گانے بجانے
کی حرمت
Download PDF: GANEY-BAJANEY-KI-HURMAT
گانا بجانا سننا حرام ہے اور ہر برائی کی جڑ
سوال:ہمارے کالج میں اسلامیات کے پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ موسیقی کے آلات کے ساتھ اچھے گیت، گانے اور قوالیاں سننا شرعاً جائز ہے، اسے ناجائز اور حرام بتلانا مولویوں کی باتیں ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے دف بجایا گیا، بچیاں گاتی رہیں مگر آپ ﷺ نے منع نہ فرمایا، موسیقی کے جدید آلات بھی دف کی ترقی یافتہ شکل ہیں، موسیقی سننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ روح کی غذا ہے اور صوفیہ کرام سماع کا مستقل شغل رکھتے تھے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالئے اور پروفیسر صاحب کے دلائل کا بھی جائزہ لیجئےبینو اتوجروا۔
الجواب باسم ملھم الصواب
ماتم کا مقام ہے کہ جس رسول ﷺ نے راگ باجوں کا مٹانا اپنی بعثت کا مقصد بنایا اسی رسول ﷺ کے نام نہاد اُمتی آج اس گناہ پر دل و جان سے فدا ہیں بلکہ اس بے حیائی کو سند جواز مہیا کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں، ان ظلمت جدیدہ کے متوالوں کو یہ موٹی سی حقیقت کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت چودہ سو سال سے مکمل ہے، اس کا ہر ہر مسئلہ اٹل لازوال اور قیامت تک کے لئے محفوظ ہے تمہاری موافقت یا مخالفت سے کسی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو چیز شرعاً حلال ہے وہ تاقیامت حلال رہے گی اور جو چیز از روئے شرع حرام ہے وہ بھی رہتی دنیا تک حرام ہی رہے گی گو کہ دنیا بھر کے ووٹ اس کے خلاف پڑ جائیں۔
شریعت مطہرہ میں موسیقی کی حرمت کا مسئلہ بھی ایک ایسا بد یہی مسئلہ ہے جس پر دلیل پیش کرنے کی چنداں حاجت نہیں، اس قسم کے قطعی حرام کو مباع و جائز قرار دینے کی جسارت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سرپھرا یہ کہنے لگے کہ شریعت کی رو سے زنا، شراب نوشی، سود خوری اور رشوت جائز ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کی یاوہ گوئی کسی درجہ میں بھی لائق اعتناء نہیں نہ ہی اس قابل ہے کہ اس کی تردید میں وقت ضائع کیا جائے، مگر کیا کیا جائے؟ اس دور ہوا پرستی میں علم و تحقیق کے عنوان سے جو خس و خاشاک بھی پیش کیا جائے اس مبادیات دین سے نا آشنا جدید طبقے میں ”جدید تحقیق“ کے عنوان سے جلد پزیرائی حاصل ہو جاتی ہے، اس طرح ہر کفر و الحاد اس بدقسمت معاشرہ میں بآسانی کھپ جاتا ہے۔
اکبر مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ؎
انھوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں
پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں
ان تمہیدی سطور کے بعد ہم موسیقی کی حرمت کے دلائل پیش کرتے ہیں۔
دلائلِ حُرمت
آیات قرآنیہ:
۱۔ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذ ھا ھزوا ط اولیک لھم عذاب مھین ہ (۱۳:۶)
”اور بعض آدمی ایسا ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کے لئے ذلت کا عذاب ہے“۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن ابی الصہھباء البکری انہ، سمع عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، وھو یسال عن ھذہ الاےۃ (ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ) فقال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ الغناء واللہ الذی لاالہٰ الا ھو یرددھا ثلاث مرات۔ وکذاقال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالیٰ عنھم وعکرمۃ وسعید بن جبیر و مجاھد و مکحول و عمرو بن شعیب وعلی بن بذیمہ رحمہم اللہ تعالیٰ۔
