی  بقد ر ِ نصاب کا مالک  ہوا  تو  اس  پر  زکوٰۃ  فرض  نہیں  ہے۔
نوٹ نمبر۵: اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں وہ ہیں جن کو شریعت نے مال قرار دیتے ہوئے اس پر زکوٰۃ فرض
کی ہے۔ مثلاً شیئرز (حصص) سرٹیفکیٹ (موجودہ رقم کا حساب کرکے) اور ہم نے کسی کو قرض دیا ہے وغیرہم۔ اس کو بھی ساری رقم میں شامل کیا جائے گا اور اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے-
خلاصہ: جب اوپر کی تمام شرائط پوری ہونے کے ساتھ اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب بنتا ہے تو اس پر اپنے کل مال کا چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے۔ اسی کو زکوٰۃ نکالنا کہتے ہیں- سے پہلے زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ البتہ جو رقم ماہانہ تنخواہ میں سے حکومتی ملازم خود اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کٹوائی ہوئی رقم کو بھی ہمارے نقد اور سامان میں شمار کیا جائے گا (چاہے وہ رقم فی الحال ہمارے قبضہ میں نہیں ہے)۔ اور نصاب پورا ہونے کی صورت میں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔  (مخلضا فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۵۱ ج ۷)
مسئلہ: اگر کوئی شخص کسی مصلحت کی وجہ سے زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو ہدیہ کہ کر دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا
ہو جائے گی۔  (عالمگیری)
مسئلہ: سید کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔  (شامی)
مسئلہ: ماں، بااپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہم کو زکوٰۃ دینا
جائز نہیں ہے۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: بھائی، بہن، اور دیگر رشتہ داروں کو (جنکا ذکر اوپر کیا کہ جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کے علاوہ کو)
زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: زکوٰۃ کے مال سے مساجد بنانا، پل بنانا، سقایہ بنانا، راستے بنانا، نہریں کھودنا جائز نہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: مدّ زکوٰۃ میں سے کسی سفیر مدرسہ کو تنخواہ دینا جائز نہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
نوٹ: زکوٰۃ سے متعلق اور بہت سے مسائل ہیں۔ اختصار کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
زکوٰۃ سے متعلق کچھ مسائل
مسئلہ: زکوٰۃ کی ادئیگی ہجری سال کے اعتبار سے ہونی چاہئے۔ (شامی)
مسئلہ: مجنون اور ناقص العقل پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (علم الفقہ)
مسئلہ: نابالغ پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ (علم الفقہ)
مسئلہ: زکوٰۃ کا مال مستحق زکوٰۃ کو دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرنا شرط اور لازم ہے، یعنی دل میں یہ نیت کرنا کہ میرے اوپر جس قدر مال دینا اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے محض اللہ تعالیٰ کے لئے اس کو مستحق زکوٰۃ کو دیتا ہوں۔
مسئلہ: اگر کوئی شخص زکوٰۃ دینے کے بعد زکوٰۃ کی نیت کرئے اور مال مستحق زکوٰۃ کے پاس موجود ہے ابھی خرچ نہیں
کیا ہے تو اس وقت زکوٰۃ کی نیت کرلینے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔ اور اگر مستحق زکوٰۃ نے خرچ کر دیا ہے تو زکوٰۃ کی نیت کرنا درست نہیں دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔ (علم الفقہ)
مسئلہ: اگر کوئی شخص اپنے وکیل (مینجر، منشی، وغیرہم) کو زکوٰۃ کا مال تقسیم کے لئے اور دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرلے تو ایسی نیت درست ہے۔ اب چاہے وہ وکیل فقیروں (مستحقین) کو دیتے وقت نیت کرئے یا نہ کرئے۔  (علم الفقہ)
مسئلہ:  اگر کوئی اپنے مال میں سے زکوٰۃ کا مال علیحدہ کرلے اور اسی وقت علیحدہ شدہ مال پر دل سے زکوٰۃ کی نیت ہو تو نیت کافی ہے۔ اب چاہے فقیروں (مستحقین) کو ادا کرتے وقت مستقل نیت نہ کرئے۔  (علم الفقہ)
مسئلہ: صاحب نصاب شخص اگر سال بھر بھی بے ہوش رہے، اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے۔  (عالمگیری)
مسئلہ: نابالغین پر زکوٰۃ نہیں ہے، لہٰذا حکومت نابالغ بچے کے مال سے زکوٰۃ کاٹ لے تو ایسا کرنا شرعاً صحیح
نہیں ہے۔  (آپ کے مسائل ص ۰۴۳ ج ۳
مسئلہ: رمضان المبارک کے علاوہ بھی کسی بھی مہینے میں زکوٰۃ ادا کر سکتے ہیں۔ جس وقت مال پر سال پورا ہو اسی
وقت ادا کر دیں۔  (شامی)
مسئلہ: ہاں رمضان المبارک چونکہ مبارک مہینہ ہے اسلئے اس میں ترتیب بنا کر زکوٰۃ ادا کرنا افضل ہے (چونکہ اس میں
صدقات کی ادائیگی افضل ہے)۔ (شامی)
مسئلہ:  اگر ایک سال غفلت کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو پچھلے سال کے ساتھ اس سال کی بھی ادا کرئے۔  (شامی)
مسئلہ: جو شخص ایک مرتبہ مالک نصاب ہو جائے تو جب اس نصاب پر ایک سال گزر جائے تو سال کے دوران حاصل ہوئے والے کل سرمائے پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ ہر رقم پر الگ الگ سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ (علم الفقہ)
