Fiqhi Maqallaat – Teen Talaq

تین طلاقوں کا حکم

Sharing is Caring

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

ایک وقت میں دی گئی

تین طلاقوں کا حکم

الحمد للہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین، والصلوٰۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین‘ وعلی کل من تبھعم باحسان الی یوم الدین۔

دو مسئلے

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک مجلس میں یا ایک کلمہ میں تین طلاقیں دیدے تو اس کے بارے میں شرعاً دومسئلے قابل غور ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح ایک مجلس یا ایک جملے میں اکٹھی تین طلاقیں دینا جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان طلاقوں کو ایک شمار کیا جائے گا یا تین ہی شمار کیا جائے گا؟

 

Download PDF###

Teen-Talaaq

###Download PDF###

ایک ساتھ تین طلاقیں دینا جائز ہے؟

ا۔جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک اس طرح طلاق دینا حرام اور بدعٹ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت بھی یہی ہے، اور صحابہ کرام میں سے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ فعل حرام تو نہیں، البتہ مستحب یہ ہے کہ ایک طہر میں تین طلاقیں جمع نہ کی جائیں۔ (المہذب للشیرازی: ۲/۹۷)

امام ابوثورؒ، امام داؤدؒ کا بھی یہی مسلک ہے، امام احمدؒ کی بھی ایک روایت یہی ہے جس کو امام خرقیؒ نے اختیار کیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت حسن بن علی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے اور امام شہبیؒ کا بھی یہی قول ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ: ۷/۲۰۱)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے استدلال کرتے ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ:

(فلما فرغا (یعنی من اللعان) قال عویمر رضی اللہ عنہ: کذبت علیھا یا رسول اللہ ان امسکتھا فطلقھا ثلاثا)

یعنی جب یہ دونوں میاں بیوی ”لعان“ سے فارغ ہوگئے تو حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اگر اب بھی میں اس کو اپنے پاس رکھوں تو گویا کہ میں نے اس پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو اسی وقت تین طلاقیں دیدیں۔

مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:۔

(ظلمتھا ان امسکتھاھی الطلاق، وھی الطلاق، وھی الطلاق) (نیل الاوطار:۶/۱۵۱)

یعنی اگر میں (لعان کے بعد بھی) اس کو اپنے نکاح میں رکھوں تو میں نے اس پر ظلم کیا، لہذا اس کو طلاق ہے،   اس کو طلاق ہے،اس کو طلاق ہے۔ یہ الفاظ سن کرحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کوئی نکیر نہیں فرمائی کہ تم نے ایک مجلس میں تین طلاقیں کیوں جمع کیں۔ آپ کا یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا حرام نہیں ہے۔

امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ  وغیرہ سنن نسائی کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جو محمود بن لبید سے مروی ہے کہ:

(اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمعیا، فقام غضبان ثم قال: ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظھر کم؟ حتی قام رجل وقال: یارسول اللہ!الااقتلہ؟)

یعنی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیدی ہیں تو آپ غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا: کیا کتاب اللہ کو کھلونا بنایا جائے گا حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ! کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟(نسائی: ۲/۲۸۱)

اس روایت کی سند صحیح ہے (کمافی الجواہر النقی) ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید ہے (کمافی نیل الاوطار) حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ:

(رجالہ ثقات)(فتح الباری: ۹/۵۱۳)

البتہ محمود بن لبید حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیداہوئے اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے ان کو ”رؤیت“ کی وجہ سے صحابہ میں شمارکیا ہے۔ امام احمدؒ نے ”مسند احمد“ میں ان کے حالات تحریر کئے ہیں اور ان کی روایت کردہ چند احادیث بھی ذکر کی ہیں لیکن اس میں کسی لفظ سے بھی ”سماع“ کی صراحت معلوم نہیں ہورہی ہے۔

احقر کی رائے میں ان کی روایت کو زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ ”مرسل صحابی“ ہے۔ اور ”مرسل صحابی“ کے حجت ہونے میں ہمارا اور شوافع دونوں کا اتفاق ہے۔ لہذا اس روایت کے صحیح ہونے میں کوئی کلام نہیں۔

حنفیہ سعید بن منصور کی ایک روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ:

(عن انس رضی اللہ عنہ ان عمر رضی اللہ عنہ کان اذا اتی برجل طلق امراتہ ثلاثا اوجمع ظھرہ)

یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں توآپ ؓ اس کی کمر پرکوڑے مارتے۔ (ذکرہ الحافظ فی الفتح: ۹/۵۱۳ وقال سندہ صحیح)

اس کے علاوہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں جو روایات آگے آرہی ہیں، ان میں سے بھی اکثر روایات حنفیہ کے اس مسلک کی تائید کرتی ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔

جہاں تک عویمر عجلانی کے واقعہ کا تعلق ہے تو ”احکام القرآن“ میں امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

”امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اس روایت سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اس لئے کہ ان کا تو یہ مسلک ہے کہ شوہر کے لعان کے فوراً بعد عورت کے لعان سے پہلے ہی میاں بیوی میں خود بخور جدائی ہوجاتی ہے۔ لہذا وہ عورت تو پہلے ہی بائن ہوچکی تھی اور اس پر طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ لہذا جس طلاق کا حقیقت میں نہ وقوع ہوا اور نہ اس کاحکم ثابت ہوا تو ایسی طلاق پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر نکیر فرماتے؟ البتہ ایک اشکال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ حنفیہ کے مسلک پر اس روایت کا کیاجواب ہوگا؟ اس کے بارے میں یہ جواب دیاگیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب عدت کی رعایت سے طلاق دینا مسنون نہ ہوئی ہو اور ایک طہر میں تین طلاقیں دینے کی ممانعت سے پہلے کا ہو۔ اس وجہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نکیر نہ فرمائی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ فرقت کی وجہ طلاق کے علاوہ دوسری چیز تھی یعنی لعان، تو اس وجہ سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقیں ایک ساتھ واقع کرنے پر نکیر نہ فرمائی ہو۔ (احکام القرآن للجصاص: ۱/۴۵۴)

