Kufar o Islam ka Mayra Kye He
Sharing is Caring

سوالِ اوَّل

کفرواسلام کامعیار کیا ہے اور کس وجہ سے کسی مسلمان کو مرتد یا خارج ازاسلام کہاجاسکتا ہے؟

الجواب!

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم @ [email protected]، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

Download PDF

Kufaar-o-Islam

Download PDF

ارتداد کے معنی لغت میں پھر جانے اور لوٹ جانے کے ہیں۔ اور اصطلاح شریعت میں ایمان واسلام سے پھر جانے کو ارتداد اور پھرنے والے کو مرتد کہتے ہیں۔ اور ارتداد کی صورتیں دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ کوئی کم بخت صاف طور پر تبدیل مذہب کرکے اسلام سے پھر جائے۔ جیسے عیسائی، یہودی، آریہ سماجی وغیرہ مذہب اختیارکرے یاخداوندِعالم کے وجود یا توحید کامنکر ہوجائے۔ یاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کردے (والعیاذباللہ تعالیٰ)۔

دوسرے یہ کہ اس طرح صاف طور پر تبدیل مذہب اور توحید ورسالت سے انکار نہ کرے۔لیکن کچھ اعمال یا اقوال یا عقائد ایسے اختیارکرے جو انکارقرآن مجید یا انکارِرسالت کے مرادف وہم معنی ہیں۔ مثلاً اسلام کے کسی ایسے ضروری وقطعی حکم کا انکار کر بیٹھے جس کا ثبوت قرآن مجید کی نص صریح سے ہو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق تواتر ثابت ہواہو۔ یہ صورت بھی باجماعِ اُمت ارتداد میں داخل ہے اگرچہ اس ایک حکم کے سوا تمام احکام اسلامیہ پر شدت کے ساتھ پابند ہو۔

ارتدادؔ کی اس دوسری صورت میں اکثر مسلمان غلطی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ اور یہ اگرچہ بظاہر ایک سطعی اور معمولی غلطی ہے۔ لیکن اگر اس کے ہولناک نتائج پر نظر کی جائے تو اسلام اور مسلمان کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیز مضر نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں کفرواسلام کے حدود ممتاز نہیں رہتے کافرومومن میں کوئی امتیاز نہیں رہتا۔ اسلام کے چالاک دشمن اسلامی برادری کے ارکان بن کر مسلمانوں کے لئے”مارآستین“ بن سکتے ہیں۔ اور دوستی کے لباس میں دشمنی کی ہر قرارداد کو مسلمانوں میں نافذ کرسکتے ہیں۔

اس لئے مناسب معلوم ہواکہ اس صورت ارتداد کی توضیح کسی قدر تفصیل کے ساتھ کردی جائے اورچونکہ ارتداد کی صحیح حقیقت ایمان کے مقابلہ ہی سے معلوم ہوسکتی ہے اس لئے پہلے اجمالاًایمان کی تعریف اور پھر ارتداد کی حقیقت لکھی جاتی ہے۔

ایمان وارتداد کی تعریف

ایمان کی تعریف مشہورومعروف ہے جس کے اہم جزو دوہیں۔ ایک حق سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان لانا۔ دوسرے اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر۔لیکن جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان کے یہ معنی نہیں کہ صرف اُس کے وجود کا قائل ہوجائے بلکہ اُس کی تمام صفاتِ کاملہ علم، سمع،بصرؔ، قدرت وغیرہ کو اُسی شان کے ساتھ مانناضروری ہے جو قرآن وحدیث میں بتلائی ہیں۔ ورنہ ےُوں تو ہرمذہب وملت کا آدمی خداکے وجود وصفات کو مانتا ہے۔ یہودی، نصرانی، مجوسی،ہندوؔ سب ہی اس پر متفق ہیں۔

اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ آپ کے وجود کو مان لے کہ آپ مکہ معظمہ میں پیداہوئے۔ اور مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی۔ تریسٹھ سال عمر ہوئی فلاں فلاں کام کئے۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی حقیقت وہ ہے جو قرآن مجید نے بالفاظِ ذیل بتلائی ہے:۔

Kufar o Islam 1

Kufar o Islam 2

آیت مذکورہ اور اُس کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ رسالت پر ایمان لانے کی حقیقت یہ ہے کہ رسول کے تمام احکام کو ٹھنڈے دل سے تسلیم کیا جائے اور اس میں کسی قسم کا پس وپیش یاتردد نہ کیا جائے۔

اورؔ جب ایمان کی حقیقت معلوم ہوگئی تو کفروارتداد کی صورت بھی واضح ہوگئی کیونکہ جس چیز کے ماننے اور تسلیم کرنے کانام ایمان ہے۔ اُسی کے نہ ماننے اور انکار کرنے کا نام کفروارتداد ہے (صرح بہ فی شرح المقاصد) اور ایمان وکفر کی مذکورہ تعریف سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کفر صرف اسی کانام نہیں کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے نہ مانے۔بلکہ یہ بھی اُسی درجہ کا کفر اور نہ ماننے کا ایک شعبہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام قطعی ویقینی طور پر ثابت ہیں اُن میں سے کسی ایک حکم کے تسلیم کرنے سے (یہ سمجھتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔) انکارکردیاجائے اگرچہ باقی سب احکام کو تسلیم کرے اور پورے اہتمام سے سب پر عامل بھی ہو۔

