کتاب کا نام: ذکر رسول ﷺ

تفصیل کتاب | فہرست مضامین

کتاب کا سرورق

سلسلہ تبلیغ و اشاعت ۸۲  بار اوّل ۰۰۰۳

 ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
(عید میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تحقیقی مقالہ)

از
فقیہہ العصر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلّہ‘
حاشیہ
مولانا خلیل احمد تھانوی اْستاد جامعہ دارالعلْوم الاسلامیہ
DifaAhleSunnat.com
ناشر
شعبہ نشر و اشاعت جامعہ دارالعلْوم الاسلامیہ
کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
فون پرانی انارکلی ۸۲۷۳۵۳ کامران بلاک ۰۶۰۸۴۴، ۶۸۳۴۱۴۵

ربیع الاول ۵۱۴۱ھ اگست ۴۹۹۱ء


 ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم(۱)۔  حامداً و مصلیاً و مسلماً(۲)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِمبارک زبان سے یا قلم سے، نظم ہو یا نثر، ایک عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں
طرح طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا ہے۔ انبیائے کرام  ؑ کے ذکر کو دلوں کو ثابت و مطمئن بنانے والا قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی
رفعتِ شان  کا  اعلان  فرمایا۔   وَرَفَعنْا لَکَ ذِکرک (۳)  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی  بعثت  کو  تمام  مسلمانوں  پر  ایک  احسانِ عظیم  بتایا۔   لَقَد منَ اللّٰہ عَلَی المؤمنین
 اِذَبَعْثَ فِیہِم رَسْولا(۴)   اور  خود  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور  صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے  بہت  بہت  بار  اور  بار  بار  ہر  طرح  سے  ذکر مبارک  فرمایا۔  حق  تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ جو ایک بار آپ ﷺ پر درود شریف پڑھے گا اس پر دس رحمتیں نازل ہوں گی۔ افسوس جس محسنِ اعظم کے طفیل بت پرستی
اور کفر و شرک کی غلاظتوں (۵) سے نجات ملی، عذابِ ابدی(۶) سے بچ کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اور جنت کی وہ نعمتیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی دل پر خیال تک ہو کر گزریں، مقرر ہوئیں۔ ہم احسان فراموش و ناقدر شناس(۷) اپنے ایسے محسن کے ذکر و اذکار سے بھی غافل ہیں یا کچھ کرتے ہیں تو اس طرح کہ “نیکی برباد گناہ لازم” یا صحیح طریقے سے بھی کرتے ہیں تو ناقص(۸) اور کوتاہ(۹)۔
اگر  غفلت  سے  باز  آیا  جفا  کی
تلافی  بھی کی  ظالم  نے  تو کیا کی
ادارہ فروغِ اسلام کی تحریک پر جی چاہا کہ اس لذیز ترین عبادت کا صحیح طریقِ کار اور اس میں کی جانے والی کوتاہیاں عرض کر دی جائیں تاکہ مسلمان ایسے محسنِ اعظم کے احسان فراموش نہ بن سکیں اور عبادت کو ناقص و کوتاہ یا غیر عبادت یا گناہ سے مخلوط(۰۱)  کرکے کارِخیر(۱۱) کی جگہ شر(۲۱) نہ کرنے لگیں۔
ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دریائے ناپیدا کنار (۳۱) ہے اس کے ٹھاٹھیں مارنے والے سمندر کو طرح طرح کی تقییدات (۴۱) کے کوزوں (۵۱) میں قید کرلینا اچھی بات نہیں۔ ایک قسم کی ناقدری(۶۱) اور بعض دفعہ گستاخی بن جاتی ہے۔ ذرا اس کی وسعت کی جھلک ملاحظہ کیجئے

(۱) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں (۲) تعریف کرنے والا درود پڑھنے والا اور سلام پڑھنے والا (۳) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا (الم نشرح آیت ۴) (۴) حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ بھیجا ان میں ایک پیغمبر (آل عمران، آیت ۴۶۱) (۵) گندگیوں (۶) ہمیشہ کے عذاب (۷) قدر و منزلت کو نہ پہچاننے والے (۸)نامکمل (۹) کم (۰۱) ملا کر (۱۱) نیک کام (۲۱) برا کام (۳۱) ایسا دریا جس کا کوئی کنارہ نہیں (۴۱) قیدوں (۵۱) چھوٹے پیالے (۶۱) بے قدری (۷۱) حروف تہجی سے نمبرشمار بھی لگائے جاتے ہیں اس طرح یہاں نمبرشمار لگائے گئے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اکائی کے لئے یہ حروف استعمال ہوتے ہیں۔ ابجد، ھوز، حطی، الف کا ایک با کے دو جیم کے تین، آخر تک یا کے دس۔ اور دہائی کے لئے یہ الفاظ ہیں۔ کلمن، سعفص، ک کے ۰۲ ل کے ۰۳ آخر تک کہ ص کے ۰۹ عدد ہیں۔ اس کے بعد سینکڑے کے لئے یہ حروف استعمال ہوتے ہیں۔ قرشت، نخذ، ضظغ۔ ق کے ۰۰۱ ر کے ۰۰۲ ش کے ۰۰۳ آخر تک کہ غ کے ۰۰۰۱ ہوتے ہیں۔ اس کی ترتیب یہ ہے کہ اگر ایک سے دس تک کا عدد لکھنا ہو تو صرف ایک حرف لکھ دیتے ہیں جیسے اگر چھ لکھنا ہے تو حرف (و) لکھیں گے (ی) دس کے عدد کے لئے لکھتے ہیں۔ اس کے بعد تیرہ چودہ کے لئے دو حروف ملا کر لکھتے ہیں۔ مثلاً تیرہ کے لئے (یج) اور چودہ کے لئے (ید) اسی طرح پچیس کے لئے (کھ) اور بتیس کے لئے (لب) لکھا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے مراتب کو بیان کرتے ہوئے بطور نمبرشمار حروف تہجی کا استعمال کیا گیا ہے۔


مراتب ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
مراتب ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
(۱) ذات مبارک کا ذکر اور اس کے بہت سے مرتبے ہیں۔ (الف)(۷۱) ابتدائے عالم سے تا بہ ولادت شریفہ (ب) ولادت مبارکہ (ج) بچپن (د) جوانی (ہ) جوانی کے بعد سے وفات تک (و) وفات (ز) بعد وفات (ح) قیامت اور درجاتِ عالیہ(۱) (ط) شفاعت (ی) جسم مبارک کے یہ سب ادوار حیات نبوت اور روح معلٰی(۲) کے تمام انوار و کمالات (یا) حسن اعضاء سر سے لے کر پیر تک (یب) قوت جسمانی(۳) (یج) قوتِ گویائی(۴) (ید) قوتِ نظر (یھ) قوتِ سماعت(۵) (یو) قوتِ احساسات (یز) قوتِ ذہن (یح) قوتِ حفظ (بط) قوتِ عقل (ک) قوتِ دل (کا) قوتِ توکل (کب) قوتِ حسبِ الٰہی(۶) (کج) قوتِ حضور(۷) و استحضار (کد) قوتِ معیت الٰہی (کھ) افضلیت از انبیاء و ملائکہ بلکہ خدا کے بعد ہر موجود سے (کو) خاتمیت(۸) باعتبارِ نبوت و رسالت و جملہ کمالاتِ ظاہری و باطنی اختیاری و غیر اختیاری (کز) خاتمیت باعتبارِ دین و کتاب و معجزات (کح) خاتمیت باعتبارِ علم (کط) خاتمیت باعتبارِ اخلاق و اعمال (ل) خاتمیت باعتبار تبوع(۹) کل مخلوق
حقیقتِ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
لیکن اگر غور کیا جائے تو کل تیس کے تیس شعبہ ہائے حیات کا ذکر مبارک حقیقت میں ذکر رسول ﷺ نہیں ہے۔ صرف مجازی معنی سے کہ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہیں، ذکرِ رسول ﷺ ہیں ورنہ درحقیقت چونکہ یہ سب اختیاری امور نہیں ہیں محض حق تعالیٰ کے عطائے خاص ہیں، ان کا ذکر شریف تو حضرت حق تعالیٰ جل و جلاشانہ‘ کے عطا و نعمت کا ذکر ہے، اور نعمت ہائے عظیمیہ کا ذکر خالق کا شکر ہے اس لئے ان کا ذکر در اصل ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ شکر حضرتِ حق(۰۱) ہے۔
اقسام ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
(۲) امورِ اختیاریہ جن کا صادر ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار سے ہوا ہے جو حقیقی ذکرِ رسول ﷺ ہیں۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام نظریات، تمام عبادات، تمام معاملات، تمام معاشرات، تمام اخلاق، تمام انتظامات و سیاسیات، تمام تربیت و اصلاحات، حضراتِ صحابہؓ کے نفوس کا تزکیہ، (۱۱) تعلیم و تشریحاتِ قرآن، تبلیغی احکام اور ان کے ذرائع و انتظامات، جہادات اور ان کے اصول و عسکری(۲۱) انتظامات، تدبیر ملک و سلطنت وغیرہ وغیرہ، نشست و برخاست(۳۱)، آمد و رفت(۴۱) ہر ہر بات میں طریقہ مبارک، وضع قطع، رفتار و گفتار، وفود سے معاملات و گفتگو(۵۱)، پیاماتِ سلاطین (۶۱)، کھانے پینے اور تمام ضروریاتِ انسانی کے طور طریق، ہر قسم کے استعمالات کے اصول اور طریقے وغیرہ وغیرہ۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر حرکت و سکون جو امت کی فلاح و بہبود کے لئے ہے، حسب ارشادِ الٰہی “بہترین نمونہ” ہے۔ خواہ یہ افعال و اعمال بطریق عبادت ہوں جیسے نمبر ۲۱ تک، یا بطریق عادت ہوں جیسے بعد میں۔
(۳) انہی امور اختیاریہ کا اعلیٰ فرد ہے تعلیم و تلقینِ احکاماتِ دین جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصودِ اعلیٰ ہے۔ ارشاد ہے۔
یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک فان لم تفعل فما بلغت رسالتۃ(۷۱)
اے رسول ان تمام احکامات کو پہنچا دیجئے جو آپ پر نازل کئے گئے ہیں آپ کے رب کی طرف سے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو حقِ رسالت ادا نہیں کیا۔