کیاتین طلاقیں ایک شمار ہوں گی؟

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم ، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

[email protected]

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک مجلس میں یا ایک ہی کلمہ کے ذریعہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں تو کیا تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی یا نہیں؟

اس مسئلے میں تین مذہب ہیں:

پہلا مذہب ائمہ اربعہ اور جمہور علماء سلف وخلف کا ہے، وہ یہ کہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور ان کے ذریعہ بیوی مغلظہ ہوجائے گی اور حلالہ شرعیہ کے بغیر یہ عورت شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوسکتی۔ صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے۔ نیز تابعین اور بعد کے ائمہ میں سے اکثر اہل علم کابھی یہی قول ہے۔ (المغنی لابن قدامۃ: ۷/۴۰۱)

اس کے علاوہ حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن بن علی اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے یہی قول منقول ہے۔

دوسرا مذہب یہ ہے کہ اس طرح طلاق دینے سے کوئی طلاق نہیں ہوگی۔ یہ مذہب شیعہ جعفریہ کا ہے۔ (کماجزم بہ الحلی الشیعی فی شرائع الاسلام: ۲/۷۵۱) اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے حجاج بن ارطاۃ، ابن مقاتل اور محمد بن اسحاق سے بھی یہی نقل کیا ہے۔

تیسرا مذہب بعض اہل ظاہر اور علامہ ا بن تیمیہ اور علامہ ابن قیم رحمہم اللہ کا ہے، وہ یہ کہ اس صورت میں صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، علامہ ابن قدامۃ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عطاء طاؤس، سعید بن جبیر، ابوالشعثاء اور عمروبن دینار رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب نقل کیا ہے۔ لیکن حضرت عطاء اور حضرت طاؤس رحمہما اللہ کی طرف یہ نسبت قابل اعتبار نہیں، اس لئے کہ حضرت طاؤس کا قول حسین بن علی الکرابیسی نے ”ادب القضاء“ میں یہ نقل کیا ہے:

(اخبرنا علی بن عبداللہ (وھو ابن المدینی) عن عبدالرزاق عن معمر عن ابن طاؤس، عن طاؤس انہ قال: من حدثک عن طاؤس انہ کان یروی طلاق الثلاث واحدۃ کذبہ)

یعنی حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ جوشخص تم سے یہ بیان کرے کہ”طاؤس“ تین طلاقوں کو ایک شمارکرتے ہیں تو اسکی تکذیب کرو“۔

جہاں تک حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق ہے تو علامہ ابن جریجؒ فرماتے ہیں کہ:

(قلت لعطاء:اسمعت ابن عباس ؓ یقول:طلاق البکرالثلاث واحدۃ، قال:لا بلغنی ذلک عنہ)

یعنی میں نے حضرت عطاء رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ”باکرہ کودی گئی تین طلاقیں ایک ہوتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں (سنا تو نہیں) لیکن ان کے بارے میں یہ بات مجھ تک پہنچی ہے۔(الاشفاق علی احکام الطلاق للعلامہ الکوثری: ۳۳ مطبع مجلہ الاسلام، مصر)

اہل ظاہر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ:

(عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافتہ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: ان الناس قد استعجلوافی امر قد کانت لھم فیہ اناۃ، فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم)(صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث)

یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کے ابتدائی دوسال تک تین طلاقوں کو ایک شمارکیا جاتا تھا، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں نے اس کام میں جلدبازی شروع کردی جس کام میں ان کے لئے مہلت تھی، اگر ہم اس کو نافذ کردیں تو بہتر رہے گا، چنانچہ آپ نے اس کو نافذ فرمادیا (کہ تین طلاقیں تین ہی

شمارکی جائیں گی) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس بات کی تصریح فرما رہے ہیں کہ عہد رسالت میں تین طلاقوں کو ایک شمارکیا جاتا تھا۔

اہل ظاہر اس کے علاوہ مسند احمد وغیرہ کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں حضرت رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے۔ وہ یہ ہے:

(عن عکرمۃ مولی ابن عباس قال: طلق رکانۃ بن عبدیزید اخوالمطلب امراتہ ثلاثافی مجلس واحد، فحزن علیھا خزنا شدیدا قال: فسالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف طلقتھا؟ قال: طلقتھا ثلاثا قال: فقال: فی مجلس واحد؟ قال: نعم، قال: فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت، قال: فراجعھا)

یعنی حضرت ابن عباسؓ کے آزادکردہ غلام حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ ”مطلب“ کے بھائی ”رکانہ بن عبدیزید“ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، پھر اپنے اس فعل پر انتہائی غمگین اور پریشان ہوئے، راوی کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس طرح طلاق دی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک مجلس میں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک ہوئی۔ لہذااگر تم چاہو تو اس سے رجوع کرلو۔ راوی کہتے ہیں کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے رجوع کرلیا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳/۲۲)

اہل ظاہر کے پاس ان مذکورہ بالا دوروایتوں کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

تین طلاقوں کے وقوع پر جمہور ائمہ کے دلائل

جمہور کے پاس بہت سی احادیث ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایک ہی مجلس میں دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:

۱۔ (عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ان رجلا طلق امراتہ ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال: لاحتی یذوق عسیلتھا کماذاق الاول)

یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، دوسرے شخص نے بھی اس کو طلاق دیدی تو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شخص کے لئے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں: جب تک پہلے شوہر کی طرح دوسرا شوہر بھی اس کاذائقہ نہ چکھ لے، (یعنی صحبت نہ کرلے)  (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب من جوز الطلاق الثلاث)

حافظ ان حجر رحمتہ اللہ علیہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ واقعہ ”امرأۃ رفاعہ“ کے واقعہ کے علاوہ ہے۔بقول حافظؒ  ”اس روایت کے الفاظ  ”فطلقھا ثلاثا“ سے استدلال کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے تین طلاقیں ایک ساتھ دیدی تھیں۔  (فتح الباری: ۹/۱۲۳)

