سلسلہ تبلیغ و اشاعت ۸۲ بار اوّل ۰۰۰۳
ذکرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم
(عید میلادُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تحقیقی مقالہ)
از
فقیہہ العصر حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی مدظلّہ‘
حاشیہ
مولانا خلیل احمد تھانوی اْستاد جامعہ دارالعلْوم الاسلامیہ
DifaAhleSunnat.com
ناشر
شعبہ نشر و اشاعت جامعہ دارالعلْوم الاسلامیہ
کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
فون پرانی انارکلی ۸۲۷۳۵۳ کامران بلاک ۰۶۰۸۴۴، ۶۸۳۴۱۴۵
ربیع الاول ۵۱۴۱ھ اگست ۴۹۹۱ء
(۱) شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں (۲) تعریف کرنے والا درود پڑھنے والا اور سلام پڑھنے والا (۳) اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا (الم نشرح آیت ۴) (۴) حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ بھیجا ان میں ایک پیغمبر (آل عمران، آیت ۴۶۱) (۵) گندگیوں (۶) ہمیشہ کے عذاب (۷) قدر و منزلت کو نہ پہچاننے والے (۸)نامکمل (۹) کم (۰۱) ملا کر (۱۱) نیک کام (۲۱) برا کام (۳۱) ایسا دریا جس کا کوئی کنارہ نہیں (۴۱) قیدوں (۵۱) چھوٹے پیالے (۶۱) بے قدری (۷۱) حروف تہجی سے نمبرشمار بھی لگائے جاتے ہیں اس طرح یہاں نمبرشمار لگائے گئے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اکائی کے لئے یہ حروف استعمال ہوتے ہیں۔ ابجد، ھوز، حطی، الف کا ایک با کے دو جیم کے تین، آخر تک یا کے دس۔ اور دہائی کے لئے یہ الفاظ ہیں۔ کلمن، سعفص، ک کے ۰۲ ل کے ۰۳ آخر تک کہ ص کے ۰۹ عدد ہیں۔ اس کے بعد سینکڑے کے لئے یہ حروف استعمال ہوتے ہیں۔ قرشت، نخذ، ضظغ۔ ق کے ۰۰۱ ر کے ۰۰۲ ش کے ۰۰۳ آخر تک کہ غ کے ۰۰۰۱ ہوتے ہیں۔ اس کی ترتیب یہ ہے کہ اگر ایک سے دس تک کا عدد لکھنا ہو تو صرف ایک حرف لکھ دیتے ہیں جیسے اگر چھ لکھنا ہے تو حرف (و) لکھیں گے (ی) دس کے عدد کے لئے لکھتے ہیں۔ اس کے بعد تیرہ چودہ کے لئے دو حروف ملا کر لکھتے ہیں۔ مثلاً تیرہ کے لئے (یج) اور چودہ کے لئے (ید) اسی طرح پچیس کے لئے (کھ) اور بتیس کے لئے (لب) لکھا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے مراتب کو بیان کرتے ہوئے بطور نمبرشمار حروف تہجی کا استعمال کیا گیا ہے۔
در اصل ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امور اختیاریہ(۸۱) کا ذکر ہے اور اختیارات میں سے جو بعثت مبارکہ کا اصل مقصود ہے وہ دوسرے امور سے اعلیٰ ہے۔ اس لئے تعلیمات و تلقیناتِ نبویہ کا ذکر ذکرِ رسول ﷺ کا اصلی اور اعلیٰ ترین فرد ہے۔ پھر اس کے بھی دو شعبے ہیں، باطنی اور ظاہری۔ یعنی قلبِ انسانی کو تمام ناپسندیدگیوں اور تمام گندگیوں سے پاک کرکے اس میں تمام خوبیاں، بہترائیاں، عمدہ اخلاق کے مادے اور غیر اللہ کی طرف سے ہٹا کر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دینا بلکہ عشق الٰہی کی ایک لگن پیدا کر دینا۔ اس کو کہتے ہیں تزکیہ نفس اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا باطنی شعبہ ہے۔ دوسرا شعبہ ظاہری تعلیمات ہیں وہ زندگی اور ما بعد سے تعلق رکھنے والے ہر دورِحیات(۱) کی تکمیلات کی ضامن احکام و قوانین ہیں، دونوں میں باہم شدت کا ربط(۲) ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر ناممکن ہیں بلکہ ایک درجہ میں باطنی کیفیات(۳) ظاہری احکامات کی جڑ، ان کی آبیاری(۴) کا دار و مدار اور بقاء(۵) و دوام(۶) اور عمدگی و استحکام کے لئے اصل(۷) اصول ہیں۔ اسی لئے حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کاموں میں باطنی تعلیمات کا ذکر پہلے اور ظاہری کا بعد میں فرمایا۔ کئی جگہ ارشاد ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان ہے۔
پھر دل کا ذکر ایک دائمی(۸۱) ذکر ہے اور زبان اور کان کا عارضی چند لمحات کا ہے۔ دل میں حقانیت و عظمت مسلسل اور دائمی چیز ہے بلکہ یہ درجہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ذکر و اذکار کے لئے نہیں بلکہ تمام انبیاء و رسل کے اذکار کی حقانیت کا دلی ذکر فرض ہے۔ فقہائے اسلام نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کی کسی ایک سنت کا بھی کوئی مذاق اڑائے یا ناپسندیدگی ظاہر کرے تو وہ کافر ہے۔ یہ وہ ذکرِ رسول ﷺہے جو گزشتہ تمام اقسام میں ہر ہر مسلمان پر فرض ہے اور ایک دائمی عبادت ہے۔
پہلی روایت
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد اور تمام آدمیوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ روایت کیا اس کو بخاری و مسلم نے۔ کذا فی المشکوٰۃ۔ (ف) یعنی اگر میری مرضیات میں تزاحم(۱۱) ہو تو جس کو ترجیح دی جاوے اِسی کے محبوب تر ہونے کی یہ علامت ہوگی۔
دوسری روایت
امام بخاریؒ نے ایمان و نذور میں عبد اللہ بن ہشام سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ﷺ میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں بجز میرے نفس کے جو میرے پہلو میں ہے (یعنی وہ تو بہت ہی محبوب ہے) جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک خود اس کے نفس سے بھی زیادہ اس کو میں محبوب نہ ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی کہ آپﷺ میرے نزدیک میرے اس نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں جو میرے پہلو میں ہے۔ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاbکہ بس اب ٹھیک بات ہوئی۔ کذا فی المواہب۔ (ف) حضرت عمرؓ نے اول محبت بلا اسباب کو محبت بالاسباب سے اقوی سمجھ کر نفس کو مستثنیٰ کیا پھر آپ ﷺ کے ارشاد سے کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب رکھنا ضروری ہے۔ یہ سمجھ گئے کہ اقوی ہونے کا دار و مدار کوئی ایسا امر ہے کہ اس کے اعتبار سے کوئی چیز نفس سے بھی زیادہ محبوب ہو سکتی ہے۔ مثلاً کہ آپ ﷺ کی خوشی کو نفس کی خوشی پر طبعاً مقدم و راجح پایا۔ سو اس حقیقت کے انکشاف(۱) کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجیت من النفس(۲) کا مشاہدہ کیا اور خبر دی۔ مواہب کے مقصد سابع میں دوسرے صحابہؓ کی بھی حکایتیں محبت کی عجیب و غریب ذکر کی ہیں۔
جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند (۱)
صاف گر باشد ندانم چوں کند
یا سائر ا نحو الحمی باللّٰہ قف فے بانہ و اقرا طوا میرا لجوی منی علی سکانہ
اے جانے والے بجانب گیاہ زار کے اللہ کے لئے اس کے باغ درخت بان میں ذرا ٹھہرنا اور میری طرف سے دفاترِغم اس کے رہنے والوں کو پڑھ کر سنانا۔
ان تسئلو عن حالتی فی السقم منذ فقدتہ فا لقلب فی خفقانہ و ا لراس فی دورانہ
اگر وہ میری بیماری کے بارے میں دریافت کریں، جب سے میں ان سے غائب ہوا ہوں۔ پس قلب اپنے خفقان میں ہے اور سر اپنے دوران میں ہے۔
ان فتشوا عن دمع عینی بعدھم قل حاکیا کا لغیث فی تھتانہ و الیہ فے ھیجانہ
اگر وہ میرے اشکِ چشم کے متعلق اپنے بعد زمانہ میں تحقیق کریں تو بطور حکایت کے کہنا کہ مثل ابر کے ہے اس کے برسنے میں، اور مثل بحر کے ہے اس کے جوش میں۔
لکنہ مع ماجری مشغوف حب المصطفیٰ فخیا لہ فی قلبہ و حدیثہ بلسانہ
لیکن وہ محب باوجود اس تمام ماجرہ کے فریفتہ ہے عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا پس آپ ﷺ کا خیال اس کے قلب میں ہے آپ ﷺ کا تذکرہ اس کی زبان پر ہے۔
ولطا لما یدعو لحاحا فی ا لدعاء مبالغا لیطوف فی بستانہ و یشم فی ریحانہ
اور بہت زمانہء طویل سے دعا کر رہا ہے اور دعا میں الحاح و مبالغہ کر رہا ہے تاکہ وہ آپ ﷺ کے باغ میں طواف کرے اور آپ ﷺ کے ریحان سے خوشبو سونگھے۔
یا من تفوق امرہ فرق ا لخلا ئق فے العلا حتی لقد ائنی علیک اناء فی قرأ نہ
اے وہ ذات پاک جن کا رتبہ تمام خلائق پر بلندی میں فائق ہو گیا یہاں تک کہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن میں ثناء فرمائی۔
صلی علیک ا للّٰہ اخر دھرہ متفضلا مترحما و حیالک الموعودہ من احسانہ
اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر درود نازل فرماوے۔ زمانہ کے اخیر تک تفضل کرتا ہوا اور ترحم فرماتا ہوا اور آپ ﷺ کو اپنے احسانات موعودہ عطا فرماوے۔ ۱۲ منہ
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات امت پر بے شمار ہیں، کہ صرف تبلیغ مامور پہ ہی نہیں اکتفاء فرمایا بلکہ ان کی اصلاح کے لئے تدبیریں سوچیں۔ ان کے لئے رات رات بھر کھڑے ہو کر دعائیں کیں۔ ان کے احتمال مضرت سے دلگیر ہوئے اور تبلیغ گو ماموربہ(۲) تھی لیکن تاہم اس میں واسطہ نعمت تو ہوئے۔ بہرحال آپ ﷺ محسن بھی ہیں اور واسطہ احسان بھی۔ پس اس حالت میں مقتضا فطرتِ سلیمہ کابہ ہوتا ہے کہ ایسی ذات کے واسطے دعائیں نکلتی ہیں۔ خصوصاً جبکہ مکافات سے ظاہر ہے کیونکہ ان نعماء(۳) کا اضافہ غیر نبی سے نبی پر محالات سے ہے اور دعائے رحمت سے بڑھ کر کوئی دعا نہیں اور اس میں بھی رحمت خاصہ کاملہ کی جو کہ مفہوم ہے درود کا۔ اس لئے شریعت نے اسے فطرتِ سلیمہ کے مطابق درود شریف کا امر، کہیں وجوباً کہیں استحباباً فرمایا۔ و نحوہ فی المواہب۔
ھو ا لذی بعث فی الامیین رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم ا لکتاب و ا لحکمۃ و ان کانوا من