در اصل ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امور اختیاریہ(۸۱) کا ذکر ہے اور اختیارات میں سے جو بعثت مبارکہ کا اصل مقصود ہے وہ دوسرے امور سے اعلیٰ ہے۔ اس لئے تعلیمات و تلقیناتِ نبویہ کا ذکر ذکرِ رسول ﷺ کا اصلی اور اعلیٰ ترین فرد ہے۔ پھر اس کے بھی دو شعبے ہیں، باطنی اور ظاہری۔ یعنی قلبِ انسانی کو تمام ناپسندیدگیوں اور تمام گندگیوں سے پاک کرکے اس میں تمام خوبیاں، بہترائیاں، عمدہ اخلاق کے مادے اور غیر اللہ کی طرف سے ہٹا کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینا بلکہ عشق الٰہی کی ایک لگن پیدا کر دینا۔ اس کو کہتے ہیں تزکیہ نفس اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا باطنی شعبہ ہے۔ دوسرا شعبہ ظاہری تعلیمات ہیں وہ زندگی اور ما بعد سے تعلق رکھنے والے ہر دورِحیات(۱) کی تکمیلات کی ضامن احکام و قوانین ہیں، دونوں  میں باہم شدت کا ربط(۲) ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر ناممکن ہیں بلکہ ایک درجہ میں باطنی کیفیات(۳) ظاہری احکامات کی جڑ، ان کی آبیاری(۴) کا دار و مدار اور بقاء(۵) و دوام(۶) اور عمدگی و استحکام کے لئے اصل(۷) اصول ہیں۔ اسی لئے حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کاموں میں باطنی تعلیمات کا ذکر پہلے اور ظاہری کا بعد میں فرمایا۔ کئی جگہ ارشاد ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان ہے۔

ویزکیھم و یعلم ھم الکتاب والحکمہ(۸)
آپ مومنین کا تزکیہ کرتے اور ان کو کتاب اللہ اور حکمت کا درس دیتے ہیں۔
لہٰذا حقیقی و اصلی اور اعلیٰ ترین ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ان اصول و قوانین کا اعلان و استحسان(۹) ہے جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیماتِ باطنیہ(۰۱) و ظاہریہ کے ارشاد فرمائے ہیں اور ان کے بعد درجہ ان امورِ اختیاریہ(۱۱) کا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور عبادت کئے ہیں  اور ان کے بعد ان اختیاری افعال کا ہے جو بطور عبادت کے نہیں بطریق(۲۱) عاداتِ شریفہ صادر ہوئے ہیں اور ان کے بعد ان امور کا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار سے سرزد(۳۱) نہیں ہوئے تھے، محض انعام و الطافِ الٰہی ہیں جو تعلقِ ذات کی وجہ سے ذکرِ رسول ﷺ اور حقیقت میں شکر نعمت ہائے ربّانی ہے۔

(۱) بلند درجات (۲) پاکیزہ روح (۳) جسمانی طاقت (۴) بولنے کی طاقت (۵) سننے کی طاقت (۶) اللہ سے محبت کی طاقت (۷) ہر وقت اس بات کا خیال رہنے کی طاقت کہ اللہ دیکھ رہا ہے (۸) نبوت و رسالت کے اعتبار سے خاتم النبیین ہونا (۹) ساری مخلوق کے متبوع (۰۱) اللہ تعالیٰ (۱۱) دلوں کی صفائی (۲۱) فوجی (۳۱) اٹھنا بیٹھنا (۴۱) آنا جانا (۵۱) بول چال (۶۱) بادشاہوں کو پیغامات (۷۱) المائدہ، آیت ۷۶ (۸۱) اختیاری کاموں
آلاتِ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
(۴) ان تینوں قسم کے اذکار اور ان کے درجات کے بعد اب آلاتِ ذکر(۴۱) پر غور کیجئے۔ ذکرِرسول ﷺ کا یہ مطلب کہ صرف  زبان سے کہہ دینا ہی ذکر ہے۔ یہ زبانی جمع خرچ اس عبادت کے حساب میں کبھی کافی نہیں ہو سکتا، یہ ایک بہت حقیر اور کم درجہ کا ذکر ہو گا۔ آلاتِ ذکر یہ ہیں۔ زبان، کان، دل، دماغ، روح، اور تمام اعضائے ظاہری۔ پھر ان میں درجہ بدرجہ تفاوت(۵۱) ہے۔ اگر سب آلات سے ذکر ہوگا تو کامل ترین اور بہتر ذکر ہے۔اگر بعض سے ہوگا تو اتنا ناقص، پھر اعلیٰ سے ہوگا تو ناقص افراد میں سے اعلیٰ اور نقصان میں کم، اور ادنیٰ سے ہوگا تو ادنیٰ اور نقصان میں زائد ہے۔ زبان سے ان اذکار کا ادا کرنا اور کانوں سے سن لینا تو سب جانتے ہیں۔ جن میں ان تمام گذشتہ امور یعنی پورے دین کو پڑھنا،
سیکھنا، پڑھانا، سکھانا، تحریرات و تقریرات پڑھنا سننا وغیرہ داخل ہیں۔ دل کے ذکر میں، دل میں ان کی حقانیت کو قائم کرنا اصل اصول(۶۱) ہے کہ بغیر اس کے زبان اور کان کا ذکر بالکل بیکار ہے، صرف صورت ہی صورت ذکر کی ہے اصل کچھ نہیں۔ زبان پر ذکر اور دل میں نفرت یا حقارت یا سبکی(۷۱) و خفت ہو تو یہ ذکر ایک منافقانہ حرکت سے زیادہ وقعت نہیں رکھ سکتا۔ جیسے آپ بعض ہندوؤں اور انگریزوں کی زبان و قلم سے ذکرِ رسول ﷺ کا کوئی شعبہ ظاہر ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ ذکر نہیں کسی دنیوی مصلحت کا مظاہرہ ہے، منافقت اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا ہے کہ اس حرکت
سے مسلمان مانوس ہو کر شکار ہو سکیں-

(۱) زندگی (۲) تعلق (۳) حالتیں (۴) پرورش (۵) باقی رہنا (۶) ہمیشہ رہنا (۷) بنیاد (۸) آلِ عمران، آیت ۴۶۱ (۹) احسان ماننا (۰۱) دل سے برائیوں کو نکالنا (۱۱) اختیار سے کرنے کے کام (۲۱) عبادتِ نفس انسانی، چلنا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا وغیرہ (۳۱) لمبا ہونا، جسم بھاری ہلکا ہونا وغیرہ (۴۱) ذرائع (۵۱) فرق (۶۱) جڑ کی حیثیت رکھتا ہے (۷۱) شرمندگی (۸۱) ہمیشہ کا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِمبارک کا فرض درجہ

پھر دل کا ذکر ایک دائمی(۸۱) ذکر ہے اور زبان اور کان کا عارضی چند لمحات کا ہے۔ دل میں حقانیت و عظمت مسلسل اور دائمی چیز ہے بلکہ یہ درجہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ذکر و اذکار کے لئے نہیں بلکہ تمام انبیاء و رسل کے اذکار کی حقانیت کا دلی ذکر فرض ہے۔ فقہائے اسلام نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کی کسی ایک سنت کا بھی کوئی مذاق اڑائے یا ناپسندیدگی ظاہر کرے تو وہ کافر ہے۔ یہ وہ ذکرِ رسول ﷺہے جو گزشتہ تمام اقسام میں ہر ہر مسلمان پر فرض ہے اور ایک دائمی عبادت ہے۔

