تبلیغ دین کے لئے ایک اصول
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
بسم اللہ الرحمن الرحیمط
دین کا جو حصہ ہم تک پہنچا ہے اس کی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں۔ ایک تو وہ حصہ ہے جو اپنی خاص ہیئت و شکل کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے اور اس کی ہیئت و شکل مطلوب ہے۔ اس کو ہم ”منصوص بالوضع“ کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ وہ دینی اُمور ہیں جو اپنی خاص ہیئت و صورت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ (مثلاً) ارکانِ دین اور بہت سے ایسے فرائض جن کو نہ صرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے بتایا بلکہ ان کی شکلیں زبانی بھی بتائیں۔ اور خود کرکے بھی دکھلائیں۔ (مثلاً) نماز، حج، وضو وغیرہ۔
دین کا دوسرا حصہ وہ ہے جس میں نفسِ شئی مطلوب ہے، لیکن بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر (اور زمانہ کے تغیر اور امّت کے لئے وسعت کا خیال کرکے) آپؐ نے ان کی شکلیں متعین نہیں کیں۔ صرف شے بتلادی کہ یہ مقصود ہے، یہ چیزیں خود منصوص ہیں، لیکن ان کی کوئی خاص وضع و ہیئت منصوص نہیں۔ (مثلاً) جہاد فی سبیل اللہ، دعوت الی اللہ، علم ودین کے سلسلہ کو چلانا اور احکام کا اُمّت تک پہنچانا، یہ سب اُمت سے مطلوب ہے اگر اُمت ان کو چھوڑ دے اور بالکل ترک کردے تو وہ گنہگار ہوگی۔ لیکن صرف یہ اعمال مقصود ہیں۔ ان کی کوئی خاص شکل اور طریقہ متعین نہیں کیا گیا بلکہ اس بارے میں اُمت کی عقلِ سلیم پر اعتماد کیا گیا ہے اور ان فرائض کی ادائیگی کو اس کی صلاحیتوں پر چھوڑ دیاگیا ہے۔
غیر منصوص بالوضع کی واضح مثال لباس کا مسئلہ ہے۔ لباس ساتر ہو، ٹخنوں سے اونچا ہو، گھٹنوں سے نیچا ہو، تفاخر اور تکبر کا لباس نہ ہو، کوئی حرام و ناجائز (مثلاً) مَردوں کے لئے ریشم نہ ہو، پس لباس بھی منصوص اور اس کی یہ شرائط بھی منصوص ہیں۔ لیکن لباس کی شکل، لباس کا رنگ اور اس کی قطع وغیرہ غیر منصوص ہیں۔ اسی میں اُمت کے لئے بہت سی سہولتیں ہیں ان کو اُمت کی تمیز اور عقل عام پر چھوڑ دیاگیا ہے۔
دوسری مثال مساجد کی ہے۔ مساجد بھی مطلوب ہیں اور مساجد کی نظافت بھی مطلوب ہے، اور یہ بھی مطلوب ہے کہ ان میں ذکر اللہ ہواور وہ دوسرے مقامات سے ممتاز ہوں۔ مگر ان کی کوئی خاص طرز تعمیر مطلوب نہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عالم اسلام میں مساجد مختلف وضع کی پائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ مینارے اور گنبد بھی مساجد کے لئے شرائط میں نہیں تھے۔
ہندوستان کی مسجدوں میں دومیناروں کا رواج ہے۔ الجزائر ومراکش کی مساجد میں ایک مینار ہوتا ہے۔ اور دنیا کی سب سے بڑی اور پہلی مسجد (بیت اللہ) کا کوئی مینار نہیں۔