اوروجہ یہ ہے کہ کفروارتداد حضرت مالک الملک والملکوت کی بغاوت کا نام ہے اور سب جانتے ہیں کہ بغاوت جس طرح بادشاہ کے تمام احکام کی نافرمانی اور مقابلہ پر کھڑے ہوجانے کو کہتے ہیں اسی طرح یہ بھی بغاوت ہی سمجھی جاتی ہے کہ کسی ایک قانونِ شاہی کی قانون شکنی کی جائے اگرچہ باقی سب احکام کو تسلیم کرلے۔

شیطانؔ ابلیس جودنیا میں سب سے بڑا کافر اور کافر گر ہے۔اُس کا کفر بھی اسی دوسری قسم کا کفر ہے کیونکہ اُس نے بھی نہ تبدیل مذہب کیا نہ خداتعالیٰ کے وجود قدرت وغیرہ کا انکار کیا نہ ربوبیت سے منکر ہواصرف ایک حکم سے سرتابی کی جس کی وجہ سے ابدالآباد کے لیے مطرودوملعون ہوگیا۔

Kufar o Islam 3

الغرض ارتداد صرف اُسی کو نہیں کہتے کہ کوئی شخص اپنا مذہب بدل دے یا صاف طور پرخدااور رسول کامنکر ہوجائے بلکہ ضروریاتِ دین کا انکار کرنا اورقطعی الثبوت والدلالۃ احکام میں کسی ایک کابعد علم انکار کردینا بھی اُسی درجہ کا ارتداد اورکفر ہے۔

تنبیہ:ہاں اس جگہ دوباتیں قابلِ خیال ہیں۔ اول تو یہ کفر وارتداد اُس صورت میں عائد ہوتا ہے جب کہ حکم قطعی کے تسلیم کرنے سے انکار اورگردن کشی کرے اوراُس حکم کے واجب التعمیل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے لیکن اگر کوئی شخص حکم کوتوواجب التعمیل سمجھتا ہے مگر غفلت یا شرارت کی وجہ سے اُس پر عمل نہیں کرتا تو اس کو کفروارتداد نہ کہاجائے گا اگرچہ ساری عمر میں ایک دفعہ ایک دفعہ بھی اس حکم پر عمل کرنے کی نوبت نہ آئے بلکہ اس شخص کو مسلمان ہی سمجھاجائے گا۔ اور پہلی صورت میں کہ کسی حکم قطعی کو واجب التعمیل ہی نہیں جانتا اگرچہ کسی وجہ سے وہ ساری عمر اُس پر عمل بھی کرتا رہے جب بھی کافر مرتد قراردیاجائے گا۔ مثلاً ایک شخص پانچوں وقت کی نماز کا شدت کے ساتھ پابندہے مگر فرض اور واجب التعمیل نہیں جانتا یہ کافر ہے اور دوسراشخص جو فرض جانتا ہے مگر کبھی نہیں پڑھتا وہ مسلمان ہے اگرچہ فاسق وفاجر اورسخت گناہگار ہے۔

دوسری بات قابلِ غور یہ ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے احکامِ اسلامیہ کی مختلف قسمیں ہو گئی ہیں۔ تمام اقسام کا ایک بارہ میں ایک حکم نہیں۔ کفروارتداد صرف اُن احکام کے انکار سے عاید ہوتا ہے جو قطعی الثبوت بھی ہوں اور قطعی الدلالت بھی۔ قطعی الثبوت ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ اُن کا ثبوت قرآن مجید یا ایسی احادیث سے ہو جن کے روایت کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر آج تک ہر زمانہ اور ہر قرن میں مختلف طبقات اور مختلف شہروں کے لوگ اس کثرت سے رہے ہوں کہ اُن سب کا جھوٹی بات پر اتفاق کرلینا محال سمجھاجائے (اسی کو اصلاح حدیث میں تواتر اور ایسی احادیث کو احادیثِ متواترہ کہتے ہیں)

اور قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جوعبارت قرآن مجید میں اس حکم کے متعلق واقع ہوئی ہے یا حدیثِ متواترہ سے ثابت ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم مراد کو صاف صاف ظاہر کرتی ہو اُس میں کسی قسم کی اُلجھن نہ ہو کہ جس میں کسی کی تاویل چل سکے۔

پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص وعام میں اس طرح مشہور ومعروف ہوجائیں کہ اُن کا حاصل کرنے کسی خاص اہتمام اور تعلیم وتعلم پر موقوف نہ رہے بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو وراثۃً وہ باتیں معلوم ہوجاتی ہوں۔جیسے نمازؔ،روزہ، حج، زکوٰۃ کا فرض ہونا چوری، شراب خوری کا گناہ ہونا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو ضروریاتِ دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اورجواس درجہ مشہور نہ ہوں وہ

صرف قطعیات کہلاتے ہیں ضروریات نہیں۔

اورضروریات اور قطعیات کے حکم میں یہ فرق ہے کہ ضروریاتِ دین کا انکار باجماعِ اُمت مطلقاً کفر ہے ناواقفیت وجہالت کو اس میں عذر نہ قراردیاجائے گا اور نہ کسی قسم کی تاویل سُنی جائے گی۔

اورقطعیتِ محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچتے تو حنفیہ کے نزدیک اُس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عام آدمی بوجہ ناواقفیت وجہالت کے اُن کا انکار کر بیٹھے تو ابھی اس کے کفر وارتداد کا حکم نہ کیاجائے گا بلکہ پہلے اُس کو تبلیغ کی جائے گی کہ یہ حکم اسلام کے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت احکام میں سے ہے اس کا انکار کفر ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنے انکار پر قائم رہے تب کفر کا حکم کیاجائے گا۔

Kufar o Islam 4

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح کفروارتداد کی ایک قسم تبدیل مذہب ہے اسی طرح دوسری قسم یہ بھی ہے کہ ضروریاتِ دین اور قطعیاتِ اسلام میں سے کسی چیز کا انکار کردیاجائے یاضروریات دین میں کوئی ایسی تاویل کی جائے جس سے اُن کے معروف معانی کے خلاف معنی پیداہوجائیں اور غرض معروف بدل جائے اور ارتداد کی اِس قسم دوم کا نام قرآن کی اصطلاح میں الحاد ہے۔

قال تعالیٰ ان الذین یلحدون فی اٰیاتنالایخفون علینا۔ الاےۃ۔

جولوگ ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے۔

اورحدیث میں اس قسم کے ارتداد کا نام زندقہ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ صاحب مجمع البحار نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے:۔

اورعلمائے کلام اور فقہاء اس خاص قسم ارتداد کا نام باطنیت رکھتے ہیں۔ اور کبھی وہ بھی زندقہ کے لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں۔

شرحؔ مقاصد میں علامہ تفتازانی اقسامِ کفر کی تفصیل اس طرح نقل فرماتے ہیں۔

”یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ کافر اُس شخص کا نام ہے جو مومن نہ ہو۔ پھر اگر وہ ظاہر میں ایمان کا مدعی ہو تو اُس کو منافق کہیں گے۔ اور اگر مسلمان ہونے کے بعد کفر میں مبتلا ہوا ہے تو اُس کا نام مرتد رکھاجائے گا۔ کیونکہ وہ اسلام سے پھر گیا ہے۔ اور اگر دویا دو سے زیادہ معبودوں کی پرستش کا قائل ہو تو اُس کو مشرک کہاجائے گا۔ اور اگر ادیانِ منسوخہ یہودیت وعیسائیت وغیرہ میں کسی مذہب کا پابند ہو تو اُس کو کتابی کہیں گے۔اور اگر عالم کے قدیم ہونے کا قائل ہو اور تمام واقعات وحوادث کو زمانہ کی طرف منسوب کرتا ہو تو اُس کو دہریہ کہاجائے گا اوراگر وجود باری تعالیٰ ہی کا قائل نہ ہو تواُس کو معطل کہتے ہیں اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اقرار اور شعار اسلام نماز روزہ وغیرہ کے اظہار کے ساتھ کچھ ایسے عقائد دلی رکھتا ہو جو بالاتفاق کفر ہیں تو اُس کو زندیق کہاجاتا ہے (ترجمہ عبارت شرح مقاصد ص۸۶۲وص۹۶۲ج۲) ومثلہ فی کلیات ابی البقاء ص۳۵۵وص۴۵۵)

زندیق کی تعریف میں جو عقائد کفریہ کا دل میں رکھنا ذکرکیا گیا ہے اُس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مثل منافق کے اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتا بلکہ یہ مراد ہے کہ اپنے عقیدہئ کفریہ کو ملمع کرکے اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔

کماذکرہ الشامی حیث قال فان الزندیق یموہ کفرہ ویروج عقیدتہ الفاسدۃ ویخرجہاً فی الصورۃ لصیحۃ وھذامعنی ابطان الکفر فلایتا فی اظہارہ الدعوی۔

(شامی باب۱ المرتد ص۸۵۴ج۳)

علامہ شامی نے فرمایا ہے کہ زندیق اپنے کفر پر ملمع سازی کرتا ہے اور اپنے عقیدہئ فاسدہ کورائج کرنا چاہتا ہے اور اُس کو عمدہ صورت میں ظاہر کرتا ہے اور زندیق کی تعریف میں جو یہ لکھاجاتا ہے کہ وہ اپنے کفر کو چھپاتا ہے اس کا یہی مطلب  ہے (کہ وہ اپنے کفر کو ایسے عنوان اور صورت میں پیش کرتا ہے جس سے لوگ مغالطہ میں پڑجائیں) اس لئے اخفاء کفر اظہاردعوٰی کے منافی نہیں۔

کفر کی اقسام مذکورہ بالا میں سے آخری قسم اس جگہ زیر بحث ہے جس کے متعلق شرح مقاصد کے بیان سے ظاہر ہوگیا کہ جس طرح اقسامِ سابقہ کفر کے انواع ہیں اسی طرح یہ صورت بھی اُسی درجہ کا کفر ہے کہ کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور قرآن مجید کے احکام کو تسلیم کرنے کے باوجود صرف بعض احکام وعقائد میں اختلاف رکھتا ہو اگرچہ دعوٰی مسلمان ہونے کا کرے اور تمام ارکانِ اسلام پر شدت کے ساتھ عامل بھی ہو۔

