Firqa Ghair Muqalid (Ahle Hadees)
Sharing is Caring

فرقہ  غیر مقلدین

تالیف

مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر

اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ

================================================

Download PDF : Ghair-Muqallid-La-Mazhab

================================================

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ابتداء۔ برادران اسلام اس ملک پاک وہند میں بارہ صدیوں سے اسلام آیا ہواہے یہاں اسلام لانے والے۔ اسلام پھیلانے والے اور اسلام کو قبول کرنے والے سب کے سب اہل سنت والجماعت حنفی تھے۔ یہاں کے تمام مفسرین۔ محدثین۔ فقہاء اولیاء کرام اور سلاطین عظام اہل سنت والجماعت اور حنفی تھے۔

لیکن جب انگریز کے منحوس قدم یہا ں آئے تو وہ یورپ سے ذہنی آوارگی مادرپدر آزادی اور دینی بے راہروی کی سوغات ساتھ لایا۔ اور مذہبی آزادی اور مذہبی تحقیق کے خوشنما اور دلفریب عنوانوں سے اس ملک میں خودسر اور متعصب فرقے کو جنم دیا اس فرقہ کا پہلا قدم سلف سے بدگمانی ہے اور اس کی انتہاء سلف پر بدزبانی ہے یعنی آپ یہ سمجھ لیں کہ اس فرقہ کا ہر شخص اعجاب کل ذی رای برایہ پر نازاں ہونے کے ساتھ ساتھ لعن آخر ھذہ الامۃ اولھا کا مصداق ہے۔ اس فرقہ کا ہر فرد اپنے آپ کو آئمہ اربعہ بلکہ صحابہؓ سے بھی برتر جانتا ہے۔ مولانا عبدالخالق صاحب خسر میاں نذیر حسین صاحب دہلوی (الحیات بعد الممات ص۸۲۲ نتائج التقلیدص۳) فرماتے ہیں ”سوبانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبدالحق ہے جو چند دنوں سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المومنین (سید احمد شہید) نے ایسی ہی حرکات ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے اس کو نکال دیا اور علمائے حرمین معظمین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا (تنبیہ الضالین ۳۱)

ام المومنینؓ کا گستاخ مولوی عبدالحق بنارسی (بانی غیر مقلدیت) نے برملا کہا کہ عائشہ علیؓ سے لڑی اگر توبہ نہ کی تو مرتد مری اور یہ بھی دوسری مجلس میں کہا کہ صحابہ کا علم ہم سے کم تھا ان کو ہرایک کو پانچ پانچ حدیثیں یادتھیں اور ہم کو ان سب کی حدیثیں یاد ہیں (کشف الحجاب ص۲۴قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی شاگرد شاہ اسحاقؒ)

پہلی شہادت

نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں ”اس زمانہ میں ایک ریاکار اور شہرت پسند فرقے نے جنم لیاہے جو ہرقسم کی خامیوں اور نقائص کے باوجود اپنے لئے قرآن وحدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کے دعویدار ہیں حالانکہ علم وعمل وعرفان سے اس فرقہ کو دورکابھی واسطہ نہیں۔ یہ لوگ علوم آلیہ وعالیہ دونوں سے جاہل ہیں الحطہ ص۳۵۱ اور یہ لوگ معاملات کے مسائل میں حدیث کی سمجھ اور سوجھ بوجھ سے بالکل عاری ہیں اور اہل سنت کے طریق پر ایک مسئلہ بھی استنباط نہیں کرسکتے یہ لوگ حدیث پر عمل کرنے کی بجائے زبانی جمع خرچ پر اور سنت کے اتباع کی جگہ شیطانی تسویلات پر اکتفاکرتے ہیں۔ اور اس کو عین دین تصورکرتے ہیں ……یہ لوگ اسلام کی حلاوت، مٹھاس اور شیرینی سے خالی الذہن ہیں اور مسلمانوں کی نسبت بڑے تنگ دل ہیں۔ اہل اسلام بارہ میں بڑے سنگدل ہیں (الحطہ ص۱۵۱) یقولون عن خیرالبرےۃ وھم شرالبریہ ص۴۵۱) پھر خداکی قسم کتنے تعجب کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو خالص مؤحد کہتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کو بدعتی اور مشرک کہتے ہیں حالانکہ یہ لوگ سب سے زیادہ غالی اور دین کے بارہ میں بڑے متعصب ہیں ص۴۵۱ افما ھذا دین ان ھذا الافتتہ فی الارض وفساد کبیر ص۶۵۱ نواب صاحب نے اس فرقہ کے تقدس کا نقشہ کھنچتے ہوئے اس زاہد کی مثال دی ہے جو اپنی مکاری اور عیاری سے خوب وعظ کرتا کہ سونے چاندی کے برتنوں کے استعمال سے ڈراتا۔ قبر وحشر کے ہولناک مناظر بیان کرتامگر موقع ملتے ہی سونے چاندی کے سب برتن چوری کرکے رفوچکر ہوجاتا تھا۔