۲۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اسی باب میں حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے ”لعان“ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ”لعان“ کے بعد انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:

(کذبت علیھا یا رسول اللہ ان امسکتھا، فطلقھا ثلاثا قبل ان یامرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اب بھی میں اس عورت کو اپنے گھر میں رکھوں تو گویا میں نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی تین طلاقیں دیدیں۔

(صحیح بخاری حوالہ بالا)

علامہ کوثری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی روایت میں یہ مذکور نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر فرمائی ہو۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ وہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور لوگوں نے بھی اس سے تین طلاقوں کا وقوع سمجھا، اگر لوگوں کا سمجھنا غلط ہوتا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ان کی اصلاح فرماتے اور لوگوں کو غلط فہمی میں نہ رہنے دیتے۔ پوری امت نے اس روایت سے یہی سمجھا ہے، حتیٰ کہ علامہ ابن حزم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی یہی مطلب سمجھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا:

(انما طلقھا وھویقدر انھا امراتہ ولولا وقوع الثلاث مجموعۃ لانکرذلک علیہ)

(الاشفاق علی احکام الطلاق صفحہ ۹۲)

۳۔ امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ سنن کبریٰ میں یہ روایت لائے ہیں کہ:

(عن سوید بن غفلۃ قال: کانت عائشۃ الختعمےۃ عندالحسن بن علی رضی اللہ عنہ، فلما قتل علی رضی اللہ عنہ قالت: لتنک الخلافۃ، قال: بقتل علی تظھرین الشماتۃ، اذھبی فانت طالق یعنی ثلاثا، قال: فتلفعت بشیابھا وقعدت حتی قضت عدتھا، فبعث الیھا ببقےۃ بقیت لھا من صداقھا وعشرہ آلاف صدقۃ فلما جاء ھا الرسول قالت: متاع قلیل من حبیب مفارق فلما بلغہ قولھا بکی ثم قال: لولاانی سمعت جدی اوحدثنی ابی انہ سمع جدی یقول: ایمارجل طلق امراتہ ثلاثا عندالاقراء اوثلاثا مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکہ زوجا غیرہ لراجعتھا)(سنن الکبریٰ للبہیقی، کتاب الخلع والطلاق، باب ماجاء فی امضاء الطلاق الثلاث وان کن مجموعات)

حضرت سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ عائشہ ختعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، جب حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل کردئیے گئے تو ان کی بیوی نے کہا کہ آپ کو خلافت مبارک ہو۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل پر خوشی کا اظہارکررہی ہو؟ جاؤ تمہیں تین طلاق۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے پردہ کرلیا اور عدت میں بیٹھ گئیں۔ جب عدت پوری ہوگئی تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان کوان کا بقیہ پورا مہر ان کے پاس بھیج دیا اور اس کے علاوہ مذیددس ہزاردرہم بھیج دئیے، جب قاصد یہ رقم لے کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: یہ تو بچھڑنے والے دوست کی طرف سے متاع قلیل ملا ہے۔ جب اس خاتون کا یہ قول حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا توآپ روپڑے۔ اور فرمایا: اگر میں نے اپنے ناناجان سے یہ بات نہ سنی ہوتی۔ یا یہ فرمایا کہ اگر میرے والد مجھ سے یہ بیان نہ کرتے کہ انہوں نے میرے نانا جان سے یہ سنا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو تین طہروں میں تین طلاقیں دیدے، یا تین مبہم طلاقیں دیدے تووہ عورت اس کے لئے حلال نہیں رہتی حتی کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ تو میں اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لے لیتا۔ حافظ ابن رجب حنبلی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب میں اس حدیث کولانے کے بعد فرماتے ہیں کہ:

(امنادہ صحیح بیان مشکل الاحادیث الواردۃ فی ان الطلاق الثلاث واحدۃ)

(الاشفاق علی احکام الطلاق صفحہ ۴۲)

علامہ ہیتمی طبرانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ:

(وفی رجالہ ضعف وقد وثقوا) (مجمع الزواید، باب متعہ الطلاق: ۴/۹۳۳)

۴۔سنن نسائی کی ایک روایت پہلے صفحہ ۴ پر گزرچکی ہے جو حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی تھی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں، جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ بہت غضبناک ہوئے۔ اس روایت کو ابوبکرابن العربی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے مقابلے میں پیش کیا ہے۔ جس سے اہل ظاہر استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

(ویعارضہ حدیث محمود بن لبید، فان فیہ التصریح بان الرجل طلق ثلاثا مجموعۃ، ولم یردہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بل امضاہ)

یعنی حضرت محمود بن لبید والی روایت حضرت عبداللہ بن عباسؓ والی روایت کے معارض ہے۔ اس لئے کہ اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دی ہوئی طلاقوں کو رد نہیں فرمایا بلکہ ان کو نافذ کردیا۔

علامہ کوثری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شاید ابن عربی کی نظر میں سنن نسائی کی روایت کردہ روایت کے علاوہ کوئی دوسری روایت ہو، اس لئے کہ سنننسائی کی روایت میں ان طلاقوں کو نافذ کرنے کی تصریح موجود نہیں، اور ابوبکر ابن العربی حافظ الحدیث اور ”واسع الرواےۃ جداً“ ہیں۔

یا یہ ہوسکتا ہے کہ ابن العربی کا یہ خیال ہو کہ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ان طلاقوں کو ردفرماتے تو اس کا ذکر حدیث میں ضرور موجود ہوتا۔ اوردوسری طرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا غضبناک ہونا بھی خودوقوع طلاق کی ایک مستقل دلیل ہے۔ اور اس حدیث سے جو استدلال مقصود ہے اس کے لئے یہ بھی کافی ہے۔

۵۔ طبرانی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دینے کا واقعہ نقل کیا ہے، اور آخر میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

(یارسول اللہ الوطلقتھا ثلاثا کان لی ان اراجعھا؟ قال: اذابانت منک وکانت معصیتہ)