ایک شبہ کا جواب

یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کتب فقہ وعقائد میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں نیز بعض احادیث سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہے۔

کمارواہ ابوداؤد فی الجھاد عن انسؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلث من اصل الایمان الکف عمن قال لاالہ الااللہ ولا تکفرہ بذنب ولا تخرجہ من الاسلام بعمل الحدیث۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ ایمان کی اصل تین چیزیں ہیں ایک یہ کہ جوشخص کلمہ لاالہ الا اللہ کا قائل ہو۔اُس کے قتل سے بازرہو۔ اور کسی گناہ کی وجہ سے اُس کو کافر مت کہواور کسی عمل بد کی وجہ سے اُس کو اسلام سے خارج نہ قراردو۔

اس لئے مسئلہ زیربحث میں یہ شبہ پیداہوجاتا ہے کہ جو شخص نمازروزہ کا پابند ہے وُہ اہل قبلہ میں داخل ہے تو پھربعض عقائد میں خلاف کرنے یا بعض احکام کے تسلیم نہ کرنے سے اُس کو کیسے کافر کہاجاسکتا ہے۔ اور اسی شبہ کی بنیاد پر آج کل بہت سے مسلمان قسم ثانی کے مرتدین یعنی ملحدین وزنادقہ کومرتد وکافر نہیں سمجھتے۔ اور یہ ایک بھاری غلطی ہے جس کا صدمہ براہِ راست اصولِ اسلام پر پڑتا ہے،کیونکہ میں اپنے کلامِ سابق میں عرض کرچکا ہوں کہ اگر قسم دوم کے ارتداد کو ارتداد نہ سمجھاجائے تو پھر شیطان کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے ضرورت ہوئی کہ اس شبہ کے منشاء کو بیان کرکے اُس کا شافی جواب ذکر کیا جائے اصل اُس کی یہ ہے کہ شرح فقہ اکبر وغیرہ میں امام اعظم ابوحنیفہؒ سے اور حواشی شرح عقائد میں شیخ ابوالحسن اشعری سے اہل سنت والجماعۃ کا یہ مسلک نقل کیا گیا ہے:۔

ومن قواعد اھل السنۃ والجماعۃ ان لایکفر واحد من اھل القبلۃ (کذافی شرح العقائد النسفےۃ ص۱۲۱) وفی شرح التحریر ص۸۱۳ج۳ وسیاقہا عن ابی خلیفۃ رح ولانکفر اھل القبلۃ بذنب انتھیٰ فقیدہ بالذنب فی عبارۃ الامام واصلہ فی حدیث ابی داؤد کمامراٰنفاً۔

اہل سنت والجماعۃ کے قواعد میں سے ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کو تکفیر نہ کی جائے (شرح عقائد نسفی) اور شرح تحریر ص۸۱۳ج۳ میں ہے کہ یہ مضمون امام اعظم ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتے سواس میں بذنب کی قید موجود ہے اور غالباً یہ قید حدیث ابوداؤد کی بناء پر لگائی گئی ہے جو ابھی گزر چکی ہے۔

جس کا صحیح مطلب تو یہ ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر مت کہو خواہ کتنا ہی بڑا گناہ ہو (بشرطیکہ کفر وشرک نہ ہو) کیونکہ گناہ سے مراد اس جگہ پر وہی گناہ ہے جوحدِ کفر تک نہ پہنچا ہو۔

کمافی کتاب الایمان لابن تیمےۃ حیث قال ونحن اذاقلنااھل السنۃ متفقون علی ان لایکفر بالذنب فانما نرید بہ المعاصی کالزنا والشرب انتھیٰ واوضحہ القونوی فی شرح العقیدۃ الطحاوےۃ۔

جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ کی کتاب الایمان میں ہے کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہل سنۃ والجماعۃ اس پر متفق ہیں کہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہیں تو اس جگہ گناہ سے ہماری مراد معاصی مثل زناوشراب خوری وغیرہ ہوتے ہیں اور علامہ قونوی نے عقید طحاوی کی شرح میں

اس مضمون کو خوب واضح کر دیا ہے۔

ورنہ پھر اس عبارت کے کوئی معنی نہیں رہتے اور لفظ بذنب کے اضافہ کی(جیسا کہ فقہ اکبر اورشرح تحریر کے حوالہ سے اوپر نقل ہو ا ہے) کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ اب شبہات کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ بعض علماء کی عبارتوں میں اختصار کے مواقع میں بذنب کا لفظ بوجہ معروف ومشہور ہونے کے چھوڑدیاگیا، اور مسئلہ کا عنوان عدم تکفیر اہل القبلہ ہوگیا۔حدیث وفقہ سے ناآشنا اور غرض متکلم سے ناواقف لوگ یہاں سے یہ سمجھ بیٹھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کرکے نمازپڑھ لے اُس کو کافر کہنا جائز نہیں خواہ کتنے ہی عقائدِ کفریہ رکھتا ہو۔ اور اقوالِ کفریہ بکتا پھرے۔ اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ اگر یہی لفظ پرستی ہے تو اہل قبلہ کے لفظوں سے تو یہ بھی نہیں نکلتا کہ قبلہ کی طرف منھ کرکے نمازپڑھے بلکہ ان لفظوں کا مفہوم تو اس سے زائد نہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلے خواہ نماز بھی پڑھے یا نہ پڑھے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص کافر ہی نہیں رہ سکتا کیونکہ کبھی نہ کبھی ہر شخص کا منہ قبلہ کی طرف ہوہی جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ اہل قبلہ کی مراد تمام اوقات واحوال کا استیعاب باستقبال قبلہ نہیں۔

خوب سمجھ لیجئے کہ لفظ اہل قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنی اہل اسلام کے ہیں اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو۔ لہذا یہ لفظ صرف اُن لوگوں کے لئے بولاجاتا ہے جو تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کریں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام پر (بشر ط ثبوت) ایمان لائیں۔ نہ ہر اُس شخص کے لئے جو قبلہ کی طرف منہ کرلے۔جیسے دنیا کی موجودہ عدالتوں میں اہل کار کا لفظ صرف اُن لوگوں کے لئے بولاجاتا ہے جو باضابطہ ملازم اور قوانین ملازمت کا پابند ہو۔ اُس کے مفہوم لغوی کے موافق ہر کام والے آدمی کو اہل کار نہیں کہاجاتا۔ اور یہ جوکچھ لکھا گیا علم فقہ وعقائد کی کتابیں تقریباً تمام اس پر شاید ہیں جن میں سے بعض عبارات درجِ ذیل ہیں:۔

حضرت ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:۔

اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقوا علی ماھومن ضروریات الدین کحدوث العالم وحشر الاجساد وعلم اللہ تعالیٰ بالکلیات والجزئیات ومااشبہ ذلک من المسائل المھمات فمن واظب طول عمرہ علی الطاعات والعبادات مع اعتقاد قدم العالم ونفی الحشر اونفی علمہ سبحانہ وتعالیٰ بالجزئیات لایکون من اھل القبلۃ وان المرادبعدم تکفیراحد من اھل القبلۃ عند اھل السنۃ انہ لایکفر احدما لم یوجد شئی من امارات الکفر وعلامات ولم یصدرعنہ شیُ من موجیاتہ۔

خوب سمجھ لو کہ اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان تمام عقائد پر متفق ہوں جوضروریات دین میں سے ہیں جیسے حدث وعالم اور قیامت وحشر ابدان اور اللہ تعالیٰ کا علم تمام کلیات وجزئیات پر حاوی ہونا اور اسی قسم کے دوسرے عقائد مہمہ پس جو شخص تمام عمر طاعات وعبادات پر مداومت کرے مگر ساتھ ہی عالم کے قدیم ہونے کامعتقد ہو یا قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کا یا حق تعالیٰ کے علم جزئیات کا انکارکرے وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اور یہ کہ اہل سنت کے نزدیک اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے سے مراد یہی ہے کہ اُن میں سے کسی شخص کو اُس وقت تک کافر نہ کہیں جب تک اُس سے کوئی ایسی چیز سرزد نہ ہو جو علاماتِ کفر یا موجباتِ کفر میں سے ہے۔

اورشرح مقاصد مبحث سابع میں مذکور الصدر مضمون کو مفصل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:۔

فلا نذاع فی کفر اھل القبلۃ المواظب طول العمر علی الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفی الحشر ونفی العلم بالجزئیات ونحوذلک وکذلک یصدور شئی من موجبات الکفرعنہ

اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اہل قبلہ میں سے اُس شخص کو کافر کہا جاوے گا جو اگرچہ تمام عمر طاعات وعبادات میں گزارے مگر عالم کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھے یا قیامت وحشر کا یا حق تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کا انکارکرے اسی طرح وہ شخص جس سے کوئی چیز موجباتِ کفر میں سے صادر ہوجائے۔

اورعلامہ شامی نے روالمحتار باب الامامۃ جلد اول میں بحوالہ تحریر الاصول نقل فرماتے ہیں:۔

لاخلاف فی کفر المخالف من اھل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر (ص۷۷۳ج۱)

اس میں کسی کے خلاف نہیں کہ اہل قبلہ میں سے جوشخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو وہ کافر ہے اگرچہ تمام عمر طاعات وعبادات میں گزاردے۔

اورشرح عقائد نسفی کی شرح نبراس ص۲۷۵ میں ہے۔

اھل القبلۃ فی اصطلاح المتکلمین من یصدق بضوریات الدین الی قولہ فمن انکر شئیامن الضروریات (الی قولہ) لم یکن من اھل القبلۃ ولوکان مجاھد ابالطاعات وکذلک من باشرشئیا من امارات التکذیب کسجود الصتم والاھانۃ بامر شرعی  والاستھزاء علیہ  فلیس من اھل القبلۃ ومصی علا م تکفیر اھل القبلۃ ان لا یکفر بارتکاب المعاصی ولابانکار الامور الخفےۃ المشہورۃ ھذاماحققہ المعققون۔

اہل قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرے پس جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکارکرے وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اگرچہ عبادت واطاعت میں مجاہدات کرنے والا ہو۔ ایسے ہی وہ شخص جو علامات کفروتکذیب میں سے کسی چیز کا مرتکب ہو جیسے بت کو سجدہ کرنا یاکسی امرشرعی کی اہانت واستہزاء کرنا وہ اہل قبلہ میں سے نہیں اور اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کے ارتکاب کی وجہ سے اُس کو کافر نہ کہیں اور نہ ایسے امور کے انکار کی وجہ سے کافر کہیں جو اسلام میں مشہور نہیں یعنی ضروریات دین میں سے نہیں۔

تنبیہ

کسی مسلمان کو کافر کہنے کے معاملہ میں آجکل ایک عجیب افراط وتفریط رونما ہے ایک جماعت ہے کہ جس نے مشغلہ یہی اختیارکرلیا ہے کہ ادنی معاملات میں مسلمانوں پر تکفیر کا حکم لگادیتے ہیں اور جہاں ذرا سی کوئی خلاف شرع حرکت کسی سے دیکھتے ہیں تو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں۔ اور دوسری طرف نو تعلیم یافتہ آزاد خیال جماعت ہے جس کے نزدیک کوئی قول وفعل خواہ کتنا ہی شدید اور عقائد اسلامیہ کا صریح مقابل ہو کفر کہلانے کا مستحق نہیں۔ وہ ہر مدعی اسلام کو مسلمان کہنا فرض سمجھتے ہیں اگرچہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل اسلام کے موافق نہ ہو اور ضروریاتِ دین کا انکارکرتا ہو۔ا ور جس طرح کسی مسلمان کوکافر کہنا ایک سخت پُرخطر معاملہ ہے اسی طرح کافر کو مسلمان کہنا بھی اس سے کم نہیں کیونکہ حدودِ کفرواسلام میں التباس بہردوصورت لازم آتا ہے اس لئے علماء اُمت نے ہمیشہ ان دونوں معاملوں میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔  امر اول کے متعلق تو یہاں تک تصریحات ہیں کہ اگر کسی شخص سے کوئی کام خلاف شرع صادر ہوجائے اور اس کلام کی مُراد میں محاورات کے اعتبار سے چند احتمال ہوں اور سب احتمالات میں یہ کلام ایک کلمہ کفربنتا ہو لیکن صرف ایک احتمال ضعیف ایسا بھی ہو کہ اگر اس کلام کو اس پر حمل کیا جائے تو معنی کفر نہیں رہتے بلکہ عقائدِ حقہ کے مطابق ہو جاتے ہیں تو مفتی پر واجب ہے کہ اسی احتمال ضعیف کو اختیارکرکے اس کے مسلمان ہونے کا فتویٰ دے جب تک کہ خود وہ متکلم اس کی تصریح نہ کرے کہ میری مُراد یہ معنی نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ایسے عقیدہ کا قائل ہوجاوے جو ائمہ اسلام میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک کفر ہو لیکن بعض ائمہ اس کے کفر ہونے کے قائل نہ ہوں تو اس کفر مختلف فیہ سے بھی مسلمان پر کفر کا حکم کرنا جائز نہیں (صرح بہ فی البحر الرائق باب المرتدین جلد۵) ومثلہ فی ردالمحتاروجامع الغصولین من باب کلمات الکفر۔

اور امر دوم کے متعلق بھی صحابہ کرام اور سلف صالحین کے تعامل نے یہ بات متعین کردی کہ اس میں تہاون وتکاسل کرنا اصولِ اسلام کو نقصان پہنچانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جولوگ مرتد ہوئے تھے اُن

کاارتداد قسم دوم ہی کاارتداد تھا۔ صریح طور پر تبدیل مذہب (عموماً) نہ تھا۔ لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اُن پر جہاد کرنے کو اتنا زیادہ  اہم سمجھا کہ نزاکت وقت اور اپنے ضعف کا بھی خیال نہ فرمایا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب مدعی نبوت اور اس کے ماننے والوں پر جہادکیا جس میں جمہور صحابہ شریک تھے جن کے اجماع سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جوشخص ختم نبوت کا انکارکرے یا نبوت کا دعوی کرے وہ مرتد ہے اگرچہ تمام ارکان اسلام کا پابند اورزاہد وعابد ہو۔

ضابطہئ تکفیر

اس لئے تکفیر مسلم کے بارہ میں ضابطہ شرعیہ یہ ہوگیا کہ جب تک کسی شخص کے کلام میں تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اُس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو۔ یا اُس عقیدہ کے کفر ہونے میں ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف ائمہ اجتہاد میں واقع ہو۔اس وقت تک اس کے کہنے والے کو کافر نہ کہاجائے۔ لیکن اگر کوئی شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکارکرے یا کوئی ایسی ہی تاویل وتحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیداکردے تو اس شخص کے کفر میں کوئی تامل نہ کیا جائے واللہ سبحانہ وتعالےٰ اعلم۔

تنبیہ ضُروری

مسئلہ زیرِ بحث میں اس بات کا ہروقت خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے۔ اس میں بیباکی اور جلد بازی سے کام لینا سخت خطرناک ہے۔ مسئلہ کی دونوں جانب نہایت احتیاط کی متقاضی ہیں کیونکہ جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا وبالِ عظیم ہے اور حسبِ تصریح حدیث اس کہنے والے کے کفر کا اندیشہ قوی ہے۔ اسی طرح کسی کافر کو مسلمان کہنا یا سمجھنا بھی اس سے کم نہیں جیسا کہ عبارتِ شفاء سے منقول ہے۔اور شفاء میں مسئلہ کی نزاکت کو باین الفاظ بیان فرمایاہے:۔

ولمثل ھذاذھب ابوالمعالی فی اجویتہ الیٰ محمد عبدالحق وکان سالہ عن المسألۃ فاعتذر لہ بان الغلط فیہ یصعب لان ادخال کافرفی الملۃ الاسلامےۃ اواخرج مسلم عنھا عظیم فی الدین (شرح شفا فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتأولین ص۰۰۵ج۲)

ابوالمعالی نے جومحمد عبدالحق کے سوالات کے جواب لکھے ہیں اُن میں ان کا بھی یہی مذہب ثابت ہے کیونکہ اُن سے ایسا ہی سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں اُنہوں نے عذرکیا کہ اس بارہ میں غلطی سخت مصیبت کی چیز ہے کیونکہ کسی کافر کو مذہب اسلام میں داخل سمجھنا یا مسلمان کو اُس سے خارج سمجھنا دین میں بڑے خطرہ کی چیز ہے۔

اسی لئے تو ایک جانب تو یہ احتیاط ضروری ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مبہم کلام سامنے آئے جو مختلف وجوہ کو محتمل ہو اور سب وجوہ سے عقیدہ کفریہ قائل کا ظاہر ہوتا ہو لیکن صرف ایک وجہ ایسی بھی ہو جس سے اصطلاحی معنی اور صحیح مطلب بن سکے۔ گووہ وجہ ضعیف ہی ہو۔ تو مفتی وقاضی کا فرض ہے کہ اُس وجہ کو اختیار کرکے اُس شخص کو مسلمان کہے (کماصرح بہ فی الشفاء فی ہذہ الصفحۃ وبمثلہ صرح فی البحر وجامع الفصولین وغیرہ)۔

اوردوسری طرف یہ لازم ہے کہ جس شخص میں کوئی وجہ کفر کی یقینا ثابت ہوجاوے اُس کی تکفیر میں ہرگز تاخیر نہ کرے اور نہ اُس کے متبعین کو کافر کہنے میں دریغ کرے جیسا کہ علماء اُمت کی تصریحات محررہ بالا سے بخوبی واضح ہوچکا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔

تتمہ مسئلہ ازامداد الفتاوی جلد سادس

یہ کل بیان اُس صورت میں تھا جب کہ کسی شخص یاجماعت کے متعلق عقیدہ کفریہ رکھنا یا اقوال کفریہ کا کہنا متیقن طریق سے ثابت ہوجائے لیکن اگر خود اسی میں کسی موقع پر شک ہو جائے کہ یہ شخص اس عقیدہ کا معتقد یا اس قول کا قائل ہے یانہیں تو اُس کے لئے احوط واسلم وہ طریق ہے جو امداد الفتاویٰ میں درج ہے۔ جس کو بعینہٖ ذیل میں بطور تتمہ نقل کیا جاتا ہے۔

اگر کسی خاص شخص کے متعلق یا کسی خاص جماعت کے متعلق حکم بالکفر میں تردد ہو خواہ تردد کے اسباب علماء کا اختلاف ہو خواہ قرائن کا تعارض ہو یا اصول کاغموض تواسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم صادرکیا جاوے نہ اسلام کا حکم،اول میں تو خوداُس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے معاملات کے اعتبار سے  بے احتیاطی ہے پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا۔ یعنی اُس سے نہ عقدمناکحت کی اجازت دیں گے نہ اُس کی اقتداء کریں گے نہ اُس کا ذبیحہ کھائیں گے اور نہ اُس پر سیاست کافرانہ جاری کریں گے۔ اگر تحقیق کی قدرت ہو اُس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اُس تفتیش کے بعد جوثابت ہو ویسے ہی احکام جاری کریں گے اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہو تو سکوت کریں گے اوراُس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں گے اس کی نظیر وہ حکم ہے جو اہل کتاب کی مشتبہ روایات کے متعلق حدیث میں وارد ہے۔

لاتصدقواھل الکتاب ولا تکذبو ھم وقولوااٰمنا باللہ وما انزل الینا الایہ رواہ البخاری۔

نہ اہل کتاب کی تصدیق کرونہ تکذیب بلکہ یوں کہوکہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اوراُس وحی پر جو ہم پر نازل ہوئی۔الخ

دوسری فقہی نظیر احکام خنثیٰ کے ہیں:

یوخذ فیہ بالاحوط والاوثق فی امورالدین وان لایحکم بثبوت حکم وقع الشک فی ثبوتہ واذا وقف خلف الامام قام بین صف الرجال والنساء ویصلی بقناع ویجلس فی صلاتہ جلوس المرأۃ ویکرہ لہ فی حیاتہ لبس الحیٰ والحریر وان یخلوابہ غیرمحرم من رجل اوامرأۃ اویسافرمع غیر محرم من الرجال والاناث ولایغسلہ رجل ولاامرأۃ ویتیم بالصعید ویکفن کمایکفن الجارےۃ وامثالہ مما فصلہ افقھاء   ۱۱/شعبان    ۱۸؁ھ

خنثیٰ مشکل کے بارہ میں اموردین میں وہ صورت اختیار کی جاوے جس میں احتیاط ہو اور کسی ایسی چیز کے ثبوت کا اُس پر حکم نہ کیاجاوے جس کے ثبوت میں شک ہو اور جب وہ امام کے پیچھے نماز کی صف میں کھڑاہو تومردوں اور عورتوں کی صف کے درمیان کھڑاہو۔ اور عورتوں کی طرح دوپٹہ اوڑھ کر نماز پڑھے اور قعدہ میں اس طرح بیٹھے جیسے عورتیں بیٹھتی ہیں۔ اور اُس کے لئے زیور اور ریشمی کپڑا پہننامکروہ ہے اور یہ بھی مکروہ ہے کہ کوئی مرد یا عورت غیرمحرم اُس کے ساتھ خلوت میں بیٹھے یا ایسے مرد یا عورت کے ساتھ سفر کرے جو اس کا محرم نہ ہو اور مرنے کے بعد اُس کو نہ کوئی مرد غسل دے نہ عورت بلکہ تیمم کرادیاجائے اور کفن ایسا دیاجائے جیسا لڑکیوں کودیاجاتا ہے اور اسی طرح دوسرے احکام جن کو فقہاء نے مفصل لکھا ہے۔

مشورہ

یہ بحث کہ کنِ کِن اُمور سے کوئی مسلمان خارج از اسلام ہوجاتا ہے اور حکم تکفیر کے لئے شرعی ضابطہ کیا ہے۔ اور اہلقبلہ کو کافر نہ کہنے کی کیا مراد ہے۔ اس کے متعلق ایک، جامع مانع بہترین رسالہ رئیس المحدثین حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کاشمیری رحمتہ اللہ علیہ کا الکفار الملحدین کے نام سے عربی زبان میں شائع ہوچکا ہے۔ جو حضرات ان مسائل کو مکمل دیکھنا چاہتے ہیں اس کی مراجعت کریں۔

سوال دوم

اس عام سوال کے بعد چند فرقوں کے متعلق خاص طور پر سوال کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اول فرقہ چکڑالویہ۔ دوم فرقہ مرزائیہ۔ سوم فرقہ رافضیہ۔ ان تینوں فرقوں کے عقائد درجِ ذیل ہیں۔ ان عقائد کو زیرِ نظر رکھتے ہوئے ان فرقوں کے متعلق تحریر فرمایا جائے کہ یہ فرقے دائرہِ اسلام میں داخل ہیں یا نہیں؟

فرقہ چکڑالویہ

پنجاب میں ایک فرقہ ہے جو اپنے کو اہل قرآن کہتا ہے۔ اس کا بانی عبداللہ چکڑالوی ہے اور اُسی کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے۔ اس فرقہ کے عقائد کا نمونہ خود بانیئ فرقہ عبداللہ چکڑالوی کی کتاب (برہان الفرقان علی صلوٰۃ القرآن) سے بحوالہ صفحات لکھاجاتا ہے تاکہ علماء کرام اس پر غورفرمائیں کہ یہ فرقہ اوراس کے متبعین مسلمان ہیں یا نہیں۔ وہ عقائد بعنیہ اس کے الفاظ میں یہ ہیں:

منقول ازبرہان الفرقان علی صلوٰۃ القرآن از عبداللہ چکڑالوی

۱۔ قرآن مجید کی سکھائی نماز پڑھنی فرض ہے اوراُس کے سوا اورکسی طرح کی نماز پڑھنا کفروشرک ہے ص۵سطر۶

۲۔ سنو کہ وہ شے محض قرآن مجید ہی ہے جو رسول اللہ کی طرف وحی کی گئی اس کے سوا اور کوئی چیز ہر گزہرگز خاتم النبیین پر وحی نہیں ہوئی۔ص۹سطر۳)

۳۔ آسمانی کتاب کے سواپر ایک دینی کام کرنا شرک وکفر ہے خواہ کوئی ہو جوایسا کرے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔ص۲۱ سطر۶۱

اگر ٹائپنگ میں کوئی غلطی نظر آئے تو براہ کرم ایڈمن ٹیم @ [email protected]، سے رابطہ کریں ہماری غلطیوں کو معاف فرما دیں، اور اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھیں۔

Rafa Yadyn (Arabic) Na Karne Ke Delail

“عن عقلمة عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلی  الله علیه وسلم أنه کان یرفع یدیه في أوّل تکبیرة ثم لایعود”. (شرح معاني الآثار، للطحاوي ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)

رفع الیدین نہ کرنے کے دلائل

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی  اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔

Proof of Not doing Rafa Yadain as per Very Important Sahabi

“Main ne Nabi Kareem Muhammed(ﷺ) aur Hazrat Abu Bakar (رضي الله عنه) wa Umar (رضي الله عنه) ke peeche Namaz parhi, In Hazraat ne sirf Takbeer-e-Tehreemah ke waqt Rafaul-Yadain kiya.”

Narrated by Hazrat Abdullah ibn Masood (رضی  اللہ عنہ), close Sahabi of Rasoolullah (حضور صلی اللہ علیہ وسلم)

Rafa Yadyn Na Karne ka Saboot

Hazrat Abdullah Ibn Masud – (رضي الله عنه), very important Sahabi said: I performed Salaat (Namaz) with Nabi Kareem Muhammed (ﷺ), with Hazrat Abu Bakr (رضي الله عنه) and Hazrat Umar (رضي الله عنه). They did not raise their hands (Rafa-ul-Yadain) except at the time of the first Takbeer in the opening of the Salaat.

Tags (Categories)

بیانات