نواب صاحب کا کلام واقعی کلام الملوک ملوک الکلام کا مصداق ہے۔ انہوں نے اس کو نوزائیدہ فرقہ کہا یعنی یہ حدیث تفرقہ کا مصداق ہے۔ (زجاجہ) علوم آلیہ وعالیہ اور استنباط سے جاہل کہا تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ فرقہ ضلوافا ضلواالحدیث زجاجہ ص کا مصداق ہے۔ ان کے علمی سرمائے کو تسویلات شیطانیہ قراردیا جو حق ہے فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد(زجاجہ) اور شیطان ہی پہلا غیر مقلد ہے۔ اور جس گلی میں حضرت فاروق اعظمؓ قدم رکھیں وہاں سے بھاگتا ہے۔ بیس تراویح، طلاق ثلاثہ فقہ سے انکار حضرت عمرؓ ہی کی مخالفت ہے۔

دوسری شہادت

غیرمقلدین کے مشہور محدث ومؤرخ مولانا محمد شاہجہاں پوری نے ۰۰۹۱ء  ۹۱۳۱ھ میں الارشاد الیٰ سبیل الرشاد نامی کتاب شائع کی اس میں لکھتے ہیں ”کچھ عرصہ سے ہندوستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشنا ہیں پچھلے زمانہ میں شاذونادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں سے سنا ہے اپنے آپ کو تو وہ اہل حدیث یامحمدی یامؤحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیر مقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ لوگ نماز میں رفع الیدین کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں جیسا کہ تحریمہ باندھتے وقت ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں بنگالہ کے عوام ان لوگوں کو رفع یدینی بھی کہتے ہیں۔(ص۳۱مع حاشیہ) نوٹ:جب یہ فرقہ پیداہوا تو چونکہ یہ تقلید کو شرک وبدعت کہتا تھا اس لئے ان کو غیرمقلدکہاجانے لگا تاکہ پتہ چلے کہ یہ ایک منفی فرقہ ہے۔جو تعمیر کی بجائے تخریب کے لئے تیارکیا جارہا ہے۔پھر چونکہ یہ لوگ آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کی پابندی سے منحرف ہوگئے تھے اس لئے لوگ ان کو لامذہب کہنے لگے۔

وہابی

چونکہ اس زمانہ میں محمد بن عبدالوہاب کی جماعت نے عرب میں قتل وغارت کا بازار گرم کررکھا تھا۔ بہت سے مزارات کو گرایا”اور سعود نے قبہ مزار نبی ﷺ کو ڈھانے کا قصد کیا مگر اس کامرتکب نہ ہوا اور حکم کیا کہ بیت اللہ کا حج سوائے وہابیوں کے اور کوئی نہ کرے اور عثمانیوں کو حج سے مانع ہوا۔ اور کئی برس تک حج سے بہت لوگ محروم رہے اور شام اور عجم کے لوگوں کو حج نصیب نہ ہوا (ترجمان وہابیہ ص ۶۳) اور اس نے عرب کے رہنے والوں خصوصاً حرمین شریفین کے رہنے والوں کو

بہت تکالیف دیں (ص۰۴) اس لئے عالم اسلام میں ان کے خلاف کافی برہمی تھی۔ مولوی فضل رسول بدایونی نے اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لئے مجاہدین کو وہابی کہنا شروع کردیا۔

(ترجمان وہابیہ ص۴۴وص۷۴)

اب غیر مقلدین کو فکر ہوئی کہ اس ملک میں وہابی مجاہد اسلام اور حکومت برطانیہ کے باغی کو کہتے ہیں کہیں ہمیں مجاہد نہ سمجھ لیا جائے اور انگریز بہادر کہیں ہمیں مشکوک نہ سمجھ لے۔ تو انہوں نے فورا انگریز کو خوش کرنے کے لئے مرزا کی تلقید میں کتابیں لکھیں۔

ترجمان وہابیہ

نواب صدیق حسن نے ۲۱۳۱ھ میں یہ کتا ب لکھی۔ جس میں لکھا کہ۔

خلاصہ حال ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں اس وقت سے آج تک یہ لوگ حنفی مذہب پر قائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم فاضل قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے یہاں تک کہ ایک جم غفیر نے ملکر فتاویٰ ہندیہ یعنی فتاویٰ عالمگیری جمع کیا اور اس میں شیخ عبدالرحیم دہلوی والد بزرگوار شاہ ولی اللہ مرحوم کے بھی شریک تھے۔  (ترجمان وہابیہ ص۰۱۔۱۱)

سوال:غیر مقلدین ۰۰۵ علماء کے مقابلہ میں صرف پانچ علماء کا نام پیش کریں جنہوں نے اس وقت فتاویٰ عالمگیری کی تردید میں رسالے لکھے ہوں۔ ہم فی رسالہ دس ہزارروپے رائج الوقت انعام دیں گے۔