اب دعوت الی اللہ کی مثال لیجئے، اللہ کی طرف اور اس کے دین کی طرف بندوں کوبلانا فرض ہے۔ انفرادی ہو یا اجتماعی، تقریر سے ہو یا تحریر سے، اعلانیہ ہو یا خلوت میں، اس میں کوئی شکل معین نہیں۔ نوح علیہ السلام کی زبان سے قرآن پاک میں واضح کردیا گیا ہے کہ دعوت کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ قال رب انی دعوت قومی لیلاً ونھارا (حضرت نوحؑ نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کے سامنے رات میں بھی دین کی اور توحید کی دعوت رکھی اور دن میں بھی) ثم انی دعوتھم جھارًا (پھر میں نے خوب پکار کر اور چیخ کر بھی ان کو بلایا) ثم انی اعلنت لھم واسررت لھم اسرارًا (پھرمیں بالاعلان بھی آپ کی پیغام ان کو پہنچایا اور چھپ چھپ کر تنہائیوں میں بھی ان سے آپ کی بات کہی)۔ لہذا دعوت دین کا کام کرنے والے ہر فرد و جماعت کو اختیار ہے کہ وہ جس ماحول میں اپنے لئے جوطریقہ صحیح جانے وہ مقرر کرے اور اپنی سعی وجہد کا جوطرز مناسب اور مفید سمجھے وہ اختیار کرے۔ اس میں کسی کو جائز اور ناجائز کہنے یا کوئی روک ٹوک لگانے کاحق حاصل نہیں ہے جب تک کہ اس میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہوجائے، جو شرعی طور پر منکر یا مقاصدِ دینیہ کے لئے مضر ہو۔
بعض عوامی حلقوں میں اس وقت ان دونوں حصوں کو خلط ملط کردیا جاتا ہے، منصوص کو غیرمنصوص کا درجہ دے دیاجاتا ہے۔ اور غیر منصوص کو منصوص کے مقام پر پہنچادیاجاتا ہے۔اس کے نتیجہ میں مشکلات پیداہوسکتی ہیں اور مختلف اداروں اور دعوتوں میں اکثر تنازعہ کی شکل پیداہوجاتی ہے۔ اگر ہم ان چیزوں میں فرق سمجھ لیں تو بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی، سینکڑوں تنازعوں کا سدّباب ہوجائے گا اور بہت سی ذہنی الجھنیں ختم ہوجائیں گی۔
چیزوں کی اصلی ہیئت سمجھنے اور ان کو ان کے صحیح مقام پر رکھنے کا یہ پیمانہ ہمارے ہاتھ آگیا۔ اس کے بعد صحیح اصول پر چلنے والی اور مخلصانہ دینی دعوتوں، دینی اداروں اور حلقوں کے درمیان تقابل، تصادم اور اختلاف کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ فرق جو رہ جاتا ہے وہ صرف اپنے اپنے تجربوں اور حالات کے مطالعہ کا ہے کہ کام کی کونسی شکل اور طریقہ زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہے اور وہ کس سے وہ نتائج و مقاصد حاصل ہوتے ہیں جو اس کام سے مطلوب ہیں؟
دعوت الی اللہ کی مخصوص شکل اور طرز کی افادیت و تاثیر کی وضاحت کی جاسکتی ہے لیکن کسی کو اپنے تجربہ اور مطالعہ کا اس طرح پابند نہیں کیا جاسکتا، جیسے احکامِ قطعیہ اور نصوصِ قرآنیہ کا، دین کی خدمت کرنے والی کوئی جماعت اگر کسی خاص طریقہ کار کو اختیار کرتی ہے (بشرطیکہ وہ دین کے اصول اور سلف صالحین کے متفقہ مسلک اور طرزِ فکر کے مخالف نہ ہو) تو وہ اپنے فیصلہ میں حق بجانب ہے۔ ہم اپنے مخصوص طرز کا ر کو دوسری دعوتوں اور دین کی خدمت کرنے والے دوسرے حلقوں کے سامنے بہتر سے بہتر طریقہ پر پیش کرسکتے ہیں، لیکن اگر صرف طرز کار کے فرق کی وجہ سے ہم ان کو غلط کار سمجھیں یا ان کی دینی مساعی اور مشاغل کی نفی کریں جن کو انہوں نے اپنے تجربہ اور مطالعہ اور زمانہ کے تقاضوں کے پیش نظر اختیار کیا ہے اور ان کی افادیت واقعات اور برسوں کے تجربہ سے ان پر واضح ہوچکی ہے اور کتاب وسنت اور سیرتِ نبوی اور حکمت دینی کے وسیع دائرہ میں اس کے لئے ان کے پاس شواھد و دلائل پائے جاتے ہیں، تو یہ ہماری غلطی اور زیادتی ہوگی۔ ہم صرف اتنا کرسکتے ہیں کہ ان سے دوبارہ غور کرنے اور نتائج کو دیکھنے اور ان کا موازنہ نہ کرنے کی درخواست کریں لیکن ان کی تحقیر وتردید کرنا اور ان کو غلط کار اور گمراہ سمجھنا غلط ہے اور خدمتِ دین اور دعوت الی الخیر کے دروازے کو محدود اور تنگ بنانے اور امورِ دین کے رشتہ کو زمانہ اور ماحول سے منقطع کرنے کے مترادف ہوگا۔
دعوتوں اور طریق کار میں بعض چیزیں وہ ہوتی ہیں جن کی ہمیں شریعت نے سختی کے ساتھ تاکید کی ہے۔ بعض انتظامی امور ہوتے ہیں جو حدیث وقرآن سے استنباط کئے جاسکتے ہیں۔ وہ اصولی طورسے صحابہ کرامؓ کی زندگی میں ملیں گے لیکن خاص اس ہیئت میں نہیں ملیں گے۔ یہ سب چیزیں اجتہادی اور تجرباتی ہیں۔ ان چیزوں پر یا ان خاص شکلوں پر ہرجگہ اور ہر شخص سے منصوص چیزوں کی طرح اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔
سب سے مشکل چیز اعتدال ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں اعتدال بدرجہئ اتم ہوتا ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ پچاس برس کے بعد اللہ کے کچھ بندے پیدا ہوں، جو صاحب نظر بھی ہوں اور اللہ کے ساتھ ان کا تعلق ہو اور دعوت کے طریقہ میں زمانہ کی ضرورت اور تقاضے کے لحاظ سے تبدیلیاں کریں۔ اُس وقت اگر ایک جامد طبقہ اس کی مخالفت محض اس بناء پر کرے کہ ہمارے بزرگ ایسا کرتے تھے تو اس کا رویہ غلط ہوگا، اس کا اصرار ہٹ دھرمی ہوگا، کبھی کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ایک طبقہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ یہی طریقہ کار اور یہی طرز، دین کی خدمت اور احیاء کے لئے ہمیشہ کے واسطے اور ہرجگہ کے لئے ضروری ہے اور اس کے علاوہ سب غلط ہے۔ جب تک اس مخصوص طریقہ پر کام نہ ہوتوسمجھاجاتا ہے کہ ساری جدوجہد رائیگان گئی اور جوکچھ ہوا سب فضول ہوا۔ یہ بے اعتدالی ہے اور یہ رویہ خطرناک ہے۔ اسی طرز فکر کے نتیجے میں مختلف مذاہب اور فرقے امّت میں پیدا ہوئے۔ اصل حقیقت صرف اتنی ہے کہ اب تک غور اور تجربوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا اور ہم نے اس کو مفید پایا ہے، پس جب تک یہ چیزیں فائدہ مند معلوم ہوتی ہیں ہمیں اس وقت تک ان کوجاری رکھنا چاہیے لیکن اگر کوئی خاص طریقہ ایک رسم بن جائے تو یہ ایک مذہب بن جائے گا اور ایک بدعت قائم ہوجائے گی اور اس وقت کے ربانی مصلحین کافرض ہوگا کہ اس کی اصلاح کے لئے جدوجہد کریں اور ان رسومات کو مٹائیں، بہت سی چیزیں صحیح مقاصد اور دینی مصلحتوں سے شروع ہوتی ہیں لیکن آگے چل کر غلط صورت اختیار کرلیتی ہیں، ایسے موقع پر حقیقت و رسم، سنّت وبدعت، فرض ومباح میں تمیز کرنا تفقّہ فی الدین ہے، اور کہنے والے نے کہا ہے۔ کہ گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی!