مسئلہ: امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک زیورات پر بہرحال زکوٰۃ واجب ہے۔ خواہ مردوں کے ہوں (مردوں کے لئے سونا
استعمال کرنا حرام ہے) یا عورتوں کے، برتن ہوں یا کچھ اور جیسے بسکٹ، استعمال میں آتے ہوں یا نہیں (بشرطیکہ نصاب کو پہنچے ہوں) تو زکوٰۃ واجب ہے۔  (کتاب الفقہ ص ۸۷۹ ج ۱)
مسئلہ: بیوی اگر صاحب نصاب ہے، زیورات کی وجہ سے اور شوہر صاحب نصاب نہیں ہے تو بیوی اپنی زکوٰۃ کی ادائیگی
کا خود انتظام کرئے۔  (ہدایہ کتاب الزکوٰۃ) ہاں اگر شوہر اس کی طرف سے اس کو اطلاع دیکر ادا کرے تو ادا ہو جائے گی۔
مسئلہ: سونے چاندی کے زیورات میں جو جواہر جڑے ہوئے ہوتے ہیں اس میں جواہرات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ سونے چاندی
کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کریں۔  (کفایت المفتی بحوالہ شامی)
مسئلہ: جواہرات مثلاً ہیرا، زمرد، لعل، یاقوت وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ ہاں مگر جب کہ تجارت کے لئے نہ ہوں۔
(فتاویٰ دارالعلوم ص ۳۳۱ ج ۲)
مسئلہ: کسی شخص نے مثلاً زید نے عمر کو قرض دیا ہے تو اگر زید صاحب نصاب ہے تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت زید اس رقم کو بھی شمار کر کے زکوٰۃ نکالے گا جو اس نے عمر کو بطور قرض دے رکھی ہے۔
مسئلہ: جس قرض کے ملنے کی امید نہ ہو یعنی مقروض انکار کر رہا ہے اور قرض دہندہ کے پاس گواہ بھی نہیں ہے تو وصول ہونے سے پہلے اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہے اور وصول ہونے کے بعد بھی گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ (احسن الفتاویٰ ص ۶۶۲)
مسئلہ: صاحب مال کی اجازت کے بغیر اگر کسی دوسرے شخص نے زکوٰۃ ادا کی تو ادا نہیں ہوگی۔  (احسن الفتاویٰ بحوالہ شامی)
مسئلہ: کسی نے کسی غریب (جو زکوٰۃ لے سکتا ہے) کو قرض دیا۔ اب مثلاً پانچ ہزار قرض دیا تھا تو قرض معاف کرنے
سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ اسکی صحیح صورت یہ ہے کہ اسکو پانچ ہزار روپے زکوٰۃ کے دے کر قرض کی واپسی میں لے لے، اگر وہ واپس نہ کرئے تو جبراً بھی واپس لے سکتا ہے۔  (مخلضا احسن الفتاویٰ)
مسئلہ: حج بیت اللہ جانے کے لئے جو رقم جمع کروائی ہے اس میں جو رقم آمد و رفت کے کرایہ اور معلم وغیرہ کی فیس کے لئے پیشگی جمع کرائی ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اس سے زائد رقم جو کرنسی کی صورت میں وہاں سے واپس ملنا ہے اس میں سے سال پورا ہونے تک جو رقم بچے گی اس پر زکوٰۃ ہے جو خرچ ہو گئی اس پر نہیں۔  (احسن الفتاویٰ بحوالہ شامی)
مسئلہ: شیئرز (حصص) اگر تجارت کی نیت سے خریدے ہوں تو اس کی کل قیمت پر زکوٰۃ واجب ہے۔  (احسن الفتاویٰ)
مسئلہ: پراویڈینٹ فنڈ کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے حکومت کچھ رقم کاٹتی ہے تو اس پر جو مزید رقم دیتی ہے یہ سب حکومتی انعام ہے۔ اس پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ وہ رقم مل جائے اور اس پر قبضہ ہو جائے۔ رقم ملنے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ البتہ جو رقم ماہانہ تنخواہ میں سے حکومتی ملازم خود اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کٹوائی ہوئی رقم کو بھی ہمارے  نقد اور سامان میں شمار کیا جائے گا (چاہے وہ رقم فی الحال ہمارے قبضہ میں نہیں ہے)۔ اور نصاب پورا ہونے کی صورت میں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔  (مخلضا فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۵۱ ج ۷)

مسئلہ: اگر کوئی شخص کسی مصلحت کی وجہ سے زکوٰۃ کی رقم مستحق زکوٰۃ کو ہدیہ کہ کر دیتا ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا
ہو جائے گی۔  (عالمگیری)
مسئلہ: سید کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔  (شامی)
مسئلہ: ماں، بااپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہم کو زکوٰۃ دینا
جائز نہیں ہے۔ (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: بھائی، بہن، اور دیگر رشتہ داروں کو (جنکا ذکر اوپر کیا کہ جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کے علاوہ کو)
زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: خاوند کا بیوی کو اور بیوی کا خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: زکوٰۃ کے مال سے مساجد بنانا، پل بنانا، سقایہ بنانا، راستے بنانا، نہریں کھودنا جائز نہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
مسئلہ: مدّ زکوٰۃ میں سے کسی سفیر مدرسہ کو تنخواہ دینا جائز نہیں۔  (عمدۃ الفقہ)
نوٹ: زکوٰۃ سے متعلق اور بہت سے مسائل ہیں۔ اختصار کی وجہ سے اسی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Book Options

Author: Mufti Abu Salma Abdullah Nomani

Leave A Reply