وقال الحسن البصری رحمہ اللہ تعالیٰ نذلت ھذہ الاےۃ (ومن الناس من یشتری لھوالحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم) فی الغناء ولہٰذامیر۔ (تفسیر ابن کثیر ص ۷۵۴ج۳)
”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ لھو الحدیث سے مراد گانا بجانا ہے۔ حضرت ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور حضرت عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمر و بن شعیب اور علی بن بذیمہ رحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ آیت گانے اور راگ باجوں کے متعلق اُتری ہے“
یہی تفسیر قرطبی ص ۱۵ ج ۴۱، بغوی ص۸۰۴ ج ۴، خازن ص۸۶۴ ج ۳، مدارک بھاش خازن ص۸۶۴ ج ۳، مظہری ص۶۴۲ ج ۷ وغیرہ میں مفصل مذکور ہے۔
۲۔ واستفززمن استطعت منھم بصوتک الاےۃ (۷۱:۴۶)
”اور پھسلا لے ان میں سے جس کو تو پھسلا سکے اپنی آواز سے۔“
امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
وقولہ تعالیٰ (واستفز زمن استعطت مھم بصوتک) قبل ھوالغناء قال مجاھد رحمہ اللہ
تعالیٰ باللھو والغناء ای استخفھم بذلک وقال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما فی قولہ (واستفززمن استطعت منھم بصوتک) قال کل داع دغا الیٰ معصےۃ اللہ عزوجل وقالہ قتادۃ رحمہ اللہ تعالیٰ واختارہ ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ۔ (تفسیر ابن کثیر ص۰۵ ج ۳)
”اس آیت میں شیطانی آواز سے گانا بجانا مراد ہے۔ امام مجاہد رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ (اے ابلیس) تو انھیں کھیل تماشوں اور گانے بجانے کے ساتھ مغلوب کر۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں اس آیت میں ہر وہ آواز مراد ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف دعوت دے، یہی قول حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور اسی کو ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا ہے۔“
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ اسی کے ذیل میں فرماتے ہیں۔
ومن العلوم ان الغناء من اعظم الدواعی الی المصےۃ ولھذا فسر صوت الشیطان بہ (اغاثۃ اللھفان ص ۵۵۲ج۱)
”اور سب کو معلوم ہے کہ معصیت کی طرف دعوت دینے والوں میں گانا بجانا سب سے بڑھ کر ہے اسی وجہ سے ”شیطان کی آواز“ کی تفسیر اسی کے ساتھ کی گئی“
۳۔افمن ھذا الحدیث تعجبون موتضحکون ولا تبکون وانتم سامدون (۳۵:۱۶۔۹۵)
”سو کیا تئم لوگ اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اورتم تکبر کرتے ہو۔“
لفظ ”سامدون“ کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما قال الغناء ھی یمانےۃ اسمدلنا غن لنا وکذاقال عکرمۃ رحمہ اللہ تعالیٰ (تفسیر ابن کثیرص ۰۶۲ ج ۴)
”ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس کے معنیٰ ہیں ”گانا“ اور یہی قول عکرمہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔“
تفسیر ابن جریر ص۲۴ ج ۷۲، قرطبی ص۳۲۱ ج ۷۱، روح المعانی ص۲۷ ج ۷۲ وغیرہامیں بھی یہی مذکور ہے۔
۴۔ والذین لا یشھدون الذور واذامرواباللغو مروا کراما (۵۲: ۲۷)
”اور وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور اگر بیہودہ مشغلوں کے پاس کو ہر کر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔“
امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ الذورالغناء(احکام القرآن ص ۷۴۳ ج ۳)
”امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زور کے معنی ہیں گانا بجانا۔“
علامہ حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
وقال محمد بن الحنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ لا یشھدون اللغو الغناء۔ (معالم النزیل ص۱۵۲ ج ۴)
”حضرت محمد بن حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ بیہودہ باتوں اور گانے بجانے کی مجلس میں شامل نہیں ہوتے۔“
امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ مختلف اقوال کو جمع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فاولی الاقوال بالصواب فی تاویلہ ان یفال الذین لا یشھدون الزور شیئا من لباطل لا شرکا ولا غناء ولا کذباً ولا غیرہ وکل مالذمہ اسم الزور۔ (تفسیر ابن جرین ص۹۲ ج ۹۱)
”سب سے صحیح قول یہ ہے کہ یوں کہا جائے: وہ (رحمن کے بندے) کسی قسم کے باطل میں شریک نہیں ہوتے نہ شرک میں اور نہ گانے بجانے میں اور نہ جھوٹ میں اور نہ اس کے علاوہ کسی ایسے عمل میں جس پر ”زور“ کا اطلاق ہو۔“
احادیث مبارکہ:
۱۔ لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والحمر والمعارف (صحیح بخاری)
”میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور راگ باجوں کو حلال قرار دیں گے۔“
۲۔ لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونھا بغیرا سمھا یغرف علیٰ روٗسھم بالمغازف والمغنیات یخسف اللہ بھم الارض ویجعل منھم القردۃ والخنازیر۔ (ابوداوٗد، ابن ماجۃ، ابن حبان)
”میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر، انکی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہونگی، اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر و خنزیر بنا دے گا۔ “
۳۔ عن نافع رحمہ اللہ تعالیٰ ان ابن عمر رضی اللہ عنھما سمع صوت زمارۃ راع ٍ فوضع اصبعیہ فی اذنیہ وعدل راحلتہ عن الطریق وھو یقول یا نافع! یا نافع! اتسمع! فاقول نعم! فمضیٰ حتی قلت لا!فرفع یدہ وحدل راحلۃ الی الطریق وقال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع زمارۃ راع ٍفصنم مثل ھذا (احمد، ابو داوٗد، ابن ماجۃ)
”نافع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو راہ چلتے ایک گڈرئیے کی بانسری کی آواز سنائی دی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور راستہ سے ایک طرف ہٹ کر چلنے لگے اور مجھ سے بار بار پوچھتے: ”کیا بانسری کی آواز تمہیں سنائی دے رہی ہے“؟ میں جواب دیتا جی ہاں! اسی طرح انگلیاں کانوں میں دئیے چلتے رہے، حتیٰ کہ میں نے کہا: ”اب آواز نہیں آ رہی“ تب انگلیاں کانوں سے ہٹائیں اور راستہ چلنے لگے، پھر فرمایا، ایک بار حضور اکرم ﷺکے ساتھ بھی بعینہ یہی واقعہ پیش آیا تو آپ ﷺ نے بھی کانوں میں انگلیاں دے لیں اور یہی عمل فرمایا۔“
سوچنے کا مقام ہے کہ آپﷺ نے جس شیطانی آواز کو لمحہ بھر سننا گوارا نہ فرمایا آج آپ ﷺ کے نام لیوا اس پر اس درجہ فریفتہ ہیں کہ انہیں لمحہ بھر اس کی جدائی گوارا نہیں اور چوبیس گھنٹے ان کی محفلوں کی گرم بازاری اسی لعنت پر موقوف ہے، اور اس کی وباء اتنی کثرت سے ہے کہ کوئی شریف آدمی کسی کوچہ و بازار سے کانوں میں انگلیاں دئیے بغیر گزر نہیں سکتا۔
۴ فی ھذہ الامۃ خسف ومبخ و قذف فقال رجل من المسلمین یا رسول اللہ! ومتی ذلک؟ قال اذاظھرت القیان ومغازف وشربت الخمور (جامع ترمذی)