انبیاء علیہم السلام کی دعوت وتربیت اور ان کی مساعی جمیلہ کے لئے (جن کی پشت پر تائید ِربانی اور ارادہئ الہٰی ہوتا ہے) جہاں مضر اور ایک طرح سے حریف ورقیب کفر، الحاد، غفلت ومعصیت ہے جو ان کے پیروؤں کو ان کی دعوت کے برکات اور ان کی تعلیم وتربیت اور تبلیغ ودعوت کے اثرات سے محروم کرنے کا کام انجام دیتی ہے وہاں ”بے روح رسمیت“ بھی ہے۔ اول الذکر طاقتیں اگر بیرونی دشمن کی حیثیت رکھتی ہیں، جو باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو یہ اندرونی بیماری ہے جو گھن کی طرح اس جماعت کو لگ جاتی ہے (جو ان کی تعلیم ودعوت سے پیدا ہوتی ہے) اور اس کو اندر اندر کھوکھلا کردیتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں عقائد بے اثر اور اعمال و عبادات بے روح اور بے نور بن جاتے ہیں، وہ ایک رسم کی طرح اداکئے جاتے ہیں، ان میں نفس وماحول کی ترغیبات اور شیطان کی تسویلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی اور ان کی کیمیا اثری اور انقلاب انگیزی جاتی رہتی ہے، یا بہت کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ عموماً نتیجہ ہوتا ہے مؤثر و صحیح دعوت وتربیت کے فقدان یا انقطاع کا، یا موثر اصلاحی وتربیتی شخصیتوں سے محرومی کا، یا ایسے مواقع اور میدانوں کے صدیوں تک پیش نہ آنے کا جن میں شرکت سے ایمان میں تحریک پیداہوتی ہے، دلوں کے زنگ دورہوتے ہیں اور نفس کی مخالفت کی طاقت اور ایثاروقربانی کا جذبہ بیدار ہوتا
ہے۔ اسی وقت کوئی ایسی دعوت و تحریک (الہامِ ربانی اورانتظامِ خداوندی سے جو اس دین کا ہمیشہ سے رفیق رہا ہے) سامنے آتی ہے جو اس ”رسمیت“ پر ضرب لگاتی ہے، دلوں کا زنگ دورکرتی ہے، اُمت کو صورت سے حقیقت اور”رسمیت“ سے ایمان و احتساب کی کیفیت کی طرف لاتی ہے، اسلام میں تجدید و اصلاح کی تاریخ اور مجددین، مصلحین کے مستندتذکروں کے مطالعہ سے اسی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ان کا نشانہ یہی ”رسمیت“ تھی جومسلم معاشرہ میں سرایت کرچکی ہوتی ہے اوردیمک کی طرح اس کے سرسبز وشاداب درخت کو چاٹ چکی ہوتی ہے اور امت بعض اوقات
واذارایتھم تعجبک اجسامھم وان یقولوا تسمع لقولھم کانھم خشب مسندۃ ط
اورجب تم ان (کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں (کیا ہی) اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ اورجب وہ گفتگو کرتے ہیں تو تم ان کی تقریر توجہ سے سنتے ہو (مگر فہم وادراک سے خالی) گویا لکڑیاں ہیں جودیوار سے لگائی گئی ہیں کا ایک حد تک نمونہ بن جاتی ہیں۔ وہ ھدایتِ خداوندی اورکتاب وسنت کے عمیق ومخلصانہ مطالعہ کے اثر سے کوئی ایسی دعوت یا طریقِ کار پیش کرتے ہیں جس سے اس ”رسمیت“ کا پنجہ ڈھیلا ہوجاتاہے، جسم امت میں ایک نئی روح، ایک نئی ایمانی کیفیت، رضاء الہٰی کے حصول کا ایک زندہ و تازہ جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس کی قوتِ عمل بڑھ جاتی ہے، اس کو بڑی سے بڑی قربانی آسان معلوم ہونے لگتی ہے اور بعض اوقات قرونِ اولی کی یاد تازہ کرنے والے واقعات سامنے آتے ہیں اور ایمان کی روح پروربادبہاری کے جھونکے آنے لگتے ہیں۔
لیکن یہ بھی تاریخ اصلاح ودعوت کا واقعہ والمیہ ہے اور فطرتِ انسانی کی کارفرمائی کہ خود اس اصلاح ودعوت اوراس طریق کار میں مُرورِ زمانہ سے ”رسمیت“ دبے پاؤں داخل ہوجاتی ہے اور جوچیز رسم کو مٹانے اور دل ودماغ کو جگانے کو آئی تھی وہ بھی اپنی روح، اندرونی جذبہ اورتازگی کھودیتی ہے اور ایک ”رسم“ ضابطہ اور ROUTINEبن کر رہ جاتی ہے اور اسی کو خود ایک نئی اصلاحی دعوت اور ایک طاقت ور شخصیت کی ضرورت پیش آجاتی ہے جو اس خواب آلودہ اور لکیر کے فقیر کے نظام اور طریقِ کار کی اصلاح کرے اور اس میں جو بدعات، مفاسد، غلو اور جمود پیداہوگیا ہے اس کو توڑنے اور اس معاشرہ میں کسی اورطریقہ سے جو کتاب وسنت سے ماخوذ اور اصول ومقاصد کے مطابق ہو معاشرہ کی ”رسمیت“ کو دورکرے اور ایمان وایثار اور قوتِ عمل پیداکرے۔
اس صورت حال کو سمجھنے کے لئے ایک مثال پیش کی جاتی ہے جو ایک لطیفہ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس سے بڑا سبق حاصل کیاجاسکتا ہے۔ راقم سطور کے ایک فاضل دوست نے بتایا کہ دریا کے کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے ان کے کتب خانہ میں جلد جلد دیمک لگ جاتی تھی اور قیمتی کتابیں تلف ہوجاتی تھیں۔ وہ پریشان تھے کہ اس کا کیا علاج کریں۔ ایک تجربہ کاردوست نے بتایا کہ اگر اونٹ کی ہڈی اس کتاب خانہ میں رکھ دی جائے تو دیمک نہیں لگے گی۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اونٹ کی ہڈی حاصل کی لیکن ان کی حیرت وپریشانی کی کوئی حد نہ رہی جب انہوں نے ایک دن دیکھا کہ اونٹ کی اس ہڈی میں خود دیمک لگ گئی۔
یہاں ایک باریک بات سمجھ لیں وہ یہ کہ ایک نبی ہوتا ہے اور ایک مجدد، اور ایک مصلح ہوتا ہے۔ نبی کی شان یہ ہوتی ہے کہ اسکے بتائے ہوئے طریقہ کے بغیر نجات ہی نہیں ہوسکتی اور اس کی ہدایت حاصل کئے بغیر اللہ کی رضا اور کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس میں کسی قسم کی مداہنت یا تساہل کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن مجددین اور مصلحین کامعاملہ یہ نہیں ہے ہرمجدد اور ہرربانی مصلح کی پیروی سے دین کو اور دین کے طالبوں کو نفع پہنچتا ہے مثلاً کسی مجدد کے طریقہ سے قربانی کے جذبات بڑھتے ہیں۔ لہذا اس کے طریقہ کی پیروی سے قربانی کے جذبات بڑھیں گے اور ایک دوسرے مجدد کے طریقہ سے انفاق فی سبیل اللہ کے جذبات پیداہوتے ہیں لہذا اس کے اثر سے انفاق وایثار کے جذبات پیداہوں گے۔ ایک دوسرے مجدد کے طریقہ سے اخلاق کی اصلاح اور صفائیِ معاملات کا اہتمام پیداہوتا ہے تو اس سے تعلق ووابستگی خاص طور سے اس میں موثر ہوگی۔
بہرحال نبی کے طریقہ پر نجات کا انحصار ہوتا ہے اور بالکل اسی طریقہ پر چلنا لازم لیکن کسی مجدد و مصلح کا معاملہ یہ نہیں۔ خاص خاص ترقیاں تو ان کی اتباع اور وابستگی سے ہوتی ہیں۔ لیکن نجات اس پر منحصر نہیں ہوتی۔
ایک بات یہ بھی جاننی چاہیے کہ امت میں طبقات کا اتنا اختلاف ہے اوراذہان کا اتنا تفاوت ہے اور حالات ایسے مختلف ہیں کہ کوئی دعوت وتحریک اور کوئی اصلاحی جدوجہد یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ تمام طبقات کو متاثر کرسکتی ہے اوراُن کی تسکین کا سامان کرسکتی ہے اور ان کی استعداد کے مطابق دینی غذا فراہم کرسکتی ہے۔ کوئی ذہن تقریر سے متاثر ہوتا ہے، کسی پر لٹریچر اثر انداز ہوتا ہے اور کوئی کسی دوسرے ذریعہ سے متاثر کیا جاسکتا ہے اسی طرح واحد طریقہ کار سے ہر جگہ ہر ماحول میں اور ہر حالت میں کامیابی مشکل ہے اس حقیقت کو نہ سمجھنے اور اس کے مطابق نہ چلنے سے لوگوں سے بڑی غلطیاں ہوتی ہیں، بہت سے لوگ قابلِ قدر اوربڑے مخلص ہیں لیکن ان لوگوں کا اس وقت تک دل خوش نہیں ہوتا جب تک کہ ہر شخص اسی مخصوص طرز پر کام نہ کرے جس کو اس نے اختیارکیا ہے حالانکہ عمومی اصلاحی وانقلابی تحریکوں اور دعوتوں کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔ وہاں ہر چیز اس کے صحیح مقام پر رکھی جاتی ہے اور ٹھیک چوکھٹے میں بٹھائی جاتی ہے۔ ہرشخص سے وہی کام لیا جاتا ہے جس کا وہ زیادہ اہل ہو اور اس میں دوسروں سے ممتاز ہو اور جس کو دوسروں سے بہتر طریقہ پر انجام دے سکتا ہو۔
یہ اللہ کی طرف سے انتظام سمجھنا چاہیے کہ کچھ لوگ اس راستہ سے دین تک آجائیں اور کچھ اُس راستہ سے آجائیں، اپنے طریق کارکو مناسب طریقہ سے اُن کے سامنے اکثر بیشتر کرتے رہنا چاہیے لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں دین کے دوسرے کاموں اوردینی و اصلاحی مساعی کی نفی اور تحقیر ہوتی ہو اور اخلاص سے کام کرنے والوں کی ہمت شکنی اور انہیں مایوسی اور بددلی پیدا ہو اس طرح امت کے مختلف طبقات اور جماعتوں میں تعاون علی البروالتقوٰی کی روح بیدار ہوگی جو عرصہ سے مفقود ہوچکی ہے اور جس کی اس زمانہ میں جبکہ باطل مختلف شکلوں میں اور نت نئے حربوں کے ساتھ حملہ آور ہے اور اہل باطل من کل حدبٍ ینسلونَ (ہر ٹیلے اور ٹاپو سے اُبلے چلے آرہے ہیں) سخت ضرورت ہے۔
وما علینا الابلاغ المؤمنین
(بشکریہ ماھنامہ الفرقان، لکھنو۔ بھارت)
بابت جولائی ۱۸۹۱ء