فتویٰ متعلقّہ
جَماعتِ اسلامی
– تاریخ تالیف:۔۲۱ ربیع الاول ۵۹۳۱ء
مارچ ۵۷۹۱ء
مقامِ تالیف:۔کراچی
غیر مطبوعہ:۔
سوال
حضرت اقدس مولانا مفتی محمد شفیع صاحب، مفتی اعظم پاکستان
السلام علیکم وَرحمتہ اللہ وبرکاتہ‘
گزارش آنکہ جیسا کہ حضرت والا کو معلوم ہے کہ احقر کو دارالعوام الاسلامیہ‘ ٹنڈوالہٰ یار میں افتاء کی خدمت دینی پڑتی ہے۔ طرح طرح کے سوالات میں اکثر یہ سوال بھی آتا ہے کہ مودودی صاحب اور ان کی جماعت جمہوراہلِ سنت والجماعت کے طریقہ پر ہے یا نہیں؟ اور مذاہب اربعہ میں سے ان کا کس مذہب سے تعلق ہے؟ اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ اور یہ جو مشہور ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ان کے رحجانات سلفِ صالحین کے خلاف ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ بعض لوگ آپ کی کِسی سابقہ تحریر کی بناء پر آپ کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ آپ ان کے نظریات سے اتفاق رکھتے ہیں‘ اس کی کیا اصل ہے؟
والسلام
احقر محمد وجیہہ، ازدارالعلوم
ٹنڈوالہٰ یار (سندھ)
======================
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب
مولانا مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کے بارے میں میرے پاس سالہا سال سے سوالات آتے رہے ہیں، جن کا جواب میں اس وقت کے حالات اور ان کے بارے میں اپنی اس وقت کی معلومات کے مطابق لکھتا رہا ہوں، ان میں بعض تحریریں شائع بھی ہوئی ہیں اور بعض نجی مکاتیب کے جواب میں لکھی گئی ہیں، اس وقت ان تمام تحریروں کو سامنے رکھنا ممکن نہیں، البتہ اس عرصہ میں احقر کو کچھ ان کی مزید تحریرات کے مطالعہ کا موقعہ ملا، کچھ ان کی نئی تالیفات سامنے آئیں، اور کچھ ان کے لٹریچر کے عام اثرات اور ان کی جماعت کے حالات کو مزید دیکھنے کا موقع ملا، اس مجموعہ سے اب ان کے بارے میں جو میری رائے ہے وہ بے کم وکاست ذیل میں لکھ رہا ہوں:۔
میری سابقہ تحریرات اگر اس تازہ تحریر کے موافق ہوں تو فبھا اور اگر سابقہ تحریرات میں کوئی چیز اس کے خلاف محسوس ہو تواُسے منسوخ سمجھا
جائے اور اب میری رائے کے حوالہ کے لئے صرف ذیل کی تحریر پر اعتماد کیاجائے۔
احقر کے نزدیک مولانا مودودی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ عقائد اور احکام میں ذاتی اجتہاد کی پیروی کرتے ہیں۔ خواہ ان کا اجتہاد جمہور علمائے سلف کے خلاف ہو، حالاں کہ احقر کے نزدیک منصب اجتہاد کے شرائط ان میں موجود نہیں اس بنیادی غلطی کی بناء پر ان کے لٹریچر میں بہت سی باتیں غلط اور جمہور علمائے اہل سنت کے خلاف ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تحریروں میں علمائے سلف یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کا جو انداز اختیارکیا ہے وہ انتہائی غلط ہے خاص طور سے ”خلافت وملوکیت“ میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جس طرح صرف تنقید ہی نہیں بلکہ ملامت کا ہدف بھی بنایا گیا ہے، اور اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے توجہ دلانے کے باوجود اصرار کی جو روش اختیار کی گئی ہے وہ جمہور علمائے اہل سنت والجماعت کے طرز کے بالکل خلاف ہے۔
نیز ان کے عام لٹریچر کا مجموعی اثر بھی اس کے پڑھنے والوں پر بکثرت یہ محسوس ہوتا ہے کہ سلف صالحین پر مطلوب اعتماد نہیں رہتا، اور ہمارے نزدیک یہ اعتماد ہی دین کی حفاظت کا بڑاحصار ہے، اس سے نکل جانے کے بعد پوری نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ بھی انسان نہایت غلط اور گمراہ کن راستوں پر پڑسکتا ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ ان کو منکرین حدیث، قادیانیوں یا اباحیت پسند لوگوں کی صف میں کھڑاکرنا بھی میرے نزدیک درست نہیں، جنہوں نے سود، شراب، قمار اور اسلام کے کھلے محرّمات کو حلال کرنے کے لئے قرآن وسنت میں تحریفات کی ہیں۔
………………بلکہ ایسے لوگوں کی تردید میں ان کی تحریریں ایک خاص سطع تک کے نو تعلیم یافتہ حلقوں میں مؤثر اور مفید بھی ثابت ہوئی ہیں، یہ بات میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں، لیکن اگر کوئی شخص میر ی اس بات کو بنیاد بنا کر یہ کہے کہ میں مودودی صاحب کے ان نظریات سے متفق ہوں جو انہوں نے جمہور علماء کے خلاف اختیار کئے ہیں تو یہ بالکل غلط اور خلافِ واقعہ بات ہے۔
اگرچہ جماعت کے قانون میں مولانا مودودی صاحب اور جماعت اسلامی الگ الگ حیثیت رکھتے ہیں، اور اصولاً جوبات مولانا مودودی صاحب کے بارے میں درست ہو، ضروری نہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے بارے میں بھی درست ہو، لیکن عملی طور پر جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کے لٹریچر کو نہ صرف جماعت کا علمی سَرمایہ اور اپنے عمل کا محور بنایا ہوا ہے بلکہ اس کی طرف سے زبانی اور تحریری مدافعت کا عام طرزِ عمل ہر جگہ مشاہدہ میں آتا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جماعت کے افراد بھی ان نظریات اور تحریروں سے متفق ہیں، البتہ اگر کچھ مستثنیٰ حضرات ایسے ہوں جو مذکورہ بالاامور میں مولانا مودودی سے اختلاف رکھتے ہوں اور جمہور علمائے اہل سنت کے مسلک کو اس کے مقابلے میں درست سمجھتے ہوں تو ان پر اس رائے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
نماز کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ امام اس شخص کو بنانا چاہیے جو جمہور اہل سنت کے مسلک کا پابند ہو۔ لہذا جو لوگ مودودی صاحب سے مذکورہ بالا
امور میں متفق ہوں انہیں باختیارخود امام بنانا درست نہیں، البتہ اگر کوئی نماز ان کے پیچھے پڑھ لی گئی تو نماز ہوگئی۔
==============
یہ میری ذاتی رائے ہے جو اپنی حد تک غوروفکر کے بعد فیما بینی وبین اللہ قائم کی ہے، میں کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی اور بے احتیاطی سے بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اور دین کے معاملہ میں مداہنت سے بھی۔ جن حضرات کو میری اس رائے سے اتفاق نہ ہو وہ اپنے عمل کے مختار ہیں۔ مجھے ان سے کوئی مباحثہ کرنا نہیں نہ میرے قویٰ اور مصروفیات اس کے متحمل ہیں، اور اگر کوئی صاحب………… اس کو شائع کرنا چاہیں تو ان سے میری درخواست ہے کہ اس کو پوراشائع کریں۔ ادھورا یا کوئی ٹکڑا شائع کرکے خیانت کے مرتکب نہ ہوں۔
واللہ المستعان وعلیہ التکلان
بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
۲۱ ربیع الاول ۵۹۳۱ء