مجاہدین

حنفی تھے۔ کسی نے سنا ہوگا کہ آج تک کوئی موحد متبع سنت حدیث وقرآن پر چلنے والا بیوفائی اور اقرارتوڑنے کا مرتکب ہواہو یا فتنہ انگیزی یا بغاوت پر آمادہ ہواہو جتنے لوگوں نے غدر میں شروفساد کیا اور حکام انگلشیہ سے برسر عناد ہوئے وہ سب کے سب مقلدان مذہب حنفی تھے نہ متبع حدیث نبوی (غ۔م) ترجمان وہابیہ ص۵۲آہ جس انگریز نے تیرہ ہزار جید علماء حق کو تختہ دار پر لٹکایا ۰۷۲ ہزار اہل اسلام کو پھانسی دی اور سات دن تک قتل عام ہوتا رہا اور ہزاروں کو جلاوطن کرکے کالے پانی بھیجا ان کے بارہ میں نواب صدیق حسن لکھتا ہے ”اور حاکموں کی اطاعت اور رئیسوں کا انقیادان کی ملت میں سب واجبوں سے بڑاواجب ہے۔  (ترجمان وہابیہ ص۹۲)

عجیب دلیل

نواب صاحب نے دلیل یہ دی کہ قرب قیامت میں ہرجگہ عیسائیوں کی حکومت ہوجائے گی۔ان احادیث کے مطابق یہ انگریزی حکومت ہے اب ان سے لڑنا جہاد نہیں فساد ہے۔سخت نادانی۔ بے وقوفی ناعاقبت اندیشی ہے اور پیغمبر صادق کے فرمان کی نافرمانی ہے۔(ترجمان وہابیہ ۷)

متفقہ فتویٰ

جہاد اور جنگ مذہبی مقابلہ برٹش گورنمنٹ ہند سے جس نے آزادی مذہبی دے رکھی ہے ازروئے شریعت اسلام عموماً خلاف وممنوع ہے اور جولوگ بمقابلہ برٹش گورنمنٹ ہند…………ہتھیار اٹھاتے ہیں اور مذہبی جہادکرنا چاہتے ہیں کل ایسے لوگ باغی ہیں اور مستحق سزا کے مثل باغیوں کے شمار ہوتے ہیں۔ اس فتویٰ پر

تمام غیر مقلدین نے متفقہ طورپر دستخط کئے۔(ترجمان وہابیہ ص۱۶)

بمقابلہ گورنمنٹ ہندفرقہ مؤحدین کو ہتھیار اٹھانا خلاف ایمان واسلام ہے۔ (ترجمان وہابیہ ص۱۲۱)

محمد حسین بٹالوی

برٹش گورنمنٹ سے مذہبی جہاد کرناہرگزجائز نہیں۔(الاقتصاد ص۹۱

دارالاسلام، ملک ہندوستان باوجود یکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے اس پر کسی بادشاہ کو عرب کا ہو خواہ عجم کا مہدی سودان ہویا خود حضرت سلطان شاہ ایران خواہ امیر خراسان مذہبی لڑائی وچڑہائی کرناجائز نہیں ہے (الاقتصادص۵۲) ان سے غدر کرنا اور جان مال سے تعرض کرنا صریح حرام ہے۔(ص۴۳)

اہلحدیث

یہ وہ لوگ ہیں جو تقریراً تحریراً حاضروغائب خیر خواہی وفاداری گورنمنٹ کو دم بھرتے ہیں اور ان کی خدمت ومعاونت میں سرگرم ہیں ان ہی لوگوں میں پنجاب کے اہلحدیث داخل ہیں۔ پنجاب کی برٹش گورنمنٹ نے بھی اس کی تصدیق وتائیدکردی ہے۔(الاقتصادص۸۴)

گورنمنٹ سے لڑنا یا ان لڑنے والوں کی کسی نوع کی مدد کرنا صریح غدر اور حرام ہے۔ (الاقتصادص۹۴)

ان سے لڑنا شرعی جہاد نہیں بلکہ عنادوفسادکہلاتا ہے مفسدہ ۷۵۸۱؁ء میں جومسلمان شریک ہوئے تھے وہ شخص گنہگار اور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد وباغی وبدکردار تھے اکثر ان میں عوام کالانعام تھے بعض جو خواص اورعلماء کہلاتے تھے وہ بھی اصل علوم دین قرآن وحدیث سے بے بہرہ تھے یانافہم وبے سمجھ باخبراور سمجھدار علماء اس میں ہرگز شریک نہیں ہوئے اور نہ اس فتویٰ پر جواس غدر کوجہاد بنانے کے لئے مفسد لئے پھرتے تھے انہوں نے خوشی سے دستخط کئے۔ (الاقتصادص۸۴) مجاہدین کے بارے لکھا کہ فساد وبغاوت اور عناد پھیلاکر یہ لوگ حرام موت مرتے ہیں۔ بہشتوں کی خوشیوں سے محروم رہتے ہیں ایسے فسادوں کو جہاد سمجھنا اور اس میں شہادت کی ہوس کرنا سراسر جہالت اور حماقت ہے۔ (ص۷)