”یارسول اللہ! اگر میں اس کو تین طلاقیں دیدیتا تو کیا میرے لئے رجوع کا حق تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو وہ تم سے بائنہ ہوجاتی اور یہ گناہ بھی ہوتا“

علامہ ہیثمی ”مجمع الزوائد“ میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

(رواہ الطبرانی وفیہ علی بن سعید الرازی، قال الدار قطنی لیس بذاک وعظمہ غیرہ وبقےۃ رجالہ ثقات)

علامہ طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، اور اس کے ایک راوی ”علی بن سعید الرازی“ ہیں۔ جن کے بارے میں ”دار قطنی“ فرماتے ہیں کہ ”لیس بذاک“ البتہ دوسرے حضرات نے ان کی تعظیم اور توقیر کی ہے۔ اور ان کے علاوہ باقی رجال ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد: ۴/۶۳۳)

احقر عرض کرتا ہے کہ ”میزان الاعتدال“ میں حافظ ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے ”علی بن سعید الرازی“ کے حالات ان الفاظ میں بیان کئے ہیں:

(حافظ رحال جوال، قال الدار قطنی: لیس بذاک تفرد باشیاء قلت: سمع جبارۃ بن المغلس وعبدالاعلی بن حماد، روی عنہ الطبرانی والحسن بن رشیق والناس قال ابن یونس: کان یفھم ویحفظ)

یعنی علی بن سعید الرازی حافظ الحدیث اور بہت سفرکرنے والے تھے۔ امام دارقطنی نے ان کے بارے میں ”لیس بذاک“ جو کہا ہے، یہ ان کے تفردات میں سے ایک ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ انہوں نے ”جبارۃ بن المغلس اور عبدالاعلی بن حماد“ سے احادیث لی ہیں۔ اور علامہ طبرانی اور حسن بن رشیق اور بہت سے لوگوں نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔ ابن یونس ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث سمجھتے اور اس کو یادکرلیا کرتے تھے۔

 (میزان الاعتدال: ۳/۱۴۱ ترجمہ نمبر ۰۵۸۵۱)

اس سے ظاہر ہوا کہ ”دارقطنی“ کے علاوہ کسی اور نے ان کے بارے میں کلام نہیں کیا، اور دارقطنی نے بھی نرم الفاظ میں کلام کیا ہے۔ اور حافظ ذھبیؒ ان کے اس کلام پر راضی نہیں ہیں۔ اور اسرائیل بن یونسؒ نے ان کو ثقہ قراردیا ہے۔ اورحافظ ذھبیؒ نے ان کو ”حافظ“ کہا ہے۔ لہذا یسے شخص کی روایت کو ردنہیں کیا جاسکتا۔

اس روایت کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو پیچھے صحیح مسلم کی حدیث نمبر ۴۵۳ حضرت نافع کے طریق سے گزرچکی ہے کہ:

(فکان ابن عمر اذاسئل عن الرجل یطلق امراتہ وھی حائض یقول واماانت طلقتھا ثلاثا فقد عصیت ربک فیما امرک بہ من طلاق امراتک وبانت منک)

یعنی جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی تو آپ

فرماتے: اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو تم نے اپنے رب کے اس حکم کی نافرمانی کی جو حکم اس نے بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں تم کو دیا ہے، اور وہ بیوی تم سے جداہوگئی۔ اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے یہ بات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔

۶۔امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے وقوع پر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعہ سے استدلال کیا ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:

(انہ قد ارسل الیھا بثلاث تطلیقات قالت: فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: انما النفقۃوالسکنی للمراۃ اذاکان لزوجھا علیھا الرجعۃ)

یعنی فاطمہ بنت قیس کے شوہر (حفص بن عمروبن المغیرۃ  رضی اللہ عنہ) نے ان کو تین طلاقیں بھیج دیں۔ فاطمہ بنت قیس فرماتی ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: نفقہ اور سکنیٰ اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو رجوع کرنے کا حق ہو۔ (سنن نسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموعۃ ومافےۃ من التغلیظ)

امام دارقطعنی حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ:

(طلق حفص بن عمروبن المغیرۃ فاطمۃ بنت قیس بکلمۃ واحدۃ ثلاثا)

یعنی حفص بن عمروبن مغیرہ نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیدیں۔ یہ روایت بھی اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ انہوں نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں، اس وجہ سے امام نسائی کا اس روایت کو دلیل میں پیش کرنا صحیح ہے۔

        (دار قطنی:۴/۱۱ و ۲۱)

لیکن صحیح مسلم میں جو روایت ہے وہ اس روایت کے معارض ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

(طلقھا آخر ثلاث تطلیقات)

اور بعض روایا ت میں یہ الفاظ ہیں:

(طلقھا طلقۃ کانت من طلاقھا)

ان دونوں روایتوں سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ انہوں نے اکٹھی تین طلاقیں نہیں دی تھیں لہذا فاطمہ بن قیس کے واقعہ سے اس مسئلہ پر استدلال کرنادووجہ سے درست نہیں۔ ایک یہ کہ روایت میں تعارض موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ ”صحیح مسلم“ والی روایت ”دارقطنی“ کی روایت کے مقابلے میں راجح ہے۔ واللہ اعلم۔

۷۔ مصنف عبدالرزاق اور طبرانی میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:

(طلق بعض آبائی امراتہ الفافا نطلق بنوہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا: یارسول اللہ: ان ابانا طلق امنا الفا، فھل لہ من مخرج؟ قال: ان اباکم لم یتق اللہ تعالی فیجعل لہ من امرہ مخرجا، بانت منہ بثلاث علی غیرالسنۃ وتسعماءۃ وسبع وتسعون اثم فی عنقہ)

یعنی میر ے باپ دادوں میں سے کسی نے اپنی بیوی کو ہزارطلاقیں دیدیں۔ ان کے بیٹے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارے باپ نے ہماری ماں کو ہزارطلاقیں دیدی ہیں، تو کیا اس کے لئے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تمہارے باپ نے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہ کیا کہ اب اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی راستہ نکالتے، اس کی بیوی خلاف سنت دی گئی تین طلاقوں کے ذریعہ بائنہ ہوگئی، اور نوسو ستانوے طلاقوں کاگناہ اس کی گردن پر ہے۔ یہ الفاظ طبرانی کی روایت کے ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق:۶/۳۹۳)

علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی ”عبیداللہ بن الولید الوصافی العجلی“ ہیں جو کہ ضعیف ہیں۔(مجمع الزوائد: ۴/۸۳۳ باب فیمن طلق اکثر من ثلاث)

میراکہنا یہ ہے کہ ”میران الاعتدال“ میں علامہ ذھبیؒ نے ان کے بارے میں امام احمدؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

(یکتب حدیثہ للمعرفۃ) (جلد ۳ صفحہ ۷۱)

اسی وجہ سے میں نے ان کی یہ روایت مستقل طور پر ذکر نہیں کی بلکہ دوسری روایات کی تقویت کے لئے لایا ہوں۔

۸۔ مصنف عبدالرزاق میں سفیان ثوری کے طریق سے زید بن وھب سے یہ روایت مروی ہے کہ:

(انہ رفع الی عمر رجل طلق: امراتہ الفا وقال: انما کنت العب، فعلاہ عمر رضی اللہ عنہ بالدرۃ وقال: انما یکفیک من ذالک ثلاثۃ)

یعنی حضرت ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو ہزارطلاقیں دی تھیں۔ اس شخص نے کہا: میں نے ویسے ہی مذاق کیا ہے، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس کودرّے سے مارا اور فرمایا: تیرے لئے ان میں سے تین طلاقیں کافی ہیں۔ (مصنف عبدالرزاق ۶/۰۴۳۱)

 علامہ بیہقیؒ نے عن شعبۃ عن سلمۃ بن کھیل کے طریق سے یہی روایت نقل کی ہے۔ اوردونوں طریق کے راوی جماعت یعنی سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ (بیہقی: ۷/۴۳۳)

۹۔ امام بیہقی ؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ:

(عن انس بن مالک یقول: قال عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فی الرجل یطلق امراتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا، قال: ھی ثلاث لاتحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ وکان اذانی بہ ارجعہ)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے، اس کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تین طلاقیں ہیں، یہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، اور جب ایسا شخص آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ اس کو سزادیتے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۷/۴۳۳)

۰۱۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ:

(عن ابراھیم بن محمد عن شریک بن ابی نمر قال:جاء رجل الی علی، فقال: انی طلقت امراتی عدد العرفج قال: تاخذ من العرفج ثلاثا وتدع سائرہ)

(مصنف عبدالرزاق: ۷/۴۹۳)

یعنی شریک بن ابی نمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو عرفج (درخت) کی مقدار میں طلاق دی ہے۔ آپ نے فرمایا: عرفج میں سے تین لے لے اور باقی سب چھوڑدے۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔

البتہ ”تقریب التہذیب“ میں ہے کہ:

( شریک بن ابی نمرصدوق یخطئی)

لیکن بیہقی میں ایک روایت دوطریق سے مروی ہے جو مندرجہ بالاروایت کے لئے شاہد ہے۔ اس روایت کے یہ الفاظ ہیں۔

( عن علی رضی اللہ عنہ فیمن طلق امرتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا، قال: لاتحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ)

یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دیدیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی ۷/۴۳۳)

۱۱۔ عطابن یسار سے مروی ہے کہ:

(جاء رجل یسال عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ عن رجل طلق امراتہ ثلاثا قبل ان یمسھا، قال عطاء: فقلت: انما طلاق البکر واحدۃ، فقال لی عبداللہ بن عمرو: انماانت قاص الواحدۃ تبینھا والثلاث تحرمھا حتی تنکح زوجا غیرہ)

یعنی ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آکر اس شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیدیں۔ حضرت عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: باکرہ کی طلاق ایک ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم توقصہ گوئی کرنے والے ہو۔ اصل یہ ہے کہ وہ باکرہ ایک طلاق سے بائن ہوجائے گی، اورتین طلاقوں سے حرام ہوجائے گی حتیٰ کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔(مؤطا امام مالک کتاب الطلاق، باب طلاق البکر)

۲۱۔ حضرت علقمہ سے روایت ہے کہ:

(جاء رجل الی ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقال: انی طلقت امراتی تسعۃ وتسعین رانی فقیل لی: قدبانت منی، فقال ابن مسعود: لقد اجواان یفرقوا بینک وبینھا قال: فما تقول رحمک اللہ؟ فظن انہ سیر خص لہ۔ فقال: ثلاث تبینھا منک وسائرھا عدوان)

ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ننانویں طلاقیں دیدی ہیں، میں نے لوگوں سے مسئلہ پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ مجھ سے بائن ہوگئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے پر خوش ہیں۔اس شخص نے کہا کہ آپ کی رائے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت فرمائے۔ اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ آپ اس کے لئے گنجائش نکالیں گے۔ آپ نے فرمایا: وہ تین طلاق سے تم سے جداہوگئی اور باقی طلاقیں ظلم اور زیادتی ہے۔

(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر۳۴۳۱)

۳۱۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:

(من طلق امراتہ ثلاثا طلقت وعصی ربہ)

یعنی جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں پڑگئیں، اور اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر۴۴۳۱)

۴۱۔ حضرت معاویہ بن ابی عیاش الانصاری فرماتے ہیں کہ:

(انہ کان جالسامع عبداللہ بن الزبیر وعاصم بن عمر قال: فجاء ھما محمد بن ایاس بن البکیر فقال:ان رجلا من اھل البادےۃ طلق امراتہ ثلاثا قبل ان یدخل بھا، فماذاتریان؟ فقال عبداللہ بن الزبیر: ان ھذا الامر مابلغ لنافیہ قول فاذھب الی عبداللہ بن عباس وابی ھریرۃ، فانی ترکتھما عند عائشۃ فاسالھما ثم ائتنا فاخبرنا، فذھب فسالھما، فقال ابن عباس لابی ھریرۃ افتہ یا ابا ھریرۃ فقد جاء تک معضلۃ فقال ابو ھریرۃ: الواحدۃ تبینھا والثلاث تحرمھا حتی تنکح زوجا غیرہ، وقال ابن عباس مثل ذلک)