دل کا ذکر
پھر دل کے ذکر کا اور درجہ ہے جس سے ایمان میں نور اور اسلام میں کمال پیدا ہوتا ہے، وہ یہ کہ ذاتِ اطہر اور تمام اوصاف و کمالات اور گزشتہ معروضہ(۱) کے کل اقسام کے اذکار سے محبت ہونا ہے۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
لا یُومِنُ  اَحدُکُم حَتّی اَکوُنَ اَحَبُ اِلیہِ مَن وَالِدِہِ و وَلَدِہ۔
تم میں کوئی مومن کامل نہیں بن سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوئں۔
ذکر و دماغ میں ذہن، حافظہ اور عقل سے تمام اذکار میں کام لینا ہی ان کا ذکر ہے۔ اس کی تفصیلات ہر شخص جانتا اور سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجید، احادیث شریفہ کا حفظ، تعلیم و تعلم، تصنیف و تالیف، تقریر و گفتگو۔ یہ دین کے تمام کے تمام شعبے سب قسم کے، انہی اذکارِ رسول ﷺ میں اور اعلیٰ درجہ کے ذکر میں شامل ہیں۔ ذرا نظر صاف، بے لوث اور گہری ہو تو حقیقت بالکل روشن ہے۔
روح کا ذکر
روح کا ذکر ان تمام امور سے مزین(۲) ہوتا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد و افعال(۳) و احوال(۴) سے سامنے آئے ہیں، جن کا تعلق ظاہری اعمال کے بجائے باطن سے ہے۔ اور ظاہری اعمال کے لئے بیخ و بن(۵) کا کام دیتے ہیں۔ یہ تمام ذکر مبارک روح کو روشن، مجلّٰی(۶)، نورانی اور بڑھ بڑھ کر اس کو بعد(۷) کی کثافتوں (۸) سے پاک کردیتے ہیں پھر اس کو ملاء اعلیٰ کے اتصال(۹) سے عجیب عجیب انکشافات معمول و عادت سے زائد باتیں حاصل ہوتی ہیں اور ظاہر بھی ہو جاتی ہیں۔ یہی تزکیہء نفس سے تعبیر ہوا ہے۔ یہ درجہ نہایت مہتم(۰۱) بالشان درجہ ہے۔
اتباع رسول صلی علیہ وسلم ہی حقیقی ذکر ہے جس سے محبوبیت حاصل ہوتی ہے
ذکرِ رسولﷺ کا اہم اور عام درجہ یہ ہے کہ تمام اعضائے ظاہری سے بھی ہو۔ خود حق تعالیٰ نے اس کو ضروری
قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے۔
قُل اِن کُنْتُم تُحِبُّونَ اللّٰہ فَاتَّبِعُونْی یُحبِیکُمُ اللّٰہ(۱۱)
  آپ کہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم کو محبوب بنا لیں گے۔
یہاں حکم بھی ہے اور اس پر انعامات بے غایات(۲۱) بھی ہیں کہ محبت و عشق ہی مقبول نہیں ہو گا بلکہ خود حق تعالیٰ تم سے محبت فرمانے لگیں گے۔ مرید سے مراد کا درجہ پاؤ گے۔ محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ پھر اس اتباع میں متفرق درجات ہیں۔ فرائض، واجبات، سنن، مستحبات اور ترک حرام و مکروہ، تحریمی و تنزیہی و لایعنی(۳۱)، سب اس میں داخل ہیں۔ جس قدر یہ عملی ذکرِ رسول ﷺ ہوگا اسی قدر محبتِ الٰہی کا غلبہ اور محبوبیت حاصل ہو گی۔
ذکرِ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے تینوں درجے اور آلاتِ ذکر کے پورے چھ ذریعوں سے ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنا ہی کامل اور حقیقی ذکر، دین و دنیا میں بے انتہا نافع بلکہ سارے عالم میں بے مثال ہستی بنانے والا ہمیشہ کا تجربہ کیا ہوا نسخہ ہے۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے آج تک جو بھی مسلمان اعلیٰ قسم کا مسلمان بزرگ، صالح، متقی، ولی کامل آپ نے دیکھا یا سنا ہے وہ اسی پورے پورے ذکرِ رسول ﷺ اور اس کے ہر ہر طریقہ سے کرنے سے ہی اس کمال پر نظر آیا ہے۔ خواہ وہ پیرانِ پیر(۱) رحمتہ اللہ علیہ ہوں یا کوئی اور بزرگ، یہی ایک کیمیاوی نسخہ ہے۔ یعنی مسلمان کو کامل ترین مسلمان بنانے کا ذریعہ ہے۔ یہی دین و دنیا کی فلاح و بہبود(۲) کی کنجی(۳) ہے، اسی سے مسلمان پکا مسلمان بنتا ہے اور اسی سے پاکستان پاکستان اور اس کا ہر باشندہ واقعی پاک بن سکتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جس کی بدولت امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و التحیہ کو خیر البریہ (تمام مخلوقات سے بہتر) اور خیر الامم(۴) کا تمغہ قبولیت عطا ہوا ہے

(۱) ذکر کی گئی (۲) آراستہ (۳) کام (۴) حالتوں (۵) جڑ و اصل (۶) چمکیلا (۷) دنیوی (۹) ملنے (۰۱) تعظیم کے لائق، (۱۱) آلِ عمران، آیت ۱۳ (۲۱) بے انتہا (۳۱) بے کار
ناقص ذکر کرنے کے نقصانات
ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس تفصیلی بیان سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ مسلمان کمالِ اسلام اسی وقت حاصل کر سکتا ہے کہ جب  ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام شعبوں کو تمام ذرائع سے عمل میں لے آئے۔ اگر کوئی شخص نامکمل نسخہ استعمال کرتا ہے تو نہ وہ نسخہ کا قدردان ہے نہ اس کو  اس نسخہ سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ وہ اس کا استعمال کرنے والا شمار ہو سکتا ہے بلکہ حقیقی غور و خوض سے کام لے کر دیکھیں تو وہ نسخہ کو بدنام کرنے کا  مجرم ہے۔ اس کی بے تاثیری کا ڈھول پیٹ کر دنیا کو اس سے محروم کرانے کا مجرم اور خود ناقدری بلکہ توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لئے بڑا زبردست ظلم اور بڑا غلط پروپیگنڈا ہوگا اگر کوئی شخص ذکرِ رسول ﷺ کو صرف کسی ایک شعبے میں محصور کرکے رکھ دے گا۔
ہم اگر پورے ذکرِ رسول ﷺ کی کوشش نہیں کر رہے ہیں تو اس عبادت کو ناقص یا ناقص ترین ادا کرتے ہیں۔ پھر اگر بجائے تکمیل کے اسی پر خوش ہوتے ہیں تو اپنی غلط فہمی پر ناز کرنے لگے اور ہمیشہ کو ورطہ جہالت(۵) میں پڑے رہے۔
ہم میں جو لوگ ذکرِ رسول ﷺ سے بالکل غافل ہیں وہ تو غافل ہیں ہی اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھول دیں اوربعض لوگ ذکرِ رسول ﷺ کرتے ہیں مگر جیسے اوپر ذکر کیا گیا تھا کہ ناقص یا ناقص ترین کرکے اس کیمیاوی نسخے کو بے تاثیری میں بدنام کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اور بعض لوگ اس کوتاہی سے بڑھ کر ایک ایسا اقدام کر بیٹھتے ہیں جو ایک زبردست مجرمانہ اقدام ہے مگر وہ اپنی ناواقفیت یا غلط فہمی سے اس کو صحیح قدم سمجھتے رہتے ہیں اور ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ اس کی تاثیرات و منافع سے ہمیشہ در ہمیشہ محروم رہتے ہیں اور اپنے عمل سے ایک دنیا کی دنیا کو اس مجرمانہ اقدام کا مرتکب بنا دیتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اس کی یہ صورت بھی پیش کر دی جائیں تاکہ مسلمان اس عبادت کے حقیقی فائدے حاصل کر سکیں اور مجرمانہ حرکات یا انہی صورتوں سے اس عبادت کو پاک صاف کر سکیں۔
عبادت کے اصول
یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ ہر عبادت کے لئے کوئی نہ کوئی شرعی طریقہ ہے اسی طریقہ سے ادا کرنے سے وہ عبادت ہے ورنہ یہی نہیں کہ وہ عبادت ہونے سے نکل جاتی ہے بلکہ گناہ، بڑے گناہ اور بعض دفعہ کفر اور سلب ایمان کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔
نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور تمام فرائض، واجب، سنت و مستحب عبادتوں کے لئے شرائط و آداب ہیں اسی طرح ذکر مبارک کے چونکہ بہت سے شعبے ہیں، ہر ہر شعبہ کے شرائط و آداب ہیں ان کے خلاف کرنا حسبِ مرتبہ جرم بن جاتا ہے اور جو مخالفت توہین کا سبب ہوتی ہے وہ تو اسلام و ایمان کو سلب کر لینے اور کفر میں داخل ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لئے ہر عبادت کے لئے اور خصوصاً اس عبادت کے لئے جو تمام عبادتوں کی جامع اور میزانِ کل ہے،
شرائط و آداب کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے اور ایسی ہر بات سے بچنا ہے جس سے توہین ہو کر گناہِ عظیم یا کفر تک نوبت پہنچتی ہے-
فقہائے احناف نے تصریح کی ہے کہ بے وضو قصداً نماز پڑھنا کفر ہے۔ قصداً قبلہ کی طرف پشت کرکے نماز پڑھنا کفر ہے حرام پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا کفر ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت باجوں کے ساتھ کفر ہے۔ نعت شریف باجوں کے ساتھ کفر ہے اور اذان یا قرآن کا گانا کفر ہے تالیاں بجانے کے ساتھ کفر ہے وغیرہ وغیرہ
راز یہ بتایا گیا ہے کہ عبادت کو حرام یا گندگی سے متصل(۱) کرنا کفر ہے ان سب باتوں میں حرام یا ممنوع شے سے ایک عبادت کو ملا کر اس کی توہین کی گئی ہے اس لئے یہ کفر ہے۔ نتیجہ آپ خود نکال لیجئے کہ اس لذیذ ترین عبادت کو بھی اگر کسی گناہ سے ملوث کیا جائے گا تو وہ کیا ہوگا اور بجائے کارِ خیر(۲) بننے کے کس قدر کارِ شر(۳) بن جائے گا۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عبادت کو حرام اور ظاہری و معنوی گندگیوں سے پاک کرکے پوری پوری طرح
پورے پورے ذرائع سے ادا کریں

(۱) شاہ عبدالقادر جیلانی ؒ (۲) کامیابی (۳) چابی (۴) تمام امتیوں سے بہتر (۵) گرداب
ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مروجہ غلط طریقے
اب عرض کیا جاتا ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ اس عبادت کی ادائیگی میں کس قدر قصور اور کوتاہی کر رہے ہیں یا کس قدر گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کر رہے ہیں تاکہ سب لوگوں کو اس سے بچنے کا اہتمام ہو سکے۔
ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس کی ادائیگی کی وسعت آپ کے سامنے آ چکی ہے اس کے بعض شعبوں کے مدارج بعض فرض بعض واجب بعض سنت بعض مستحب بعض اصل مقصود بعض تابع یہ سب آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔ اب صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر شعبہ کو حسبِ درجہ مکمل طریقے سے ادا کیا جائے۔ بعض لوگ ایسی حرکت کرتے ہیں کہ فرض و واجب کا قطعاً اہتمام نہیں۔ ایک امر مستحب کو نہایت مہتم باالشان بنا لیتے ہیں، یہ بات ٹھیک نہیں، بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر اختیاری(۴) اعمال کا تو ذکر کرتے ہیں اور اختیاری اعمال کا ذکر تک نہیں کرتے۔ اس میں نفس و شیطان کی آمیزش(۵) معلوم ہوتی ہے کہ عمل میں مشقت ہے اور غیر اختیاری ذکر کرنے اور سن لینے میں لذت دہ۔ اس طرح عمل کی بات پر پردہ ڈالتا اور اس سے محروم کرتا ہے۔ بعض لوگ دل، دماغ کی بات روح اور اعضاء کے ذکر کرنے کو بیان بھی نہیں کرتے اور نہ اس کی ضرورت سامنے لائی جاتی ہے۔ حالانکہ اصل ذکرِ رسول ﷺ تو اختیارات اور ان تمام کام کا ہے۔ بعض لوگ احکام و تعلیم و تلقین کے عمل بلکہ بیان کو بھی ذکرِ رسول ﷺکے خلاف قرار دیتے ہیں۔ یہ انکی کوتاہ فہمی(۶) ہے۔ بعض لوگ بعض غیر اختیاری امور کے کرنے کو عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہیں یہ سخت ترین شیطانی حملہ ہے کہ ذکر محض مستحب ہے تمام عمر بھی نہ ہونے سے نجات میں خلل(۷) نہیں۔ تمام عمر ہونے پر فرائض و واجب کے خلل(۸) کے وقت عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ یہ عیسائیوں کی طرح مذہب کو فضول قرار دینے جیسا ہو گیا۔ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کو کفارہ قرار دے کر تمام جرائم کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔
کسی نبی یا ولی کا دن منانا ہندوانہ اور مشرکانہ رسم ہے۔
بعض لوگ سارے سال سو کر صرف ربیع الاول میں جاگتے ہیں اور کچھ ذکرِ رسول ﷺ کرتے ہیں لیکن ذکرِ رسول ﷺ کی وسعتوں کا تقاضا ہے کہ کامل ذکرِ رسولﷺ ہر ہر وقت کا کام ہے۔ کوئی سیکنڈ بھی اس سے خالی رہنا صحیح نہیں۔ پھر کسی دن یا وقت کو معین کرنا اسکو ضروری یا افضل قرار دینا، دونوں باتیں بغیر شریعت کے بتائے جرم ہیں۔ بعض لوگ عید یا ڈے(۸) مناتے ہیں، یادگار قرار دے کر کرتے ہیں تو اسلام میں یادگار اور ڈے کی کوئی اصلیت نہیں ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء سابقین کی اور صحابہ کرام ؓ حضور ﷺ کی یا سنہ ۰۰۶ھ سے پہلے کوئی مسلمان تو مناتے۔ یہ ہندوؤں اور انگریزوں سے لی ہوئی رسمِ محض ہے اور ان کی مشابہت جرم ہے۔ بعض لوگ بطور کھیل تماشہ کے کرتے ہیں حالانکہ یہ عبادت کی سخت گستاخی ہے۔ فقہا نے بطور کھیل تماشہ کھانا کھانے اور پانی پینے تک کو منع لکھا ہے۔ بعض لوگ جلسہ و جلوس انگریزی طور طریق سے نکالتے ہیں۔ مشابہتِ کفار کی گندگی سے آلودہ کرنا سخت بے ادبی ہے۔ بعض لوگ جھنڈیاں لگا کر انگریزوں کی نقالی کا جرم کرکے عبادت کو اس سے ملوث کرتے ہیں ایسے ہی بعض لوگ ہندوؤں کی دیوالی کی طرح چراغاں کرکے کافرانہ رسم سے آلودہ کرتے ہیں۔ بعض لوگ ذکرِ رسول ﷺ کی نظموں کو گا کر پڑھتے ہیں حالانکہ شریعت میں گانا حرام اور حرام سے ملوث کرنا بڑا جرم ہے۔ بعض لوگ سڑکوں اور بازاروں میں ذکرِ رسول ﷺ کرتے ہوئے چلتے ہیں جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شرالبقاع (یعنی بدترین جگہ) فرمایا۔ اس طرح عبادت کی بڑی بے ادبی ہے-

(۱) ملانا (۲) نیک کام (۳) برا کام (۴) غیر اختیاری کام (۵) ملاوٹ (۶) کم سمجھی (۷) فرق (۸) دن
عید میلاد النبی ﷺ یا بارہ وفات منانے کی خرابیاں
بعض لوگ ۲۱ ربیع الاول کو عید قرار دیتے ہیں حالانکہ یہی تاریخِ وفات ہے۔ اول تو عید بے اصل پھر یومِ وفات میں بعض لوگ جھوٹی اور غلط روایات بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ قرار دے۔ بعض لوگ عورتوں سے نظم پڑھواتے ہیں۔ بعض کم عمر بے ریش لڑکوں سے پڑھواتے ہیں یہ گانا حرام اور غیر محرم اور ایسے لڑکوں سے پڑھوانا گناہ۔ بعض لوگ باجے بھی ساتھ لگاتے ہیں جن کے ساتھ عبادت کو فقہا نے کفر لکھا ہے۔ بعض لوگ روح مبارک کے آنے کا یقین کرتے ہیں۔ بلا شرعی دلیل یہ خیال گناہ ہے اور عقلاً ناممکن بھی ہے کہ بوقت واحد لاکھوں جگہ آنا ہے۔ بعض لوگ ذکر خاص پر قیام کرتے ہیں حالانکہ حضور نفس نفیس کے لئے قیام کرنا ناگوار سمجھتے تھے اس لئے صحابہ نہیں کرتے تھے۔ یہ تو ہر وقت ناگواری پیدا کرتے اور تکلیف دیتے ہیں۔ اگر ذکر قیام پسند ہوتا تو نماز میں درود قیام میں ہوتا نہ کہ قعدہ(۱) میں۔ بعض لوگ محض نام نمود شہرت کے لئے ایسا کرتے ہیں یہ سب گناہ ہے اور عبادت کی روح خلوص غائب کرنے کا جرم ہے وغیرہ وغیرہ۔
حاصل یہ ہے کہ عبادت کو ان کفار کی مشابہت اور حرام یا ناجائز امور سے آلودہ کرکے کرنا عبادت کی توہین یا سخت گستاخی و بے ادبی ہوتی ہے۔ ان سب باتوں سے بچ کر اس عبادت کو انجام دیا جائے اور ناقص طریقے سے نہیں۔ کامل عبادت اور کامل طریقوں سے انجام دینا ہی اس کے منافع کا حاصل کرنا ہے اوپر کے بیان میں غور کرنے سے آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس عبادت کے اجزا میں سے اگر بعض کو ہی اختیار کرنا ہے تو اہم ترین کو اہم درجہ دے اور اس سے کم کو کم۔
ورنہ ہر ہر مسلمان کے لئے ذکرِ رسول ﷺ پورا پورا پوری طرح اور تمام ذرائع سے ہر وقت ہر سیکنڈ ہونا ضروری ہے۔ یہی فلاح و کامیابی کا چودہ سو سالہ کامیاب اور کیمیاوی نسخہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی پوری شکل سے ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام

(۱) التحیات کے بعد
از نشر الطیب
از نشر الطیب
پنتسویں فصل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم(۱) کے حقوق میں، جو امت کے ذمہ ہیں۔ جن میں ام الحقوق(۲) محبت و متابعت فی الاصول و الفروع(۳) ہے، جاننا چاہئے کہ کسی سے محبت ہونا اور اس محبت کا مقتضا متابعت ہونا تین سبب سے ہوتا ہے۔ ایک کمالِ محبوب کا جیسے عالم سے محبت ہوتی ہے شجاع سے محبت ہوتی ہے اور دوسرا جمال جیسے کسی حسین سے محبت ہوتی ہے تیسرا نوال یعنی عطا و احسان جیسے اپنے منعم و مربی سے محبت ہوتی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ میں تینوں وصف علی سبیل الکمال مجتمع ہیں۔ وصف اول سے یہ تمام رسالہ مشعون(۴) ہے۔ دوسرا وصف فصل اکیسویں میں مخزون(۵) ہے اور چونتیسویں فصل لانے سے مقصودِ خاص تیسرے وصف کا مضمون ہے۔ جب تینوں وصف جو علت و محبت ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں تو خود اس کا طبعی مقتضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امت کو اعلیٰ درجہ کی محبت ہونا چاہئے۔ اگر نص شرعی(۶) بھی نہ ہوتی۔ اور جب کہ نصوص شرعیہ بھی اس کے ایجاب میں موجود ہیں تو داعی عقل و طبع کے ساتھ داعی شرع بھی مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجوبِ محبت کو مؤکد(۷) کرتا ہے اور در حقیقت اعظم غایت(۸)، اس رسالہ کی اسی امر کی طرف اہلِ ایمان کو متوجہ کرنا ہے اور یقینی امر ہے کہ ان اسباب و دواعی کے ہوتے ہوئے محبت کے اتباع کا انفکاک(۹) عادتاً محال ہے۔ جس درجہ کی محبت ہوگی اسی درجہ کا اتباع ہوگا اور ظاہر ہے کہ محبت علیٰ سبیل الکمال(۰۱) واجب ہے۔ پس متابعت بھی علیٰ سبیل الکمال واجب ہوگی اور اس میں گو کسی کو بھی کلام نہیں ہو سکتا۔ محض تجدید استحضار کے لئے مختصر طور پر تنبیہ کردی گئی اور اسی کی تقویت کے لئے چند روایات بھی ذکر کی جاتی ہیں۔

(۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (۲) حقوق کی اصل (۳) اصول اور فروع کا اتباع (۴) بھرا ہوا (۵) خزانہ میں رکھی ہوئی (۶) شرعی حکم (۷) لازم (۸) بڑا مقصود (۹) جدا ہونا (۰۱) کامل درجہ کی (۱۱) ماں باپ کی محبت ایک بات کا تقاضہ کرتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بات میں ہے تو ایسے وقت میں آپ ﷺ کی مرضیات پر عمل کرنا آپ ﷺ کی محبت کی دلیل ہے
1-4 روایت

پہلی روایت

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور تمام آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔ کذا فی المشکوٰۃ۔ (ف) یعنی اگر میری مرضیات میں تزاحم(۱۱) ہو تو جس کو ترجیح دی جاوے اِسی کے محبوب تر ہونے کی یہ علامت ہوگی۔

دوسری روایت

امام بخاریؒ نے ایمان و نذور میں عبد اللہ بن ہشام سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ﷺ  میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں بجز میرے نفس کے جو میرے پہلو میں ہے (یعنی وہ تو بہت ہی محبوب ہے) جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم  میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس کو میں محبوب نہ ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی کہ آپﷺ میرے نزدیک میرے اس نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں جو میرے پہلو میں ہے۔ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاbکہ بس اب ٹھیک بات ہوئی۔ کذا فی المواہب۔ (ف) حضرت عمرؓ نے اول محبت بلا اسباب کو محبت بالاسباب سے اقوی سمجھ کر نفس کو مستثنیٰ کیا پھر آپ ﷺ کے ارشاد سے کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب رکھنا ضروری ہے۔ یہ سمجھ گئے کہ اقوی ہونے کا دار و مدار کوئی ایسا امر ہے کہ اس کے اعتبار سے کوئی چیز نفس سے بھی زیادہ محبوب ہو سکتی ہے۔ مثلاً کہ آپ ﷺ کی خوشی کو نفس کی خوشی پر طبعاً مقدم و راجح پایا۔ سو اس حقیقت کے انکشاف(۱) کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجیت من النفس(۲) کا مشاہدہ کیا اور خبر دی۔ مواہب کے مقصد سابع میں دوسرے صحابہؓ کی بھی حکایتیں محبت کی عجیب و غریب ذکر کی ہیں۔

تیسری روایت:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت جنت میں داخل ہوگی۔ مگر جس نے میرا کہنا قبول نہ کیا۔ عرض کیا گیا کہ قبول کس نے نہیں کیا۔ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے قبول نہیں کیا۔ روایت کیا اس کو بخاری نے۔ کذا فی المشکوٰۃ۔ (ف) صحابہؓ کے اس سوال سے معلوم ہوا کہ یہ اباء(۳) مخصوص بہ کفر(۴) نہیں ہے ورنہ اس میں کون سا اخفا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع نہ کرنے کو اباء سے تعبیر فرمایا گیا۔ اس سے متابعت کا وجوب ثابت ہوا۔
چوتھی روایت:                                                                                             
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ روایت کیا اس کو ترمذی نے۔ کذا فی المشکوٰۃ۔ (ف) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علامت آپ ﷺ کی محبت کی، آپﷺ کی سنت کی محبت ہے اور آپ کی محبت کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مفتاح جنت ہے اور جنت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت کا بھی مؤجب ہے۔
پانچویں روایت:                                                                                          
حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے کے جرم میں سزا دی۔ پھر وہ ایک دن حاضر کیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے سزا کا حکم دیا۔ ایک شخص نے مجمع میں سے کہا کہ اے اللہ اس پر لعنت کر کہ کس کثرت سے اس کو (اس مقدمہ میں) لایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لعنت مت کرو۔ و اللہ میرے علم میں یہ اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ روایت کیا اس کو بخاری نے۔ (ف) اس حدیث  سے چند امور ثابت ہوئے۔ ایک بشارت مذنبین(۵) کو کہ ان سے اللہ و رسول کی محبت کی نفی نہیں کی گئی۔ دوسری تنبیہ مذنبین کو کہ نری محبت سزا سے  بچنے میں کام نہ آئی تو کوئی اس ناز میں نہ رہے کہ بس خالی محبت بدون اطاعت کے سزائے جہنم سے بچالے گی، البتہ بعد بعید من الرحمہ(۶) سے بچا سکتی ہے کہ نہی عن اللعنہ سے معلوم ہوا۔ پس جو سزا آخرت کی اس ملعونیت پر مرتب ہے یعنی خلود(۷) اس سے یہ محبت بچا لے گی۔ بعد سزا کے مغفرت ہو جائے گی۔ تیسری فضیلت محبت کی جیسا کہ ظاہر ہے۔ چوتھے تفاوت مراتبِ محبت کا کہ باوجود ایک عصیان(۸) کے اثباتِ محبت کا حکم فرمایا۔ اس سے
ثابت ہوا کہ متابعت کامل نہ ہونے سے گو کمال محبت کا حکم نہ ہوگا مگر نفس متابعت سے کہ ادنیٰ درجہ اس کا کفر نکلتا ہے۔ کوئی درجہ محبت کا ثابت ہو جاوے گا۔ پانچویں مومن خواہ کتنا ہی گنہگار ہو مگر اس پر لعنت نہ کرنا چاہئے۔ اس سے عظمت ثابت ہوتی ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی کہ اس کا ایک شمہ(۹) بھی گو مقرون بالمعاصی(۰۱) ہو مانع عن اللعنہ ہے(۱۱) تو اس کا کامل اور خالص درجہ کیسا کچھ مؤثر ہوگا۔

جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند (۱)
صاف گر باشد ندانم چوں کند

یا سائر ا نحو الحمی باللّٰہ قف فے بانہ و اقرا طوا میرا لجوی منی علی سکانہ
اے جانے والے بجانب گیاہ زار کے اللہ کے لئے اس کے باغ درخت بان میں ذرا ٹھہرنا اور میری طرف سے دفاترِغم اس کے رہنے والوں کو پڑھ کر سنانا۔

ان تسئلو عن حالتی فی السقم منذ فقدتہ فا لقلب فی خفقانہ و ا لراس فی دورانہ
اگر وہ میری بیماری کے بارے میں دریافت کریں، جب سے میں ان سے غائب ہوا ہوں۔ پس قلب اپنے خفقان میں ہے اور سر اپنے دوران میں ہے۔

ان فتشوا عن دمع عینی بعدھم قل حاکیا کا لغیث فی تھتانہ و الیہ فے ھیجانہ
اگر وہ میرے اشکِ چشم کے متعلق اپنے بعد زمانہ میں تحقیق کریں تو بطور حکایت کے کہنا کہ مثل ابر کے ہے اس کے برسنے میں، اور مثل بحر کے ہے اس کے جوش میں۔

لکنہ مع ماجری مشغوف حب المصطفیٰ فخیا لہ فی قلبہ و حدیثہ بلسانہ
لیکن وہ محب باوجود اس تمام ماجرہ کے فریفتہ ہے عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا پس آپ ﷺ کا خیال اس کے قلب میں ہے آپ ﷺ کا تذکرہ اس کی زبان پر ہے۔

ولطا لما یدعو لحاحا فی ا لدعاء مبالغا لیطوف فی بستانہ و یشم فی ریحانہ
اور بہت زمانہء طویل سے دعا کر رہا ہے اور دعا میں الحاح و مبالغہ کر رہا ہے تاکہ وہ آپ ﷺ کے باغ میں طواف کرے اور آپ ﷺ کے ریحان سے خوشبو سونگھے۔

یا من تفوق امرہ فرق ا لخلا ئق فے العلا حتی لقد ائنی علیک اناء فی قرأ نہ
اے وہ ذات پاک جن کا رتبہ تمام خلائق پر بلندی میں فائق ہو گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن میں ثناء فرمائی۔

صلی علیک ا للّٰہ اخر دھرہ متفضلا مترحما و حیالک الموعودہ من احسانہ
اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر درود نازل فرماوے۔ زمانہ کے اخیر تک تفضل کرتا ہوا اور ترحم فرماتا ہوا اور آپ ﷺ کو اپنے احسانات موعودہ عطا فرماوے۔ ۱۲ منہ


(۱) کھلنے (۲) نفس سے زیادہ محبوب ہونے (۳) انکار (۴) کفر کے ساتھ خاص نہیں (۵) گناہگاروں کو خوشخبری (۶) رحمت سے بہت دوری (۷) ہمیشہ رہنے والی (۸) گناہ (۹) قطرہ (۰۱) گناہوں سے بچا ہوا (۱۱) لعنت سے روکنے وال   

(۱) ایک خاک آمیز گھونٹ نے جب مجنوں بنا دیا ہے۔ اگر خالص محبت کی شراب میسر آ جاتی تو نہ معلوم کیا کرتی۔ (۲) حکم کئے ہوئے (۳) نعمتوں
بعض حکم درود شریف | حکمتِ اول - حکمتِ پنجم
بعض حکم درود شریف
(از فصل ۷۳)
بعد بیان فضیلت کے بمقتضائے وار و قلبی اس کی بعض حکمتیں کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حکمتِ اول: 

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات امت پر بے شمار ہیں، کہ صرف تبلیغ مامور پہ ہی نہیں اکتفاء فرمایا بلکہ ان کی اصلاح کے لئے تدبیریں سوچیں۔ ان کے لئے رات رات بھر کھڑے ہو کر دعائیں کیں۔ ان کے احتمال مضرت سے دلگیر ہوئے اور تبلیغ گو ماموربہ(۲) تھی لیکن تاہم اس میں واسطہ نعمت تو ہوئے۔ بہرحال آپ ﷺ محسن بھی ہیں اور واسطہ احسان بھی۔ پس اس حالت میں مقتضا فطرتِ سلیمہ کابہ ہوتا ہے کہ ایسی ذات کے واسطے دعائیں نکلتی ہیں۔ خصوصاً جبکہ مکافات سے ظاہر ہے کیونکہ ان نعماء(۳) کا اضافہ غیر نبی سے نبی پر محالات سے ہے اور دعائے رحمت سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں اور اس میں بھی رحمت خاصہ کاملہ کی جو کہ مفہوم ہے درود کا۔ اس لئے شریعت نے اسے فطرتِ سلیمہ کے مطابق درود شریف کا امر،  کہیں وجوباً کہیں استحباباً فرمایا۔ و نحوہ فی المواہب۔

حکمتِ دوم: 
چونکہ آپﷺ حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اور محبوب کے لئے کسی خیر کی درخواست کرنا گو محبوب کو بوجہ اس کے کہ جس سے درخواست کی جاوے وہ خود بوجہ محبت کے، وہ خیر اس محبوب کو پہنچاوے گا۔ اس خیر کے ملنے میں اس درخواست کی حاجت ہی نہ ہو لیکن ایسی درخواست کرنا خود سبب ہوتا ہے۔ اس درخواست کرنے والے کے تقرب کا۔ پس درود شریف میں چونکہ درخواستِ رحمت ہے محبوبِ حق کے لئے۔ اس لئے یہ ذریعہ ہو جاوے گا خود اس شخص کو
حق تعالیٰ کی رضا و قرب میسر ہونے کا۔ نحوہ فی المواہب۔
حکمتِ سوم:
نیز اس درخواست میں اظہار ہے آپ ﷺ کے شرف خاص عبدیت کاملہ کا کہ رحمتِ الٰہی کی آپ ﷺ کو بھی ضرورت ہے۔ و ہٰذا من سوانح الوقت۔
حکمتِ چہارم:
چونکہ آپ ﷺ بھی بشریت(۱) میں مادیت(۲) میں عنصریت(۳) میں امت کے ساتھ شریک ہیں اور بعض امور زائدہ مثل کثرت مال وغیرہ میں تو اوروں کے ساتھ مساوی(۴) بھی نہیں۔ اور یہ اشتراک اور عدم مساوات بسا اوقات منجر(۵) ہو جاتا ہے استنکاف(۶) کی طرف اعتقاد و عظمت و اتباعِ ملت  سے  جیسا  امم  ضلالہ(۷)    کو  پیش  آ یا  کہ  بعض  نے  یوں  کہا   ا نومن  لبشرین  مثلنا  و  قو مھا لنا  عابدون(۸)   ا ور  بعض نے  کہا  ا بشر  ا منا واحد  ا نتبعہ  ا نی اذ لفی ضلال و سعر کسی  نے  کہا   لولا انزل ھذا القرآن  علی رجل من القریشین عظیم(۹)۔  اس  لئے  درود  شریف  میں  اس  کا  پورا  علاج  ہے  کیونکہ اس میں دعا ہے رحمت خاصہ کی تو استحضار ہوا اس کا کہ آپ رحمتِ خاصہ کے مستحق ہونے میں سب سے ممتاز ہیں تو اس اشتراک کے ساتھ اس امتیاز کو بھی تو دیکھو جس کے سامنے دوسروں کا امتیاز مالی وغیرہ گرد ہے اور نیز اس میں حکمت اول کے لحاظ سے استحضار ہے اس کا کہ ہم لوگ آپ ﷺ  کے ممنون ہیں اور عظمت و منت کا استحضار رافع(۱۱) ہوتا ہے استنکاف(۲۱) کا بالخصوص جب نام مبارک کے قبل لفظ سیدنا و مولانا وغیرہ بھی بڑھایا جاوے  اور نام مبارک کے بعد ایسے صفات بڑھائے جاویں جن میں تصریح ہو آپ ﷺ کی جدوجہد کی اشاعتِ دین کے لئے، جو اعظم احسانات ہے ہم پر۔ اور اس رفع استنکاف سے افتقار(۳۱) و انکسار(۴۱) حادث(۵۱) ہوگا جو کہ اعظم مقامات مقصود سے ہے۔ خصوصا اس محل میں جس کے معظم ہونے کا نصوص  میں اہتمام کیا گیا ہو جیسے مقبولانِ الٰہی بالخصوص حضرات انبیاء علیہم السلام پھر خصوص سردار انبیاء ﷺ کہ آپ ﷺ کی طرف افتقار کا استحضار عین مرضی حق اور آپ ﷺ سے اباء(۶۱) استغناء بغایت نامرضی ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ۔

ھو  ا لذی  بعث   فی  الامیین  رسولاً  منھم  یتلوا علیھم  آیاتہ و یزکیھم  و یعلمھم   ا لکتاب و  ا لحکمۃ  و ان کانوا من

قبل  لفی  ضلال المبین(۱)  و قال اللّٰہ تعالیٰ،  لقد من اللّٰہ علی المومنین  اذ  بعث  فیھم  رسولا من  انفسھم  یتلو علیھم  آیتہ  و  یزکیھم  و  یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانو ا من قبل لفی ضلال  المبین۔(۲)
حکمتِ پنجم:
بعض طبائع(۳) میں غلبہ مذاق توحید کے وسائط(۴) کے ساتھ کہ ان وسائط میں انبیاء بھی ہیں، دل زیادہ آویختہ(۵) نہیں ہوتا گو بعد حصول قدر(۶) واجب اعتقاد و انقیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زیادہ کا انتفاء(۷) مضر نہیں جیسا کہ مواہب کے مقصد سابع میں امام قشیری سے ابوسعید خراز کی حکایت نقل کی ہے کہ انہوں نے خواب میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ کو معذور رکھیے کہ خدائے تعالیٰ کی
محبت مجھ کو آپ ﷺ کی محبت میں مشغول نہیں ہونے دیتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے مبارک جو شخص حق تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ ہی سے محبت کرتا ہے (کیونکہ یہ تو وہ جانتا ہی ہے کہ میرے توسط سے تو یہ بات نصیب ہوئی اور اس جاننے کے بعد ممکن نہیں کہ واسطہ سے محبت نہ ہو گو التفات نہ ہو۔ سو امر ضروری محبت ہے نہ کہ التفاتِ دائم) اور بعض نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک انصاری عورت کو سرکار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاگتے میں پیش آیا تھا۔ لیکن کمال حال یہ ہے کہ واسطہ کی طرف اسی واحد حقیقی(۸) نے التفات کرنے کو اپنی رضا کا ذریعہ فرمایا ہے۔ اس کی طرف التفات کرنے کو ذوقا بھی شاغل عن التوحید(۹) نہ سمجھے بلکہ مکمل توحید جانے۔ جیسا کوئی اپنے معشوق کے پاس جانا چاہے اور وہ معشوق اپنا ایک مقرب خاص اس کے پاس بھیج دے کہ اس کو اپنے ہمراہ لے آوے تو مقتضاء عقل یہ ہے کہ جس قدر اپنے محبوب کی مقصودیہ حقیقیہ اس کے دل میں بسی ہوئی ہو گی اسی قدر ہر قدم پر اس موصل الی المقصود(۰۱) کے قدم و زبان پر اس کی توجہ ہوگی کیونکہ اس میں کمی ہونے سے خود وصول الی المقصود(۱۱) ہی مشکوک ہو جاوے گا۔ جس کو یہ ناگوار اور محبوب بالذات کی مقصودیہ حقیقیہ کے خلاف سمجھے گا۔ اسی طرح جب اس عاشق کو معلوم ہوگا کہ اس میں جس قدر اس کے اکرام کی اس محب کی نظر میں ہو گی اس درجہ کا التفات موصل کی حرکت و سکون پر ہوگا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جس قدر التفات(۲۱) ہو وہ عین علامت ہوگی واحد تعالیٰ کے مطلوب و ملتفت الیہ ہونے کی۔ پس دونوں التفاتوں میں تزاحم(۳۱) نہ ہوا بلکہ تلازم(۴۱) ہوا۔ پس اس ذوقی نقص کو رفع کرنے کے لئے درود شریف مشروع ہوا۔ گویا صلوا علیہ و سلموا تسلیما میں حکم ہوا کہ اس واسطے کی طرف توجہ بالاحترام کرنے سے ہم خوش ہوتے ہیں۔پس اگر کوئی ہمارا اور ہماری رضا کا طالب ہے تو اس واسطہ کی طرف توجہ بالاحترام کرئے اور اس کو اشتغال بالغیر(۵۱) نہ سمجھے کیونکہ اشتغال بالغیر بامعنیٰ الاعم(۶۱)منافی توحید نہیں بلکہ اشتغال بالغیر بایں معنیٰ(۷۱) کہ وہ غیر حاجب ہو، مقصود سے منافی توحید ہے اور جو غیر کہ خود موصل ہو اس کی طرف توجہ کرنا تو لوازم توحیدسے ہے کہ بدون اس کے توحید ہی تک وصول نہیں ہوتا۔ وھاتان الحکمتان من سوانح سالف الوقت۔
٭٭٭٭٭

(۱) آدمیت (۲) مادہ ہونے (۳) عنصر ہونے (۴) برابر کھینچ کر لے جانا (۶) برا سمجھنے کی طرف (۷) گمراہ امتوں (۸) چناچہ وہ باہم کہنے لگے کہ کیا ہم ایسے دو شخصوں پر جو ہماری طرح کے آدمی ہیں ایمان لے آئیں اور ان کے متبع بن جائیں حالانکہ انکی قوم کے لوگ تو خود ہمارے زیرِحکم ہیں۔ المومنون، آیت ۷۴ (۹) اور کہنے لگے ایسے شخص کا اتباع کریں گے جو ہماری جنس کا آدمی ہے اور اکیلا ہے تو اس صورت ہم بڑی غلطی بلکہ جنون میں پڑ جائیں گے۔ القمر، آیت ۴۲ (۰۱) یہ قرآن اگر کلام الٰہی ہے تو ان دو بستیوں مکہ اور طائف کے رہنے والوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ الزخرف، آیت ۱۳ (۱۱) اٹھانے (۲۱) برا سمجھنے (۱۳) محتاجگی (۴۱) عاجزی (۵۱) پیدا ہوئی (۶۱) انکا

(۱) وہی ہے جس نے عرب کے ناخواندہ لوگوں میں انہی کی قوم میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو عقائد باطلہ سے پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور دانشمندی کی باتیں سکھلاتے ہیں اور یہ لوگ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ الجمعہ، آیت۲ (۲) حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ انھیں انہی کی جنس سے ایک پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے ہیں اور انکو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ اس سے قبل صریح غلطی پر تھے۔ آلِ عمران، آیت ۴۶۱ (۳) طبعیتوں (۴) واسطوں (۵) لگتا نہیں (۶) واجب کی مقدار حاصل ہو جانے کے (۷) اٹھ جانا (۸) اللہ تعالیٰ (۹) توحید سے روکنے والا (۰۱) مقصود تک پہنچانے والا (۱۱) مقصود تک پہنچنا (۱۱) توجہ (۲۱) ٹکراؤ (۳۱) ایک دوسرے کے لئے لازم (۴۱) غیر سے مشغول ہونا (۵۱) عام معنی کے اعتبار سے (۶۱) اس معنی کر کے
درود  و  سلام  کے  (چالیس)  مسنون  صیغے
درود  و  سلام  کے  (چالیس)  مسنون  صیغے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۱- اَللھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبْ عِنْدَکَْ۔(طبرانی)
۲- اَللَھْمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ الْقَاَءِمَۃِ وَ الصَّلٰوۃِ النَا فِعَۃِ صَلِ عَلی مُحَمَّدٍ وَّ ارْضَ عَنّیِْ رِضاَ لا تَسْخَطُ بَعْدَہ اَبَداً۔(مسند احمد)
۳- اَللھْمَّ صَلِّ عَلیٰ مْحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ وَ عَلَی الْمُؤْ مِنِیْنَ وَ المُؤْ مِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ المُسْلِمَاتِ۔(ابن حیان)
۴- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍ  وَ بَارِکْ عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ وَ ارْحَمْ مُحَمَّداً  وَّ  آلِ مْحَمَّدٍ کَماَ  صَلَّیْتَ وََ بَا رَکْتَ وَرَحِمْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(بیہقی)
۵-اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَی ٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(بخاری شریف)
۶-اَللھُمَّ  صَلِ عَلیٰ  مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ  مُحمَّد ٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ  حَمِیْدُ   مَّجِیْد۔  وَ بَارِکْ عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ  عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ َ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(مسلم شریف)
۷- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلی ٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ َ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔  اَللھُمَّ َ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ   وَ  عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ َ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(ابنِ ماجہ)
۸-اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ  مُحمَّدٍ کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ  مَّجِیْد۔  وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمََ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(سنن نسائی)
۹- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ  مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍ کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمٍَ وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (ابو داؤد)
۰۱- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ   اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (ابو داؤد)
۱۱- اَللھُمَّ   صَلِّ عَلیٰ   مُحمَّدٍ  وَ  عَلَیٰ  آلِ  مُحمَّد ٍکَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ  وَ  عَلَیٰ  آلِ  مُحَمَّدٍ کَماَ          بَا رَکْتَ عَلَیٰ  آلِ اِبْرَاھِیْمَ َ  فِی  الْعَا لِمِیْنَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(مسلم شریف)
۲۱- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ  مُحمَّد  وَ  اَ زْوَاجِہ ِ وَ  زُرّیَتِہِ  کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمٍَ وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ  اَ زْوَاجِہ ِ وَ  زُرّیَتِہٍَِ کَماَ    بَا رَکْتَ عَلَیٰ آلِ اِبْرَاھِیْمََ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (ابو داؤد)
۳۱- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ  مُحمَّد  وَ  عَلیٰ   اَ زْوَاجِہ ِ وَ  زُرّیَتِہِ  کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمٍَ  وَ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّد  وَ  عَلیٰ  اَ زْوَاجِہِ  وَ  زُرّیَتِہٍَِ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمََ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (مسلم شریف)
۴۱- اَ للھُمَّ   صَلِّ  عَلیٰ  مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  وَ  اَ زْوَاجِہِ  وَ  اُمَّھَاتِ  الْمُؤْمِنِیْنَ  وَ   زُرّیَتِہِ  وَ  اَہْلِ  بَیْتِہِ  کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمٍَ   اِنَّکَ  حَمِیْدُ  مَّجِیْد۔ (ابو داؤد)
۵۱-اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ  مُحمَّدٍ کَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمََ وَ تَرْحَمْ عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ تَرْحَمْتَ عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ۔(طبری)
۶۱- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَی ٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ  بَارِکْ  عَلَیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ تَرْحََمْ  عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحمَّدٍکَماَ تَرْحَمْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ۔ اَللھُمَّ َ  تَحَنَّنْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  تَحَنَّنْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ  سَلَّمْ عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ سَلَّمْتَ عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (سعابہ)
۷۱-اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحمَّدٍ  وَ بَارِکْ وَ سَلَّمْ عَلیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اَ رْحَمْ  مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔  کَماَ صَلیتَ وَ بَا رَکْتَ وَ  تَرْحَمْتَ عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ  فِی  الْعَا لِمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (سعابہ)
۸۱-اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(صحاح ستہ)
۹۱- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ کَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (نسائی،  اِبنِ ماجہ)
۰۲- اَ للھُمَّ   صَلِ  عَلیٰ  مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  اْلاُمْیِّ وَ  عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  اْلاُمْی کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ  اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔(نسائی)
۱۲- اَللھُمَّ  صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ عَبْدِکَ وَ رَسُوْلِکَ ا لنَّبِیِّ  اْلاُمْیِّ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍ۔ اَللھُمَّ  صَلِ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَّ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍ صَلَوٰۃُ تَکُوْنُ لَکَ رَضِیَ وَ لَہ جَزَاءٌ وَ لِحَقِّہِ آدَاءٌ وَ اعٰطِہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ الفَضِیْلہْ وَ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَ عَدتَّہ وَ اَجْزِہِ عَنَّا مَا ہُوَ اَہْلَہُ وَ اجْزِہِ
اَفْضَلَ مَا جَا زَیْتَ النَّبِیاً قَوْمِہِ وَ رَسُوْلاً عَنْ اُمَتِہْ۔ وَصَلِّ عَلیٰ جَمِعِ اِخْوَانِہ مِنَ النَّبِیِّنَ وَالصَالِحِیْنَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ (سخاوی)
۲۲- اَ للھُمَّ   صَلِّ  عَلیٰ  مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  اْلاُمْیِّ  وَ  عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ  صَلَّیْتَ  عَلَیٰ  اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ۔  وَ بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  اْلاُمْی وَ  عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ  وَ عَلَیٰ  آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔
(بیہقی، مسند احمد، مستدرک حاکم)
۳۲- اَللھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلیٰ اَھْلِ بَیْتِہٍِ کَماَ صَلَّیْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ صَلِ عَلَیْنَا مَعْہُمّْ۔ اَللھُمَّ َ بَارِکْ عَلَیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ اَھْلِ بَیْتِہٍ کَماَ بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ اَللھُمَّ َ بَارِکْ عَلَیْنَا مَعْہُم۔ صَلَوٰتُ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتُ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَیٰ

مُحمَّدِنِ  ا لنَّبِیِّ  اْلاُمِّیِّ۔ (دار القطنی)
۴۲-اَللھُمَّ اجْعَلْ صَلَوٰتِکَ وَ رَحْمَتِکَ وَ بَرْکَاتِکَ عَلیٰ مُحمَّدٍ وَ عَلَیٰ آلِ مُحمَّدٍکَماَ جَعَلْتَہَا عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔
وَ  بَارِکْ  عَلَیٰ  مُحَمَّدٍ وَ عَلَیٰ  آلِ مُحَمَّدٍ کَماَ  بَا رَکْتَ عَلَیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلَیٰ آلِ  اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْد۔ (مسند احمد)
۵۲-وََ  صَلَّ اللّٰہُ عَلی ا لنَّبِیِّ  اْلاُمِّیِّ۔ (نِسائی)
صِیْغُ السّلام
صِیْغُ السّلام
۶۲-اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُلَہُ۔ (بخاری شریف،  نِسائی)
۷۲-اَلتَّحِیَّاتَُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوٰتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ  الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدَہُ وَ رَسُلَہُ۔ (مسلم شریف،  نِسائی)
۸۲-اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ  الطَّیِّبَات الصَّلَوٰتُ للہ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ  الا اِللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَریِْکَ لَہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُلَہُ۔ (نِسائی)
۹۲-اَلتَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوٰت الطَّیِّبَاتُ لِلّٰہِ، سَلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، سَلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُلَہُ۔ (نِسائی)
۰۳-بِسْمِ اللّٰہِ وَ بِا اللّٰہِ، اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ،  اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ  الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُولَہُ۔ اَسءَلُ اللّٰہَ الْجَنَّہ وَ اَعوُذُ بِا اللّٰہِ مِنَ النَّارِ۔ (نِسائی)
۱۳-اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ  الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوٰتُ  لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ  الا اِللّٰہُ ُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدَہُ وَ رَسُولُہُ۔ (مؤطا)
۲۳-بِسْمِ اللّٰہِ وَ بِا اللّٰہِ خَیْرِالْاَسْمَآءِ، اَلتَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوٰتُ لِلّٰہِ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَریِْکَ لَہُ  وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدہُ وَ رَسُولُہُ اَزْسَلہَ بِالحَقِّ بَشِیْراً وَ نَذِیْرَاً۔ وَ اَنَّ سَاعَتَہُ آتِیَہُ لَارَیْبَ فِیْہا۔ السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ،  اَللَھُمَّ غْفِرْلِیْ وَ اَہْدَنِیْ۔            (معجم الطبرانی)
۳۳-اَلتَّحِیَّاتَُ الطَّیِّبَاتُ وَالصَّلَوٰتُ وَ اَلْمُلْکُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ۔(ابوداؤد)
۴۳-بِسْمِ اللّٰہِ،  اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوٰتُ لِلّٰہِ الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ
 الصَّالِحِیْنَ،  شَہِدْتُُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ شَہِدْتُ اَنَّ مُحَمَّداً  رَّسُوْلَُ اللّٰہ۔ (مؤطا)
۶۳-اَلتَّحِیَّاتَُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوٰتُ  الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ،  اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدَہُ وَ رَسُولَہُ  السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔ (مؤطا)
۷۳-اَلتَّحِیَّاتَُ الصَّلَوٰتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ۔    (طحاوی)
۸۳-اَلتَّحِیَّاتَُ لِلّٰہِ الصَّلَوٰتُ الطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمۃُ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّد  اً    عَبْدَہُ وَ رَسُولُہُ۔ (ابو داؤد)
۹۳-اَلتَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوٰت الطَّیِّبَاتُ لِلّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَاالنَّبِیُّ وَ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہَ الا اِللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ (مسلم شریف)
۰۴-بِسْمِ اللّٰہِ وَ السَّلَامُ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہ۔ (المستدرک حاکم)
درودِ لا متناہی 
درودِ لا متناہی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یَا رَبِّ صَلِّ وَ سَلِّم مُضْعِفَاً آبَدَاً عَلَی نَبِیِّ کَمَا کَانَت لَکَ الکَلَمُ
ترجمہ:
یا اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے کلمات کی بمقدار درود و سلام نازل فرما۔ دوگنا در دوگنا ہمیشہ۔
معنی اس شعر کے یہ ہیں کہ ا ے اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے کلمات کے بقدر درود شریف نازل فرما۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلمات کے بارے میں قرآن حکیم
میں فرماتے ہیں:
”  قل لو کان البحر مداداً لکلمٰتِ ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمٰتِ ربی ولو جئنا بمثلہ مدداً “۔  الکہف، آیت ۹۰۱
ترجمہ:
کہہ دیجئے، اگر ہو سمندر سیاہی، باتیں لکھنے کے لئے میرے رب کی تو ختم ہو جائے سمندر، پیشتر اس کے کہ ختم ہوں باتیں میرے رب کی اور اگرچہ ہم
لے آئیں ایسا ہی اور (سمندر) مدد کے لئے۔
ایک دوسری آیت میں یوں ارشاد فرمایا:
“ولو ان ما فی الارض من شجرۃ اقلام و البحر یمدہ من بعدہ سبعۃ البحر ما نفدت کلمٰت اللّٰہ ان اللّٰہ عزیز الحکیم”۔
ترجمہ:
اور جو کچھ زمین میں ہیں درخت وہ قلمیں ہو جائیں اور سمندر (سیاہی) کہ مدد کریں اسکی، اسکے ساتھ سات سمندر اور بھی۔ تو بھی نہ ختم ہوں
کلماتِ الٰہی۔ بیشک اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے۔ لقمٰن، آیت ۷۲
تو مطلب اب یہ ہوا کہ اپنے ان لامتناہی کلمات کے بقدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام نازل فرما۔ اور وہ بھی مضعفا یعنی دوگنا در دوگنا کہ  دو اسکا دوگنا چار اسکا دوگنا آٹھ اور اسکا دوگنا سولہ اور اسکا دوگنا بتیس، اس حساب سے اس میں اضافہ کرتے رہیں۔ الی غیر النہیاۃ۔ اور پھر وہ بھی ابداً یعنی ہمیشہ ہمیشہ۔ تو گویا اس شعر میں اللہ پاک سے یوں کہا جا رہا ہے کہ یا اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر میری طرف سے لامتناہی درود ہمیشہ بھیجتے رہئے۔
خلیل   احمد   تھا نوی

Leave A Reply