جاگیر

مشہور غیرمقلد عالم مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں ”معتبر اور ثقہ راویوں کا بیان ہے کہ اس (رسالہ الاقتصاد) کے معاوضہ میں سرکار انگریزی سے انہیں جاگیر ملی تھی اور اس رسالہ کا پہلا حصہ پیش نظر ہے پوری کتاب تحریف وتدلیس کا عجیب وغریب نمونہ ہے۔(پہلی اسلامی

تحریک ۹۲)

ایک دوسرے غیرمقلد عالم مولانا عبدالحمید صاحب سوہدروی لکھتے ہیں ”مولوی محمد حسین بٹالوی نے اشاعت السنتہ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی اور لفظ وہابی آپ کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کیا گیا آپ نے حکومت کی خدمت بھی کی اور انعام میں جاگیر بھی پائی۔(سیرت ثنائی ص۲۷۳)

مولانا محمد حسین صاحب کی شہادت

پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں کفروارتداد کے اسباب اور بھی بکثرت موجود ہیں مگر دینداروں کے بے دین ہوجانے کے لئے بے علمی کے ساتھ ترک تقلید بڑابھاری سبب ہے گروہ اہلحدیث میں جو بے علم یاکم علم ہو کر ترک مطلق تقلید کے مدعی ہیں وہ ان نتائج سے ڈریں اس گروہ کے عوام آزاداور خودمختار ہوتے جاتے ہیں۔(اشاعت السنہ ۸۸۸۱ء)

نوٹ:یہ بات بٹالوی صاحب کو چوہدویں صدی میں معلوم ہوئی علماء نے چوتھی صدی میں بھانپ لی تھی اور تقلید شخصی کے وجوب کا فتویٰ دیا تھا۔ یہی بات شاہ ولی اللہؒ نے لکھی ہے۔

دیکھئے بارہ سوسال تک تقلید کی برکت سے یہاں اسلام پھیلا لیکن ترک تقلید کے تجربہ پر ابھی چوتھی صدی ہی گزری تھی کہ لوگ اسلام سے بیزار ہوکر کفر وارتداد کی طرف اتنی تیزی سے بڑھے کہ ترک تقلید کا تجربہ کرنے والے خود چیخ اٹھے اور تسلیم کرنا پڑا کہ تقلید حفاظت اسلام کا عظیم حصار ہے۔

لفظ وہابی کی منسوخی اور اہل حدیث کی الاٹمنٹ۔ آج کل کے غیر مقلدین عوام کو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ موجودہ سعودی حکومت والے ہمارے ہم مذہب ہیں وہاں ہماراتسلط ہے۔ لیکن یہی بات جب مشہور بریلوی عالم مولانا فضل رسول بدایونی نے کہی کہ یہ لوگ وہابی یعنی محمد بن وہاب نجدی کے ہم مذہب ہیں تو نواب صدیق حسن نے اس کو تہمت اور بہتان قراردیا اور پوری جماعت غیرمقلدین نے متفقہ طورپر حکومت برطانیہ کو درخواست دی کہ ہمیں وہابی کہنے سے قانوناً منع کیا جاوے اور اہل حدیث کا نام الاٹ کیا جاوے۔بخدمت جناب سیکریٹری گورنمنٹ۔ میں آپ کی خدمت میں سطور ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کا درخواست گارہوں ۶۸۸۱ء میں میں نے اپنے ماہواری رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کیا تھا جس میں اس بات کا اظہار تھا کہ لفظ وہابی جس کو عموماً باغی اور نمک حرام کے معنی میں استعمال کیاجاتا ہے لہذااس لفظ کا استعمال مسلمانان ہندوستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکارانگریزی کے نمک حلال اور خیرخواہ رہے ہیں اور یہ بات بارہا ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط وکتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے……ہم کمال ادب وانکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سرکاری طورپر اس لفظ وہابی کو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال سے ممانعت کا حکم نافذکرے اور ان کو اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاوے۔ اس درخواست پر فرقہ اہل حدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں۔(اشاعۃ السنہ ص۴۲جلد۱۱شمارہ نمبر۲)

میاں صاحب حج کو گئے

میاں صاحب  ۰۰۳۱ھ میں حج کے لئے چلے تو پہلے کمشنر دہلی کی کوٹھی کا طواف کیا اورچٹھی لی ”مولوی نذیر حسین دہلی کے بڑے مقتدرعالم ہیں جنہوں نے نازک وقتوں میں اپنی وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ثابت کی ہے وہ اپنے فرض زیارت کعبہ کے اداکرنے کو مکہ جاتے ہیں میں امیدکرتا ہوں کہ جس کسی برٹش گورنمنٹ افسر کی مدد وہ چاہیں گے وہ ان کو مدد دے گا۔کیونکہ وہ کامل طورپراس مدد کے مستحق ہیں۔ ۰۱اگست ۳۸۸۱ء الحیات بعد الممات ۰۴۱ص۸۳۱ عرب اترتے ہی پہلے جدہ میں برٹش کانسل کی کوٹھی پر حاضری دی چٹھیاں پیش کیں ص۲۴۱ لیکن پھر بھی گرفتاری ہوئی اور اس نئے مذہب پر نوٹس لیا گیا۔ ہدایہ کانام لے کر۔دستخط بدل کر جان بچائی پھر بھی توبہ نامہ لکھنا پڑا اس وقت میاں صاحب نے کہا انگریزی حکومت گورنمنٹ ہندوستان میں ہم مسلمانوں کے لئے خداکی رحمت ہے۔ (الحیاۃ بعد المماۃ ص۲۶۱)

جشن جوبلی ملکہ وکٹوریہ

ایک بہت بڑادروازہ بنایا جس پر ایک طرف انگریزی میں دوسری طرف اردو میں لکھا۔

دل سے ہے یہ دعائے اہل حدیث

جشن جوبلی مبارک ہواور ایڈریس دیا

بحضور فیض گنجور کوئین وکٹوریہ گریٹ قیصرہئ ھند بارک اللہ فی سلطنتھا۔ ہم ممبران گروہ اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضوروالا کی خدمت عالی میں جشن جوبلی کی دلی مسرت سے مبارکباد عرض کرتے ہیں آپکی سلطنت میں جو نعمت مذہبی آزادی کی حاصل ہے اس سے یہ گروہ اپنا خاص نصیبہ اٹھارہا ہے وہ خصوصیت یہ ہے کہ یہ مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص اس سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے کہ ان کو اور اسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے۔ اس خصوصیت سے یہ یقین ہوسکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت میں بھی یہ آزادی حاصل ہے اس خصوصیت سے یہ یقین ہوسکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ نعرہ زن ہیں۔ (اشاعۃ السنہ ۶۰۲جلدنمبر۹شمارہ

ایڈریس

اس طرح سرچارلس ایچی سن۔ لارڈ فرن۔ لیڈی ڈفرن کو جو ایڈریس غیر مقلدین نے پیش کئے ان میں بھی لفظ وہابی کی منسوخی اور اہل حدیث کی الاٹمنٹ پر ہزار زبان سے شکریے اداکئے اشاعۃ السنہ ص ۳۵۲تاص۶۵۲ جلد۹شمارہ۸۔ ہم میں حضور کے وفادار جان نثار حضور کی رعایا مولوی نذیر حسین دہلوی۔ ابوسعید محمدحسین بٹالوی وکیل اہل حدیث ہند۔ مولوی احمد اللہ واعظ میونسپل کمشنر امرتسر مولوی قطب الدین پیشوائے اہل روپڑ۔ مولوی عبداللہ غازی پور۔ مولوی محمد سعید بنارس۔ مولوی محمد ابراہیم آرہ۔ مولوی سید نظام الدین پیشوائے اہل حدیث مدراس۔

(اشاعۃ السنہ ص۰۴جلد نمبر ۱۱شمارہ نمبر۲)

اہل قرآن اہل حدیث

دوربرطانیہ سے پہلے یہ دونوں الفاظ اہل سنت والجماعت کے دوعلمی طبقوں پر استعمال ہوتے تھے اہل قرآن سے مراد حفاظ ومفسرین اور اہل حدیث سے مراد حضرات محدثین تھے۔ لیکن دوربرطانیہ میں اہل قرآن ومنکرین حدیث اور اہل حدیث منکرین فقہ کو کہاجانے لگا۔ یہ دونوں فرقے ہماری کتابوں سے اوتروایااھل القرآن (ترمذی) اھل القرآن ھم اھل اللہ خاصۃ (نسائی) (یالفظ اہل حدیث وغیرہ دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم اس وقت سے ہیں یہ ایسا ہی غلط استدلال ہے جیسے کوئی قادیانی یہ کہے کہ ہماراربوہ عیسیٰؑ کے زمانہ میں بھی تھا اور حضورؐ کے زمانہ میں بھی تھا۔

غیرمقلدین کی سندحدیث

میاں نذیر حسین دہلوی نے سند شاہ اسحاق سے لی باقی غیرمقلدین ان کے شاگرد ہیں الممات ص۳۴ ص۰۶ص۱۶ وصفحات ص۲۶۶تاص۴۰۷۔

شاہ اسحاقؒ

کسیکہ حقیقت مذاہب اربعہ نداندانکار اتباع ایشاں کندآں کس ضال است۔

جوشخص چاروں مذہبوں کو حق نہ جانے اور ان کی تقلید سے انکارکرے وہ گمراہ ہے۔

یعنی بعض صورتوں میں وہ کافر ہے اورمبتدع خبیث اور بعض صورتوں میں فاسق اور لفظ ضال عام ہے کافر اور مبتدع اور فاسق کے لئے (تنبیہ الضالین ص۷۳،۶۳)

میاں عبدالخالق صاحب شاگرد شاہ اسحاقؒ

ہرگزمقلد ایشاں (آئمہ اربعہ) راہرگز بدعتی نخواہند گفت زیرا کہ تقلید ایشاں راتقلید حدیث شریف است پس متبع حدیث رابدعتی گفتن ضلال وموجب نکال است۔