”اس امت پر یہ آفتیں آئیئں گی زمین میں دھنسنا، شکلوں کا مسخ ہونا،اور پتھروں کی بارش۔ ایک صحابی نے دریافت کیا، یا رسول اللہ! یہ کب ہوگا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب گانے والی عورتوں اور راگ باجوں کا دور دورا ہو گا اور سر عام شراب نوشی ہو گی۔“
۵ ان اللہ عزوجل بعثنی ھدی ورحمۃ للمومنین وامرنی بمحق المزامیر والاوتار والصلیب وامرالجاھلےۃ (احمد، ابوداؤد الطیاسی)
”مجھے اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لئے ہدایت و رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے اور باجے شرکیہ تعویز گنڈے، صلیب اور زمانہ جاہلیت کے غلط کاموں کے مٹانے کا حکم فرمایا ہے“
۶۔ الکوبۃ حرام والدن حرام والمزامیر حرام (مسدد، بیھقی، بزار)
”طبلہ، سارنگی حرام ہیں، اور شراب کے برتن حرام ہیں، اور باجے بانسری حرام ہیں۔“
شراب کے برتنوں کی حرمت کا حکم ابتداء میں تھا جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
۷ الغناء ینیت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل (ابوداؤد، بیھقی، ابن ابی الدنیا)
”گانا بجانا دل میں نفاق اگاتا ہے جیسا کہ پانی سبزے کو اگاتا ہے۔“
۸ وظھرت القینات والمغازف وشربت الخمور ولعن اخرھذہ الامۃ اولھا فارتقبوا عند ذلک ریخاحمراء وزلزلۃ وخسفاو سخارقذ فاواٰیات تتابع کنظام بال قطع سلکہ (جامع ترمذی)
”جب گانے والی عورتوں اور راگ باجوں کا ظہور ہو اور شرابیں کثرت سے پی جائیں۔
اور اس امت کے آخری لوگ پہلے زمانہ کے لوگوں پر طعن و تشنیع کرنے لگیں تو ایسے وقت ان عذابوں کا انتظار کرو، سرخ آندھیاں، زلزلے، زمین میں دھنسنا، شکلوں کا بگڑنا، پتھروں کی بارش، اور ایسی نشانیاں جو پے درپے اس طرح آئیں جیسے پرانا بوسیدہ ہار جس کی لڑی ٹوٹ جائے اور دانے ایک ایک کر کے بکھر جائیں۔
۹ اذا فعلت امتی خمس عشرہ خصلۃ حلت بھا البلاء وفیھا واتخذت القیان والمغازف (جامع ترمذی)
”جب میری امت یہ پندرہ کام بکثرت کرنے لگے تو ان پر مصیبت اترے گی منجملہ ان کے ایک یہ کہ گانے والی عورتیں اور باجے بانسریاں عام ہو جائیں۔“
۰۱ صوتان ملعومان فی الدنیا والا خرۃ مزما ر عند نغمہ ورنۃ عند مصیبۃ۔ (البزار، بیھقی، ابن مردویۃ)
”دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں، ایک گانے کے ساتھ راگ باجوں کی آواز، دوسری مصیبت کے وقت چیخنے چلانے کی آواز۔“
۱۱ نھیت عن صوتین احمقین ناجرین صوت عند نغمۃ لھو ولعب ومزامیر الشیطان وصوت عند مصیبۃ لطم وجوہ شق جیوت۔ (مسند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ص ۰۴ ج ۱، مصنف ابن ابی شیبہ ص ۳۹۳ ج۳ وغیرھا)
”میں دو حماقت اور فسق و فجور سے بھری آوازوں سے روکتا ہوں ایک لہو لعب اور شیطانی باجوں کے ساتھ گانے کی آواز، دوسری مصیبت کے وقت چہرے پیٹنے اور گریبانوں کو چاک کر کے نوحہ کی آواز۔“
۲۱ الجرس مزامیر الشیطان (صحیح مسلم، سنن ابی داؤد)
”گھنٹی شیطان کے باجے ہیں۔“
۳۱ یمسخ قوم من ھذہ الامۃ فی اخرالزمان قردۃ وخنازیر قالوا یا رسول اللہ الیس شیھدون ان لا الٰہ الا اللہ وان محمدرسول اللہ قال بلٰی ویصومون ویحجون ویصلون قبل فما بالھم؟ قال اتخذوا المغازف والقینات (مسند ابن ابی الدنیا)
”آخر زمانہ میں اس امت کے کچھ لوگ بندروں خنزیروں کی صورت میں مسخ کئے جائیں گے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسوال اللہ! کیا وہ اس بات کی گواہی نہ دیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ روزے رکھیں گے، حج کریں گے اور نماز پڑھیں گے، عرض کیا گیا پھر کس سبب سے یہ عذاب ہو گا؟ فرمایا: راگ باجوں اور گانے والی لونڈیوں کا شغل اختیار کرنے کے سبب۔“
اختصار کے پیش نظر ہم انہی چند روایات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کی کتاب ”کشف العناء عن وصف
الغناء“ مندرج احکام القرآن ص۳۰۲ ج ۳ اس موضوع پر جامع ترین کتاب ہے، جس میں مزید کئی روایات ہیں، مولانا عبدالمعز صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے بنام ”اسلام اور موسیقی“اس میں اور بھی بہت زیادہ روایات جمع کر دی ہیں۔
اجماع ائمہ اربعہ رحم اللہ تعالیٰ:
گانے بجانے کی حرمت پر ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا اجماع منعقد ہے اور ان کے مذاہب کی مستند کتب سے اس پر بیسیوں عبارات پیش کی جا سکتی ہیں مگر ہم صرف ایک ایک عبار ت پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ امام زین الدین ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
(قولہ ادیغیق الناس) لانہ یجمع الناس علی ارتکاب کبیرۃ کذانی الھدایۃ وظاہرۃ ان: الغناء کبیرۃ وان لم یکن للناس بل لا سماع نفسہ ر فقا للوحشۃ، وھو قول شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالیٰ فانہ قال بعموم المنع۔
وفی المعراج الملاھی تو غان محرم وھوالالات المطربۃ من غیر الغناء کالمزمار سواء کان من عود اوقصب کا لشیا بۃ اوغیرہ کالعود رالمنلقبورلماروی ابوانامۃ رضی اللہ عنہ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال ان اللہ بعثنی رحمۃ للعالمین وامرنی بمحق المغازف والمزامیر ولانہ مطرب مصد عن ذکر اللہ تعالیٰ والنوع الثانی مباح وھوا لدج فی النکاح۔
(البحرالر۔۔۔ ص ۸۸ ج ۷)
”لوگوں کے سامنے گانے والے کی شہادت قبول نہیں اس لئے کہ وہ لوگوں کو ایک کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جمع کر رہا ہے، ہدایہ میں یونہی ہے، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ گانا ایک کبیرہ گناہ ہے گو کہ لوگوں کے لئے نہ گایا جائے بلکہ وحشت و تنہائی دور کرنے کے لئے صرف اپنے لئے گایا جائے، اور یہی شیخ الاسلام خواہر زادہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ انھوں نے گانے کو مطلقاً منع لکھا ہے۔
اور معراج الدارےۃ میں ہے کہ کھیل تماشے دو قسم کے ہیں، ایک تو حرام ہے، اور وہ ہے گائے بغیر صرف ہیجان، مستی پیدا کرنے والے آلات کی آواز جیسے بانسری خواہ لکڑی کی ہو یا نرکل کی جیسے شبابہ یا بانسری کے سوا کوئی اور آلہ ہو جیسے عود و طنبور۔
حرمت کی وجہ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے باجے تاشے اور بانسریاں مٹانے کا حکم فرمایا ہے۔
حرمت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ مستی آور اور ذکر الٰہی سے مانع ہے۔
اور تفریح کی دوسری قسم جائز ہے اور وہ ہے نکاح کے موقع پر دف بجانا۔“
اکثر فقہا ء رحمہم اللہ تعالیٰ نے اے بھی ناجائز قرار دیا ہے،تفصیل آگے آ رہی ہے۔
۲۔ علامہ محمد بن حطاب مکلی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قال فی التوضیح الغناء ان کان بغیر الۃ فھو مکروہ
وامّا الغناء با ٰ لۃ فان کانت ذات اوتار کالعود والطنبور فممنوع و کذلک المزنار والظاھر عند بعض العماء ان ذلک یلحق بلمح رمات وان کان محمد اطلق فی سماع العودانہ مکروہ، وقد یرید بذلک التحریم۔ ونص محمّد بن الحکیم علیٰ ان سماع انحود تردّبہ الشھادۃ قال وان کان ذلک مکروھا علی کل حال وقدیریدیالکراھۃ التحریم کما۔۔۔ منا (مراھب الجلیل ص ۳۵۱ ج ۶)
”توضیح میں ہے کہ گانا اگربغیر آلات موسیقی کے ہو تو وہ مکروہ ہے، یہاں مکروہ سے مراد حرام ہے۔
اور آلات کے ساتھ گانا اگر ایسے آلہ کے ساتھ ہے جو تاروں والا ہے جیسے عود اور طنبور تو یہ گانا ممنوع ہے اور اسی طرح بانسری بھی ممنوع ہے۔
محمد بن حکیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے تصریح فرمائی ہے کہ عود سننے والے کی گواہی رد کی جائے گی، اس کا سننا ہر حال میں مکروہ ہے، یہاں مکروہ سے حرام مراد ہے جیسے گزر چکا ہے۔“
۳۔ امام ابو حامد غزالی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ حرمت غنار کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ، سفیان ثوری، مالک بن انس و دیگر علماء رحمہم اللہ تعالیٰ کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔:
وقال الشافعی رحمہ اللہ فی کتاب اٰداب القضاء: ان الغناء لھو مکروہ یشبہ الباطل ومن استکثر منہ فھو سفیہ تردّ شھادتہ۔
قال الشافعی رضی اللہ عنہ صاحب الجاریۃ اذا جمع الناس لسر عھا فھو سفیہ تردّ شھادتہ
وحکی عن الشافعی رحمہ اللہ انہ کان یکرہ الطقطقۃ بالقضیب ویقول وضعتہ الزّنا دقۃ لیشتغلوابہ عن القران (احیاء علوم الدین ص ۹۶۲ ج ۲ )
”امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کتاب آداب القضاء میں لکھتے ہیں کہ گانا بجانا ایک مکروہ اور باطل مشغلہ ہے جو اس میں زیادہ انہماک رکھے وہ احمق ہے، اس کی گواہی رد کر دی جائے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گانے والی لونڈی کا مالک اگر گاناسنانے کے لئے لوگوں کو جمع کرے تو وہ بھی احمق اور مردوالشہادۃ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ چھڑی بجانے سے جو ٹک ٹک کی آواز پیدا ہو وہ بھی مکروہ و ناپسندیدہ ہے یہ فتنہ زندیق لوگوں کی ایجاد ہے تاکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو قرآن مجید سے غافل کردیں۔“
۴۔ علامہ علی بن سلمان مرداوی حنبلی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
قال فی الرعایۃ یکرہ سماع الغناء والنوح بلا اٰ لۃ لھو و یحرم معھا وقیل بدونھا من رجل وامراٗۃ (الانصاف ص ۱۵ ج ۲۱)
”الرعاےۃ میں ہے کہ گانا اور نوحہ آلات موسیقی کے بغیر مکروہ ہے، اور ان آلات کے ساتھ حرام ہے، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان آلات کے بغیر بھی حرام ہی ہے۔ خواہ مرد کی آواز ہو یا عورت کی۔“
آگے لکھتے ہیں:
قال فی الفروع یکرہ غناء وقال جماعۃ یحرم وقال فی الترغیب اختارہ الاکثر۔ (حوالہ بالا )
”فروع میں لکھا ہے کہ گانا مکروہ ہے اور علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ حرام ہے، اور ترغیب میں لکھا ہے کہ اکثر حضرات نے اس قول حرمت کو اختیار کیا ہے“
نتیجہ میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ مکروہ بھی بحکم حرام ہی ہے۔
عذر گناہ:
موسیقی کے جواز پر عموماً دو دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
۱۔ شادی کے موقع پر دف بجانا حدیث سے ثابت ہے اور موسیقی بھی دف ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
جواب: احادیث میں جس دف کا ذکر ہے وہ صرف نکاح کے موقع پر کچھ دیر کے لئے بجایا جاتا تھا، شادی کے علاوہ بلا ضرورت دف بجانے والوں کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ درّوں کی سزا دیتے تھے۔
ان الفاروق رضی اللہ عنہ افاسمع صوت الدّفّ بعث ینظرفان کان فی الو۔۔۔۔سکت وان کان فی غیرہ عمد بالدرۃ (فتح القدیر ص ۶۳ ج۶، البحرالرائق ص ۸۸ ج ۷ )
پھر دف پیٹنے والی عموماً بچیاں ہوتی تھیں مردوں کا دف پیٹنا کہیں ثابت نہیں۔
پھر دف بھی اہل عرب کی عادت کے مطابق بالکل سادگی سے پیٹا جاتا تھا نہ اس میں جھانجھ ہوتی تھی نہ رقص و سرود یا طرب و مستی کا کوئی اور نشان، فی زمانا ایسے دف کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔
معہذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت سے دف پیٹنے کی گنجائش بھی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے، احناف میں سے اکثر فقہا، رحمہم اللہ تعالیٰ اسے بھی ناجائز قرار دیتے ہیں۔
قال التور بشتی رحمہ اللہ تعالیٰ انہ حرام علیٰ قول اکثر المشایخ وماورد من ضرب الدف فی العرس کنایۃ عن الاعلان (امداد الفتاویٰ ص ۳۸۲ ج۲ )
”امام تورپشتی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دف اکثر مشایخ کے قول کے مطابق حرام ہے اور شادی کے موقع پر جو دف بجانا ثابت ہے اس سے اعلان و تشہیر مراد ہے۔“
امداد الفتاویٰ میں تورپشتی رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول بحوالہ شرح نقایہ نصاب الاحتساب و بستان العارفین منقول ہے، آخری دو کتابیں موجود نہیں، شرح نقایہ میں سرسری تلاش سے دستیاب نہیں ہوا، بہر حال نصوص محرمہ کے پیش نظر یہ توجیہ کرنا لازم ہے، اور یہ کوئی تاویل بعید نہیں عام محاورات کے مطابق ہے۔
اعلان و تشہیر کے لئے یہ کنایہ عرف عام میں بہت مشہور اور زبان زد ہے، مثلاً:
”ببانگ دہل کہہ رہے ہیں“
”ڈھول بجا رہے ہیں۔“
”ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔“
”نقارہ پیٹ رہے ہیں۔“
ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ یہ اختلاف سادہ دف کے متعلق ہے، ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
المرادبہ الدف الذی کان فی زمن المتقد مین واماما علیہ الجلاجل فینبغی ان کون مکروھا بالا تفاق (مرقاۃ المفاتیح ص ۰۱۲ ج ۶ )
”اس سے مراد و ہ دف ہے جو متقد مین کے دور میں استعمال ہوتا تھا، جھانجھ دار دف بالا تفاق مکروہ ہے۔“
مکروہ کا اطلاق حرام پر کیا گیا، جیسے اوپر گزرا۔
۲۔ بعض صوفیہ سے منقول ہے کہ وہ ساز بجا کر سماع کرتے تھے۔
جواب: اول تو مسائل شرعیہ میں کسی صوفی کے قول و عمل سے استناد خلاف اصول ہے، اس موقع پر حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ جو خود بہت بڑے صوفی اور عارف ہیں ان کا یہ ارشاد یاد رکھنے کے قابل ہے:
عمل صوفیہ درحل و حرمت سند نیست ہمیں بس است کہ ما ایشان راسعذور داریم و ملامت نہ کنیم، ومرایشان رابحق سبحانہ وتعالیٰ مفوض داریم، اینجا قول ابی حنیفہ و امام ابی یوسف و امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ معتبراست نہ عمل ابوبکر شبلی دابوحسن نوری رحمہما اللہ تعالیٰ۔(مکتوبات صفحہ ۵۳۲ دفتر اول)
”حلت و حرمت میں صوفیہ کا عمل حجت نہیں، بس اتنا ہی کا کہ ہم انہیں معذور گردانیں اور ان پر ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں، یہاں امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول معتبر ہے نہ کہ ابوبکر شبلی و ابوالحسن نوری رحمہا اللہ تعالیٰ کا عمل۔“
دوسرے ان صوفیہ کا سماع مخصوص احوال میں بطور دواء و علاج ہوتا تھا اور اس میں و ہ حضرات بہت سی شرائط ملحوظ رکھتے تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
قال الخیر الرملی رحمہ اللہ تعالیٰ:
ومن اباحہ من المشایخ الصوفیہ فلمن تخلی عن الھویٰ و تحلی بالتقویٰ واحتاج الی ذٰ لک احتیاج المریض الی الدواء ولہ شرائط:
احدھا: ان لایکون فیھم امرد۔
والثانی: ان لایکون جمیعم الامن جنسھم لیس فیھم فاسق ولا اھل الدنیا ولا امراٗۃ۔
والثالث: ان تکون نیۃ القوّال الاخلاص لا اخذ الاجرو الطعام۔
والرّابع: وان لا یجتمعوا لاجل طعام اوفتوح۔
والخامس: لایقومون الا مغلوبین۔
والسادس:لایظھرون وجدّالّا صالغین (الفتاوی ٰ الخیریۃ ص ۹۷۱ ج ۲ )
”اور مشایخ صوفیہ میں سے جس نے سماع کو جائز کہا ہے تو ان شرطوں سے کہ صاحب سماع خواہش نفس سے پاک اور زیور تقویٰ سے مزین ہو اور سماع کے لئے اسے ایسی احتیاج و مجبوری ہو جیسے مریض کو دواء کے لئے ہوتی ہے، اور اس کے جواز کے لئے کئی شرائط ہیں:
پہلی شرط: سماع کرنے والوں میں کوئی بے ریش نہ ہو۔
دوسری شرط: سب عارفین کا ملین ہوں، ان میں کوئی فاسق و فاجر طالب دنیا اور عورت نہ ہو۔
تیسری شرط: قوال کی نیت اخلاص پر مبنی ہو مزدوری، معاوضہ، اور کھانا مد نظر نہ ہو۔
چوتھی شرط: مجمع کھانے یا دیگر دنیوی اغراض کے لئے اکٹھا نہ ہو ا ہو۔
پانچویں شرط: اس دوران قیام نہ کریں الایہ کہ مغلوب اور بے خود ہو جائیں۔
چھٹی شرط: وجدو مستی کا اظہارنہ کریں الایہ کہ سچے ہوں، ریاو تصنع نہ ہو۔“
پھر ان شرائط کی پابندی کے ساتھ بھی سماع صرف کا مل درجہ کے منتہی عارفمین کرتے تھے۔ مبتدی سالک کو سختی سے منع فرماتے تھے۔
امام الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سماع سے توبہ کی کہ اب ان شرطوں کی پابندی اٹھتی جا رہی ہے۔
قال الشیخ السھروردی رحمہ اللہ تعالیٰ:
وقیل ان الجنید ترک السماع فقیل لہ کنت تستمع؟ فقال مع من؟ قیل لہ تسمع لنفسک؟ فقال ممّن؟ لانھم کانو الا یسمعون الامن اھل مع اھل فلما فقد الاخوان ترک فما اختارو االسماع حدیث اختاروہ الا بشروط وقیود و اٰداب
(عوارف المعارف ص ۴۱۱ ج ۱)
”حضرت جنید رحمہ اللہ تعالیٰ نے سماع چھوڑ دیا تھا، آپ سے دریافت کیا گیا: آپ سنتے نہیں؟ فرمایا: کس کے ساتھ؟ عرض کیا گیا: آپ تنہائی میں سنتے ہیں؟ فرمایا: کس سے؟ یہ حضرات قیود و شروط سے سنتے تھے جب وہ منعقود ہو گئیں تو سماع چھوڑ دیا۔“
حضرت مفتی اعظم قدس سرہ رقمطراز ہیں:
ان ھذہ الشرائط لا تکاد توجد فی زما ننا فلا رخصۃ فی السماع فی عصرنا اصلا کیف؟ وقد تاب سیّد الطائفۃ جنید قدس سرہٗ عن السماع لعدم استجماع الشرائط فی عصرہ۔
(احکام القراٰن ص ۲۳۲ ج ۳)
”یہ شرائط ہمارے زمانہ میں قطعاً نہیں پائی جاتیں، لہذا اس دور میں سماع کی قطعاً اجازت نہیں، اور اجازت ہو بھی کیونکر؟ جبکہ سیدالطائفہ حضرت جنید قدس سرہ، نے بائیں سبب سماع سے توبہ کی تھی کہ ان کے زمانہ میں تمام شرائط کی پابندی نہ رہی۔“
کوئی انصاف سے کہے کہ آج کل کی قوالی کی صوفیہ کے سماع سے کوئی دور کی نسبت بھی ہے؟
صوفیہ کا مقصد و حیدا صلاح قلب تھا جبکہ یہاں حظ نفس اور لذت کو شی کے سوا کوئی دوسرا مقصد ہی نہیں۔
باقی یہ دلیل کہ موسیقی روح کی غذاء ہے لاجواب ہے۔ واقعی! جو خبیث روحین قرآن و حدیث کی شیریں آواز سے چین نہ پاتی ہوں، اور ذکر اللہ کی شراب صافی سے بھی انہیں حظ نہ ملتا ہو تو انکی غذا غناء و مزا میرا ور موسیقی ہی ہو سکتی ہے، نصیب اپنا اپنا۔
خلاصہ:
راگ باجوں، سازو موسیقی اور مروج قسم کی قوالیوں کا سننا شریعت کی رو سے حرام ہے، ان منکرات کو جائز کہنا الحاد و بے دینی کے سوا کچھ نہیں انہیں جائز ثابت کرنے کی نامبارک کوششیں در حقیقت وہی الحاد ہے جس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ اس امت کے کچھ لوگ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کریں گے مگر جائز و حلال سمجھ کر۔واللہ العاصم من جمیع الفتن وھو الھادی الی سبیل الرشاد۔