فرماتے ہیں کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں محمد بن ایاس ان کے پاس آئے اور کہا کہ ایک دیہاتی نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دیدی ہیں۔ آپ حضرات کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ حضر ت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی بات نہیں پہنچی ہے، آپ حضرت عبداللہ بن عباس اورحضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ پوچھ لیں، میں نے ان دونوں کو ابھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے گھر پر چھوڑکرآیا ہوں، اور ان سے پوچھ کرپھر ہمیں بھی بتادو۔ چنانچہ محمد بن ایاس گئے اور ان دونوں سے یہی سوال کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرۃرضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ فتویٰ دیجئے کیونکہ آپ کے پاس یہ ایک پیچیدہ مسئلہ آیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک طلاق سے وہ بائنہ ہوگئی اور تین طلاقوں سے وہ قطعی حرام ہوگئی حتیٰ کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی یہی جواب دیا۔

(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب طلاق البکر)

یہ حدیث ہمیں واضح طور پر بتارہی ہے کہ پانچ صحابہ کرام یعنی عبداللہ بن زبیر، حضرت عاصم بن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم، یہ سب ایک کلمہ میں دی گئی تین طلاقوں کے وقوع پر متفق ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب تو ظاہر ہے اور جہاں تک حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے تو ان دونوں حضرات نے ان دونوں حضرات نے غیر مدخول بہاکے حق میں تین طلاقیں دینے کے مسئلے کو بہت دشوار خیال کیا۔ اگر ان کے نزدیک مدخول بہاکی طلاق کے سلسلے میں ”تین“ کا عدد لغو ہوتا تو یہ حضرات اس مسئلے کو مشکل تصور نہ کرتے، بلکہ مدخول بہا کو ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقوں کے عدم وقوع کا بطریق اولیٰ فتویٰ دیدیتے، ان حضرات نے اس مسئلے کو اس لئے دشوار خیال کیا کہ یہ غیر مدخول بہا کا مسئلہ تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا تعلق ہے تو اس واقعہ کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ جس مجلس میں حضرت ابوہریرۃ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فتویٰ دیا، وہ خواہ اس مجلس میں موجود تھیں (اگر یہ مسئلہ ان کی رائے کے خلاف ہوتا تو وہ خاموش نہ رہتیں)

بہرحال، فقہاء صحابہ کی ایک جماعت جیسے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوہریرۃ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تین طلاقوں کے وقوع پر اجماع ہے اگرچہ وہ طلاقیں ایک مجلس میں دی گئی ہوں۔ ان حضرات کا اتفاق دلیل اور حجت ہونے کے لئے کافی ہے۔

مخالفین کے دلائل کا جواب

جہاں تک اس باب میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا تعلق ہے تو جمہور فقہاء نے ان کے مختلف جوابات دئیے ہیں۔ اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے فتح الباری (جلد ۹ صفحہ ۶۱۳ تا ۹۱۳) میں ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ البتہ میرے نزدیک ان میں سے دوجواب عمدہ اور پسندیدہ ہیں۔

پہلاجواب یہ ہے کہ یہ حدیث ایک خاص صورت سے متعلق ہے، وہ یہ کہ طلاق دینے والا بنیت تجدید وتاسیس طلاق کے الفاظ مکرراداکرے۔ مثلاً اپنی بیوی سے کہے: تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے،تجھے طلاق ہے۔ ابتداء میں مسلمان راست باز اور صاف دل ہوتے تھے،لہذا ان کا یہ دعویٰ قبول کرلیا جاتا تھا کہ (تین دفعہ کے) الفاظ سے اس کی نیت صرف تاکید کی تھی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب لوگوں کی کثرت ہوگئی اور لوگوں میں دھوکہ، فریب اور اس جیسی دوسری بری خصلتیں عام ہوگئیں جو دعویٰ تاکید کے قبول کرنے سے مانع ہوتی ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکرر الفاظ کو ان کے ظاہری معنی پر معمول فرماتے ہوئے قضاءً اسے نافذفرمادیا۔امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسی جواب کو پسند فرمایا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد ان الناس استعجلوافی امر کانت لھم فیہ اناۃ یعنی لوگوں نے ایک ایسے کام میں جلدی کی جس میں ان کے لئے مہلت تھی“ کی بنیاد پر اس کو قوی قراردیا۔ اسی طرح امام نودی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ جواب تمام جوابوں میں صحیح ترین جواب ہے۔

دوسراجواب یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں جو لفظ ”ثلاثا“ آیا ہے، اس سے مراد درحقیقت ”طلاق البتّتہ“ ہے، جیسا کہ حدیث ”رکانہ“ میں اس کی صریح ہے جو آگے آرہی ہے، اور یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث قوی ہے۔ اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اس باب میں ان آثار صحابہ کوبھی لائے ہیں جن میں ”البتّتہ“ کا ذکر ہے۔ اور اسی باب میں وہ احادیث بھی لائے ہیں جن میں طلاق ثلاثہ کی تصریح موجود ہے، اس سے امام بخاری رحمتہ اللہ کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ”طلاق البتّتہ“ اور طلاق ثلاثہ“ میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہ ”طلاق البثتہ“ جب مطلق بولا جائے گا تو اس کو تین طلاقوں پر محمول کیاجائے گا۔ لیکن اگر طلاق دینے والا اس لفظ سے ایک طلاق کی نیت کرلے تو اس صورت میں اسی کا قول معتبر ہوگا۔ تو گویا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اصل لفظ ”البتّتہ“ تھا لیکن چونکہ لفظ ”البتّتہ“ کا طلاق ثلاثہ کے ہم معنی ہونا معروف اور مشہور تھا، اس لئے حدیث کے بعض راویوں نے اصل لفظ ”البتّتہ“ کے بجائے طلاق ثلاثہ کا ذکرکردیا اور مراد لفظ ”البتّتہ“ لیا۔ زمانہ نبوی میں جب کوئی شخص لفظ ”البتّتہ“ بول کر ایک طلاق مراد لیتا تو اس کا قول مان لیا جاتا تھا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ظاہری الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے ان الفاظ سے دی ہوئی طلاق پر تین طلاقوں کا حکم نافذ کردیا۔ (کذافی فتح الباری)