ترجمہ: آئمہ اربعہ کے مقلد کو بدعتی نہ کہنا چاہیے کیونکہ ان کی تقلید سنت کی تقلید ہے اور سنت پر عمل کرنے والے کو بدعتی کہنا گمراہی ہے اور تعزیر ضروری ہے۔  (مسائل ص۳۹ مسئلہ نمبر ۲۶)

بلکہ فرمایا کہ مقلدین کو بدعتی کہنے والے کے نہ فرض قبول ہیں نہ نفل (ص۳۹) مفتی صدرالدین صاحب صدر یہ نواب صدیق حسن خاں صاحب کے استاد ہیں (الحطہ ص۰۱)

کسیکہ مذہب یکے ازآئمہ اربعہ اختیار کندآں متبع است سنت رسول اللہ ﷺ وشخصے عامی بلکہ عالم رانیز کہ بمرتبہ اجتہاد نہ رسیدہ باشد تقلید یکے از مجتہدان واجب ست وبالفعل مذاہب اربعہ ازمجتہدین است مشہور ومتواتر ومقبول ومدون ومنقول است پس تقلید یکے راازیں چہارآئمہ اختیار باید کرد و منکران حقیقت مذاہب اربعہ وبدعت گوینداں تقلید ضال ومضل اندوھم (اضلواکثیراوضلواعن سواء السبیل)(تنبیہ الضالین ص۵۴)

جوشخص آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد ہو وہ سنت نبوی ﷺ کا تابعدار ہے۔ پس عام شخص اور غیر مجتہد عالم پر مجتہد کی تقلید واجب ہے اور چارہی مذاہب مکمل طور پر مدون اور متواتر ہیں۔ پس ان میں سے کسی ایک مذہب کی (جواس ملک میں متواتر ہو) تقلید کرے اور مذاہب اربعہ کے حق اداہونے کا انکارکرنے والا اور ان مذاہب کو بدعتی کہنے والا خود گمراہ ہے اوردوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ ان لوگوں نے بہت سے لوگوں کو سیدھے راستے سے گمراہ کردیا ہے۔

یعنی یہ مصداق حدیث ضلوافاضلوا کے ہیں۔

تصانیف

غیر مقلدین کا سب سے پہلا ترجمہ قرآن شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد نے لکھا۔ مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا سب سے پہلا حاشیہ مولوی عبدالوہاب شاگرد نذیر حسین نے لکھا۔رد تقلید میں سب سے پہلی کتاب معیارالحق سید نذیر حسین نے لکھی۔ نماز کی سب سے پہلی کتاب دستور المتقی لکھی گئی۔ تاریخ اہل حدیث سب سے پہلے مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی نے لکھی۔ ان کا کوئی ترجمہ تفسیر قرآن۔ ترجمہ وشرح حدیث۔ نماز کی کتاب انگریز کے دور سے پہلے کی نہیں ہے جیساکہ منکرین حدیث اور منکرین ختم نبوت کاکوئی ترجمہ قرآن۔حدیث یا نماز کی کتاب یا مدرسہ۔ مسجد انگریز کے دور سے پہلے کی نہیں ہیں۔

شہروں میں

مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی سے پہلے صوبہ بہار میں۔ مولوی شمس الحق ڈیانوی سے پہلے پٹنہ میں مولانا عبدالعزیز مؤلف حسن البیان سے پہلے دربھنگہ میں مولوی عبدالغفور سے پہلے بنگال میں مولوی سعداللہ سے پہلے آسام میں مولوی محمد حیات سے پہلے سندھ میں مولوی عبداللہ غزنوی سے پہلے امرتسر میں میاں نذیر حسین سے پہلے دہلی میں مولانا میر ابراہیم سیالکوٹی سے پہلے پاک وہند میں کوئی غیر مقلد موجود نہ تھا۔ ثبوت بزمہ مدعی)

نسب نامہ

آپ کسی منکر حدیث یا قادیانی سے پوچھیں کہ آپ کب سے اس مذہب میں آئے ہو وہ اولاً تو یہی بتائے گا کہ میں ہی بنا ہوں یا باپ اور بہت بڑھا تو دادا تک کا نام بتائے گا اس کے اوپر وہ نہیں بتا سکتا۔ یہی حال غیر مقلدین کا ہے غزنوی خاندان میں مولانا عبداللہ غزنوی سے پہلے لکھوی خاندان میں مولانا محمد صاحب لکھوی سے پہلے بھوپال میں نواب صدیق حسن خان سے پہلے کوئی غیر مقلد نہ تھا۔

مساجد

پنجاب میں ان کی مسجد چنیانوالی مسجد بنی جس کا پہلا خطیب عبداللہ چکڑالوی تھا جو رات دن فقہ کے خلاف زہر اگلتا۔ آخر فقہ کی مخالفت کا وبال یہ پڑا کہ منکرین حدیث کا بانی بن گیا اپنی اس چھوٹی مسجد میں دوسراخطیب مرزا غلام احمد قادیانی بنا یہ ان کی مساجد کا فیض ہے۔ دہلی کا مشہور مدرسہ جہاں شاہ اسحاق صاحب کا درس ہوتا تھا۔ اور عرب وعجم میں یہ مدرسہ مشہورتھا۔ جب شاہ صاحب کو برطانیہ نے ہجرت پر مجبورکردیا۔ تو اس مدرسے کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہاں نذیر حسین کو شاہ اسحاق کا نائب مشہورکرکے یہاں بٹھادیا مدرسے کی شہرت اور شاہ اسحاقؒ کی شہرت کی وجہ سے ابتداء کئی سالوں میں بہت سے لوگ داخل ہوئے۔ یہی سب سے پہلامدرسہ تھا۔

غیرمقلدین کا طریقہ واردات

غیرمقلدین کا ابتدائی مدرسہ میاں نذیر حسین دہلوی کا مدرسہ تھا۔ وہاں احناف کے خلاف جو تعصب کوٹ کوٹ کر بھراجاتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں۔مولانا عبدالعلی صاحب جو میاں صاحب کے مدرسہ کے قریب رہتے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے محلہ میں ایک امام مسجد تھے جو میاں نذیر حسین کے مدرسہ کے مدرس تھے وہ ایک حنفی عورت کو اغواء کرکے لے آیا جس کا خاوند زندہ تھا محلہ میں ایک اور غیر مقلد معمر مولوی صاحب رہتے تھے۔ اس عورت نے ان میاں جی کو پیغام بھیجا وہ آئے تو عورت نے کہا کہ میرا خاوند زندہ ہے یہ ظالم مجھے دھوکہ سے لے آیا ہے خداکے لئے مجھے اس ظالم کے پنجے سے نکلواؤ۔ میاں جی اسے تسلی دے کرچلے گئے۔ پھر مولوی صاحب نے میاں جی سے کہا کہ میرے پاس ایک عورت ہے اس سے مجھے بہت محبت ہے مگر اس کا خاوند زندہ ہے کوئی ایسی تدبیر بتائیے کہ وہ عورت میرے قابو میں رہے اور شریعت میں بھی جائز ہو میاں جی نے کہا یہ لوگ یعنی حنفی المذہب مستحل الدم ہیں (یعنی ان کومارڈالنا جائز ہے) ان کامال، مالِ غنیمت ہے ان کی بیویاں ہمارے لئے جائز ہیں، آپ قابو میں لاسکتے ہوں تو شوق سے لائیے اس نے کہا بس مجھے یہی چاہیے تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اور لوگوں کو پتہ چلا انہوں نے اس عورت کے خاوند کو بلایا عورت اس کے حوالے کی اور مولوی کی پٹائی کی۔ ملخصاً(دہلی اور اس کے اطراف ص۰۶،۹۵ مولانا عبدالحی

ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ) مولانا عبدالحی صاحب ہی فرماتے ہیں کہ۔

جامع مسجد دہلی

دوپہر کوکھانا کھانے کے بعد جامع مسجد نماز کے واسطے گیا نمازکے بعد جابجا وعظ ہونے لگا منبر پر مولوی محمد اکبر وعظ کہتے ہیں یہ بزرگ حنفیوں کا خوب خاکہ اڑاتے ہیں۔دل کھول کر تبراکرتے ہیں اور اس بات پر فخرکرتے ہیں کہ ہدایہ پڑھانے سے توبہ کی ہے۔ فرماتے تھے آج کوئی ہے جس نے ہدایہ پڑھانے سے توبہ کرکے کلام مجید کی تعلیم شروع کی ہو۔ سب جہنم میں جائیں گے اور ہر ہر بات پر اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں ہر آیت کو دہلی اور اپنے اوپر اتارتے ہیں اہل دہلی کو ظالمین اور مشرکین سے ملاتے ہیں۔ (دہلی اوراس کے اطراف ص۸۶۔۹۶)

احترام مسجد

غیرمقلدین رات کے وقت مقلدین کی مسجدوں میں غلاظتیں اور گوشت کے سڑے ہوئے ٹکڑے اور دوسری ناپاک اشیاء پھینک جاتے ہیں۔(دہلی اور اس کے اطراف)

