فلکیاتِ جدیدہ
تألیف
محدثِ اعظم، مفسر کبیر
حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی
رَحِمہُ اللہُ تَعالیٰ وَطَےّبَ آثارَہ
ادارہئ تصنیف وأدب
==========================================
مروجہ صلوۃ وسلام کی شرعی حیثیت
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ
استفتاء
(الف) بعض مساجد میں کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جمعہ کی نماز یا دوسری نمازوں کے بعد التزام کے ساتھ جماعت بنا کر اور کھڑے ہوکر بآواز بلند بالفاظ ذیل سلام پڑھتے ہیں۔ یارسول سلام علیک یانبی سلام علیک وغیرہ وغیرہ ان میں سے بہت سے لوگوں کایہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف لاتے ہیں، یا ہر جگہ حاضروناظر ہیں اس لئے یہ سلام خود سنتے اور جواب دیتے ہیں جو لوگ ان کے اس عمل میں شریک نہیں ہوتے اُن کو مطعون کرتے اور طرح طرح سے بدنام کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں عموماً مسجدوں میں نزاع اور جھگڑے پیداہوتے ہیں دریافت طلب یہ ہے کہ کیا اس طرح کا سلام پڑھنا مسجدوں میں جائز ہے؟ اور متولّیان مساجد کو اُس کی اجازت دینا چاہیے یا نہیں؟
(ب) جہاں مذکورہ طریقہ پر صلوٰۃ وسلام پڑھاجائے وہاں
۱۔ رسول مقبول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس محفل میں تشریف لاتے ہیں۔ یا
۲۔ بغیر تشریف لائے سلام کو خود سُن لیتے ہیں۔ یا
۳۔ اس طرح کے صلوٰۃ وسلام کو فرشتے آپ تک پہنچادیتے ہیں۔ ان میں سے کون سی بات صحیح ہے؟
(ج) طریقہ مندرجہ بالا پر صلوٰۃ وسلام پڑھنا قیام کے بغیر کیسا ہے اور قیام کے ساتھ ہو تو اس کا حکم کیا ہے؟
(د) اندرونِ مسجد یہ صلوٰۃ وسلام کیا حکم رکھتا ہے اور مسجد کے باہر اس کا کیا حکم ہے؟ جواب وصواب تحریر فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔ والسلام!
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوالات کے جواب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں تمام عبادات نماز۔ روزہ ذکر اللہ۔ تلاوت قرآن وغیرہ سب کے لئے کچھ آداب وشرائط اور حدود و قیود ہیں جن کی رعایت کے ساتھ یہ عبادات اداکی جائیں تو بہت بڑاثواب اور فلاح دنیا وآخرت ہے اور ان حدود وقیود سے ہٹ کر کوئی دوسری صورت اختیار کی جائے تو ثواب کے بجائے عذاب اور گناہ ہے۔ نماز تمام عبادات میں افضل ہے لیکن طلوع وغروب کے وقت نماز پڑھنا حرام ہے۔ مقررکردہ رکعات میں کوئی رکعت زائد کردے توحرام ہے۔جماعت کی نمازسنت مؤکدہ ہے اور اس سے نماز کے ثواب میں ستائیس گنا اضافہ ہوجاتا ہے لیکن کوئی نفل نماز کی جماعت کرنے لگے تو ممنوع اور گناہ ہے۔ روزہ کتنی بڑی عظیم عبادت اور اس کا ثواب کتنا بڑا ہے۔مگر عیدین اور ایام نحر میں روزہ رکھنا حرام ہے، قرآن مجید کی تلاوت بہترین عبادت ہے لیکن رکوع وسجدہ کی حالت میں تلاوت ممنوع اور ایسے مقامات پر جہاں لوگ سننے کی طرف متوجہ نہ ہوں بلند آواز سے تلاوت ناجائز ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام افضل عبادات وموجبِ برکات اور سعادت دنیا وآخرت ہے مگر دوسری سب عبادات کی طرح اُس کے بھی آداب وشرائط ہیں جن کی خلاف ورزی کرنے سے ثواب کے بجائے گناہ لازم آتا ہے۔
(الف) جس ہئیت سے مساجد میں بطرز مذکور اجتماع اور التزام کے ساتھ درودوسلام کے نام پر ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اُس کو درودوسلام کی نمائش تو کہاجاسکتا ہے درودوسلام کہنا اُس کا صحیح نہیں کیونکہ وہ بہت سے مفاسد کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
(۱) سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مسجد پوری مسلمان قوم کی مشترک عبادت گاہ ہے اُس میں کسی فرد یا جماعت کو فرائض وواجبات کے علاوہ کسی ایسے عمل کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی جو دوسرے لوگوں کی انفرادی عبادت نماز۔تسبیح۔ درود۔تلاوت قرآن وغیرہ میں خلل انداز ہو۔اگر وہ عمل سب کے نزدیک بالکل جائز اور مستحسن ہی کیوں نہ ہو فقہاء رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں بآواز بلند تلاوت قرآن یا ذکر جہری جس سے دوسرے لوگوں کی نماز یاتسبیح وتلاوت میں خلل آتا ہو۔ناجائز ہے (شامی۔ خلاصتہ الفتاویٰ) ظاہر ہے کہ جب قرآن اور ذکر اللہ کو بآواز بلند مسجد میں پڑھنے کی اجازت نہیں تو درود وسلام کے لئے کیسے اجازت ہوسکتی ہے۔
(۲) کسی نماز کے بعد اجتماع والتزام کے ساتھ بلند آواز سے درود وسلام پڑھنا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہ وتابعین سے اور نہ ائمہ مجتہدین اور علمائے سلف میں سے کسی سے اگر یہ عمل اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محمودومستحسن ہوتا تو صحابہ وتابعین اور ائمہ دین اس کو پوری پابندی کے ساتھ کرتے۔حالانکہ ان کی پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ درودوسلام کے لئے اجتماع اور التزام کو یہ حضرات بدعت وناجائز سمجھتے تھے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد صحیح بخاری ومسلم میں بروایت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہما منقول ہے۔ من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھورد۔یعنی جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو اس میں داخل نہ تھی تو وہ مردود ہے۔ اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت جابر ؓ وارد ہے۔ وشرالامور محدثاتھا وکل بدعتہ ضلالتہ یعنی بدترین عمل وہ نئی چیزیں ہیں جو خود ایجاد کی جائیں اور ہرنو ایجاد عبادت گمراہی ہے۔ عباد ت کے نام پر دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ تعلیمات رسولؐ کو ناقص قرار دینے کا مرادف اور بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریف دین کا راستہ ہے۔ اسی لئے حضرات صحابہ وتابعین نے اس معاملہ میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ کل عبادۃ لم یتعبد ھا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاتعبدوھا(الی) وخذوابطریق من کان قبلکہ یعنی جس طرح کی عبادت صحابہ کرام نے نہیں کی تم بھی اُس کو عبادت نہ سمجھو بلکہ اپنے اسلامی صحابہ کا طریق اختیارکرو (کتاب الاعتصام للشاطبی ص۱۱۳ج۲)
اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اتبعواآثارنا ولاتبتدعوافقد کفیتم۔ یعنی تم لوگ ہمارے (صحابہ کرام کے) آثار کا اتباع کرو اور نئی نئی عبادتیں نہ گھڑو کیوں کہ تم سے پہلے عبادت کا تعین ہوچکا ہے۔
تنبیہ
یہ بات یادرکھنا چاہیے کہ یہ سب کلام انفرادی درود وسلام کے بارے میں نہیں کیوں کہ انفرادی طور پر درود کی کثرت کے فضائل حدیث
وقرآن میں مذکور اور صحابہ وتابعین کا معمول ہے نہ اُس کے لئے کو ئی و قت مقرر ہے نہ تعداد جتنا کسی سے ہوسکے اختیار کرے اور سعادت دارین حاصل کرے۔ کلام صرف اُس کی مروجہ اجتماعی صورت میں ہے۔
اِسلَام میں نماز سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں مگر اُس کی بھی نفلوں کی جماعت کو باتفاق فقہاء وائمہ مکروہ کہاگیا ہے تو کسی دوسری چیز کی جماعت بناکر دوام والتزام سے کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ خصوصاً جب کہ کرنے والوں کو اُس پر ایسا اصرار ہو جیسے فرض وواجب پر بلکہ اُس سے بھی زیادہ۔یہاں تک کہ جو لوگ اس میں شریک نہ ہوں اُن پر طعن وتشنیع کی جائے۔ جو کسی حال جائز نہیں۔ کیونکہ اگر بالفرض یہ عمل بدعت بھی نہ ہوتا تب بھی زیادہ سے زیادہ ایک نفلی عمل ہوتا جس پر فرض وواجب کی طرح اصرار کرنے اور دوسروں کو مجبور کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
جس کام پر اللہ ورسول نے کسی کو مجبور نہیں کیا کسی دوسرے کو اس پر مجبور کرنے کا کیا حق ہے اور نہ کرنے کی صورت میں اُس پر طعن وتشنیع کرنا ایک مستقل کبیرہ گناہ ہے جس میں یہ حضرات ناواقفیت سے مبتلا ہوتے ہیں اور اُس پر غور نہیں کرتے کہ خود ان کے نزدیک بھی یہ عمل زیادہ سے زیادہ مستحب اور نفل ہے ایک نفل کی خاطر کبیرہ گناہ میں مبتلا ہونا کونسی دانشمندی ہے۔
(۳)خطاب کے الفاظ یارسول اللہ یانبی اگر اس عقیدہ سے ہوں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہرزمان ومکان میں موجود اور ہرجگہ حاضروناظر ہے کائنات کی ہر آواز کو سنتا اور ہرحرکت کو دیکھتا ہے۔ اسی طرح (معاذاللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان خدائی صفات میں شریک ہیں تو یہ کھلا ہوا شرک اور نصاریٰ کی طرح رسول کو خدائی کا درجہ دینا ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مجلس میں تشریف لاتے ہیں تو گو بصورت معجزہ ایسا ہونا ممکن ہے مگر اُس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن یا حدیث سے اس کا ثبوت ہو۔حالانکہ کسی آیت یا حدیث میں قطعاً اس کاکوئی ذکر نہیں۔ اوربغیر ثبوت ودلیل کے اپنی طرف سے کوئی معجزہ گھڑلینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء ہے جس کے بارہ میں آپ نے فرمایا ہے:۔
من کذب علی متعمدًا فلیتبوع مقعدہ من النار یعنی جو شخص میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے اس کوچاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھ لے اوراگر اس طرح کا کوئی بھی غلط عقیدہ نہ ہو تب بھی موہم الفاظ ہیں جن میں اس عقیدہئ فاسدہ کوراہ ملتی ہے اس لئے بھی ان سے اجتناب ضروری ہے۔جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام کو یاعبدی کہہ کر پکارنے سے اسی لئے منع فرمایا کہ یہ الفاظ موہم شرک ہیں۔
البتہ روضہ اقدس کے علاوہ دوسرے مقامات میں اگر ان الفاظ خطاب کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضروناظر ہونے کا عقیدہ ہے تو کھلا ہواشرک ہے۔اور مجلس میں تشریف لانے کا عقیدہ ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء اور بہتان ہے اور دونوں میں سے کوئی غلط عقیدہ نہیں تو بھی موہم شرک ہونے کی وجہ سے ایسے الفاظ ممنوع ہیں پھر اس ناجائز عمل پر اصرار کرنادوسراگناہ ہے اور فرض وواجب کی طرح اس کو ضروری سمجھنا تیسرا گناہ ہے اور اُس میں شریک نہ ہونے والے بے گناہ مسلمانوں کو بُرا بھلا کہنا اور مطعون کرنا چوتھا گناہ ہے اور مساجد میں بآواز بلند کہہ کر دوسرے مشغول لوگوں کے شغل میں خلل انداز ہونا پانچواں گناہ ہے۔
افسوس ہے کہ بہت سے نیک دل مسلمان قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ناواقف ہونے کے سبب
اس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعظمت کا نشان سمجھ کر اس میں شریک ہوتے ہیں یہ جذبہئ محبت وعظمت بلاشبہ قابلِ قدرومبارکباد ہے مگر اس کا بے جااستعمال ایسا ہی ہے جیسے کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت میں مغرب کی نماز تین کے بجائے چاررکعت پڑھے اور اپنے دل میں یہ حساب لگائے کہ ایک رکعت زیادہ پڑھی ہے تو مجھے ثواب اوروں سے زیادہ ملے گا حالاں کہ وہ کمبخت اپنی تین رکعتوں کا ثواب بھی کھوبیٹھا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اجتماع اور التزام کے ساتھ کھڑے ہوکر بآواز بلند مسجدوں میں درودوسلام پڑھنے کا مروجہ طریقہ سراسر خلاف شرع اور باہم نزاع وجدال اور مسجدوں کو اختلافات کا مرکز بنانے کا سبب ہے اس لئے متولیان مسجد اور اربابِ حکومت پر لازم ہے کہ مسجدوں میں اس کی ہر گز اجازت نہ دیں۔اگر کسی کو کرنا ہے تو اپنے گھر میں کرے تاکہ کم ازکم مسجدیں تو شوروشغب اور نزاع وجدال سے محفوظ رہیں۔
(ب) سوال الف کے جواب میں واضح ہوچکا ہے کہ اس مجلس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کاتشریف لانا کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کا فیصلہ خود ایک حدیث میں اس طرح فرمایا ہے:۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ (مشکوٰۃ از بیہقی) یعنی جو شخص میری قبر کے پاس درودوسلام پڑھتا ہے اُسے میں خود سنتا ہوں اورجودُور سے درود وسلام بھیجتا ہے وہ (فرشتوں کے ذریعہ) مجھے پہنچادیاجاتا ہے۔
(ج) جس طرح ذکر اللہ تلاوت قرآن کھڑے ہوکر بیٹھ کر بلکہ لیٹ کر بھی ہر طرح جائز ہے۔ اسی طرح درود شریف بھی ہرطرح جائز ہے ہاں اگر کوئی کھڑے ہوکر پڑھنے کو ضروری اور اُس کے خلاف کو بے ادبی سمجھے تو یہ ایک غیر واجب کو اپنی طرف سے واجب قراردینے کی وجہ سے ناجائز ہے خصوصاً جب کہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود شریف کو بیٹھ کر پڑھنے کی سنت جاری فرمائی ہے تو بیٹھ کر درودوسلام پڑھنے کو خلاف ادب کہنا اس حکم ربانی اور تعلیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ قرآن کو صرف کھڑے ہوکر پڑھنا چاہیے۔ بیٹھ کر پڑھنا بے ادبی ہے۔
(د) جو اب الف میں واضح ہوچکا ہے کہ بطرز مذکور سلام پڑھنے کے لئے اجتماع والتزام تو بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے جو مسجد میں بھی ناجائز ہے اور مسجدسے باہر بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسجد میں اگر کوئی بیٹھ کر مسنون درودوسلام کے الفاظ کو بھی بآواز بلند اس طرح پڑھے جس سے دوسرے حاضرین مسجد کے شغل میں خلل آتا ہو تو وہ بھی ناجائز ہے۔ اور مسجد سے باہر اس کی گنجائش ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
ہمدردانہ مشورہ
ہر شخص کو اپنی قبر میں سونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور ان معاملات میں جتھ بندی اور قدیم آبائی رسوم پر ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر سنجیدگی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سمجھنا چاہیے اور یہ غورکرنا چاہیے کہ دنیا کے تو تمام معاملات میں ہمارے جھگڑے چلتے ہی رہتے ہیں کم ازکم اللہ کے گھر اور عبادت نماز کو تو ہر طرح کے جھگڑے فساد سے محفوظ رکھا جائے۔
بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
دارالعلوم۔ کراچی
۱۸۹۱۔۱۱۔۲۱
================
Download PDF FILE:
================