احقر کے نزدیک اس توجیہہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تمام صحابہ کرام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کے صحیح ہونے پر اتفاق کرلیا اور کسی ایک صحابی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔اگر آپ کا یہ فیصلہ خود ساختہ ایک نیا فیصلہ ہوتا۔ العیاذ باللہ۔ یاحضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ہوتا تو ایک صحابی بھی اس فیصلے پر راضی نہ ہوتا۔ چہ جائیکہ صحابہ کرام کی پوری جماعت نے اس فیصلے سے اتفاق کرلیا، حتیٰ کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو اس حدیث کے راوی ہیں اور حدیث ”رکانہ“ کے بھی راوی ہیں، ان کا فتویٰ بھی تین طلاقوں کے واقع ہونے کا ہے۔ (جیسا کہ اوپر تفصیل سے گزرا) نیز سنن ابی داؤد میں حضرت مجاہدؒ سے ایک حدیث مروی ہے، اس حدیث کی سندکو حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں صحیح قراردیا ہے، وہ یہ کہ حضرت مجاھد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہواتھا کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آپ سن کر خاموش رہے، حتیٰ کہ میں نے یہ گمان کیا کہ آپ اس کو رجوع کرنے کا فتویٰ دیں گے، لیکن آپ نے فرمایا:

(ینطلق احد کم فیرکب الاحموقۃ: ثم یقول: یا ابن عباس، یاابن عباس، ان اللہ قدقال: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا والک لم تتق اللہ فلا احدلک مخرجا عصبت ربک وبانت منک امراتک)

یعنی تم میں سے ایک آدمی حماقت پر سوار ہوکر چل پڑتا ہے، (اوراپنی بیوی کو تین طلاقیں دینے کے بعد) پھر چلاتا ہے اے ابن عباس! اے ابن عباس! حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے نکلنے کی راہ پیدافرمادیں گے، اور تو چونکہ (طلاق کے معاملے میں) اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرا، اس لئے میں تیرے لئے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتا، تو اپنے رب کا نافرمان ٹھہرا اور تیری بیوی بھی تجھ سے جداہوگئی۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ بدگمانی جائز نہیں کہ ان کے سامنے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فیصلہ موجود تھا، پھر بھی انہوں نے اس کے خلاف فتویٰ دیا۔ اگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا کیا ہے تو یقینا ان کے سامنے واضح دلیل ہوگی۔ راوی حدیث اپنی روایت کے متعلق دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔

جہاں تک حدیث ”رکانہ“ کا تعلق ہے جس سے امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے، یہ حدیث مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں مذکور ہے اور ابویعلیٰ نے اس کو صحیح قراردیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:

(عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما قال: طلق رکانۃ بن عبدیزید امراتہ ثلاثا فی مجلس واحد، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: انما تلک واحدۃ فارتجعھا ان شئت، فارتجعھا)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک طلاق ہے، تم اگر چاہو تو رجوع کرلو، پس انہوں نے رجوع کرلیا۔(مسند احمد)

اس کا جواب یہ ہے کہ طلاق رکانہ کے واقعے میں جوروایات مروی ہیں ان میں اضطراب پایاجارہا ہے، چنانچہ مسند احمد کی روایت جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں یہ صراحت ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں، اور دوسری روایت سنن ابی داؤد میں انہیں

حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے لفظ ”البتّتہ“ سے طلاق دی تھی۔ اسی اضطراب کی بنیاد پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو معلول قراردیا ہے۔ اور علامہ ابن عبدالبررحمتہ اللہ علیہ نے ”تمہید“ میں اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے۔ (دیکھئے تلخیص الحبیر للحافظ جلد ۳ صفحہ ۳۲ حدیث نمبر ۳۰۶۱)

اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جو روایت ہے اس کو امام جصاص اور علامہ ابن ھمام رحمتہ اللہ علیہما نے اسی سبب سے منکرقراردیا ہے کہ یہ روایت ان ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہے جنہوں نے لفظ ”البتّتہ“ کے ساتھ روایت کی ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی”تلخیص الحبیر“ میں اس کو معلول قراردیا ہے۔

اورامام ابوداؤد رحمتہ اللہ علیہ نے سنن ابی داؤد میں اس بات کو راجح قراردیا ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے لفظ ”البتتہ“ کے ساتھ طلاق دی تھی، اس لئے انہوں نے اس روایت کی تخریج حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کے اہل بیت کی سند سے کی ہے، اور کسی شخص کے اہل بیت اس کے قصہ سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فتح الباری (جلد ۹ صفحہ ۶۱۳) میں فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے لفظ ”البتّتہ“ کوطلاق ثلاثہ پر محمول کرکے ”طلقھا ثلاثا“ کہہ دیا ہے۔ اس نکتہ کی روسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال موقوف ہوجاتا ہے۔

احقر کی رائے میں پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ”انت طلاق البتۃ“ کے لفظ سے طلاق دی، اور صرف ایک طلاق کی نیت کی۔ پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی اس نیت کی تصدیق فرمائی اور ان کودوبارہ ان خاتون سے نکاح کرنے کی اجازت دیدی۔ اور حدیث کے الفاظ فارتجعھا ان شئت سے بھی یہی مراد ہے۔ لیکن بعض راویوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ لفظ ”البتتہ“ سے مراد تین طلاقیں ہیں، حدیث کی روایت ”طلقھا ثلاثا“ کے الفاظ سے کردی۔

بالفرض اگر تسلیم کرلیاجائے کہ معاملہ اس کے برعکس ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا یعنی حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے توتین طلاقیں الگ الگ الفاظ سے دی تھیں لیکن بعض راویوں نے اس کو لفظ ”البتتہ“ سے روایت کردیا، تب بھی دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو طلاق اس وقت تسلیم کیا جب حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اس بات پر قسم کھالی کہ انہوں نے صرف ایک طلاق کی نیت کی ہے۔ چنانچہ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور داری کی روایت میں ہے کہ:

(فاخبر بذلک النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقال: واللہ مااردت الا واحدۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واللہ مااردت الاواحدۃ، فقال رکانہ: واللہ مااردت الا واحدۃ فردھا الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

یعنی حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی اور کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے صرف ایک طلاق کی نیت کی ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم نے ایک ہی طلاق کی نیت کی ہے؟  حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ! میں نے ایک ہی طلاق کی نیت کی ہے، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی ان کو لوٹادی۔ اس روایت میں دیکھئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ان کو دوبار قسم دی کہ ان کی نیت صرف ایک طلاق کی تھی۔ اور یہ بات ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں کہ عہد رسالت میں اگر کوئی شخص تین مرتبہ طلاق کے الفاظ اداکرنے کے بعد یہ کہتا کہ تکرار سے میری نیت تاکید کی تھی تو اس کی نیت قضاءً مسموع ہوتی تھی،اس لئے کہ وہ زمانہ جھوٹ اور دھوکے سے پاک زمانہ تھا، اگر تین طلاقوں کو علی الاطلاق ایک شمارکیا جاتا جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ اور ان کے پیروکاروں کا خیال ہے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کو ایک طلاق کے ارادہ کرنے پر قسم نہ دیتے۔ اس لئے کہ پھرتو تین طلاق کے الفاظ بول کرایک طلاق کی نیت کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ (بلکہ نیت کے بغیر بھی ایک ہی طلاق واقع ہوتی) اور نہ ہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو قسم دینے کا کوئی فائدہ تھا، اس لئے کہ علامہ ابن تیمیہ اور ان کے موا فقین کے نزدیک اس میں نیت کی بھی شرط نہیں ہے بلکہ تین طلاق کے الفاظ بول کر تین کی نیت کرے تب بھی ان کے نزدیک ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔

زیادہ سے زیادہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نیت تاکید میں قضاء تصدیق فرمائی، یہ بات ہمیں بھی تسلیم ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص بنیت تأسیس بھی تین طلاقیں دے تب بھی ایک ہی طلاق واقع ہوگی، اس کی اس حدیث میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا حدیث رکانہ سے استدلال درست نہیں۔

پھر امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کے لازم ہونے کے بارے میں جمہور فقہاء کی دلیل نظری اعتبار سے بھی بالکل ظاہر ہے، وہ یہ کہ مطلقہ ثلاثہ طلاق دھندہ کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے، چاہے وہ تین طلاقیں متفرق طور پر دی گئی ہوں یااکٹھی دی گئی ہوں۔ لغتہً اور شرعاً اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، اور ان دونوں صورتوں میں جس فرق کا تصور کیاجاتا ہے وہ فرق صرف ظاہری ہے، جس کوشریعت نے نکاح، عتق اور اقرار کے باب میں بالانفاق لغو قراردیا ہے۔ چنانچہ اگر ولی نکاح بیک کلمہ کسی سے یہ کہے کہ ”میں نے ان تین لڑکیوں کا نکاح تجھ سے کردیا“ تو یہ نکاح منعقد ہوجائے گا، جیسا کہ اس صورت میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے جب ولی نکاح کسی شخص سے الگ الگ الفاظ میں یہ کہے کہ ”میں نے اس لڑکی کا اور اس لڑکی کی اور اس لڑکی کا نکاح تجھ سے کردیا“ اور عتق اور اقرار وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔

جو حضرات اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمارکرتے ہیں، ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح قسم کھائے کہ ”احلف باللہ ثلاثا“ (یعنی میں تین بار اللہ کی قسم کھاتا ہوں) تو یہ ایک ہی قسم شمارہوگی، تین نہیں ہوں گی، تو پھر طلاق دینے والے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔

اس اشکال کاجواب یہ ہے کہ یہ طلاق کو قسم پر قیاس کرنادرست نہیں اس لئے کہ دونوں میں فرق ہے، وہ فرق یہ ہے کہ طلاق دینے والا انشاء طلاق کرتا ہے اور شریعت نے طلاق کی آخری حد تین قراردی ہے۔ لہذا جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ”انت طالق ثالثا“ تو گویا اس نے یہ کہا ”انت طالق جمیع الطلاق“ یعنی تجھے تمام طلاقیں دیتا ہوں۔لیکن جہاں تک قسم کھانے والے کا تعلق ہے تو اس قسم کی کوئی آخری حد مقررنہیں ہے۔ اس لئے طلاق اور قسم میں فرق ہے۔(کذافی فتح الباری)

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ بعینہٖ ”متعہ“ کے مسئلے کی نظیر ہے، چنانچہ متعہ کے بارے میں حضرت جابررضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں ”متعہ“ کیاجاتا تھا، پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کردیا تو ہم اس سے باز آگئے۔ اور دونوں مسئلوں  میں راجح قول یہ ہے کہ ”متعہ“ حرام ہے اور طلاق ثلاثہ واقع ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان دونوں مسئلوں پر اجماع منعقد ہوچکا ہے، اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں مسئلوں میں اس اجماع کی مخالفت کی ہو۔ اور صحابہ کرام کے اجماع سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کوئی ناسخ تھا، اگرچہ بعض حضرات صحابہ پر یہ ناسخ پہلے مخفی تھا۔ لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع سے ناسخ سب پر واضح ہوگیا۔ لہذا اس اجماع کے منعقد ہوجانے کے بعد جوشخص اس کی مخالفت کرے گا، وہ اجماع کوتوڑنے والا ہوگا۔ اور کسی مسئلے میں اتفاق کے ہوچکنے کے بعد کوئی شخص اس میں اختلاف کرے تو جمہور کے نزدیک اس کا اختلاف کرنا معتبر نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات