زکوٰۃ
زکوٰۃ کے لغوی معنی ” طہارت اور برکت و بڑھنا”ہے۔ اور شریعت کی زبان میں زکوٰۃ کہتے ہیں “اپنے مال کی مقدار معین
کرکے شریعت کے مقررہ حصہ کو کسی (مستحق زکوٰۃ) کو مالک بنا دینا”۔ گویا شریعت کے مقررہ حصہ کی زکوٰۃ نکالنے پر باقی مال پاک بھی ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت بھی ڈال دیتے ہیں۔ نیز آخروی اجر کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اور گناہوں سے بھی پاک صاف ہو جاتا ہے۔ وغیرہم (مخلضا مظاہر حق جدید)
٭حدیث پاک میں ہے جس شخص نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی اس نے اس کے (مال کے) شر کو دور کر دیا گیا۔ (کنز العمال، مجمع الزوائد) ٭ایک حدیث میں ہے کہ جب تم نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو تم پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی اس سے تم سبکدوش ہو گئے۔ (ترمذی شریف) ٭آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک قوم پر گزر ہوا کہ ان کی شرمگاہ پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں اور وہ مویشیوں کی طرح چر رہے تھے اور زقوم اور جہنم کے پتھر کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں ادا کرتے تھے۔ اور ان پر اللہ تعالیٰ نے ظلم نہیں کیااور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (نشتر الطبیب ص ۵) ٭ایک حدیث پاک میں ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعے محفوظ کر لو، اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصائب کے طوفان کا دعا و تبرّع سے مقابلہ کرو۔ (ابو داؤد)
٭٭٭٭ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت میں اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا اور اس کی گردن سے لپٹ کر گلے کا طوق بن جائے گا۔ (نسائی ص ۳۳۳)٭٭٭
مسئلہ: پراویڈینٹ فنڈ کے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ اگر سرکاری ملازم کی تنخواہ میں سے حکومت کچھ رقم کاٹتی ہے تو اس پر جو مزید رقم دیتی ہے یہ سب حکومتی انعام ہے۔ اس پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ وہ رقم مل جائے اور اس پر قبضہ ہو جائے۔ رقم ملنے سے پہلے زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ البتہ جو رقم ماہانہ تنخواہ میں سے حکومتی ملازم خود اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کٹوائی ہوئی رقم کو بھی ہمارے نقد اور سامان میں شمار کیا جائے گا (چاہے وہ رقم فی الحال ہمارے قبضہ میں نہیں ہے)۔ اور نصاب پورا ہونے کی صورت میں اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (مخلضا فتاویٰ رحیمیہ ص ۲۵۱ ج ۷)