مساجد اہل سنت والجماعت کی مساجد عبادت گاہ بھی تھیں اور درس جہاد بھی یہیں ملتا تھا انگریز ان سے بہت خائف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مسجد میں درس جہاد بند ہو اور جہاد کا نام لینے والوں پر مقدمے چلائے جائیں۔ اب شیعہ کا امام باڑہ ہماری مسجد سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ قادیانی بھی الگ تھلگ تھے۔ غیر مقلدین ہماری مساجد میں نماز پڑھنے آتے اور فسادشروع کردیتے تمہارا وضو غلط نماز باطل جمعہ بے کار عیدین غلط جنازے غلط کبھی ہدایہ عالمگیری کا مذاق اڑاتے۔ حنفیوں کو بدعتی ومشرک کہتے فقہ حنفی کو نھیق الحمیر اور فرطۃ البیر سے تشبیہ دیتے (ہداےۃ المہدی ج۱ص۲۰۱) مسائل فقہ کو بمنزلہ خنزیر قراردیتے(ارشاد محمدی ج۲ص۳۱) اور مساجد میں فساد ڈالتے تاکہ یہ لوگ یہیں لڑتے رہیں اور میدان جہاد میں نہ جائیں۔ اگر کوئی سمجھاتا تواس سے گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کرتے۔ حکومت کی طرف رجوع کرتے وفاداری کی چٹھیاں ساتھ لے جاتے اور عدالت میں مقدمہ دائر کردیتے۔ الحیات بعد الممات میں ہے اس زمانہ میں احناف اور اہل حدیث کے درمیان بکثرت مقدمات عدالت دیوانی وفوجداری میں دائر تھے ص۱۱۶ تقلید اور عدم تقلید کی ناگواربحث نے اسقدرطول کھینچا کہ مناظرہ سے مناقشہ اور مناقشہ سے مجادلہ اور مجادلہ سے منازعت تک نوبت پہنچی ایک فریق دوسرے کی تکفیرکرنے لگا اور انگریزی عدالت دیوانی اور فوجداری میں بہ کثرت مقدمات دائر ہوئے اور اب تک ہوتے جاتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو اس قسم کی مقدمہ بازی کو غالباً جہادفی سبیل اللہ سمجھتے ہیں بیشتر مقدمے سب ڈویژن اور ضلع سے گزرکر ہائی کورٹ الہ آباد اور کلکتہ تک پہنچے اور ایک مقدمہ تو پریوی کونسل لنڈن تک لڑا۔جس میں غیر مقلدین کامیاب رہے۔ یعنی اہل حدیث (ص۴۱۶) یہ ان کا اپنا اقرار ہے کہ غیرمقلدین کی تاریخ مساجد میں فساد برپاکرنے کشت وخون کرنے۔ غلاظت پھینکنے اور مسجدوں کو تالے لگواکر عدالتوں میں جانے سے شروع ہوتی ہے جو لوگ جہاد کے بھگوڑے تھے انہوں نے مسجد جیسی عبادت گاہ کو میدان جنگ بنادیا۔ اور اس فساد سے اتنے مقدمات ہوئے کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جامع الشواہد

اہل سنت والجماعت علماء ایک طرف تختہ دار پر لٹک رہے تھے۔ بہت سے کالے پانی بھیجے جاچکے تھے۔ جو کسی طرح بچے تھے ان کو غیرمقلدین نے عدالتوں میں حاضر کروادیا۔ اس پر احناف نے ایک فتویٰ تیارکیا جس کا نام جامع الشواہد فی اخراج الوہابین عن المساجد رکھا۔اس میں تحریر کیا کہ مساجد عبادتگاہ ہیں۔میدان جنگ نہیں جو شخص بلاوجہ مسجد میں فساد برپاکرے اسے مسجد میں نہ آنے دیا جائے اس فتویٰ کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ جس طرح چاہیں نماز پڑھیں مگر اپنی علیحدہ مساجد بنا لیں تاکہ ہماری مساجد فتنہ سے محفوظ ہوجائیں۔لیکن حکومت برطانیہ کومعلوم تھا اگر یہ لوگ حنفی مساجد میں جانے سے رک گئے تو وہ مساجد بھی درس جہاد کا مرکز بن جائیں گی اس لئے حکومت نے ان فتووں کو بے اثر کرنے کے لئے ایک معاہدہ فریقین سے لکھوایا کہ ہر مسجد میں ہر شخص نماز پڑھنے کا مجاز ہے۔ یہ معاہدہ نواب صدیق حسن کی کتاب ترجمان وہابیہ کے آخر میں ص۲۷،۱۷ پر درج ہے۔ اس سے غیر مقلدوں کو مستقل ثانوی تحفظ مل گیا۔ اور وہ ہماری مساجد میں فساد پھیلاتے رہے کاش۔ جس طرح اہل سنت نے ہزاروں کافروں کو مسلمان اہل سنت وجماعت حنفی بنایا تھا اس طرح غیر مقلدین بھی سودوسو سکھوں کو یا بیس پچیس ہندوؤں کو غیر مقلد بناتے لیکن یہ تو صرف مسلمانوں کو لڑانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے تاکہ مسلمان اپنی طاقت خانہ جنگی میں ختم کرتے رہیں۔ اور انگریز بہادر اپنی حکومت بے خوف وخطر کرتا رہا۔لیکن اب تو انگریز جاچکا۔ ملک اپنا ہے حکومت اپنی ہے ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ انگریز کے یہاں آنے سے پہلے جس طرح سب لوگ

امن چین سے رہتے تھے اس طرح اب بھی رہیں۔ وہی نمازوہی روزہ وہی حج رہے اور نئے مسئلے جو یہاں انگریز کے دور میں اٹھے ہیں ان کو ختم کردیں۔

================================================

Download PDF : Ghair-Muqallid-La-Mazhab

================================================

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات